حدیث میں بیان کی گئی علاماتِ قیامت کی تاریخی واقعات سے ہم آہنگی، بائیبل اور قرآن کی روشنی میں (۵)

دھواں

حدیث میں دھوئیں کو قیامت کی بڑی نشانیوں میں سے ایک قرار دیا گیا ہے، لیکن اس کے بارے میں مزید وضاحت موجود نہیں ہے۔ دیگر مذہبی صحیفوں میں بھی اس کا واضح ذکر نہیں ملتا۔ ایک بڑی نشانی ہونے کے لیے، یہ واقعہ عالمی سطح پر نمایاں ہونا چاہیے۔

صنعتی انقلاب کے بعد انسانی سرگرمیوں میں غیر معمولی اضافے نے نامیاتی ایندھن کے بے تحاشا استعمال کو فروغ دیا، جو دھوئیں اور فضائی آلودگی کے بڑے پیمانے پر پھیلاؤ کا سبب بنے۔ یہ انقلاب انسانی تاریخ میں ایک اہم موڑ تھا، جس نے ماحولیات پر گہرے اثرات مرتب کیے۔

دھواں، سموگ، اور فضائی آلودگی آج کے شہروں کا ایک تلخ حصہ ہیں، جہاں یہ صحت کے مسائل، ماحولیاتی خرابی، اور معیارِ زندگی میں کمی کا باعث بن رہے ہیں۔ یہ مظاہر عالمی سطح پر اربوں انسانوں کو متاثر کر رہے ہیں اور ممکنہ طور پر حدیث میں بیان کردہ دھوئیں کی علامت کے ساتھ ہم آہنگ ہیں۔

مشرق، مغرب، اور جزیرہ عرب میں زمین کا دھنس جانا

حدیث میں قیامت کی تین بڑی نشانیوں کے طور پر مشرق، مغرب اور جزیرہ عرب میں زمین کے دھنسنے کا ذکر کیا گیا ہے۔ ان نشانیوں کی تفصیلات محدود ہیں، لیکن انہیں صرف زمین کے دھنسنے تک محدود کرنے کے بجائے، ان کا مفہوم سماجی اور سیاسی بحرانوں کی طرف بھی اشارہ کر سکتا ہے۔ یہ بحران ایسے حالات کی نمائندگی کرتے ہیں، جہاں کوئی قوم داخلی تنازعات اور خانہ جنگی کی وجہ سے اپنے ہی وزن تلے دب کر تباہ ہو جاتی ہے۔

کتاب مکاشفہ میں سات مہریں، سات نرسنگے اور سات غضب کے پیالے تاریخی واقعات کی نمائندگی کرتے ہیں، جو شدت میں بتدریج بڑھتے ہیں۔ یہ واقعات حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بعد سے شروع ہو کر حضرت محمد ﷺ کے زمانے میں اپنے عروج پر پہنچے۔ ساتویں گرہ کھولنے کے بعد خاموشی ہو جاتی ہے اور ساتواں نرسنگا خدا کی بادشاہت کے اعلان کی علامت ہے196، جو ساتویں صدی میں حضرت محمد ﷺ اور ان کے صحابہ کے ذریعے مسلمانوں کی ریاست کے قیام کی نمائندگی کرتا ہے۔ اسی طرح، ساتواں غضب کا پیالہ197 زلزلوں، شہروں، پہاڑوں اور جزیروں کے خاتمے کا ذکر کرتا ہے، جو روم اور فارس کی حکمران تہذیبوں کے زوال کی عکاسی کرتا ہے۔

چونکہ سماجی اور سیاسی ڈھانچوں کے خاتمے کی قدرتی حادثات سے تشبیہ کی مثال موجود ہے، اس لئے یہ پیش گوئیاں ارضیاتی حادثات کے بجائے سماجی اور سیاسی بحرانوں کی عکاسی کر سکتی ہیں، جہاں قومیں اندرونی تنازعات کے باعث تباہی کا شکار ہو جاتی ہیں۔ اس تناظر میں، ان پیش گوئیوں کے تین ممکنہ مظاہر درج ذیل ہیں:

مشرق (عراق–2006)

عراق 2003 میں امریکی حملے اور 2006 میں خانہ جنگی کے دوران سماجی اور سیاسی انتشار کا شکار ہوا۔ ان واقعات سے نہ صرف سیاسی ڈھانچہ ٹوٹا بلکہ تعلیم، معیشت، صحت، زراعت، اور دیگر بنیادی شعبے بھی تباہ ہو گئے ، جو حدیث میں "زمین کا دھنس جانے" کے بیان سے مشابہت رکھتا ہے۔

مغرب (لیبیا–2011)

عرب میں مغرب کو تاریخی طور پر شمالی افریقہ سے جوڑا جاتا ہے، اور یہ 2011 کے عرب بہار کے دوران لیبیا کے زوال کے ساتھ میل کھاتا ہے۔ طویل خانہ جنگی اور سیاسی عدم استحکام سے لیبیا میں نہ صرف سیاسی ادارے منہدم ہوئے بلکہ ملک کی اقتصادی پیداوار، تیل کی صنعت، تعلیمی نظام، اور دیگر شعبہ جات بھی مفلوج ہو گئے۔

جزیرہ عرب (یمن–2014)

یمن تاریخی طور پر عرب کا حصہ نہیں ہے البتہ، جزیرہ نما عرب198 کا حصہ ہے۔ یمن 2011 کے عرب بہار کے بعد بڑھتی ہوئی شورش اور 2014 میں مکمل خانہ جنگی کا شکار ہوا۔ یمن میں 2014 میں خانہ جنگی کے آغاز کے بعد سے بدترین انسانی بحران جاری ہے۔ یہاں نہ صرف حکمرانی کا فقدان ہے بلکہ قحط، بے روزگاری، صحت کے نظام کی تباہی، اور تعلیمی اداروں کی بندش جیسے مسائل نے زمین کو بظاہر "بنجر" بنا دیا ہے—ایک ایسا خطہ جو اب نہ صرف سیاسی بلکہ عملی طور پر "غیر پیداواری" ہو چکا ہے۔

ان تینوں مقامات پر "زمین کا دھنس جانا" زندگی کے ہر شعبے میں ہمہ جہتی ناکامی میں ظاہر ہوا ہے۔ عراق کے انہدام کے بعد، لیبیا اور پھر یمن میں عدم استحکام پیدا ہوا، جو حدیث میں بیان کردہ زمین کے دھنس جانے کی نشانیوں کے ساتھ مطابقت رکھتا ہے۔

یمن سے آگ

حدیث کے مطابق، جزیرہ نما عرب میں زمین دھنسنے کے واقعے کے بعد یمن، خصوصاً عدن کے نچلے علاقوں سے ایک آگ نکلے گی،199 جو لوگوں کو محشر — یعنی جمع ہونے کی آخری جگہ — کی جانب لے جائے گی۔200 یہ آگ لوگوں کے ساتھ ساتھ چلے گی؛ جہاں وہ قیام کریں گے، یہ بھی وہیں رکے گی۔201

حدیث میں بیان کردہ یہ نشانی غالباً ابھی وقوع پذیر نہیں ہوئی۔ دیگر نشانیوں کی طرح، اس کا مقصد پیشگوئی نہیں۔ ان نشانیوں کو مستقبل کے بارے میں قیاس آرائی کے بجائے موجودہ یا ماضی کے تناظر میں سمجھنا چاہیے-

قیامت کی نشانیاں: دیگر اہم حوالہ جات

فتنہ اول سے متعلق احادیث

صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں متعدد احادیث ایسی موجود ہیں جو فتنہ اول سے متعلق پیش گوئیاں بیان کرتی ہیں۔ مثال کے طور پر ایک روایت میں نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ میں مدینہ کے گھروں کے درمیان فتنوں کے گرنے کی جگہیں اسی طرح دیکھ رہا ہوں جیسے بارش کے قطرے گرتے ہیں۔202 یہ مضمون ان تمام احادیث کا مکمل احاطہ نہیں کرتا، تاہم ان میں سے چند اہم اور منتخب احادیث ذیل میں پیش کی جا رہی ہیں۔

دریائے فرات سے سونے کے پہاڑ کا ظہور – عراق کی دولت اور و سائل

رسول اللہ ﷺ کی ایک حدیث میں پیش گوئی کی گئی ہے کہ عنقریب دریائے فرات ایک سونے کے پہاڑ کو ظاہر کرے گا، اور جب لوگ اس کے بارے میں سنیں گے تو وہ اس کی طرف دوڑ پڑیں گے203۔ لیکن جو لوگ اس خزانے کے قریب موجود ہوں گے، وہ کہیں گے: اگر ہم نے ان لوگوں کو (اس خزانے میں سے) لینے دیا تو یہ سارا لے جائیں گے۔ چنانچہ وہ آپس میں جنگ کریں گے اور سو میں سے ننانوے افراد مارے جائیں گے۔ آپ ﷺ نے خبردار فرمایا کہ جو بھی اُس وقت موجود ہو، اُسے اس خزانے میں سے کچھ نہیں لینا چاہیے۔ 204

کتابِ مکاشفہ میں ذکر کردہ " خدا کے چھٹے غضب کے پیالے"205 کے نتیجے میں "فرات کے خشک ہونے" کی پیش گوئی ملتی ہے، تاکہ "مشرق کے بادشاہ" آسانی سے اس سے گزر سکیں۔206 یہ منظرنامہ بازنطینی-ساسانی جنگوں (602-628ء) کی علامت ہے، جن میں ساسانی افواج دریائے فرات عبور کرکے بازنطینی علاقوں پر حملہ آور ہوئیں۔ یہاں "فرات کے خشک ہونے" سے مراد حقیقت میں ایک بڑی رکاوٹ کا خاتمہ ہے، جو ساسانیوں کے لیے فوجی پیش قدمی کو آسان بنانے کی علامت بنتا ہے۔ ان جنگوں کے نتیجے میں دونوں سلطنتیں شدید نقصان اٹھانے کے بعد کمزور ہو گئیں، جس نے مسلمانوں کی فتح کی راہ ہموار کی۔

