اس میں کوئی شک نہیں کہ جس طرح نبی کریم ﷺ کی ذاتِ اقدس اعلیٰ، ارفع اور ممتاز ہے ایسے ہی آپ کا نام نامی اور اسمِ گرامی بھی اعلیٰ، افضل، ارفع، اشرف اور ممتاز ہے۔ اور بچوں کے لئے آپ کا نام مبارک ’’محمد‘‘ رکھنا باعثِ خیر و برکت ہے اور آپ سے عشق و محبت کا اظہار ہے۔ مگر لوگوں میں محمد نام رکھنے کے متعلق مختلف فضائل اور باتیں مشہور ہیں۔ اسی طرح بعض کتابوں میں محمد نام تجویز کرنے کے فضائل پر متعدد روایات نقل کی گئی ہیں۔ ان میں سے اکثر روایات کو حضرات محدثین نے موضوع قرار دیا ہے۔ اس سلسلے میں چند مشہور روایات ملاحظہ فرمائیے:
محمد نام رکھنے والا باپ اور بیٹا جنت میں جائیں گے
محمد نام رکھنے کی فضیلت میں ایک روایت جو لوگوں میں بھی مشہور ہے اور بعض کتابوں میں بھی نقل کی گئی ہے کہ جس شخص کے ہاں لڑکا پیدا ہوا اور وہ میری محبت کی وجہ سے اور میرے نام سے برکت حاصل کرنے کے لئے اس بچے کا نام ’’محمد‘‘ رکھے تو وہ شخص اور اس کا بچہ دونوں جنتی ہوں گے۔ اس حدیث کو محدثین نے من گھڑت اور موضوع قرار دیا ہے۔ چنانچہ ملا علی قاریؒ فرماتے ہیں:
وحدیث من ولد لہ مولود فسماہ محمدا تبرکا کان ہو ووالدہ فی الجنۃ وحدیث ما من مسلم دنا من زوجتہ وہو ینوی ان حبلت منہ ان یسمیہ محمدا الا رزقہ اللہ ولدا ذکراوفی ذلک جزء کلہ کذب۔ (الاسرار المرفوعۃ فی الاخبار الموضوعۃ: ۱/۴۳۵/ دارالامانہ بیروت)
اللؤلؤالمرصوع میں ہے:
حدیث: من ولد لہ مولود فسماہ محمدا تبرکا کان ہو وولدہ فی الجنۃ۔ موضوع۔ (اللؤلؤالمرصوع: ۱/۲۰۲/حرف المیم)
لہٰذا مذکورہ روایت کو رسول اللہ ﷺ کی طرف منسوب کرنا درست نہیں ہے۔
پیٹ میں بچے کا نام محمد رکھنے سے لڑکا پیدا ہو گا
ما من مسلم دنا من زوجتہ وہو ینوی ان حبلت منہ یسمیہ محمدا الا رزقہ اللہ ولدا ذکرا۔
جو کوئی مسلمان اپنی بیوی سے ہمبستری کرتے وقت یہ نیت کر لے کہ اگر اس ہمبستری سے حمل ٹھہر گیا تو اس کا نام محمد رکھا جائے گا۔ ایسا کرنے سے اللہ تعالی اس کو بیٹا عطاء فرمائیں گے۔
اس روایت کو ملا علی قاریؒ اور علامہ محمد بن خلیل بن ابراہیمؒ، ابو المحاسن القاوقجی الطرابلسی الحنفی نے موضوع قرار دیا ہے۔
ما من مسلم دنا من زوجتہ وہو ینوی ان حبلت منہ یسمیہ محمدا الا رزقہ اللہ ولدا ذکرا۔ موضوع قال ابن قیم الجوزیۃ: وفی ذلک جزء کلہ کذب۔ ( اللؤلؤ المرصوع:۱/۱۶۴حرف المیم) (الموضوعات الکبری : ۳۱/رقم ۱۱۹۳)
علامہ حافظ ذہبیؒ مذکورہ روایت کے متعلق لکھتے ہیں:
حدیث موضوع و سندہ مظلم۔ (تنزیہ الشریعۃ المرفوعۃ عن الاخبار الشنیعۃ الموضوعۃ:۱/۱۷۴)
اس سلسلے میں ایک اور موضوع روایت کے الفاظ یہ ہیں:
