دجال – جھوٹے مسیح کی آمد
دجال، جس کا مطلب "بڑا جھوٹا" ہے، کو "المسیح الدجال" بھی کہا جاتا ہے، جس کا ترجمہ "جھوٹا مسیح" ہے۔ "مسیح" (عبرانی مشیاح سے، جس کا مطلب "مسح کیا گیا" ہے) قدیم اسرائیل میں ان افراد کے لیے استعمال ہوتا تھا جو بادشاہ، نبی یا کاہن کے طور پر خدا کی طرف سے چنے جاتے اور تیل سے مسح کیے جاتے۔ وقت کے ساتھ، مسیح کا تصور محض ایک مسح شدہ فرد سے نجات دہندہ کے تصور میں تبدیل ہوگیا، جو تاریخی جدوجہد، نجات کی امیدوں اور مذہبی تشریحات کا نتیجہ ہے۔
اسی سیاق میں، مسیح الدجال وہ ہستی ہے جو خود کو نجات دہندہ کے طور پر پیش کرتی ہے اور انسانی فطرت میں موجود مصائب و مشکلات سے نجات کی امید سے فائدہ اٹھاتی ہے۔ یہ نجات کی طلب بذات خود کسی مخصوص مذہبی پہلو کی حامل نہیں ہوتی۔ روایات کے مطابق، اس کی پیشانی پر "کافر" لکھا ہوگا، جو اس بات کو تقویت دیتا ہے کہ دجال خدا کا منکر ہوگا، اور نتیجتاً اس کے وعدے کسی الہامی یا مذہبی بنیاد پر نہیں ہوں گے۔
زمین کے جانور کے برعکس، جو محض طاقت اور جبر کی علامت ہے، دجال انسانی شکل میں ظاہر ہوتا ہے، بالکل اسی طرح جیسے بعد کے ادوار میں بابلی سلطنت کو انسانی شکل میں پیش کیا گیا۔34 اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ دجال محض ایک عسکری قوت پر مبنی سلطنت نہیں، بلکہ ایک ایسی ریاست ہے جو گمراہ کن عقائد کے ساتھ لوگوں کو اپنے جھوٹے وعدوں پر یقین دلاتی ہے۔
دجال کی شناخت
دجال کی شناخت کے لیے احادیث میں اس کے ظہور سے قبل پیش آنے والے واقعات اور اس کی نمایاں خصوصیات کو درجِ ذیل میں بیان کیا گیا ہے۔
دجال کے ظہور سے پہلے کے واقعات
دجال کی آمد سے پہلے، متعدد احادیث میں مسلمانوں کی تاریخ کے چار اہم واقعات کا ذکر ملتا ہے، جو نہ صرف مسلم و عیسائی کشمکش کے بڑے سنگ میل ہیں، بلکہ امت کی اجتماعی آزمائش کا بھی مظہر ہیں۔ یہ چار واقعات درج ذیل ہیں:
- جنگ یرموک — جس میں مسلمانوں نے بازنطینی (رومی) سلطنت کو فیصلہ کن شکست دی۔
- پہلی صلیبی جنگ کا معرکۂ انطاکیہ — جو شام کے شمالی علاقے میں پیش آیا اور صلیبی یلغار کا نقطۂ آغاز بنا۔
- قسطنطنیہ کی فتح — جس کے ذریعے عثمانی ترکوں نے بازنطینی دارالحکومت پر مسلم پرچم لہرایا۔
- پہلی جنگِ عظیم کے بعد عثمانی سلطنت کا زوال — جب خلافت نے اتحادی افواج کے سامنے ہتھیار ڈال دیے۔
اگرچہ ان واقعات کے درمیان صدیوں کا فاصلہ ہے، لیکن ان میں ایک گہرا ربط موجود ہے۔ پہلے تین واقعات کا تعلق رومی (بازنطینی) سلطنت سے ہے، جبکہ آخری تین واقعات میں ترک مسلمان نمایاں کردار ادا کرتے ہیں، جو اناطولیہ میں آباد ہو کر اسلامی دنیا کا عسکری و سیاسی مرکز بنے۔
رومیوں اور مسلمانوں کے درمیان بڑی جنگ – جنگ یرموک (636ء)
حدیث35 میں بیان کیا گیا ہے کہ، ایک شدید جنگ شام سے آنے والی فوج سے ہوگی جس میں مسلمان شہادت یا فتح کے عزم کے ساتھ لڑیں گے۔ ابتدائی تین دنوں کی لڑائی میں دونوں فریق سخت نقصان اٹھائیں گے مگر کوئی فیصلہ کن نتیجہ نہیں نکلے گا۔ چوتھے دن مسلمانوں کا دستہ دشمن کو شکست دے گا۔ جنگ اتنی خوفناک ہوگی کہ فضا میں اڑنے والا پرندہ بھی اس کے اثرات سے بچ نہ سکے گا۔ آخر میں، اتنے زیادہ لوگ قتل کیے جائیں گے کہ جنگ کے بعد گنتی کی جائے گی تو سو میں سے صرف ایک شخص زندہ بچے گا۔
یہ واقعہ حدیث میں نبی کریم ﷺ کی وفات کے جلد ہی بعد پیش آنے والے عظیم الشان معرکہ، جنگِ یرموک، کی طرف اشارہ کرتا ہے، جو شام کے بازنطینی عیسائیوں کے خلاف لڑی گئی۔ یہ جنگ چھ دنوں تک جاری رہی، جن میں پہلے دن ابتدائی جھڑپیں اور حالات کا جائزہ لینے کی کوششیں ہوئیں، جبکہ پانچویں دن بازنطینوں کی طرف سے جنگ بندی کی پیشکش اور آخری معرکے سے پہلے ازسرِنو صف بندی کی گئی۔ اسی لیے حدیث میں صرف چار دنوں کی شدید لڑائی کا ذکر آیا ہے۔
دوسرے، تیسرے اور چوتھے دن سخت ترین معرکے دیکھنے میں آئے، جن میں جانی نقصان بھی غیر معمولی تھا۔ ان دنوں میں مسلمان افواج کی صفوں کو مجتمع رکھنے اور دشمن کے شدید دباؤ کو روکنے میں برق رفتار گھڑسواروں نے جان ہتھیلی پر رکھ کر کلیدی کردار ادا کیا۔ ان میں خصوصاً حضرت عکرمہؓ بن ابی جہل اور اُن کے چار سو جان نثار مجاہدین شامل تھے، جنہوں نے اپنی جانوں کی پروا کیے بغیر دشمن پر ٹوٹ پڑنے کی حکمتِ عملی اپنائی—جو حدیث میں مذکور ’شرطۃ الموت‘ یعنی موت کے دستے کی عملی تفسیر معلوم ہوتی ہے۔36
چھٹے دن—جو کہ حقیقی معنوں میں شدید لڑائی کا چوتھا دن تھا—مسلمانوں نے فیصلہ کن حملہ کیا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے دین کے علمبرداروں کو شاندار فتح عطا فرمائی، اور بازنطینی افواج مکمل طور پر پاش پاش ہو گئیں۔ اس جنگ میں مسلمانوں کو بھی بھاری جانی نقصان اٹھانا پڑا۔ میدان جنگ کے اوپر پرندوں کا نہ گزر سکنے کی تفصیل میدانِ جنگ میں تیروں کی بارش اور گرد و غبار کے اٹھنے کو ظاہر کرتا ہے، جو جنگ کی شدت کی طرف اشارہ ہے۔ یہ جنگ تاریخ عالم کے ایک اہم موڑ کے طور پر دیکھی جاتی ہے، جس نے شام میں مسلمانوں کے غلبے کی بنیاد رکھی۔
رومیوں کا دابق یا اعماق میں اترنا اور مسلمانوں سے لڑنا – پہلی صلیبی جنگ کا معرکہ انطاکیہ (1098ء)
حدیث37 میں رومیوں کا دابق یا اعماق میں اترنا، مدینہ سے بہترین سپاہیوں پر مشتمل فوج کا ان کے مقابلے کے لیے آنا، رومیوں کا مسلمانوں کے قبضے سے جنگی قیدیوں کو چھڑانے کا مطالبہ اور ایک تہائی مسلمانوں کا فرار، ایک تہائی کا شہید ہونا اور ایک تہائی مسلمانوں کا کبھی آزمائش میں نہیں ڈالا جانا بیان کیا گیا ہے۔
یہ منظرنامہ تاریخ میں پہلی صلیبی جنگ کے دوران واضح طور پر سامنے آیا، جب بازنطینی سلطنت نے سلجوقی ترکوں کے خلاف فوجی مدد کے لیے یورپی عیسائی طاقتوں کو پکارا۔ اس جنگ کا ایک بڑا مقصد، عیسائیوں کے مقدس مقامات — بالخصوص یروشلم — کو مسلمانوں کے قبضے سے 'آزاد' کرانا تھا۔ احادیث میں صلیبیوں کے اس عزائم کو اس انداز میں پیش کیا گیا ہے گویا ان کے نزدیک یہ مقدس مقامات مسلمانوں کی قید میں تھے، جنہیں وہ ہر قیمت پر بازیاب کرانا چاہتے تھے۔
پہلی صلیبی جنگ میں صلیبیوں نے اناطولیہ میں فتوحات کے بعد شمالی شام کا رخ کیا۔ ان کا پہلا بڑا ہدف انطاکیہ تھا، جو اس خطے کا ایک مرکزی اور کلیدی شہر تھا۔ شمال کی جانب سے انطاکیہ تک پہنچنے کے لیے وہ ماراش کے پہاڑی علاقوں سے گزرتے ہوئے اعماق38 39 40 میں اترے41، وہی میدان جس کا ذکر احادیث میں بھی ملتا ہے۔
انطاکیہ پر صلیبیوں کے قبضے کے بعد، موصل کے اتابک، ترک سپہ سالار كربوغا کی قیادت میں مسلمانوں کا ایک عظیم لشکر انطاکیہ کو دوبارہ فتح کرنے کے لیے روانہ ہوا۔ یہ فوج مسلمانوں کے مشہور اور تجربہ کار جنگجو گروہوں پر مشتمل تھی۔ مسلم مورخ ابن الاثیر کے مطابق، یہ لشکر پہلے دابق میں پڑاؤ ڈالتا ہے، اور پھر انطاکیہ کی طرف بڑھتا ہے۔42 حدیث میں جس "مدینہ سے نکلنے والی فوج" کا ذکر ہے، وہ دراصل مسلمانوں کی افواج کی علامت ہے، کیونکہ رسول اللہ ﷺ کے عہد میں مدینہ منورہ مسلمانوں کی ریاست کا مرکز تھا اور لشکر وہیں سے روانہ ہوا کرتے تھے۔
حدیث کے مطابق مسلمانوں کے تین گروہوں کا ذکر ملتا ہے:
