دعوت کی شریعت
جناب ڈاکٹر محی الدین غازی کے جواب میں

ڈاکٹر عرفان شہزاد

ہمارے محترم دوست، جناب ڈاکٹر محی الدین غازی نے جاوید احمد صاحب غامدی کی کتاب، “میزان” میں بیان کردہ "قانون دعوت" پر نقد کیا ہے جو بعنوان، "قانون دعوت یا دعوت کی حصار بندی؟" ماہنامہ الشریعہ گوجرانوالہ پاکستان کے شمارہ جولائی 2022 میں شائع ہوا ہے۔ زیر نظر تحریر کا مقصود غازی صاحب کے اس نقد کا تجزیہ کرنا ہے۔

غازی صاحب کے نقد کا خلاصہ یہ ہے کہ دعوت دین پوری امت کی ذمہ داری ہے جس پر تفقہ فی الدین یا کسی خاص نسل (ذریت ابراہیم) یا حکومت کی شرائط عائد کرنا، دعوت دین کی حصار بندی کرنا اور اسے عملاً معطل یا غیر مؤثر کرنے کے مترادف ہے۔

غازی صاحب نے دعوت دین کے نازک فریضے کی عمومی فرضیت کے اپنے موقف پر کوئی براہ راست استدلال نہیں کیا۔ انھوں نے دعوت دین کی ذمہ داریوں کی تخصیصات کی نفی کر کے اس کی عمومیت کا تحقق فرض کر لیا ہے۔ حالانکہ یہ اگر کوئی عمومی فرض ہے تو اس کا مشتقل اثبات کرنا ضروری ہے۔

ہمارا موقف یہ ہے کہ جس طرح دین میں عبادات، نکاح و طلاق، سیاست و جہاد وغیرہ کی شریعت دی گئی ہے، اسی طرح دعوت دین کی بھی باقاعدہ شریعت قرآن مجید میں بیان ہوئی ہے۔ ہماری علمی روایت میں اس کی طرف کما حقہ توجہ نہ ہوسکی۔ جاوید احمد غامدی صاحب کے مجددانہ کاموں میں سے ایک بڑا اور اہم کام یہ بھی ہے کہ انھوں نے دعوت دین کی شریعت کو قرآن مجید کی براہ راست نصوص سے متعین کر کے پیش کیا ہے۔

دعوت کے تین پہلو ہیں:

دعوت دین یا انذار، شہادت حق اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر۔ امر بالمعروف و نہی عن المنکر دعوت دین نہیں ہے یہ جانی مانی بھلائیوں کے کرنے اور جانی مانی برائیوں کو روکنے کی کوشش اور نصیحت ہے۔ یہ اختیار کے ساتھ بھی ہوتی ہے اور بغیر اختیار کے بھی۔

غامدی صاحب نے دعوت کی ذمہ داری کو پیغمبروں کی دعوت، ذریت ابراہیم کی دعوت، علما کی دعوت، نظم اجتماعی (حکومت) کی دعوت، علما کی دعوت اور فرد کی دعوت میں تقسیم کیا ہے۔

پیغمبروں کی دعوت

پیغمبروں کی دعوت جن دعاوی اور خدائی نگرانی اور اس کی محسوس مداخلت و معیت کے ساتھ ہوتی تھی وہ اب نہیں ہو سکتی۔ مثلا پیغمبر خدا سے حکم پا کر آخری چارہ کار کے طور پر مباہلہ کا چیلنج بھی دے سکتا تھا، وہ اب نہیں ہو سکتا۔ اسی طرح اب کوئی اپنے تئیں اتمام حجت کے بعد لوگوں کو یہ الٹی میٹم نہیں دے سکتا کہ وہ اگر اس کے انذار یا دعوت پر ایمان نہیں لائیں گے تو خدا کے عذاب کا شکار ہو جائیں گے۔ اس انجام کے معلوم ہونے کا اب کوئی ذریعہ نہیں رہا۔

ذریت ابراہیم کی دعوت

عالمی سطح پر دعوت دین کا کام ذریت ابراہیم کی ذمہ داری ہے۔ ان کی اصل ذمہ داری شہادت حق ہے۔ اس کے لیے وہ دعوت دین بھی دیں گے۔ شہادت حق کیا ہے؟