ما سمی مولود فی بطن امہ محمدا الا اذکر۔
جس بچے کا نام اس کی ماں کے پیٹ میں محمد رکھا جائے تو وہ بچہ بیٹا ہی پیدا ہو گا۔
علامہ سخاویؒ نے اس روایت کو بے سند کہہ کر مردود قرار دیا ہے۔
ہل ورد انہ من اراد ان یکون حمل زوجتہ ذکرا فلیضع یدہ علی بطنہا ولیقل: ان کان ہذا الحمل ذکرا سمیتہ محمدا، فانہ یکون؟
فالجواب: لا اصل لہ فی المرفوع۔ نعم، روینا فی جزء ابی شعیب عبد اللہ بن حسن الحرانی عن عطاء الخراسانی انہ قال: ما سمی مولود فی بطن امہ محمدا الا اذکر۔ (الاجوبۃ المرصیۃ: ۱/۳۸۱)
محمد نام کی برکت کی وجہ سے جنت سے نہیں روکا جائے گا
اذا کان یوم القیامۃ نادی مناد: یا محمد قم فادخل الجنۃ بغیر حساب فیقوم کل من اسمہ محمد ویتوہم ان النداء لہ، فلکرامۃ محمد لا یمنعون۔
قیامت کے دن ایک پکارنے والا پکارے گا! اے محمد! اٹھ جائیے اور جنت میں بغیر حساب کے تشریف لے جائیں، اس پر محمد نامی ہر شخص اس وہم کی بناء پر اٹھ جائے گا کہ اس کا نام بھی محمد ہے۔ لہٰذا ان کو محمد نام کی برکت کی وجہ سے جنت جانے سے نہیں روکا جائے گا۔
علامہ ابن عراق کنانی اس روایت کے متعلق لکھتے ہیں: ھذا حدیث موضوع۔ بلاشک، اس حدیث کے من گھڑت ہونے شک و شبہ نہیں۔
اذا کان یوم القیامۃ نادی مناد: یا محمد قم فادخل الجنۃ بغیر حساب فیقوم کل من اسمہ محمد ویتوہم ان النداء لہ، فلکرامۃ محمد لا یمنعون (ابو المحاسن عبد الرزاق ابن محمد الطبسی) فی الاربعین بسند معضل سقط منہ عدۃ رجال۔ (قلت) قال بعض اشیاخی: ہذا حدیث موضوع بلا شک واللہ اعلم۔ تنزیہ الشریعۃ المرفوعۃ عن الاخبار الشنیعۃ الموضوعۃ: ۱/۲۲۶)
علامہ سیوطیؒ نے بھی مذکورہ روایت کو مردود قرار دیا ہے۔
احمد بن ابی القرانی، سمعت ابا الحسن محمد بن یحیی بن محمد الخطیب یقول سمعت جدی محمد بن سہل بن اسحاق الفرایضی یقول اخبرنا ابی یرفع الحدیث الی النبی انہ قال: اذا کان یوم القیامۃ نادی مناد یا محمد قم فادخل الجنۃ بغیر حساب فیقوم کل من اسمہ محمد فیتوہم ان النداء لہ فلکرامۃ محمد لا یمنعون۔ ہذا معضل سقط منہ عدۃ رجال واللہ اعلم۔ (اللآلیء المصنوعۃ فی الاحادیث الموضوعۃ:۱/۹۷/ کتاب المبتدء)
محمد نام رکھنے سے گھر نقصان سے محفوظ ہو گا
ما ضر احدکم لو کان فی بیتہ محمد ومحمدان وثلاثۃ۔
اگر تم میں سے کسی کے گھر میں ایک، دو یا تین محمد نام سے آدمی ہوں تو تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔
ما ضر احدکم لو کان فی بیتہ محمد ومحمدان وثلاثۃ۔ (فیض القدیر: ۵/۴۵۳/ صرف المیم)
اس کو روایت کو بھی محدثین نے مردود قرار دیا ہے۔ (الطبقات الکبری لابن سعد:۵/۴۰/ط:دارالکتب العلمیہ، بیروت)
