یاجوج اور ماجوج
یاجوج اور ماجوج بائبل، قرآن، اور احادیث میں مذکور قومیں ہیں۔ قرآن میں یاجوج اور ماجوج کی رہائی کو قیامت کی نشانی کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔
یاجوج اور ماجوج کی تاریخ
پرانے عہد نامے میں یاجوج اور ماجوج کا ذکر
کتاب پیدائش114 میں، ماجوج کو حضرت نوح (علیہ السلام) کے بیٹے یافث کی اولاد میں سے بیان کیا گیا ہے۔ یافث کی نسل کو روایتی طور پر "سفید قوموں" سے منسوب کیا جاتا ہے، جو مشرق وسطیٰ کے شمالی علاقوں، جیسے اناطولیہ، بحیرہ اسود اور بحیرہ کیسپین کے قریب کے خطے، وسطی ایشیا اور یورپ تک پھیلے ہوئے تھے۔
حضرت حزقی ایل (علیہ السلام) نے، جو اللہ کے نبی تھے، بابل میں جلاوطن بنی اسرائیلی کو امید کا پیغام دیا۔ یہ پیغام 586 قبل مسیح میں پہلے یہودی معبد کی تباہی کے بعد دیا گیا تھا۔ انہوں نے پیشگوئی کی کہ اللہ اسرائیلیوں کو مستقبل میں ایک کثیر النسلی فوج پر فیصلہ کن فتح عطا کرے گا، جس کی قیادت ماجوج کی زمین سے آنے والے یاجوج نامی شخصیت کرے گا115۔ یاجوج، "مسک اور توبال کا سردار شہزادہ"، ایک اتحاد کی قیادت کرتا ہے جو "دور شمال" کے علاقوں سے آتا ہے۔116 117 تاریخی اور جغرافیائی روایات ان علاقوں کو اکثر بحیرہ اسود کے قریب علاقوں سے جوڑتی ہیں۔
حضرت حزقی ایل (علیہ السلام) کی پیشگوئی اس وقت کے واقعات سے مطابقت رکھتی ہے، جب یونانیوں کے سلوقی بادشاہ انطیوکس چہارم نے 167 قبل مسیح میں دوسرے یہودی معبد کی بے حرمتی کی118۔ یہ واقعہ یہودیوں کی مکابی بغاوت کا سبب بنا، جس کے نتیجے میں معبد کی بحالی ہوئی۔ یہ واقعات یہودیوں کے لیے عید ہنوکا کے تہوار کے طور پر یاد کیے جاتے ہیں۔ اسرائیلیوں نے سلوقی افواج سے جنگی مال اور اہم قلعے و شہر واپس حاصل کیے، جو حضرت حزقی ایل (علیہ السلام) کے خواب میں اسرائیل کے لیے الہی مداخلت اور فتح کی عکاسی کرتا ہے۔
تاریخی ریکارڈز سے پتہ چلتا ہے کہ وسطی ایشیا اور بحیرہ اسود کے علاقوں سے تعلق رکھنے والے قبائل کو ان کی عمدہ گھڑسوار فوجی صلاحیتوں کی وجہ سے مختلف سلطنتوں نے کرائے کے سپاہیوں کے طور پر بھرتی کیا۔ یونانیوں کی سلوقی سلطنت، جو اپنے علاقوں، خاص طور پر اناطولیہ اور پڑوسی شمالی علاقوں سے فوجیوں کو بھرتی کرتی تھی، اسی طریقہ کار پر عمل کیا۔ یاجوج کی قیادت میں کثیر النسلی فوج کو سلوقی سلطنت کے تحت یہودیہ میں دیکھا جا سکتا ہے۔ یاجوج کا کردار حضرت حزقی ایل (علیہ السلام) کے خواب میں وسطی ایشیا اور ایران کے جنگجو گروہوں کے عروج سے مطابقت رکھتا ہے، جو تیسری صدی قبل مسیح کے وسط سے سلوقی افواج کے اتحادی یا کرائے کے سپاہی بنے۔ یہ علاقے سلوقی افواج کی عسکری بنیاد بنے اور ان کی مہمات اور علاقائی غلبے میں نمایاں کردار ادا کیا۔119
قرآن میں یاجوج اور ماجوج کا ذکر
