فخر الاسلام: بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔ السلام علیکم ناظرین۔ تعلیم ہر انسان کا بنیادی حق ہے۔ اور جب ہم تعلیم کی بات کرتے ہیں تو ایک بڑا ہی ضروری معاملہ یہ ہوتا ہے کہ ہم کس قسم کی تعلیم حاصل کریں اور کون سی تعلیم حاصل کریں۔ ہمارا جو اکیڈمک کیریئر ہوتا ہے اس کے اندر ہمیں ایک وقت میں یہ فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ مجھے سائنس میں جانا ہے، مجھے آرٹس میں جانا ہے، مجھے کامرس میں جانا ہے، مجھے کمپیوٹر میں جانا ہے، مجھے آئی ٹی کی فیلڈ میں جانا ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ فیصلہ کس وقت ہمیں کرنا چاہیے؟ یا بچے کے لیے کس وقت یہ ضروری ہوتا ہے کہ وہ یہ فیصلہ کرے یا اس کے والدین یہ فیصلہ کریں؟ اور جب انسان فیصلہ کرتا ہے تو کس طرح ممکن ہے کہ یہ فیصلہ کس طرح کیا جائے؟ اس کے بارے میں جو اس کی پروفیشنل گائیڈنس ہے اور جو اس کے بارے میں معلومات ہیں یقیناً ہر والدین کا مسئلہ ہے۔ جن کے بچے بھی تعلیم کے اندر آ چکے ہیں یا پڑھنے کا انہوں نے آغاز کر دیا ہے، ان کو کسی نہ کسی مرحلے میں جا کے یہ فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ ہمیں کس فیلڈ میں جانا ہے۔
تو آج ہم نے سٹوڈیو میں ایک ایسی شخصیت کو دعوت دی ہے جو کہ اپنی فیلڈ کے ایکسپرٹ ہیں، اکیڈمک کے بہت بڑے استاد ہیں اور انہوں نے اکیڈمک کے میدان میں اتنے شاندار کام کیے ہیں کہ ہم ان سے یہ بات ضرور جان سکتے ہیں کہ آپ ہمیں اس بارے میں گائیڈ کریں۔ ہمیں گائیڈ کریں، ہمارے والدین کو گائیڈ کریں کہ کس طرح ہم اپنے بچوں کی فیلڈ کا انتخاب کر سکیں، ان کے اکیڈمک کیریئر کا انتخاب کر سکیں۔ ہمارے ساتھ آج موجود ہیں پروفیسر ڈاکٹر ناصر محمود صاحب۔ آپ وائس چانسلر ہیں علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے اور ریکٹر ہیں ورچوئل یونیورسٹی کے، ان سے جانتے ہیں کہ When and how to decide academic career السلام علیکم سر۔
ڈاکٹر ناصر محمود: وعلیکم السلام، جی بہت شکریہ۔
فخر الاسلام: سر، آپ کا بہت شکریہ آپ نے وقت دیا۔ میں نے جیسے اپنے اِنٹرو میں کہا، ڈاکٹر صاحب، کہ بچے کو ایک وقت میں یہ انتخاب کرنا ہوتا ہے کہ میں کس فیلڈ میں جاؤں گا یا مجھے کس فیلڈ میں جانا چاہیے۔ تو آپ ہمیں یہ بتائیں کہ کب بچے کو یہ فیصلہ کرنا چاہیے یا اس کے والدین کو یہ فیصلہ کرنا چاہیے کہ ہم نے اپنے بچے کو کس فیلڈ میں بھیجنا ہے؟
ڈاکٹر ناصر محمود: دیکھیں یہ بڑا ایک سینس میں کریٹیکل سوال ہے بہت کہ یہ اوورنائٹ آپ کو نظر نہیں آتا کہ کسی بھی بچے کا یا ایڈلٹ کا رجحان کس طرف ہوگا۔ یہ فیصلہ آپ اس کے ایپٹیٹیوڈ کی بنیاد پر کر سکتے ہیں۔ یہ فیصلہ آپ اس کی پرفارمنس مختلف سبجیکٹس میں، یا اس کا انٹرسٹ کسی چیز میں۔ اچھا، یہ چیزیں ہمیں اوور دی پیریڈ نظر آتی ہیں۔ اگر آپ ہمارے موجودہ نظام کو دیکھیں تو ہم پہلا میجر فیصلہ کسی بچے کی تعلیم کی سمت کا، سبجیکٹ چوائس کے لحاظ سے، میرا خیال ہے گریڈ ایٹ میں جا کے یا آٹھویں کے بعد کرتے ہیں جب وہ نویں دسویں میں آجاتے ہیں، یا دوسرے سینس میں او لیول، اے لیول۔ میری اگر آپ ذاتی رائے اس میں پوچھیں تو ہم اپنے ان معاملات میں بہت زیادہ ریجڈ ہیں۔ ہم نے یہ طے کر رکھا ہوا ہے کہ انجینیئر بننا ہے تو آپ میتھ فزکس پڑھ لو، آپ نے میڈیسن کی طرف جانا ہے یا کوئی بائیو ٹیکنالوجی ریلیٹڈ فیلڈ ہے تو بائیولوجی وغیرہ پڑھو۔ اور اب ہم نے آئی ٹی اور کامرس اور یہ کچھ سٹریمز تھوڑی سی ایڈ کر دی ہیں۔
اچھا یہ بہت ارلی ایج ہے، آٹھویں جماعت جو ہے۔ بہت دفعہ اس میں آپ کو درست سمجھ نہیں آ پاتی یا بچوں کا اپنا انٹرسٹ اوور دی پیریڈ چینج ہو جاتا ہے۔ جب وہ ایک سٹریم میں انٹر ہو گیا تو پھر آگے ہمیں کیریئر پاتھ ویز کو بہت ریجڈ نہیں رکھنا چاہیے کہ میں غلطی سے اگر ایک سائیڈ پہ آ گیا تو اب مجھے کسی سٹیج پہ ایسے خیال آئے کہ نہیں یار یہ سوٹیبل نہیں تھا یا مجھے کوئی اور آپشن دیکھنی چاہیے۔ تو آپ کا جو اکیڈمک پاتھ ہے وہ اس کو بڑی مشکل سے الاؤ کرتا ہے۔ پہلے تو الاؤ ہی نہیں کرتا تھا۔ اب تھوڑا بہت گنجائش پیدا کی تو راستہ بہت مشکل بنایا ہوا ہے کہ اس کو شفٹ کرنا بڑا مشکل ہے۔ اور خاص طور پہ آپ دیکھیے کہ اگر آپ ٹیکنیکل سٹریم سے جنرل سٹریم، اور جنرل سٹریم سے ٹیکنیکل سٹریم میں جانا چاہیں تو پریکٹیکلی پوسیبل ہی نہیں ہم نے رکھا ہوا اس کو، آج کے دور میں بھی۔
سو کیریئر کا پہلا فیصلہ میرے نزدیک جب ہم گریڈ ایٹ کی سٹیج پہ کرتے ہیں تو اس وقت دو باتوں کے پیش نظر عموماً ہم کرتے ہیں: ایک ایپیٹیوڈ کے لحاظ سے، دوسرا اس کی اکیڈمک پرفارمنس کے لحاظ سے، تیسرا اس کا جو انٹرسٹ ڈویلپ ہوا ہوتا ہے۔ ان میں دو چیزوں کی میژرمنٹ ہم کوئی نہیں کر رہے: نہ ایپیٹیوڈ کی میژرمنٹ کرتے ہیں، نہ ہی اس کے انٹرسٹ کی کرتے ہیں۔ انٹرسٹ کا معیار یہ بنا ہوا ہے کہ جیسے آج کے دور میں آئی ٹی کا رجحان ہے تو پاکستان کا ہر بچہ ادھر جانا چاہتا ہے اور ہر والدین بھی یہی چاہتے ہیں کہ وہ ادھر چلا جائے، ارریسپیکٹو کے اس چیز کا ایپیٹیوڈ ہے یا نہیں ہے۔ ارریسپیکٹو آف دی فیکٹ کہ وہ اس میں پرفارم بھی کر رہا ہے یا نہیں کر رہا۔
فخر الاسلام: ڈاکٹر صاحب، میں اس میں ایک سوال پہلے کرلوں آپ سے۔ آپ نے فرمایا کہ ٹیکنیکل سٹریم سے جنرل سٹریم میں، اور جنرل سٹریم سے ٹیکنیکل سٹریم میں۔ اس کی میں مثال دے دیتا ہوں کہ آپ نے پری میڈیکل کر لیا ایف ایس سی کے اندر، اب آپ کو ایک اسٹیج پہ جا کے اندازہ ہوا کہ نہیں یار مجھے تو انجینئرنگ میں جانا تھا، یا میرا انٹرسٹ کمپیوٹر میں ہے، تو چونکہ آپ نے میتھمیٹکس نہیں پڑھا ہوا اِنٹر میں، اب یا تو آپ کو کوئی ایڈیشنل ایگزیم دینا پڑے گا میتھمیٹکس کا، یا کوئی اور۔ اچھا ایسی سچوئشن میں آپ کیا سمجھتے ہیں ایز اکیڈمک ایکسپرٹ، کیا ہمیں اس کو تھوڑا سا زیادہ فلیکسیبل نہیں رکھنا چاہیے کہ اگر آپ کو لگتا ہے تو کوئی بات نہیں آپ اس فیلڈ میں آجائیں اور آگے آپ اس میں میتھمیٹکس بھی پڑھ لیں گے، چیزیں آپ کی آہستہ آہستہ ڈیویلپ ہو جائیں گی۔
