’’دی ینگ ٹرکس‘‘ کی میزبان اینا کیسپرین نے امریکی نائب صدر جے ڈی وینس کے ایک حالیہ بیان کے بعد غزہ کی صورتحال کے حوالے سے امریکی انتظامیہ، اسرائیل اور عرب حکمرانوں کے بارے میں ایک تنقیدی گفتگو کی ہے جو یہاں قارئین کے لیے شائع کی جا رہی ہے۔
اس ویڈیو کا آغاز امریکی نائب صدر کے کلپ سے ہوتا ہے جس میں وہ غزہ کے حوالے سے بات کرتے ہوئے حماس کے بارے میں خطرناک ارادے ظاہر کرتے ہیں۔ ابتدائی حصے میں نائب صدر یہ کہتے دکھائی دیتے ہیں کہ ’’ہم جانتے ہیں کہ حماس کو معاہدے پر عمل کرنا ہوگا، اور اگر وہ ایسا نہیں کرتی تو بہت بُرے نتائج ہوں گے‘‘۔ وہ ساتھ ہی یہ بھی کہتے ہیں کہ وہ اس عمل کے لیے کوئی واضح مدت مقرر نہیں کریں گے کیونکہ حالات غیر متوقع اور پیچیدہ ہیں۔ پھر وہ غزہ کے دو حصوں کا ذکر کرتے ہیں: ایک نسبتاً محفوظ، اور دوسرا نہایت خطرناک، اور کہتے ہیں کہ پائیدار امن کے لیے ضروری ہے کہ محفوظ علاقے کی حد کو وسیع کیا جائے۔
اس کلپ کے ختم ہوتے ہی اینا کیسپرین اپنی گفتگو کا آغاز کرتی ہیں اور ان کا لہجہ بتدریج تنقیدی اور تلخ ہوتا چلا جاتا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ غزہ کی موجودہ صورتحال میں سب سے خطرناک چیز اسرائیلی قبضہ ہے جو امریکی پشت پناہی کے ساتھ جاری ہے، اور یہ کہ نائب صدر جے ڈی وینس کی باتیں محض ’’فضولیات کا ڈھیر‘‘ ہیں کیونکہ زمینی حقائق کچھ اور بتاتے ہیں۔
اینا کیسپرین انکشاف کرتی ہیں کہ اسرائیلی میڈیا کی ایک رپورٹ کے مطابق امریکی ارب پتیوں کا ایک گروہ، جس میں ایلون مسک، پیٹر تھیل، اور اسٹیو وٹکوف جیسے نام شامل ہیں، غزہ کی زمین پر قبضہ کر کے وہاں ٹیکس فری زونز اور اے آئی مراکز بنانے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وال اسٹریٹ جرنل نے بھی اس منصوبے کی جزوی تصدیق کی ہے۔
اینا کے بقول اسرائیل اور ٹرمپ انتظامیہ کے درمیان ایک مشترکہ منصوبہ زیرِ غور ہے جس کے مطابق غزہ کی تعمیرِ نو صرف انہی علاقوں میں ہوگی جو فی الحال اسرائیلی فوج کے قبضے میں ہیں۔ فی الوقت تقریباً 53 فیصد غزہ پر اسرائیلی افواج کا کنٹرول ہے اور امکان ہے کہ آئندہ برسوں میں یہ قبضہ مزید پھیل جائے گا۔
ان کا کہنا ہے کہ جیرڈ کشنر، جو کہ ٹرمپ کے داماد اور غیر سرکاری مشیر ہیں، کا مؤقف ہے کہ چونکہ حماس ہتھیار نہیں ڈال رہی، اس لیے اسرائیل اپنے زیر قبضہ علاقوں پر تعمیراتی منصوبے شروع کرے گا تاکہ ’’امن کی راہ ہموار‘‘ ہو۔ اینا کیسپرین طنزاً کہتی ہیں کہ یہ گویا اُن لوگوں کو دوبارہ اُسی ملبے میں زندگی گزارنے کا کہہ رہے ہیں جن کے گھروں کو امریکی ٹیکس دہندگان کے پیسوں سے بمباری کے ذریعے ملبہ بنایا گیا، اور وہ سمجھتے ہیں کہ ایسا کرنے سے حماس کمزور ہوگی۔