اسی تناظر میں، دریائے فرات سے "سونے کے پہاڑ" کا ظہور ساسانی سلطنت کی بے پناہ دولت، وسائل اور زرخیز زمینوں کا مظہر ہے، جس کا ظہور مسلمانوں کے ہاتھوں ساسانی سلطنت کی حتمی شکست اور اس کے نتیجے میں حاصل ہونے والے مالِ غنیمت کی صورت میں ہوا۔ یہ تعبیر تین اہم وجوہات پر مبنی ہے:

پہلی یہ کہ "سونے کا پہاڑ" ایسی دولت یا خزانے کی طرف اشارہ کرتا ہے جو آسانی سے حاصل کیا جا سکتا ہو، بالکل اسی طرح جیسے جنگ کے بعد مالِ غنیمت کو قبضے میں لینا ممکن ہوتا ہے۔ ساسانی سلطنت کے زوال کے بعد، اس کے وسائل تیزی سے مسلمانوں کے ہاتھ آ گئے، جس نے اسے "سونے کا پہاڑ" بننے کی تعبیر دی۔

دوسری یہ کہ فتنہ اوّل میں ہونے والی مہلک جنگیں بنیادی طور پر سیاسی اور معاشی تنازعات کی شکل میں رونما ہوئیں ۔ چونکہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے بعد قیادت کا حق قریش کو سونپا تھا،207 اِس لیے بنو اُمیہ اور قریش کے وہ بااثر سردار، جنھیں قبائلی نظم، خاندانی اثر و رسوخ اور ابتدائی مہاجرین کی اکثریتی حمایت حاصل تھی، سب سے پہلے یہ دولت اور اقتدار حاصل کرنے والے بنے۔ اِسی وجہ سے اُنھیں اِس حدیث میں "خزانے کے قریب" موجود افراد کی علامت کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔ اس کے برعکس، "خزانے کی طرف لپکنے والوں" میں عراق و مصر کے سپاہی، کوفہ کے ناراض جنگجو، اور نو مسلموں کی ایک بڑی تعداد شامل تھی ۔ یہ گروہ خلافت میں مساوی سیاسی و مالی شرکت کے خواہاں تھے اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی پالیسیوں سے نالاں تھے۔ بعد ازاں، انہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت کی حمایت اختیار کر لی ۔ خصوصاً کوفہ کے جنگجوؤں کی حمایت کو پیش نظر رکھتے ہوئے ، حضرت علی رضی اللہ عنہ نے مدینہ سے کوفہ ہجرت کی اور وہیں اپنی حکومت کا مرکز قائم فرمایا ۔

تیسری یہ کہ فتنہ اول کی دو بڑی جنگیں—جنگِ جمل (656ء) اور جنگِ صفین (657ء)— دریائے فرات کے قرب و جوار میں لڑی گئیں۔ یہ خونریز جنگیں اسلامی تاریخ کے سنگین ترین تصادم میں شمار ہوتی ہیں۔ رسول اللہ ﷺ کی پیش گوئی "سو میں سے ننانوے افراد مارے جائیں گے" ان جنگوں میں ہونے والے بے پناہ جانی نقصان کی واضح تصویر کشی کرتی ہے۔ مثال کے طور پر، جنگِ جمل میں تقریباً 10,000 سے 20,000 افراد شہید ہوئے، جبکہ جنگِ صفین میں شہادتوں کی تعداد 70,000 تک جا پہنچی۔

یہ تمام حالات اس حدیث کی علامتی تعبیر کے طور پر دیکھے جا سکتے ہیں، جس میں "خزانے کے قریب " موجود افراد اور " خزانے کی طرف دوڑنے والوں" کے درمیان پیدا ہونے والے خوف اور بے یقینی نے سیاسی اور اقتصادی تنازعات کو جنم دیا، جہاں "خزانے کے قریب" لوگ سوچنے لگے کہ "اگر ہم دوسروں کو اس میں سے لینے دیں، تو وہ سب کچھ لے جائیں گے"، اور یہی اندیشہ شدید کشمکش کا باعث بنا۔ ان واقعات کی شدت اور نتائج نبی کریم ﷺ کی تنبیہات اور پیش گوئیوں کے عین مطابق ثابت ہوئے۔

شیطان کے سینگ کا ظہور — نجد کا کردار

احادیث میں نبی کریم ﷺ نے شام اور یمن کے لیے دعائے برکت فرمائی، جبکہ نجد کے بارے میں فرمایا کہ وہاں زلزلے اور فتنے ظاہر ہوں گے،208 اور یہ کہ شیطان کا سینگ اسی جانب سے طلوع ہوگا — یعنی مدینہ کے مشرق کی سمت سے، جہاں نجد واقع ہے۔209

نجد کے قبائل، جو اپنی جنگی صلاحیتوں کے لیے مشہور تھے، کو خلافتِ راشدہ کے دور میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عراق کی سرحدوں پر بطور فوجی آبادکار آباد کیا، تاکہ اسلامی فتوحات میں ان کی مہارتوں سے فائدہ اٹھایا جا سکے۔ تاہم، اسی خطے کے بعض گروہوں کا کردار فتنوں میں نمایاں رہا۔ جیسا کہ:

مسیلمہ کذاب جیسے جھوٹے مدعیانِ نبوت کی حمایت، جو کہ یمامہ (نجد کا ایک علاقہ) سے تعلق رکھتاتھا؛

کوفہ، جو عراق میں واقع تھا اور جہاں نجد سے تعلق رکھنے والے افراد کی بڑی تعداد آباد ہوئی تھی، وہیں سے اٹھنے والے گروہوں کا حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت کے خلاف بغاوت اور بعد میں جنگِ جمل اور جنگِ صفین جیسے تنازعات میں نمایاں اور فعال کردار ؛ اور

بعد ازاں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت سے علیحدگی اختیار کر کے خوارج کی صورت میں نمودار ہونا۔

ان تمام تاریخی واقعات کو نبی کریم ﷺ کی احادیث میں کی گئی تنبیہات اور پیش گوئیوں کا فتنہ اول میں عملی ظہور سمجھا جا سکتا ہے، جن میں نجد کو فتنوں کا مرکز اور "قرن الشیطان" کی سرزمین قرار دیا گیا تھا۔

ماضی میں موت کی تمنا — ندامت اور فتنہ کے سائے میں

ایک حدیث میں نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ ایسا وقت آئے گا کہ ایک شخص، دوسرے کی قبر کے پاس سے گزرتے ہوئے کہے گا: کاش میں اس کی جگہ ہوتا۔210

یہ تمنا در حقیقت محض موت کی خواہش نہیں بلکہ شدید ندامت، اضطراب، اور فتنہ و فساد سے نجات کی آرزو کو ظاہر کرتی ہے۔ فتنہ اول میں ایسے واقعات حقیقتاً پیش آئے، جن میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو فتنہ اول کے معرکوں کے بعد شدید رنج و افسوس لاحق ہوا۔ مثال کے طور پر، جب حضرت علی رضی اللہ عنہ، جنگ جمل کے بعد حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچے — جو اس وقت شہید ہو چکے تھے — تو آپؓ نے سواری سے اتر کر اُن کا چہرہ صاف کیا، ان پر رحمت کی دعا کی اور فرمایا:211

"کاش میں اس دن سے بیس سال پہلے وفات پا چکا ہوتا۔"

یہ جملہ حضرت علیؓ کے دل میں موجود درد، ندامت، اور فتنہ سے نفرت کا عکاس ہے — ایک ایسا احساس جو محض سچے اور مخلص لوگوں کے دلوں میں جنم لیتا ہے۔

فتنہ دوم سے متعلق احادیث

فتنہ دوم سے متعلق چند اہم احادیث کا انتخاب ذیل میں درج ہے۔

صحابہ میں سے آخری حکمران — عبد اللہ بن الزبیر رضی اللہ عنہ

کئی احادیث میں رسول اللہ ﷺ نے ان واقعات کا ذکر فرمایا ہے جو عبد اللہ بن الزبیر رضی اللہ عنہ کی زندگی اور حالات سے بہت مشابہت رکھتے ہیں، جو صحابہ کرام (رضی اللہ عنہم) میں سے آخری خلیفہ تھے۔ ذیل میں یہ احادیث زمانی ترتیب کے ساتھ پیش کی جا رہی ہیں، اور ہر ایک عبد اللہ بن الزبیر رضی اللہ عنہ کی زندگی کے اہم مراحل کی عکاسی کرتی ہے:

ایک قریشی شخص کا کعبہ میں پناہ لینا

ایک حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے خواب میں دیکھا کہ ان کی امت کے کچھ لوگ ایک قریشی شخص کے لیے بیت اللہ کی طرف آئیں گے، جو کعبہ میں پناہ لیے ہوگا۔ لیکن جب وہ لوگ بیداء (مدینہ کے قریب کا علاقہ) میں پہنچیں گے تو زمین ان کو نگل لے گی۔ نبی اکرم ﷺ نے مزید فرمایا کہ قیامت کے دن اس لشکر کے ہر فرد کو اس کی نیت کے مطابق اٹھایا جائے گا۔212

یہ حدیث عبد اللہ بن الزبیر رضی اللہ عنہ کی زندگی سے حیرت انگیز مشابہت رکھتی ہے:

قریش کا شخص: عبد اللہ بن الزبیر رضی اللہ عنہ ایک قریشی صحابی تھے ۔

کعبہ میں پناہ لینا: جب یزید بن معاویہ نے 680 عیسوی میں اقتدار سنبھالا تو عبد اللہ بن الزبیر رضی اللہ عنہ نے بیعت کرنے سے انکار کر دیا۔ وہ مدینہ سے مکہ چلے گئے، جہاں کعبہ کے پاسانہیں خلیفہ تسلیم کیا گیا۔

شام کے لشکر کا زمین میں دھنس جانا: 683 عیسوی میں، جب امویوں نے مکہ کا پہلی بارمحاصرہ کیا ہوا تھا، یزید کی اچانک موت کی خبر محاصرہ کرنے والی فوج تک پہنچی، جس سے قیادت کا بحران اور سیاسی غیر یقینی صورتحال پیدا ہو گئی۔ اس واقعے نے فوج کو محاصرہ چھوڑ کر شام واپس جانے پر مجبور کر دیا۔ اگرچہ فوج کو حقیقتاً زمین نے نہیں نگل لیا تھا، لیکن علامتی طور پر فوج کا اچانک ٹوٹ جانا اور بغیر مقصد حاصل کیے پیچھے ہٹ جانا اس نبوی پیش گوئی کی عکاسی کرتا ہے کہ گویا زمین نے انہیں نگل لیا ہو، جو کہ الٰہی مداخلت اور بغیر کسی بیرونی مزاحمت کے فوج کے خود بخود پیچھے ہٹنے کی نشاندہی کرتا ہے۔