- ایک تہائی وہ جو میدانِ جنگ سے فرار اختیار کریں گے: ابن الاثیر بیان کرتے ہیں کہ جنگ کے دوران تقریباً پوری مسلمان فوج میدان چھوڑ کر بھاگ گئی، سوائے ایک چھوٹے سے دستے کے۔43 حدیث کے مطابق یہ فرار کی راہ اختیار کرنے والا گروہ ہے جنہیں اللہ کبھی معاف نہیں کرے گا۔
- ایک تہائی وہ جو شہید ہوں گے: ابن الاثیر کے مطابق ایک چھوٹے سے دستے کے مجاہدین، جو سرزمینِ مقدس سے تعلق رکھتے تھے، ثابت قدم رہے اور انہوں نے اللہ کی رضا اور شہادت کی طلب میں لڑائی جاری رکھی۔ صلیبی فوج نے ان میں سے ہزاروں کو شہید کر دیا۔44 یہی وہ لوگ ہیں جنہیں حدیث میں "افضل الشہداء" یعنی "سب سے بہترین شہداء" قرار دیا گیا ہے۔
- اور ایک تہائی وہ جنہیں آزمائش میں کبھی ڈالا ہی نہیں جائیگا: یعنی وہ ترک مسلمان جنہوں نے پہلی نو صلیبی جنگیں (1096-1272) ، جو بنیادی طور پر عیسائیوں کے مقدس مقامات کے حصول کے لیے لڑی گئیں، میں حصہ نہیں لیا۔
یہ تقسیم انطاکیہ کی لڑائی میں مسلمانوں کی شکست کی علامت ہے۔
اس جنگ کے اثرات تاریخ پر بہت گہرے رہے، کیونکہ اس وقت مسلمانوں کی تعداد اور عسکری قوت صلیبیوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ تھی۔ تاہم، اس غیر متوقع شکست نے صلیبیوں کو مزید حوصلہ دیا، جس کے نتیجے میں وہ 1099 میں یروشلم پر حملہ آور ہوئے اور بالآخر اسے فاطمیوں سے چھیننے میں کامیاب ہو گئے۔
مسلمانوں کا قسطنطنیہ کو فتح کرنا (1453ء)
حدیث45 میں ایک تہائی مسلمانوں کا جیت جانا اور قسطنطنیہ کو فتح کرنا، جنہیں آزمائش میں کبھی نہیں ڈالا گیا، ان ترک مسلمانوں کی نمائندگی کرتا ہے جنہوں نے پہلی نو صلیبی جنگیں (1096-1272) ، جو بنیادی طور پر عیسائیوں کے مقدس مقامات کے حصول کے لیے لڑی گئیں، کے دوران صلیبی جنگوں میں حصہ نہیں لیا۔ اس گروہ نے سلطنت عثمانیہ کے تحت 1453 میں قسطنطنیہ کو فتح کر کے مشرقی رومی سلطنت کا خاتمہ کر دیا۔
مسلمانوں کا تلواریں لٹکانا اور دجال کا ظہور – عثمانی سلطنت کا ہتھیار ڈالنا (1918ء) اور سوویت یونین کا قیام (1922ء)
حدیث46 میں بیان کیا گیا ہے کہ جب تلواریں زیتون کے درختوں پر لٹکا کر مالِ غنیمت کو تقسیم کیا جا رہا ہو گا، شیطان پکارے گا: "مسیح تمہارے گھروں میں داخل ہو گیا ہے!" یہ خبر سن کر مسلمان روانہ ہوں گے، لیکن یہ جھوٹ ہوگا۔ پھر جب وہ شام پہنچیں گے اور جنگ کے لیے صف بندی کر رہے ہوں گے، عین اسی وقت دجال نمودار ہو جائے گا۔
یہاں "تلواریں درختوں سے لٹکانے" سے مراد 1918 میں معاہدۂ مدروس کے تحت عثمانی سلطنت کا ہتھیار ڈالنا ہے، جبکہ "مالِ غنیمت کی تقسیم" درحقیقت فاتح قوتوں—برطانیہ، فرانس، اٹلی اور یونان—کے درمیان عثمانی علاقوں اور وسائل کی تقسیم کی علامتی تعبیر ہے۔
انہی ایّام میں کمیونزم ایک عالمی طاقت کے طور پر ابھرا، اور 1920ء میں آذربائیجان، آرمینیا اور عثمانیوں کے کئی سابقہ علاقوں پر کمیونسٹوں نے قبضہ کر لیا۔ یہی وہ لمحہ تھا جسے حدیث میں شیطان کی پکار "مسیح تمہارے گھروں میں داخل ہو گیا ہے!" کے ذریعے علامتی انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ شیطان کی جانب سے مسیح کے ظہور کا یہ جھوٹا اعلان دراصل اُس کمیونسٹ پروپیگنڈے کی نمائندگی کرتا ہے، جس کے ذریعے کمیونسٹ ریاست کو ایک نجات دہندہ کے طور پر پیش کیا گیا—ایسی ریاست جو عوام کو سرمایہ دارانہ اور جاگیردارانہ استحصال سے "رہائی" دلانے، اور مزدوروں و کسانوں کے لیے "برابری" اور سوشلسٹ نظام کی شکل میں ایک مثالی معاشرتی خواب کو حقیقت بنانے کا دعویٰ کر رہی تھی۔
رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں شام عیسائیوں کے زیرِ تسلط تھا، لہٰذا مسلمانوں کا شام پہنچنا علامتی طور پر 1920 میں معاہدۂ سیور کے تحت یورپی عیسائی فاتحین کے عثمانی سلطنت کے علاقوں پر با ضابطہ قبضے کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ اسی طرح، احادیث میں بیان کردہ مسلمانوں کی "صف بندی" ترکی میں ایک نئی سیاسی ترتیب کے قیام کی علامت ہے۔ نومبر 1922 میں ترکی کی قومی اسمبلی نے با ضابطہ طور پر عثمانی سلطنت کے خاتمے کا اعلان کیا، اور اسی دوران، دسمبر 1922 میں، سوویت یونین کا قیام عمل میں آیا—یہ وہی لمحہ تھا جب روایات کے مطابق دجال کا ظہور ہوا۔
مسلمانوں کے دس گھڑ سوار – ترکی کی قومی تحریک کے دس راہنما
حدیث میں آتا ہے کہ جب مسلمان دجال کی خبر سنیں گے تو وہ ہر چیز چھوڑ کر دس گھڑسواروں کو طلیعہ (پیش رو دستہ) کے طور پر روانہ کریں گے، جو اس دن کے بہترین گھڑ سوار ہوں گے۔47
یہ منظر حضرت عیسیٰ عليه السلام کی کتابِ مکاشفہ میں بیان کردہ گھڑسواروں کی مانند ہے، جہاں گھڑسوار قیادت اور رہنمائی کی علامت کے طور پر ظاہر ہوتے ہیں۔48 مذکورہ حدیث میں بھی ان دس گھڑسواروں سے مراد مسلمانوں کے دس راہنما ہیں۔ ان کی تعبیر ترکی کی قومی تحریک کے وہ دس نمایاں سیاسی و عسکری شخصیات ہیں جنہوں نے ابتدا میں کمیونسٹوں اور بعد ازاں مغربی طاقتوں سے کامیاب مذاکرات کیے49۔ حدیث میں ان کو اس دن کے بہترین گھڑ سوار بتایا گیا ہے، جو در حقیقت بطور سفارت کار اور رہنما ان کی پیشہ ورانہ صلاحیت کو ظاہر کرتا ہے۔ ان میں خاص طور پر مصطفیٰ کمال اتاترک، یوسف کمال ٹینگیرشینک، کازم کارابیکر اور بعد میں عصمت انونو جیسے رہنماؤں نے بے مثال سفارتی مہارت کا مظاہرہ کیا اور کمیونسٹوں اور مغربی طاقتوں دونوں سے بہترین معاہدے حاصل کیے۔ 1921 میں ترکی کی قومی تحریک نے کمیونسٹوں کے ساتھ سرحدوں کے تعین اور مالی امداد اور عسکری حمایت پر معاہدے کیے، لیکن تحریک کے رہنماؤں نے ترکی کو کمیونزم کے نظریاتی اثر سے محفوظ رکھنے میں کامیابی حاصل کی۔50 بعد ازاں 1923 میں معاہدہ لوزان کے ذریعے مغربی طاقتوں سے مکمل خود مختاری حاصل کی اور عثمانی سلطنت کے برعکس ترکی کو نوآبادیاتی تسلط سے بچایا۔ یہ ایک نادر سفارتی کامیابی تھی، جس میں ترکی نے دونوں عالمی طاقتوں سے فائدہ اٹھایا مگر کسی کا تابع نہیں بنا۔
بنی اسحاق کے ستر ہزار افراد – باکو شہر کے شیعہ مسلمان (1918ء-1920ء)
حدیث51 میں ایک ایسے شہر کا ذکر ملتا ہے جس کی ایک سمت خشکی اور دوسری سمت سمندر ہے۔ بنی اسحاق کے ستر ہزار افراد بغیر اسلحہ کے اس شہر پر حملہ کریں گے، اور’’لا إلہ إلا اللہ واللہ اکبر‘‘ کے تین بار کہنے کے بعد یہ شہر ان کے لیے کھل جائے گا۔ شہر پر قبضے کے بعد وہ مالِ غنیمت اکٹھا اور تقسیم کریں گے، لیکن دجال کے ظہور کی خبر سنتے ہی لوٹ جائیں گے۔
اس حدیث کی تعبیر موجودہ آذربائیجان کے دارالحکومت باکو کے 15 ستمبر 1918 کے واقعات ہیں۔ یہ شہر بحرِ خزر کے کنارے واقع ہے— ایک طرف خشکی اور دوسری طرف سمندر۔ اس پیشگوئی میں شیعہ مسلمانوں کو علامتی طور پر "بنی اسحاق" سے تشبیہ دی گئی ہے۔ جس طرح بنی اسحاق،52 حضرت ابراہیمؑ کے پیروکار ہونے کے باوجود رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں ایک علیحدہ مذہبی شناخت رکھتے تھے، اسی طرح شیعہ مسلمان بھی رسول اللہ ﷺ کے بعد اسلام کے اندر ایک مسلکی امتیاز کے حامل گروہ کے طور پر سامنے آئے۔53 حدیث میں بنی اسحاق کی 'ستر ہزار' کی تعداد کا ذکر دراصل اُس وقت باکو میں موجود شیعہ آبادی کی طرف اشارہ ہے، جو تقریباً ستر ہزار کے قریب تھی۔54
