حدیثِ نبوی ﷺ: شُبہات اور دِفاع کے درمیان، مسلمانوں پر کیا لازم ہے؟

حدیث نبوی ﷺ جو کہ شریعتِ اسلام کا دوسرا بنیادی مصدر و ماخذ ہے، اسے آج بعض مدعیانِ جدت اپنی تنقید اور شکوک و شبہات کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ اس سے پہلے بھی تاریخ کے مختلف ادوار میں کچھ لوگ، دین کے احکامات سے جان چھڑانے اور شہرت حاصل کرنے کی خواہش میں حدیث کی بنیادی ضرورت کو ختم کرنے کی کوششیں کرتے رہے ہیں۔ ہر دور کی طرح آج بھی ایسے لوگ پُر فریب عنوانات کے تحت اپنے مکروہ خیالات و نظریات پھیلاتے ہیں، جس سے معاشرے میں فکری اور علمی افراتفری پھیلتی ہے۔

تشکیک پھیلانے کی وجوہات

غور کیا جائے تو منکرینِ حدیث کے اس رجحان کے پیچھے کئی محرکات ہیں، جن میں بنیادی وجہ ان کی علم سے دوری ہے۔ تشکیک پیدا کرنے والوں میں شاید ہی کوئی ایسا ہو جو علمِ حدیث کی اصطلاحات، فلسفہ یا طریقہ کار کو جانتا ہو۔ گویا علم ان کے ہاتھوں سے نکل چکا ہے۔ 

  • مثلاً‌: منکرین حدیث کہتے ہیں کہ امام بخاریؒ کے پاس چھ لاکھ احادیث نہیں ہو سکتیں، جب کہ وہ یہ نہیں جانتے کہ روایت کی سند بدلنے سے حدیث بدل جاتی ہے، چاہے متن ایک ہی ہو۔ 
  • مثلاً‌: وہ یہ بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ حدیث کو نبی اکرم ﷺ کی رحلت کے دو سو سال بعد جمع کیا گیا، حالانکہ کتاب المغازی، صحیفۂ حضرت علیؓ، صحیفۂ حضرت ابوہریرہؓ اور صحیفۂ ہمام بن منبہؒ پہلی صدی ہجری میں موجود تھے۔

منکرینِ حدیث کو مادیت پسندی نے بھلا ڈالا، انہیں معلوم ہی نہیں کہ کچھ علوم بغیر لکھے بھی محفوظ کیے جاتے ہیں، قرآن مجید کے حفظ کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ منکرین غلط سمجھتے ہیں کہ محدثین حدیث کے متن پر توجہ نہیں دیتے، حالانکہ اس موضوع پر بڑی بڑی کتابیں لکھی گئی ہیں۔ یہاں تک کہ ابن الجوزیؒ نے کہا ہے کہ کیا ہی خوب کہا ہے کسی کہنے والے نے: ہر وہ حدیث، جسے تم عقل کے خلاف، نقل کے برخلاف اور اصولِ شریعت سے متناقض پاؤ تو جان لو کہ وہ موضوع ہے۔ (کتاب الوسیط فی علوم و مصطلح الحدیث: ٣٣٧)

بیرونی دباؤ اور مغربی اثرات

جہالت کے بعد دیگر وجوہات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ کچھ مخصوص مراکز اور بیرونی رپورٹس (جیسے ۲۰۰۷ء کی رینڈ رپورٹ) مخالفینِ حدیث کے لیے بجٹ مختص کرنے کی سفارش کرتی ہیں۔ مزید یہ کہ یہی لوگ مادی کامیابی ہی کو معیار بنا کر مغربی ترقی سے متاثر ہوتے ہیں اور دین کی ان چیزوں کو باطل کرنا چاہتے ہیں جو ان کی نظر میں ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ یہ بقول ابن خلدونؒ: مغلوب کا غالب سے مرعوب ہونا ہے۔ (تاریخ ابن خلدون: ج: ۱ ص: ۱۸۴)