محمد نام کے کچھ خاص فضائل کے متعلق اہلِ علم کی تصریحات
جیسے کہ ماقبل میں یہ بات تفصیل کے ساتھ گزر چکی کہ انبیاء کرامؑ کے نام سب سے افضل اور عمدہ نام ہیں تو ظاہر سی بات ہے کہ سید الانبیاء والمرسلین کا نام کتنا ہی اشرف و برتر ہے۔ مگر محمد نام رکھنے کے متعلق بعض خاص فضائل اور فوائد بعض روایات میں منقول اور لوگوں میں مشہور ہیں، محدثین نے ان روایات کو موضوعات (من گھڑت احادیث) میں شمار کیا ہے۔ چنانچہ حافظ ابن الجوزیؒ لکھتے ہیں:
وقد روی فی ہذا الباب احادیث لیس فیہا ما یصح۔
یعنی اس باب میں بیان کئے جانے والے روایات صح نہیں ہیں۔
حدیث آخر: انبانا ابن ناصر قال انبانا ابو القاسم بن مندہ قال انبانا محمد ابن محمد بن المہتدی قال حدثنا الحسین بن احمد بن بکیر قال حدثنا احمد بن عبد اللہ بن الفتح قال حدثنا صدقۃ بن موسی بن تمیم قال حدثنی ابی عن حمید الطویل عن انس قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: یوقف عبدان بین یدی اللہ تعالی فیامر بہما الی الجنۃ۔
فیقولان ربنا بما نستاہل الجنۃ ولم نعمل عملا تجازینا؟ فیقول لہما: عبدی ادخلا الجنۃ فانی آلیت علی نفسی ان لا یدخل النار من اسمہ احمد ولا محمد۔
ہذا حدیث لا اصل لہ۔
قال ابن حبان صدقۃ بن موسی لا یحتج بہ لم یکن الحدیث من صناعتہ کان اذا روی قلب الاخبار۔
حدیث آخر: انبانا ابو بکر محمد بن عبد الباقی البزاز، وابو محمد یحیی بن علی المدبر قالا انبانا ابو الحسن محمد بن احمد بن المہتدی باللہ قال حدثنا الحسین ابن احمد بن عبد اللہ بن بکیر قال حدثنا حامد بن حماد بن المبارک العسکری، قال حدثنا اسحاق بن سیار ابو یعقوب النصیبی قال حدثنا حجاج بن المنہال قال حدثنا حماد بن سلمۃ عن برد بن سنان عن مکحول عن ابی امامۃ الباہلی قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم " من ولد لہ مولود فسماہ محمدا تبرکا بہ کان ہو ومولودہ فی الجنۃ " فی اسنادہ ہذا الحدیث من قد تکلم فیہ۔
حدیث آخر: انبانا ابن ناصر قال انبانا عبد الرحمن بن ابی عبد اللہ بن مندہ قال انبانا عبد الصمد بن محمد العاصمی قال انبانا ابراہیم بن احمد المستملی قال حدثنا محمد بن احمد بن شبیب قال حدثنا محمد بن عتاب قال حدثنا سلیمان ابن داود قال حدثنا عبثر بن الحسن قال حدثنا یحیی بن سلیم الطائفی عن ابن ابی نجیح عن مجاہد عن المسور بن مخرمۃ قال سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول " ما من مسلم دنا من زوجتہ وہو ینوی ان حملت منہ یسمیہ محمدا الا رزقہ اللہ تعالی ذکرا، وما کان اسم محمد فی بیت الا جعل اللہ تعالی فی ذلک البیت برکۃ" وہذا لا یصح۔