تاریخی طور پر باکو میں 15 ستمبر 1918 کو عیدالاضحیٰ کا دن تھا،55 جب پہلی جنگ عظیم کے دوران عثمانی افواج باکو میں داخل ہوئیں۔56 برطانوی اور آرمینیائی افواج ایک رات قبل ہی باکو کا انخلا کرچکی تھیں،57 جس کے باعث عملی طور پر شہر کا دفاع ختم ہو چکا تھا۔ حدیث میں ذکر کردہ ’’لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَاللَّهُ أَكْبَرُ‘‘ کے الفاظ اس دن عیدالاضحیٰ کی مناسبت سے ایامِ تشریق کی تکبیروں کو ظاہر کرتے ہیں۔ حدیث کے مطابق تین مرتبہ یہ کلمات کہے جانے کے بعد شہر کا "کھل جانا" علامتی طور پر عیدالاضحیٰ کے تیسرے دن، مقامی شیعہ آبادی کی نمائندہ آذربائیجان ڈیموکریٹک ریپبلک کی جلاوطن قیادت کا واپس آنا اور باکو میں 17 ستمبر 1918 کو باقاعدہ اپنی حکومت قائم کرنا ہے۔58
حدیث میں مذکور ’’مالِ غنیمت‘‘ سے مراد اُس دور میں باکو کے وسیع تیل کے ذخائر ہیں، جن پر آذربائیجان ڈیموکریٹک ریپبلک کی شیعہ مسلمان قیادت کو عارضی طور پر کنٹرول حاصل ہوا۔ اس قیادت نے ان وسائل کو اقتصادی اور سفارتی مقاصد کے لیے بھرپور طریقے سے استعمال کرنے کی کوشش کی۔ تاہم، اپریل 1920ء میں جب بالشویک کمیونسٹ افواج نے باکو پر حملے کی دھمکی دی، تو یہ قیادت اپنی مختصر خودمختاری اور حاصل شدہ وسائل چھوڑ کر واپس جلاوطنی میں چلی گئی، جو حدیث میں دجال کے ظاہر ہونے کی خبر59 سن کر واپس پلٹنے کی تعبیر ہے ۔
دجال سے پہلے عرب، فارس اور روم پر فتح
دجال سے پہلے تاریخی واقعات کو ایک اور حدیث میں اکٹھا بیان کر دیا گیا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے عرب، پھر فارس، پھر روم، اور آخر میں دجال پر فتح کی پیش گوئی فرمائی۔60
یہ تاریخی واقعات سے مطابقت رکھتی ہے: مسلمانوں کے ہاتھوں عرب کی مکمل فتح 633ء میں، فارس کی فتح 651ء میں، بازنطینی (رومی) سلطنت کا خاتمہ 1453ء میں، اور افغانستان میں سوویت افواج کی شکست، جس کے بعد 1991ء میں سوویت یونین کا انہدام ہوا۔
پیشانی پر "کافر" کا نشان – سوویت یونین کا الحاد اور مذہب دشمنی کا اعلانیہ اظہار
جیسے کتابِ مکاشفہ میں "سمندر کے جانور" — جو رومی سلطنت کی علامت تھا — کے سروں پر گستاخانہ الفاظ تحریر تھے،61 ویسے ہی دجال کے ماتھے پر "کافر" لکھا ہوگا،62 جسے ہر مسلمان، خواہ پڑھا لکھا ہو یا ان پڑھ، باآسانی پہچان سکے گا۔63
پیشانی انسانی جسم کا سب سے نمایاں حصہ ہے، جو کھلی اور ناقابلِ انکار شناخت کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ دجال کی پیشانی پر "کافر" لکھا ہونا اس بات کی علامت ہے کہ اس کی پہچان اور کفر پوشیدہ نہیں بلکہ اعلانیہ ہوگا۔ اسی طرح، سوویت یونین نے بھی مذہب سے انکار کو چھپایا نہیں، بلکہ اسے ایک نظریاتی فخر کے طور پر اپنایا۔ سوویت یونین انسانی تاریخ میں واحد ریاست کے طور پر سامنے آتی ہے جس کی سرکاری نظریاتی پالیسی نے تمام موجودہ مذاہب کے خاتمے، مستقبل میں مذہبی عقائد کے فروغ کی روک تھام، اور طویل المدتی مقصد کے طور پر ریاستی الحاد کے قیام کی باقاعدہ کوشش کی۔64 65 ریاستی سطح پر سائنسی دہریت کو فروغ دیا گیا، اور مذہب کو ایک پسماندہ، غیر سائنسی عقیدہ قرار دے کر اس کے مکمل خاتمے کو ایک سرکاری ہدف بنایا گیا۔ اس نظریے کا عملی مظاہرہ نہ صرف مذہبی اداروں کی بندش، بلکہ خاص طور پر ابراہیمی مذاہب کے ماننے والوں پر ریاستی جبر اور دباؤ کی صورت میں بھی ہوا۔
کوئی ہمیں نجات نہیں دے گا
نہ خدا، نہ زار، نہ کوئی ہیرو
ہم اپنی آزادی جیتیں گے
اپنے ہی ہاتھوں سے
(انٹرنیشنل کے اشعار (جو 1922 سے 1944 تک سابقہ سوویت یونین کے قومی ترانے کا حصہ تھے)، جو کمیونزم کے الحادی اور مذہب مخالف نظریے کی عکاسی کرتے ہیں۔)
دجال کی ایک آنکھ اور گھنگریالے بال ہونا – سوویت نظام کی عملی و نظریاتی خامیاں
حدیث میں دجال کا ایک آنکھ سے اندھا ہونا کمیونزم کے محدود نقطہ نظر کی علامت ہے، جو صرف ایک بے طبقہ اور بے ریاست معاشرے کے تصور پر مرکوز ہے۔66 یہ نظریہ خدا کی طرف سے مقرر کردہ انسانی باہمی انحصار کو نظر انداز کرتا ہے، جس کے نتیجے میں کمیونزم کی ناکامیاں اور اس کے نفاذ کے دوران ہونے والے تباہ کن نقصانات نمایاں ہوئے۔ اسی طرح، دجال کے گھنگریالے بال اس کے بدصورت اور بے ڈھنگے پن کی نشانی ہیں، جو بند اور کنٹرول شدہ معاشروں، طاقت کے ذریعے مسلط کردہ مساوات، آزادی اظہار کی عدم موجودگی، اور سماجی و سیاسی جبر کی شکل میں سامنے آئیں۔ یوں، دجال کا یہ ظاہری بگاڑ کمیونزم کے نظریاتی اور عملی تضادات کی علامت بن جاتا ہے، جو ایک مثالی سماج کے بجائے ظلم، دباؤ، اور استبداد کی راہ ہموار کرتا ہے۔
دجال بطور جھوٹا مسیح – سوویت نظام کی طرف سے انسانیت کے مسائل کے حل کا دعویٰ
کمیونزم نے مساوات اور انصاف کا جھوٹا وعدہ کیا، لیکن عملاً ایک سخت گیر، جابرانہ اور غیر انسانی نظام قائم کیا۔ یہ نظام دجال کے "جھوٹے مسیح" ہونے کی علامتوں سے مماثلت رکھتا ہے—ایسا مسیحا جو انسانوں کو نجات کا جھوٹا خواب دکھاتا ہے، مگر انہیں ایک نئے ظلم میں مبتلا کر دیتا ہے۔ سوویت ریاست نے غربت، طبقاتی ناانصافی، اور سرمایہ داری کے خلاف حقیقی عوامی جذبات کو استعمال کرتے ہوئے سوشلسٹ جنت کا فریب پھیلایا۔ اس فریب کے نتیجے میں پرتشدد انقلابات، جبری اجتماعی زراعت، طبقاتی تطہیر، اور مذہب و آزادی اظہار پر بے مثال پابندیاں مسلط کی گئیں۔ سوویت پالیسیوں کا مجموعی اثر یہ تھا کہ انسان کو خدا سے کاٹ کر ریاست کی اطاعت پر مجبور کیا گیا، جو دجالی فتنہ کی عملی شکل تھی۔
دجال کی جنت اور دوزخ – سوویت نظام کے وعدوں اور حقیقت میں تضاد
حدیث میں بیان ہوا ہے کہ دجال جنت کی طرف وہ بلائے گا، درحقیقت جہنم ہوگی؛ اور دجال کی آگ یا جہنم ٹھنڈی اور میٹھے پانی کی مانند ہوگی، اس لیے انسان کو وہی چننا چاہیے۔67
کمیونسٹ نظام نے بھی زمین پر جنت، برابری اور انصاف کا وعدہ کیا تھا۔ مگر عملی طور پر یہ وعدہ ایک خوفناک دھوکہ ثابت ہوا۔ سرمایہ داری کو استحصال کی علامت بنا کر پیش کیا گیا، لیکن خود کمیونسٹ ریاستیں جبر، قحط اور ظلم کی بدترین مثال بن گئیں۔ سوویت یونین میں جبری مزدوری، گولاگ کیمپوں، اور سیاسی تطہیر کے نتیجے میں لاکھوں انسان لقمۂ اجل بنے۔ چین میں " آگے کی جانب ایک عظیم پھلانگ" کے دوران 1958 سے 1962 تک، ریاستی پالیسیوں کے باعث اندازاً ڈیڑھ سے ساڑھے پانچ کروڑ افراد بھوک اور افلاس کا شکار ہو کر ہلاک ہوئے۔
اس کے برعکس، اسی دور میں سرمایہ دارانہ معاشروں نے معاشی ترقی، سائنسی ایجادات، اور فرد کی آزادی میں نمایاں پیش رفت کی۔ یہ تضاد اس حدیث کی علامتی سچائی کو واضح کرتا ہے—دجال کی پیش کردہ جنت دراصل تباہی کا راستہ تھی، جب کہ اس کے مخالف سمت میں نجات کی حقیقی راہیں پوشیدہ تھیں۔
دجال بطور جھوٹا نبی – سوویت نظام کی طرف سے انسانیت کی رہنمائی کا دعویٰ
دجال کو جھوٹا نبی68 کہا گیا ہے کیونکہ وہ جھوٹے طور پر اقتدار، اخلاقی برتری، اور انسانیت کی رہنمائی کا دعویٰ کرتا ہے۔ ایک حقیقی نبی جو الٰہی ہدایت فراہم کرتا ہے، کے برعکس، دجال شیطان کا نمائندہ ہے—بالکل کتاب مکاشفہ کے "جھوٹے نبی" کی مانند، جو شیطان کی آواز میں بولتا ہے۔69 سوویت نظام نے دہریت کو ریاستی پالیسی کا درجہ دیا، اور مذہب کو ’عوام کے لیے افیون‘ قرار دے کر سرکاری طور پر مساجد، گرجا گھروں، اور مذہبی اداروں کو بند کرایا۔ اس نظام نے الحاد اور مادہ پرستی کو فروغ دیا، جو خدا کے انکار اور اخلاقی اقدار کی بے توقیری پر مبنی تھا۔
دجال کا دورانیہ (1917ء–1991ء)