ڈاکٹر ناصر محمود: جی بالکل ایسے ہی ہے۔ دیکھیے یہ جو ابتدائی سال ہیں نا سکول کے، آپ اس کو بے شک میٹرک تک بھی سمجھ لیں تو میں اس کو یہاں تک بھی گن لوں گا۔ یہ فیکلٹیز آف مائنڈ کی ڈویلپمنٹ کے سال ہیں۔ یعنی آپ کمپارٹمنٹلائز نہیں کرتے۔ مجھے ایک اچھی زندگی گزارنے کے لیے، سکسیس فل لائف کے لیے، فرض کر لیں میرے اندر کریٹیکل تھنکنگ ہونا ضروری ہے، میرے اندر پرابلم سالونگ کی سکل ہونی چاہیے، میرے اندر نیگوسیشن کی سکل ہونی چاہیے، میرے اندر کمیونیکیشن کی سکل ہونی چاہیے۔ یہ سکلز سبجیکٹ یا ڈسپلن باؤنڈ نہیں ہیں، یہ زندگی کے ہر شعبے میں کام آتی ہیں۔ سو ابھی جب میں گریڈ ایٹ کی بات کروں تو ابھی تو مجھے صرف اور صرف یہ ڈویلپ کرنا تھا کہ یہ جو بیسک فیکلٹیز آف مائنڈ ہیں، ذہن کے ان معاملات میں تربیت کر دی جائے۔ پھر اس کے بعد موقع ملنا چاہیے کہ آپ یہ تعین کریں کہ آپ نے کس فیلڈ میں جانا ہے۔ اور اس کا تعین کرنے کے لیے بھی سب سے اہم نہیں، بلکہ میں کہوں گا ایک ہی چیز میٹر کرتی ہے، جس کا کیریئر ہے وہ کیا چاہتا ہے؟ ہم آپ اس کی رائے کو سنیں۔ مطلب میں چاہتا ہوں میرا بیٹا یہ بنے، تو یہ لازم نہیں ہے کہ وہ بھی وہ بننا چاہتا ہے۔
فخر الاسلام: ہاں، میرا انٹرسٹ تو ہے لیکن شاید بچے کا انٹرسٹ ہے کہ نہیں۔
ڈاکٹر ناصر محمود: اس کا انٹرسٹ ہونا ضروری نہیں ہے اس کے اندر۔ اچھا اب میں یہ فیصلہ کروانے کے لیے اساتذہ سے، بچے سے، اپنے آپ کے اس فیصلے کو توثیق دینے کے لیے، میں یہ کرتا ہوں کہ اس کو اس کے فوائد گنوانا شروع کر دیتا ہوں، اس کو معاشرتی طور پہ اس کا مقام سمجھانا شروع کر دیتا ہوں، کیریئر اپورچونٹیز جوڑ کے دکھانا شروع کر دیتا ہوں۔
فخر الاسلام: ایک لحاظ سے اس کو پرسوئیڈ کر رہے ہوتے ہیں ہم۔
ڈاکٹر ناصر محمود: بالکل۔ ہم اس کو پرسوئیڈ کر رہے ہوتے ہیں کہ آپ کا دل چاہے یا نہ چاہے، کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ ایسا کرنے سے آپ کے لیے اچھا ہو جائے گا، تو آپ یہ کر لیجیے۔ کیریئر اپورچونٹیز کا تعلق لوگوں کو فورس کر کے کسی کیریئر میں پہنچانے سے نہیں ہوتا۔
فخر الاسلام: اس کے اپنے انٹرسٹ کی وجہ سے ہو گا، اس کے ایپٹیٹیوڈ کی وجہ سے ہو گا۔
ڈاکٹر ناصر محمود: مثال کے طور پہ ایک بچہ شیف بننا چاہتا ہے۔ کوئی ہے آج کے طور میں پیرنٹ جو کہتا ہو کہ میں اپنے بچے کو شیف بناؤں گا۔ کیا آپ کی نظر میں دنیا میں ایسے شیف نہیں ہیں جو اپنی اس صفت کی وجہ سے ریسپیکٹ کیے جاتے ہیں، جانے جاتے ہیں، مشہور ہیں۔
فخر الاسلام: اور فائنیشلی بھی سٹرونگ ہوں گے۔
ڈاکٹر ناصر محمود: اور فائنیشلی بھی بہت اچھے ہوتے ہیں۔ لیکن میں کسی کو بائی پلان یہ کیریئر نہیں بنانے دیتا۔ کیونکہ مجھے یہ لگتا ہے کہ میرے معاشرے میں یہ کیریئر قابل قبول نہیں ہے۔ اس کے ساتھ مثلاً اداکاری ہے۔ کیا مضائقہ ہے اگر کوئی بندہ پڑھ کے۔
فخر الاسلام: ڈاکٹر صاحب، اگر کوئی اپنا باربر یا یا سیلون بناتا ہے تو اس میں کیا ہے؟
ڈاکٹر ناصر محمود: تو کیا حرج ہے اس کے اندر جی؟ آپ کو بے شمار لوگ ملیں گے (مثلاً) جو بائی پروفیشن انجینئر تھا، بعد میں سیلون کھول لیا۔ بائی پروفیشن انجینئر تھا، بزنس آئی ٹی کا کر رہا ہے۔ سو اس کا مطلب ہے لوگ کر سکتے ہیں ایکسل۔ کیونکہ کسی بھی کاروبار میں، کسی بھی کیریئر میں، ایکسل کرنے کا تعلق ان چیزوں سے نہیں ہے کہ معاشرے میں۔ وہ آپ کے اندر کی ایک لگن ہے اس چیز کے ساتھ جس سے آپ ڈسٹنکٹ ہوتے ہیں۔ تو کیریئر پاتھ میری رائے میں اوپن کرنے چاہئیں بہت سارے۔ اور ایک سٹیج پہ کیے ہوئے فیصلے کو دوسرے سٹیج پہ کریکٹ کرنے کی ضرورت پڑے کسی انڈیویجول کو، تو فیسیلیٹیٹ کرنا چاہیے۔
فخر الاسلام: ڈاکٹر صاحب آپ نے When کا تو آنسر کیا کہ آپ کے خیال میں ایٹ گریڈ کے اندر، ایٹ گریڈ سے پہلے اس کے اندر بیسک سکلز پیدا کرنی چاہئیں، اس کے بعد پھر اس کو۔
ڈاکٹر ناصر محمود: ہائی سکول کے بعد۔
فخر الاسلام: ہائی سکول کے بعد۔ اور تھوڑا اس کو بھی اوپن رکھنا چاہیے کہ اگر اس کے بعد بھی کوئی یہ فیصلہ کرتا ہے کہ مجھے یہ لگتا ہے کہ میرے لیے یہ فیلڈ نہیں، یہ فیلڈ بہتر ہے، اس کے پاس آپشن ہو کہ اس میں جا سکے۔ ڈاکٹر صاحب، میرا اگلا سوال یہ کہ اپٹیٹیوڈ اور انٹرسٹ کی بات آپ نے کی کہ آپ بچے کا ایپٹیٹیوڈ دیکھتے ہیں، اس سبجیکٹ میں یا فیلڈ میں، یا اس کا انٹرسٹ دیکھتے ہیں۔ اچھا ہم نے یہ بھی دیکھا ہے کہ اگر استاد اچھا مل گیا کسی کو، میتھمیٹکس کا اچھا استاد مل گیا، تو اس سے اس کا انٹرسٹ ڈیولپ ہو گیا اس کے اندر۔
ڈاکٹر ناصر محمود: بالکل ایسا ہی ہے۔
فخر الاسلام: کسی کو انگلش کا اچھا استاذ مل گیا تو اس کا انگلش میں انٹرسٹ ڈیویلپ ہو گیا۔ تو آپ سمجھتے ہیں کہ یہ کوئی آپ کے اندر کی اِنٹرنل ٹینڈنسی ہے، انٹرسٹ جو ہے، یا جو آپ کی انوائرمنٹ ہے وہ آپ کو اس میں سپورٹ کرتی ہے؟
ڈاکٹر ناصر محمود: دیکھیے، بالکل انوائرمنٹ کا بڑا امپارٹنٹ رول ہے اس کے اندر، لیکن میں آپ سے عرض کرتا ہوں کہ دیکھیے جن لوگوں کو میں نے دیکھا زندگی میں کہ وہ اس طرح کا رجحان رکھتے تھے اور ہم نے انہیں ان کے رجحان سے ہٹ کے کوئی کام کروانے کی کوشش کی، تو آپ دیکھیے گا لانگ رن میں اوور دی پیریڈ وہ جا کے واپس ادھر ہی آتے ہیں جس طرف ان کا رجحان زیادہ ہوتا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو، یہ جو بنیادی صفات آپ نے بتائی ہیں، کریئیٹیویٹی ہے، پرابلم سالونگ ہے، کمیونیکیشن ہے اینڈ سو آن۔ یہ سب لوگوں کے اندر اللہ تعالیٰ نے ایک پوٹینشل رکھا ہوا ہے۔ یہ بات میرا ذہن نہیں مانتا کبھی بھی کہ وہ لوگوں کو بناتے وقت یہ تفریق رکھتا کہ میں کسی کو تو یہ زیادہ دے دوں اور کسی کو کم۔ ہاں، اللہ تعالیٰ نے وہ پوٹینشل دے دیا۔ اس پوٹینشل کا کتنا حصہ آپ یوٹیلائز کرتے ہیں اور کون سا حصہ یوٹیلائز کرتے ہیں؟ یہ ماحول ہے۔ یہ نرچر ہے آپ کا۔ ایک استاد کے گھر میں اگر آپ پیدا ہو گئے تو آپ کے استاد بننے کے امکانات ایز اے کیریئر بڑھ جاتے ہیں۔ آپ ڈاکٹر فیملی میں پیدا ہو جائیں، آپ کے ڈاکٹر بننے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ کیونکہ آپ اپنے اردگرد ماحول میں اس کو دیکھتے ہیں۔ آپ کا ایکسپوژر آپ کے اندر وہ انٹرسٹ اور ایپٹیٹیوڈ پیدا کر دیتا ہے۔ سو انوائرمنٹ جو ہے وہ آپ کی ان بنیادی چیزوں میں سے چوز کرنے میں، انٹرسٹ ڈویلپ کرنے میں بہت سارا رول پلے کرتا ہے۔ اگر آپ کسی کی فری چوائس کو پروموٹ کرنا چاہتے ہیں تو آپ اس کو ان تمام چیزوں کا ایکسپوژر پرووائیڈ کر دیں۔ اور سکول جو ہیں وہ اس کام کے لیے مناسب جگہ ہیں۔ سکول کو کسی ایک طرف، کسی ایک کیریئر کی طرف لوگوں کو نہیں لے جانا چاہیے، آپ کو تمام کیریئرز کی پاسبیلیٹی کا ایکسپوژر ملنا چاہیے، اور پھر آپ فریلی چوز کریں۔ اور اس صورتحال میں جو آپ چوز کریں گے وہ آپ کے ایکسل کرنے کے لیے بہترین ہو گا۔