سورہ کہف120 میں قرآن یاجوج اور ماجوج نامی ایک فساد پھیلانے والے گروہ کا ذکر کرتا ہے ۔ ان کے خلاف ذوالقرنین ایک دیوار تعمیر کرتے ہے تاکہ ان کے فساد کو روکا جا سکے۔ ذوالقرنین کو ایران کے ہخامنشی سلطنت کے رہنما، کوروش اعظم کے ساتھ منسلک کیا جاتا ہے، کیونکہ حضرت دانیال (علیہ السلام) کے خواب میں ہخامنشی سلطنت کو دو سینگوں والے مینڈھے کے طور پر پیش کیا گیا ہے121 — یہ دو سینگ اس سلطنت میں فارسی اور مادی قوموں کی نمائندگی کرتے ہیں۔ تاریخ میں باقی دیواروں کی طرح یہ دیوار بھی ٹوٹ چکی ہے اور غالباً قفقاز کے پہاڑی سلسلے میں تعمیر کی گئی تھی122—وہی خطہ جو وسطی ایشیا کے شمالی قبائل اور مشرقِ وسطیٰ کی مہذب دنیا کے درمیان ایک قدرتی رکاوٹ کے طور پر قائم رہا۔
ذوالقرنین کا واقعہ اسرائیلی روایات میں تفصیل سے بیان ہوا ہے، تاہم ان روایات میں ذوالقرنین کو اسکندر اعظم کے ساتھ منسلک کیا گیا ہے۔123 مؤرخین نے اس نسبت پر اعتراض کیا ہے، کیونکہ قفقاز میں تعمیر کی گئی دیواریں جن کا ذکر اسرائیلی روایات میں ملتا ہے، درحقیقت اسکندر اعظم سے پہلے ایران کی ہخامنشی سلطنت کے دور میں تعمیر ہوئی تھیں۔
پرانے عہد نامے میں "ماجوج کی زمین سے یاجوج" کا تصور، نئے عہد نامے اور قرآن میں "یاجوج اور ماجوج" کے اجتماعی ذکر میں تبدیل ہو چکا ہے۔ وقت کے ساتھ، یاجوج کا انفرادی کردار یا لقب ماجوج کی وسیع تر آبادی کے ساتھ جڑ گیا، اور یوں "یاجوج و ماجوج" کا اطلاق ان شمال کی قوموں پر ہونے لگا جو زمین میں فساد اور جارحیت پھیلاتی تھیں۔
تاریخی ریکارڈ میں یاجوج اور ماجوج کا ذکر
پہلی صدی عیسوی کے یہودی مؤرخ جوزیفس نے ماجوج کو سکوتی قبائل کے ساتھ منسلک کیا، جو ایک خانہ بدوش گروہ تھا اور بحیرہ اسود کے شمالی علاقوں میں آباد تھا۔124
یاجوج اور ماجوج کا خروج – یورپی نوآبادیاتی تسلط
نیا عہد نامہ میں یاجوج اور ماجوج کا خروج
کتابِ مکاشفہ125 میں یہ ذکر ملتا ہے کہ "صادق" اور "امین" کے ایک ہزار سال بعد، یاجوج و ماجوج زمین کے چاروں کونوں سے نکل کر، شیطان کے دھوکے میں آ کر جنگ کے لیے جمع ہوتے ہیں، اور زمین پر پھیلتے ہوئے 'مقدسوں کی لشکرگاہ' اور 'عزیز شہر' کا محاصرہ کر لیتے ہیں۔
کتاب مکاشفہ126 میں درج "صادق" اور "امین" کے القابات حضرت محمد ﷺ کے عام طور پر پہچانے جانے والے نام ہیں، جو ان کے نبوت سے بھی پہلے کے القابات تھے۔ اس لحاظ سے "ہزار سال" کے بعد کا دور سترہویں صدی عیسوی کے زمانے سے مطابقت رکھتا ہے — وہی دور جب یورپی اقوام (خصوصاً شمالی اور مغربی یورپ) "زمین کے چار کونوں" یعنی امریکہ، افریقہ، چین، ہندوستان اور انڈونیشیا تک پھیل چکی تھیں۔ شیطان کا یاجوج و ماجوج کو سترہویں صدی میں دھوکہ دینا اس عملی اور فکری تبدیلی کی علامت ہے، جس کے نتیجے میں یہی یورپی اقوام نئے علاقوں کی دریافت، تجارتی راستوں اور ساحلی تجارتی چوکیوں تک محدود رہنے کے بجائے باقاعدہ سامراجی حکمرانوں میں تبدیل ہو گئیں، جب یورپی اقوام کا عہدِ دریافت اختتام پذیر ہوا اور عہدِ سلطنت کا آغاز ہوا۔ شیطان کا دھوکہ ان کے درمیان لالچ، غرور، اور طاقت کے حصول کی دوڑ کو ظاہر کرتا ہے۔