بیداء کا مقام: جس طرح مدینہ منورہ، نبی اکرم ﷺ کے عہدِ مبارک میں مسلم ریاست کا مرکز تھا، اُسی طرح حضرت عبد اللہ بن الزبیرؓ نے مکہ مکرمہ کو اپنی خلافت کا دارالحکومت مقرر کیا۔ اس سیاق و سباق میں، اگرچہ بیداء جغرافیائی لحاظ سے مدینہ کے قریب واقع ہے، لیکن علامتی طور پر یہ پیش گوئی شامی فوج کے اُس وقت کی خلافت کے دارالحکومت — مکہ مکرمہ — کے قریب زوال کی نمائندگی کرتی ہے۔

عراق اور شام کی آمدنی سے محرومی اور بغیر گِنے دینے والا خلیفہ

ایک اور حدیث میںبیان ہے کہ ایک وقت آئے گا جب عراق کو اس کی معمول کی گندم اور چاندی کی آمدنی نہیں ملے گی، کیونکہ فارسی (العجم) اس پر پابندی لگا دیں گے۔ اسی طرح ، رومیوں کی مداخلت کی وجہ سے، شام کو اس کے دینار اور خوراک کی فراہمی سے محروم کر دیا جائے گا ۔ اور امت کے آخری دور میں ایک خلیفہ آئے گا جو اس طرح دولت دے گا کہ وہ اس کی گنتی نہیں کرے گا۔213

یہ پیش گوئیاں عبد اللہ ابن الزبیر رضی اللہ عنہ کے دورِ حکومت میں پیش آنے والے انتشار کی عکاسی کرتی ہیں:

عراق کی آمدنی کی بندش: عراق میں، مختار الثقفی نے 685 عیسوی میں فارسی موالی کی حمایت سے کوفہ پر قبضہ کر لیا۔ اس کی علوی حامی انقلابی تحریک نے مؤثر طور پر عبد اللہ ابن الزبیر رضی اللہ عنہ کی عراق (بصرہ) میں انتظامیہ کو وسطی عراق کی آمدنی اور افرادی قوت سے محروم کر دیا۔

شام کی آمدنی کی بندش: اسی عرصے میں جب اموی حکومت کو اندرونی خانہ جنگی میں الجھی ہوئی تھی، بازنطینی (رومی) سلطنت نے اس صورتِ حال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے انطاکیہ، طرسوس اور قبرص جیسے شمالی سرحدی علاقوں پر حملے تیز کر دیے۔ ان کارروائیوں کے باعث شام کے روایتی مالیاتی ذرائع، جو اناطولیہ اور مغربی سرحدی علاقوں سے وابستہ تھے، منقطع ہو گئے، اور شام کی حکومت کو دفاع کے ساتھ ساتھ اقتصادی مشکلات کا بھی سامنا کرنا پڑا۔

بغیر گِنے دینے والا خلیفہ: حضرت عبد اللہ بن الزبیر رضی اللہ عنہ نے اپنے والد زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد اُن کے تمام قرض ادا کرنے کی ذمہ داری اپنے ذمے لی، اور اپنی ذاتی جائیداد فروخت کر کے ہر حقدار کو اس کا حق دیا۔ اپنے ہی دور خلافت میں، انہوں نے مسلسل چار حج کے دوران عوامی طور پر اعلان کیا کہ جس کا کوئی حق ہو وہ سامنے آئے، اور ہر دعویدار کو اس کا حق ادا کیا—نہ دینے والے نے کوئی حساب کتاب کیا اور نہ ہی کوئی شرط رکھی۔214 یہ طرزِ عمل اس حدیث کے مفہوم کی حقیقی علامت ہے جس میں نبی اکرم ﷺ نے "بغیر گِنے دینے والاخلیفہ" کا ذکر فرمایا؛ ایسا خلیفہ جو حساب کتاب کے بغیر حقدار کو اس کا حق دیتا ہے۔

امت کا آخری زمانہ: امت کے آخری زمانے کا ذکر یہاں علامتی طور پر رسول اللہ ﷺ کے صحابہ کرامؓ کے آخری دور کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ حضرت عبد اللہ بن الزبیرؓ صحابہ میں سے آخری حکمران تھے، اور اسی حیثیت سے اس حدیث کے مصداق ہیں۔

عراق، شام اور مصر سے دولت کا روک لیا جانا

تیسری حدیث میں، نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ عراق، شام اور مصر اپنے درہم، دینار اور غلہ روک لیں گے اور تم (صحابہ) وہیں لوٹ جاؤ گے جہاں سے تم نے آغاز کیا تھا۔215

یہ حدیث عبد اللہ ابن الزبیر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے زوال سے متعلق ہے:

عراق، شام اور مصر کے وسائل کا روک لیاجانا: اگرچہ عراق اور مصر نے ابتدائی طور پر ان کی حکومت کو تسلیم کیا تھا، لیکن بالآخر یہ علاقے امویوں کے دوبارہ قبضے میں چلے گئے، جس کے نتیجے میں اہم مالی معاونتبند ہو گئی۔ نتیجتاً، عبد اللہ بن الزبیر رضی اللہ عنہ کے آخری ایام میں صرف مکہ اور حجاز کے کچھ حصے ہی ان کے زیرِ کنٹرول رہ گئے تھے۔

"تم وہیں لوٹ جاؤ گے جہاں سے تم نے آغاز کیا تھا": یہ عبارت اس حقیقت کو واضح کرتی ہے کہ اُس دور میں خلافت کا دائرہ محدود ہو کر صرف مکہ مکرمہ تک رہ گیا تھا، جو کچھ اس طرح تھا جیسے ہجرت کے بعد مسلمانوں کی ابتدائی حکومت صرف مدینہ منورہ اور اس کے گرد و نواح تک محدود تھی۔

اگرچہ بعض دیگر احادیث کی کتب میں ان واقعات کو امام مہدی سے منسوب کیا گیا ہے، لیکن صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں امام مہدی کا نام لے کر کوئی حدیث موجود نہیں ہے۔

حبشی، قحطانی اور جھجاہ – حجاج بن یوسف

صحیح مسلم کی درج ذیل تین احادیث ایک تصوراتی اور علامتی منظرنامہ پیش کرتی ہیں، جن کے مطابق قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک (1) قحطان قبیلے کا ایک شخص ظاہر نہ ہو جو لوگوں کو اپنی لاٹھی سے ہانکے گا،216 (2) ایک حبشی شخص جس کی پنڈلیاں پتلی ہوں گی، خانہ کعبہ کو منہدم نہ کر دے،217 اور (3) جَھجَاہ نامی شخص کسی مقامِ اقتدار پر غالب نہ آ جائے۔218

اگرچہ یہ روایات تفصیلات میں مختصر ہیں، مگر ان کا مرکزی موضوع سیاسی انتشار، مقدس روایات کی پامالی، اور جابرانہ قوت کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ تینوں روایات میں ایک تمثیلی تسلسل ہے: ایک علامتی شخصیت کا ذکر اور پھر اس کا اثر یا عمل۔ ان احادیث کی تفسیری گفتگو میں جو شخصیت اکثر سامنے آتی ہے وہ الحجاج بن یوسف ہے، جو عراق کا اُموی گورنر تھا ، جس نے فتنہ دوم میں اہم کردار ادا کیا۔ اگرچہ ان احادیث میں اس کا نام صراحت سے نہیں آیا، لیکن اس کی حکومت اور متنازع شہرت ان روایات کی علامتی تصویر سے گہری مطابقت رکھتی ہے۔

لوگوں کو لاٹھی سے ہانکنا

پہلی حدیث، جو قحطان کے ایک شخص کی پیش گوئی کرتی ہے جو "لوگوں کو اپنی لاٹھی سے ہانکے گا"، خاص طور پر توجہ طلب ہے۔ یہ ایک ایسے آمرانہ شخص کی طرف علامتی اشارہ ہے جو خوف اور جبر کے ذریعے اقتدار قائم کرتا ہے۔ نبی اکرم ﷺ کے زمانے میں قحطانی قبائل اپنی جنگی مہارت، فخر اور مضبوط قیادت کے لیے مشہور تھے۔ اگرچہ الحجاج قحطانی نسب سے نہ تھا، اس کا طرزِ حکومت اس حدیث میں بیان کردہ صفات سے بہت مماثلت رکھتا ہے: وہ آہنی ہاتھوں سے حکومت کرتا، اختلاف کو برداشت نہ کرتا، اور خوف و ہیبت کا پیکر سمجھا جاتا۔ مکہ اور عراق میں اس کی فوجی کارروائیاں، جہاں اُس نے اُموی اقتدار کو سختی سے نافذ کیا، حدیث میں "لاٹھی سے ہانکنے" کی تمثیل سے بخوبی میل کھاتی ہیں—یہ علامت مشورے یا اخلاقی برتری کی نہیں بلکہ طاقت سے غلبے کی ہے۔