"شہادت کے معنی گواہی کے ہیں۔ جس طرح گواہی سے فیصلے کے لیے حجت قائم ہو جاتی ہے، اُسی طرح حق جب اِس درجے میں واضح کر دیا جائے کہ اُس سے انحراف کی گنجایش باقی نہ رہے تو اُسے شہادت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اِس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی فرد یا جماعت کو اپنی دینونت کے ظہور کے لیے منتخب فرما تے اور پھر قیامت سے پہلے ایک قیامت صغریٰ اُن کے ذریعے سے اِسی دنیا پر برپا کر دیتے ہیں۔ اُنھیں بتا دیا جاتا ہے کہ وہ خدا کے ساتھ اپنے عہد پر قائم رہیں گے تو اِس کی جزا اور انحراف کریں گے تو اِس کی سزا اُنھیں دنیا ہی میں مل جائے گی۔ اِس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اُن کا وجود لوگوں کے لیے ایک آیت الٰہی بن جاتا ہے اور وہ خدا کو گویا اُن کے ساتھ زمین پر چلتے پھرتے اور عدالت کرتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ اِس کے ساتھ اُنھیں حکم دیاجاتا ہے کہ جس حق کو وہ بچشم سر دیکھ چکے ہیں، اُس کی تبلیغ کریں اور اللہ تعالیٰ کی ہدایت بے کم و کاست اور پوری قطعیت کے ساتھ لوگوں تک پہنچادیں۔ یہی شہادت ہے۔ یہ جب قائم ہو جاتی ہے تو دنیا اور آخرت، دونوں میں فیصلۂ الٰہی کی بنیاد بن جاتی ہے۔" (البیان)

اور یہ گواہی صرف ذریت ابراہیم ہی دے سکتی ہے۔ اور اسی بنا پر بنی اسرائیل اور بنی اسمعیل دونوں کو خدا نے شہدا یعنی گواہ کہا ہے۔

قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ لِمَ تَصُدُّونَ عَن سَبِيلِ اللَّهِ مَنْ آمَنَ تَبْغُونَهَا عِوَجًا وَأَنتُمْ شُهَدَاءُ وَمَا اللَّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ (3: 99)

اِن سے پوچھو، اے اہل کتاب، تم اُن لوگوں کو اللہ کے راستے سے کیوں روکتے ہوجو ایمان لائے ہیں؟ تم اِس میں عیب ڈھونڈتے ہو، دراں حالیکہ تم اِس کے گواہ بنائے گئے ہو؟ (اِس پر غور کرو) اور (یاد رکھو کہ)جوکچھ تم کررہے ہو، اللہ اُس سے بے خبر نہیں ہے۔

وَجَاهِدُوا فِي اللَّهِ حَقَّ جِهَادِهِ هُوَ اجْتَبَاكُمْ وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّينِ مِنْ حَرَجٍ مِّلَّةَ أَبِيكُمْ إِبْرَاهِيمَ هُوَ سَمَّاكُمُ الْمُسْلِمِينَ مِن قَبْلُ وَفِي هَٰذَا لِيَكُونَ الرَّسُولُ شَهِيدًا عَلَيْكُمْ وَتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ فَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ وَاعْتَصِمُوا بِاللَّهِ هُوَ مَوْلَاكُمْ فَنِعْمَ الْمَوْلَىٰ وَنِعْمَ النَّصِيرُ (22: 78)

اور (مزید یہ کہ اپنے منصب کی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے لیے) اللہ کی راہ میں جدوجہد کرو، جیسا کہ جدوجہد کرنے کا حق ہے۔ اُس نے تمھیں چن لیا ہے اور (جو) شریعت (تمھیں عطا فرمائی ہے، اُس) میں تم پر کوئی تنگی نہیں رکھی ہے۔ تمھارے باپ ـــ ابراہیم ـــ کی ملت تمھارے لیے پسند فرمائی ہے۔ اُسی نے تمھارا نام مسلم رکھا تھا، اِس سے پہلے اور اِس قرآن میں بھی (تمھارا نام مسلم ہے)۔ اِس لیے چن لیا ہے کہ رسول تم پر (اِس دین کی) گواہی دے اور دنیا کے سب لوگوں پر تم (اِس کی) گواہی دینے والے بنو۔ سو نماز کا اہتمام رکھو اور زکوٰۃ ادا کرتے رہو اور اللہ کو مضبوط پکڑو۔ وہی تمھارا مولیٰ ہے۔ سو کیا ہی اچھا مولیٰ ہے اور کیا ہی اچھا مددگار!

