سوال
بچے کا نام محمد رکھنے کی فضیلت کس حدیث سے ثابت ہے؟
جواب
امام نوویؒ نے احادیث کی روشنی میں یہ بات لکھی ہے کہ "محمد" نام اللہ تعالیٰ کی طرف سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر والوں (دادا وغیرہ) کو الہام کیا گیا تھا، گویا کہ یہ اللہ کا منتخب کردہ نام ہے، اس نام کی فضیلت کے لیے یہی ایک بات کافی ہے کہ اس نام کا انتخاب اللہ تعالی نے فرمایا۔
1- "شرح مسلم للنووی" میں ہے:
"قال اہل اللغۃ یقال رجل محمد ومحمود اذا کثرت خصالہ المحمودۃ وقال بن فارس وغیرہ وبہ سمی نبینا صلی اللہ علیہ وسلم محمدا واحمد ای الہم اللہ تعالی اہلہ ان سموہ بہ لما علم من جمیل صفاتہ قولہ صلی اللہ علیہ وسلم"۔ (کتاب الفضائل، باب فی اسمائہ، ج:15، ص:104،ط: داراحیاء التراث العربی)
2۔ اسی طرح حضور ﷺ نے محمد نام رکھنے کی ترغیب دی، جیسا کہ حدیث شریف میں ہے:
"سموا باسمی، ولا تکنوا بکنیتی"۔ (صحیح مسلم، کتاب الآداب، ج:3، ص:1682، ط: داراحیاء التراث العربی)
"میرے نام پر نام رکھو، البتہ میری کنیت اختیار نہ کرو"۔
3۔ آپ ﷺ نے خود بھی کئی بچوں کا نام ”محمد“ رکھا ہے، یعنی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں جب نومولود بچے لائے جاتے تھے تو آپ ﷺ تحنیک (گھٹی) کے بعد ان کا نام بھی تجویز فرماتے، چناں چہ ان میں سے کئی بچوں کا نام آپ ﷺ نے ”محمد“ رکھا۔ اسی طرح آپ ﷺ کا معمول تھا کہ نومسلموں میں سے بھی اگر کسی کا نام صحیح نہ ہوتا تو آپ ﷺ اس کا نام تبدیل فرما دیتے، چناں چہ کچھ صحابہ کا نام آپ ﷺ نے خود تبدیل کر کے ”محمد“ رکھا۔
"الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ" میں ہے:
محمد بن الجد بن قیس الانصاری۔
"ذکرہ ابن القداح، وقال: سماہ النبی صلی اللہ علیہ وسلم محمدا، وشہد معہ فتح مکۃ، حکاہ ابن ابی داود عنہ، واخرجہ ابن شاہین، واستدرکہ ابو موسی، وذکر محمد بن حبیب فی کتابہ «المحبر» انہ اول من سمی محمدا فی الاسلام من الانصار"۔ (محمد بن الجد، ج:6، ص:6، ط:العلمیۃ)
4۔ ایک حدیث شریف میں آپ ﷺ نے امت کو ”محمد“ نام رکھنے کی ترغیب دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:
"ما ضر احدکم لو کان فی بیتہ محمد ومحمدان وثلاثۃ"۔ (فیض القدیر، ج:5، ص:435، حرف المیم، ط: المکتبۃ التجاریہ الکبری، مصر)
ترجمہ: تم میں سے کسی کا کیا نقصان ہے (یعنی کوئی نقصان نہیں) اس بات میں کہ اس کے گھر میں ایک، دو یا تین محمد (نام والے) ہوں۔
کتابوں میں ”محمد“ نام رکھنے کے فضائل پر متعدد روایات نقل کی گئی ہیں، لیکن چوں کہ ان پر شدید جرح ہوئی ہے اور بعض روایات کو موضوع اور بعض کو کذب بھی لکھا گیا ہے؛ اس لیے یہاں صرف چند ایسی احادیث ذکر کی جا رہی ہیں جو بعض محدثین کے یہاں صحیح یا ثابت ہیں:
5۔ ”العرف الشذی“ (جو کہ حضرت مولانا محمد انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ کی تقریر درس ترمذی ہے) میں "معجم الطبرانی" کے حوالہ سے نقل کی گئی ہے کہ "جس نے اپنے بیٹے کا نام محمد رکھا، میں اس کی شفاعت کروں گا"۔
" وفی روایۃ فی المعجم للطبرانی: "من سمی ولدہ محمدا، انا شفیعہ۔ وصححہا احد من المحدثین وضعفہ آخر"۔ (کتاب الآداب، باب ما جاء یستحب من الاسماء، ج:4، ص:181، ط: داراحیاء التراث العربی، بیروت)
6۔ "سیرت حلبیہ" میں ایک اور معضل روایت نقل کی گئی ہے کہ "قیامت کے دن ایک پکارنے والا پکارے گا کہ اے محمد! اٹھیے اور بغیر حساب کتاب کے جنت میں داخل ہو جائیے، تو ہر وہ آدمی جس کا نام ”محمد“ ہو گا یہ سمجھتے ہوئے کہ یہ اسے کہا جا رہا ہے وہ (جنت میں جانے کے لیے) کھڑا ہو جائے گا تو حضرت محمد ﷺ کے اکرام میں انہیں جنت میں جانے سے نہیں روکا جائے گا۔"
"وفی حدیث معضل: "اذا کان یوم القیامۃ نادی مناد: یا محمد! قم فادخل الجنۃ بغیر حساب! فیقوم کل من اسمہ محمد، یتوہم ان النداء لہ؛ فلکرامۃ محمد صلی اللہ علیہ وسلم لا یمنعون"۔ (باب تسمیتہ ﷺ محمدا واحمد، ج:1، ص:121، ط: دارالکتب العلمیۃ)
7۔ امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ "میں نے اہلِ مکہ سے سنا ہے کہ جس گھر میں ”محمد“ نام والا ہو تو اس کی وجہ سے ان کو اور ان کے پڑوسیوں کو رزق دیا جاتا ہے۔"
"سمعت اہل مکۃ یقولون: ما من بیت فیہ اسم محمد الا نمی ورزقوا ورزق جیرانہم"۔ (کتاب الشفاء، الباب الثالث، الفصل الاول، ج:1، ص:176، ط: دارالفکر)
فقط واللہ اعلم