منکرین صرف شہرت حاصل کرنے کے لیے عجیب و غریب آراء اپناتے ہیں۔ اس کے علاوہ اپنی ذاتی خواہشات کو جائز قرار دینے کے لیے دین میں کمزوریاں ڈھونڈتے ہیں اور شرعی احکام کو واضح کرنے والی احادیث کو کمزور بتاتے ہیں۔ جب کہ منکرین کی طرف سے حدیث کو رد کرنے کے تمام دعوے عقلی اصولوں کے خلاف ہیں۔ آج ہم جس دنیا میں رہ رہے ہیں، فلسفیانہ طور پر اسے Postmodernism یعنی مابعد جدیدیت کہا جاتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ہر چیز قابلِ تغیر ہے، کوئی مضبوط معیار باقی نہیں رہا۔ تمام آراء کا احترام ضروری ہے۔ (کیا تسلیم شدہ عقائد کے مقابلہ و مخالفت میں اس باطل فلسفہ پر مبنی نظریات و ہفوات کو معیاری اور قابلِ احترام مانا جا سکتا ہے؟ جواب ہے کہ ہرگز نہیں۔ مگر افسوس کہ یہ باطل فلسفہ اسی نقطۂ نظر پر کھڑا ہے)

تخصص اور مہارتِ فن کا احترام

عقل کہتی ہے کہ ہمیں متخصصین و ماہرینِ فن کا احترام کرنا چاہیے۔ اس بنا پر دیکھیے تو محدثین نے اپنی پوری زندگیاں احادیث کی تصحیح، تحقیق اور جانچ میں لگا دیں۔ (کسی نے اپنی بصارت کھو دی، کسی نے اپنا گھر بار چھوڑا تو کسی نے اپنی جان تک قربان کر دی)۔ اگر ہم ڈاکٹر یا انجینئر کے لیے ماہر کی تلاش کرتے ہیں تو دین کے معاملے میں بھی تخصص کا احترام ضروری ہے۔ مگر منکرینِ حدیث کی طرف سے یہاں تخصصات کے احترام میں تضاد پایا جاتا ہے۔ موضوع احادیث کی جانچ پڑتال کے لیے حضرت عبد اللہ بن المبارکؒ سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا: اس کے لیے جہابذہ یعنی ماہرین موجود ہیں۔ (الوسیط فی علوم و مصطلح الحدیث، ۳۵۸)

منکرینِ حدیث نے اپنی عقلوں کو معطل کر رکھا ہے، ان کی باتیں اور دعوے ان کی اپنی ذاتی خواہشات پر مبنی آراء ہیں، لیکن یہ عوام کے بنیادی اصولوں کو ہلا دیتے ہیں، وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم عقلیت چاہتے ہیں، لیکن جب تحقیق کی جاتی ہے تو ان کے ہاں کوئی عقل نظر نہیں آتی، ان کی اس (جھوٹی عقلیانہ) دعوت میں بہت زیادہ تضادات کیوں ہیں؟ اس لیے کہ عقل اپنے ماحول کی پیداوار ہوتی ہے۔

قرآن و حدیثِ رسول ﷺ کا باہمی تعلق

اس متعلق ام یعقوب کا واقعہ پڑھنا چاہیے جس میں حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے فرمانِ رسول ﷺ کی اطاعت کا درس؛ قرآن مجید کی آیت: ومآ اٰتاکم الرسول فخذوہ وما نہاکم عنہ فانتہوا (الحشر: ۷) جو کچھ تمہیں رسول دے اسے لے لو اور جس سے منع کرے اس سے باز رہو؛ سے دیا۔ (صحیح البخاری/کتاب تفسیر القرآن/حدیث: ۴۸۸۶)