کتاب مکاشفہ میں "مقدسوں کی لشکرگاہ" مدینہ منورہ کی طرف اشارہ کرتی ہے، جبکہ "عزیز شہر" مکہ مکرمہ کی علامت ہے۔127 تاریخی طور پر دیکھا جائے تو پہلی جنگِ عظیم کے بعد ان دونوں مقدس شہروں کے گرد واقع خطے یورپی استعمار کے زیرِ اثر آ گئے:
- برطانوی قبضہ: اردن، عراق، خلیج کے ساحلی علاقے (یو اے ای)
- برطانوی مینڈیٹ: فلسطین
- برطانوی اثر: عدن (یمن)
- فرانسیسی کنٹرول: شمالی افریقہ، شام، لبنان
شمالی اور مغربی یورپ کی نسب
شمالی اور مغربی یورپ کا نسب یامنایا ثقافت (3300–2500 قبل مسیح) سے جڑا ہے، جو بحیرہ خزر کے قریب میدانوں سے ابھری اور ممکنہ طور پر حضرت نوح (علیہ السلام) کے بیٹے یافث کی اولاد سے تھی۔ یہ ثقافت انڈو-یورپی زبان بولنے والے گروہوں کی بنیاد بنی، جنہوں نے یورپ، وسطی ایشیا، اور اناطولیہ میں اپنے جینیاتی اور ثقافتی اثرات پھیلائے۔
ان انڈو-یورپی زبان بولنے والے گروہوں میں سے، جرمن قبائل نے خاص طور پر نقل مکانی کے دور (تقریباً 300–800 عیسوی) کے دوران، یورپ کے ثقافتی، سیاسی، اور نسلی منظرنامے کو تشکیل دینے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ تاریخی شواہد سے معلوم ہوتا ہے کہ سکوتی قوم سے تعلق رکھنے والے کچھ حصے، جیسے آلان اور سرمتی باشندے بھی جرمن قبائل کے ساتھ شامل ہوگئے۔128 نمایاں جرمن قبائل کا درج ذیل میں ذکر کیا گیا ہے:
- سیکسن، اینگل، فرینک: ان قبائل نے برطانیہ، فرانس، اور جرمنی کی ثقافت اور سیاست پر گہرا اثر ڈالا، خاص طور پر مغربی رومی سلطنت کے زوال کے بعد۔
- اوستروگوتھ: اٹلی میں سلطنت قائم کی، لیکن بازنطینی سلطنت کے ہاتھوں گوتھک جنگوں میں شکست کھائی۔
- وزیگوتھ: روم پر 410 عیسوی میں حملہ کیا اور آئبیریا میں سلطنت قائم کی، جس نے ہسپانوی ثقافت پر دیرپا اثر ڈالا۔
- وانڈلز: بحیرہ روم کے راستے شمالی افریقہ ہجرت کی اور قرطاج میں سلطنت قائم کی لیکن فرانس اور آئبیریا میں بھی اثرات چھوڑے۔
- وائکنگ: اسکینڈے نیویا سے نکل کر برطانیہ، مشرقی یورپ، اور نارمنز کی تشکیل میں کردار ادا کیا۔
ان جرمن قبائل نے یورپی ثقافت، سیاست اور تاریخ پر گہرے اثرات مرتب کیے، جنہوں نے جدید یورپی شناخت کی بنیاد رکھی اور برطانیہ، فرانس، اسپین، جرمنی اور اسکینڈے نیویا جیسے ممالک کی تشکیل میں کلیدی کردار ادا کیا۔ لہٰذا شمالی اور مغربی یورپ کے جرمن قبائل کو یاجوج و ماجوج کی اولاد سے جوڑنا معقول اور قابل قبول معلوم ہوتا ہے۔