احادیث کے مطابق، دجال کا دورانیہ 40 دن ہوگا، ایک دن ایک سال کے برابر ہوگا، ایک دن ایک مہینے کے برابر، اور ایک دن ایک ہفتہ کے برابر ہوگا اور بقیہ دن عام دنوں کی طرح۔70
بالکل اسی طرح جیسے کتاب دانیال71 اور کتاب مکاشفہ72 میں پیشگوئیوں میں ریاضی کی پہیلیاں پیش کی گئی ہیں، یہ بھی ایک ریاضی کی پہیلی ہے۔ اس پہیلی میں "دن" ادوار کی نمائندگی کرتے ہیں۔ اگر الٹا پڑھا جائے تو پہلا دور ایک ہفتہ، یعنی 7 دن کا، دوسرا دور ایک مہینہ، یعنی 30 دن کا، اور باقی 38 (کل 40 دنوں میں سے) عام دنوں کی طرح، یعنی یہ 38 ادوار کی نمائندگی نہیں کرتے ۔ "ایک دن ایک سال کے برابر ہوگا" کا مطلب یہ ہے کہ ہر دن حقیقی وقت میں ایک سال کے مساوی ہے۔
یہ ادوار—7 سال، 30 سال، اور 38 سال—دجال کے اثرات کے مختلف مراحل کی نمائندگی کرتے ہیں:
- پہلا دور - 7 سال (انقلابی ابتداء – لینن کا دور): 1917 کے فروری انقلاب کے بعد، لینن کی روس واپسی جمادی الثانی 1335 ہجری73 میں ہوئی، جس کے بعد کمیونسٹوں میں سے بالشویک گروہ ایک طاقت کے طور پر اٹھا اور اسی سال انقلاب برپا کیا۔ لینن کی یہ واپسی اس کی وفات، جو جمادی الثانی 1342 ہجری74 میں واقع ہوئی، سے ٹھیک سات سال قبل ہوئی، جو ایک ہفتے کے دورانیے کی علامتی نمائندگی کرتی ہے۔ لینن کے دور میں انقلابی تحریکوں نے زور پکڑا اور سوویت ریاست کی بنیاد رکھی گئی ۔
- دوسرا دور - 30سال (طاقت کا عروج – اسٹالن کا دور): اسی طرح، جمادی الثانی 1372 ہجری75 میں اسٹالن کی موت واقع ہوئی، جو لینن کی وفات کے ٹھیک 30 اسلامی سال بعد کا واقعہ ہے، اور یہ مہینے کے دورانیے کی علامتی نمائندگی کرتی ہے۔ اسٹالن کے دور میں اقتدار کو مضبوط کیا گیا، سوویت یونین کو تیزی سے صنعتی ترقی کی راہ پر گامزن کیا گیا، اور ساتھ ہی عوام پر سخت جبر اور خوف کا نظام نافذ کیا گیا۔ اسٹالن کی حکمرانی میں سوویت ریاست نے ایک عالمی طاقت کا درجہ حاصل کیا۔
- تیسرا دور - 38 سال (زوال کا آغاز اور انجام): اس کے بعد کے ادوار میں سوویت یونین کی قیادت اور کمیونسٹ تحریک کی شدت میں وہ نمایاں پہلو نظر نہیں آیا جو لینن اور اسٹالن کے عہد میں تھا۔ اسٹالن کی موت کے بعد کمیونزم نے بلاشبہ دنیا بھر میں پھیلاؤ حاصل کیا، اور ایشیا، افریقہ اور لاطینی امریکہ میں انقلابات اور حکومتوں پر گہرے اثرات ڈالے۔ مگر اندرونی ناکامیاں، اقتصادی مسائل، قوم پرستی کی تحریکیں، اور سرد جنگ کے بین الاقوامی دباؤ نے سوویت یونین اور کمیونسٹ بلاک کو بتدریج کمزور کر دیا۔ بالآخر، اسٹالن کی موت کے ٹھیک 38 اسلامی سال بعد، جمادی الثانی 1410 ہجری76 میں دیوارِ برلن کے گرنے کے ساتھ ہی کمیونسٹ پارٹی کی اجارہ داری کو ختم کر دیا گیا۔ یہ واقعہ دنیا بھر میں کمیونزم کے زوال کی علامت بن گیا، جس کے بعد سوویت یونین کے ٹوٹنے اور عالمی سطح پر کمیونسٹ تحریک کے کمزور پڑ جانے کا عمل تیزی سے اسٹالن کی موت کے ٹھیک 40 اسلامی سال بعد، جمادی الثانی 1412 ہجری77 میں مکمل ہوا۔
دجال کی تعداد – 30 کمیونسٹ ریاستیں
حدیث کے مطابق، تقریباً تیس دجال ہوں گے، جو نبی ہونے کا دعوی کریں گے۔78
یہ تعداد تقریباً دنیا میں ماضی کی تیس کمیونسٹ ممالک سے مطابقت رکھتی ہے۔ جھوٹے نبیوں کی طرح، کمیونسٹ حکومتوں نے خود کو مطلق سچائی کا علمبردار بنا کر پیش کیا، اپنے نظریے کو انسانیت کے لیے واحد روشنی قرار دیا، اور طاقت کے ذریعے اطاعت مسلط کی۔
اس تناظر میں سوویت یونین کو مرکزی دجال سمجھا گیا ہے۔ کچھ کمیونسٹ ریاستیں مختصر مدت کے لیے قائم رہیں اور بعد میں سابق سوویت یونین میں ضم ہو گئیں، جبکہ بعض میں مخلوط نظام پایا جاتا تھا، جس کی وجہ سے حدیث میں "تقریباً" کا ذکر کیا گیا۔ ان ریاستوں میں سے تمام یا تو تحلیل ہو چکی ہیں یا اصلاحات کے ذریعے اپنے نظریات بدل چکی ہیں۔79
شکل 2: یہ تاریخ میں تمام ریاستوں کا نقشہ ہے جن پر کمیونزم کا اثر رہا ہے (’سرخ‘ رنگ میں دکھائے گئے ممالک وہ ہیں جو یک جماعتی نظام کے ساتھ رسمی کمیونسٹ ریاستیں تھیں؛ دیگر رنگ ان ممالک کی نمائندگی کرتے ہیں جہاں اثر موجود تھا لیکن کثیر الجماعتی نظام قائم رہا)۔ یہ نقشہ دنیا بھر میں کمیونزم کی پہنچ کو ظاہر کرتا ہے۔80
دجال کا دنیا کا سفر
حدیث81 میں دجال کے دنیا کے سفر کو ہوا سے اُڑائی گئی بارش سے تشبیہ دی گئی ہے، جو اس کی تیز رفتاری اور عالمی اثرات کی علامت ہے۔ اسی طرح کمیونزم بھی دنیا کے ہر براعظم میں پھیلا، مگر آخرکار بارش کی طرح تھم کر ختم ہو گیا۔
دجال کی آزمائش سے بڑی کوئی آزمائش نہیں ہوگی
حدیث82 میں دجال کی آزمائش کو سب سے بڑی آزمائش کہا گیا ہے۔ اپنے عروج کے وقت دنیا کی ایک تہائی سے زیادہ آبادی کمیونسٹ حکومتوں کے زیر اثر تھی۔83 یہ انسانی تاریخ میں مذہبی جبر اور آزادیوں کی خلاف ورزی کے وسیع ترین واقعات میں سے ایک تھا، جس نے اربوں افراد کو متاثر کیا۔
مسلمان دجال کی آزمائشوں سے بچنے کے لیے پہاڑوں میں پناہ لیں گے
احادیث84 85 ایک ایسے وقت کا ذکر کرتی ہے جب مسلمان شدید فتنوں، بشمول دجال کے ظہور، کے دوران اپنے دین کی حفاظت کے لیے پہاڑوں اور وادیوں جیسے دور دراز مقامات کی طرف ہجرت کریں گے۔ تاریخی طور پر، ایسے افراد جنہوں نے اپنے مذہبی عقائد کو محفوظ رکھنے کے لیے پناہ لی، ان میں اباکان کے پہاڑوں جیسے علاقوں کے لوگ شامل ہیں86۔
دجال سے حفاظت کے لیے سورہ کہف کی تلاوت
احادیث87 میں سورہ کہف کی تلاوت کی خاص تاکید کی گئی ہے، جو دجال کے فتنے جیسے عظیم امتحانات کے دوران مؤمنوں کے ایمان، عزم اور بصیرت کو تقویت بخشتی ہے۔ یہ ہدایت اس واقعے سے مماثلت رکھتی ہے جو "اصحابِ کہف" کے بارے میں بیان ہوا—جنہوں نے مذہبی جبر اور آزمائش کے دور میں حق پر قائم رہنے کے لیے ہجرت کی اور اللہ کی پناہ میں جا بسے۔
دجال کے واقعات
مندجہ ذیل واقعات حدیث میں تاریخی ترتیب سے بیان ہوئے ہیں:
دجال کے ستر ہزار اصفہان کے یہودی پیروکار – ولنا کے یہودیوں میں سوشلسٹ رجحانات (بیسویں صدی کے اوائل میں)
رسول اللہ ﷺ کی پیش گوئی کے مطابق دجال کے پیروکاروں میں اصفہان کے ستر ہزار یہودی شامل ہوں گے جنہوں نے چادریں (طیالسہ) لی ہوں گے۔88
اصفہان رسول اللہ ﷺ کے دور میں یہودیوں کا ایک معروف علمی و مذہبی مرکز تھا، جہاں کی یہودی برادری تلمودی علم، فقہی بصیرت اور مذہبی قیادت کے حوالے سے خاصی بااثر سمجھی جاتی تھی۔ اگرچہ بیسویں صدی کے آغاز میں اصفہان میں یہودی کمیونٹی موجود تھی، لیکن وہ علمی و فکری لحاظ سے اس حیثیت کی حامل نہ تھی جس کے لیے وہ رسول اللہ ﷺ کے دور میں معروف تھی۔ اسی طرح کی ایک فکری روایت ہمیں بیسویں صدی کے اوائل میں ولنا (ولنیئس) میں بھی نظر آتی ہے، جسے "شمال کا یروشلم" کہا جاتا تھا۔ یہاں کی یہودی برادری مدارس، کتب خانوں، اور فکری مجالس کے مضبوط نظام کے ذریعے علم و ثقافت کا مرکز بنی ہوئی تھی۔ ساتویں صدی کے اصفہان کے یہودی اور بیسویں صدی کے اوائل میں ولنا کے یہودی، اگرچہ مختلف ادوار اور ماحول سے تعلق رکھتے تھے، مگر ایک ملتی جلتی روایت — یعنی علم و دانش، مذہبی قیادت اور فکری سرگرمی — میں شریک نظر آتے ہیں۔ ان دونوں ادوار و مقامات میں مذہبی اور ثقافتی شناخت کے اظہار کا ایک خاص اسلوب تھا — اصفہان میں چادر کی صورت میں، تو ولنا میں یدیش زبان و ادب کی روایت کے طور پر۔ حدیث میں مذکور "چادر" ایسی ہی روایات کا علامتی حوالہ ہے، جو ان کی تہذیبی و دینی وابستگی کی نمائندگی کرتی ہے۔