فخر الاسلام: ڈاکٹر صاحب، آپ کی اس بات سے میرے ذہن میں ایک اور سوال بھی آ رہا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ یہ انٹرسٹ جو ہوتا ہے، یہ جو سوفٹ سکلز ہوتی ہیں، جیسے آپ نے بتایا، کریئیٹیویٹی ہے، کمیونیکیشن سکلز ہیں، پرابلم سالونگ ہے، ڈیسیژن میکنگ ہے۔ یہ سوفٹ سکل، آپ نے فرمایا کہ، آپ کا خیال ہے کہ بالکل یہ ہر انسان کے اندر موجود ہوتی ہیں۔ لیکن یہ جو آرٹس کے اندر انٹرسٹ ہے، یا کامرس میں انٹرسٹ ہے، یا آپ کا میڈیکل کے اندر انٹرسٹ ہے، انجینئرنگ کے اندر انٹرسٹ ہے، آپ کیا سمجھتے ہیں کہ یہ بھی ایسے ہی ہوتا ہے کہ ایکولی ڈسٹریبیوٹ ہوتا ہے اور پھر بعد میں اس کا انٹرسٹ انوائرمنٹ کے تحت ڈیسائیڈ ہوتا ہے؟
ڈاکٹر ناصر محمود: دیکھیے، بنیادی فیکلٹیز جو چاہیے ہوتی ہیں ان میں سے کسی بھی سبجیکٹ کو پرسُو کرنے میں، وہ سیم ہیں۔ لیکن آپ کا انٹرسٹ ان میں سے کسی ایک پرٹیکولر پروفیشن کی طرف ہو جائے گا، اس کا تعلق آپ کے انوائرمنٹ سے ہے، آپ کے ایکسپوژر سے ہے، ضرورت سے ہے، معاشرے کے اندر ایکسیپٹیبلٹی سے ہے۔ سو آپ کی صحبت سے ہے۔ جس طرح کے دوستوں میں آپ اٹھتے بیٹھتے ہیں، اسی طرح کے کاموں کی طرف آپ کا رجحان بڑھنا شروع ہو جاتا ہے۔ سو یہ اس سے متعلق چیز ہے۔
اب دیکھیے اداکاروں کے بچے اداکار بنتے ہیں۔ ٹھیک ہے؟ اساتذہ کے بچے اساتذہ، لائیرز کے بچے لائیر، ڈاکٹرز کے بچے ڈاکٹر۔ تو کیا وہ پیدائشی طور پہ یہ ایپٹیٹیوڈ لے کے پیدا ہوتے ہیں سارے؟ یہ اتفاق کی بات ہے کہ اگر کوئی ڈاکٹرز کی فیملی میں پیدا ہو جائے گا تو وہ ڈاکٹر کا کچھ رجحان لے کے پیدا ہوتا ہے۔ نہیں، رجحان جو وہ لے کے پیدا ہوتا ہے وہ وہی بنیادی باتیں ہیں جو میں نے آپ سے عرض کیں۔ ہاں وہ ماحول پھر اس کو اپنی طرف اٹریکٹ کر لیتا ہے۔ اچھا، اس میں بہت سارے فیصلے غلط بھی ہو جاتے ہیں۔ مثلاً لائیرز کی فیملی میں پیدا ہو گیا، ہر وقت میرے اردگرد جو گفتگو ہے وہ لاء سے ریلیٹڈ ہوتی ہے، میں وہی سنتا ہوں، تو میرا رجحان اس کی طرف بڑھ جاتا ہے۔ کیوں؟ کہ مجھے اور کسی چیز کا ایکسپوژر ہی نہیں ہے۔ اگر مجھے وہ ایکسپوژر مل جاتے تو میں ہو سکتا ہے کہ ادھر آنے کی بجائے کسی اور طرف چلا جاتا۔ جو میں ابھی عرض کر رہا تھا کہ فیملی ایک انفلوئنس ہے، مختلف پوسیبیلٹیز کا ایکسپوزور، یہ سکولوں کا کام ہے۔
فخر الاسلام: ڈاکٹر صاحب، یہاں سے میرے ذہن میں سوال آ رہا ہے، ایکسپوژر۔ بچہ ایٹ گریڈ سے نائنتھ گریڈ میں آیا۔ اچھا، اس کو کس طرح سمجھایا جائے، یا آپ اپنے پرسنل ایکسپیرئنس سے، یا آپ کے نالج کے حوالے سے بتائیے ہمیں، کس طرح اس کو بتایا جائے کہ بیٹا یہ کامرس ہوتا ہے، یہ میڈیکل ہوتا ہے، یہ فلاں ہوتا ہے، آپ کس میں جانا چاہتے ہیں؟ کیا وہ نائنتھ گریڈ کے اندر یہ ڈسائیڈ کر رہا ہے کہ میں نے سائنس پڑھنی ہے، میں نے کمپیوٹر کے ساتھ پڑھنا ہے، یا میں نے آرٹ کے ساتھ پڑھنا ہے۔ تو یہ کس طرح اس کو ایکسپوز کروایا جائے ان چیزوں کے ساتھ؟
ڈاکٹر ناصر محمود: ہم آلریڈی یہ کرواتے ہیں۔ دیکھیے، مختلف طرح کے مضامین جو ہم پڑھاتے ہیں، آپ کو فرض کر لیجیے کہ آئی ٹی کے فیلڈ میں جانا ہو، بغیر آپ میتھمیٹکس کی ساونْڈ بیس کے، آپ اس میں ایک لمٹ سے آگے ایکسل نہیں کر سکتے۔ آپ کو یہ بتانا، یا اس بات کی وضاحت آپ پہ کرنا کہ آپ کو اگر کسی ایک پرٹیکولر فیلڈ کو چوز کرنا ہے تو آپ اس کے لیے سوٹیبل ہیں یا نہیں ہیں، یہ دیکھنا ہے تو آپ یہ بنیادی سکلز دیکھیے کہ آپ کی کیسی ہیں؟ اگر آپ یہ ججمنٹ ٹھیک کر لیں گے تو آپ اس فیلڈ میں چلے جائیں آپ کامیاب ہو جائیں گے۔ آپ ان کی ججمنٹ کیے بغیر چلے جائیں گے تو ممکن ہے آپ پھر بھی چلتے رہیں لیکن آپ اس کی اس کلاس میں نہیں پہنچ سکیں گے جہاں پہ وہ بنیادی ضرورت ہے پہنچنے کے لیے۔
سو، جب میں کہتا ہوں ایکسْپوزر دینا ہے تو ایکسْپوزر یہ نہیں ہے کہ میں ایک کورس رکھ دوں اور اس کورس کے ہر روز ایک لیکچر دیا کروں کہ اکاؤنْٹینٹ بننا ہو تو اس کے یہ فوائد ہیں یہ نقصان ہے، آپ نے لائیر بننا ہو تو یہ فوائد ہیں اور یہ نقصانات ہیں۔ یہ بتانے سے نہیں ہے بات۔ یہ ماحول کے اندر ایکسْپوزر موجود ہوتا ہے۔ اور ان چیزوں سے اویئرنیس کہ اگر آپ نے فیصلہ کر لیا کہ آپ اچھے کرکٹر بننا چاہتے ہیں تو اس کے لیے بنیادی سکلز کون سی چاہئیں؟ آپ اپنے آپ کو اسیس کریے کہ وہ سکلز آپ کے اندر ہیں یا نہیں ہیں۔ اور اگر آپ سمجھتے ہیں وہ ہیں، تو پھر اداروں کا کام ہے کہ ان سکلز کو پالش کرنے کے لیے، بہتر بنانے کے لیے، مدد کرنے کا نظام ادارے میں موجود ہونا چاہیے۔
فخر الاسلام: ڈاکٹر صاحب، آپ کا چونکہ ایکسْپوزر جاپان کا بھی ہے اور باقی ممالک کا بھی ہے۔ ہم جو سبجیکٹ پڑھاتے ہیں یہاں پہ، ہمارے یہاں اردو ہے، انگلش ہے، اسلامیات ہے، مطالعہ پاکستان ہے، سائنس ہے، اور اگر سائنس پہ آتے ہیں تو فزکس ہے، کیمسٹری ہے، بائیو ہے، کمپیوٹر سائنس ہے۔ وہاں پہ بھی سبجیکٹ یہی پڑھائے جاتے ہیں یا وہاں پہ کچھ اور سبجیکٹ بھی اس کے اندر ایڈیشن میں ہوتے ہیں، یا اس سے کچھ اور سبجیکٹ ہوتے ہیں؟
ڈاکٹر ناصر محمود: ہم جس طرح کے سوشیو کلچرل یا جیوگرافیکل سیٹ اپ میں بیٹھے ہوئے ہیں، پاکستان بننے کے بعد ہمیں یہ لگا کہ ہماری سرحدوں کا تحفّظ اس بات سے جڑا ہوا ہے کہ ہمارے بچے آئیڈیالاجی آف پاکستان، ہسٹری آف میکنگ آف پاکستان، اور اس سے پہلے ہندوستان میں مسلمانوں کا جو دور گزرا، ان چیزوں کو جتنا اچھا جانیں گے بلکہ اچھا نہیں ہمارا پرسْپیکٹیو جتنا اچھا سمجھیں گے، تو شاید ہم ایْز اے قوم انٹیگریٹڈ رہیں گے۔ یہ بات کسی حد تک درست بھی ہے۔ اسی طرح آپ اسلامیات کو لے لیجیے، باقی مضامین کو لے لیجیے۔
عمومی طور پہ جب آپ بڑے گریڈز میں چلے جاتے ہیں پرٹیکولرلی 12 سے 14 وغیرہ گریڈ، سکول کے بیونْڈ، تو لوگ ان مضامین پہ بہت زیادہ وقت نہیں صَرف کرتے۔ اس امّید کے ساتھ کہ میں نے دس سال ان کو پڑھا دیا، اب ان کی ایک بیس بن گئی ہوئی ہے۔ اب یہ اس کے بارے میں اپنی رائے رکھنے اور اس کو مزید پڑھنے کے قابل ہو چکے ہوئے ہیں۔ ہم نے سم ہاؤ ایون انڈر گریڈ کورسز چھوڑ دیں، ہم ایم ایْس کے کورسز میں بھی یہ چاہتے ہیں کہ اسلامیات بھی مسلسل پڑھی جانی چاہیے، بلکہ ایک صورت میں نہیں، تفہیم القرآن بھی ہونا چاہیے، اسلامیات بھی ہونی چاہیے، حدیث کا علم بھی ہر ایک کو پڑھنا چاہیے۔ اور اسی کے ساتھ ساتھ پھر پاکستان سٹڈیز بھی پڑھنی چاہیے، کانسٹیٹیوشن آف پاکستان کا بھی کورس پڑھنا چاہیے۔