ذریت ابراہیم پر ان کے انبیا اور رسولوں اور خود ان کے اپنے وجود سے جس طرح شہادت حق قائم ہوئی ہے وہ دوسری اقوام پر نہیں ہوئی۔ وہ انبیا کی اولاد ہیں۔ اپنے آباؤاجداد کو خدا سے وحی پاتے انھوں نے دیکھا، سمندر کے پھٹنے کا نظارہ انھوں نے کیا، پہاڑ کو اپنے سر پر معلق انھوں نے دیکھا، خدا کو بادلوں میں بولتے انھوں نے سنا، من و سلوی ان کے لیے اترا، بادلوں کا سایہ ان پر فگن ہوا، بدر کے یوم فرقان کا مشاہدہ انھوں نے کیا، فتح مکہ کی پیشین گوئی انھیں کے ہاتھوں پوری ہوئی، رسولوں کے غلبے کی سنت اللہ آخری دفعہ محمد رسول اللہ کے ذریعے سے ان کے سامنے اور ان کے ہاتھوں پوری ہوئی ،خدا کی معیت کے محسوس نشان ان کے سامنےکھولے گئے ہیں۔ پھر ان کی یہ قومی تاریخ قومی ورثے کی صورت میں متواتر، اجماعی اور مسلمہ تاریخ کے طور پر ان کے ساتھ نقل ہوتی چلی آئی۔ چنانچہ جس طرح تاریخ کے تواتر اور اجماع کی بنا پر یہ بات یقینی ہے کہ سکندر اعظم کا وجود تھا اور اس نے معلوم دنیا کا ایک بڑا حصہ فتح کیا تھا، اسی طرح ذریت ابراہیم کے ساتھ خدا کی مداخلت اور معیت کی ان کی قومی تاریخ ایک مسلمہ تاریخی حقیقت ہے جو ان کے تواتر اور اجماع سے منتقل ہوئی ہے۔ یعنی اسے ان کی پوری کمیونٹی بیان کرتی ہے اور ان سب کے سب کا جھوٹ پر جمع ہونا ممکن نہیں۔ خیال رہے کہ مسلمہ تاریخ سے جزئی واقعات اور مسلمہ واقعات کی جزئیات مراد نہیں ہوتیں۔

ایک کمیونٹی کی متواتر اور اجماعی تاریخ، نہ کہ دیو مالا، انھیں کی گواہی سے مسلمہ حقیقت مانی جاتی ہے۔ علم کی یہی روایت ہے۔

جیسے رسول غیب کا مشاہدہ کرتا ہے اور اس پر گواہ بنتا اور اس کی گواہی لوگوں کے سامنے دیتا ہے، اسی طرح دیگر اقوام کے لیے ذریت ابراہیم کا مشاہدہ حق، مسلمہ تاریخ کی صورت میں وہ گواہی ہے جس پر دیگر اقوام کو ایمان لانے کی دعوت دی جاتی ہے۔

ذریت ابراہیم کی شہادت کا دوسرا پہلو، ان کا اپنا وجود ہے جو خدا کے عہد کا نشان بن کر ہر زمانے کے لوگوں پر حق کی گواہی ثبت کرتا ہے۔ اس عہد کے مطابق اگر آل ابراہیم ایمان و عمل کے مطلوبہ معیار پر پورے اتریں اور شہادت حق دیگر اقوام تک بے کم و کاست پہنچاتے رہیں تو دنیا میں اپنے مقابل قوموں پر سرفرازی پائیں گے ورنہ انھیں کے ہاتھوں ذلیل ہوں گے۔ بنی اسرائیل اور بنی اسمعیل دونوں کی قومی زندگی کے عروج و زوال کے کئی ادوار اس عہد کی مسلسل تاریخ ہے۔ اسی کے ذیل میں بنی اسرائیل کے لیے یہ مزید تصریح قرآن مجید میں آئی ہے کہ قیامت تک کے لیے وہ مسیحیوں کے آگے مغلوب رہیں گے۔ نیز، قیامت تک ان پر کوئی نہ کوئی مسلط ہوتا رہے گا جو انھیں ان کی خدا سے بے وفائی کی سزا دیتا رہے گا۔ یہ سب ہم ان کی پوری تاریخ، جو دور جدید تک چلی آتی ہے، دیکھ سکتےہیں۔ یہ شہادت حق ہے۔ یہ نسل پرستی نہیں ہے، ایک ایسی ذمہ داری جس کو اٹھانے سے دیگر اقوام کانپ اٹھیں گی۔