حدیث میں مذکور "ستر ہزار" کا عدد ولنا میں بیسویں صدی کے آغاز میں موجود یہودی آبادی کی طرف اشارہ ہے، جو 1897ء میں 63,000 تھی اور 1901ء میں بڑھ کر 76,000 ہو گئی۔ اسی دور میں ولنا کی یہودی برادری انقلابی تحریکوں، بالخصوص سوشلسٹ اور مارکسی نظریات میں بھرپور طور پر متحرک تھی۔ خاص طور پر 1897ء میں "جنرل یہودی مزدور پارٹی" کا ولنا میں قیام اور 1905ء کے ناکام روسی انقلاب میں ان کی شرکت قابلِ ذکر ہے، جہاں ولنا کے یہودیوں نے واضح طور پر ایک سوشلسٹ ایجنڈے کے تحت انقلابی سرگرمیوں میں حصہ لیا۔89
مشرق کی سمت سے آنا اور شام اور عراق کے درمیان ظاہر ہونا – سوویت یونین کا مغرب کے مقابل نئی عالمی طاقت کے طور پر ظہور (1922ء)
رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں شام اور عراق کے درمیان کا خطہ بازنطینی اور ساسانی سلطنتوں کے درمیان ایک متنازعہ سرحدی علاقہ تھا، جہاں کسی ایک طاقت کو مستقل اور بلامزاحمت غلبہ حاصل نہ تھا۔ احادیث90 میں دجال کے اسی علاقے میں ظاہر ہونے کا ذکر، دو اہم علامتی مفاہیم رکھتا ہے: اول، یہ کہ دجال کسی موجودہ طاقت کا تسلسل نہیں ہوگا بلکہ ایک نئی اور خودمختار قوت کے طور پر اُبھرے گا؛ دوم، یہ کہ اس کا ظہور مدینہ کے مشرق کی جانب سے ہوگا۔
تاریخی طور پر، سوویت یونین کا بیشتر حصہ مدینہ کے مشرق میں واقع تھا، اور جب یہ 1922ء میں وجود میں آیا، تو دنیا بھر میں اسے مشرق سے اُبھرنے والی ایک نئی طاقت کے طور پر دیکھا گیا — نہ صرف جغرافیائی لحاظ سے بلکہ نظریاتی اعتبار سے بھی۔ کمیونزم، سرمایہ دارانہ مغربی دنیا کے مقابل ایک انقلابی نظام کے طور پر پیش کیا گیا، جس نے مذہب، معاشرت اور سیاست میں ایک نئی جہت متعارف کروائی۔ اس لحاظ سے، دجال کے مشرق سے ظہور کی علامت اور سوویت یونین کا قیام ایک گہری معنوی مماثلت رکھتے ہیں۔
دجال کا رزق دینا اور لوگوں کا ایمان لانا – سوویت یونین کی مصنوعی خوشحالی اور پروپیگنڈا (1928ء–1932ء)
حدیث91 کے مطابق، دجال لوگوں کو بلائے گا، اور وہ اس پر ایمان لے آئیں گے۔ دجال حکم دے گا، آسمان بارش برسائے گا، اور زمین فصلیں اگائے گی اور جانور دودھ سے بھرے ہوں گے۔
یہ منظر سوویت یونین کے ابتدائی دور، خاص طور پر پہلے پانچ سالہ منصوبے (1928–1932)92 کے دوران، علامتی طور پر دجال کے فریب کی عکاسی کرتا ہے—لوگوں نے اس نظام کو مذہبی عقیدے جیسی یقین دہانی کے ساتھ قبول کیا، اور ریاست نے بظاہر معجزاتی نتائج دیے: گونجتے کارخانے، بھرپور فصلیں، اور خوشحالی کا ایک مصنوعی تاثر۔ "اسٹاخانوف تحریک"93 جیسے اقدامات میں مزدوروں کو ناقابلِ یقین اہداف سے بھی آگے بڑھتے ہوئے دکھایا گیا، جس سے یہ تاثر مضبوط ہوا کہ کمیونزم فطرت کو قابو میں لا سکتا ہے اور لامحدود ترقی لا سکتا ہے، بالکل ویسے ہی جیسے دجال بارش اور مال و دولت لا کر لوگوں کو متاثر کرے گا۔
لوگوں کا دجال کی دعوت کو رد کرنا، اور دجال کا ان کو قحط اور مفلسی میں مبتلا کرنا –ہولودومور قحط (1932ء–1933ء)
حدیث94 کے مطابق، دجال ان لوگوں کے پاس جائے گا جو اس کی دعوت کو رد کریں گے، اور وہ قحط، بھوک اور مال و دولت کے نقصان کا شکار ہوں گے، یہاں تک کہ ان کے پاس کوئی مال و دولت باقی نہیں رہے گا۔
یہ منظر یوکرین کے کسانوں سے مشابہت رکھتا ہے جنہوں نے کمیونسٹ اجتماعی زراعت کی مخالفت کی۔ ریاست نے خوراک ضبط کر لی، رسد بند کر دی، اور مزاحمت کو کچل دیا، جس کے نتیجے میں ہولودومور (1932–1933) جیسا انسان ساختہ قحط پیدا ہوا۔ قدرتی قحط نہ ہونے کے باوجود، پالیسیوں نے کھیتوں کو ویران، مویشیوں کو ہلاک، اور عوام کو بھوک کا شکار کر دیا۔ جیسے دجال انکار کرنے والوں کو تباہی میں چھوڑ دیتا ہے، ویسے ہی ریاست نے ان لوگوں کو مکمل بربادی میں چھوڑ دیا، جس کے نتیجے میں پینتیس سے پچاس لاکھ افراد ہلاک ہوئے۔95
دجال کا ویران زمین سے خزانے کو نکالنا – سوویت یونین کا دور دراز علاقوں سے معدنیات کو نکالنا (1933ء کے بعد)
حدیث96 کے مطابق، دجال ایک ویران زمین سے گزرے گا اور کہے گا: "اپنے خزانے نکالو"، تو زمین کے خزانے نکل کر مکھیوں کے جھرمٹ کی طرح اس کے گرد جمع ہو جائیں گے۔
یہ منظر اس دور سے مشابہ ہے جب سوویت یونین نے نظریاتی گرفت مضبوط کرنے کے بعد سائبریا، وسطی ایشیا اور یورال جیسے دور افتادہ اور ویران علاقوں کا رخ کیا، اور وہاں سے قدرتی وسائل نکالنے کا وسیع عمل شروع ہوا۔ خصوصاً دوسرے پانچ سالہ منصوبے (1933–1937) کے دوران، سونا، کوئلہ، تیل اور دیگر معدنیات جبری مشقت اور ریاستی صنعت کاری کے ذریعے حاصل کی گئیں، اور ان قیمتی وسائل کو یوں مرکز میں جمع کیا گیا جیسے دجال کے ایک حکم پر خزانے زمین سے نکل کر اس کے گرد سمٹ آئے ہوں۔ یہ عمل صرف ایک منصوبے تک محدود نہ رہا، بلکہ بعد کے سالوں میں بھی سوویت معیشت کا مرکز و محور یہی وسائل رہے۔
دجال کا مدینہ کے باہر قیام – مسلم دنیا میں سوویت اثر و رسوخ کی ناکامیاں (بیسویں صدی کا دوسرا حصہ)
حدیث میں ذکر ہے کہ دجال مدینہ کے قریب قیام کرے گا لیکن مدینہ میں داخل نہیں ہو سکے گا، کیونکہ فرشتے اس کی حفاظت کریں گے۔ پھر فرشتے اس کا رخ شام کی طرف موڑ دیں گے اور وہیں وہ ہلاک ہو جائے گا97۔
"مدینہ" یہاں صرف ایک شہر نہیں بلکہ پوری مسلم امت کی نمائندگی کرتا ہے، جیسا کہ رسول اللہ ﷺ کے دور میں مدینہ مسلمانوں کی ریاست کا مرکز تھا۔ دوسری جانب، شام اس وقت بازنطینی عیسائیوں کا علاقہ تھا، جو عیسائی دنیا کی علامت سمجھا جاتا تھا۔ اس حدیث کو علامتی طور پر سویت یونین کے مسلم دنیا میں اپنے قدم جمانے میں ناکامی کے بعد اپنے اختتام سے پہلے عیسائی دنیا کی طرف رخ کرنے کے طور پر تعبیر کیا گیا ہے۔
دوسری جنگِ عظیم کے بعد سوویت یونین ایک عالمی طاقت کے طور پر اُبھر کر سامنے آیا اور دنیا بھر میں اپنے اثر و رسوخ کو پھیلایا، جس میں مسلمانوں کو سوویت بلاک میں شامل کرنے اور کمیونزم اختیار کرنے کی کوششیں بھی شامل تھیں۔ تاہم، سوویت حکومت کا دہریہ نظریہ مسلم دنیا کے قدامت پسند اور گہرے مذہبی ماحول سے شدید طور پر متصادم تھا۔ یہی نظریاتی اختلاف مسلمانوں کی دنیا میں کمیونزم کی قبولیت اور اثر و رسوخ کو محدود رکھنے کا باعث بنا۔—اور یوں، دجال مدینہ میں داخل نہ ہو سکا۔
مدینہ میں تین جھٹکے – امتِ مسلمہ کو درپیش عالمی سیاسی و فکری بحران
حدیث 98 کے مطابق مدینہ تین بار لرزے گا، جس کے بعد ہر منافق اور کافر مدینہ سے باہر نکل کر دجال کی طرف چلا جائے گا۔ اس کی تشریح غالباً درج ذیل میں بیان تین تاریخی واقعات ہیں:
1948 میں اسرائیل کا قیام اور نکبہ– 1948 میں اسرائیل کے قیام کے بعد لاکھوں فلسطینی بے دخل کر دیے گئے، جسے نکبہ (یعنی تباہی) کہا جاتا ہے۔ سینکڑوں دیہات تباہ ہوئے اور فلسطینی پناہ گزین بن گئے۔ مسلم دنیا نے اسے مغربی طاقتوں کی پشت پناہی سے ہونے والا بڑا ظلم سمجھا۔ اس سانحے نے عرب معاشروں کو ہلا کر رکھ دیا اور کئی نوجوانوں اور دانشوروں کو کمیونسٹ تحریکوں کی طرف راغب کیا، تاکہ مزاحمت کی راہ اپنائی جا سکے۔