جن سندوں سے قرآن ہم تک پہنچا ہے، تقریباً‌ انہی سندوں سے حدیث بھی ہم تک پہنچی ہے۔ لہٰذا حدیث کو رد کرنے سے بالواسطہ طور پر قرآن کو بھی زد پہنچتی ہے اور یہ راستہ اکثر لوگوں کو الحاد یعنی دین سے مکمل انکار کی طرف لے جاتا ہے۔ جب آپ کسی منکرینِ حدیث سے کہیں کہ آپ قرآن میں کوئی خاص قرأت کیسے پڑھتے ہیں، تو وہ خاموش ہو جائے گا، کیونکہ اس کے پاس وہ وسائل نہیں ہیں، وہ اسانید کو نہیں سمجھتا، وہ قرأتوں کو نہیں سمجھتا۔ علماء کا اجماع ہے کہ جو شخص صرف قرآن کو لے (اور حدیث کو رد کر دے) وہ کافر ہے، جیسا کہ ابن حزمؒ نے فتویٰ دیا تھا (الاحکام فی اصول الاحکام، ج: ۲، ص: ۸۰) یہ ایمان و عقیدہ کے لیے انتہائی خطرناک بات ہے۔ یہ ’’معلوم من الدین بالضرورۃ‘‘ کا انکار ہے۔

احکاماتِ قرآنی کی وضاحت، احادیثِ رسول ﷺ سے

اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا ہے: انزلنا الیک الذکر لتبین للناس ما نزل الیہم (النحل: ۴۴) ہم نے تیری طرف قرآن نازل کیا تاکہ لوگوں کے لیے واضح کر دے جو ان کی طرف نازل کیا گیا ہے۔ سنت کی اہمیت بتاتے ہوئے حضرت عمرؓ بن خطاب نے فرمایا: عنقریب تمہارے پاس ایسے لوگ آئیں گے جو تم سے قرآن کے شبہات کے متعلق بحث کریں گے، تم ان سے سنت کے ذریعہ حجت قائم کرو، کیونکہ سنت کے حامل لوگ اللہ کی کتاب کے بارے میں زیادہ علم رکھتے ہیں۔ (الابانۃ الکبری لابن بطۃ، ۲۵۱)

حدیث کے بغیر مسلمان اپنے بنیادی فرائض ادا نہیں کر سکتے:

  • مثلاً‌: قرآن میں صرف نماز قائم کرو کا حکم ہے، لیکن دن میں کتنی نمازیں ہیں؟ رکعات کتنی ہیں؟ اور ان کا طریقہ کیا ہے؟ یہ صرف حدیث سے معلوم ہوتا ہے۔
  • مثلاً‌: قرآن میں مال میں مقررہ حق کا ذکر ہے، لیکن سونے جیسی چیزوں کا نصاب اور مقدار صرف حدیث ہی واضح کرتی ہے۔
  • مثلاً‌: اگر حدیث کو نہ مانا جائے تو قرآن کی ایک آیت کی بنیاد پر غلط فہمی پیدا ہو سکتی ہے کہ روزہ رکھنے یا فدیہ دینے کا اختیار ہے؟

چونکہ حدیث قرآن کے معانی کی وضاحت کرتی ہے، اس لیے قرآن کے معانی کی حفاظت کے لیے حدیث کا محفوظ رہنا بھی ضروری ہے، جیسا کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: انی اوتیت الکتاب ومثلہ معہ (سنن ابی داؤد: ۴۶٠۴) مجھے کتاب (قرآن) اور اس کے ساتھ اس کی مثل چیز دی گئی ہے۔


(حوالہ و اصل ماخذ: ۱۶ ستمبر ۲۰۲۵ء الجزیرۃ AJ360-360 یوٹیوب چینل پر عربی میں "السنۃ النبویۃ بین التشکیک والدفاع وما واجب المسلم نحوہا؟" عنوان کی مکمل گفتگو ملاحظہ فرمائیں)

https://youtu.be/Fb_FgwCZl5Q


(الشریعہ — نومبر ۲۰۲۵ء)

الشریعہ — نومبر ۲۰۲۵ء

جلد ۳۶ ، شمارہ ۱۱

مسئلہ کشمیر کا مختصر جائزہ اور ممکنہ حل
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