یہ ذریت ابراہیم کی مسلمہ تاریخ ہے جس کی تائید ان کی معاصر تواریخ سے بھی ہوتی ہے۔ ان کی یہی حیثیت ہے جس کی بناپر دعوت دین کا معاملہ محض دلیل کا نہیں، بلکہ شہادت (evidence) کا بن جاتا ہے۔ اہل علم نے ذریت ابراہیم کے ساتھ خدا کی معیت کے ان کھلے مسلمہ حقائق کی تاریخی شہادت کی وہ اہمیت نہیں سمجھی، جس کی یہ مستحق ہے۔

مذکورہ بالاسورہ الحج کی آیت میں مِّلَّةَ أَبِيكُمْ إِبْرَاهِيمَ یہ گنجایش ہی نہیں چھوڑتا کہ غیر اسمعیلیوں کو اس میں شامل کیا جا سکے۔ اس لیے مذکورہ شہادت حق انھیں کی ذمہ داری ہے جو انھوں نے دیگر اقوام کے سامنے دینی ہے۔ یہ کام انھوں نے قومی سطح پر کرنا ہے اور اس کے لیے منظم کوششیں کرنا ہیں۔

علما کی دعوت:

قومی سطح پر دعوت دین یا انذار کے کام کے لیے دین میں گہری بصیرت پیدا کرنا دعوت دین کی ذمہ داری کا تقاضا ہے جسے خود قرآن نے بیان کیا ہے۔ یہ علما کی دعوت ہے۔

وَمَا كَانَ الْمُؤْمِنُونَ لِيَنفِرُوا كَافَّةً فَلَوْلَا نَفَرَ مِن كُلِّ فِرْقَةٍ مِّنْهُمْ طَائِفَةٌ لِّيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ وَلِيُنذِرُوا قَوْمَهُمْ إِذَا رَجَعُوا إِلَيْهِمْ لَعَلَّهُمْ يَحْذَرُونَ (9: 122)

یہ تو ممکن نہیں تھا کہ مسلمان، سب کے سب نکل کھڑے ہوتے، مگر ایسا کیوں نہ ہوا کہ اُن کے ہر گروہ میں سے کچھ لوگ نکلتے تاکہ دین میں بصیرت پیدا کرتے اور اپنی قوم کے لوگوں کو (اُن کے اِن رویوں پر) خبردار کرتے، جب اُن کی طرف لوٹتے، اِس لیے کہ وہ خدا کی گرفت سے بچتے؟

غامدی صاحب لکھتےہیں:

"دین کا علم حاصل کر لینے کے بعد دعوت کی جو ذمہ داری اُنھیں ادا کرنی ہے، وہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے’’انذار‘‘ اور صرف’’انذار‘‘ ہے، یعنی یہ کہ حیات اخروی کی تیاریوں کے لیے لوگوں کو بیدار کیا جائے۔ یہ اگر غور کیجیے تو بعینہٖ وہی کام ہے جو اللہ کے نبی اور رسول اپنی قوم میں کرتے ہیں۔ اِس سے معلوم ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ’’انذار‘‘ کا کام آپ کے بعداِس امت کے علما کو منتقل ہوا ہے اور ختم نبوت کے بعد یہ ذمہ داری اب قیامت تک اُنھیں ہی ادا کرنی ہے۔" (میزان)

