’’خطباتِ فتحیہ: احکام القرآن اور عصرِ حاضر‘‘ (۵)

غلامی سے متعلق اسلام کا تصور

خطبہ نمبر 4: مؤرخہ 23 اکتوبر 2016ء

الحمد للہ رب العالمین والصلوٰۃ والسلام علیٰ جمیع الانبیاء و المرسلین خصوصاً‌ علیٰ سید الرسل و خاتم النبیین وعلیٰ آلہ واصحابہ و اتباعہ اجمعین اما بعد!

حضرات علمائے کرام! محترم بزرگو، دوستو اور عزیز طلباء!

ہماری گفتگو اسلام کے خاندانی نظام کے حوالے سے ہو رہی ہے۔ کسی زمانے میں غلام لونڈی موجود تھے، تصور بھی تھا، قرآن پاک اور احادیث میں بھی ان کا ذکر ہے۔ فقہائے کرام نے بھی جزئیات کا ذکر کیا ہے۔ آج کے عالمی فکری و تہذیبی تنازعات میں اور اسلام کے بارے میں سیکولر حضرات کے اعتراضات میں سے ایک بڑا اعتراض یہ ہے کہ اُس دور میں غلامی کی نوعیت کیا تھی اور اب کیا ہے؟ اور اب تک غلامی کی کیا شرعی پوزیشن رہی ہے؟ اس موضوع پر تعارفی انداز میں گفتگو ہو گی۔

غلامی کا وجود قبل از اسلام سے جاری ہے

یہ بات تو تسلیم شدہ ہے کہ لونڈی، غلام، جناب خاتم النبیین ﷺ کے زمانے میں بھی تھے۔ حضور ﷺ کے گھر میں بھی تھے، عام معاشرے میں تھے۔ یہ وہ لوگ تھے جو خریدے جاتے تھے، بیچے جاتے تھے اور گھروں میں رہتے، خدمت کے کام کرتے تھے۔ آغاز کیسے ہوا اور غلام بنتے کیسے تھے اور غلام بننے کے جو اسباب تھے ان اسباب میں اسلام کا کیا دخل ہے؟

پہلی بات عرض کرنا چاہوں گا کہ اس کا آغاز اسلام سے نہیں ہوا، اسلام کو یہ نظام پہلے سے موجود ملا ہے۔ پہلی بات یہ ذہن میں رکھیں کہ ہم نے آغاز نہیں کیا۔ پہلے ایک سسٹم موجود تھا، چلا آرہا تھا، ہمارے ہاں بھی چلتا رہا۔ جناب خاتم النبیین ﷺ جب مبعوث ہوئے، تشریف لائے، تو خود حضور ﷺ کے گھر میں بھی غلام تھے۔ حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ حضور ﷺ کے غلام تھے جن کو آپؐ نے آزاد کر کے متبنیٰ (منہ بولا بیٹا) بنا لیا تھا۔ حضور ﷺ کی انّا (آپ کو دودھ پلانے والی) حضرت ام ایمن برکہ رضی اللہ عنہا بھی باندی تھیں، انھوں نے حضور ﷺ کو اپنی گود میں کھلایا ہے۔

غلام بنانے کے چند ذرائع

غلام بنتے کیسے تھے؟ یہ بات عرض کرنا چاہوں گا کہ ایک آزاد اچھا خاصا انسان ہے، یہ غلام کیسے بن گیا؟ غلام بنانے کے اس زمانے میں تین ذریعے تھے جن سے لوگ غلام ہو جاتے تھے۔

پہلا ذریعہ، آزاد آدمی کو پکڑ کر غلام بنانا

ایک تو تھا بردہ فروشی جو کہ طویل عرصہ تک دنیا میں جاری رہی ہے اور امریکہ کی پوری تاریخ غلاموں کے خریدنے بیچنے کی اور غلاموں کی منڈیوں کی ہے۔ غلام بیچے جاتے تھے، منڈیاں لگتی تھیں۔ کسی کمزور آدمی کو طاقتور آدمی پکڑ کر بیچ دیتا تھا اور وہ غلام ہو جاتا تھا، یہ عام چلن تھا عام رواج تھا۔ حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ جو حضور ﷺ کے غلام تھے، آزاد ہوئے، پھر حضور ﷺ کے منہ بولے بیٹے بنے۔ یہ غلام خاندان کے نہیں تھے، راہ چلتے کچھ طاقتور لوگوں نے پکڑا پھر بیچ دیا تھا، یوں یہ مکہ پہنچ گئے۔ اس کو آج کل بردہ فروشی کہتے ہیں اور یہ آج بھی دنیا میں ہے۔ طاقتور کمزور آدمی کو پکڑ کر بیچتے تھے، پیسے کھرے کرتے تھے۔ بلکہ حضرت یوسف علیہ السلام کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہوا تھا۔

وشروہ بثمن بخس دراھم معدودۃ (سورۃ یوسف: 4، آیت: 20)
( پھر) اُنھوں نے یوسف علیہ السلام کو بہت کم قیمت میں بیچ دیا جو گنتی کے چند درہموں کی شکل میں تھی۔

حضرت یوسف علیہ السلام آزاد تھے، آزاد خاندان کے فرد تھے۔ کنویں میں بے یار و مددگار پڑے ہوئے تھے، بے سہارا تھے۔ قافلہ آیا، انھوں نے پکڑا، آگے بیچ دیا۔ کسی بھی بے سہارا شخص کو پکڑ کے یا کمزور کو پکڑ کر بیچ دینا غلامی کا ذریعہ تھا اور قدیم سے چلا آ رہا تھا۔

حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ فارس کے رہنے والے تھے آزاد خاندان کے فرد تھے۔ اپنا مذہب چھوڑا، عیسائی ہوئے، راستے میں کسی نے پکڑا اور بیچ دیا۔ کہتے ہیں کہ اسلام قبول کرنے سے پہلے میں دس سے زیادہ مالک بھگت چکا تھا۔ ایک نے بیچا، دوسرے نے بیچا، تیسرے نے بیچا، اس طرح مدینہ منورہ کے یہودی خاندان میں پہنچ گئے اور یہ غلامی ان کے لیے رحمت بن گئی۔ میں دو آدمیوں کے بارے میں کہا کرتا ہوں کہ اگر غلام نہ ہوتے تو یہ مقام نہ ملتا: عالمِ اسباب میں حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ وہ خوش نصیب صحابی ہیں جن کا نام قرآن پاک میں موجود ہے، جن کو حضور ﷺ نے منہ بولا بیٹا بنایا۔ غلامی ان کے لیے نعمت بن گئی، کچھ لوگوں نے پکڑ کر بیچ دیا، بکتے بکاتے مکہ مکرمہ میں حضور ﷺ کے گھر آئے۔ یہ ان کے لیے تھی تو غلامی لیکن اللہ کی نعمت کا بہت بڑا ذریعہ بن گئی۔ یہی معاملہ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کے ساتھ ہوا۔ بکتے بکاتے حضور ﷺ کے در تک پہنچے، بالآخر اسلام کی دولت سے مالامال ہوئے۔ 