کعبہ کو منہدم کرنا

دوسری حدیث میں "پتلی پنڈلیوں والے حبشی" کے ہاتھوں کعبہ کی تباہی کا ذکر ایک گہرا علامتی مفہوم رکھتا ہے۔ اگرچہ تاریخی اعتبار سے حجاج بن یوسف نسلاً حبشی نہیں تھا، تاہم حدیث میں "حبشی" کا ذکر دراصل اس طرزِ حکمرانی کی طرف اشارہ کرتا ہے جسے عرب قبائلی روایات اور آزادی کے خلاف سمجھتے تھے۔ نبی کریم ﷺ کے زمانے میں حبشہ کا نظام حکومت ایک مرکزی اور مطلق العنان نظم پر قائم تھا، جو عربوں کے غیر مرکزی، قبائلی اور مشاورت پر مبنی مزاج سے مختلف تھا۔ اسی طرح "پتلی پنڈلیاں" جیسی جسمانی علامت ایک ایسے شخص کی نشاندہی کرتی ہے جو نہ کسی معزز قبیلے سے تعلق رکھتا ہو اور نہ روایتی سرداری کا حامل ہو — ایک کمزور سماجی مقام رکھنے والا فرد، جسے معاشرہ عام طور پر قیادت کے لیے موزوں نہ سمجھے۔ یہ تمام علامتی اشارات حیرت انگیز طور پر حجاج بن یوسف پر صادق آتے ہیں — ایک ایسا شخص جو غیر ممتاز نسب کا حامل تھا، مگر اپنی آہنی حکمرانی، سخت گیر طرزِ عمل، اور منجنیقوں کے ذریعے کعبہ پر حملے جیسے سنگین اقدام کے باعث تاریخ میں ہمیشہ کے لیے ایک متنازع کردار کے طور پر یاد رکھا جاتا ہے۔

جھجاہ کی حکومت

تیسری حدیث میں "جھجاہ" نامی شخص کے تخت پر قابض ہونے کا ذکر ایک لسانی اور شعری کیفیت پیدا کرتا ہے۔ اگرچہ یہ نام براہِ راست الحجاج سے منسلک نہیں، لیکن "جھجاہ" اور "حجاج" کے مابین صوتی مشابہت قابلِ غور ہے، جو سننے والے کے ذہن میں ایک علامتی ربط قائم کرتی ہے۔ مستقبل کی پیش گوئیوں میں اکثر علامتی زبان استعمال کی جاتی ہے، تاکہ حقیقت اللہ کی حکمت کے تحت جزوی طور پر پردے میں رہے ۔ اسی طرز کی مثال کتابِ مکاشفہ میں "666" کے عدد کی صورت میں ملتی ہے، جو "زمین کے جانور" کی چھاپ کے طور پر بیان ہوا۔ یہاں "زمین کا جانور" دراصل کلیسا کی ایک علامتی تعبیر تھی۔ بعد میں آنے والے عیسائی مفکرین219 نے اس عدد کو حضرت عیسیٰؑ کے زمانے میں یہودیوں میں رائج "گیمطریا"220 کے طریقِ حساب کے ذریعے پوپ کے سرکاری لقب سے جوڑا۔221 اس طرح پیش گوئی کا اصل مفہوم عام لوگوں سے اوجھل رہا، لیکن غور و فکر کرنے والوں پر اس کی حقیقت آشکار ہو گئی۔

متفرق پیش گوئیاں

نبی کریم ﷺ کے وصال اور اس کے بعد کے اہم واقعات

ایک حدیث میں نبی کریم ﷺ نے قیامت سے پہلے چھ نشانیاں گنوائیں: (1) میری وفات، (2) بیت المقدس کی فتح، (3) ایک وبا جو تم میں ایسی پھیلے گی جیسے بکریوں میں خارش کی بیماری پھیلتی ہے، (4) مال و دولت کی کثرت یہاں تک کہ کسی کو سو دینار دیے جائیں گے پھر بھی وہ ناراض رہے گا، (5) ایک فتنے کا ظہور جس سے کوئی عرب گھر محفوظ نہیں رہے گا، (6) تمہارے اور بنی اصفر (رومیوں) کے درمیان صلح ہوگی، وہ اس میں خیانت کریں گے اور تم پر حملہ آور ہوں گے 80 جھنڈوں کے نیچے، ہر جھنڈے کے نیچے بارہ ہزار سپاہی ہوں گے۔222

اس حدیث میں نبی کریم ﷺ کے وصال سے لے کر صلیبی جنگوں کے آغاز تک کے اہم واقعات کو جامع انداز میں بیان کیا گیا ہے ۔ ان نشانیوں کی تفصیل ذیل میں بیان کی گئی ہے:

نبی کریم ﷺ کی وفات

یہ آپ ﷺ کی 632 عیسوی میں وفات کی طرف اشارہ ہے جو قیامت کی ابتدائی نشانیوں میں سے ایک ہے۔

بیت المقدس کی فتح

رسول اللہ ﷺ کی اس پیشگوئی کے مطابق مسلمانوں نے خلیفۂ دوم حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے دور (636-637) میں بیت المقدس فتح کیا۔

ایک وبا جو تم میں اس طرح پھیلے گی جیسے بکریوں میں خارش

اس سے مراد 639 کا طاعونِ عَمواس ہے جو شام و فلسطین کے علاقوں میں پھیلا۔ اس وبا نے ہزاروں مسلمانوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا، جن میں صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی بڑی جماعت مثلاً ابو عبیدہ بن الجراح، معاذ بن جبل، شرحبیل بن حسنہ اور دیگر جلیل القدر ہستیاں شامل ہیں۔ یہ وبا فتحِ بیت المقدس کے تقریباً دو سال بعد پھیلی اور تاریخِ اسلام کے اولین بڑے سانحات میں سے ایک ہے۔

مال و دولت کی بےپناہ فراوانی

اس نشانی کی تعبیر فارس ، روم اور مصرکے علاقوں کی فتح سے مسلمانوں کے پاس بےانتہا مال و دولت کی آمد ہے۔

ایک فتنے کا ظہور جس سے کوئی عرب گھر محفوظ نہ رہے گا

اس سے مراد پہلا اور دوسرا فتنہ ہے، جو حضرت عثمانؓ کی شہادت (656ء) سے شروع ہو کر حضرت عبداللہ بن الزبیرؓ کی شہادت (692ء) پر منتج ہوا۔ ان 36 برسوں میں امت مسلمہ کو خانہ جنگی، قیادت کی شدید کشمکش، جلیل القدر صحابہؓ کی شہادتوں، کعبہ پر حملے، مکہ و مدینہ کے محاصروں، اور بالخصوص حضرت حسینؓ کی کربناک شہادت جیسے دل سوز سانحات سے گزرنا پڑا۔ یہ ایسا دورِ آزمائش تھا جس نے تقریباً ہر عرب خاندان کو کسی نہ کسی شکل میں متاثر کیا۔

رومیوں کے ساتھ صلح، خیانت اور پھر 80 جھنڈوں کے تحت حملہ

678ء میں حضرت معاویہؓ نے رومی شہنشاہ قسطنطین چہارم کے ساتھ ایک تاریخی صلح نامہ کیا، جو مسلم و رومی تعلقات میں ایک نیا باب تھا۔ تاہم، جب مسلمان فتنہ دوم (680–692ء) کے شدید داخلی خلفشار کا شکار ہوئے، رومیوں نے اس خلفشار کا فائدہ اٹھاتے ہوئے معاہدے کی خلاف ورزی کی ۔ فتنہ دوم کے خاتمے پر، 692ء میں جنگِ سباستوپولس لڑی گئی، جس میں مسلمانوں نے رومیوں کی بدعہدی کو ظاہر کرنے کے لیے ٹوٹا ہوا معاہدہ بطور پرچم جنگ میں استعمال کیا۔223 اگرچہ بعد میں جزوی معاہدے ہوتے رہے، مگر اس درجے کی صلح دوبارہ نہ ہو سکی، یہاں تک کہ وہ منظر سامنے آ گیا جس کی پیش گوئی حدیث میں کی گئی تھی: رومیوں نے مغربی عیسائی اقوام سے مدد طلب کی، اور 1096ء میں صلیبی جنگوں کا آغاز ہوا۔ یہ وہی "رومی لشکر" تھا جس کا ذکر حدیث میں "80 جھنڈے، ہر جھنڈے کے تحت 12 ہزار" کے الفاظ میں آیا ہے — ایک بڑی عیسائی یلغار، جس میں یورپ کی مختلف اقوام اپنے اپنے پرچموں کے ساتھ شریک ہوئیں۔ یہ صلیبی جنگیں کئی صدیوں پر محیط رہیں، اور ان میں لاکھوں عیسائی جنگجو شریک ہوئے، خصوصاً ابتدائی نو صلیبی مہمات جو عیسائیوں کے مقدس مقامات پر قبضے کے لیے شروع کی گئیں۔

حجاز سے آگ جو بصریٰ میں اونٹوں کی گردنوں کو روشن کرے گی

ایک حدیث224 حجاز سے آگ کے بارے میں بیان کرتی ہے جو بصریٰ میں اونٹوں کی گردنوں کو روشن کرے گی۔ اس واقعے کا اکثر یمن کی آگ کی بڑی نشانی کے ساتھ ذکر کیا جاتا ہے، لیکن یہ واقعہ پہلے ہی پیش آ چکا ہے۔

حدیث میں بیان کردہ یہ نشانی 1256 عیسوی (654 ہجری) میں پیش آ چکی ہے، جب مدینہ کے قریب حجاز کے علاقے میں ایک بڑا آتش فشاں پھٹا۔ اس آگ کی شدت اتنی زیادہ تھی کہ اس کی روشنی دور دراز تک دیکھی گئی، حتیٰ کہ بصریٰ میں رات کے وقت اونٹوں کی گردنیں روشن ہو گئیں۔ یہ واقعہ معاصر علماء اور مورخین جیسے امام نووی اور ابن کثیر نے دستاویزی طور پر درج کیا225۔ ان کے بیانات اس حدیث کے پورا ہونے کی تصدیق کرتے ہیں، جو قیامت کی نشانیوں میں سے ایک ہے۔

غالباً اس حدیث میں "مدینہ" کے بجائے "حجاز" کا ذکر اس لیے کیا گیا تاکہ اسے مدینہ سے متعلق باقی قیامت کی نشانیوں کی طرح پوری امت کی عمومی علامت نہ سمجھا جائے۔

ذوالخلصہ کی عبادت

ایک حدیث کے مطابق رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی جب تک کہ قبیلہ دوس کی عورتوں کی کمر ذوالخلصہ کے ارد گرد نہ گھومنے لگیں۔226

ذو الخلصہ ایک معبد تھا جس کی عبادت زمانہ جاہلیت کے عرب میں کی جاتی تھی، اور یہ خاص طور پر قبیلہ بنو دوس سے منسوب تھا۔ اس مندر کو حضرت جریر بن عبداللہ البجلیؓ نے نبی کریم ﷺ کے حکم پر منہدم کیا، جس کے نتیجے میں یہ مزار کھنڈر بن کر رہ گیا۔