1956 کا سویز بحران – جب 1956 میں برطانیہ، فرانس اور اسرائیل نے سویز نہر پر حملہ کیا، تو مصر نے اس جارحیت کے خلاف سوویت یونین سے سفارتی اور سیاسی مدد حاصل کی۔ یہ پہلا بڑا موقع تھا جب کسی عرب ریاست نے کھلے عام سوویت طاقت پر انحصار کیا۔ اس واقعے نے مشرقِ وسطیٰ میں بائیں بازو کے نظریات کو فروغ دیا، جس کے نتیجے میں عراق اور شام میں بعث پارٹی جیسے قوم پرست اور سوشلسٹ گروہ اقتدار میں آئے، جبکہ جنوبی یمن میں ایک باقاعدہ کمیونسٹ ریاست قائم ہوئی۔
1967 کی چھ روزہ جنگ – 1967 کی چھ روزہ جنگ میں اسرائیل کی فتح نے عرب قوم پرستی کو شدید دھچکا پہنچایا، جس کے نتیجے میں بائیں بازو کے نظریات کی ایک نئی لہر اُٹھی۔ اس کے اثرات سے فلسطینی مزاحمتی تحریکوں میں مارکسی دھڑوں کا ظہور ہوا، جن میں پی ایل ایف پی (پاپولر فرنٹ فار دی لبریشن آف فلسطین) نمایاں تھا، جس نے کھلے عام سوویت حمایت یافتہ انقلابی راستے کو اپنایا۔
بنی تمیم کی دجال کے خلاف مزاحمت – آلِ شیخ اور کمیونزم
رسول اللہ ﷺ نے بنی تمیم قبیلے کے دجال کے خلاف ثابت قدم رہنے کی پیشگوئی فرمائی۔99 یہ قبیلہ، جو تاریخی طور پر سعودی عرب، عراق اور خلیجی ریاستوں میں آباد ہے، بعد ازاں کمیونزم کے خلاف فکری و سماجی مزاحمت کی علامت بن کر سامنے آیا۔ بنی تمیم نے اسلامی روایات، عقائد اور قبائلی اقدار کو فروغ دے کر کمیونزم کے مادّی اور لادینی نظریات کو رد کیا۔ اس پیشگوئی کی اہمیت اس لیے بھی بڑھ جاتی ہے کہ آلِ شیخ—جو شیخ محمد بن عبد الوہاب کی نسل سے ہیں—اسی قبیلے سے تعلق رکھتے تھے۔100 سعودی عرب میں آلِ شیخ کے فکری اثر کے تحت کمیونزم کو نہ صرف لادین بلکہ اسلام کے صریح مخالف تصور کیا گیا۔ یہی وجہ تھی کہ سوویت یونین سے کسی بھی قسم کا اتحاد عقیدے کے منافی اور ناقابل قبول سمجھا گیا۔
دجال کا ایک مسلمان کو قتل اور زندہ کرنا اور دوبارہ قتل نہ کر پانا – سوویت یونین اور افغانستان (1977ء –1992ء)
حدیث 101 میں بیان ہوا ہے کہ ایک مسلمان جو مدینہ سے نکلے گا، اسے دجال کے پاس لے جایا جائے گا، جہاں دجال اسے قتل کرے گا اور دوبارہ زندہ کرے گا، لیکن دجال اس شخص کو دوبارہ قتل کرنے پر قادر نہیں ہوگا۔ ایک اور حدیث102 اس واقعے کی تفصیلات کو بیان کرتی ہے کہ دجال ظاہر ہوگا اور ایک مومن اس کا سامنا کرے گا۔ دجال کے فوجی اسے روک کر اس کی نیت کے بارے میں سوال کریں گے۔ جب وہ دجال کو اپنا رب ماننے سے انکار کرے گا، تو وہ کہیں گے: "اسے قتل کر دو۔" مگر ان میں سے کچھ کہیں گے: "کیا تمہارے آقا (دجال) نے بغیر اس کی اجازت کے کسی کو قتل کرنے سے منع نہیں کیا؟" پھر وہ اسے دجال کے پاس لے جائیں گے۔ مومن اسے پہچان کر پکار اٹھے گا: "یہی دجال ہے!" دجال اس کے قتل کا حکم دے گا، اور اسے آرے سے چیر کر دو ٹکڑے کر دیا جائے گا، پھر دجال اسے زندہ کر دے گا۔ لیکن مومن دوبارہ دجال کو جھٹلائے گا اور اس کے فریب کو ظاہر کرے گا۔ دجال جب اسے دوبارہ قتل نہ کر سکے گا، تو اسے اٹھا کر پھینک دے گا، ایسا محسوس ہوگا جیسے وہ جہنم میں جا رہا ہے، لیکن حقیقت میں وہ جنت میں داخل ہو جائے گا۔ نبی کریم (ﷺ) نے فرمایا کہ وہ اللہ کے نزدیک سب سے عظیم شہید ہوگا۔
یہاں "مدینہ" صرف ایک شہر نہیں، بلکہ پوری مسلم امت کی نمائندگی کرتا ہے، جیسا کہ رسول اللہ ﷺ کے دور میں مدینہ مسلمانوں کی ریاست کا مرکز تھا۔ "مومن" افغانستان کی علامت ہے، جبکہ "دجال" سوویت یونین کی، اور دجال کے فوجی افغانستان میں موجود کمیونسٹ دھڑوں (پرچم اور خلق) کی نمائندگی کرتے ہیں۔ "قتل اور زندہ کرنا" کمیونسٹ انقلابات کی علامت ہے، جنہوں نے پرانے حکومتی اور سماجی ڈھانچوں کو ختم کرکے نئے نظام قائم کیے۔ "زندہ کرنا" ایک نئے کمیونسٹ نظام کے تحت سماجی تنظیم نو کی طرف اشارہ کرتا ہے، جو اکثر انسانی مصائب کی بھاری قیمت پر مکمل ہوا۔ یہ حدیث افغانستان میں کمیونسٹ دھڑوں کے اقتدار، سوویت مداخلت، اور اس کے خلاف مزاحمت کی ایک علامتی تعبیر کے طور پر سمجھی جا سکتی ہے:
- مومن کا دجال کو رب نہ ماننا- 1977 میں کمیونسٹ دھڑے کی بے دخلی: 1970 کی دہائی میں، افغان حکومت میں کمیونسٹ جماعت کا دھڑا "پرچم" شامل تھا۔ تاہم، 1977 میں صدر محمد داؤد خان نے کمیونسٹوں کی بغاوت کی منصوبہ بندی کا پتہ لگا کر انہیں حکومت سے بے دخل کر دیا۔ یہ واقعہ حدیث میں دجال کے محافظوں کا سوال کرنا اور مومن کے دجال کو اپنا رب ماننے سے انکار کے مترادف ہے۔
- دجال کے فوجی کا مومن کو قتل کرنے کی کوشش کرنا- 1978 میں خلق کا انقلاب اور ظلم و جبر: 1978 میں ثور انقلاب کے ذریعے خلق دھڑے نے زبردستی اقتدار پر قبضہ کر لیا، جس میں صدر داؤد خان کو قتل کر دیا گیا۔ یہ حدیث میں دجال کے فوجی کے مومن کو قتل کرنے کی کوشش کی تعبیر ہے- یہ سوویت یونین کے لیے بھی حیران کن تھا، کیونکہ وہ غیر متوقع انقلابات سے عدم استحکام سے بچنا چاہتا تھا۔ سوویت یونین کی یہ پالیسی حدیث کی اس بات سے مطابقت رکھتی ہے کہ "کیا تمہارے آقا (دجال) نے بغیر اس کی اجازت کے کسی کو قتل کرنے سے منع نہیں کیا"۔
- دجال کا مومن کو قتل اور زندہ کرنا- 1979 میں سوویت مداخلت اور خلق کا صفایا: 1979 میں سوویت یونین نے افغانستان پر حملہ کر کے خلق کے حکمران حافظ اللہ امین کو قتل کیا اور پرچم دھڑے کو اقتدار میں بٹھایا۔ یہ تبدیلی آپریشن اسٹورم-333 کے ذریعے ممکن ہوئی، جس میں سوویت فورسز نے خلق قیادت کو قتل کیا، مزاحمت کو کچلا، اور بڑے پیمانے پر قتل و غارت کی۔ یہ حدیث میں مومن کے اوپر تشدد اور قتل اور دوبارہ زندہ ہونے سے مماثلت رکھتا ہے، کیونکہ خلق دھڑے کو تشدد سے ہٹایا گیا اور پرچم دھڑا مسلط کر دیا گیا۔ اگرچہ ماضی میں خلق دھڑا کمیونسٹ نظریات کا حامی تھا، لیکن سوویت یونین کے طرزِ عمل نے اس کے کئی رہنماؤں کو بدظن کر دیا، جس کا خمیازہ انہیں بھاری نقصان کی صورت میں بھگتنا پڑا۔
دجال کا مومن کو دوبارہ قتل نہ کر پانا- مجاہدین کی مزاحمت اور سوویت ناکامی : سوویت یونین نے افغانستان میں اپنی گرفت مضبوط کرنے کی کوشش کی، مگر مجاہدین کی مزاحمت بڑھتی ہی چلی گئی۔ حدیث میں مومن کی گردن کا تانبے میں بدل جانا، جس کی وجہ سے اسے دوبارہ قتل کرنا ممکن نہ رہا، سوویت فوجی کارروائیوں کی شدت اور ناکامی کا اشارہ دیتا ہے۔ 1989 میں سوویت فوجوں کا انخلا حدیث میں دجال کے مومن کو دور پھینکنے کے مترادف ہے۔
مومن کی شہادت- 1992 میں کمیونسٹ حکومت کے خاتمے کے بعد شدید خانہ جنگی: 1992 میں کمیونسٹ حکومت کا خاتمہ اور شدید خانہ جنگی حدیث میں مومن کی شہادت کے مترادف ہے۔ اسی طرح، مومن کا جنت میں داخل ہونا ان مجاہدین کی خلوص نیتی کو ظاہر کرتا ہے، جنہوں نے سوویت یونین کے خلاف جنگ کو الحاد اور ظلم کے خلاف جہاد سمجھا۔
تعبیر سے متعلق سوالات
حضرت تمیم داریؓ کا دجال سے ملنا
ایک حدیث103 کے مطابق حضرت تمیم داریؓ نے نبی کریم ﷺ کو ایک واقعہ سنایا۔ انہوں نے بتایا کہ وہ کچھ لوگوں کے ساتھ سمندر کے سفر پر نکلے اور ایک طوفان کے باعث ایک جزیرے پر جا پہنچے۔ وہاں انہوں نے ایک عجیب و غریب مخلوق "الجساسہ" دیکھی، جس نے انہیں ایک غار میں لے جاکر ایک آدمی سے ملوایا۔ وہ آدمی زنجیروں میں جکڑا ہوا تھا اور اس نے ان سے کئی سوالات کیے اور پھر اپنے بارے میں بتایا کہ وہ "المسیح الدجال" ہے اور اس کے نکلنے کا وقت قریب ہے۔ جب حضرت تمیم داریؓ نے یہ واقعہ نبی کریم ﷺ کو سنایا تو آپ ﷺ نے لوگوں کے سامنے اس کی تصدیق فرمائی اور فرمایا کہ "یہ واقعہ میرے اس بیان کے مطابق ہے جو میں تمہیں پہلے دجال کے بارے میں بتاتا رہا ہوں۔"