ایک طریقہ یہ تھا کہ کمزور کو پکڑ کر بیچ دیتے تھے، وہ بے چارہ کمزور ہوتا بے سہارا ہوتا کچھ نہ کر سکتا تھا۔

دوسرا ذریعہ، مقروض و مفلس کو غلام بنانا

ایک طریقہ اور تھا جو قدیم دور سے چلا آ رہا تھا۔ کوئی آدمی تاوان میں، قرض میں پھنس گیا، قرضہ ادا کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے، تاوان پڑ گیا اس پر، ادا کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے، یہ اتنا زیادہ ہے کہ وہ ادا نہیں کر سکتا۔ پھر دو صورتیں ہوتیں تھیں: ایک صورت یہ ہوتی تھی کہ وہ خود کہتا تھا کہ میں تمھارا غلام ہوں۔ خود پیشکش کر کے غلام ہو جاتا تھا۔ میں تاوان نہیں دے سکتا، قرضہ نہیں دے سکتا، میں تمھارا غلام ہوں۔ وہ گلے میں رسی ڈال لیتا تھا۔ یہ بھی ایک طریقہ عام رائج تھا۔ اس کی دوسری صورت یہ تھی کہ قرضہ ہے، تاوان ہے، پیسے دینے ہیں۔ پنچایت بیٹھتی تھی، عدالتیں لگتیں، وہ اس کے خلاف فیصلہ کر دیتی تھیں کہ یہ قرضہ ادا کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے اس کو غلام بنا لو۔ اس سلسلے میں ایک دلچسپ واقعہ ابوداؤد شریف میں حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے حوالے سے مذکور ہے۔

[اہمیت کے پیش نظر مکمل روایت درج کی جا رہی ہے۔ قال ما کان لہ شیء کنت انا الذی الی ذلک منہ منذ بعثہ اللہ الی ان توفی وکان اذا اتاہ الانسان مسلما فرآہ عاریا یامرنی فانطلق فاستقرض فاشتری لہ البردۃ فاکسوہ واطعمہ حتی اعترضنی رجل من المشرکین فقال یا بلال ان عندی سعۃ فلا تستقرض من احد الا منی ففعلت فلما ان کان ذات یوم توضات ثم قمت لاؤذن بالصلاۃ فاذا المشرک قد اقبل فی عصابۃ من التجار فلما ان رآنی قال یا حبشی قلت یا لباہ فتجہمنی وقال لی قولا غلیظا وقال لی اتدری کم بینک وبین الشہر قال قلت قریب قال انما بینک وبینہ اربع فآخذک بالذی علیک فاردک ترعی الغنم کما کنت قبل ذلک فاخذ فی نفسی ما یاخذ فی انفس الناس حتی اذا صلیت العتمۃ رجع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الی اہلہ فاستاذنت علیہ فاذن لی فقلت یا رسول اللہ بابی انت وامی ان المشرک الذی کنت اتدین منہ قال لی کذا وکذا ولیس عندک ما تقضی عنی ولا عندی وہو فاضحی فاذن لی ان آبق الی بعض ہؤلاء الاحیاء الذین قد اسلموا حتی یرزق اللہ رسولہ صلی اللہ علیہ وسلم ما یقضی عنی فخرجت حتی اذا اتیت منزلی فجعلت سیفی وجرابی ونعلی ومجنی عند راسی حتی اذا انشق عمود الصبح الاول اردت ان انطلق فاذا انسان یسعی یدعو یا بلال اجب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فانطلقت حتی اتیتہ فاذا اربع رکائب مناخات علیہن احمالہن فاستاذنت فقال لی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابشر فقد جاءک اللہ بقضائک ثم قال الم تر الرکائب المناخات الاربع فقلت بلی فقال ان لک رقابہن وما علیہن فان علیہن کسوۃ وطعاما اہداہن الی عظیم فدک فاقبضہن واقض دینک ففعلت فذکر الحدیث ثم انطلقت الی المسجد فاذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قاعد فی المسجد فسلمت علیہ فقال ما فعل ما قبلک قلت قد قضی اللہ کل شیء کان علی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فلم یبق شیء قال افضل شیء قلت نعم قال انظر ان تریحنی منہ فانی لست بداخل علی احد من اہلی حتی تریحنی منہ فلما صلی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم العتمۃ دعانی فقال ما فعل الذی قبلک قال قلت ہو معی لم یاتنا احد فبات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی المسجد وقص الحدیث حتی اذا صلی العتمۃ یعنی من الغد دعانی قال ما فعل الذی قبلک قال قلت قد اراحک اللہ منہ یا رسول اللہ… (سنن ابی داؤد، کتاب، باب الامام یقبل ھدایا، رقم الحدیث 3055)]

مدینہ منورہ میں ہجرت کے بعد جناب نبی اکرم ﷺ کے گھر کے اخراجات اور معاملات کے انچارج حضرت بلال رضی اللہ عنہ ہوا کرتے تھے۔ گھر کا نظام، سارا لین دین، خرچہ، قرضہ، ادائیگی، یہ سارے معاملات حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے سپرد تھے۔ گھر کے افراد کو خرچہ پہنچانا ہے، کوئی مہمان آ گیا تو اس کو سنبھالنا ہے، حضورؐ کا کوئی لین دین ہے، یہ سارے معاملات حضرت بلال رضی اللہ عنہ کیا کرتے تھے۔ حضور ﷺ کے امورِ خانہ داری کے معاملات بھی ان کے ہاتھ میں تھے۔ حضور ﷺ ان میں اس حوالے سے فارغ تھے کہ یہ بلال کی ذمہ داری ہے، گھر میں خرچہ دینا ہے، پاس ہے تو دے دیں، وگرنہ قرضہ لے کر دے دیں اور بعد میں یہ حساب کتاب کرتے رہیں کہ ذمہ داری ان کی تھی۔

حضرت بلال رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہمارے محلے میں یہودی تھا میں اس سے قرضہ لے لیا کرتا تھا۔ کوئی مہمان آ گیا ہے کسی کو دینا ہے تو میں اس سے قرض لے لیا کرتا تھا اور وہ دے دیا کرتا تھا۔ بعد میں جب کہیں سے پیسے وغیرہ آتے تو ادا کر دیتا تھا۔ ایک دفعہ قرضہ لیتے لیتے بہت قرضہ چڑھ گیا۔ ادائی کی کوئی صورت نہیں بن رہی تھی، اس نے کہا کہ پیسے دے دو وگرنہ تین دن بعد گلے میں رسی ڈال دوں گا۔ مطلب یہ کہ اپنے پیسوں کے بدلے میں تمھیں غلام بنا کر بیچ دوں گا۔ حضرت بلال رضی اللہ عنہ جناب خاتم النبیین ﷺ کی خدمت میں آئے، یا رسول اللہ! اس یہودی نے آج یہ دھمکی دے دی ہے اور میرے پاس رقم نہیں ہے۔ حضور ﷺ نے فرمایا میرے پاس بھی نہیں ہے۔