جب آپ پروفیشنل ڈگریز میں جاتے ہیں تو وہاں آپ کو اچھا پروفیشنل بننا چاہیے۔ میری اَزمپشن یہ ہے کہ یہ جو پہلے میں نے جتنی باقی چیزیں بتائیں، یہ انشور کر لیں کہ یہ اس سٹیج میں انٹر ہونے سے پہلے پہلے ان کے متعلّق ہم جس طرح کی بھی رائے بنانا چاہ رہے تھے، بن چکی ہو۔ اب آپ انجینیئرنگ میں آ جائیں تو کیا انجینیئرنگ یونیورسٹی میں پہنچ کے میں نے پھر کوئی تیس کریڈٹ کی اسلامیات یا مجھے تیس کریڈٹ کے یا اس سے کم کریڈٹس کے پاک سٹڈیز اور اس طرح کے مضامین پڑھنے کی ضرورت ہونی چاہیے؟ سو میری رائے میں پروفیشنل ڈگریز میں، یا ایون انڈر گریڈ کورسز تک پہنچ جائے، تو پھر ان مضامین پہ ہمیں وقت نہیں لگانا چاہیے۔ یہ پہلے سے ڈیولپ ہو چکے ہونے چاہئیں۔ نہیں ہو رہے، آپ کو کوئی کمی کوتاہی نظر آتی ہے، آپ بھلے ہی ان کو ری وائز کر لیجیے۔ یہاں آ کے پھر صرف پروفیشنل کورسز کی تعداد زیادہ ہونی چاہیے۔ اور باقی جو لائف سے متعلّق کورسز، سوشل سائنسز ہیں، لینگویجز ہیں، وہ ضرور آپ سب کو کچھ نہ کچھ پڑھائیے۔
فخر الاسلام: ڈاکٹر صاحب، ہمارے اس پروگرام کا مقصد تو یہ ہے کہ ہم والدین کو آپ کی وساطت سے گائیڈ کریں کہ وہ اپنے بچوں کے کیریئر کو ڈسائیڈ کرتے وقت کن چیزوں کا خیال رکھیں؟ آپ نے ذکر فرمایا کہ بچے کا انٹرسٹ آپ دیکھیں، اس کا ایپٹیٹیوڈ دیکھیں، اور اس کا رجحان دیکھیں کہ وہ کس طرف ہے، کس سبجیکٹ میں ہے، کس فیلڈ میں ہے۔ اچھا، آپ فرمائیے کہ وہ کیا میتھڈ ہے اور کیا پروسیجر ہے جس سے کوئی ایک عام والد ہے یا والدہ اس بات کو انڈرسٹینْڈ کر سکے کہ میرے بچے کا کس سبجیکٹ میں انٹرسٹ ہے، یا اس کا رجحان کس طرف ہے؟
ڈاکٹر ناصر محمود: میرا سنگل لائن آنسر اس پہ یہ ہو گا کہ بچے کو ڈسائیڈ کرنے دیں کہ اس کو کیا اچھا لگتا ہے زندگی میں، وہ کیا کرنا چاہتا ہے۔ اور بینگ اے پیرنٹ میرا رول صرف یہ ہے کہ میں اس کی مدد کروں کہ جو وہ بننا چاہتا ہے وہ اچّھے طریقے سے بن سکتا ہو۔
فخر الاسلام: ڈاکٹر صاحب، اس میں ایک اور پریکٹیکل مسئلہ ہے، جو میں سمجھتا ہوں کہ ہر والدین کا مسئلہ ہے، اور میں بھی ایْز اے فادر یہ سمجھتا ہوں کہ یہ مسئلہ ہے۔ آپ بچے کو یا تو اتنی لبرٹی دیں، اتنا کانفیڈنس دیں، اور اتنا اس کے اندر ایپٹیٹیوڈ ہو کہ وہ یہ بات کہے کہ میں یہ کرنا چاہتا ہوں۔ اور اس کو اعتماد ہو کہ میں اپنا فیصلہ کر سکتا ہوں اور میرے پیرنٹ مجھے سپورٹ کریں گے۔ ہمارا جو سوشیو کلچرل بیک گراؤنْڈ ہے ہمارا جو ایک فیبرک ہے اس کے اندر تو ہوتا ہے کہ بچہ، ایون میرے بچے کہتے ہیں کہ جی آپ بتائیں کیا کرنا ہے۔
ڈاکٹر ناصر محمود: اس لیے کہ میں ڈے ون سے ایْز اے معاشرہ ان کی تربیت یہی کرتا ہوں، تربیت میں یوں کرتا ہوں کہ دیکھیے، جس دن وہ بہت چھوٹا ہوتا ہے، تو اس نے اپنے لیے کپڑے خریدنے ہوں تو کتنی دفعہ ہم اس کی چوائس سے خریدنے دیتے ہیں؟ اس کی امّاں فیصلہ کرتی ہیں کہ اس کو کیا پہننا چاہیے، کون سا رنگ پہننا چاہیے، کس فارم کے کپڑے پہننے چاہئیں اس کو، یہ فیصلہ اس کے والدین کرتے ہیں۔ اور اس طرح یہ چھوٹا سا ایک فیصلہ ہے۔ آپ کوئی بھی اس سے بڑے فیصلے لینے شروع کریں۔ ہمیشہ ہم یہ فورس کرتے ہیں کہ ہم جو جانتے ہیں آپ کے لیے اچھا ہے، وہی اچھا ہوتا ہے۔ تو جب یہ تربیت یوں ہو گئی ساری زندگی کی تو اس کے بعد اب آپ کہتے ہیں کہ وہ میٹرک میں پہنچے تو اس کو یقیناً یہ بتانا چاہیے کہ اس کو کون سا مضمون اچھا لگتا ہے۔ جو آپ نے پہلے بات کی، تربیت کرنے والی بات، اسی کو میں آگے بڑھاتا ہوں۔ دیکھیے آپ پورے ماحول کو ایسے کنسٹرکٹ کریں، جسے کہتے ہیں لبرٹی دوں۔ اگر میں لبرٹی دوں اور بغیر کسی کییپیبلٹی کے دے دوں، جو کییپیبلٹیز چاہئیں اس فیصلے کے لیے وہ تو ڈیولپ ہونے کا موقع نہ دوں، اور پھر یہ لبرٹی دے دوں کہ آپ خود کچھ کر لو۔ تو وہ خود تو پھر کچھ نہیں کرے گا، اور جو کرے گا امکان ہے کہ ٹھیک نہ ہو۔ اس کے اپنے لیے بھی ٹھیک نہ ہو۔
فخر الاسلام: ڈاکٹر صاحب، اس کا پھر میں یہ مطلب سمجھ رہا ہوں آپ کی بات سے کہ یہ تو بچوں سے پہلے والدین کو ٹرین کرنے کی ضرورت ہے۔
ڈاکٹر ناصر محمود: پورے معاشرے کو ضرورت ہے جی۔ صرف گھر کی بات نہیں ہے، سکول چلے جائیں، میرے کلاس کا ٹیچر فیصلہ کرے گا کہ میں نے کیا پڑھنا ہے۔ کس وقت پڑھنا ہے، کیا پڑھنا ہے، وہ فیصلہ کرے گا۔ میں دوستوں میں چلا جاؤں تو جو میرے دوستوں میں سب سے افلیوئنٹ دوست ہے وہ فیصلہ کرے گا کہ آج ہم نے کیا کھانا ہے۔ سو آپ کو اگر اپنا آپ اَسرٹ کرنا ہے، اپنی رائے بیان کرنی ہے، تو بیان کرنے کی جو کیپیبلٹی پیدا کی جاتی ہے انسان میں، وہ معاشرے کے مختلف حصے مل کر کرتے ہیں۔ اور یہ کرنے دینی چاہیے۔ خاص طور پہ ابتدائی عمر میں جن فیصلوں کی کوئی لانگ ٹرم امپلیکیشنز بھی نہیں ہوتی۔ مثال کے طور پہ کسی بچے نے ایک کپڑے اپنے لینے تھے اور غلط لے لیے ہیں۔ تو کیا ہو گا، یہ کپڑے ہیں، چار مہینے استعمال ہونے تھے نہیں ہوں گے ضائع ہو جائیں گے، نئے آ جائیں گے۔ لیکن میں یہ بھی برداشت نہیں کرتا۔ والدہ یہ بھی کہتی ہیں کہ اس کو آج فرض کر لیں تین نمبر کے جوتے پورے آتے ہیں تو چار نمبر کے لوں گی تاکہ اگلے سال تک چل جائیں، ابھی یہ تو اس کو چھوٹے ہو جانے ہیں۔ یار اگر اس کو پسند ہے کہ وہ پوری چیز پہنے تو کتنا فرق پڑتا ہے کہ اگر آپ اس کو اس کی مرضی سے کر لینے دیں۔ غلط ہو جائے گا نا، تو کوئی بات نہیں۔ لیکن اس سے وہ یہ لرن کر لے گا کہ مجھے اپنا فیصلہ کرنا ہے خود۔
فخر الاسلام: ڈاکٹر صاحب، یہ بہت امپورٹنٹ بات ہے۔ میں سمجھتا ہوں یہ ایک ایسی چیز ہے کہ والدین کو سیکھنی چاہیے یہ بات کہ ہمیں بچوں کو لبرٹی بھی دینی چاہیے فیصلہ کرنے کی، اور اگر وہ فیصلہ کر لیں تو اس پر آپ کو بھی ان کا ساتھ دینا چاہیے۔ چاہے اس کا نتیجہ صحیح نکلے یا غلط نکلے۔ اور اسی اعتماد کے ساتھ پھر وہ کسی سٹیج پہ جا کے اس بات کا فیصلہ کرنے کے قابل ہو جائے گا کہ میں نے کون سے فیلڈ میں جانا ہے۔
ڈاکٹر ناصر محمود: آپ کے بتانے سے وہ اچھائی نہیں سیکھتا۔ وہ خود غلط کر کے جب سیکھے گا کہ یہ غلط ہے، اور اچھا یہ ہوتا ہے، وہ ساری زندگی اس کے ساتھ رہے گا۔ آپ کا بتایا ہوا اچھا، یا آپ کا بتایا ہوا برا آپ کا ہی ہے، وہ اس کا کبھی نہیں بنتا۔