علما یہ انذار اپنی قوم کے مسلم اورغیر مسلم دونوں ہی کو کریں گے۔ اس دعوت یا انذار کا لازمی ردعمل ہوتا ہے۔ لوگ سوال، شبہات اور اعتراضات پیش کرتے ہیں جن کا جواب دینے کے لیے علم کی ضرورت ہے۔ جس طرح زندگی کے ہر شعبہ میں فرائض کی انجام دہی کے لیے ایک کوالی فیکیشن مقرر کی جاتی ہے، اسی طرح تفقہ فی الدین دعوت دین کی کوالی فیکیشن ہے۔

یہاں محض دین کا علم یا دین کی سمجھ کی شرط نہیں، بلکہ دین میں گہری بصیرت پیدا کرنے کا تقاضا ہے۔ یہ انبیا کا مشن ہے اور نازک ترین ذمہ داری ہے جسے ہر گز عامی کے حوالے نہیں کیا جا سکتا۔ یہ رعایتیں نہ برتنے ہی کا نتیجہ ہے کہ دعوت دین کی مد میں افراط و تفریط نے ایک طرف دعوت دین کے عمل کو بری طرح گہنایا ہے، اسلام کے مخالفین اور معترضین کو اسلام پر حملہ آور ہونے کے لیے آسان چارہ مہیا کیا ہے تو دوسری طرف عائلی حقوق کی پامالی سے ان گنت انسانی المیوں کو جنم دیا ہے۔

دعوت دین کے لیے علم و تفقہ کی شرط کے ابطال کے لیےغازی صاحب نے قرآن مجید میں جنّوں کے واقعہ سے جو استدلال کیا ہے وہ بے محل ہے۔ جنوں نے قرآن سنتے ہی اپنی قوم کو جو انذار کیا وہ ان کی صواب دید کا بیان ہے، ذمہ داری کا نہیں۔ جب دعوت کی ذمہ داری کا بیان قرآن مجید میں آیا ہے تو باقاعدہ اصولی انداز میں اس کی کوالی فیکیشن بیان ہوئی ہے جسے کسی طور نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اب کوئی شخص اپنے طور پر انذار کا یہ فریضہ انجام دینے لگتا ہے تو اسے منع بھی نہیں کیا جا سکتا، تاہم، اس کے ساتھ اہل علم کی معیت ہونا پھر بھی ضروری ہے تاکہ دعوت دین ناقص نہ رہ جائے جو غلط فہمیوں کا باعث بن جائے۔ 

فرد کی دعوت:

فرد کی دعوت کی ذمہ داری اپنے متعلقین کو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی نصیحت تک محدود ہے۔ امر بالمعروف و نہی عن المنکر دعوت دین نہیں ہے، بلکہ جانی مانی بھلائیوں کے کرنے اور جانی مانی برائیوں کو روکنے کی کوشش اور نصیحت ہے۔ فرد کے اختیار کی نوعیت سے امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی نوعیت تبدیل ہوگی۔ جہاں اختیار ہے وہاں وہ حکم دے سکتا ہے اور جہاں اختیار نہیں وہ صرف نصیحت کی جائے گی۔

وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَيُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَيُطِيعُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ أُولَٰئِكَ سَيَرْحَمُهُمُ اللَّهُ  إِنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ (9: 71)

مومن مرد اور مومن عورتیں، وہ بھی ایک دوسرے کے رفیق ہیں۔ (اِن منافقوں کے برخلاف) وہ بھلائی کی تلقین کرتے اور برائی سے روکتے ہیں، نماز کا اہتمام کرتے ہیں، زکوٰۃ دیتے ہیں اور اللہ اور اُس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں۔ یہی لوگ ہیں جنھیں اللہ عنقریب اپنی رحمت سے نوازے گا۔ اِس میں شبہ نہیں کہ اللہ زبردست ہے، وہ بڑی حکمت والا ہے۔

نظم اجتماعی کی دعوت:

نظم اجتماعی کی صورت میں فرد کا یہی انفرادی فریضہ اب قانونی اختیار کے ساتھ اجمتماعی فریضہ بن جاتا ہے:

الَّذِينَ إِن مَّكَّنَّاهُمْ فِي الْأَرْضِ أَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ وَأَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَنَهَوْا عَنِ الْمُنكَرِ  وَلِلَّهِ عَاقِبَةُ الْأُمُورِ (22: 41)

وہی کہ جن کو اگر ہم اِس سرزمین میں اقتدار بخشیں گے تو نماز کا اہتما م کریں گے اور زکوٰۃ ادا کریں گے اور بھلائی کی تلقین کریں گے اور برائی سے روکیں گے۔ (اللہ ضرور اُن کی مدد کرے گا) اور سب کاموں کاانجام تو اللہ ہی کے اختیار میں ہے۔

امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا م ویسے تو سبھی حکومتیں اپنے تصورات کے مطابق کرتی ہیں مگر مسلم حکمرانوں کے لیے امر بالمعروف کی خاص صورت، جمعے کا منبر مقرر کیا گیا ہے۔ جمعہ کا منبر مسلم حکمرانوں کی نشست اور استحقاق ہے یہ رسول اللہ ﷺ سے لے کر امت مسلمہ کی پوری تاریخ کی مسلسل روایت رہی ہے۔ استدلال اس پر کرنا پڑتا ہے کہ جمعہ کے منبر صرف حکمرانوں کا حق نہیں ہے بلکہ علما کا بھی حق ہے۔ غامدی صاحب کا موقف یہی ہے کہ یہ علما کا حق نہیں ہے، تاہم، جمعہ کے علاوہ ہفتے کے سارے دنوں میں مسجد کا منبر ان کے لیے موجود ہے وہ جب چاہیں لوگوں کو وعظ و نصیحت کریں۔ محض جمعہ کا منبر ان سے لے لینے سے ان کے عوامی روابط میں فرق نہیں پڑتا۔ اس لیے یہ تاثر کہ اس طرح حکمران علما کو ڈکٹیٹ کرنے کی پوزیشن میں آ جائیں گے، درست نہیں۔ خاص طور پر جمہوری سماجوں میں یہ ممکن نہیں۔

ان استدلالات کے برعکس غازی صاحب نے دعوت دین کی ذمہ داری ہر مسلمان فرد پر عائد کرتے ہیں اور استدلال میں "یا ایھا الذین امنوا" اور "ایا ایھا الناس" کے عمومی خطابات پیش کیا ہے کہ دین کے مخاطب بلا واسطہ اور بالواسطہ تمام لوگ ہیں اس لیے دعوت دین کی ذمہ داری بھی تمام لوگوں کی ہے۔ دعوت دین کی ذمہ داری کی عمومیت ثابت کرنے کے لیے یہ کوئی استدلال نہیں ہے۔ دین کی دعوت تو ہر ایک کے لیے ہے، مگر دین کی دعوت دینے کی ذمہ داری بھی کیا ہر ایک پر عائد ہوتی ہے؟ یہ استدلال تو یہاں نہیں ہو سکتا۔ کیا جہاد کرنا ہر ایک کی ذمہ داری ہے؟ کیا حج کرنا ہر ایک کی ذمہ داری ہے؟ بلکہ دین کا ہر ہر حکم ادا کرنا کیا سب مسلمانوں کی ذمہ داری ہوتا ہے یا وہ اپنی شرائط کے پورا ہونے کے بعد افارد پر لاگو ہوتا ہے؟ شریعت کے اس عمومی قاعدے سے دعوت دین کو استثنا دینے پر اصرار کیوں ہے؟

غازی صاحب نے غامدی صاحب کی کتاب، "میزان" میں 'قانون دعوت 'کے زیر عنوان شامل آیات قرآنی پر غامدی صاحب کی ترجمانی پر بھی نقد کیا ہے۔ غازی صاحب "خیرامت" اور "امت وسط" سے پوری امت مراد لیتے ہوئے دعوت دین کی ذمہ داری ان سب پر عائد کرتے ہیں۔ حالانکہ "خیر امت" والی آیت امر بالمعروف و نہی عن المنکر اور "امت وسط" والی آیت شہادت حق کی ذمہ داری کو بیان کرتی ہے۔ دونوں میں دعوت دین کی ذمہ داری کا بیان نہیں ہے۔ اس لیے دعوت دین کی ذمہ داری کی عمومیت پر ان سے استدلال نہیں ہو سکتا۔ رہی یہ بات کہ مذکورہ آیات میں ساری امت مراد ہے یا بنی اسمعیل اور جماعت صحابہ، تو غامدی صاحب نے اس سے صرف جماعت صحابہ کو مراد لیا ہے۔ آیات ملاحظہ کیجیے:

كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَلَوْ آمَنَ أَهْلُ الْكِتَابِ لَكَانَ خَيْرًا لَّهُم مِّنْهُمُ الْمُؤْمِنُونَ وَأَكْثَرُهُمُ الْفَاسِقُونَ (3: 110)

(ایمان والو، اِس وقت تو اللہ کی عنایت سے) تم ایک بہترین جماعت ہو جو لوگوں پر حق کی شہادت کے لیے برپا کی گئی ہے۔ تم بھلائی کی تلقین کرتے ہو، برائی سے روکتے ہو اور اللہ پر سچا ایمان رکھتے ہو۔ اور یہ اہل کتاب بھی (قرآن پر) ایمان لاتے تو اِن کے لیے بہتر ہوتا۔ (اِس میں شبہ نہیں کہ) اِن میں ماننے والے بھی ہیں، لیکن (افسوس کہ) اِن میں زیادہ نافرمان ہی ہیں۔

 "خیر امت"، سندِ تحسین ہے جو محض اسلام قبول کر لینے کے مترادف نہیں کہ ہر مسلمان اس کا مستحق قرار پائے۔ یہ اعزاز ہے جسے جماعت صحابہ نے اپنے قابل تحسین اعمال اور کردار کی بدولت حاصل کیا تھا۔ اب یہ اختیار کس کا ہے اس امت کو اس کے تمام اچھے برے لوگوں سمیت بھی خیر امت قرار دے، اور کون ہے جو اپنے یا اپنے گروہ کے لیے بہترین ہونے کا دعوی کر سکے؟

"امت وسط" کا لقب شہادت حق کے تناظر میں ہے جو بنی اسمعیل کا امتیاز ہے۔ اس کی تفصیل پیشتر گزر چکی۔

‎‏ وَكَذَٰلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِّتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا  (2: 143)

 اور (جس طرح مسجد حرام کو تمھارا قبلہ ٹھیرایا ہے)، اُسی طرح ہم نے تمھیں بھی ایک درمیان کی جماعت بنا دیا ہے تاکہ تم دنیا کے سب لوگوں پر (حق کی) شہادت دینے والے بنو اور اللہ کا رسول تم پر یہ شہادت دے۔

اسی طرح سورہ آل عمران کی درج ذیل آیت میں بھی بھلائیوں کی دعوت اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا حکم ہے، نہ کہ دعوت دین کا۔

وَلْتَکُن مِّنکُمْ أُمَّة یَدْعُونَ إِلَی الْخَیْرِ وَیَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَیَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنکَرِ وَأُوْلَئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُونَ، (3: 104))

اور چاہیے کہ تمھارے اندر سے کچھ لوگ مقرر ہوں جو نیکی کی دعوت دیں، بھلائی کی تلقین کریں اور برائی سے روکتے رہیں۔ (تم یہ اہتمام کرو) اور (یاد رکھو کہ ) جو یہ کریں گے، وہی فلاح پائیں گے۔

اس آیت میں ایک جماعت بنانے کی جو ہدایت ہے جو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دے۔ مسلمانوں کی یہ ایک جماعت مسلمانوں کے نظم اجتماعی کے اختیار کے بغیر ممکن نہیں۔ اس سے وہ جماعتیں مراد نہیں لی جا سکتیں جو مسلمان اپنے طور پر قائم کر کے دعوت و ارشاد کا کام کرتے ہیں۔ ان میں آپس میں کوئی نظم و ربط نہیں ہوتا، بلکہ اکثر اوقات رقابت و تفرق ہوتا ہے۔ البتہ، نیک نیتی اور مطلوبہ شرائط اور قابلیت کے ساتھ نجی طورپر یہ کام کرنا قابل تحسین ہیں، مگر آیت میں ذمہ داری کا بیان ہے اور وہ ایک ہی جماعت کی ذمہ داری کا بیان ہے جو حکومتی نظم کے بنا ممکن نہیں۔ غامدی صاحب نے امر بالمعروف کے لیے مسجد کے منبر اور نہی عن المنکر کے لیے پولیس کے محکمہ کی درست نشان دہی کی ہے جو ایک ہی نظم کے تحت کام کرتے ہیں۔