قرآن میں یاجوج اور ماجوج کا خروج
سورہ الانبیا129 میں یاجوج و ماجوج کے قیامت سے قبل خروج کا ذکر ہے۔
شمالی اور مغربی اقوام کا یورپ سے نکلنا — یعنی ان کا خروج — مختلف موجوں میں وقوع پذیر ہوا۔ ڈاکٹرین آف ڈسکوری اور پوپ کے 1493 میں جاری کردہ "انٹر کیٹرا"130 جیسے احکامات نے ہسپانوی اور پرتگالی توسیع کو جھوٹی خدائی توثیق دی، جس کے بعد واسکو ڈی گاما 1497 میں ہندوستان کے لیے روانہ ہوا۔ نیچے اہم یورپی نوآبادیاتی طاقتوں اور ان کے زیرِ اثر علاقوں کی فہرست پیش کی گئی ہے، جو شمالی اور مغربی یورپ سے منسلک ہیں۔ یہ فہرست ان اقوام کے عالمی غلبے اور دنیا بھر میں ان کی نوآبادیاتی وسعت کو واضح کرتی ہے۔
- پرتگال: افریقہ، ایشیا، برازیل
- اسپین: امریکہ، فلپائن
- نیدرلینڈز: انڈونیشیا، کیریبین
- فرانس: امریکہ، افریقہ، ایشیا
- برطانیہ: دنیا بھر میں (امریکہ، ہندوستان، افریقہ، ایشیا، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ)
- ڈنمارک-ناروے: گرین لینڈ، کیریبین، ہندوستان
- سویڈن: شمالی امریکہ، کیریبین
- بیلجیم: کانگو، روانڈا، برونڈی
- اٹلی: لیبیا، ایتھوپیا، صومالیہ
- جرمنی: افریقہ، بحر الکاہل
حدیث میں یاجوج اور ماجوج کا خروج
قرآن میں ذوالقرنین کے واقعے کو ایک حقیقی واقعے کے طور پر بیان کیا گیا ہے، لیکن رسول اللہ ﷺ نے یاجوج اور ماجوج کی رہائی کو علامتی طور پر اسی واقعے سے بیان کیا۔ ایک حدیث میں آپ ﷺ نے دیوار میں سوراخ کے بڑھنے کو ان کے قریب الوقوع خروج کی نشانی قرار دیا131۔
یاجوج اور ماجوج کا آپس میں تصادم – دوسری جنگ عظیم میں یورپی اقوام کا ٹکرائو
بائیبل، قرآن اور احادیث میں یاجوج و ماجوج کے قیامت سے پہلے آخری بڑے معرکے کو بیان کیا گیا ہے۔ ان واقعات کی تاریخی مطابقت دوسری جنگِ عظیم کے ان مناظر سے ملتی ہے جب یورپی اقوام ہر سمت سے حملہ آور ہو کر ایک دوسرے پر غالب آنے کی کوشش میں مصروف تھیں۔
نیا عہد نامہ میں یاجوج اور ماجوج کا آخری معرکہ
کتابِ مکاشفہ میں شیطان یاجوج و ماجوج کو جنگ کے لیے جمع کرتا ہے۔ پھر آسمان سے ایک آگ نازل کی جاتی ہے جو انہیں کھا جاتی ہے—جو اُن کی مکمل ہلاکت کی ایک طاقتور علامت ہے۔132 یہ علامتی آگ یاجوج و ماجوج کے عظیم معرکے، یعنی دوسری عالمی جنگ، کی نمائندگی کرتی ہے۔ اس آگ میں ان کا جل کر ختم ہونا نہ صرف نازی جرمنی کی فیصلہ کن شکست کو ظاہر کرتا ہے بلکہ جنگ کے بعد نوآبادیاتی نظام کے زوال کی علامت بھی بنتا ہے۔
قرآن میں یاجوج اور ماجوج کا آپس میں تصادم
سورہ کہف133 میں اللہ تعالیٰ ایک ایسے دن کا ذکر فرماتے ہیں جب یاجوج اور ماجوج "موجوں کی طرح ایک دوسرے سے ٹکرا رہے ہوں گے"، اور صور پھونک دیا جائے گا۔