فخر الاسلام: ڈاکٹر صاحب، اب مجھے یہ بتائیے کہ اس سوسائٹی جس میں ہم رہتے ہیں، اور اس میں ہم اپنے بچوں کی تربیت ایسے کر رہے ہیں جس طرح ابھی آپ نے ذکر فرمایا کہ اس کے فیصلے ہم کر رہے ہیں، بچپن سے لے کے ڈے ون سے لے کے جب وہ چوائس کرنا شروع کی تھی، اس وقت سے لے کے اس سٹیج تک کہ جب اس کے کیریئر کا وقت آ گیا ہے۔ اب اتنی اس کو ہم نے یہ لبرٹی نہیں دی ہے یا اس کو ہم نے یہ موقع نہیں دیا ہے۔ آج ہم اگر اس کو موقع دیتے ہیں تو ظاہر بات ہے وہ فیصلہ نہیں کر پا رہا۔ اب شروع کہاں سے کریں؟ اگر آج کوئی بندہ ہماری بات سن رہا ہے تو اس کو آپ کیا سَجسٹ کرتے ہیں کہ وہ کس طرح سے اس بات کو لے کے چلے کہ آپ بچوں کے اندر یہ اعتماد پیدا کریں؟
ڈاکٹر ناصر محمود، دیکھیے، جیسے ہم نے خود ہی ابتدا میں کہا کہ یہ امیجیٹلی کریکٹ ہونے والی چیز نہیں ہے۔ یہ ایک معاشرتی رویہ ہے جس کو وقت لگتا ہے ٹھیک ہونے میں۔ ہمیں اپنے انسٹیٹیوشنز، جن میں فیملی ہے، جن میں آپ کا سکول ہے، جس میں فرینڈشپس ایک انسٹیٹیوشن ہے، ان اداروں کے بیسز کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ اور یہ کانشیسلی اگر ہم بدلیں گے تو بدل جائیں گے۔ آج جو بچہ اس وَرج پہ کھڑا ہے کہ اس نے اپنا کیریئر چوز کرنا ہے۔ آج آپ اس کو کہہ بھی دیں گے نا تو وہ شاید فیصلہ نہ کر پائے آپ کے کہنے پہ۔ سو یہ جتنی بھی ہم گفتگو کر رہے ہیں یہ ایسی نہیں ہے کہ آج ہم اٹھیں گے اور کل سے لوگ ایسا کرنا شروع کر دیں تو یہ ہو جائے گا ٹھیک شکل میں۔ لیکن غلط فیصلوں سے ڈرنا نہیں چاہیے، فیصلہ اس کو کرنا چاہیے جس کا رائٹ بنتا ہے کرنے کا، اور اس کے غلط ہو جانے کے خوف سے ایسے فیصلے نہیں مسلط کرنے چاہئیں جو اُن کے نہ ہوں۔ یہ کام تو میں آج سے شروع کر سکتا ہوں۔
فخر الاسلام: ڈاکٹر صاحب، میرے پاس ایک کیس آیا، میرے دوست ہیں، انہوں نے کہا جی چونکہ آپ میڈیا میں ہیں تو ذرا ہمیں اس بارے میں ہیلپ کریں۔ کسی انجینئرنگ یونیورسٹی میں ان کے بچے کا ایڈمیشن ہو رہا تھا، تو انہوں نے جب آپشن مانگے تو انہوں نے دو آپشن سلیکٹ کر دیے: انٹیریئر ڈیزائن کا اور بزنس اینالیٹکس کا۔ اچھا، اب جب اس کا میرٹ بنا تو اس کا بزنس اینالیٹکس کے اندر ایڈمیشن ہو گیا۔ ایڈمیشن ہو گیا تو اس کو چالان فارم مل گیا، انہوں نے اس کی فیس جمع کروا دی۔ اچھا جب انٹیریئر ڈیزائن کی لسٹ لگی تو اس میں بھی اس کا نام آ گیا۔ تو انہوں نے کہا جی کہ ہم آپ کا ایڈمیشن اس میں شفٹ کر رہے ہیں، آپ نے اس کا آپشن بھی رکھا ہوا تھا کہ یہ میرا پہلا آپشن ہے اور یہ میرا سیکنڈ آپشن ہے، تو چونکہ آپ کا سیکنڈ آپشن میں پہلے ایڈمیشن ہوا ہے، تو اب ہم آپ کو فرسٹ آپشن کا ایڈمیشن دے رہے ہیں۔ ان کے والدین اتنے پریشان ہوئے اس معاملے میں۔ اچھا، میں نے ان سے پوچھا کہ آپ یہ جو فیصلہ کر رہے ہیں کہ ہم نے بزنس اینالیٹکس میں جانا ہے، انٹیریئر ڈیزائن میں نہیں جانا، جب بچہ فارم فل کر رہا تھا تو اس نے تو انٹیریئر ڈیزائن کو ٹک کیا تھا کہ یہ میرا فرسٹ آپشن ہے، لیکن آپ چاہ رہے ہیں کہ نہیں بزنس اینالیٹکس کہ اِس کی تو آگے سکوپ ہے، اُس کی تو آگے سکوپ نہیں ہے۔ تو اب یہ والے فیصلے یعنی بچہ جب فارم فل کرتا ہے تو انٹیریئر ڈیزائن کو اپنا فرسٹ آپشن لکھتا ہے، لیکن جب والدین فیصلہ کرتے ہیں تو کہتے ہیں آپ کے لیے بہتر یہی (بزنس اینالیٹکس) ہے۔ تو اب ایسی سچوئیشن میں ہم کس طرح سے اس کو جو ہے؟
ڈاکٹر ناصر محمود: دیکھیے، اس میں ایک بڑا اہم نکتہ آپ نے بیان کیا کہ اس کا آگے کیریئر اچھا ہے۔ آج سے دس سال پہلے، پندرہ سال پہلے بی کام کا بڑا اچھا کیریئر تھا۔ یاد ہو گا کہ ایک وِیو آئی تھی، جب پورے پاکستان کے بچے اُدھر جانے لگے۔ اس سے بھی تھوڑا پیچھے چلے جائیں تو بزنس ایڈمنسٹریشن کا بڑا بوم تھا اور ہر بچہ ادھر جانا شروع ہو گیا۔ پھر جس وقت یہ بچے پڑھ کے اپنے فیلڈ میں جاب کرنے والی جگہ پر پہنچے تو کیا انجینئرنگ کا وہی آج کل سکوپ ہے جو اس سے پانچ چھ سال پیچھے تھا؟ آج سے دو تین پانچ سال پہلے جن بچوں نے، فرض کر لیں سول انجینئرنگ میں آرکیٹیکٹ میں داخلہ لیا ہو گا، یہ سوچ کے کہ اس کا بڑا کیریئر ہے۔ پانچ سال بعد تو وہ نہیں رہا۔
سو یہ ایک بہت ہی نائیو سی بیس ہے کہ اس کا کیریئر کیسا ہے۔ کیریئر کسی پروفیشن کا نہیں ہوتا۔ کیریئر آدمی کا ہوتا ہے جو اس کو پڑھ رہا ہوتا ہے۔ اگر آپ اپنے فیلڈ میں ٹاپ پہ ہیں چاہے وہ فیلڈ کوئی بھی ہو، اگر آپ اس کے ٹاپ پہ ہیں تو آپ کا کیریئر ہے۔ اگر آپ بہت ہی کسی ’’مارکیٹ میں اِن سو کالڈ‘‘ فیلڈ میں ہیں اور باٹم پہ ہیں تو آپ کا کوئی کیریئر نہیں ہے۔ میں آپ کو بہت سارے ڈاکٹرز، انجینئرز بتا سکتا ہوں جن کا کوئی کیریئر نہیں بنا۔ اور میں بہت سارے ایسے لوگ بتا سکتا ہوں جنہیں ہم عمومی زبان میں کہتے ہیں کہ یار یہ اردو پڑھ لیا تو کیا پڑھا؟ یار یہ فارسی پڑھ لیا، فلسفہ پڑھ لیا، انگریزی پڑھ لی، کیا پڑھ لیا آپ نے؟ اس کا کیا کیریئر؟ لیکن وہ لوگ اس پہ بہت پیک پہ پہنچے ہوئے ہیں۔ سو کیریئر کو کس طرح آپ دیکھتے ہیں، یہ بڑا میٹر کرتا ہے۔
اچھا پھر فرض کر لیں بہت زیادہ پیسے ملتے ہوں اور بڑا اچھا کیریئر ہو اور آپ کو کہا جائے کہ آپ کرکٹر بن جائیں اور آپ میں کرکٹ کا ایپٹیٹیوڈ نہ ہو، آپ اس کو شوق سے کرتے بھی نہ ہوں، تو آپ کتنے دن اس کو کنٹینیو کر سکتے ہیں؟ بندے کو کیریئر وہ اپنانا چاہیے کہ روز صبح اٹھ کر اس نے جانا ہے اور اس کو یہ یقین ہو کہ میں اس کو انجوائے کروں گا۔ مجھے کچھ ملے گا یا نہ ملے گا، پیسے ملیں گے یا کم ملیں گے زیادہ ملیں گے لیکن مجھے مزہ آتا ہے اس کام کو کرنے میں۔ تو اس میں تو آپ ایکسل کریں گے۔ سو یہ ان چیزوں کی جو بنیادی ڈیفینیشنز ہم نے بنا رکھی ہیں، کسی بھی سبجیکٹ کا سکوپ، کسی بھی سبجیکٹ میں پیسے کمانے کے امکانات، یہ میرے خیال میں بیسز ہی نہیں ہو سکتے کسی بھی کیریئر چوئس میں۔
فخر الاسلام: میرا خیال یہ ہے کہ ایک وجہ یہ سکوپ کی اور یہ کیریئر کی بات اس لیے بھی ہوتی ہے کہ ہمارے یہاں جو اکیڈمکس ہیں، یا ہمارے یہاں جو ایجوکیشن ہے، وہ الٹیمیٹلی تو ہم کہیں جاب کے لیے کر رہے ہوتے ہیں، ہم الٹیمیٹلی اپنے فائنانشلز کے لیے کر رہے ہوتے ہیں۔ تو یہ بھی دیکھنا پڑتا ہے کہ ہم جس کے اندر سولہ سال لگائیں گے، کیا اس کے بعد ہم اس قابل بھی ہو سکیں گے کہ ہم کچھ کما سکیں یا نہ کما سکیں؟