ایک دن گذرا، دو دن، تین دن گذرے، پیسوں کا کوئی انتظام نہیں ہو رہا تھا، نہ حضورؐ کے پاس نہ حضرت بلالؓ کے پاس۔ تین دن پورے ہو گئے۔ تیسرے دن شام کو حضرت بلالؓ نے کہا، کچھ کیجیے یا رسول اللہ! میں دوبارہ گلے میں رسی ڈلوانے کے لیے تیار نہیں ہوں۔ حضور ﷺ نے فرمایا، کوئی صورت نہیں بن رہی۔ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کہا، یارسول اللہ! اجازت دیجیے میں شام کو کہیں چلا جاتا ہوں جب انتظام ہو گا تو آ جاؤں گا۔ حضور ﷺ نے فرمایا، ٹھیک ہے۔ حضرت بلالؓ کو اجازت مل گئی۔

حضرت بلال رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میرے پاس سواری کے لیے خچر تھا، رات کو ساری تیاری مکمل کی، سامان تیار کر کے لیٹ گیا کہ آدھی رات کے بعد جب لوگ تہجد کے لیے اٹھیں گے تب خاموشی سے اٹھوں گا اور چپکے سے نکل جاؤں گا۔ میں ابھی سامان تیار کر کے لیٹا ہی تھا اس خیال سے کہ دو تین گھنٹے سوتا ہوں پھر چلا جاؤں گا۔ اتنے میں کسی نے آواز دی بلال! رسول اللہ ﷺ یاد فرما رہے ہیں۔ میں حاضر ہوا۔ چار اونٹ ساز و سامان سمیت کھڑے تھے، ان پر غلہ وغیرہ لدا ہوا تھا، کپڑے، غلہ غرض پورا سامان تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، بلال! نظر ڈالو اور دیکھ کر بتاؤ کہ قرضہ ادا ہو جائے گا؟ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! اس سامان میں سے کچھ بچ بھی جائے گا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: جاؤ یہ لے جاؤ۔ یہ مجھے فلاں قبیلے کے سردار نے ہدیہ بھیجا ہے یہ چار اونٹ ساز و سامان سمیت۔ اب جاؤ اپنا قرضہ پورا کرو۔ اللہ پاک نے تمھیں جانے سے بھی بچا لیا، غلام ہونے سے بھی بچا لیا۔ اگر قرضہ ادا ہونے کے بعد کچھ بچ جائے تو میرے گھر نہ لانا، تقسیم کر دینا۔

اس زمانے میں غلام بننے بنانے کا یہ بھی ایک طریقہ تھا۔ تاوان میں، قرضے میں، یا زبردستی، یا پنچایت کے ذریعے غلام بنا دیے جاتے تھے۔

تیسرا ذریعہ، جنگی قیدی کو غلام بنانا

تیسرا طریقہ اس زمانے میں غلام بنانے کا یہ تھا کہ جنگ ہوئی اور اس میں جنگی قیدی بنا لیے جاتے۔ اس دور کا عمومی عرف اور رواج یہ تھا کہ جنگوں کے قیدی کے لیے چار طریقے با اختیار (Options) ہوتے تھے:

  • قتل کر دیں۔
  • ویسے چھوڑ دیں۔
  • قیدیوں کا تبادلہ کر لیں۔
  • فدیہ لے لیں۔
  • آخری آپشن (اختیار) یہ تھا کہ ان کو قیدی بنا لیں۔

پہلے دو آپشن، کہ چھوڑ دیں، اگر ضروری سمجھتے ہوں تو قتل کر دیں۔ خاتم النبیین ﷺ نے بڑے مجرم قسم کے جنگی قیدی قتل بھی کیے ہیں، کچھ ویسے بھی چھوڑے ہیں، فدیہ لے کر بھی چھوڑے ہیں، غلام بھی بنائے ہیں۔ چاروں آپشن خاتم النبیین ﷺ کے زمانے میں استعمال ہوئے ہیں۔

بدر کے قیدی فدیہ لے کر چھوڑے تھے جس کا ذکر قرآن پاک میں بھی ہے (سورۃ الانفال: 8، آیت: 67)۔ مشورہ ہوا تھا فدیہ لے کر چھوڑے تھے۔ غزوہ بنی مصطلق کے قیدی صحابہ کرام ﷺ نے ویسے ہی چھوڑ دیے تھے۔ ہوا یوں کہ قیدی آئے، جنگ ہوئی، فتح ہوئی، قیدی بنے۔ خاتم النبیین ﷺ نے بنی مصطلق کے سردار کی بیٹی حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا سے نکاح فرما لیا۔ جب شادی کر لی تو صحابہ کرامؓ نے کہا کہ یا رسول اللہ ﷺ اب تو آپؐ نے شادی کر لی ہے، اب جتنے بھی قیدی آپؐ کے سسرالی خاندان میں سے ہیں ہم انھیں آزاد کرتے ہیں۔ تو اس شادی کی برکت سے سارے قیدی چھوڑ دیے گئے۔

[ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قد تزوج جویریۃ، ‏‏‏‏‏‏فارسلوا ما فی ایدیہم من السبی، ‏‏‏‏‏‏ (سنن ابی داؤد، باب فی بیع المکاتب اذا فسخت الکتابۃ، حدیث نمبر 3931)]

جبکہ بنو قریظہ کے لوگ عہد شکنی اور فتنہ پروری کے سبب قتل بھی کیے ہیں (صحیح بخاری، باب اذا نزل العدو علی حکم رجل، حدیث نمبر: 3043)۔ ویسے بھی چھوڑے ہیں، ایک دلچسپ واقعہ ابوداؤد شریف میں ہے (سنن ابی داؤد ، باب الرخصۃ فی المدرکین یفرق بینہ، حدیث نمبر: 2699)۔ قیدیوں کے تبادلے کے حوالہ سے ایک معرکہ میں ایک عورت گرفتار ہو کر آئی، بڑی خوبصورت عورت تھی، وہ سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ کے حصے میں آئی تھی۔ حضور ﷺ نے دیکھا تو فرمایا، اے سلمہ! یہ مجھے دے دو۔ اب وہ پریشان کہ وہ کیوں مانگ رہے ہیں؟ حضور ﷺ نے فرمایا، یہ مجھے دے دو۔ انھوں نے دے دی۔ حضور ﷺ نے اس عورت کے عوض اپنے بعض قیدیوں کا تبادلہ کروایا۔ کفار سے کہا کہ قیدی چھوڑ دو اور اپنے قیدی لے جاؤ۔ قیدیوں کا تبادلہ بھی حضور ﷺ نے کیا۔

ایک طریقہ یہ بھی تھا کہ جنگ میں جو قیدی آئے ہیں ان قیدیوں کو اگر اور کوئی آپشن موجود نہیں کوئی اور صورت موجود نہیں ہے، قیدی ہی رکھنا ہے، تو قیدی رکھنے کے لیے قید خانے موجود نہیں ہوتے تھے، جیلیں نہیں ہوتی تھیں۔ جب قیدی ہی رکھنے ہیں تو ان کا کیمپ بنانے کی بجائے تقسیم کر دو۔ یہ ہوتے تھے اس دور کے غلام۔

