تقدیم
اسلامی نظریاتی کونسل ایک آئینی اور تحقیقی ادارہ ہے جو ۱۹۶۲ء میں دستورِ پاکستان کے تحت قائم ہوا۔ ۱۹۷۳ء کے دستور کے آرٹیکل ۲۳۰ میں کونسل کے مندرجہ ذیل فرائض منصبی بیان کئے گئے ہیں۔
(الف) مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) اور صوبائی اسمبلیوں سے ایسے ذرائع اور وسائل کی سفارش کرنا جن سے پاکستان کے مسلمانوں کو اپنی زندگیاں انفرادی اور اجتماعی طور پر ہر لحاظ سے اسلام کے ان اصولوں اور تصورات کے مطابق ڈھالنے کی ترغیب اور امداد ملے جن کا قرآن پاک اور سنت میں تعین کیا گیا ہے،
(ب) کسی ایوان، کسی صوبائی اسمبلی، صدر یا کسی گورنر کو کسی ایسے سوال کے بارے میں مشورہ دینا جس میں کونسل سے اس بابت رجوع کیا گیا ہو کہ آیا کوئی مجوزہ قانون اسلامی احکام کے منافی ہے یا نہیں،
(ج) ایسی تدابیر کی، جن سے نافذ العمل قوانین کو اسلامی احکام کے مطابق بنایا جائے گا، نیز ان مراحل کی جن سے گزر کر محولہ تدابیر کا نفاذ عمل میں لانا چاہئیے، سفارش کرنا، اور
(د) مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) اور صوبائی اسمبلیوں کی راہنمائی کے لئے اسلام کے ایسے احکام کی ایک موزوں شکل میں تدوین کرنا جنہیں قانونی طور پر نافذ کیا جا سکے۔
(۲) جب آرٹیکل ۲۲۹ کے تحت، کوئی سوال کسی ایوان، کسی صوبائی اسمبلی، صدر یا کسی گورنر کی طرف سے اسلامی نظریاتی کونسل کو بھیجا جائے، تو کونسل اس کے بعد پندرہ دن کے اندر اس ایوان، اسمبلی، صدر یا گورنر کو جیسی بھی صورت ہو، اس مدت سے مطلع کرے گی جس کے اندر وہ مذکورہ مشورہ فراہم کرنے کی توقع رکھتی ہو۔
(۳) جب کوئی ایوان، کوئی صوبائی اسمبلی، صدر یا گورنر جیسی بھی صورت ہو، یہ خیال کرے کہ مفادِ عامہ کی خاطر اس مجوزہ قانون کا وضع کرنا، جس کے بارے میں سوال اٹھایا گیا تھا، مشورہ حاصل ہونے تک ملتوی نہ کیا جائے، تو اس صورت میں مذکورہ قانون مشورہ مہیا ہونے سے قبل وضع کیا جا سکے گا۔ مگر شرط یہ ہے کہ جب کوئی قانون اسلامی نظریاتی کونسل کے پاس مشورے کے لئے بھیجا جائے اور کونسل یہ مشورہ دے کہ قانون اسلامی احکام کے منافی ہے تو ایوان، یا جیسی بھی صورت ہو، صوبائی اسمبلی، صدر یا گورنر اس طرح وضع کردہ قانون پر دوبارہ غور کرے گا۔
(۴) اسلامی نظریاتی کونسل اپنے تقرر سے سات سال کے اندر اپنی حتمی رپورٹ پیش کرے گی اور سالانہ عبوری رپورٹ پیش کیا کرے گی۔ یہ رپورٹ خواہ عبوری ہو یا حتمی، موصولی سے چھ ماہ کے اندر دونوں ایوانوں اور ہر صوبائی اسمبلی کے سامنے برائے بحث پیش کی جائے گی اور مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) اور اسمبلی، رپورٹ پر غور و خوض کرنے کے بعد حتمی رپورٹ کے بعد دو سال کی مدت کے اندر اس کی بابت قوانین وضع کرے گی۔
اسلامی نظریاتی کونسل کے مندرجہ بالا آئینی دائرہ کار کے مطابق کونسل کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسا لٹریچر تیار کرے اور ایسے اقدامات کرے جن سے لوگوں میں اسلام اور اسلامی اقدار سے متعلق شعور پیدا ہو اور معاشرہ ترقی کرے۔ اس امر کو مدنظر رکھتے ہوئے کونسل اپنے شعبہ تحقیق و ترجمہ کے فاضل حضرات سے، نیز ملکی اور غیر ملکی ماہرین کے ذریعے تحقیقی منصوبوں پر کام کرواتی ہے جسے بعد میں شائع بھی کیا جاتا ہے۔
ان مطبوعات کی تیاری میں علمی تحقیقی معیار برقرار رکھنے کے لیے اصولِ تحقیق و تصنیف اور اشاعت کے بارے میں قواعد و ضوابط تیار کئے گئے ہیں۔ امید ہے ان کی پابندی سے کونسل کی مطبوعات بین الاقوامی تحقیقی معیار پر پورا اتریں گی۔
اللہ جل شانہ سے دعا ہے کہ اپنے فرائض کی سرانجام دہی میں اسلامی نظریاتی کونسل کی کوششوں کو قبول فرمائے۔
ڈاکٹر محمد خالد مسعود
اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات
(تیاری کا لائحہ عمل)
آئین کے آرٹیکل ۲۳۰ میں درج دستوری فریضہ کی انجام دہی کے لیے کونسل نے سفارشات کی تیاری کے بارے میں اجلاس ۱۵۴ منعقدہ 12-13 اگست 2004ء میں مندرجہ ذیل لائحہ عمل طے کیا۔