قرآن ہمیشہ وقت کو سیاق و سباق کے مطابق بیان کرتا ہے۔ مثال کے طور پر، سورہ الاعراف134 میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ آسمان اور زمین چھ دنوں میں پیدا کیے گئے، جہاں "دن" سے مراد ایک مکمل دور یا زمانہ ہے۔ اسی اصول کے تحت، یاجوج اور ماجوج کے تصادم کا "دن" عالمی واقعات کے آخری دور کو ظاہر کرتا ہے۔
سورہ انبیاء135 میں اسی تصادم کے پہلے مرحلے کو یاجوج اور ماجوج کے ہر بلند مقام سے حملہ آور ہونے سے ذکر کیا گیا ہے، جس کے بعد "وعدۂ حق" یعنی قیامت کے قریب آنے کا بیان ہے۔ یہ بالکل اسی طرح ہے جیسے کوئی طاقتور فوج بلندی سے تیزی کے ساتھ دشمن پر حملہ آور ہو، جو ان کی جارحیت، برق رفتاری اور ناقابلِ مزاحمت عسکری قوت کی علامت ہے۔
سورہ کہف کا بیان دوسری جنگ عظیم کے مجموعی منظرنامے سے مشابہ ہے، جب یورپی اقوام—جو یاجوج و ماجوج کی نمائندہ ہیں—سمندر کی لہروں کی طرح ایک دوسرے سے ٹکرا رہی تھیں۔ جبکہ سورہ انبیاء کا ذکر جنگ کے آغاز میں نازی جرمنی کے تیز رفتار حملوں کی طرف اشارہ کرتا ہے، جسے احادیث میں زیادہ تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔
احادیث اس بات کو اجاگر کرتی ہیں کہ اس تصادم اور صور پھونکنے کے درمیان ایک مختصر خوشحالی کا دور ہوگا۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ ہم اس درمیانی دور میں ہیں۔
احادیث میں یاجوج اور ماجوج کے واقعات
احادیث میں یاجوج اور ماجوج سے متعلق واقعات دوسری جنگ عظیم سے مطابقت رکھتے ہیں:
یاجوج اور ماجوج کا ہر بلندی سے حملہ آور ہونا – نازی جرمنی کا حملہ آور ہونا
حدیث میں یاجوج و ماجوج کی آخری عظیم جنگ کے آغاز کو سورۃ الانبیاء کی قرآنی تعبیر "ہر بلندی سے حملہ آور ہوں گے" کے ذریعے بیان کیا گیا ہے۔
تاہم، جہاں قرآن مجید میں لفظ "فُتِحَتْ" (یعنی "وہ کھول دیے جائیں گے") استعمال ہوا ہے،136 وہاں حدیث میں اس کی جگہ "يَبْعَثُ اللہ" (یعنی "اللہ انہیں بھیجے گا") استعمال کیا گیا ہے۔137 یہ تبدیلی اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ اگرچہ یاجوج و ماجوج کا ابتدائی ظہور (مثلاً نوآبادیاتی دور میں) پہلے ہی ہو چکا تھا، لیکن اللہ نے انہیں آخری اور فیصلہ کن جنگ کے لیے بھیجا۔
اس تناظر میں، یہ بیان یاجوج و ماجوج کے ہی ایک حصے، یعنی نازی جرمنی، کی دوسری جنگ عظیم کے آغاز میں تیز رفتار، جارحانہ اور وسیع پیمانے پر کی گئی علاقائی توسیع کی جانب اشارہ کرتا ہے۔ نازی فوجی قوت اور ان کی برق رفتار حربی حکمت عملیوں نے ابتدائی مراحل میں یورپ کے مختلف حصوں میں بجلی کی سی تیزی کے ساتھ فتوحات حاصل کیں۔ یہ بالکل ویسے ہی تھا جیسے کوئی حملہ آور بلند مقام سے اچانک اور تیز رفتاری کے ساتھ نیچے اتر کر مخالفین کو تہس نہس کر دے۔
یاجوج اور ماجوج کا طبریہ کی جھیل کا پانی پینا – نازی جرمنی کا دوسری عیسائی اقوام کے وسائل کا استحصال کرنا