اب اگلے مراحل میں جناب خاتم النبیین ﷺ نے اس آپشن کو باقی رکھا۔ میں یہ بات کہہ رہا ہوں اور یہ حکم نہیں ہے آپشنز ہیں۔ ان آپشنز میں سے ایک آپشن کو باقی رکھا لیکن اس میں بھی اصلاحات کیں۔ پھر ان کا معاشرتی مقام طے کیا، معاشرتی حیثیت باقی رکھی۔ اس کے دو حوالے موجود ہیں۔ حضور ﷺ نے فرمایا، یہ بھی تمھاری طرح انسان ہیں۔ تقدیر کے تحت تمھارے قبضے میں آگئے ہیں۔

اخوانکم خولکم، جعلہم اللہ تحت ایدیکم (صحیح بخاری، باب المعاصی من امر الجاہلیۃ، حدیث نمبر: 30)
(تمھارے بھائی ہیں جو اللہ نے تمھارے قبضے میں دے دیے۔)

ان کے ساتھ معاشرتی معاملہ وہی کرنا ہے جو آپس میں کرتے ہو۔ حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ اور حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جناب خاتم النبیین ﷺ نے ہدایات جاری کر دیں کہ اگر کسی کے ماتحت غلام ہو تو جو خود کھاتے ہو ان کو بھی کھلاؤ، جو خود پہنتے ہو ان کو بھی پہناؤ۔ ان کی طاقت اور حیثیت سے زیادہ ان پر بوجھ مت ڈالو، جو کام خود نہیں کر سکتے ان کے کھاتے میں مت ڈالو بلکہ خود ساتھ مل کر ان سے تعاون کرو۔

ایک دفعہ ایک صاحب آئے حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کے پاس۔ جیسا لباس حضرت سلمان فارسیؓ نے خود پہنا ہوا ہے ویسا ہی غلام نے پہنا ہوا ہے۔ آنے والے نے پوچھا کہ حضرت، غلام کو بھی یہی پہنایا ہوا ہے، اچھا لباس تھا کام آسکتا تھا۔ فرمایا، نہیں۔ اور حدیث سنائی کہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ یہ تمھارے بھائی ہیں تقدیر کی وجہ سے تمھارے ماتحت آگئے ہیں۔

جعلھم اللہ تحت ایدیکم۔
(اللہ نے تمھارے قبضے میں دے دیے۔)

نبی ﷺ نے یہ حکم دیا کہ اپنے گھر کے ماحول میں انھیں گھر والوں کی طرح رکھو، وہ کھلاؤ جو خود کھاتے ہو، وہ پہناؤ جو خود پہنتے ہو۔ ان کی صلاحیت اور استعداد سے زیادہ کام مت ڈالو۔ اگر کوئی کام ان کی طاقت سے زیادہ ہے تو خود ان کے ساتھ مل کر کام کرو۔

حضرت ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں، میں پہاڑ پر جا رہا تھا جہاں میری ایک لونڈی بکریاں چراتی تھی، میرے دیکھتے دیکھتے ایک بھیڑیا آیا، اس نے بکری ٹانگ سے پکڑی اور کھینچ کے لے گیا، میں جلدی سے گیا اور جا کر اس لونڈی کو تھپڑ لگایا کہ تو یہاں کیا کر رہی ہے، بھیڑیا بکری لے گیا۔ کہتے ہیں کہ میں نے زور سے تھپڑ مارا اس کوتاہی پر کہ تمھارے ہوتے ہوئے بھیڑیا بکری کیوں لے گیا ہے؟ اچانک پیچھے سے آواز آئی، ابو مسعود (رضی اللہ عنہ)!

اعلم، ابا مسعود، ان اللہ اقدر علیک۔ (صحیح مسلم، باب صحبۃ الممالیک، حدیث نمبر: 35)
(جان لے ابو مسعود! تو اس لونڈی پر جو قدرت رکھتا ہے اللہ تعالیٰ تجھ پر اس سے زیادہ قدرت رکھتے ہیں۔)

اس بڑی قدرت والے کو بھی دیکھ۔ میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا، آواز دینے والے جناب نبی اکرم ﷺ تھے۔ آپؐ نے فرمایا، اس کو تھپڑ کیوں مارا ہے؟ عرض کیا کہ یارسول اللہ! اس سے غلطی ہوئی ہے۔ آپؐ نے فرمایا، ہو گئی غلطی لیکن تھپڑ کیوں مارا ہے؟ حضرت ابو مسعودؓ کہتے ہیں کہ میں نے کہا، اس معاملے میں مجھ سے غلطی ہو گئی، یا رسول اللہ! اللہ کے لیے اس کو آزاد کرتا ہوں، تھپڑ کی وجہ سے اللہ کی رضا کے لیے اس کو معاف کرتا ہوں۔ خاتم النبیین ﷺ نے فرمایا، اگر تم اسے آزاد نہ کرتے تو (للفحتک النار) جہنم کی آگ تمھیں گھیرے میں لے لیتی۔ حضور ﷺ نے اس قدر اہتمام کے ساتھ لونڈی، غلام کے معاشرتی مقام کا تعین کیا، ان کی حدود متعین کیں۔

میں موضوع کے حوالے سے عرض کروں گا کہ یہ قیدی کو عزت سے گھر رکھنے کا آپشن حضور ﷺ نے باقی رکھا ہے۔ حضور ﷺ کے زمانے میں بھی تھا، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے زمانے میں بھی تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو شہید کرنے والا کون تھا؟ ابولؤلو مجوسی۔ یہ حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کا غلام تھا۔ جس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے تبصرہ بھی کیا۔ حضرت عمرؓ مدینہ میں غلاموں کو زیادہ رکھنے کے حق میں نہیں تھے۔

غلامی کے تین طریقے میں نے عرض کیے: (1) کمزور آدمی کو پکڑ کے بیچ دینا (2) آزاد آدمی کو قرضے یا تاوان میں غلام بنا لینا (3) جنگی قیدیوں کو اگر قیدی رکھنا ہے تو تقسیم کر دینا، یہ تین طریقے تھے۔

جناب خاتم النبیین ﷺ نے پہلے دو طریقے تو مکمل طور پر منع فرما دیے۔ دو کھڑکیاں ہمیشہ کے لیے بند کر دیں۔ وہ راستے جو باقی دنیا نے ہزار سال بعد بند کیے ہیں، حضور ﷺ نے اسی وقت بند فرما دیے۔ فرمایا: ’’ثلاثۃ انا خصمھم یوم القیامۃ … و رجل باع حرا فاکل ثمنہ‘‘ (قیامت کے دن تین آدمیوں کا فریقِ مخالف میں ہوں گا … ایسا آدمی جو کسی آزاد کو بیچ کر اس کی قیمت کھا لے)۔