غزہ کی جنگ بندی     /     تحریک لبیک کا معاملہ
ڈاکٹر محمد امین

کلامِ الٰہی کو سمجھنے کا ایک اُصول
الشیخ متولی الشعراوی

قرآن سے راہنمائی کا سوال
ڈاکٹر محمد عمار خان ناصر

حدیثِ نبوی ﷺ: شُبہات اور دِفاع کے درمیان، مسلمانوں پر کیا لازم ہے؟
الدکتور محمد طلال لحلو
طارق علی عباسی

فارغینِ مدارس کے معاشی مسائل و مشکلات اور حل
ڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی

مروّجہ نعت خوانی اور ہمارے نعت خواں
سید سلمان گیلانی

محمد نام رکھنے کے متعلق فضائل کی حقیقت
مفتی سید انور شاہ

محمد نام کے فضائل
جامعۃ العلوم الاسلامیۃ

متاعِ مطيع
پروفیسر میاں انعام الرحمٰن

اقوام عالم کی تہذیبوں کا تقابلی جائزہ
مولانا حافظ واجد معاویہ

حقوق الإنسان: فروق أساسية بين المنظور الإسلامي والغربي
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
مولانا حافظ فضل الہادی سواتی

The Kashmir Issue: A Brief Overview and Possible Solution
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

’’خطباتِ فتحیہ: احکام القرآن اور عصرِ حاضر‘‘ (۵)
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
مولانا ڈاکٹر محمد سعید عاطف

’’اسلام اور ارتقا: الغزالی اور جدید ارتقائی نظریات کا جائزہ‘‘ (۹)
ڈاکٹر شعیب احمد ملک
ڈاکٹر ثمینہ کوثر

ماہانہ بلاگ

پاکستان اور افغانستان کا ناخوشگوار تصادم — اہم نکات
مولانا مفتی منیب الرحمٰن

پاک افغان تعلقات اور ہماری یکطرفہ قومی پالیسیاں
مولانا فضل الرحمٰن

اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء کا فتویٰ نمبر ۱۹۴۰۲ اور ابراہیمی ہاؤس
اُمّہ ڈاٹ کام
صید الفوائد

قواعد و ضوابط برائے تحقیق و تصنیف اور اشاعت
اسلامی نظریاتی کونسل

تعلیمی کیریئر کب اور کیسے منتخب کرنا چاہیے؟
ڈاکٹر ناصر محمود
فخر الاسلام

+LGBTQ تحریک کا نظریاتی تجزیہ: جماعتِ اسلامی ہند کا سیمینار
السیرۃ

انڈیا  -  مڈل ایسٹ  -  یورپ   اقتصادی راہداری   (IMEC)
ادارہ الشریعہ

کسے گواہ کریں کس سے منصفی چاہیں
مولانا مفتی محمد تقی عثمانی

ڈونلڈ ٹرمپ کا غزہ منصوبہ اور مسلم حکمرانوں کا بیانیہ
حامد میر

غزہ میں حماس کی جنگ: دو سال میں کیا کھویا کیا پایا؟
مشاہد حسین سید
عاصمہ شیرازی

فلسطین:    غاصبانہ قبضہ اور حقِ خود ارادیت کا معاملہ
فاطمہ بھٹو

صہیونی ریاست زوال کے قریب — جنگ بندی معاہدے میں کیا طے پایا؟
ضیاء الرحمٰن چترالی

سات اکتوبر کے حملہ کے حوالے سے حماس پر الزامات کی حقیقت
دی کیٹی ہالپر شو

غزہ کے بارے میں امریکہ اور اسرائیل کا اصل پلان
دی ینگ ٹرکس

امریکہ اور اسرائیل کے باہمی تعلقات اور غزہ کے بارے میں اسرائیل کا اصل منصوبہ
بریکنگ پوائنٹس

غزہ جنگ بندی کی خلاف ورزی میں سینکڑوں فلسطینیوں کی شہادت
ورلڈ نیوز میڈیا

’’دریائے اردن سے بحیرۂ روم تک‘‘ کا نعرہ
ویکی پیڈیا

صمود فلوٹیلا: آغاز و مراحل اور اختتام و نتائج
ادارہ الشریعہ

مطبوعات

شماریات

Flag Counter