۱۔ کونسل کو مختلف اداروں کی طرف سے استفسارات، تجاویز اور اپیلیں موصول ہوتی رہتی ہیں۔ چونکہ اسلامی نظریاتی کونسل کی حیثیت دارالافتاء کی نہیں ہے اس لئے وہ صرف انہی استفسارات پر غور کی پابند ہے جو آئین کی رو سے کسی ایوان، کسی صوبائی اسمبلی، صدر یا کسی گورنر کی جانب سے کسی مجوزہ قانون کے بارے میں موصول ہو جس میں کونسل محض یہ مشورہ دے گی کہ مجوزہ قانون، یا اس کی کوئی دفعہ، اسلامی احکام کے منافی ہے یا نہیں؟ (آئین آرٹیکل ۲۲۹ ب)۔ چنانچہ کونسل ایسے تمام استفسارات کا جواب دینے کی پابند نہیں ہے جو آئین میں مذکور اداروں یا حکام کی جانب سے جاری نہ ہوئے ہوں یا وہ آئین میں مذکور امور سے تعلق نہ رکھتے ہوں۔
۲۔ ارکان کی منظوری کے بعد دیگر استفسارات کے بارے میں کونسل کی سفارشات وزارتِ مذہبی امور کی وساطت سے متعلقہ ادارے کو بھیج دی جائیں گی۔ سفارشات کی ایک نقل براہ راست متعلقہ ادارے کو بھی بھیجی جائے گی۔
۳۔ کونسل کی سفارشات کی نوعیت مشاورتی ہے، تاہم کونسل کی کارکردگی کے بارے میں رائے عامہ کی آگاہی کیلئے کونسل گاہے بگاہے پریس ریلیز جاری کرے گی۔ کونسل کی کارروائی سے متعلق بوقت ضرورت، پریس ریلیز، صحافتی بیان کا اجراء یا کسی بھی فورم پر کونسل کی نمائندگی صرف جناب چیئرمین کا خصوصی استحقاق ہوگا یا جس کو چیئرمین اس کام کے لیے مامور کریں۔
۴۔ کونسل زیادہ نازک اور غور طلب سفارشات کی تیاری میں وسیع تر مشاورت کے اصول کو اپنائے گی تاکہ مجوزہ قانون کے نفاذ کے مختلف پہلوؤں اور نتائج و عواقب کو پیش نظر رکھا جا سکے۔ ایسے غور طلب امور پر کونسل ارکانِ کونسل پر مشتمل کمیٹی/کمیٹیاں مقرر کرے گی جو اپنی آراء اور تجاویز مرتب کر کے کونسل میں بحث اور منظوری کے لئے پیش کریں گی۔ نیز ایسے پیچیدہ امور پر غور کے دوران مختلف مسالک کے علماء، فنی ماہرین، سائنس دانوں اور ماہرینِ قانون کو کونسل کے اجلاس میں دعوت دی جائے گی۔ پاکستانی معاشرے کے مختلف طبقات، اداروں اور دانشوروں سے بھی رابطہ کیا جائے گا۔ خصوصاً زیرِ غور قوانین کے اطلاق سے متاثر ہونے والے طبقات سے بھی مشورہ کیا جائے گا تاکہ جامع اور قابلِ تنفیذ سفارشات تیار کی جا سکیں۔
۵۔ کونسل کسی اہم مسئلے پر سفارشات تیار کرنے کے لیے ورکشاپ، راؤنڈ ٹیبل یا بحث و مباحثے کا اہتمام بھی کرتی ہے جس میں متعلقہ شعبے کے ماہرین کو دعوت دی جاتی ہے۔
کونسل میں تحقیقی کام
اسلامی نظریاتی کونسل میں شعبہ تحقیق میں ہونے والے تحقیقی کام کو درج ذیل حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:
۱۔ استفسارات
۲۔ ایجنڈا، ورکنگ پیپرز اور ریسرچ نوٹ
۳۔ روداد
۴۔ سالانہ رپورٹیں
۵۔ جائزہ رپورٹیں
۶۔ مقالہ جات
۷۔ کتب
ان کاموں میں شعبہ تحقیق کی رہنمائی کے لئے قواعد و ضوابط آئندہ صفحات میں دیئے گئے ہیں۔
استفسارات
(ریفرنس)
کونسل میں آنے والے استفسارات تین طرح کے ہیں:
۱۔ آئین (دفعہ ۲۲۸، ۲۳۰) میں مذکور تفصیل کے مطابق صدرِ پاکستان، صوبہ کے گورنر یا اسمبلی کی طرف سے آنے والے استفسارات
۲۔ حکومت کے مختلف محکموں کی طرف سے آنے والے استفسارات
۳۔ عوام کی طرف سے آنے والے استفسارات
پہلی قسم یعنی صدرِ پاکستان، گورنر یا پارلیمنٹ کی طرف سے وصول شدہ استفسارات کے جواب کا طریقہ کار آئین میں درج کیا گیا ہے۔ اس کی رو سے کونسل اس بات کی پابند ہے کہ ۱۵ روز کے اندر اس استفسار پر اپنی رائے پیش کرنے کی تاریخ کا تعین کرے گی۔
دوسری قسم یعنی حکومتِ پاکستان کے محکموں کے استفسارات کا جواب کونسل کے آئینی فرائض میں شامل نہیں ہے۔ البتہ استفسار کی نوعیت اور اہمیت کے پیش نظر کونسل اس کا جواب دینے کا اختیار رکھتی ہے۔ چنانچہ ان استفسارات کے وصول ہوتے ہی کونسل (انتظامیہ) اس کی رسید سے متعلقہ محکمہ کو مطلع کرے گی کہ یہ استفسار کونسل کی منظوری کے لیے آئندہ اجلاس میں پیش کیا جائے گا اور آئندہ اجلاس میں کونسل کی منظوری کے بعد اس استفسار پر غور کیا جائے گا۔ کونسل کی منظوری پر شعبہ تحقیق اس پر ریسرچ نوٹ تیار کر کے کونسل میں پیش کرے گا۔
تیسری قسم کے استفسارات بھی کونسل کے دائرہ کار میں نہیں آتے۔ تاہم کونسل کو یہ اختیار ہے کہ وہ سوال کی نوعیت کے اعتبار سے اس پر غور کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کرے۔ استفسارات وصول ہوتے ہی سوال بھیجنے والے کو رسید سے فوری طور پر مطلع کیا جائے گا کہ ان کا سوال کونسل کے آئندہ اجلاس میں کونسل کی منظوری کے لیے پیش کیا جائے گا۔ اگر کونسل نے اس پر غور کرنا منظور کیا تو اس کے لیے باقاعدہ ریسرچ نوٹ تیار کر کے کونسل کے اجلاس میں پیش کیا جائے گا۔