ڈاکٹر ناصر محمود: میری اپنی انڈرسٹینڈنگ میں یہ پھر ایک مغالطہ ہے۔ دیکھیں، تعلیم میں نے حاصل کرنی ہے، میں پہلے بھی بہت دفعہ یہ بات کہہ چکا ہوں، تعلیم انسان کی تربیت کا ذریعہ تھا، آپ اس کو مذہب کے اینگل سے لے لیں یا آپ اس کو دنیاوی اینگل سے لے لیں۔ کبھی کسی نے کہا ہو کہ یار تعلیم جو ہے وہ پیسے کمانے کے لیے ہوتی ہے۔ تعلیم آپ کی شخصیت بنانے کے لیے ہوتی ہے۔ اس شخصیت کے مختلف پہلو ہیں۔ آپ کو اپنی زندگی کے متعلق آداب سکھانا، دوسروں کے حقوق سکھانا، معاشرے میں رہنے کی تمیز سکھانا، کلیکٹِو گڈ کی تعلیم دینا، یہ تعلیم کرتی ہے۔ اچھا یہ آپ ٹھیک طریقے سے کر لیں تو ان کے ثمرات میں سے جو ایک ثمر آپ کو ملے گا نا، وہ اچھا کیریئر ہو گا۔ جو ان چیزوں میں اچھا ہو جائے گا، اس کی زندگی میں کمانے کے راستے بھی اچھے اس کو مل جائیں گے۔ یہ شعور اس کو سمجھ دے گا کہ اس نے کیریئر کون سا اپنانا ہے۔ لیکن اگر میں تعلیم سے یہ توقع کروں، اور یہ کارپوریٹ ماڈل ہے تعلیم کا، جو یہ کہتا ہے کہ آپ فلاں چیز پڑھو اتنی تنخواہ ہوتی ہے، آپ فلاں مضمون پڑھیں گے یہ والی جاب مل جائے گی۔ جتنے لوگ وہ پڑھتے ہیں سب کو مل جاتی ہے؟ نہیں ملتی۔ اور جتنے لوگ وہ نہیں پڑھتے کیا وہ پیسے نہیں کماتے؟
فخر الاسلام: ان سے اچھے بھی کما رہے ہوتے ہیں۔
ڈاکٹر ناصر محمود: ان سے اچھے بھی کما رہے ہوتے ہیں۔ سو پھر یہ کیا بنیاد ہوئی اس بات کی کہ آپ یہ پڑھو تو اتنے پیسے ملیں گے، یہ پڑھو تو فلاں نوکری ملے گی۔ اور نوکری مل جائے گی یہ والی تو شاید زندگی کے سارے مسئلے حل ہو جائیں گے۔ میں نے دیکھا ہے کہ جو لوگ اپنے شوق کے اپنے انٹرسٹ کے بغیر کسی فیلڈ میں چلے جاتے ہیں وہ اس سے وہ انجوائے منٹ جنریٹ نہیں کر پاتے زندگی کے لیے، جو ایک ان سے کم کمانے والا کر رہا ہوتا ہے لیکن وہ اس کو انجوائے کر رہا ہوتا ہے ہر وقت۔
فخر الاسلام: ڈاکٹر صاحب، میں سمجھتا ہوں اس پہ تھوڑا سا ہمیں ذرا مزید بات کرنے کی ضرورت ہے کہ جو کیریئر ہوتا ہے۔ ابھی ہم بات کر رہے تھے نا کہ ایک ہے ایجوکیشن اور ایک ہے کیریئر۔ اچھا، ایجوکیشن کے اینڈ پہ آپ کا کیریئر ہوتا ہے کہ ہم جب ایک خاص ڈگری کر لیتے ہیں اس کے بعد ظاہر ہے اس میں کوئی جاب کرتے ہیں یا اس کے اندر کچھ کام کرتے ہیں چاہے اپنا کوئی انٹرپرینیور شپ کر رہے ہوں۔ تو یہ فیصلہ کرنا کہ جب میں ایک سولہ سال کی ایجوکیشن حاصل کر لوں گا کسی ایک سبجیکٹ میں یا کسی ایک ڈسپلن میں، تو اس کے بعد کام کچھ اور کر رہا ہوں گا۔ یعنی ممکن ہے کہ ایسا بھی کیا جا سکتا ہے کہ ٹھیک ہے ایجوکیشن کسی اور فیلڈ میں، کام آپ کوئی اور کر رہے ہیں؟
ڈاکٹر ناصر محمود: بہت سارے مضامین کی تعلیم ایسی ہے جو آپ کے اندر بنیادی سکلز پیدا کرتی ہے، کیریئر نہیں بتاتی کون سا ہو گا۔ مثلاً آپ نے سوشیالوجی میں کر لیا تو تھیوریٹیکلی سپیکنگ آپ اس پوزیشن میں آ جاتے ہیں کہ آپ اپنے معاشرے کے اندر جو سوشیولوجیکل ایسپیکٹس ہیں ان کی سمجھ بہتر رکھتے ہیں۔ اب اس کے آگے کیریئر ایک تو نہیں ہے۔ یہ کیریئر نہیں ہے اٹسیلف۔ اس کے آگے کیا ہے؟ آپ کے پاس جابز آتی ہیں مختلف محکموں میں، مثلاً سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ میں آتی ہے، مثلاً کمیونٹی سروسز ڈیپارٹمنٹ میں آتی ہیں، تو آپ کہتے ہیں کہ یار میرا سیٹ آف سکلز جو ہے نا مجھے ایلیجیبل کرتا ہے کہ میں اس جاب کو اچھا پرفارم کر سکتا ہوں۔ سو پڑھائی آپ کے اندر وہ بنیادی سکلز ڈیولپ کرتی ہے جو تعین کرے گی کہ آپ کا کون سا کیریئر ہو سکتا ہے۔ لیکن وہ ایک طرح کی پڑھائی سے ایک طرح کا کیریئر اوپن نہیں ہوتا۔ ملٹیپل طرح کے کیریئر اس کے ساتھ منسلک ہوتے ہیں۔
اور ہمارا بھی آپ دیکھیے جابز کا سٹرکچر یہی ہے۔ اکثر اوقات جب مختلف محکموں کی جابز آتی ہیں یا پرائیویٹ سیکٹر کی جابز آتی ہیں تو وہ یہ تھوڑی کہتے ہیں کہ یہ ایک پرٹیکولر ڈگری والا بندہ، وہ کہتے ہیں یار جس نے سولہ سال ان مضامین میں سے کوئی بھی پڑھا ہو۔ اس کے پیچھے آئیڈیا یہ ہوتا ہے کہ جنہوں نے بھی یہ مضامین پڑھ رکھے ہوں گے، یا اس کے اندر انہوں نے پڑھائی کو جاری رکھا ہو گا، ان میں وہ بنیادی سیٹ آف سکلز آ جاتا ہے۔ یہ جنرل جابز ہو گئیں ہماری۔
پھر دوسرے کیریئر پاتھ ہمارے وہ ہوتے ہیں جو بالکل سپیسیفک ہیں۔ جیسے میڈیسن ہے، اس کی ایک سپیسیفک ڈگری ہے، آپ پہلے ڈیسائیڈ کرتے ہیں کہ میں نے میڈیسن کے فیلڈ میں جانا ہے۔ پھر آپ ان سبجیکٹس کو چوز کرتے ہیں، وہ جنرل سبجیکٹس نہیں ہیں، وہ پروفیشنل سبجیکٹس ہیں، آپ ان میں آ جاتے ہیں۔ میں ٹیچنگ اس میں گنتا ہوں، اس میں لاء کو گنتے ہیں ہم، اس میں آپ انجینئرنگ کو لیتے ہیں۔ سو یہ مختلف طرح کے پروفیشنز ہیں جو آپ ڈے ون سے ڈیسائیڈ کرتے ہیں کہ میرا کیریئر ہو گا اسی میں ہی، لیکن اس کے اندر بھی جا کے کیریئر ایک نہیں ہوتا، میڈیسن پڑھنے والے کا ایک کیریئر نہیں ہے آگے جا کے، اس کے بھی آگے ملٹیپل فیلڈز ہیں۔
فخر الاسلام: یعنی جس نے پری میڈیکل میں ایف ایس سی کی ہوئی ہے اس کے پاس اَسی سے زیادہ کیریئر آپشنز ہیں کہ آپ اس میں سے جا سکتے ہیں۔ اچھا، لیکن ہمیں ایک دو کا پتہ ہے جی کہ یہ ایم بی بی ایس ہے، یہ ڈینٹسٹری ہے، یہ بی فارمیسی ہے، یا ایک آدھ ہمیں اور پتہ ہو گا اس کے علاوہ نہیں۔ اور اتنی اس کے اندر ویئریشن ہے، آپ کی بات بالکل درست ہے۔ اچھا، ڈاکٹر صاحب، ہمارا سوسائٹی کا جو ایک فیبرک ہے، والدین بہت پڑھے لکھے نہیں ہے، ہم تو بڑی پڑھی لکھی باتیں کر رہے ہیں کہ جی اس میں آپ کا سکوپ ہوتا ہے اور یہ اس طرح سے اس کو آپ ڈیسائیڈ کر سکتے ہیں، بڑے آپشن ہوتے ہیں اس کے اندر۔ والدین کو تو اتنا ہی پتہ ہے کہ یہ میرا بچہ ہے اور یہ اگر یہ پڑھ لے گا تو اس میں اس کو نوکری مل جائے گی۔ ہم والدین کو کیا ایجوکیٹ کریں یا کیا سمجھائیں؟ ابھی جو ہم یہ والی ساری بات کر رہے ہیں کہ ایک ایسا بندہ جو کہ بالکل لے مین ہے اس کو کس طرح سے یہ بات ہم سمجھائیں کہ اپنے بچے کے بارے میں آپ کیا فیصلہ کریں؟
ڈاکٹر ناصر محمود: یہ والدین کی تشویش کا نکتہ ہی نہیں ہے کہ میرے بچے نے کیریئر کون سا اپنانا ہے۔ یہ اس بچے کا کرنے کا فیصلہ ہے۔ والدین جب کرنے پہ آتے ہیں ناں، آپ تو کہتے ہیں جو پڑھے لکھے نہیں ہوتے، جو بہت پڑھے لکھے ہوتے ہیں وہ بھی اپنی زندگی میں جو نہیں کر پائے ہوتے اور کرنا چاہتے تھے، جب بچے بڑے ہوتے ہیں تو ان کا دل چاہتا ہے کہ جو میں نہیں کر پایا تھا وہ ان سے کروا لوں۔ ان کو اپنی زندگی گزارنے کا حق ہے۔ وہ آپ کی وہ والی زندگی گزارنے کے لیے مجبور نہیں ہیں جو آپ چاہتے تھے کہ آپ گزاریں اور آپ نہیں گزار سکے۔ سو میں اپنی نامکمل خواہشات کی خاطر اپنے بچوں کی زندگی کی سمت تو خراب نہیں کر سکتا اور نہ مجھے کرنی چاہیے۔