حدیث138 میں یاجوج اور ماجوج کا طبریہ کے جھیل کا پانی پینے کا ذکر ہے۔
طبریہ کی جھیل، جسے بحیرہ گلیل بھی کہا جاتا ہے، رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں شام کے علاقے میں واقع ایک اہم میٹھے پانی کا ذخیرہ تھی، جس سے عرب بخوبی واقف تھے۔ حدیث میں یاجوج و ماجوج کا اس جھیل کا پانی پی جانا دراصل اس امر کی علامت ہے کہ نازیوں نے مقبوضہ علاقوں میں موجود قدرتی وسائل — جیسے تیل، خوراک، اور صنعتی ساز و سامان — کو بے دردی سے استعمال کیا۔ ان وسائل کی شدید طلب نے نہ صرف مقبوضہ علاقوں کو خالی کر دیا بلکہ جنگ کے طول پکڑنے کے ساتھ ساتھ خود جرمنی کی معیشت اور جنگی طاقت بھی شدید دباؤ کا شکار ہو گئی۔
یاجوج اور ماجوج کا بیت المقدس پہنچنا اور آسمان کی طرف تیر چلانا – نازیوں کا یہودیت اور عیسائیت پر حملہ
حدیث139 میں یاجوج و ماجوج کے بیت المقدس کے قریب پہنچنے کا ذکر ہے، جب وہ کہیں گے: "ہم نے زمین والوں کو قتل کر دیا، اب آسمان والوں کو ماریں گے۔" وہ تیر آسمان کی طرف پھینکیں گے، جو خون میں لت پت واپس آئیں گے۔
دوسری جنگ عظیم کے آغاز میں نازی جرمنی کی غیر متوقع کامیابیاں اس کے حکمرانوں کے تکبر میں اضافے کا باعث بنیں۔ آسمان سے "خون آلود تیروں" کا آنا جرمنی کے مذہب پر طاقت کے ذریعے حملے کی علامت ہے۔ بیت المقدس، جو دورِ نبوی ﷺ میں یہود و نصاریٰ کا مرکز و مسکن تھا، نازیوں نے انہی دونوں مذاہب کو بالخصوص نشانہ بنایا، مثلاً:
- پادریوں اور علماء کو گرفتار یا قتل کیا گیا
- یہودی عبادت گاہیں تباہ کی گئیں
- ہولوکاسٹ میں لاکھوں یہودی قتل کیے گئے
- عیسائی یہوواہ کے گواہوں کو قید یا قتل کیا گیا
- گرجا گھروں کو بند یا حکومتی کنٹرول میں لیا گیا
- نازی مخالف مسیحیوں کو قتل کیا گیا
علاوہ ازیں، نازی قیادت، خاص طور پر ہینرک ہیملر، نے ہٹلر کو مسیحائی شخصیت کے طور پر پیش کیا اور جرمن نسلی برتری و صوفیانہ عقائد پر مبنی ایک نیا نظریاتی مذہب بنایا۔ نازیوں نے نیٹشے کے "خدا مر چکا ہے" کے فلسفے کو فروغ دیا اور روایتی مذاہب کے خاتمے کے ذریعے اپنی نظریاتی حکومت قائم کرنے کی کوشش کی، جو ان کی طاقت اور اعتماد کے بڑھنے کی علامت تھی۔
یاجوج اور ماجوج کی موت – نازی جرمنی کی شکست
حدیث140 میں اللہ کا کیڑے بھیجنے کا ذکر ہے جو یاجوج اور ماجوج کی گردنوں پر حملہ کریں گے اور وہ سب ایک ہی جان کے مرنے کی طرح مر جائیں گے۔
یہ تشبیہ نازی جرمنی کے زوال کو بیان کرتی ہے۔ یہاں "گردنوں میں کیڑے پڑنے" کی تعبیر اُس اچانک خودکشی کی علامت ہے جو ہٹلر نے اپریل 1945ء میں کی — جیسے یاجوج و ماجوج کی گردنوں پر کیڑوں کا حملہ ہو، جس نے ان کے اقتدار و اختیار کی رگ کاٹ کر رکھ دی ہو۔ ہٹلر کی موت کے فوراً بعد نازی حکومت نے چند ہی دنوں میں، مئی 1945ء میں، مکمل طور پر غیر مشروط ہتھیار ڈال دیے — بالکل اُسی منظر کی مانند جسے حدیث میں بیان کیا گیا ہے کہ جب یاجوج و ماجوج کی گردنوں پر کیڑے حملہ آور ہوتے ہیں تو وہ یکایک ہلاک ہو جاتے ہیں۔