ان تینوں صورتوں میں کونسل کی منظوری کے بعد شعبہ تحقیق ریسرچ نوٹ تیار کرے گا۔ جس کی تفصیل ریسرچ نوٹ کے تحت دی جا رہی ہے۔
کونسل کے اجلاس کے لیے مطلوبہ کاغذات
(ایجنڈا اور ورکنگ پیپرز)
(ا) ایجنڈا
ایجنڈا کی ترتیب مندرجہ ذیل انداز سے ہو گی:
۱۔ گذشتہ اجلاس کی روداد اور توثیق
۲۔ گذشتہ اجلاس کے فیصلوں پر عمل درآمد کی رپورٹ
۳۔ مروجہ قوانین پر نظر ثانی
۴۔ نئی قانون سازی کے لیے سفارشات
۵۔ استفسارات
ایجنڈا کی چیئرمین سے منظوری کے بعد ورکنگ پیپرز ایجنڈا کی ترتیب سے تیار کئے جائیں گے۔ ایجنڈا اور اجلاس کے انعقاد کی اطلاع تمام ارکان کو اجلاس سے ایک ماہ پہلے اور ورکنگ پیپرز پندرہ روز پہلے ارسال کر دیے جائیں گے۔
(ب) ریسرچ نوٹ
ایجنڈا کے ۳، ۴، ۵ اور دیگر امور کے لیے شعبہ تحقیق ریسرچ نوٹ تیار کرے گا۔ ریسرچ نوٹ کا مقصد کسی استفسار یا زیر بحث مسئلے پر کونسل کے غور کے لیے مطلوبہ مواد مہیا کرنا ہے تاکہ کونسل اس کے بارے میں غور و خوض کے بعد رائے دے سکے ۔ ریسرچ نوٹ میں مندرجہ ذیل امور شامل ہونگے:
۱۔ مسئلے کا پس منظر جس میں متعلقہ استفسار کا حوالہ اور مسئلے کا تعین کر کے اس کا خلاصہ درج ہو۔
۲۔ مسئلہ زیر بحث کے بارے میں حقائق کی تفصیل۔ اس ضمن میں اگر اخبارات میں یا تجزیاتی رپورٹوں میں حقائق پیش کیے گئے ہوں تو ان کا خلاصہ۔
۳۔ مسئلہ زیر بحث سے متعلقہ قرآنی آیات اور تفاسیر کا مختصر جائزہ۔
۴۔ مسئلہ زیر بحث سے متعلقہ احادیث نبی ﷺ اور شروح احادیث کا مختصر جائزہ۔ اس ضمن میں صحاح ستہ کے علاوہ دیگر اہم احادیث کے مجموعوں کا بھی جائزہ لیا جائے گا۔
۵۔ تمام مکاتب فکر خصوصاً حنفی فقہ اور جعفری فقہ کی آراء اور اختلافات کا خلاصہ۔
۶۔ مسئلہ زیر بحث پر کونسل کی گذشتہ سفارشات کا حوالہ۔
۷۔ مسئلہ زیر بحث پر پاکستان اور عالم اسلام میں حالیہ قانون سازی کا جائزہ۔
مندرجہ بالا جائزوں کے ساتھ متعلقہ مواد کو شامل کرتے ہوئے اس مواد کی فہرست ریسرچ نوٹ کے آخر میں شامل کی جائے گی۔ ممکنہ مآخذ و مراجع کی فہرست اس کتابچے میں شامل ہے۔ ریسرچ نوٹ میں حوالہ جات کے طریقہ کار کے لیے اسی کتابچہ میں درج حوالہ جات کے طریقہ کار کی پابندی کی جائے گی۔
اجلاس کی روداد
روداد اجلاس کے ختم ہونے کے ایک ہفتہ کے اندر مکمل کر لی جائے گی۔
روداد اجلاس کے ایجنڈا آئٹم کی ترتیب کے مطابق مرتب ہو گی۔ سب سے پہلے ایجنڈا آئٹم کی تفصیل جس میں اس کا پس منظر، مسئلہ زیربحث کا خلاصہ اور کونسل کے غور و خوض کی پیش رفت درج ہو گی۔ اس کے بعد اجلاس میں اتفاقِ رائے سے تشکیل پانے والی سفارش درج کی جائے گی۔ اگر اس آئٹم پر کوئی خصوصی کمیٹی مقرر کی گئی تھی تو اس کے تفصیلی فیصلے اور روداد کا خلاصہ شامل کیا جائے گا۔
آخر میں روداد کے تیار کرنے والے اور نظرثانی کرنے والے آفِسر کے دستخط ہوں گے۔ روداد چیئرمین کی منظوری کے بعد ہر صفحہ پر دستخط کے بعد ارکانِ کونسل کو بھجوا دی جائے گی اور زیادہ سے زیادہ 15 روز میں اس کی توثیق حاصل کر لی جائے گی۔ توثیق کے بعد اسے ریکارڈ میں محفوظ کر لیا جائے گا۔
سالانہ رپورٹ
کونسل سہ ماہی اور دیگر خصوصی اجلاسوں کی رودادوں اور سفارشات پر مبنی ایک سالانہ رپورٹ شائع کرتی ہے۔ عام طور پر رپورٹ کو مندرجہ ذیل پانچ اجزا میں ترتیب دیا جاتا ہے:
ا۔ جزء اول: اسلامی نظریاتی کونسل کا مختصر تعارف
۲۔ جزء دوم: کونسل کے اجلاسوں کی روداد۔ اس جزء میں مندرجہ ذیل عنوانات کے تحت کونسل کے ہر اجلاس کی الگ رپورٹ پیش کی جاتی ہے:
(۱) اجلاس کا نمبر اور تاریخ
(۲) ایجنڈا
(٣) گذشتہ اجلاس کی روداد
(۴) گذشتہ اجلاس کی روداد پر عملدرآمد کی رپورٹ
(۵) مختصر روداد
(۶) ملحقات: جس میں ایجنڈا میں شامل امور سے متعلق دستاویزات کی نقول شامل ہوتی ہیں۔
۳۔ جزء سوم: کونسل کی قرارداد میں اور سفارشات۔ اس جزء میں کونسل کے اجلاسوں میں منظور شدہ قراردادوں اور سفارشات کی تفصیل درج کی جاتی ہے۔
۴۔ جزء چہارم: کونسل کی سرگرمیاں
جزء پنجم: کونسل کا گوشوارہ بجٹ
کونسل کی دیگر مطبوعات
تحقیقی منصوبہ جات، جائزہ رپورٹیں، مقالہ جات، کتب
کونسل کی مطبوعات میں منصوبے کے اعتبار سے مندرجہ ذیل امور شامل ہوتے ہیں:
۱۔ زیر غور مسئلے کی وضاحت
۲۔ مسئلے پر گذشتہ تحقیقات کا تجزیاتی جائزہ
۳۔ مسئلے کے بارے میں ممکنہ اعداد و شمار اور واقعات کا جائزہ
۴۔ مسئلے سے متعلق قرآن و سنت کی تعلیمات کا جائزہ
۵۔ مسئلے سے متعلق کونسل کی سفارشات کا جائزہ
۶۔ مسئلے سے متعلق اسلامی ممالک میں قانون سازی کا جائزہ
۷۔ مراجع و مصادر
۸۔ اشاریہ
حوالہ جات کا طریقہ کار
کونسل کی سفارشات اور تحریریں مکمل استدلال اور حوالوں سے پیش کی جاتی ہیں۔ حوالہ جات کا طریق کار درج ذیل ہے۔
اقتباس
۱۔ جو عبارت، اقتباس یا خیال بطور ثبوت یا تائید پیش کیا جائے وہ اگر طویل ہو تو اصل لفظوں یا کُل عبارت کی صورت میں نہ درج کریں بلکہ اس کُل عبارت یا اقتباس کو اپنے لفظوں میں اختصار کے ساتھ تحریر کریں اور اس عبارت یا اقتباس کا مکمل حوالہ نیچے حاشیے میں درج کریں۔
متن کے اندر اقتباس کے طور پر کسی عبارت کو لکھتے ہوئے ان امور کا خیال رکھا جائے:
۲۔ اقتباس اگر تین سطروں سے کم ہو تو متن کے اندر ہی واوین میں لکھ دیا جائے۔ اگر اقتباس تین یا اس سے زائد سطروں پر مشتمل ہو تو اسے متن سے باہر الگ اور نئی سطر سے شروع کیا جائے اور دونوں طرف سے متن سے پونے انچ کے برابر حاشیہ چھوڑا جائے۔ اس صورت میں واوین لگانے کی ضرورت نہیں۔
۳۔ اقتباس کی عبارت میں علامتِ حذف کے طور پر صرف تین نقطے لگائیں۔
حواشی اور حوالے
۴۔ حواشی اور حوالے اسی صفحے پر صفحے کے نیچے درج کیے جائیں۔
۵۔ مکمل حوالہ سے مراد: مصنف کا نام، کتاب کا عنوان (خطِ نسخ میں)، مقامِ اشاعت: ناشر اور سنِ طباعت (تینوں معلومات قوسین میں)، جلد، صفحہ۔
مثالیں
ابن قدامہ، المغنی (بیروت: دارالکتب العلمیہ، ۱۴۰۳ھ)، جلد ۱۰، ص ۵۱۵۔
شہاب الدین القرافی، الاحکام فی تمیز الفتاوی عن الاحکام [تحقیق: عبد الفتاح ابوغدہ]، (حلب: مطبوعاتِ اسلامیہ، ۱۹۶۷ء)، صفحات ۱۴۔۱۸۔
۶۔ رسالے، انسائیکلوپیڈیا یا کسی مجموعہ میں شائع ہونے والی تحریر کا حوالہ: مصنف کا نام، مضمون/ مقالہ/ باب کا عنوان، ایڈیٹر رسالہ/ انسائیکلوپیڈیا/ مجموعہ کا عنوان (مقامِ اشاعت: ناشر، سنِ طباعت)، جلد، صفحات۔
مثالیں
جوزف شاخٹ، ’’ثلاث محاضرات فی تاریخ الفقہ الاسلامی’’، صلاح الدین المنجد (مرتب) المنتقی من دراسات المستشرقین (قاہرہ: لجنۃ التالیف، ۱۹۵۵ء)، ص ۹۷۔
محمد نجات اللہ صدیقی، ’’مقاصد شریعت کی روشنی میں اجتہاد کی حالیہ کوششیں‘‘، فکر و نظر، (۲۰۰۷ء)، جلد ۴۴، شمارہ ۴، صفحات ۳۔۲۴۔
محمد خالد مسعود، ’’فتاوٰی دارالعلوم دیوبند‘‘، ترکی دیانت وقف اسلام انسائیکلو پیڈیا (ترکی زبان) (استنبول: ترکی دیانت وقف، ۱۹۹۵ء)، جلد ۱۲، صفحات ۴۴۰-۴۴۱۔
۷۔ اسی ماخذ کا دوبارہ حوالہ دیتے وقت صرف مصنف کا معروف نام اور کتاب کا سنِ اشاعت اور صفحہ درج کریں۔
شاخٹ ۱۹۵۵ء، ص ۹۶
صدیقی ۲۰۰۷ء، ص ۲۲
مسعود ۱۹۹۵ء، ص ۴۴۰
قرآن و تفسیر
۱۔ قرآنی آیات کے حوالے دیتے وقت بہتر ہے کہ اصل عربی متن نقل کیا جائے اور سورۃ کا نمبر، سورۃ کا نام اور آیت کا نمبر لکھا جائے:
مثال: اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن (القرآن: الفاتحہ ۱:۱)
۲۔ ترجمہ کی صورت میں مترجم کا نام دیں اور ترجمہ قرآن کا مکمل حوالہ درج کریں۔
مثال: قرآن کریم، ترجمہ مولانا محمد جونا گڑھی، النساء (۳:۴) (مدینہ منورہ: مجمع الملک فہد لطباعۃ المصحف الشریف، ۱۴۱۷ھ)، ص۲۲۔
۳۔ تفسیر کے حوالے کی صورت میں تفسیر کا مکمل حوالہ درج کریں اور اگر تفسیر حاشیے کی صورت میں ہو تو حاشیے کا نمبر بھی درج کریں۔
مثال: قرآن کریم، تفسیر و حواشی مولانا صلاح الدین یوسف، النساء (۳:۴) (مدینہ منورہ: مجمع الملک فہد لطباعۃ المصحف الشریف، ۱۴۱۷ھ)، ص ۲۵، حاشیہ نمبر ۲۔
۴۔ تفسیر کے حوالے میں قرآنی سورۃ اور آیت کا حوالہ بھی درج کریں۔
مثال: ابن جریر الطبری، جامع البیان، البقرہ (بیروت: دارالفکر، ۱۴۱۵ھ)، جلد اول صفحہ ۴۶۸۔
۵۔ احادیث کے حوالے میں بھی مندرجہ بالا امور کے علاوہ باب اور کتاب کا عنوان درج کریں۔
مثال: محمد بن اسماعیل بخاری، صحیح البخاری، کتاب النکاح، باب ۴۲ لاینکح الاب، حدیث رقم ۵۱۳۶، (ریاض: دارالسلام، ۱۹۹۹ء)، ص ۹۱۹۔
۶۔ کونسل کی سالانہ رپورٹوں کا حوالہ اس طرح دیں:
(ا) اگر صرف کونسل کی رائے یا فیصلے کا حوالہ دینا ہو تو موضوع یا سوال کا ذکر کرنے کے بعد کونسل کی رائے یا فیصلہ لکھیں اور یوں حوالہ دیں:
اسلامی نظریاتی کونسل، سالانہ رپورٹ ۲۰۰۵ء-۲۰۰۶ء (۲۰۰۶ء)، ص ۳۱۱۔
(ب) اگر خصوصی رپورٹ کا حوالہ دینا ہو تو یوں دیں:
اسلامی نظریاتی کونسل، خصوصی رپورٹ حدود و تعزیرات (۲۰۰۷ء)، ص ۱۳۰۔
۷۔ قانونی دستاویزات کا حوالہ اس طرح دیا جائے:
مجموعہ تعزیرات پاکستان، باب ۱۶، دفعہ ۲۹۹
۸۔ عدالتی مقدمات کا حوالہ اس طرح دیں:
محمد عثمان بنام حکومت پاکستان، 39 PLD 1991 ،FSC
۹۔ یوروپی زبانوں میں لکھے گئے مصادر کے لئے متن میں مصنف کا نام صوتی اعتبار سے اردو حروف میں لکھا جائے گا۔ مقالے یا کتاب کے عنوان کا اردو ترجمہ درج کریں گے۔ البتہ حوالہ جات میں مکمل حوالہ یوروپی زبان میں ہی دیا جائے گا۔
۱۰۔ عربی، اردو اور فارسی سے انگریزی زبان میں نقل حرفی کے لئے ایک چارٹ صفحہ ۳۲ پر الگ سے دیا گیا ہے۔
کتابیات
۱۱۔ تحریر کے آخر میں ان تمام کتابوں/ مراجع/ مصادر کی فہرست درج کریں جن سے اس تحریر میں استفادہ کیا گیا ہے۔ مختصرا یہ کہ
(۱) یہ فہرست الف بائی ترتیب سے ہو گی۔ ترتیب مصنف کے نام کے اعتبار سے ہو گی۔
(۲) مصنف کا نام دیتے وقت سب سے پہلے وہی نام دیا جائے گا جو حوالہ/ حواشی میں دیا گیا ہے۔ اس کے بعد مصنف کے نام کے باقی حصے درج ہوں گے۔
(۳) اس کے بعد بالترتیب کتاب/ مقالہ کا عنوان اور دیگر معلومات اسی ترتیب سے درج ہوں گی جس طرح حوالے میں دی گئی ہیں۔
(۴) اگلے صفحے پر چند مآخذ و مراجع بطور مثال درج کئے گئے ہیں۔ اس کے بعد انگریزی کتابیات کی مثالیں بھی شامل کی گئی ہیں۔
فہرست کتب
(جن کتابوں میں سن اشاعت نہیں دیا گیا وہاں 'ت۔ندارد‘ لکھا گیا ہے)
علوم القرآن
۱۔ الزرقانی، محمد عبد العظیم، مناہل العرفان (بیروت: دار احیاء التراث العربی، ۱۴۱۳ھ)
۲۔ الزرکشی، بدر الدین محمد بن عبد اللہ، البرہان فی علوم القرآن (بیروت: دارالفکر، ۱۴۲۰ھ)
۳۔ السیوطی، جلال الدین، الاتقان فی علوم القرآن (بیروت: دار الکتب الاسلامیہ، ۱۴۲۰ھ)
۴۔ الحجتی، ڈاکٹر باقر، تاریخ القرآن (قم: مؤسسۃ النشر الاسلامی، ۲۰۰۳ء)
کتب تفسیر
۱۔ الطبری، ابو جعفر محمد بن جریر، جامع البیان (بیروت: دار المعرفۃ، ۱۴۰۹ھ)
۲۔ الجصاص، ابوبکر احمد بن علی الرازی، احکام القرآن (لاہور: سہیل اکیڈمی، ۱۴۰۰ھ)
۳۔ الزمخشری، جار اللہ محمود بن عمر، الکشاف (بیروت: دارالکتب العلمیہ ، ۱۴۱۵ھ)
۴۔ ابن العربی، ابوبکر محمد بن عبد اللہ، احکام القرآن (بیروت: دارالمعرفۃ، ۱۴۰۸ھ)
۵۔ الطبرسی، شیخ ابو علی فضل بن حسن، مجمع البیان (ایران: انتشارات ناصر خسرو، ۱۴۰۶ھ)
۶۔ الجوزی، ابو الفرج عبدالرحمٰن بن علی بن محمد، زادالمسیر (بیروت: المکتب الاسلامی، ۱۴۰۷ھ)
۷۔ الرازی، فخر الدین محمد بن ضیاء الدین عمر، التفسیر الکبیر (بیروت: دارالفکر، ۱۳۹۸ھ)
۸۔ القرطبی، ابو عبد اللہ محمد بن احمد، الجامع الاحکام القرآن (ایران: انتشارات ناصر خسرو، ۱۳۸۷ھ)
۹۔ البیضاوی، قاضی ابوالخیر عبد اللہ بن عمر، انوار التنزیل (مصر: دارفراس للنشر والتوزیع، ۱۴۱۴ھ)
۱۰۔ ابن تیمیہ، تقی الدین محمد، التفسیر الکبیر (بیروت: دارالکتب العلمیۃ، ۱۴۰۹ھ)
۱۱۔ ابوحیان، محمد بن یوسف الاندلسی، البحر المحیط (بیروت: دارالکتب العلمیۃ، ۱۴۰۹ھ)
۱۲۔ ابن کثیر، عماد الدین اسماعیل عمر، التفسیر العظیم (بیروت: دارالاندلس، ۱۳۸۵ھ)
۱۳۔ ابوسعود، محمد بن محمد عمادی، التفسیر (بیروت: دارالفکر، ۱۳۹۸ھ)
۱۴۔ ملاجیون، علامہ احمد جونپوری، التفسیرات الاحمدیۃ (کوئٹہ: مکتبہ حقانیہ، ت ندارد)
۱۵۔ الصاوی، احمد بن محمد صاوی، حاشیۃ علی الجلالین (قاہرہ: داراحیاء الکتب العربیۃ، ۱۴۲۱ھ)
۱۶۔ پانی پتی، قاضی ثناء اللہ، تفسیر مظہری (کوئٹہ: بلوچستان بک ڈپو، ۱۴۱۲ھ)
۱۷۔ الشوکانی، شیخ محمد بن علی، فتح القدیر (بیروت: دارالمعرفۃ، ۱۴۰۲ھ)
۱۸۔ الآلوسی، ابو الفضل سید محمد، روح المعانی (بیروت: داراحیاء التراث العربی، ۱۴۰۱ھ)
۱۹۔ بھوپالی، نواب صدیق حسن خان، فتح البیان (دارالکتب العلمیۃ، ۱۴۲۰ھ)
۲۰۔ رضا، محمد رشید، المنار (بیروت: دارالمعرفۃ، ۱۴۰۹ھ)
۲۱۔ مراد آبادی، سید محمد نعیم، خزائن العرفان (لاہور: تاج کمپنی، ۱۴۱۴ھ)
۲۲۔ شفیع، مفتی محمد، معارف القرآن (کراچی: ادارۃ المعارف، ۱۳۹۷ھ)