تاریخی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ انیسویں صدی اور بیسویں صدی کے آغاز میں ذو الخلصہ کے عقیدے میں دوبارہ کچھ حد تک احیاء ہوا۔ جب جزیرۂ عرب میں امن و امان کا شیرازہ بکھر گیا، اور اس کے رہنے والے راحت و سکون سے محروم ہو گئے، اور ملک میں غربت اور تنگ دستی چھا گئی ۔چنانچہ کچھ لوگ اپنی پرانی جاہلیت کی زندگی کی طرف لوٹ گئے — بدعات اور خرافات کو اپنایا، اور پتھروں و درختوں سے برکت حاصل کرنے لگے۔ دَوس قبیلہ اور اس کے آس پاس کے قبائل اس رجعت میں پیش پیش تھے، اور ذو الخلصہ کی طرف لوٹ گئے — اس سے تبرک حاصل کرنے لگے، اور اس کے لیے نذریں چڑھاتے اور قربانیاں کرتے۔ آخرکار، 1925 ء میں جدید سعودی ریاست کے بانی، شاہ عبدالعزیز آل سعود کے دور میں اس مندر کے مقام کو مکمل طور پر مسمار کر دیا گیا۔227 228

غیر جاندار چیزوں کا یہودیوں کی جگہوں کو ظاہر کرنا - دوسری جنگ عظیم میں یہودیوں کا قتل عام

حدیث میں بیان کیا گیا ہے کہ مسلمان، اللہ کے بندے، یہودیوں سے لڑیں گے، اور غیر جاندار چیزیں جیسے پتھر اور درخت یہودیوں کی چھپنے کی جگہوں کو ظاہر کریں گی، سوائے غرقد کے درخت کے۔229

جیسا کہ حدیث میں یاجوج و ماجوج کو اللہ کے ایسے بندے کہا گیا ہے جن سے کوئی مقابلہ نہ کر سکے گا230—اور اس مضمون میں نازی جرمنی کو اس کا علامتی مصداق قرار دیا گیا ہے—اسی تسلسل میں، یہودیوں سے متعلق حدیث میں مذکور "مسلمان" اور "اللہ کے بندے" بھی نازی جرمنی کے علامتی کردار کی طرف اشارہ ہیں۔ یہ بالکل اسی طرح ہے جیسے سورۂ بنی اسرائیل میں بابل کے مشرکوں کو بھی "عِبَادًا لَّنَا" (ہمارے بندے) کہا گیا ہے۔231 یہ تعبیرات کسی قوم کی مدح، حمایت یا تائید کے لیے نہیں ہوتیں، بلکہ صرف اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ بعض اقوام ایک مخصوص وقت میں الٰہی منصوبے کے تحت بطور وسیلہ یا آلہ کار استعمال ہوتی ہیں، چاہے ان کے اپنے اعمال ناپسندیدہ ہی کیوں نہ ہوں۔

تاریخی طور پر یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ نازیوں نے یہودیوں کو ظلم و ستم کا نشانہ بنایا اور وسیع پیمانے پر تلاشیاں کیں، اکثر مخبروں، معاونین، اور مقبوضہ علاقوں میں مقامی حکام کا استعمال کرتے ہوئے یہودیوں کو گھروں، بنکروں اور جنگلات میں چھپنے سے نکالنے کے لیے۔ غرقد کا درخت، جو عام طور پر مشرق وسطیٰ میں اگتا ہے، یہ ظاہر کرتا ہے کہ ظلم ایسے علاقوں میں ہوگا جہاں غرقد کے درخت عام طور پر نہیں اگتے ، جیسے یورپ کے ٹھنڈے علاقے۔

ننگے پاؤں، ننگے بدن، مفلس چرواہے بلند عمارتوں کی تعمیر میں مقابلہ کریں گے اور لونڈی اپنی مالکہ کو جنم دے گی232

یہ نشانی ایک اہم مقام رکھتی ہے کیونکہ یہ ایک ایسی حدیث میں بیان ہوئی ہے جس میں حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے دین کے بنیادی اصول سکھائے۔

حدیث کے پہلے حصے میں "ننگے پاؤں، ننگے بدن، مفلس چرواہوں" کا ذکر ہے جو بلند عمارتوں کی تعمیر میں ایک دوسرے سے مقابلہ کریں گے۔ یہ منظرنامہ خلیجی ممالک میں واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے، جہاں تاریخی طور پر بدو عرب چرواہے کے طور پر جانے جاتے تھے، لیکن تیل کی دولت کی بدولت وہ دنیا کی بلند ترین عمارتیں بنانے میں مشغول ہیں۔ دبئی کا برج خلیفہ اور سعودی عرب کا جدہ ٹاور اس تبدیلی کی واضح مثالیں ہیں۔ یہ حدیث ان کی عاجزانہ طرز زندگی سے عیش و عشرت کی جانب تبدیلی کی پیشگوئی کی عکاسی کرتی ہے۔

حدیث کے دوسرے حصے میں "لونڈی اپنی مالکہ کو جنم دے گی" سماجی تبدیلیوں کی نشاندہی کرتا ہے، خاص طور پر غلامی کے خاتمے کے بعد۔ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے عالمی منشور 1948 کے ذریعے غلامی کی باضابطہ مذمت اور مساوات کے فروغ نے سابقہ غلاموں اور ان کی نسلوں کو آزادی اور مساوی حقوق فراہم کیے۔ اس تشریح کے مطابق، یہ فقرہ غلاموں کی آزادی اور معاشرتی مساوات کی علامت ہے۔

اللات اور العزّی کی دوبارہ عبادت

ایک حدیث کے مطابق دن اور رات ختم نہیں ہوں گے جب تک کہ اللات اور العزّی کی دوبارہ عبادت نہ کی جائے۔233

دور جدید میں جزیرۂ عرب کی قبل از اسلام تاریخ میں بڑھتی ہوئی دلچسپی کے نتیجے میں قدیم عرب معبودوں کی جانب ایک محدود مگر قابلِ ذکر رجحان دوبارہ سامنے آیا۔ جیسے مغربی دنیا میں قدیم دیوی دیوتاؤں کی پرستش کی طرف رجوع دیکھا گیا،234 ویسے ہی کچھ افراد اور آن لائن حلقے ایسے بھی ہیں جو ان قبل از اسلام خداؤں کی عبادت کی جستجو یا اس کے جزوی احیاء میں مصروف ہیں۔ اس رجحان کو "وثن پرستی" کہا جاتا ہے، جس میں اللات اور العزّی جیسی دیویوں کی عبادت شامل ہے۔235

رومیوں کی اکثریت قیامت کے وقت – دنیا میں عیسائیوں کی اکثریت

نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ قیامت اس وقت قائم ہوگی جب رومی لوگ سب سے زیادہ تعداد میں ہوں گے۔ آپ ﷺ نے ان کی خصوصیات بیان فرمائیں: وہ آزمائشوں پر صبر کرتے ہیں، مصیبت کے بعد فوراً سنبھل جاتے ہیں، پسپائی کے بعد دوبارہ حملہ کرتے ہیں، یتیموں، مساکین اور کمزوروں کے ساتھ حسنِ سلوک کرتے ہیں، اور آخری خوبی یہ ہے کہ وہ ظالم بادشاہوں کے خلاف مزاحمت کرتے ہیں۔236

نبی اکرم ﷺ کے زمانے میں بازنطینی عیسائیوں کو "رومی" کہا جاتا تھا اور عیسائیت ان کی شناخت کا بنیادی جزو تھی۔ اس لیے یہ پیش گوئی — کہ قیامت کے وقت رومی سب سے بڑی تعداد میں ہوں گے — اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ دنیا میں عیسائی اقوام اکثریتی حیثیت رکھیں گی۔ آج کے دور میں بھی عیسائیت دنیا کا سب سے بڑا مذہب ہے، اور قیامت کے وقت بھی یہی صورتِ حال ہوگی۔237

بیان کردہ دیگر خصوصیات بھی آج کے کئی مغربی ممالک میں واضح طور پر نظر آتی ہیں: عسکری قوت اور استقامت، یتیموں اور مساکین کے لیے منظم فلاحی نظام، بادشاہوں اور آمر حکمرانوں کے ظلم کے خلاف مزاحمت، اور معاشرتی ڈھانچوں میں جمہوریت یا آئینی بادشاہتوں کا فروغ۔ یہ اوصاف اس پیش گوئی کی عملی جھلک ہیں، جو چودہ سو سال پہلے بیان کی گئی تھی۔

اصلاحات

یہاں اُن اصلاحات کا ذکر کیا جا رہا ہے جو پچھلے شماروں میں شائع ہونے والے مضامین سے متعلق ہیں:

زمین کا جانور

حصہ: لال جانور

شمارہ: الشریعہ، جون 2025

اصلاح: جانور کے دس سینگھ

تصحیح: اس جانور کے دس سینگ اُن دس ساسانی بادشاہوں کی علامت ہیں،238 جو صحابۂ کرامؓ اور ساسانیوں کے درمیان ہونے والی جنگوں سے قبل، کتابِ مکاشفہ کے مطابق ’ایک گھڑی‘ یعنی نہایت مختصر مدت کے لیے اقتدار میں آئے۔239

دجال – جھوٹے مسیح کی آمد

حصہ: دجال کے ظہور سے پہلے کے واقعات

شمارہ: الشریعہ، جولائی 2025

اصلاح: مسلمانوں کے دس گھڑ سوار

تصحیح: حدیث میں ان دس گھڑ سواروں کی تعبیر مصطفیٰ کمال اتاترک کی سربراہی میں قائم ہونے والی ترک قومی اسمبلی کی پہلی کابینہ ہے، جس میں دس وزراء شامل تھے۔240

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نزول — مسیح کی آمد

حصہ: احادیث میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور دجال کے واقعات