اینا نے کہا کہ کہ امریکی، اسرائیلی، اور عرب حکام کے بیانات میں تضاد ہے۔ کہا تو یہ جا رہا ہے کہ تعمیرِ نو فلسطینی عوام کے لیے ہو گی، حالانکہ دراصل یہ تعمیر اسرائیلی قبضے کو مستحکم کرنے کے لیے ہو رہی ہے۔ اینا کیسپرین نے سخت لہجے میں عرب قیادت کو بھی آڑے ہاتھوں لیا اور کہا کہ یہ تمام عرب حکمران شرمناک طور پر ایک نسل کش حکومت کے سامنے جھکے ہوئے ہیں کیونکہ امریکہ انہیں ’’رشوت‘‘ دے رہا ہے۔ اور اس وقت امریکہ کے عوام کا پیسہ تباہی، زمین پر قبضے، اور ناانصافی پر مبنی مہاجر آبادکاری کے منصوبوں میں استعمال ہو رہا ہے، جبکہ خود امریکی عوام صحت، روزگار، اور بچوں کی پرورش جیسے مسائل کے حوالے سے جدوجہد کر رہے ہیں۔
وال اسٹریٹ جرنل کی رپورٹ کے مطابق کشنر اور اسٹیو وٹکوف اس تقسیم شدہ تعمیراتی منصوبے کے مرکزی منصوبہ ساز ہیں۔ اینا کہتی ہیں کہ یہ امن کے نہیں بلکہ فلسطینیوں کو غزہ سے مکمل طور پر بےدخل کرنے اور دیگر مسلم ممالک میں بسانے کے خواہشمند ہیں تاکہ اِس زمین سے منافع کمایا جا سکے۔
وہ عرب ممالک کے بیانات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ یہ حکومتیں صرف ’’فکرمندی ظاہر کرنے‘‘ تک محدود ہیں، عملی اقدام کا کوئی ارادہ نہیں رکھتیں۔ غزہ پہلے ہی تقسیم ہو چکا ہے، 53 فیصد حصہ اسرائیلی قبضے میں ہے، اور باقی بھی وہ حاصل کر لیں گے کیونکہ عرب کمزور ہیں اور امریکہ یا تو خریدا جا چکا ہے یا بلیک میل ہو رہا ہے۔
اینا کیسپرین اسرائیلی پارلیمان (کنیسٹ) کے حالیہ اقدام کا حوالہ دیتی ہیں کہ جس میں مقبوضہ مغربی کنارے کے انضمام کی ابتدائی منظوری دی گئی ہے۔ یہ فلسطینی اتھارٹی کے زیرِ انتظام علاقہ ہے جس کا حماس سے کوئی تعلق نہیں، پھر بھی اسرائیل اس پر اپنی خودمختاری جتانے جا رہا ہے۔
وہ امریکی پالیسی پر بھی شدید تنقید کرتی ہیں کہ واشنگٹن مسلسل اسرائیلی قبضوں اور جارحیت کی حمایت کر رہا ہے، اس لیے امریکہ کے پاس دنیا میں انسانی حقوق پر بولنے کا کوئی اخلاقی جواز نہیں بچا۔
اپنی گفتگو کے اختتام پر اینا کہتی ہیں کہ یہ محض زمینی قبضہ نہیں بلکہ ایک طویل المیہ ہے، اسرائیل کبھی بھی مطمئن نہیں ہوتا۔ وہ غزہ، مغربی کنارے اور اب جنوبی لبنان تک نظریں گاڑے ہوئے ہیں۔ جو کچھ وہ تعمیر کرنے کا کہہ رہے ہیں وہ دراصل ملبے پر سامراجی محلات کھڑے کرنے کی تیاری ہے۔ آخر میں وہ طنزیہ انداز میں کہتی ہیں کہ وہ بارہا یہ پیش گوئیاں کرتی ہیں اور ہر بار وہ درست ثابت ہوتی ہیں لیکن کوئی تسلیم نہیں کرتا۔ ان کے بقول یہ ایک مسلسل توسیع پسند منصوبہ ہے جس میں اسرائیل نے اب مزید توسیع کر لی ہے۔