۲۳۔ مودودی، سید ابوالاعلیٰ، تفہیم القرآن (لاہور: ادارہ ترجمان القرآن، ۱۳۹۷ھ)
۲۴۔ المراغی، احمد مصطفیٰ، تفسیر المراغی (بیروت: داراحیاء التراث العربی، ۱۹۸۵ء)
۲۵۔ الشیرازی، آیت اللہ ناصر مکارم، تفسیر نمونہ (ایران: دارالکتب الاسلامیۃ، ۱۴۱۵ھ)
۲۶۔ الازھری، پیر محمد کرم شاہ، ضیاء القرآن (لاہور: ضیاء القرآن پبلیکیشنز، ت ندارد)
۲۷۔ اصلاحی، شیخ امین احسن، تدبر قرآن (لاہور: فاران فاؤنڈیشن، ۱۴۲۷ھ)
۲۸۔ الزحیلی، ڈاکٹر وھبہ، التفسیر المنیر (بیروت: دارالکتب الاسلامیۃ، ۱۴۱۳ھ)
کتب احادیث
۱۔ امام مالک، مالک بن انس، المؤطا (کراچی: نور محمد اصح المطابع، ۱۹۹۵ء)
۲۔ الصنعانی، عبدالرزاق بن ھمام، المصنف (کراچی: ادارۃ القرآن، ۱۳۹۰ھ)
۳۔ ابن ابی شیبہ، ابوبکر عبد اللہ بن محمد، المصنف (کراچی: ادارۃ القرآن، ۱۴۰۶ھ)
۴۔ امام حنبل، احمد بن حنبل، المسند (بیروت: المکتب الاسلامی، ۱۳۹۸ھ)
۵۔ البخاری، محمد بن اسماعیل، الجامع الصحیح (کراچی: نور محمد اصح المطابع، ۱۳۸۱ھ)
۶۔ مسلم، ابوالحسین مسلم بن حجاج القشیری، الجامع الصحیح (کراچی: نور محمد اصح المطابع، ۱۳۷۵ھ)
۷۔ ابن ماجہ، ابو عبد اللہ محمد بن یزید، السنن (کراچی: نور محمد کارخانہ تجارت کتب، ۱۳۹۶ھ)
۸۔ ابوداؤد، سلیمان بن اشعث، السنن (لاہور: مطبع مجتبائی، ۱۴۰۵ھ)
۹۔ الترمذی، ابو عیسیٰ محمد بن عیسیٰ، السنن (کراچی: نور محمد کارخانہ تجارت کتب، ۱۳۹۶ھ)
۱۰۔ الدارقطنی، علی بن عمر، السنن (ملتان: نشر السنۃ، ت۔ ندارد)
۱۱۔ النسائی، ابو عبدالرحمٰن احمد بن شعیب، السنن (کراچی: نور محمد کارخانہ تجارت کتب، ۱۳۹۶ھ)
۱۲۔ النسائی، ابو عبدالرحمٰن احمد بن شعیب، السنن الکبریٰ (بیروت: دارالکتب العلمیۃ، ۱۴۱۱ھ)
۱۳۔ الطحاوی، ابو جعفر احمد بن محمد، شرح مشکل الآثار (بیروت: مؤسسۃ الرسالۃ، ۱۴۱۵ھ)
۱۴۔ الطحاوی، ابو جعفر احمد بن محمد، شرح معانی الآثار (بیروت: مؤسسۃ الرسالۃ، ۱۴۱۵ھ)
۱۵۔ الطبرانی، ابو القاسم سلیمان بن احمد، المعجم الکبیر (بیروت: داراحیاء التراث العربی، ۱۹۸۵ء)
۱۶۔ نیشاپوری، ابو عبداللہ محمد بن عبداللہ الحاکم، المستدرک (مکہ مکرمہ: دارالباز، ۱۴۱۲ھ)
۱۷۔ البیہقی، ابوبکر احمد بن حسین، السنن الکبریٰ (بیروت: دارالکتب العلمیۃ، ۱۴۱۳ھ)
۱۸۔ البیہقی، ابوبکر احمد بن حسین، معرفۃ السنن الآثار (بیروت: دارالکتب العلمیۃ، ۱۴۱۳ھ)
۱۹۔ البیہقی، ابوبکر احمد بن حسین، دلائل النبوۃ (بیروت: دارالکتب العلمیۃ، ۱۴۱۴ھ)
۲۰۔ المنذری، زکی الدین عبدالعظیم بن عبدالقی، الترغیب والترہیب (قاہرہ: دارالحدیث، ۱۴۰۷ھ)
۲۱۔ التبریزی، امام ولی الدین الخطیب، مشکوٰۃ المصابیح (کراچی: محمد سعید اینڈ سنز، ت-ندارد)
۲۲۔ الہیثمی، نورالدین علی بن ابی ابوبکر، مجمع الزوائد (بیروت: دارالکتب العربی ۱۴۰۲ھ)
۲۳۔ الزیلعی، جمال الدین عبداللہ بن یوسف، نصب الرأیۃ (سورت ہند: مجلس علمی، ۱۳۷۵ھ)
۲۴۔ الماردینی، علاء الدین بن علی بن عثمان، الجوہر النقی (ملتان: دارالنشر، ت ندارد)
۲۵۔ عسقلانی، شہاب الدین احمد بن علی ابن حجر، فتح الباری (لاہور: دار نشر الکتب الاسلامیۃ، ۱۴۰۱ھ)
۲۶۔ العینی، بدرالدین محمود بن عینی، عمدۃ القاری (قاہرہ: ادارۃ الطباعۃ المنیریۃ، ۱۳۴۸ھ)
۲۷۔ المناوی، عبدالرؤف، فیض القدیر (بیروت: دارالمعرفۃ، ۱۳۹۱ھ)
۲۸۔ دہلوی، محدث عبد الحق، اشعۃ اللمعات (لکھنؤ: مطبع تچ کمار، ت۔ندارد)
۲۹۔ مبارک پوری، شیخ عبدالرحمٰن، تحفۃ الأحوذی (ملتان: نشر السنۃ، ۱۴۱۴ھ)
۳۰۔ کشمیری، انور شاہ، فیض الباری (قاہرہ: مطبعۃ الحجازی، ۱۳۷۵ھ)
۳۱۔ عثمانی، شیخ تقی، فتح الملہم (کراتشی: مکتبۃ دارالعلوم، ۱۴۰۹ھ)
۳۲۔ عثمانی، محمد تقی، تکملۃ فتح الملہم (کراتشی: مکتبۃ دارالعلوم، ۱۴۱۴ھ)
کتب فقہ
فقہ حنفی:
۱۔ السرخسی، شمس الائمۃ، المبسوط (بیروت: دارالمعرفۃ، ۱۳۹۸ھ)
۲۔ السمرقندی، ابواللیث نصر بن محمد، تحفۃ الفقہاء (مکہ: مکتبہ دارالباز، ۱۴۱۳ھ)
۳۔ الکاشانی، ابوبکر بن سعود، بدائع الصنائع (کراچی: ایچ ایم سعید اینڈ کمپنی، ۱۴۰۰ھ)
۴۔ الزیلعی، جمال الدین عبداللہ بن یوسف، تبیین الحقائق (بیروت: دارالفکر، ۱۴۱۲ھ)۔
۵۔ ابن الہمام، کمال الدین محمد بن عبدالواحد، فتح القدیر (سکھر: مکتبہ نوریہ، ت۔ندارد)
۶۔ نظام الدین، ملا، فتاویٰ عالمگیری (قاہرہ: مکتبہ کبریٰ امیریہ بولاق، ۱۳۰۱ھ)