شمارہ: الشریعہ ستمبر 2025

اصلاح: نبی عیسیٰؑ کا امامت سے انکار

تصحیح: درج ذیل میں یہ حصہ دوبارہ لکھا گیا ہے۔

حضرت عیسیٰ علیہ السلام، مسلمان اور دجّال کے خلاف جدوجہد

احادیث میں اِن مسلمانوں کے بارے میں دو بظاہر متضاد روایات ملتی ہیں جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ مل کر دجّال کے مقابلے میں کھڑے ہوں گے۔ ایک روایت میں آیا ہے کہ آپ خود نماز کی امامت کریں گے ، جبکہ دوسری میں ذکر ہے کہ آپ امامت کی پیشکش کو قبول نہیں کریں گے ۔ بظاہر یہ دونوں روایات ایک دوسرے سے متصادم دکھائی دیتی ہیں، لیکن تاریخی پس منظر میں اِن کا مطالعہ کیا جائے تو یہ دراصل دو الگ الگ سیاسی حقائق کی ترجمانی کرتی ہیں جو سرد جنگ کے دوران مسلم ریاستوں کے تجربات سے نہایت قریب ہیں۔

یہ اُس روش کے برعکس ہے جس کا ذکر حدیث میں اُن لوگوں کے بارے میں کیا گیا ہے جو مدینہ میں تین بڑے زلزلوں کے بعد دجّال کی طرف لپکیں گے۔ (اِن کے تفصیلی ذکر کے لیے باب دجّال ملاحظہ کریں۔)

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی امامت — نیٹو ( NATO)میں شمولیت کے ذریعے ترکی کی امریکی بلاک کے ساتھ وابستگی (1952ء سے آگے)

ایک حدیث میں آیا ہے کہ جب نماز کا وقت آتا ہے تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام نازل ہوں گے اور امامت کریں گے۔241

اِس روایت میں ترک مسلمانوں کے تاریخی حوالہ جات موجود ہیں: رومیوں کے خلاف معرکہ ’’اَلعَماق‘‘ (جس کا تعلق پہلی صلیبی جنگ کے دوران انطاکیہ کی لڑائی سے ہے، جس میں زیادہ تر ترک مسلمان شامل تھے)، 1453ء میں سلطنتِ عثمانیہ کے ہاتھوں قسطنطنیہ کی فتح، اور آخر میں ’’تلواریں لٹکا دینا‘‘ جو 1918ء میں عثمانیوں کے ہتھیار ڈالنے کی یاد دلاتا ہے۔ اِن حوالوں کو یکجا دیکھا جائے تو یہ حدیث ترک مسلمانوں کے تجربے کی طرف واضح اشارہ کرتی ہے۔ (دجّال کے باب میں اُن واقعات کا ذکر ملاحظہ کریں جو اُس کی آمد سے پہلے ہوں گے۔)

یہاں "نماز کا وقت" اُس فیصلہ کن لمحے کی نمائندگی کرتا ہے جب قومیں ایک ہی قیادت کے پیچھے صفوں میں ترتیب سے کھڑی ہوتی ہیں، جبکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول سے مراد دوسری عالمی جنگ کے دوران ریاست ہائے متحدہ امریکہ کا عالمی منظرنامے پر داخل ہونا ہے۔ دوسری جنگِ عظیم کے بعد ترکی نے فیصلہ کن طور پر امریکہ کے ساتھ خود کو ہم آہنگ کیا—پہلے 1947ء میں ٹرومین ڈاکٹرائن کے تحت، اور پھر 1952ء میں نیٹو میں شمولیت کے ساتھ۔ اِس طرح ترکی نے عملاً اور علامتی طور پر اپنی جگہ اُس جماعت میں بنا لی جو امریکہ کی قیادت کے پیچھے صف بستہ کھڑی تھی۔

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا امامت سے انکار — امریکہ کا بغداد پیکٹ کی قیادت کرنے سے اجتناب (1955ء–1959ء)

ایک اور حدیث کے مطابق مسلمانوں کا امیر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو امامت کی دعوت دے گا لیکن آپ انکار کرتے ہوئے ارشاد فرمائیں گے: ’’تم میں سے بعض دوسروں پر حاکم ہیں‘‘۔242 ایک اور روایت میں ہے: ’’تمہارا امام تم ہی میں سے ہوگا‘‘۔243

اِن احادیث کو سرد جنگ کے ابتدائی دور کے تناظر میں سمجھنا زیادہ مناسب ہے۔ اُس وقت امریکہ نے جان بوجھ کر مسلم ممالک کی قیادت اپنے ہاتھ میں لینے سے احتراز کیا اور اُنھیں یہ ترغیب دی کہ وہ خود سوویت یونین کے مقابلے میں قائدانہ کردار ادا کریں۔

جماعت کی نماز: یہاں جماعت کی نماز ایک ایسے منظم ادارے یا اجتماع کی علامت ہے جس میں ایک متعیّن قائد کے پیچھے کھڑا ہوا جاتا ہے۔ جس طرح مسلمان نماز میں امام کے پیچھے منظم صفوں میں کھڑے ہو کر اطاعت کا عملی مظاہرہ کرتے ہیں، اُسی طرح یہ حدیث اجتماعی نظم، اتحاد اور قیادت کے تحت صف بندی کا استعارہ پیش کرتی ہے۔

مسلمانوں کا امیر: اِس پس منظر میں یہ امیر پاکستان ہے۔ آزادی (1947ء) کے بعد پاکستان نے شعوری طور پر خود کو مسلم دنیا کی پیش رو اور صفِ اوّل کی ریاست کے طور پر متعارف کرایا۔ پاکستان کے بانی، محمد علی جناح اور اُن کے بعد میں آنے والے حکمرانوں نے ریاست کے اسلامی اور اسٹریٹجک کردار کو اجاگر کیا۔ پاکستان نے ابتدائی ’’اسلامی کانفرنسوں‘‘ کے انعقاد اور عرب ریاستوں سے تعلقات کے فروغ کے ذریعے اپنی قیادتی سوچ کو عملی جامہ پہنایا۔ اِسی طرح امریکی پالیسی سازوں نے بھی پاکستان کو جنوبی ایشیا میں ایک وسیع تر مسلم بلاک کے لیے ’’مرکزِ ثقل‘‘ کے طور پر دیکھا۔244

امامت کی دعوت: 1950ء کی دہائی کے اوائل میں پاکستان نے امریکہ کے ساتھ اتحاد کیا، SEATO (1954ء) اور بغداد پیکٹ (1955ء، بعد میں CENTO) میں شمولیت اختیار کی، اور اپنے آپ کو کمیونزم کے خلاف فطری مسلم اتحادی کے طور پر پیش کیا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو امامت کی دعوت دینا دراصل پاکستان کی اِس اپیل کی علامت ہے کہ امریکہ بغداد پیکٹ کی قیادت سنبھالے — ایک ایسا اتحاد جس میں ترکی، ایران، عراق، پاکستان اور برطانیہ شامل تھے۔245 246 پاکستان نے اِس معاہدے کو نیٹو کے نمونے پر تصور کیا جہاں امریکہ نے قیادت سنبھالی، افواج کو مربوط کیا اور ایٹمی چھتری فراہم کی۔

امامت سے انکار: اِس انکار کا مطلب یہ تھا کہ امریکہ نے پاکستان کی بارہا اپیلوں کے باوجود بغداد پیکٹ کا باقاعدہ رکن بننے سے اجتناب کیا۔ نیٹو میں اپنے فعال اور فیصلہ کن کردار کے برعکس، امریکہ نے مشرقِ وسطیٰ میں ایسی ذمہ داری لینے سے گریز کیا۔ امریکی قیادت کو اندیشہ تھا کہ اگر وہ کھلم کھلا قیادت سنبھالے تو یہ اتحاد مغربی غلبے کی کوشش کے طور پر دیکھا جائے گا اور مسلم ریاستیں متنفر ہو جائیں گی۔247

یہ طرزِ عمل، جس میں مسلم ممالک کو آگے بڑھا کر قیادت سونپی گئی اور امریکہ پس منظر میں رہا، نمایاں طور پر 1980ء میں افغانستان کے مسئلے پر او آئی سی کے غیرمعمولی اجلاس میں دکھائی دیا۔ اِس نازک موقع پر پاکستان اور سعودی عرب نے مسلم ممالک کو سوویت یونین کے خلاف متحد کیا، جبکہ امریکہ نے اتحادیوں کے ذریعے بالواسطہ تعاون پر اکتفا کیا اور خود کو کسی براہِ راست کردار سے دور رکھا۔

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نزول — مسیح کی آمد

حصہ: احادیث میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور دجال کے واقعات

شمارہ: الشریعہ ستمبر 2025

اصلاح: دجال کا پگھل جانا اور نیزے پر خون

تصحیح: درج ذیل میں یہ حصہ دوبارہ لکھا گیا ہے۔

دجّال کا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو دیکھتے ہی پگھل جانا — کیوبا میزائل بحران کے بعد سوویت یونین کی معاشی کمزوری (اکتوبر 1962ء سے آگے)

حدیث میں آتا ہے کہ دجّال حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو دیکھ کر پگھل جائے گا جیسے نمک پانی میں۔248

اِس حدیث کی ایک مماثلت کیوبا میزائل بحران سے جوڑی جا سکتی ہے، جو سرد جنگ کا وہ واحد لمحہ تھا جب امریکہ اور سوویت یونین براہِ راست آمنے سامنے آئے۔

اِس ٹکراؤ کا نتیجہ سوویت فتح نہیں تھا، بلکہ اُس کی ساختی کمزوریوں کا انکشاف تھا۔ کیوبا میں ایٹمی میزائل نصب کرنے کا اقدام دراصل اِس بات کا اعتراف تھا کہ سوویت یونین کے پاس وہ طویل فاصلے تک مار کرنے کی صلاحیت نہیں تھی جو امریکہ کو پہلے ہی بین البرِّاعظمی میزائلوں اور اسٹریٹیجک بمبار طیاروں کے ذریعے حاصل تھی۔ کیوبا پر امریکی بحری ناکہ بندی نے سوویت بحریہ کی کمزوری کو مزید بے نقاب کیا، جو امریکی بحری طاقت کو چیلنج کرنے کے قابل نہ تھی۔ معاشی طور پر بھی سوویت یونین کمزور تھا، کیونکہ اُس کا سخت گیر نظام طویل تنازعہ برداشت نہیں کر سکتا تھا، جبکہ امریکی معیشت لچکدار اور حالات کے مطابق بڑھنے کی اہل تھی۔ سیاسی طور پر، بحران کے حل نے سوویت یونین کی کمزوری کو نمایاں کر دیا۔ اگرچہ سوویت یونین نے خاموشی سے ایک رعایت حاصل کی (ترکی سے امریکی میزائلوں کا انخلا)، مگر عوامی تاثر ایک پسپائی کا تھا۔ سوویت یونین کی عظیم طاقت کی برابری کا تاثر ٹوٹ گیا اور پروپیگنڈے اور حقیقت کے درمیان خلیج سب پر عیاں ہو گئی۔