حضرت تمیم داریؓ کی یہ حدیث ایک رویا معلوم ہوتی ہے، نہ کہ دجال کے ساتھ حقیقی جسمانی ملاقات۔ اس کی تین بنیادی وجوہات ہیں:
- حضرت تمیم داریؓ کے ساتھ سفر کرنے والے دیگر افراد کی طرف سے اس غیر معمولی واقعہ کی کوئی علیحدہ گواہی کی روایت موجود نہیں ہے، جو اس واقعے کے رویا ہونے کے حق میں دلیل ہے۔
- ایک اور حدیث کے مطابق نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ: "میرے زمانے میں موجود تمام لوگ سو سال کے اندر وفات پا جائیں گے۔"104 اگر دجال اس وقت واقعی جسمانی طور پر موجود ہوتا تو وہ بھی ان میں شامل ہوتا۔
- جس طرح نبی کریم ﷺ نے خود بھی رویا میں دجال کو دیکھا تھا،105 اسی طرح حضرت تمیم داریؓ کا یہ واقعہ بھی ایک رویا تھا۔
ابن صیّاد کا دجال ہونا
کچھ احادیث106 میں ابن صیاد، جو مدینہ کے نواح میں رہنے والا ایک لڑکا تھا، کے دجال ہونے کا امکان ظاہر ہوتا ہے، لیکن ایک واضح حدیث107 میں نبی کریم ﷺ نے فرمایا: "اگر دجال میرے ہوتے نکلے تو میں تمہاری طرف سے اس کا مقابلہ کروں گا۔" یہ بات واضح کرتی ہے کہ چونکہ ابن صیاد نبی ﷺ کے زمانے میں موجود تھا، اس لیے وہ دجال نہیں ہو سکتا۔
مزید یہ کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ دجال مکہ اور مدینہ میں داخل نہیں ہو سکے گا۔108 اس کے برخلاف، تاریخی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ ابن صیاد مدینہ سے مکہ کا سفر کر چکا تھا، جو اس بات کا مزید ثبوت ہے کہ وہ دجال نہیں تھا۔109
نبی کریم ﷺ اور صحابہ کرامؓ کا دجال کو ایک انسان سمجھنا
احادیث مبارکہ سے واضح ہوتا ہے کہ نبی کریم ﷺ اور صحابہ کرامؓ دجال کو ایک انسان تصور کرتے تھے۔ رسول اکرم ﷺ نے دجال کو رؤیا میں دیکھا،110 اور چونکہ انبیاء کے رؤیا وحی کی ایک قسم ہوتے ہیں، وہ ان میں کسی ذاتی تعبیر یا قیاس کو شامل کیے بغیر، جو کچھ دیکھتے ہیں، بعینہٖ اسی طرح بیان فرماتے ہیں۔
انبیاء کے خوابوں کی تعبیر یا تو اللہ تعالیٰ خود اپنے نبی کو عطا فرما دیتا ہے، یا وقت کے ساتھ ساتھ اس کی حقیقت ظاہر ہو جاتی ہے۔ اس کی ایک واضح مثال حضرت یوسف علیہ السلام کا وہ خواب ہے جو انہوں نے بچپن میں دیکھا تھا—جس میں سورج، چاند اور گیارہ ستارے انہیں سجدہ کر رہے تھے۔ برسوں بعد، جب ان کا خاندان مصر میں ان کے سامنے حاضر ہوا، تو حضرت یوسفؑ نے فرمایا: "اے ابا جان! یہ ہے تعبیر میرے اس خواب کی جو میں نے پہلے دیکھا تھا، میرے رب نے اسے سچ کر دکھایا۔"111
اسی اصول پر، نبی کریم ﷺ نے جب دجال کو انسان کی صورت میں رؤیا میں دیکھا،112 تو اسے اسی طرح بیان فرمایا جیسا کہ دیکھا۔ صحابہ کرامؓ نے بھی اس کو ایک انسان ہی سمجھا، کیونکہ نبی ﷺ نے رویا کی کوئی تعبیر پیش نہیں کی۔ یہ امر اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ دجال سے متعلق روایات کی مکمل تفہیم اور ان کی تعبیرات کا علم، ان واقعات کے ظہور کے وقت ہی ممکن ہوگا۔ اس سے قبل، ان کی حقیقی نوعیت محض قیاس یا اجتہاد ہی ہو سکتی ہے۔
حوالہ جات
34) Daniel 7:4: https://www.bible.com/bible/111/dan.7.4.NIV
35) Sahih Muslim 2899a: https://sunnah.com/muslim:2899a
36) اکرم، اے۔ آئی۔، اللہ کی تلوار: خالد بن ولید کی سوانح عمری
37) Sahih Muslim 2897: https://sunnah.com/muslim:2897
38) https://www.britannica.com/place/Amuq
39) https://en.wikipedia.org/wiki/Amik_Valley
40) یاقوت حَمَوی (متوفی 626ھ / 1229ء) "معجم البلدان" (لغاتِ بلاد) میں "العمق" یا "العمیق" کے عنوان کے تحت العَمْق: یہ نام مختلف مقامات کے لیے استعمال ہوتا ہے، جن میں قدیم وہ ہے جو انطاکیہ کے قریب واقع ہے۔
41) "تھامس ایسبرج، پہلی صلیبی جنگ: ایک نئی تاریخ (2004)" – یہ نوٹ کرتے ہیں کہ 10 اکتوبر 1097 تک صلیبی لشکر "ماراش پہنچ چکا تھا، جو الْعَمَاق کے سرے پر واقع ہے... [یہی] راستہ انطاکیہ کی طرف جاتا تھا"، جس کے بعد وہ الْعَمَاق میں نیچے کی طرف بڑھے۔
42) ابن الأثير، الكامل في التاريخ، جلد 8، المكتبة الشاملة
43) ابن الأثير، الكامل في التاريخ، جلد 8، المكتبة الشاملة
44) ابن الأثير، الكامل في التاريخ، جلد 8، المكتبة الشاملة
45) Sahih Muslim 2897: https://sunnah.com/muslim:2897
46) Sahih Muslim 2897: https://sunnah.com/muslim:2897
47) Sahih Muslim 2899a: https://sunnah.com/muslim:2899a
48) مثلاً سول اللہ ﷺ کو "امین" اور "صادق" کہا گیا ہے، اور انہیں سفید گھوڑے پر سوار دکھایا گیا ہے: Revelation 19:11 https://www.bible.com/bible/111/REV.19.11.NIV:
49) یوسف کمال تنگیرشینک – ماسکو معاہدے (1921) میں ترک وفد کے سربراہ، سوویت حمایت حاصل کی۔
رضا نور – ماسکو معاہدہ (1921) اور کارس معاہدہ (1921) کے اہم مذاکرات کار، سوویتوں کے ساتھ سرحدی معاملات طے کیے۔
علی فواد جبیسوئے – 1921 میں سوویت روس کے پہلے ترک سفیر، باضابطہ سفارتی تعلقات قائم کیے۔
کاظم کارابیکر – مشرقی محاذ پر سوویت یونین کے ساتھ فوجی مذاکرات کے ماہر۔
راوف اوربے – سفارتی مذاکرات کے ذریعے سوویت فوجی اور مالی امداد کے حصول میں شامل۔
بیکر سامی کندوح – انقرہ حکومت کے پہلے وزیر خارجہ، بولشویکوں کے ساتھ ابتدائی سفارتی روابط قائم کیے۔
احمد مختار بے – ماسکو مذاکرات میں نمایاں کردار ادا کیا، رضا نور اور یوسف کمال کے ساتھ۔
خلیل پاشا (خلیل کُت) – غیر رسمی سفیر کے طور پر کام کیا، ہتھیاروں کی فراہمی اور غیر رسمی مذاکرات میں مدد فراہم کی۔
محمود جلال بایار – بولشویکوں کے ساتھ معاشی مذاکرات میں مصروف رہے، تجارت اور مالی تعاون پر توجہ دی۔
مصطفی کمال اتاترک – اگرچہ براہ راست مذاکرات میں شامل نہیں تھے، مگر سوویتوں کے ساتھ سفارتی حکمت عملی کی رہنمائی میں اہم کردار ادا کیا۔
50) https://en.wikipedia.org/wiki/Treaty_of_Moscow_(1921)
51) Sahih Muslim 2920a: https://sunnah.com/muslim:2920a
52) جیسے یہودی
53) مزید برآں، حدیث میں "بنی اسرائیل" کے بجائے "بنی اسحاق" کی اصطلاح کا استعمال اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ یہاں "بنی اسحاق" ایک علامتی نسبت کے طور پر بیان کیا گیا ہے نہ کہ محض نسلی یا تاریخی مفہوم میں۔ اگر اس سے مراد یہودی ہوتے تو "بنی اسرائیل" کا واضح استعمال ہوتا، کیونکہ یہودی نہ صرف نبی کریم ﷺ کے زمانے میں موجود تھے بلکہ آج بھی دنیا میں موجود ہیں۔
54) 1917ء کے قفقازی سالنامے کے مطابق باکو شہر میں 69,366 شیعہ مسلمان آباد تھے:
https://en.wikipedia.org/wiki/Baku_gradonachalstvo
55) https://bakuresearchinstitute.org/en/the-liberation-of-baku-a-retrospective-view-after-a-century
56) Roland P. Minez, At the Limit of Complexity: British Military Operations in North Persia and the Caucasus 1918
57) https://milwaukeearmenians.com/2015/09/11/massacre-of-baku
58) https://axc.preslib.az/en/page/e7tUwdDSIh
59) یہ وہی خبر ہے جسے ایک اور حدیث میں شیطان کی پکار "مسیح تمہارے گھروں میں داخل ہو گیا ہے!" کے ذریعے بیان کیا گیا ہے:
Sahih Muslim 2897: https://sunnah.com/muslim:2897