قال ابو حاتم الرازی: یحیی بن سلیم لا یحتج بہ وسلیمان مجروح وعبثر مجہول۔
وقد روی فی ہذا الباب احادیث لیس فیہا ما یصح۔ (الموضوعات لابن جوزی:کتاب المبتدء/۱/۱۵۸)
حافظ ذہبیؒ فرماتے ہیں: وھذہ الاحادیث مکذوبۃ۔ یہ تمام روایتیں جھوٹ پر مبنی ہیں۔ (میزان الاعتدال: ۱/۱۲۹)
حافظ ابن قیم الجوزیؒ لکھتے ہیں: و فی ذالک جزء، کلہ کذب۔ ان روایات کے متعلق ایک کتابچہ لکھا گیا ہے جو سارا جھوٹ کا پلندہ ہے۔ وکحدیث "آلیت علی نفسی ان لا یدخل النار من اسمہ احمد ولا محمد"۔
وکحدیث "من ولد لہ مولود فسماہ محمدا تبرکا بہ کان ہو والولد فی الجنۃ"۔
وکحدیث "ما من مسلم دنا من زوجتہ -وہو ینوی ان حبلت منہ ان یسمیہ محمدا- الا رزقہ اللہ ولدا ذکرا" وفی ذلک جزء کلہ کذب۔ (المنار المنیف فی الصحیح و الضعیف: ۱/۶۱/ الناشر: مکتبۃ المطبوعات الاسلامیۃ، حلب)
علامہ زرقانیؒ لکھتے ہیں:
وذکر بعض الحفاظ انہ لم یصح فی فصل التسمیۃ بمحمد حدیث۔ (شرح الزرقانی علی المواھب اللدنیۃ: ۷/۳۰۷)
بعض حفاظ حدیث فرماتے ہیں کہ محمد نام رکھنے کی فضیلت کے متعلق کوئی روایت صحیح نہیں ہے۔
علامہ ابن عراق کنانی لکھتے ہیں:
لم یصح فی فضل التسمیۃ بمحمد حدیث، بل قال الحافظ ابو العباس تقی الدین الحرانی: کل ما ورد فیہ فہو موضوع۔
محمد نام رکھنے کی فضیلت میں کوئی حدیث ثابت نہیں ہے، بلکہ حافظ ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں کہ اس بارے میں بیان کی جانے والی روایات من گھڑت ہیں۔
[حدیث] "لا یدخل الفقر بیتا فیہ اسمی" (عد) من حدیث ابی ہریرۃ، ولا یصح فیہ عثمان بن عبد الرحمن ومحمد بن عبد الملک الانصاری۔
[حدیث] "ما اجتمع قوم فی مشورۃ فیہم رجل اسمہ محمد لم یدخلوہ فی مشورتہم الا لم یبارک لہم فیہ" (عد) من حدیث علی وفیہ عثمان الطرائفی (قلت) عثمان الطرائفی وثقہ ابن معین، وروی لہ ابو داود والنسائی وابن ماجہ، وقال الحافظ ابن حجر فی التقریب صدوق اکثر من الروایۃ عن الضعفاء والمجہولین فضعف بسبب ذلک، والحدیث قال الحافظان الذہبی وابن حجر: انہ کذب، لکنہما ذکراہ فی ترجمۃ احمد بن کنانۃ الشامی شیخ الطرائفی وقضیتہ اتہام احمد بہ، لا الطرائفی واللہ اعلم، قال السیوطی: وجاء من حدیث علی مرفوعا: "ما من قوم کانت لہم مشورۃ فحضر معہم من اسمہ احمد ابو محمد فشاوروہ الا خیر لہم، "اخرجہ الدیلمی لکنہ من طریق ابی بکر المفید فلا یصلح شاہدا، قلت واخرجہ ابن بکیر من طریق احمد بن عامر، فلا یصلح ایضا شاہدا واللہ اعلم۔