۷۔ الحصکفی، علاء الدین محمد بن علی بن محمد، الدر المختار (بیروت: داراحیاء التراث العربی، ۱۴۰۷ھ)
۸۔ ابن عابدین، سید محمد امین ابن عابدین شامی، ردالمختار (بیروت: داراحیاء التراث العربی، ۱۴۰۷ھ)
۹۔ مرغینانی، ابو الحسن علی بن ابی بکر، الہدایۃ (کراچی: مکتبہ بشریٰ، ۱۴۲۹ھ)
۱۰۔ ابن نجیم، البحر الرائق (مصر: مصطفیٰ البابی الحلبی، ۱۳۳۴ھ)
۱۱۔ ابن نجیم، الاشباہ والنظائر (قاہرہ: دارالطباعۃ العامرۃ، ۱۳۹۰ھ)
فقہ مالکی
ا۔ امام مالک، المدونۃ الکبریٰ، روایۃ سحنون (قاہرہ: مطبعۃ السعادۃ، ۱۳۲۳ھ)
۲۔ الباجی، ابو الولید الاندلسی، المنتقیٰ شرح المؤطا (مصر: مطبعۃ السعادۃ، ۱۳۳۲ھ)
۳۔ ابن رشد الحفید، بدایۃ المجتہد (بیروت: دارالفکر، ت۔ندارد)
۴۔ الدسوقی، شمس الدین محمد بن عرفۃ، حاشیۃ الدسوقی علی الشرح الکبیر (بیروت: دارالفکر، ت-ندارد)
۵۔ الحطاب، ابو عبد اللہ محمد بن، مواہب الجلیل (لیبیا: مکتبۃ النجاح، ت-ندارد)
۶۔ الدردیر، ابوالبرکات، الشرح الکبیر بحاشیۃ الدسوقی (بیروت: دارالفکر، ت-ندارد)
۷۔ علیش، الشیخ محمد، شرح منح الجلیل علی مختصر خلیل (مصر: المکتبہ الکبریٰ، ۱۲۹۴ھ)
فقہ شافعی
۱۔ امام شافعی، محمد بن ادریس، کتاب الأم (بیروت: دارقتیبۃ، ۱۴۱۶ھ)
۲۔ الشیرازی، ابو اسحاق، المہذب (بیروت: دارالمعرفۃ، ۱۳۹۳ھ)
۳۔ النووی، شرف الدین یحیٰی، روضۃ الطالبین (بیروت: المکتب الاسلامی، ۱۴۰۵ھ)
۴۔ الخطیب، الشیخ محمد الشربینی، مغنی المحتاج شرح المنہاج (بیروت: داراحیاء التراث العربی، ۱۴۱۴ھ)
۵۔ الرملی، شمس الدین محمد بن ابی العباس، نہایۃ المحتاج (بیروت: دارالکتب العلمیۃ، ۱۴۱۴ھ)
۶۔ السیوطی، جلال الدین، الاشباہ والنظائر (بیروت: دارالکتب العلمیۃ، ۱۴۲۷ھ)
فقہ حنبلی
۱۔ ابن قدامہ، موفق الدین عبداللہ بن احمد، المغنی (بیروت: دارالفکر، ۱۴۰۵ھ)
۲۔ البہوتی، منصور بن یونس بن ادریس، کشاف القناع عن متن الاقناع (مکہ مکرمہ: مطبعۃ الحکومۃ، ۱۳۹۴ھ)
۳۔ ابی القاسم، عبد السالم بن عبداللہ بن، المحرر فی الفقہ ابن تیمیۃ (الریاض: مکتبہ المعارف، ۱۴۰۴ھ)
۴۔ ابن تیمیۃ، ابوالعباس تقی الدین، مجموعۃ الفتاویٰ (مطبوعۃ ریاض، ۱۴۱۴ھ)
۵۔ ابن القیم، شمس الدین ابی عبداللہ محمد بن ابی بکر، اعلام المؤقعین (بیروت: دارالکتب العلمیۃ، ۱۴۱۷ھ)
فقہ ظاہری
ا۔ الاندلسی، ابن حزم، المحلی (مصر: ادارۃ الطباعۃ المنیریۃ، ت۔ندارد)
فقہ جعفری
الکلینی، محمد بن یعقوب، الکافی (الاصول والفروع) (ایران: دارالکتب الاسلامیۃ، ۱۳۹۱ھ)
۲۔ الطوسی، ابوجعفر محمد بن حسن الشیخ، تہذیب الأحکام (طہران: دارالکتب الاسلامیۃ، ۱۳۹۰ھ)
۳۔ الطوسی، ابوجعفر محمد بن حسن الشیخ، الاستبصار (طہران: دارالکتب الاسلامیۃ، ۱۳۹۱ھ)
۴۔ الشیخ الصدوق، من لا یحضرہ الفقیہ (طہران: دارالکتب الاسلامیۃ، ۱۳۹۲ھ)
۵۔ الحر العاملی، وسائل الشیعۃ الی تحصیل مسائل الشریعۃ (طہران: مکتبۃ الاسلامیۃ، ۱۳۷۷ھ)
۶۔ الشہید الثانی، زین الدین الجبعی، شرح اللمعۃ (قم: منشورات دارالحکمۃ، (حجری)، ۱۴۲۰ھ)
۷۔ الجواہری، شیخ محمد حسن نجفی، جواہر الکلام فی شرح شرائع الاسلام (بیروت: داراحیاء التراث العربی، ۱۹۸۱ء)
۸۔ جواد مغنیۃ، آیۃ اللہ محمد جواد، فقہ الامام جعفر الصادق (بیروت: دارالتیار الجدید، ۱۴۰۴ھ)
۹۔ الخمینی، روح اللہ الامام، تحریر الوسیلۃ (قم: مؤسسۃ مطبوعات دارالعلم، ت-ندارد)
۱۰۔ الخوئی، ابوالقاسم، مصباح الفقاہۃ (نجف: المطبعۃ الحیدریۃ، ۱۳۷۴ھ)
۱۱۔ الخوانساری، سید احمد، جامع المدارک فی شرح المختصر النافع (طہران: مکتبۃ الصدوق، ۱۳۶۴ھ)
فقہ زیدیہ
۱۔ الامام زید بن علی بن الحسین، مجموع الفقۃ (طبع میلانو: Eugenio Grittini)، ۱۹۱۹ء)
۲۔ المرتضیٰ، الامام احمد، شرح الازہار (صعدۃ، یمن: النور للدراسات والبحوث والتحقیق، ت-ندارد)
۳۔ الصنعانی، شرف الدین الحسین بن احمد، الروض النضیر شرح مجموع الفقہ الکبیر (القاہرہ، ۱۳۳۷ھ)
۴۔ عزان محمد، حیّ علی خیر العمل (صعدۃ، یمن: النور للدراسات والبحوث والتحقیق، ۱۴۱۹ھ)
احادیث کی تخریج و تحقیق
۱۔ الزیلعی، جمال الدین الحافظ، نصب الرأیۃ فی تخریج احادیث الہدایۃ (ادارالمأمون، ۱۳۵۸ھ)
۲۔ وینسک، المعجم المفہرس لالفاظ الحدیث النبوی (لیدن: مکتبۃ بریل، ۱۹۳۶ء)
۳۔ الالبانی، شیخ ناصر الدین، سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ (الریاض: مکتبۃ المعارف للنشر والتوزیع، ۱۴۱۵ھ)