اِس کے جواب میں، سوویت قیادت نے دوبارہ ایسی ذلت سے بچنے کے لیے فوجی صلاحیتوں پر بھاری سرمایہ کاری کی۔ تاہم یہ کوشش وسیع وسائل کو چوسنے کا باعث بنی اور یوں سوویت یونین کا بتدریج ’’پگھلنا‘‘ شروع ہو گیا — ایک ایسا عمل جو حدیث میں دجّال کے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو دیکھتے ہی گھلنے کی علامتی تصویر سے مشابہ ہے۔

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نیزے پر دجّال کا خون — امریکی اسلحے کے ذریعے افغانستان میں سوویت نقصانات (1986ء–1989ء)

حدیث کے مطابق، اگر اللہ دجّال کو اپنی حالت پر چھوڑ دیتا تو وہ آہستہ آہستہ پگھل کر فنا ہو جاتا، لیکن اللہ نے یہ طے کیا کہ دجّال کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ہاتھوں قتل ہونا ہے۔ پھر حضرت عیسیٰ علیہ السلام دجّال کا خون اپنے نیزے پر لوگوں کو دکھائیں گے۔249

نیزے پر خون کا یہ منظر 1980ء کی دہائی کی افغان جنگ میں ایک واضح مماثلت پاتا ہے۔ ابتدا میں مجاہدین نے سوویت یلغار کا مقابلہ زیادہ تر قبضہ شدہ یا خفیہ طور پر فراہم کردہ سوویت اسلحے سے کیا، جو CIA کے ذریعے اِس طرح پہنچایا گیا کہ امریکی کردار پوشیدہ رہے۔ بعد میں امریکہ نے اپنا جدید اسلحہ فراہم کیا — سب سے مشہور ’’اسٹنگر میزائل (Stinger missile)‘‘ — جو سوویت فضائی طاقت کو چیرنے والا حقیقی ’’نیزہ‘‘ ثابت ہوا۔ اِس نیزے پر خون صرف طیاروں اور فوجیوں کے نقصان کی علامت نہ تھا بلکہ اُس سے کہیں گہرا مطلب رکھتا تھا: سوویت یونین کے حوصلے، معیشت اور جنگی عزم کا زوال۔ سوویت ہیلی کاپٹروں کو آسمان سے گرتے دیکھنا اِس جنگ کا ٹرننگ پوائنٹ بن گیا، اور اِسی کے ساتھ سوویت ساکھ بھی بکھرنے لگی۔

تاہم، جیسا کہ حدیث خود اشارہ کرتی ہے، اگر یہ ہتھیار کبھی فراہم نہ بھی کیے جاتے تو بھی سوویت یونین اپنی داخلی کمزوریوں اور معاشی ناکامیوں کے بوجھ تلے پہلے ہی پگھل رہا تھا۔ نیزہ صرف اِس عمل کو تیز کرنے اور اُس کی قیمت کو دنیا کے سامنے ظاہر کرنے کا ذریعہ بنا، اور یوں امریکی ہتھیار سوویت شکست کی علامت بن گئے۔

خلاصہ اور اعترافِ خدمات

قیامت کی اہم نشانیوں کا خلاصہ

زمین کا جانور: یہ ایک ایسی ظالم طاقت کی علامت ہے جو اپنی فتوحات اور اثرورسوخ کو زمینی راستوں کے ذریعے پھیلاتی ہے، برخلاف اُن قوتوں کے جو بحری راستوں سے وسعت اختیار کرتی ہیں۔ اس کی تعبیر منگول سلطنت ہے، جو 13ویں صدی میں وسطِ ایشیا سے ابھری اور اپنے عروج پر وسیع و عریض علاقوں میں تباہی اور خوف کی علامت بن گئی۔

مغرب سے سورج کا طلوع: یہ علامت مغربی تہذیب کے عروج کی علامت ہے، جس کا آغاز قرونِ وسطیٰ میں 12 ویں صدی کے نشاۃ ثانیہ سے ہوا۔

دجال (جھوٹا مسیح): یہ ایک ایسی گمراہ کن قوت کی علامت ہے جو انسانیت کو فلاح و نجات کے جھوٹے وعدوں کے ذریعے بہکاتی ہے، جبکہ درحقیقت یہ الحاد، ظلم و ستم اور مذہبی جبر کو فروغ دیتی ہے۔ تاریخ میں کمیونسٹ ریاستیں ان تیس (30) دجالوں کی نمائندگی کرتی ہیں، جن کا ذکر احادیث میں آیا ہے، اور ان میں سب سے نمایاں اور مرکزی کردار سابق سوویت یونین نے ادا کیا، جو "الدجال" یعنی سب سے بڑا فریب بن کر سامنے آیا۔

یاجوج اور ماجوج: یہ اقوام شمالی اور مغربی یورپ کی نمائندگی کرتی ہیں، جنہوں نے 16ویں سے 20ویں صدی تک دنیا بھر میں نوآبادیاتی تسلط، استحصال، اور وسائل کی لوٹ مار کی۔ تاہم، ان کے استعماری غلبے کا خاتمہ انہی کے باہمی ٹکراؤ—دوسری عالمی جنگ—کے نتیجے میں ہوا۔ اس جنگ نے نہ صرف فاشزم کو شکست دی بلکہ نوآبادیاتی نظام کے زوال کی بنیاد بھی رکھی۔

حضرت عیسیٰ علیہ السلام (مسیح) کا نزول: دوسری عالمی جنگ میں امریکہ نے یورپی طاقتوں—یاجوج و ماجوج—کے درمیان فیصلہ کن کردار ادا کیا، خصوصاً فاشزم کے خلاف ایک نجات دہندہ قوت کے طور پر ابھر کر۔ بعد ازاں، سرد جنگ کے دوران اس نے دجال (سوویت یونین) کے خلاف نظریاتی، عسکری اور سفارتی محاذ پر مرکزی قوت کی حیثیت اختیار کی۔ اس طرح، ان دو عظیم عالمی معرکوں کے تناظر میں، امریکہ ایک علامتی 'مسیحا' کے طور پر سامنے آیا۔

دھواں: دھواں صنعتی انقلاب کے بعد فضائی آلودگی اور ماحولیاتی بحران کا استعارہ ہے، جس نے اربوں افراد کو متاثر کیا۔

زمین کا دھنس جانا (مشرق، مغرب اور جزیرہ نما عرب میں): ان کو یکلخت سماجی زوال کے علامتی مظاہر سمجھا گیا ہے، جو مختلف خطوں میں سیاسی عدم استحکام اور خانہ جنگیوں کے باعث ہوئے۔ مشرق میں عراق (2006)، مغرب میں لیبیا (2011)، اور جزیرہ نما عرب میں یمن (2014) کے واقعات اس کے ممکنہ مظاہر ہیں۔

یمن سے آگ: یہ بڑی نشانی تاحال ظاہر نہیں ہوئی۔ ایسی علامتوں کو پیشین گوئی کے بجائے ایک سوچنے کی دعوت کے طور پر لینا چاہیے۔

اعترافِ خدمات

اس فریم ورک کی تشکیل اور تفصیلی تجزیے کی ابتدا اسلامی اسکالر جاوید احمد غامدی کی اس جانب توجہ دلانے سے ہوئی کہ قیامت کی بہت سی نشانیاں رسول اللہ ﷺ کو رویا میں دکھائی گئیں۔250 بعد ازاں، عدنان اعجاز کے قیامت کی دس بڑی نشانیوں پر کام نے اس تحقیق کو ایک نئی سمت دی،251 جہاں اُنہوں نے بائبل کی پیشگوئیوں کے مطالعے کی بنیاد پر احادیث کی پیشگوئیوں کی تعبیر کے لیے ایک منفرد زاویۂ نظر پیش کیا۔252

مزید براں، اس مضمون کا جدید ترین نسخہ https://scripturehistorian.wordpress.com ویب سائٹ سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔


حوالہ جات

191) Revelation 20.4-6: https://www.bible.com/bible/111/REV.20.4-6.NIV

192) Revelation 20:7-9: https://www.bible.com/bible/111/REV.20.7-9.NIV

193) 2 Thessalonians 2:3-8: https://www.bible.com/bible/111/2TH.2.3-8.NIV

194) John 5:28-29: https://www.bible.com/bible/111/JHN.5.28-29.NIV

195) Quran 5:116–117: https://quran.com/5/116-117

196) Revelation 11:15-19: https://www.bible.com/bible/111/REV.11.15-19.NIV

197) Revelation 16:17-21: https://www.bible.com/bible/111/REV.16.17-21.NIV

198) https://en.wikipedia.org/wiki/Arabian_Peninsula

199) Sahih Muslim 2901b https://sunnah.com/muslim:2901b

200) Sahih Muslim 2901a https://sunnah.com/muslim:2901a

201) Sahih Muslim 2901c https://sunnah.com/muslim:2901c

202) Sahih Muslim 2885a: https://sunnah.com/muslim:2885a

203) Sahih Muslim 2895: https://sunnah.com/muslim:2895

204) Sahih Bukhari 7119: https://sunnah.com/bukhari:7119

205) کتاب مکاشفہ میں ساتواں اور آخری خدا کے غضب کا پیالہ رسول اللہ ﷺ کے صحابہ کے ہاتھوں روم اور فارس کی سلطنتوں کی تباہی ہے، جبکہ چھٹا خدا کا غضب کا پیالہ، اس سے پہلے ساسانی سلطنت کی طرف سے شروع کی گئی جنگیں ہیں جو کتاب مکاشفہ میں بتائی گئی تفصیلات سے مطابقت رکھتی ہیں۔