سو، والدین پڑھے لکھے ہیں یا نہیں پڑھے لکھے ہیں، میری ان سے گزارش ہے کہ آپ اپنے بچے کی آواز سن لیں، وہ جو کرنا چاہتے ہیں ان کو وہ کر لینے دیں۔ اس بات کی فکر ذہن سے نکال دیں کہ کل کو اس کا آگے کیریئر پتہ نہیں فائنینشلی پے کرے گا یا نہیں کرے گا، اس کے پاس جاب اپورچونٹی بنے گی یا نہیں بنے گی۔ جس دن وہ لگن کے ساتھ کسی چیز کے پیچھے پڑ جائے گا، تو اس کے اندر کیریئر ہر ایک کے اندر موجود ہے۔ جن پروفیشنز کو میں سمجھتا ہوں نا کہ ان کا کوئی کیریئر نہیں ہے، ان کے اندر بھی ہے، آپ اپنے اردگرد دیکھ لیجیے۔
فخر الاسلام: ڈاکٹر صاحب، کیریئر اور ایجوکیشن، یہ دو الگ الگ ہیں۔ اچھا، ہم پہلے اس کی بات کر لیتے ہیں کہ ہمارا الٹیمیٹ گول۔ یہ تو آپ نے بڑی خوبصورت باتیں کی ہیں نا کہ اس کے اندر سے آپ کے اندر سوسائٹی کے لیے گڈ کی ایک صلاحیت پیدا ہوتی ہے اور آپ کے اندر ایک سوِک سینس ڈویلپ ہوتی ہے اور آپ کے اندر ایک شعور آتا ہے، بڑی خوبصورت بات ہے۔ لیکن والدین یہ سمجھتے ہیں کہ ہم جو انویسٹمنٹ کر رہے ہیں جو ہم نے اتنا پیسہ لگایا، چونکہ اب جتنا پرائیویٹ سیکٹر میں آ گئی ہیں چیزیں، تو آپ ملینز آف روپیز لگاتے ہیں خاص سٹیج تک، اور اس کے بعد آپ کے ہاتھ میں ڈگری کا ایک وہ کاغذ آتا ہے، تو اس سے کس طرح ہم یہ ایکسپیکٹ کریں کہ اس سے اگر اس کو بہت زیادہ پیسے نہیں بھی ملیں گے تو کوئی بات نہیں خیر ہے، اس نے ایجوکیشن تو حاصل کر لی ہے اس کے لیے۔
ڈاکٹر ناصر محمود: یہ بات ابھی آپ نے بھی کہی کہ آپ نے جو سوچ کے کسی سبجیکٹ کو پڑھا تھا، یہ ضروری نہیں کہ اس کے اینڈ پہ آپ کو تمام لوگ جو اس کو پڑھ رہے تھے، ایک ہی جیسے پیسے مل جائیں، ایک ہی جیسی نوکریاں مل جائیں، یہ تو میں انشور نہیں کر پاتا۔ مجھے بہت انویسٹمنٹ کرنی چاہیے بچوں کی پڑھائی پے۔ ہر آدمی اپنی سکت سے بڑھ کے کرتا ہے۔ الٹیمیٹ جو میں اس سے چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ یہ اچھا انسان بن جائے۔ اچھے انسان سے مراد نہیں ہے کہ صبح اٹھے، نمازیں پڑھے، لوگوں کے ساتھ فلاح کام کرے، یہ اس کا ایک پہلو ہے۔ اچھے سے مراد یہ ہے کہ اس کو اپنی زندگی کی، اپنے زندگی کے مقاصد کی سمجھ آ جائے۔ جو بھی اس کو سمجھ آنی ہے وہ اس کو سمجھ آ جائے۔ اور یہ زندگی کو ان چیزوں کے گرد بلڈ کرنے کی صلاحیت حاصل کر لے۔ اس کے بعد جو بھی کیریئر اس نے اپنانا ہو گا یہ اس کے گرد اپنے آپ کو بلڈ کر لے گا۔ اور میں آپ کو پوری گارنٹی سے کہتا ہوں کہ آپ اپنی لائف میں دیکھیے، میری میں دیکھیے۔ جن لوگوں کو میں زندگی میں سمجھتا تھا کہ وہ تو کچھ بھی نہیں کر سکے، ان میں بہت ساروں کی زندگیاں اس سے بہت اچھی ہیں جیسے میں سوچتا تھا۔ اور جن کے بارے میں مجھے لگتا تھا کہ انہوں نے جھنڈے گاڑ دیے ہیں، ان کا تو مسئلہ ہی نہیں ہے آگے کیریئر میں کچھ بھی، ان میں سے بھی بے شمار ملتے ہیں جو نہیں پرفارم کر سکے کیریئر میں آکے۔
سو میرا یہ انتظام اور یہ فکر کہ میں ہی کچھ طے کروں گا تو ان کا کیریئر بنے گا، اس سے مجھے اپنے آپ کو آزاد کرنا ہے۔ میری ذمہ داری جو ہے نا ایز اے پیرنٹ، اتنی بہت ہے کہ میں اس کو ایک با شعور، سمجھدار انسان بنا دوں اپنی تعلیم کے بعد۔ وہ بن جائے گا نا تو کیریئر اس کا بن جائے گا۔ ہاں کیریئر کونسلنگ کی اہمیت اس سے ختم نہیں ہوتی۔ کیریئر کونسلنگ کی اہمیت یہ ہے کہ میں نے جب اس کو یہ تمام صلاحیتیں دے دیں تو اب اس کا سکوپ یا پوسیبیلٹی بڑھانے کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ میں اس کو وقت کے ساتھ ساتھ سمجھاتا جاؤں کہ یار جو تمہارے اندر سکلز ہیں نا میرے نزدیک تم یہ اچھا بن سکتے ہو۔
مجھے اس کی بات یاد آئی وہ جو لڑکا ہمارا نیزہ بازی میں، ارشد ندیم، آپ نے اس کا انٹرویو سنا ہو گا، وہ کہتا ہے مجھے تو کرکٹ کھیلنے کا شوق تھا اور میرا جسم بھی کیونکہ بڑا مضبوط تھا اور قد بھی اونچا تھا تو میں تو بالنگ کرتا تھا، اور بڑے دن کرتا رہا کرتا رہا کسی کے کہنے پہ، مجھے نہیں سمجھ آ پائی۔ اچھا، میں اس میں ایکسل نہیں کر سکا۔ پھر مجھے ایک دوست نے یا انہوں نے بتایا جو بعد میں اس کے کوچ بھی رہے، انہوں نے مجھے بتایا کہ یار تم جس طرح کی بلڈ میں ہو تم اس گیم میں آؤ۔ اس میں تمہیں ایک تھرو کرنی ہے اور تمہارا نام ہے۔ ادھر تم ٹیم کے گیارہ لوگوں میں جگہ بنانے کی کوشش کر رہے ہو اور تمہاری جگہ نہیں بن پائے گی۔ ادھر تم کرو اور تمہاری فزیک، تمہارا لائف سٹائل، تمہاری ایفرٹ تمہیں یہاں زیادہ پے آف کرے گی۔ یہ رہنمائی تھی۔ اس کے کہنے سے تو پے آف نہیں ہونا تھا نا۔ محنت تو پھر اسی کو ہی کرنی تھی۔ لیکن یہ آڈینٹیفائی کر کے کسی شخص کو یہ گائیڈ کر دینا کہ تمہارے اندر جو میں چیزیں دیکھتا ہوں وہ تمہیں فلاں طرح کے کیریئر میں مدد دیں گی، ادھر چلے جاؤ۔ تو یہ رہنمائی ہے جو ہمیں اداروں میں دینی ہے۔ ابھی انڈیویجول اپنے تئیں دیتے ہیں نا۔ یہ انتظام اداروں کو کرنا چاہیے کہ وہ ہر آدمی کو اس کے پوٹینشل کے مطابق، اس کے انٹرسٹ کے مطابق بیسٹ پوسیبیلٹیز میں رہنمائی کر سکتا ہوں۔
فخر الاسلام: ڈاکٹر صاحب، یہ تھرڈ ورلڈ کنٹری کے جو اپنے شیکلز ہیں، فرسٹ ورلڈ کنٹریز اس چیز کو کیسے دیکھتے ہیں، کیریئر کے ڈسیژن کو؟ وہ اپنے بچوں کا کیریئر کس طرح سے ڈیسائیڈ کرتے ہیں، یا ان کے بچے کس طرح سے کرتے ہیں؟
ڈاکٹر ناصر محمود: جس طرح سے بھی کرتے ہیں، جو فرسٹ ورلڈ کنٹریز ہیں، امریکہ لے لیجیے، ساری کام کی ٹیکنیکل فورس دوسرے ملکوں سے آئی ہوئی ہے۔ مجھے کوئی امریکیوں کی، جو بائی برتھ امریکنز ہیں، وہاں کے رہنے والے ہیں، ان کی تعداد بتائیے کتنی ہے جو آئی ٹی میں بہت ایکسل کرتی ہے۔ ان کی آئی ٹی فرمز ساری کی ساری یا پاکستانیوں سے یا انڈینز سے یا اس طرح کے علاقوں کے لوگوں سے بھری ہوئی ہیں۔ اچھا سپورٹس کو لے لیجیے، کتنے لوگ اوریجنلی امریکن نیشنلز تھے جنہوں نے امریکہ کے لیے ٹائٹلز جیتے؟ کوئی کسی ملک سے آکر وہاں سیٹل ہوا تھا، کوئی کسی ملک سے، لیکن وہاں انہوں نے انشور کیا کیا؟ انہوں نے اپورچونٹی ٹو لائف کو انشور کیا۔ فیئرنیس کو، کمپیٹیٹیونیس کو، لوگوں کے لیے راستے کھولنے کے طریقوں کو انشور کیا اس نے۔ اس کو کہتے بھی لینڈ آف اپورچونٹیز ہے۔ تو لینڈ آف اپورچونٹیز کیوں تھی؟ کہ آپ وہاں چلے جائیں، آپ کے اندر جو چیز ہے جو خواہش ہے نا، آپ کو کرنے کے لیے ہر طرف سے مدد ملے گی کرنے میں۔ سو یہ چیز اگر اپنے لوگوں کو یہاں میں دے دوں نا، تو یہ ہو جائے گی۔ سو یہ بات کہ وہ معاشرے اس کو کیسے کر لیتے ہیں۔ ہم ٹیلنٹ میں کم نہیں، نہ سوچ میں۔ بلکہ جتنا کنٹری ساؤتھ کی طرف ہے نا، آج کل کی زبان میں، تو جن کو زندگی گزارنے کے لیے بہت زیادہ محنت کی ضرورت پڑتی ہے، جن کو فار گرانٹڈ کچھ نہیں ملتا، ان کے لوگوں میں سکل زیادہ ہوتی ہے۔ میراتھان میں ہمیشہ افریقہ کا بندہ جیتتا ہے۔ کبھی امریکی نہیں جیتا آج تک۔