[حدیث] "ما من امتی من احد رزقہ اللہ ولدا ذکرا فسماہ محمدا وعلمہ {تبارک الذی بیدہ الملک} الا حشرہ اللہ علی ناقۃ من نوق الجنۃ مدبجۃ الجنبین خطامہا من اللؤلؤ الرطب علی راسہا تاج من نور واکلیل یفتخر بہ فی الجنۃ" (ابن الجوزی) من حدیث انس وقال لا یصلح فیہ محمد بن محمد بن سلیمان المعدانی وہو المتہم بہ، وقال السیوطی: قال الذہبی فی المیزان: موضوع [حدیث] "یوقف عبدان بین یدی اللہ تعالی فیامر بہما الی الجنۃ فیقولان ربنا بم استاہلنا الجنۃ ولم نعمل عملا تجازینا بہ، فیقول لہما عبدی ادخلا الجنۃ فانی آلیت علی نفسی ان لا یدخل النار من اسمہ محمد ولا احمد" (ابن بکیر) فی جزء من اسمہ محمد واحمد من حدیث انس، وفیہ صدقۃ بن موسی، وقال السیوطی: قال الذہبی والآفۃ فیہ من شیخ ابن بکیر، وہو الدارع راویہ عن صدقۃ بن موسی وصدقۃ وابوہ لا یعرفان، ومثلہ ما رواہ صاحب مسند الفردوس من طریق ابی نعیم عن اللکی عن احمد بن اسحق بن ابراہیم ابن نبیط بن شریط مرفوعا: "یا محمد لا اعذب بالنار من سمی باسمک، "وہی نسخۃ قال الذہبی سمعناہا من طریق ابی نعیم عن اللکی عنہ، لا یحل الاحتجاج بہ لانہ کذاب انتہی واقرہ فی اللسان، قال الابی: لم یصح فی فضل التسمیۃ بمحمد حدیث، بل قال الحافظ ابو العباس تقی الدین الحرانی: کل ما ورد فیہ فہو موضوع۔
(تنزیہ الشریعۃ المرفوعۃ عن الاخبار الشنیعۃ الموضوعۃ: الفصل الاول/۱/۱۷۴/ دار الکتب العلمیۃ - بیروت)
حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب اس قسم کی روایات کے متعلق قاموس الفقہ میں لکھتے ہیں: تاہم رسول اللہ ﷺ کے نام پر رکھنے سے متعلق جو روایات بعض کتب احادیث میں نقل کی گئی ہیں ،وہ حد درجہ ضعیف اور نامعتبر ہیں۔ مثلاً:
اذا سمیتم الولد محمدا فعظموہ و وقروہ وبجلوہ ولاتذلوہ ولاتحقروہ۔
جب بچہ کا نام محمد رکھو تو اس کی توقیر اور تعظیم و احترام کرو اور اس کی تحقیر و تذلیل نہ کرو۔
یہ حدیث محققین کے نزدیک موضوع اور بالکل ساقط الاعتبار ہے۔
یا حضرت انسؓ کی روایت: اذا سمیتم الولد محمدا فلا تضربوہ ولاتحرموہ۔ اہل علم کے نزدیک سند کے اعتبار سے یہ بھی ضعیف ہے۔
اسی طرح وہ روایت کہ جس کے تین بچے ہوں اور کسی کا نام محمد نہ رکھے، اس نے جہالت کا ثبوت دیا۔
غایت درجہ ضعیف بلکہ بعض اہلِ فن کے نزدیک موضوعات میں سے ہے اور کیوں ضعیف نہ ہو کہ خود سید عمر فاروقؓ کے تین صاحبزادے ہوئے اور کسی کو ’’محمد‘‘ سے موسوم نہیں فرمایا، یہی حال اس روایت کا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ جو صاحبِ اولاد بنے اور وہ اس کو از راہ تبرک ’’محمد‘‘ سے موسوم کر دے تو وہ اور اس کا وہ بچہ دونوں جنتی ہوں گے۔ (قاموس الفقہ : ۱/۴۲۶۔۔۔۴۲۷)