[مکمل روایت یہ ہے: عن النبی قال: قال اللہ تعالیٰ: ثلاثۃ انا خصمھم یوم القیامۃ، رجل اعطی بی ثم غدر، ورجل باع حرا فاکل ثمنہ۔ ورجل استاجر اجیرا فاستوفی منہ و لم یعط اجرہ (صحیح بخاری، باب اثم من منع اجر الاجیر، حدیث نمبر 2270)]

کسی آزاد کو بیچنا یا کسی آزاد آدمی کی قیمت لینا کسی بھی حوالے سے حرام ہے۔ یہ پہلا طریقہ حضور ﷺ نے مکمل طور پر حرام کر دیا۔ اور تاوان و قرضے میں بھی کسی کو غلام بنانے کی اجازت نہیں ہے۔ جناب نبی اکرم ﷺ کے اعلان کے ساتھ یہ دونوں راستے بند ہو گئے۔ اس کے بعد نہ حضور ﷺ کے زمانے میں، نہ خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کے زمانے میں، اور آج تک اسلامی تاریخ میں اس کی کوئی مثال نہیں ملی کہ آزاد کو پکڑ کر بیچنا اور قرضے اور تاوان کے بدلے میں غلام بنا لینا، اس کے بعد سے یہ دونوں راستے اب تک بند ہیں۔

تیسرا راستہ جنگی قیدیوں کے حوالے سے تھا، یہ کب تک باقی رہا؟ اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ گذشتہ دو صدیوں میں اسلام کے نام پر جہاد کے عنوان سے جتنی باضابطہ جنگیں لڑی گئی ہیں۔ جمہور علماء کی تائید کے ساتھ، فلسطین کا جہاد ہو، افغانستان کا جہاد ہو، کشمیر کا جہاد ہو، ہندوستان کا جہادِ آزادی ہو۔ یہ سب تقریباً‌ گذشتہ ڈیڑھ صدی میں جمہور علماء کی تائید کے ساتھ لڑے گئے ہیں۔ نہ کسی کو غلام بنایا ہے نہ کسی کو لونڈی۔ آج بھی جو شرعی مسلّمہ جہاد ہے ان میں نہ کسی کو غلام بنایا جاتا ہے نہ کسی کو لونڈی، آخر اس کی وجہ کیا ہے؟

ایک اعتراض کا جواب

حیران ہوں کہ آج مغرب ہم پر یہ اعتراض کر رہا ہے۔ اس کا اعتراض یہ ہے کہ عملاً‌ تو تم نے تسلیم کر لیا کہ غلامی نہیں، غلامی کا وجود نہیں ہے، کتابوں میں کیوں پڑھاتے ہو؟ پھر قرآن میں ہے، قرآن تبدیل کرو، حدیثیں بدلو، فقہی احکام میں ترمیم کرو۔

ہمارے دینی مدارس کے نصاب پر مغرب کے جو اعتراض ہیں ان میں ایک اعتراض یہ بھی ہے کہ ’’تحریر رقبہ‘‘ کا ذکر ہے، ’’فتحریر رقبۃ مؤمنۃ‘‘ کا ذکر ہے ’’ما ملکت ایمانکم‘‘ (سورۃ النساء: 4، آیت: 92) کا ذکر ہے، ’’ولا تکرہوا فتیٰتکم علی البغآء‘‘ (سورۃ النور: 24، آیت: 33)

(اپنی باندیوں کو دنیوی زندگی کا ساز و سامان حاصل کرنے کے لیے بدکاری پر مجبور نہ کرو۔)

بیسیوں آیات ہیں جو ہم پڑھاتے ہیں۔ مغرب کا ایک جھگڑا ہمارے ساتھ یہ ہے کہ جب عملاً‌ تم غلام نہیں بناتے تو علماء کو کیوں پڑھاتے ہو؟ اس پر ہمارے ہاں یہ سوال ہے کہ اگر یہ شرعی تھا تو اب کیوں نہیں ہے؟ اگر نہیں ہے تو پھر پہلے کیوں تھا؟ دونوں بڑے مستقل سوال ہیں۔ اگر یہ شرعاً‌ درست ہے جائز ہے تو اب کیوں نہیں کر رہے؟ اور حقیقت ہے کہ کوئی بھی نہیں کر رہا، نہ فلسطینی کر رہے ہیں، نہ ہم کر رہے، نہ افغانی کر رہے ہیں۔ ہم نے آزادی کی جتنی جنگیں لڑی ہیں اس میں کیوں نہیں کیا، یہ بہت بڑا سوال ہے۔ جب ایک شرعی ضابطہ تھا تو کیوں نہیں کیا، کسی نے منسوخ کیا ہے اس کو؟

تو میں عرض کیا کرتا ہوں کہ یہ حکم نہیں آپشن تھا۔ قرآن پاک کا یہ حکم نہیں ہے، چار پانچ آپشنز میں سے ایک آپشن ہے کہ یہ بھی کر سکتے ہو۔ حکم کی نوعیت اور ہوتی ہے، آپشن کی نوعیت اور ہوتی ہے۔

  1. آزاد کر دو۔
  2. قتل کرنا ہے قتل کر دو۔
  3. فدیہ لے لو۔
  4. قیدی بنا لو۔ اور قیدی بنانے کے آپشن بھی دو ہیں: اجتماعی قید خانے یا پھر تقسیم کرنا۔

اب ہم اس لیے نہیں کر رہے کہ اُس زمانے کا عالمی عُرف یہ تھا کہ قیدی تقسیم کر دیے جاتے تھے۔ اب دنیا میں قیدیوں کے بارے میں اقوام کا آپس میں سمجھوتا ہو چکا ہے کہ قیدیوں کے ساتھ کیا معاملہ کرنا ہے۔ بین الاقوامی معاہدات کے بارے میں ایک اصولی بات یاد رکھیں۔ بہت سے معاہدات کے بارے میں، میں بھی عرض کروں گا کہ ہمیں معاہدات میں کیا کیا نقصان ہیں اور کیا کیا فائدے ہیں۔

بین الاقوامی معاہدات کے بارے میں شرعی نقطۂ نظر

یہ بات ذہن میں رکھیں کہ اس وقت دنیا میں حکومت معاہدات کی ہے، حکومتوں کی نہیں ہے۔ ستائیس معاہدات بتائے جاتے ہیں جو پوری دنیا پر حکومت کر رہے ہیں، نہ آپ خلاف ورزی کر سکتے ہیں، نہ کوئی اور کر سکتا ہے (معاہدات کی بات اپنے مقام پر تفصیل سے عرض کروں گا)۔ اصولی بات ذہن میں رکھیں کہ بین الاقوامی معاہدات میں ہمارے لیے اصول یہ ہے کہ نصِ صریح اور نصِ قطعی کے خلاف کوئی بات ہو گی تو ہم اس کے پابند نہیں ہیں۔ لیکن اجتہادی معاملات میں جہاں ہمیں اجتہادی طریقے سے معاملات کو سیٹ کرنے کا اختیار ہے وہاں ہم بین الاقوامی معاہدات کی پابندی کریں گے۔