206) Revelation 16:12: https://www.bible.com/bible/111/REV.16.12.NIV

207) Sahih Bukhari 3495: https://sunnah.com/bukhari:3495

208) Sahih Bukhari 7094: https://sunnah.com/bukhari:7094

209) Sahih Bukhari 7092: https://sunnah.com/bukhari:7092

210) Sahih Bukhari 7115: https://sunnah.com/bukhari:7115

211) الحافظ الطبرانی، المعجم الکبیر، حدیث نمبر: 202۔ آن لائن دستیاب https://hadithunlocked.com/tabarani:202

212) Sahih Muslim 2884: https://sunnah.com/muslim:2884

213) Sahih Muslim 2913a: https://sunnah.com/muslim:2913a

214) Sahih Bukhari 3129: https://sunnah.com/bukhari:3129

215) Sahih Muslim 2896: https://sunnah.com/muslim:2896

216) Sahih Muslim 2910: https://sunnah.com/muslim:2910

217) https://sunnah.com/muslim:2909a Sahih Muslim 2909a:

218) Sahih Muslim 2911: https://sunnah.com/muslim:2911

219) https://en.wikipedia.org/wiki/Andreas_Helwig

220) https://en.wikipedia.org/wiki/Gematria

221) https://en.wikipedia.org/wiki/Vicarius_Filii_Dei

222) Sahih Bukhari 3176: https://sunnah.com/bukhari:3176

223) https://en.wikipedia.org/wiki/Battle_of_Sebastopolis

224) Sahih Bukhari 7118: https://sunnah.com/bukhari:7118

225) https://preciousgemsfromthequranandsunnah.wordpress.com/2021/01/21/the-fire-in-hijaaz-illuminated-the-necks-of-the-camels-in-busra-authentic-stories/

226) https://sunnah.com/bukhari:7116 Sahih Bukhari 7116:

227) https://alithnainya.com/tocs/default.asp?toc_id=8612

228) الأزْرَقِي، أخبار مكة وما جاء فيها من الآثار، ج 1، ص 381–382، تحقیق: رشدي الصالح ملحس، دار الثقافة، بیروت: https://lib.eshia.ir/42059/1/381

229) Sahih Muslim 2922: https://sunnah.com/muslim:2922

230) Sahih Muslim 2937a: https://sunnah.com/muslim:2937a

231) Quran 17:4-5 : https://quran.com/17/4-5

232) Sahih Muslim 8a: https://sunnah.com/muslim:8a

233) Sahih Muslim 2907a: https://sunnah.com/muslim:2907a

234) https://en.wikipedia.org/wiki/Modern_paganism

235) https://www.reddit.com/r/Wathanism

236) Sahih Muslim 2898a: https://sunnah.com/muslim:2898a

237) https://www.britannica.com/story/what-is-the-most-widely-practiced-religion-in-the-world

238) Revelation 17:12–14: https://www.bible.com/bible/111/REV.17.12-14

239) قباد دوم (شیرویہ) ‎(628)

اردشیر سوم ‎(628–630)

شہروراز ‎(630)

بوران ‎630)، 631632–)

خسرو سوم 630))

شابور بن شہروراز ‎(630)

آزرمی دخت ‎(630–631)

ہرميز شسشم ‎(630–632)

فیروز دوم ‎(632)

۱فرخزاد (معروف بہ خسرو پنجم) ‎(632)

240) ترک قومی اسمبلی کی پہلی کابینہ، جس کی صدارت مصطفیٰ کمال اتاترک نے کی (3 مئی 1920)۔ قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ وزارتِ تعمیراتِ عامہ بعد میں شامل کی گئی تھی:

مصطفیٰ فہمی (گرچیکر) – وزیرِ شرعیہ و اوقاف، جو مذہبی امور اور خیراتی اوقاف کی نگرانی کرتے تھے۔

جلال الدین عارف – وزیرِ انصاف، جو عدالتی نظام اور قانونی اصلاحات کے ذمہ دار تھے۔

عصمت (اینونو) – وزیرِ جنرل اسٹاف، جو فوجی حکمت عملی اور آپریشنز کی نگرانی کرتے تھے۔

فوزی (چاقماق) – وزیرِ دفاع، جو وزارتِ دفاع اور فوجی سازوسامان کے انتظام کے ذمہ دار تھے۔

جامی (بایکورت) – وزیرِ داخلہ، جو انتظامی و داخلی امور اور سکیورٹی سنبھالتے تھے۔

بکیر سامی (قندوح) – وزیرِ خارجہ، جو خارجہ تعلقات اور بین الاقوامی مذاکرات کی قیادت کرتے تھے۔

یوسف کمال (تنگیرشک) – وزیرِ معیشت، جو معاشی پالیسیوں اور مالی معاملات کی نگرانی کرتے تھے۔

حقّی بہیچ (بایئیچ) – وزیرِ خزانہ، جو خزانے اور مالیاتی پالیسیوں کے نگران تھے۔

رضا نور – وزیرِ تعلیم، جو تعلیمی اصلاحات اور اداروں کی سربراہی کرتے تھے۔

عدنان (آدیور) – وزیرِ صحت و سماجی بہبود، جو عوامی صحت اور فلاحی امور کے نگران تھے۔

241) Sahih Muslim 2897: https://sunnah.com/muslim:2897

242) Sahih Muslim 156: https://sunnah.com/muslim:156

243) Sahih Bukhari 3449: https://sunnah.com/bukhari:3449

244) https://history.state.gov/historicaldocuments/frus1950v05/d837

245) https://history.state.gov/historicaldocuments/frus1955-57v12/d145

246) https://history.state.gov/historicaldocuments/frus1955-57v08/d219

247) https://history.state.gov/historicaldocuments/frus1955-57v12/d169

248) Sahih Muslim 2897: https://sunnah.com/muslim:2897

249) Sahih Muslim 2897: https://sunnah.com/muslim:2897

250) نزول مسیح، سید منظورالحسن، نومبر ۲۰۲۳، غامدی انسٹیٹیوٹ آف اسلامک لیئرننگ، صفحہ 217-185

251) https://youtu.be/YmUt_7wXz1s

252) https://youtu.be/cnM5JIyz8fg


(مکمل)



حدیث و سنت / علوم الحدیث

(الشریعہ — اکتوبر ۲۰۲۵ء)

الشریعہ — اکتوبر ۲۰۲۵ء

جلد ۳۶ ، شمارہ ۱۰

پاکستان میں سودی نظام کے خلاف جدوجہد کا عدالتی سفر
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
ادارہ الشریعہ

۷ ستمبر — یومِ تحفظِ ختمِ نبوت
حضرت مولانا اللہ وسایا
عامر عثمانی

سپریم کورٹ کا غیر شرعی فیصلہ
ڈاکٹر محمد امین

مروّجہ نعت خوانی    —    چند قابلِ اصلاح پہلو
مولانا زبیر احمد صدیقی

ابنِ خلدون: مسئلہ عصبیت  ،   ایک تجزیہ
ڈاکٹر محمد عمار خان ناصر

295C  —   قانونِ توہینِ رسالت  —   حد یا تعزیر؟
ڈاکٹر مفتی ذبیح اللہ مجددی

جسٹس منصور علی شاہ اور اسلامی قانونِ نکاح و طلاق
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد

کسبِ معاش سے صوفیہ کی وابستگی: مشائخ تیغیہ کے حوالے سے
ڈاکٹر محمد ممتاز عالم

مہذب دنیا کے غیر مہذب کھیل
ڈاکٹر عرفان شہزاد

Z-10ME جنگی ہیلی کاپٹرز کی پاکستان آرمی میں شمولیت
ابرار اسلم
ڈان نیوز

Khatm-e-Nubuwwat Conferences: A Referendum of Our Stance
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

’’خطباتِ فتحیہ: احکام القرآن اور عصرِ حاضر‘‘ (۴)
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
مولانا ڈاکٹر محمد سعید عاطف

حدیث میں بیان کی گئی علاماتِ قیامت کی تاریخی واقعات سے ہم آہنگی، بائیبل اور قرآن کی روشنی میں (۵)
ڈاکٹر محمد سعد سلیم

’’اسلام اور ارتقا: الغزالی اور جدید ارتقائی نظریات کا جائزہ‘‘ (۸)
ڈاکٹر شعیب احمد ملک
ڈاکٹر ثمینہ کوثر

ماہانہ بلاگ

صد سالہ زندگی کا سفرِ رواں
مہاتیر محمد

شنگھائی تعاون تنظیم کا پچیسواں سربراہی اجلاس — نیو ورلڈ آرڈر؟
ادارہ الشریعہ

قطر میں اسرائیلی حملہ: سکیورٹی کونسل میں اسرائیل کا موقف اور پاکستان کا جواب
عاصم افتخار احمد

غزہ و قطر پر اسرائیلی جارحیت اوراُمتِ مسلمہ کی بے بسی وبے حسی
مولانا مفتی محمد تقی عثمانی

مشرقِ وسطیٰ میں تیز تر تبدیلیاں: مستقبل کیا ہو گا؟
ڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی

پاک سعودی دفاعی معاہدہ: اہم شخصیات کے تبصرات
میڈیا

پاکستان اور سعودی عرب کا مشترکہ دفاعی معاہدہ
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد

پاک سعودی تعلقات اور مشترکہ دفاعی معاہدہ
ادارہ الشریعہ

برطانیہ، فرانس، کینیڈا، آسٹریلیا، پرتگال وغیرہ کی جانب سے فلسطینی ریاست کی تسلیم
ادارہ الشریعہ

إبداء الفرح والسرور وتقديم الشكر والتحية بمناسبة توقيع الاتفاق الدفاعي بين المملكة العربية السعودية وجمهورية باكستان الإسلامية
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
مولانا حافظ فضل الہادی سواتی

پاکستان کی جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کی حفاظت
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
ایمل صابر شاہ

جامعہ نصرۃ العلوم میں پیغامِ پاکستان سیمینار اور مولانا راشدی کا خطاب
مولانا حافظ امجد محمود معاویہ

قطر اجلاس، پاک سعودی معاہدہ، صمود فلوٹیلا، ختم نبوت کانفرنس : مولانا راشدی کا تبصرہ
مولانا حافظ عاطف حسین
مولانا حافظ دانیال عمر

مطبوعات

شماریات

Flag Counter