تعبیر سے متعلق سوالات
دجال اور یاجوج و ماجوج کے متوازی بیانیے
صحیح مسلم کی حدیث141 میں دجال کے واقعات پہلے اور یاجوج و ماجوج کے واقعات بعد میں بیان کیے گئے ہیں۔ اس ترتیب سے یہ تاثر پیدا ہو سکتا ہے کہ دجال کی موت یاجوج و ماجوج کے حملے سے پہلے ہوتی ہے۔ لیکن حقیقت میں یہ دونوں واقعات ساتھ ساتھ وقوع پذیر ہوئے، جیسا کہ متوازی بیانیوں میں عام طور پر ہوتا ہے، جہاں ایک موضوع کو مکمل بیان کر کے دوسرے متوازی موضوع کی طرف منتقل ہوا جاتا ہے — خواہ دونوں واقعات تاریخی طور پر ایک ہی دور میں واقع ہوئے ہوں۔
اس سیاق میں، دجال سے مراد سوویت یونین ہے، جو 1922 میں قائم ہوا اور 1991 میں ختم ہوا؛ جبکہ یاجوج و ماجوج سے مراد نازی جرمنی ہے، جس نے 1939 سے 1945 کے دوران دوسری جنگِ عظیم میں مہلک حملے کیے۔ چونکہ سوویت یونین کا ظہور نازی جرمنی سے پہلے ہوا، اس لیے حدیث میں اس کا تذکرہ اور انجام پہلے بیان کیا گیا، جب کہ یاجوج و ماجوج کے واقعات کو بعد میں تفصیل سے بیان کیا گیا — جیسا کہ متوازی بیانیوں میں عمومی طور پر ہوتا ہے۔
مزید برآں، حدیث کے مطابق دجال کی ہلاکت کے بعد سات سال کا ایک پُرامن دور آئے گا، جس کے اختتام پر ٹھنڈی ہوائیں چلیں گی جو ہر اس شخص کی روح قبض کر لیں گی، جس کے دل میں رتی برابر بھی ایمان موجود ہوگا۔142 اگر یہ مفروضہ اختیار کیا جائے کہ یاجوج و ماجوج کا فتنہ دجال کے بعد ظاہر ہوا اور پھر ان کے بعد یہ ہوائیں چلیں، تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ یاجوج و ماجوج کا عظیم فساد اسی سات سالہ پُرامن دور میں برپا ہوا — جو کہ اس دور کے "پُرامن" ہونے کے تصور سے سراسر متصادم ہے۔ یہ تضاد اس بات کی طرف واضح اشارہ ہے کہ یاجوج و ماجوج کا خروج دجال کے فتنے کے ساتھ متوازی تھا، یعنی دونوں فتنوں کا ظہور ایک ہی تاریخی عرصے میں ہوا۔ حدیث میں یاجوج و ماجوج کا تذکرہ بعد میں آنا صرف اسلوبِ بیان اور ترتیبِ تفصیل کا حصہ ہے، نہ کہ اس سے مراد زمانی ترتیب ہے۔
احادیث میں یاجوج اور ماجوج اور نازی جرمنی
احادیث میں خاص طور پر نازی جرمنی کو یاجوج و ماجوج سے تعبیر کیا گیا ہے، حالانکہ دوسری جنگِ عظیم میں اتحادی افواج کی دیگر یورپی اقوام بھی شامل تھیں، جو تاریخی و نسلی اعتبار سے یاجوج و ماجوج اقوام کا حصہ ہیں۔ اس تخصیص کا مقصد دراصل وضاحت اور صاف گوئی ہے تاکہ یہ مغالطہ پیدا نہ ہو کہ یہ احادیث جنگ کے کس فریق کی جانب اشارہ کر رہی ہیں۔