۴۔ بسیونی، ابو طاہر محمد السعید بن زغلول، موسوعۃ اطراف الحدیث النبوی (بیروت: دارالکتب العلمیۃ، ۱۴۲۴ھ)
۵۔ الشوکانی، محمد بن علی بن محمد، نیل الاوطار (مصر: الطبعۃ المنیریۃ، ۱۴۰۲ھ)
۶۔ بریلوی، امام احمد رضا خان، جامع الاحادیث (لاہور: شبیر برادرز، ۱۴۲۴ھ)
تقابل فقہ
۱۔ الوزیر، ابن ہبیرۃ الشیبانی، ابی المظفر یحیٰی بن محمد، اختلاف الأئمۃ العلماء (بیروت: دارالکتب العلمیۃ، ۱۴۲۳ھ)
۲۔ الزحیلی، دکتور وہبہ، الفقۃ الاسلامی وادلتہ (کوئٹہ: مکتبہ رشیدیہ، ۲۰۰۷ء)
۳۔ الجزیری، عبدالرحمٰن، کتاب الفقہ علی المذاہب الاربعۃ (بیروت: داراحیاء التراث العربی، ۱۴۰۶ھ)
۴۔ جواد مغنیۃ، محمد، الفقہ علی المذاہب الخمسۃ (بیروت: دارالتیار الجدید، ۱۴۰۴ھ)
یورپی زبانوں میں کتابیات
یورپی زبانوں میں کتابیات کی فہرست کی تیاری کے لیے مندرجہ ذیل مثالوں سے مدد لی جائے گی۔
1. A book by a single author
Ruddock, J., Innovation and Change: Developing Involvement and Understanding (Milton Keynes: Open University Press, 1991), 30-35.
2. A translation of an author's work
Rousseau, J.J., The Confessions of Jean-Jacques Rousseau. Trans. J.M. Cohen (Harmondsworth: Penguin Books, 1953).
3. An article in a Journal/periodical
Kaye, M. and Taylor, W.G.K., "Expartriate Culture Shock in China: A Study in the Beijing Hotel Industry", Journal of Managerial Psychology, (1997), Vol. 12, No. 8, 496-510.
4. An article in a book
Taylor, W.G.K., "Management Consultancy Interfaces in India: A Perspective", In Prasad, R.R., Shukla, S.R.P. and Kumar, A. (Eds.), Indian Management: Emerging Responses (New Delhi: Tata McGraw-Hill Publishing, 1995).
5. A newspaper article
Bishop, J., 'Mental Maps', Times Educational Supplement, (1997), No. 3161, 2 January, 14.
6. A thesis or dissertation
Kaye, M., 'Expatriate Culture Shock: Investigating a Role for Training', Unpublished M. Ed. dissertation, University of Sheffield, (1997)
7. A conference paper
Taylor, W.G.K. and Lowe, E.A., "Management of Research in the Life Sciences", Paper given at the International Conference on Research Management (Manchester Business School, Manchester, 1985).
ہدایات برائے کمپوزنگ
- تحقیقی نوٹ، رپورٹ یا تحقیقی منصوبے کی کمپوزنگ کے لیے عام طور پر 4-A سائز کا سفید کاغذ استعمال کیا جائے۔
- صفحے کے دائیں طرف 1.5 انچ جبکہ باقی اطراف 1 انچ کا حاشیہ چھوڑا جائے۔
- اردو متن ’’نوری نستعلیق فونٹ‘‘ میں ٹائپ کیا جائے اور اس کا فونٹ سائز 14 رکھا جائے۔
- عربی متن کو Arabic Trad فونٹ سائز 16 میں ٹائپ کیا جائے۔
- انگریزی عبارتوں کو Times New Roman فونٹ سائز 12 میں ٹائپ کیا جائے اور اسے ’’ایڈجسٹ‘‘ پر کمپوز کیا جائے۔
- متن کے پیراگرافس کے درمیان 1.5 کا فاصلہ رکھا جائے۔
- اقتباس کی عبارت کا فونٹ سائز یہ رکھا جائے:
اردو: 12
عربی: 14
انگریزی: 10 - حوالے کے نمبر کا فونٹ سائز 12 رکھا جائے اور Upper Case میں لکھا جائے…
- اردو، عربی اور انگریزی کے جو فونٹ اوپر تجویز کیے گئے ہیں انہی میں اعداد بھی لکھیں۔
- صفحات کے نمبر صفحے کے نیچے درمیان میں ڈالے جائیں اور ان کا فونٹ سائز وہی ہو جو متن کا ہے۔
- مرکزی عنوان درمیان میں جبکہ ذیلی عنوانات اردو اور عربی متن کی صورت میں دائیں ہاتھ پر (Right Align) جبکہ انگریزی متن کی صورت میں بائیں ہاتھ پر (Left Align) کیا جائے۔
- ذیلی سرخی کے بعد متن اگلی سطر سے شروع کریں، دائیں جانب جگہ نہ چھوڑیں:
اردو: فونٹ سائز 18 (نارمل) موضوع: فونٹ سائز 18 (Bold)
عربی: فونٹ سائز 20 (نارمل) موضوع: فونٹ سائز 20 (Bold)
انگریزی: فونٹ سائز 14 (نارمل) موضوع: فونٹ سائز 14 (Bold) - ٹیبل/تصاویر کو متن سے علیحدہ ڈالا جائے گا۔ متن اور ٹیبل/تصاویر کا فاصلہ 3 سطر ہوگا۔ ٹیبل یا گراف کے اوپر حوالہ نمبر دیا جائے گا اور تفاصیل حاشیے میں درج کی جائیں گی۔
(اسلامی نظریاتی کونسل (۲۰۰۹ء) سلسلہ مطبوعات نمبر ۸۱)