غازی صاحب نے سورہ حج کی آیت 41 تمکین فی الارض کو بغیر حکومت کے کسی جگہ مسلمانوں کے امن و سکون سے رہنے کے معنی میں بھی لیا ہے۔ یہ معنی لینا کسی طرح درست نہیں۔ یہ آیت ہجرت مدینہ کے بعد ان آیات کے تناظر میں نازل ہوئی ہے جن میں جہاد اور معابد کے دفاع کا مضمون بیان ہوا ہے۔ چنانچہ تمکین فی الارض سے بغیر حکومت اور اختیار کے کسی جگہ مسلمانوں کا محض امن و سکون سے رہنا مراد نہیں لیا جا سکتا:

أُذِنَ لِلَّذِينَ يُقَاتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا وَإِنَّ اللَّهَ عَلَىٰ نَصْرِهِمْ لَقَدِيرٌ ‎ الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِن دِيَارِهِم بِغَيْرِ حَقٍّ إِلَّا أَن يَقُولُوا رَبُّنَا اللَّهُ وَلَوْلَا دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ بَعْضَهُم بِبَعْضٍ لَّهُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِيَعٌ وَصَلَوَاتٌ وَمَسَاجِدُ يُذْكَرُ فِيهَا اسْمُ اللَّهِ كَثِيرًا وَلَيَنصُرَنَّ اللَّهُ مَن يَنصُرُهُ إِنَّ اللَّهَ لَقَوِيٌّ عَزِيزٌ ‎ الَّذِينَ إِن مَّكَّنَّاهُمْ فِي الْأَرْضِ أَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ وَأَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَنَهَوْا عَنِ الْمُنكَرِ وَلِلَّهِ عَاقِبَةُ الْأُمُورِ (22: 39-41)

(چنانچہ) جن سے جنگ کی جائے، اُنھیں جنگ کی اجازت دے دی گئی ہے، اِس لیے کہ اُن پر ظلم ہوا ہے اور اللہ یقیناً اُن کی مدد پر قادر ہے۔ وہ جو ناحق اپنے گھروں سے نکال دیے گئے، صرف اِس لیے کہ وہ کہتے ہیں کہ ہمارا رب اللہ ہے۔ (یہ اجازت اِس لیے دی گئی کہ) اگر اللہ لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعے سے دفع نہ کرتا رہتا تو خانقاہیں اور گرجے اور کنیسے اور مسجدیں جن میں کثرت سے اللہ کا نام لیا جاتا ہے، سب ڈھائے جا چکے ہوتے۔ اللہ ضرور اُن لوگوں کی مدد کرے گا جو اُس کی مدد کے لیے اُٹھیں گے۔ اِس میں شبہ نہیں کہ اللہ زبردست ہے، وہ سب پر غالب ہے۔ وہی کہ جن کو اگر ہم اِس سرزمین میں اقتدار بخشیں گے تو نماز کا اہتما م کریں گے اور زکوٰۃ ادا کریں گے اور بھلائی کی تلقین کریں گے اور برائی سے روکیں گے۔ (اللہ ضرور اُن کی مدد کرے گا) اور سب کاموں کاانجام تو اللہ ہی کے اختیار میں ہے۔

البتہ مسلمان اپنے طور پر جماعت بنا کر امر بالمعروف و نہی عن المنکر کریں تو یہ فرد کے ذمے اس فریضے کی ادائیگی کے زمرے میں آئے گا۔ اس کے لیے سورہ حج کی اس آیت سے استدلال کی ضرورت نہیں۔ مگر یہ کام دعوت و ارشاد اور نصیحت کے طرز پر ہوگا، قانونی اختیار کے ساتھ نہیں، جو آیت بالا کا تقاضا ہے۔

نقد و نظر

(ستمبر ۲۰۲۲ء)

تلاش

Flag Counter