بین الاقوامی معاہدات کی حدود

قرآن پاک کی نصِ صریح کے خلاف کوئی بات ہوئی تو وہاں ہم ضرور آواز اٹھائیں گے کہ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ لیکن جو معاملات اجتہادی ہیں جہاں آپس میں حالات کے تغیر کی وجہ سے تبدیلی کر سکتے ہیں وہاں بین الاقوامی معاہدات کو قبول کر لیں گے۔ بین الاقوامی معاہدات کا احترام خاتم النبیین ﷺ نے بھی کیا ہے۔ یہ فرق ضرور ذہن میں رکھیں کہ یہ قرآن پاک کی نصِ صریح اور نصِ قطعی کے خلاف تو نہیں ہے۔ وہاں ہم اپنے تحفظ کا اظہار کریں گے اور اپنے احکام پر عمل کا راستہ نکالیں گے۔ اور ایک بات پر ایک عرصے سے زور دے رہا ہوں کہ ہمارے علمی اداروں کو آج کے بین الاقوامی معاہدات کا تجزیہ کرنا چاہیے اور معاہدات کو سامنے رکھ کر یہ تعیین کر دینی چاہیے کہ یہ باتیں ہمارے لیے قابلِ قبول نہیں ہیں کیونکہ یہ نصوص کے خلاف ہیں، اور یہ باتیں ہمارے لیے قابلِ قبول ہیں۔ یہ فرق ہمیں واضح کر دینا چاہیے جو ہم نہیں کر رہے۔ اصول میں نے عرض کر دیا کہ نصوصِ قطعیہ کے خلاف بات نہیں مانیں گے، البتہ اجتہادی معاملات کوئی اعتراض کی بات نہیں ہے۔

بین الاقوامی معاہدات کا احترام خود حضور ﷺ نے کیا ہے، اس کی اجازت دی ہے۔ دو حوالے ہیں، بخاری شریف میں مذکور ہیں۔ جناب خاتم النبیین ﷺ نے جب دنیا کے مختلف بادشاہوں کو خطوط لکھنے کا ارادہ کیا تو حضور ﷺ کو بتایا گیا کہ آج کا طریقہ یہ ہے کہ سادہ خط قبول نہیں کرتے، مہر کے بغیر خط قابلِ اعتنا نہیں سمجھے جاتے۔ حضور ﷺ تم نے قیصر روم کو، کسریٰ فارس کو، نجاشی کو، مختلف بادشاہوں کو خطوط لکھے، تاریخ میں موجود ہے۔

حضور ﷺ کو بتایا گیا تھا کہ مہر کے ساتھ خط قبول ہوتا ہے سادہ خط نہیں لیتے۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ تفصیل سے بیان کرتے ہیں (صحیح بخاری، باب نقش الخاتم، حدیث نمبر: 5534)۔ جناب خاتم النبیین ﷺ نے اس تقاضے کو پورا کرنے کے لیے انگوٹھی بنوائی، انگوٹھی میں مہر کندہ تھی، وہ مہر حضور ﷺ استعمال کرتے تھے۔ سرکاری مہر کے طور پر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ وہی مہر استعمال کرتے تھے جو سرکاری ہونے کی دلیل ہوتی تھی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی وہی مہر استعمال کرتے تھے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ بھی چھ سال وہی مہر استعمال کرتے رہے اور چھ سال کے بعد ان کے ہاتھ سے کہیں گری تو پھر نہیں ملی۔ غرض یہ کہ اس زمانے کا جو عالمی عُرف تھا، اس میں کسی قسم کی کوئی شرعی خلاف ورزی نہیں تھی، اس سے دینی امور میں کوئی حرج نہیں ہو رہا تھا، حضور ﷺ نے اس کو قبول کیا۔ آپ ﷺ نے مہر بنوائی اور مہر مدت تک آپ کے استعمال میں رہی۔ بین الاقوامی معاہدات اور بین الاقوامی عُرف میں وہ باتیں جن سے ہمارے اصول متاثر نہیں ہوتے، ان کو قبول کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے اور حضور ﷺ نے بھی قبول کیے ہیں۔ ایک بات مہر کی عرض کی، ایک بات اور عرض کرتا ہوں، بخاری شریف کی روایت ہے۔ (صحیح بخاری، باب قصۃ الاسود العنسی، حدیث نمبر: 4378)

مسیلمہ کذاب نے حضور ﷺ کے زمانے میں نبوت کا دعویٰ کیا۔ حضور ﷺ کو نبی مانتا تھا۔ خود بھی نبوت کی بات کی۔ اس نے حضور ﷺ کی نبوت کا انکار نہیں کیا تھا، وہ پہلے حضورؐ کی نبوت کا اقرار کرواتا تھا، پھر کہتا تھا ’’انی رسول اللہ‘‘۔ اس پر بے شمار شواہد ہیں۔ اذان بھی اسی طرح دلواتا تھا، پہلے ’’اشہد ان محمدا رسول اللہ‘‘ پھر ’’ان مسیلمۃ رسول اللہ‘‘۔ مسیلمہ کے پاس جو آدمی جاتا تھا پہلے پوچھتا: ’’اتشہد ان محمدا رسول اللہ؟‘‘ (سنن دارمی، باب فی النہی عن قتل الرسل، حدیث نمبر: 2545)۔

حضرت حبیب بن زید انصاری رضی اللہ عنہ پہلے صحابی ہیں جو ختمِ نبوت کے لیے شہید ہوئے۔ مسیلمہ کی فوج کے ہاتھوں پکڑے گئے، مسیلمہ کے سامنے پیش ہوئے، ان سے پوچھا گیا: ’’اتشہد ان محمدا رسول اللہ‘‘۔ انھوں نے کہا: میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں۔ پھر اس نے کہا: ’’اتشہد انی رسول اللہ‘‘۔ حضرت حبیب رضی رضی اللہ عنہ نے جواب دیا، نہیں، میں تمھیں اللہ کا رسول نہیں مانتا۔ پہلے حضور ﷺ کا پوچھا، پھر اس نے اپنا پوچھا کہ مجھے بھی اللہ کا رسول مانتے ہو؟ انھوں نے بڑا پُر حکمت جواب دیا: میرے یہ کان تمھاری یہ آواز نہیں سن رہے۔ ورنہ سادہ سا جواب ہو سکتا تھا کہ نہیں مانتا۔ اس پر شہید کر دیے گئے۔

میں یہ بتا رہا ہوں کہ وہ حضور ﷺ کی نبوت کا اقرار کرتا تھا، حضورؐ کی نبوت میں حضورؐ کی پیروی میں اپنی نبوت کا دعوے دار تھا۔ پہلے حضور ﷺ کا اقرار کرواتا، اس نے نبی اکرم ﷺ کے نام اپنے خط میں بھی یہی لکھا۔