60) Sahih Muslim 2900: https://sunnah.com/muslim:2900
61) Revelation 13:1–10: https://www.bible.com/bible/111/REV.13.1-10.NIV
62) Sahih Bukhari 1555: https://sunnah.com/bukhari:1555
63) Sahih Muslim 2934b: https://sunnah.com/muslim:2934b
64) فروز، پال۔ "سوویت روس میں جبری سیکولرائزیشن: ایک دہری اجارہ داری کیوں ناکام ہوئی؟" جرنل برائے سائنسی مطالعۂ دین، جلد 43، شمارہ 1 (مارچ 2004): صفحات 35–50۔ شائع کردہ: وائیلی۔
65) الحاد کی تاریخ:
https://doi.org/10.1017/9781108562324.047
66) Sahih Muslim 169b: https://sunnah.com/muslim:169b
67) Sahih Bukhari 3450, 3451, 3452: https://sunnah.com/bukhari:3450
68) Sahih Bukhari 7121: https://sunnah.com/bukhari:7121
69) Revelation 19:20 : https://www.bible.com/bible/111/REV.19.20.NIV
70) Sahih Muslim 2937a: https://sunnah.com/muslim:2937a
71) Daniel 9:24-27: https://www.bible.com/bible/111/dan.9.24-27.NIV
72) Revelation 13:18: https://www.bible.com/bible/111/REV.13.18.NIV
73) اسلامی مہینہ، ترکی کے اسلامی کیلنڈر کنورٹر کے مطابق، 16 اپریل 1917کے حساب سے نکالا گیا:
https://webspace.science.uu.nl/~gent0113/islam/diyanetcalendar.htm
74) 21 جنوری 1924 کے مطابق
75) 5 مارچ 1953 کے مطابق
76) سوویت یونین کی کمیونسٹ پارٹی کی مرکزی کمیٹی نے 23 جنوری 1990 کو پارٹی کی طاقت پر اجارہ داری ختم کرنے کے لیے ووٹ دیا، جس سے کثیر الجماعتی نظام کے قیام کی راہ ہموار ہوئی۔
77) 26 دسمبر 1991 کے مطابق
78) Sahih Bukhari 7121: https://sunnah.com/bukhari:7121
79) چین (پیپلز ریپبلک آف چائنا) – 1949 سے 1978-1980 کی دہائی تک (ڈینگ ژیاوپنگ کے تحت اقتصادی اصلاحات)۔
کیوبا – 1959 سے 2002 (نظریاتی زور مارتی (خوسے مارتی) اور کاسٹرو ازم پر دیا گیا)۔
ویتنام (سوشلسٹ ریپبلک آف ویتنام) – 1976 سے 1986 تک Đổi Mới) اصلاحات(۔
لاوس (لاؤ پیپلز ڈیموکریٹک ریپبلک) – 1975 سے 1986 تک (نیو اکنامک میکانزم اصلاحات)۔
شمالی کوریا (ڈیموکریٹک پیپلز ریپبلک آف کوریا) – 1948 سے 1992 (جوچے نظریہ سے بدل دیا گیا)۔
سوویت یونین (یو ایس ایس آر) – 1922 سے 1991 تک (پیریستروئیکا اور زوال)۔
مشرقی جرمنی (جرمن ڈیموکریٹک ریپبلک) – 1949 سے 1990 تک (مغربی جرمنی کے ساتھ دوبارہ اتحاد)۔
پولینڈ (پیپلز ریپبلک آف پولینڈ) – 1947 سے 1989 تک (جمہوریت کی طرف منتقلی)۔
چیکوسلوواکیہ (چیکوسلوواک سوشلسٹ ریپبلک) – 1948 سے 1989 تک (ویلویٹ انقلاب)۔
ہنگری (ہنگری کی عوامی جمہوریہ) – 1949 سے 1989 تک (جمہوریت کی طرف منتقلی)۔
رومانیہ (سوشلسٹ ریپبلک آف رومانیہ) – 1947 سے 1989 تک (چاؤشسکو کے زوال)۔
بلغاریہ (پیپلز ریپبلک آف بلغاریہ) – 1946 سے 1990 تک (جمہوریت کی طرف منتقلی)۔
البانیا (پیپلز سوشلسٹ ریپبلک آف البانیا) – 1946 سے 1992 تک (جمہوریت کی طرف منتقلی)۔
یوگوسلاویہ (سوشلسٹ فیڈرل ریپبلک آف یوگوسلاویہ) – 1943 سے 1992 تک (آزاد ریاستوں میں تقسیم)۔
منگولیا (منگولین پیپلز ریپبلک) – 1924 سے 1990 تک (جمہوری اصلاحات)۔
جنوبی یمن (پیپلز ڈیموکریٹک ریپبلک آف یمن) – 1967 سے 1990 تک (شمالی یمن کے ساتھ اتحاد)۔
افغانستان (ڈیموکریٹک ریپبلک آف افغانستان) – 1978 سے 1992 تک (کمیونسٹ حکومت کا خاتمہ)۔
انگولا (پیپلز ریپبلک آف انگولا) – 1975 سے 1991 تک (کثیر جماعتی نظام اور اقتصادی اصلاحات)۔
موزمبیق (پیپلز ریپبلک آف موزمبیق) – 1975 سے 1990 تک (کثیر جماعتی جمہوریت)۔
بینن (پیپلز ریپبلک آف بینن) – 1975 سے 1990 تک (جمہوری اصلاحات)۔
کانگو-برازاویلے (پیپلز ریپبلک آف کانگو) – 1969 سے 1991 تک (جمہوریت کی طرف منتقلی)۔
ایتھوپیا (ڈیرگ حکومت، بعد میں پیپلز ڈیموکریٹک ریپبلک آف ایتھوپیا) – 1974 سے 1991 تک (ڈیرگ حکومت کا خاتمہ)۔
کمبوڈیا (ڈیموکریٹک کمپوچیا، خمیر روج کے تحت) – 1975 سے 1979 تک (ویتنامی حملے کے بعد زوال اور پیپلز ریپبلک آف کمپوچیا کا قیام)۔
کمپوچیا (پیپلز ریپبلک آف کمپوچیا) – 1979 سے 1993 تک (اقوام متحدہ کے زیرنگرانی امن معاہدوں کے بعد جمہوریت کی طرف منتقلی)۔
تانو تووا (تووان پیپلز ریپبلک) – 1921 سے 1944 تک (سوویت یونین کے ذریعہ الحاق)۔
بیرونی منگولیا (1924 سے قبل منگولین پیپلز ریپبلک) – 1921 سے 1924 تک (منگولین پیپلز ریپبلک کا پیش خیمہ)۔
صومالیہ (صومالی ڈیموکریٹک ریپبلک) – 1969 سے 1991 تک (ناکام ریاست بننے کے بعد زوال)۔
نکاراگوا (ساندنیستا حکومت کے تحت) – 1979 سے 1990 تک (1990 کے انتخابات میں امریکی حمایت یافتہ اپوزیشن سے شکست کے بعد اقتدار کا خاتمہ)۔
گرینیڈا (ماریس بشپ کی نیو جیول موومنٹ کے تحت) – 1979 سے 1983 تک (داخلی تنازعات کے بعد امریکی فوجی مداخلت سے خاتمہ)۔
چلی (سالواڈور آلینڈے کے تحت پاپولر یونٹی) – 1970 سے 1973 تک (اگسٹو پنوشے کی قیادت میں امریکی حمایت یافتہ فوجی بغاوت کے ذریعے حکومت کا خاتمہ)۔
80) https://en.wikipedia.org/wiki/List_of_communist_states#/media/File:Communist_Block.svg
81) Sahih Muslim 2937a: https://sunnah.com/muslim:2937a
82) Sahih Muslim 2946a: https://sunnah.com/muslim:2946a
83) Princeton University Press, The Rise and Fall of Communism, accessed at: https://assets.press.princeton.edu/chapters/s11095.pdf
84) Sahih Bukhari 19: https://sunnah.com/bukhari:19
85) Sahih Muslim 2945a: https://sunnah.com/muslim:2945a
86) https://en.wikipedia.org/wiki/Lykov_family
87) Sahih Muslim 809a: https://sunnah.com/muslim:809
88) Sahih Muslim 2944: https://sunnah.com/muslim:2944
89) https://encyclopedia.yivo.org/article/982
90) Sahih Muslim 2937a: https://sunnah.com/muslim:2937a
91) Sahih Muslim 2937a: https://sunnah.com/muslim:2937a
92) https://en.wikipedia.org/wiki/First_five-year_plan_(Soviet_Union)
93) https://en.wikipedia.org/wiki/Stakhanovite_movement
94) Sahih Muslim 2937a: https://sunnah.com/muslim:2937a
95) https://en.wikipedia.org/wiki/Holodomor
96) Sahih Muslim 2937a: https://sunnah.com/muslim:2937a
97) Sahih Muslim 1380: https://sunnah.com/muslim:1380
98) Sahih Bukhari 7124: https://sunnah.com/bukhari:7124
99) Bukhari 2543: https://sunnah.com/bukhari:2543
100) https://en.wikipedia.org/wiki/Muhammad_ibn_Abd_al-Wahhab
101) Sahih Bukhari 7132: https://sunnah.com/bukhari:7132
102) Sahih Muslim 2938c https://sunnah.com/muslim:2938c
103) Sahih Muslim 2942a: https://sunnah.com/muslim:2942a
104) Sahih Muslim 2538a: https://sunnah.com/muslim/44/310
105) Sahih Bukhari 5902: https://sunnah.com/bukhari:5902
106) Sahih Muslim 2930a: https://sunnah.com/muslim:2930a
107) Sahih Muslim 2937a: https://sunnah.com/muslim:2937a
108) Sahih Muslim 2943a: https://sunnah.com/muslim:2943a
109) Sahih Muslim 2927a: https://sunnah.com/muslim:2927a
110) Sahih Bukhari 5902: https://sunnah.com/bukhari:5902
111) Quran 12:100: https://www.quran.com/12/100
112) Sahih Bukhari 5902: https://sunnah.com/bukhari:5902
(جاری)