یاجوج و ماجوج کی پہچان ہمیشہ شمال کی اُن اقوام سے کی گئی ہے جو دوسری قوموں پر چڑھائی کر کے تباہی مچاتی ہیں، اور ان کے وسائل کو بے دریغ لوٹتی ہیں۔ یہی صفات نازی جرمنی کے طرزِ عمل میں پوری شدت کے ساتھ نظر آتے ہیں۔ اس وجہ سے نازی جرمنی کو خصوصاً ان احادیث میں یاجوج و ماجوج سے تشبیہ دی گئی ہے تاکہ مفہوم میں ابہام باقی نہ رہے۔
حوالہ جات
114) Genesis 10:2: https://www.bible.com/bible/1/GEN.15.18-20.KJV
115) Ezekiel 38:2-3: https://www.bible.com/bible/111/EZK.38.2-3.NIV
116) Ezekiel 39:2: https://www.bible.com/bible/111/EZK.39.2.NIV
117) Ezekiel 38:15: https://www.bible.com/bible/111/EZK.38.15.NIV
118) " معبد کی مکروہ بربادی " بائبلی پیش گوئی سے ماخوذ ہے، خاص طور پر کتابِ دانیال میں۔ یہ اس واقعے کی طرف اشارہ کرتا ہے جب یونانی دیوتا زیوس کے لیے قربان گاہ قائم کی گئی اور یہودی ہیکلِ مقدس میں خنزیر کی قربانی دی گئی، جس نے اس مقدس مقام کو ویران اور ناپاک بنا دیا۔
119) Rolf Strootman, ‘The Seleukid Empire’, in: R. Mairs ed., The Graeco-Bactrian and Indo-Greek World. Routledge Worlds (London and New York: Routledge, 2021) 11–37.
120) Quran 18:93-98: https://quran.com/18/93-98
121) Daniel 8: https://www.bible.com/bible/111/DAN.8.NIV
122) https://en.wikipedia.org/wiki/Darial_Gorge
123)سفر یوسیپون (Sefer Josippon)، دسویں صدی عیسوی کی عبرانی تاریخ۔
124) https://jewishencyclopedia.com/articles/10279-magog
125) Revelation 20:7-9: https://www.bible.com/bible/111/REV.20.7-9.NIV
126) Revelation 19:11: https://www.bible.com/bible/111/REV.19.11.NIV
127) جاوید احمد غامدی، میزان (علامات قیامت)
128) جارج لیپوویوِچ، "یورپ میں الان اور سرماتی اقوام": https://www.academia.edu/17774436/Alans_and_Sarmatians_in_Europe
129) Quran 21:96: https://quran.com/21/96
130) https://www.gilderlehrman.org/history-resources/spotlight-primary-source/doctrine-discovery-1493
131) Sahih Bukhari 3347: https://sunnah.com/bukhari:3347
132) Revelation 20:7-9: https://www.bible.com/bible/111/REV.20.7-9.NIV
133) Quran 18:99: https://quran.com/18/99
134) Quran 7:54: https://quran.com/7/54
135) Quran 21:96-97: https://quran.com/21/96-97
136) Quran 21:96 https://quran.com/21/96
137) Sahih Muslim 2937a: https://sunnah.com/muslim:2937a
138) Sahih Muslim 2937a: https://sunnah.com/muslim:2937a
139) Sahih Muslim 2937b: https://sunnah.com/muslim:2937b
140) Sahih Muslim 2937a: https://sunnah.com/muslim:2937a
141) Sahih Muslim 2937a: https://sunnah.com/muslim:2937a
142) Sahih Muslim 2940a: https://sunnah.com/muslim:2940a
(جاری)