قادیانی مغالطہ

ایک بات درمیان میں عرض کر دوں کہ قادیانی حضرات مغالطہ دیتے ہیں کہ مرزا صاحب، حضور ﷺ کے مقابلے کے نہیں حضور ﷺ کے تابعدار نبی ہیں۔ یہ بہت بڑا مغالطہ ہے۔ ہم مقابلے پر تھوڑی ہیں، ہم حضور ﷺ کو نبی مانتے ہیں، بس اپنی بات بھی کرتے ہیں۔ مسیلمہ بھی یہی کہتا تھا۔ مرزا قادیانی کے مؤقف میں اور مسیلمہ کے مؤقف میں کوئی فرق نہیں تھا۔ مسیلمہ بھی یہی کہتا تھا، محمد اللہ کے رسول ہیں، میں بھی ہوں۔ اس کے خط کا متن یہ ہے:

فان اشرکت فی الامر معک فلی نصف الارض ولک نصفہا، ولٰکن قریشا یعتدون (شعب الایمان، فصل فی بیان النبی ﷺ، حدیث نمبر: 1370)
(مجھے نبوت میں آپ کے ساتھ شریک کیا گیا ہے اور لیکن قریشی سخت لوگ ہیں بات نہیں مانا کرتے۔)

اس نے یہی پیش کش کی اور کہا کہ آپ کے ساتھ میری کوئی جنگ نہیں ہے، اپنے بعد مجھے اپنا خلیفہ نامزد کر دیں۔ یا یہ کر دیں کہ شہروں کے نبی آپ، دیہاتوں کا نبی میں، تو اس طرح نبوت کو تقسیم کر دیں۔

یہ ساری بات اس لیے کی کہ مسلیمہ کذاب کا دعویٰ حضور ﷺ کے مقابل نبی کا نہیں تھا، امتی نبی کا تھا، پیروکار اور تابع نبی کا تھا، شریک نبی کا تھا۔ قادیانی یہ مغالطہ دیتے ہیں کہ ہم مقابل نبی نہیں بلکہ تابع نبی ہیں۔ دونوں جھوٹوں کی ایک ہی قسم کی دجالی نفسیات ہے۔

مسیلمہ کے دو قاصد خط لے کر آئے: ’’مسیلمہ رسول اللہ کی طرف سے محمد رسول اللہ کے نام۔ مجھے آپ کے ساتھ نبوت میں شریک کیا گیا ہے مگر قریش مانتے نہیں ہیں۔ آپ ایسا کریں کہ مجھے اپنا خلیفہ بنا دیں، یا پھر شہر اور دیہات کی تقسیم کر دیں۔‘‘

یہ خط جناب خاتم النبیین ﷺ نے پڑھا اور ان دونوں قاصدوں سے پوچھا: ’’اتشہد انی رسول اللہ‘‘ مجھے اللہ کا رسول مانتے ہو؟ انھوں نے کہا، مانتے ہیں۔ پھر آپ نے پوچھا: ’’اتشہد ان مسیلمۃ رسول اللہ‘‘ مجھے رسول ماننے کے بعد مسیلمہ کو بھی رسول مانتے ہو؟ انھوں نے کہا، مانتے ہیں۔ اس پر حضور ﷺ نے ایک جملہ ارشاد فرمایا۔ آپ ﷺ نے فرمایا:

اما واللہ لو لا ان الرسل لا تقتل لضربت اعناقکما (سنن ابی داؤد، باب فی الرسل، حدیث نمبر 2761)
(اگر یہ ضابطہ نہ ہوتا کہ سفیروں کو قتل نہیں کیا جاتا تو میں تم دونوں کی گردن اڑا دیتا۔)

عام دنیا کا قاعدہ ہے کہ سفیروں کو قتل نہیں کیا جاتا اور سفیروں کا قتل اعلانِ جنگ تصور ہوتا ہے۔ حضور ﷺ نے فرمایا، ہمارے ضابطے کے مطابق تم قتل کے مستحق تھے لیکن یہ بین الاقوامی ضابطہ تمھیں بچا رہا ہے کہ سفیروں کو قتل کرنا درست نہیں، اگر جائز ہوتا تو میں تم دونوں کی گردنیں اڑا دیتا۔ یعنی سفیروں کا قتل کرنا جائز نہیں ہے، تو حضور ﷺ نے اس ضابطے کا خیال رکھا۔ جو بین الاقوامی ضوابط جن سے ہمارے اصولوں پر کوئی فرق نہ پڑے، حضور ﷺ ان ضوابط کا خیال فرماتے تھے۔

اُس زمانے میں قیدیوں کو تقسیم کرنے کا رواج تھا، ہم نے اس کو قبول کیا۔ اب عالمی عُرف بدل گیا ہے، قیدیوں کے بارے میں قوانین ہیں کہ قیدیوں کو کیسے سنبھالنا ہے، مکمل نظام موجود ہے۔ ہمیں اس کو مسترد کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے کیونکہ یہ ہماری نصوص کے خلاف نہیں ہیں۔ ہم نے بحیثیت امت اس کو قبول کر لیا ہے۔ قیدیوں کے بارے میں جو آج کا عُرف ہے اس سسٹم کو ہم نے قبول کر رکھا ہے، اس لیے اِس زمانے میں غلام نہیں ہیں۔

میں اگلے سوال کا جواب دے رہا ہوں کہ پڑھاتے کیوں ہو؟ اس لیے پڑھاتے ہیں کہ وہ احکام منسوخ نہیں ہوئے۔ کل اگر وہ ماحول پھر آجائے گا تو قوانین موجود ہیں۔ قوانین منسوخ کسی نے نہیں کیے۔ اس کی ایک مثال دوں گا، بڑا پیچیدہ مسئلہ ہے، سمجھنا ضروری ہے۔

مَحل پائے جانے پر حکم کے لوٹ آنے کا اصول

ایک ہے حکم، ایک ہے حکم کا محل۔ قرآن کریم میں صلاۃ الخوف کا ذکر ہے:

واذا کنت فیہم فاقمت لہم الصلوٰۃ فلتقم طآئفۃ منہم معک (سورۃ النساء: 4، آیت: 102)
(اور (اے پیغمبرؐ) جب آپ ان کے درمیان موجود ہوں اور انھیں نماز پڑھائیں تو (دشمن سے مقابلے کے وقت اس کا طریقہ یہ ہے کہ) مسلمانوں کا ایک گروہ آپ کے ساتھ کھڑا ہو جائے۔) 

قرآن کریم نے جنگ کی حالت میں نماز کی ترتیب بیان کی ہے۔ یہ ترتیب علماء کرام کے ذہن میں آگئی ہو گی کہ ایک گروہ وہاں الگ کھڑا ہو، ایک جنگ کرے۔   ایک رکعت پڑھے، دو رکعت پڑھے۔ یہ ترتیب قرآن پاک نے بیان کی ہے۔ لیکن کیا آج اس ترتیب سے میدانِ جنگ میں نماز پڑھیں گے؟ اب صفوں کی جنگ نہیں مورچوں کی جنگ ہے۔ سب کو مورچوں سے بلا کر دس بارہ ہزار فوجیوں کو سامنے کھڑا کریں گے؟ قرآن پاک کہتا ہے کہ صف میں کھڑا کرو! تو کیا یہ حکم منسوخ ہو گیا ہے؟ حکم بھی منسوخ نہیں ہوا، آپ کریں گے بھی نہیں۔ حکم آج بھی ہے لیکن محل نہیں ہے۔ کل اگر دوبارہ صفوں کی جنگ لوٹ آئی پھر وہی حکم ہے۔ حکم اپنی جگہ محل اپنی جگہ، فی الحال اس حکم کا محل نہیں ہے۔

صلاۃ الخوف کا حکم منسوخ نہیں ہوا۔ آج بھی ہم اس کے احکام پڑھتے پڑھاتے ہیں، حدیثوں میں، فقہ میں بھی پڑھاتے ہیں۔ البتہ محل نہ ہونے کی وجہ سے ہم حکم پر عمل نہیں کریں گے۔ لیکن منسوخ اس لیے نہیں کر رہے اور نہ کر سکتے ہیں کہ کل اگر سابقہ ماحول بحال ہو گیا تو حکم تو باقی ہے۔ 

غلامی کے حوالے سے بھی میں عرض کروں گا کہ آج کے حالات غلامی کے ان قوانین کا محل نہیں ہیں۔ جس طرح صلاۃ الخوف کا محل نہیں ہے ایسے ہی غلامی کے احکام کا محل نہیں ہے۔ آج ہم اسی طرح عالمی عرف کی پابندی کریں گے جس طرح بہت سے معاملات میں جناب خاتم النبیین ﷺ نے عالمی عُرف کی پابندی کی ہے۔ غلامی اپنے زمانے میں تھی، آج اس کی شرائط موجود نہیں ہیں، اب اس پر عمل نہیں ہو رہا۔ کل وہ ماحول پیدا ہو گیا تو احکام باقی ہیں، احکام منسوخ نہیں ہوئے۔ 

یہ غلامی ہم نے نہیں شروع کی بلکہ ہم نے غلامی کے دو آپشن بالکل بند کر دیے: بردہ فروشی بھی اور تاوان بھی۔ ایک کو بطور آپشن کے باقی رکھا، اگر باقی آپشن پر عمل ہو سکتا ہے تو اس آپشن پر عمل کی ضرورت نہیں ہے، یعنی تبادلے پر، رہائی پر۔ اس لیے گذشتہ ڈیڑھ دو صدی سے اس پر عمل نہیں ہو رہا۔ احکام بھی منسوخ نہیں ہوئے، اس لیے کل اگر دوبارہ وہ ماحول آجائے گا تو احکام ویسے کے ویسے موجود ہیں تو اس ماحول کے مطابق اس پر عمل کیا جائے گا۔ یہ میں نے مختصر وضاحت کی ہے کہ غلامی کا مسئلہ ہے کیا، اور اس وقت اس کی موجودہ صورت حال کیا ہے۔

قرآن / علوم القرآن

(الشریعہ — نومبر ۲۰۲۵ء)

الشریعہ — نومبر ۲۰۲۵ء

جلد ۳۶ ، شمارہ ۱۱

مسئلہ کشمیر کا مختصر جائزہ اور ممکنہ حل
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

غزہ کی جنگ بندی     /     تحریک لبیک کا معاملہ
ڈاکٹر محمد امین

کلامِ الٰہی کو سمجھنے کا ایک اُصول
الشیخ متولی الشعراوی

قرآن سے راہنمائی کا سوال
ڈاکٹر محمد عمار خان ناصر

حدیثِ نبوی ﷺ: شُبہات اور دِفاع کے درمیان، مسلمانوں پر کیا لازم ہے؟
الدکتور محمد طلال لحلو
طارق علی عباسی

فارغینِ مدارس کے معاشی مسائل و مشکلات اور حل
ڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی

مروّجہ نعت خوانی اور ہمارے نعت خواں
سید سلمان گیلانی

محمد نام رکھنے کے متعلق فضائل کی حقیقت
مفتی سید انور شاہ

محمد نام کے فضائل
جامعۃ العلوم الاسلامیۃ

متاعِ مطيع
پروفیسر میاں انعام الرحمٰن

اقوام عالم کی تہذیبوں کا تقابلی جائزہ
مولانا حافظ واجد معاویہ

حقوق الإنسان: فروق أساسية بين المنظور الإسلامي والغربي
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
مولانا حافظ فضل الہادی سواتی

The Kashmir Issue: A Brief Overview and Possible Solution
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

’’خطباتِ فتحیہ: احکام القرآن اور عصرِ حاضر‘‘ (۵)
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
مولانا ڈاکٹر محمد سعید عاطف

’’اسلام اور ارتقا: الغزالی اور جدید ارتقائی نظریات کا جائزہ‘‘ (۹)
ڈاکٹر شعیب احمد ملک
ڈاکٹر ثمینہ کوثر

ماہانہ بلاگ

پاکستان اور افغانستان کا ناخوشگوار تصادم — اہم نکات
مولانا مفتی منیب الرحمٰن

پاک افغان تعلقات اور ہماری یکطرفہ قومی پالیسیاں
مولانا فضل الرحمٰن

اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء کا فتویٰ نمبر ۱۹۴۰۲ اور ابراہیمی ہاؤس
اُمّہ ڈاٹ کام
صید الفوائد

قواعد و ضوابط برائے تحقیق و تصنیف اور اشاعت
اسلامی نظریاتی کونسل

تعلیمی کیریئر کب اور کیسے منتخب کرنا چاہیے؟
ڈاکٹر ناصر محمود
فخر الاسلام

+LGBTQ تحریک کا نظریاتی تجزیہ: جماعتِ اسلامی ہند کا سیمینار
السیرۃ

انڈیا  -  مڈل ایسٹ  -  یورپ   اقتصادی راہداری   (IMEC)
ادارہ الشریعہ

کسے گواہ کریں کس سے منصفی چاہیں
مولانا مفتی محمد تقی عثمانی

ڈونلڈ ٹرمپ کا غزہ منصوبہ اور مسلم حکمرانوں کا بیانیہ
حامد میر

غزہ میں حماس کی جنگ: دو سال میں کیا کھویا کیا پایا؟
مشاہد حسین سید
عاصمہ شیرازی

فلسطین:    غاصبانہ قبضہ اور حقِ خود ارادیت کا معاملہ
فاطمہ بھٹو

صہیونی ریاست زوال کے قریب — جنگ بندی معاہدے میں کیا طے پایا؟
ضیاء الرحمٰن چترالی

سات اکتوبر کے حملہ کے حوالے سے حماس پر الزامات کی حقیقت
دی کیٹی ہالپر شو

غزہ کے بارے میں امریکہ اور اسرائیل کا اصل پلان
دی ینگ ٹرکس

امریکہ اور اسرائیل کے باہمی تعلقات اور غزہ کے بارے میں اسرائیل کا اصل منصوبہ
بریکنگ پوائنٹس

غزہ جنگ بندی کی خلاف ورزی میں سینکڑوں فلسطینیوں کی شہادت
ورلڈ نیوز میڈیا

’’دریائے اردن سے بحیرۂ روم تک‘‘ کا نعرہ
ویکی پیڈیا

صمود فلوٹیلا: آغاز و مراحل اور اختتام و نتائج
ادارہ الشریعہ

مطبوعات

شماریات

Flag Counter