فخر الاسلام: ٹفنس زیادہ ہوتی ہے۔
ڈاکٹر ناصر محمود: ٹفنس زیادہ ہوتی ہے لائف میں۔ اس کو محنت مشقت زیادہ کرنی پڑتی ہے۔ یہ اپورچونٹی ہمارے پاس زیادہ ہے۔ وہاں پہ ہمارے ہی لوگ جاتے ہیں اور کیوں ایکسل کرتے ہیں؟ انوائرمنٹ، ماحول ملتا ہے، اپورچونٹی ملتی ہے۔ وہ ہمیں یہاں کریئیٹ کرنی چاہیے۔ باقی اَدروائز میرے نزدیک کوئی فرق نہیں ہے ان میں اور ہم میں۔
فخر الاسلام: ڈاکٹر صاحب، آپ کا تعلق چونکہ یونیورسٹی کے ساتھ ہے، ماشاء اللہ آپ ایک یونیورسٹی کے وائس چانسلر ہیں، ایک یونیورسٹی کے آپ ریکٹر ہیں، یونیورسٹیز میں بچے آتے ہیں اور جب وہ آ کے آپشنز دیکھتے ہیں اپنے پاس بی ایس کے دوران کہ ایک لمبی فہرست ہوتی ہے، اگر آپ سوشل سائنسز کی بات بھی کریں تو اس کے اندر بھی۔ ابھی میں کیونکہ ایک جگہ پڑھاتا بھی ہوں یونیورسٹی کے اندر تو میں نے بچوں سے پوچھا یار تم لوگ میڈیا میں پڑھ رہے ہو، کیونکہ آپ کا چھٹا سمسٹر ہے تو آپ نے ایک سال کے بعد پروفیشنل میڈیا میں چلے جانا ہے، تو میں چاہتا ہوں کہ آپ کو کچھ بیسک چیزیں بتاؤں تاکہ اس کو آپ کر سکیں۔ ایک بچہ کہتا ہے سر میں نے تو میڈیا میں نہیں جانا۔ تو میں نے کہا آپ ڈگری کیوں کر رہے ہیں؟ کہتا ہے وہ تو بس ایسے ہی کسی نے کہا تو میں ایڈمیشن لے لیا، میں نے تو کچھ اور کام کرنا ہے۔ ایسا بچہ جو تین سال پڑھ چکا ہے اور تقریباً پندرہ سال ایجوکیشن اس نے حاصل کر لی ہے اور ابھی وہ ایک سال کے بعد جب یہاں سے پاس آؤٹ ہو گا تو وہ یہ فیصلہ کرے گا کہ مجھے اس فیلڈ میں نہیں جانا مجھے تو کسی اور فیلڈ میں جانا تھا۔ تو آپ کو لگتا ہے کہ اس کا فیصلہ اُس کو سٹیج پہ کرنا چاہیے تھا جب وہ بی ایس کے اندر ایڈمیشن لے رہا تھا کہ میرا انٹرسٹ کیا ہے اور مجھے کس فیلڈ میں جانا چاہیے؟
ڈاکٹر ناصر محمود: بالکل کرنا چاہیے تھا، اور اگر وہ کسی کے کہنے پر یہاں آیا ہے تو وہ زندگی سے جو اپنی مرضی کی چیز کر کے حاصل کر سکتا تھا، وہ یہ کر کے حاصل نہیں کر سکے گا۔ اس بچے کا جو بھی تھا کیریئر۔ اور دوسرا یہ بھی بہت امکان ہے، آپ اس کو کوئی پانچ سال چھ سال فالو کریے، الٹیمیٹلی اس کی اسی فیلڈ میں آگے جانے کی پروبیبلٹی اس کو سمجھ آ جائے گی۔ فیلڈ چینج کرنے کی خواہش وہ رکھتا ہے لیکن جب وہ گریجویٹ ہو گا تو آپ دیکھیے گا کہ اِدھر اُدھر جا کے جب وہ دیکھے گا نا تو اس کو جو بیسٹ اپورچونٹی ملنی ہے وہ اسی میں مل پانی ہے جس پہ اس کی ٹریننگ ہوئی ہوئی ہے۔ ٹھیک ہے؟
ہاں، اگر اس فیلڈ میں آنے کا فیصلہ اس نے اپنی مرضی سے نہیں کیا تھا، جس وجہ سے وہ ابھی بھی خواہش رکھتا ہے کہ میں بس زبردستی ادھر آ گیا ہوا ہوں، تو یہ اس کے ساتھ زیادتی کی گئی تھی۔ آپ نے اس کا پوٹینشل جو تھا وہ ضائع کر دیا تھا۔ یونیورسٹیز کو لوگوں کی اپورچونٹیز کو بہتر بنانے کی جگہ ہونا چاہیے، لوگوں کو فورس کرنے کی جگہ نہیں ہونا چاہیے۔ جو جس فیلڈ میں آ گیا آپ اس کی سکسیس کو اس فیلڈ میں انشور کریں۔
فخر الاسلام: یہ بھی ہوتا ہے کہ بچے، یہ بھی ہوتا ہے کہ میرا اُس میں میرٹ نہیں آیا، یہاں میرٹ آیا تو میں نے یہاں پہ ایڈمیشن لے لیا۔ اس بات کو آپ کیسے دیکھتے ہیں؟
ڈاکٹر ناصر محمود: بالکل پریکٹیکل سی مجبوری ہے جی کہ وہ ایک جگہ کچھ پڑھنا چاہ رہا تھا تو وہاں نہیں ہوا تو یہاں اس نے داخلہ لے لیا۔ اِس کا تو اب ویسے آنے والے دنوں میں حل میرے نزدیک نکل چکا ہے۔ اب وہ جو بالکل ایک سٹرنجنٹ سا ہوتا تھا نا کہ چار یونیورسٹیاں ہیں: پہلی یہ ہے، دوسری یہ ہے، تیسری یہ ہے، میرٹ آئے گا تو ادھر ہو جائے گا، یا اُدھر۔ اب وہ چکر نہیں رہا۔ اب تو یونیورسٹیاں اتنی زیادہ ہو گئی ہوئی ہیں کہ ہر آدمی اگر چاہتا ہے نا کہ میں اپنی ہی فیلڈ میں رہ کے پڑھوں تو اس کے پاس کہیں نہ کہیں اپورچونٹی اس کی موجود ہو گی، یا آنے والے دنوں میں ہو جائے گی۔ یہ جو ایک یونیورسٹیز کا ایلیٹزم ہمارے اندر تھا نا کہ یہ فلانی ہے جی اکیڈمیکلی نمبر ون ہے، وہ والا آہستہ آہستہ ٹرینڈ بدلنا شروع ہو جائے گا۔ لیکن پھر بھی اگر کسی بچے نے اس فیلڈ میں داخلہ لیا جو اس کی چوائس کا نہیں تھا مجبوراً لینا پڑ گیا اس کے اندر جانے کے لیے، اگر وہ اس کو پسند نہیں آتا تو جونہی اس کو موقع ملے وہ کیریئر میں پہنچ کے اس کو بدل لینا اس کو چینج کر لینا چاہیے۔ اس کو میرے نزدیک ادھر ہی کام کرنا چاہیے جس کو کرنے میں اس کا دل راضی ہوتا ہے۔
فخر الاسلام: ڈاکٹر صاحب، بہت شکریہ آپ کا۔ آپ تشریف لائے، وقت دیا۔ میں سمجھتا ہوں ڈاکٹر صاحب، یہ وہ ٹاپک ہے کہ جس کے اوپر ہمیں مسلسل بات کرنے کی ضرورت ہے۔ آپ نے بہت ہی اہم اور بڑی انٹرسٹنگ بات بتائی ہے کہ والدین کو بچوں کو فریڈم آف چوائس دینی چاہیے، شروع میں دینی چاہیے، آغاز میں دینی چاہیے، اس کو بلڈ اپ کرنا چاہیے، تاکہ کسی ایک سٹیج پہ آکے جب بچے اپنے کیریئر کو ڈیسائیڈ کرنے لگیں تو انہیں اس بات کا فیصلہ کرنے کے اندر بھی اعتماد ہو، اور اس بات کا بھی اعتماد ہو کہ جو ہم فیصلہ کریں گے، کچھ بھی ہو گا تو ہمارے والدین ہمارے ساتھ ہوں گے۔ تو یہ والی بات اگر ہمارے بچوں میں آ جائے اور یہ کانفیڈنس ان کے اندر موجود ہو تو مجھے لگتا ہے کہ ان شاء اللہ تعالیٰ ہمارے ہاں ایک بہت سٹرانگ قسم کا ہیومن ریسورس ہمارا ڈویلپ ہو گا، ان شاء اللہ تعالیٰ۔ اور اللہ کا شکر ہے ابھی بھی ہمیں اپنے اس یوتھ پر ہمارے نوجوان پر بڑا اعتماد ہے، تو یہ اور ایک مضبوط یوتھ کے طور پر سامنے آئے گی۔ ڈاکٹر صاحب، آپ کا بہت شکریہ۔ آپ تشریف لائے۔
ڈاکٹر ناصر محمود، آپ کا بہت شکریہ جناب۔
فخر الاسلام: ناظرین ہمارے ساتھ موجود تھے آج پروفیسر ڈاکٹر ناصر محمود صاحب۔ بڑی خوبصورت بات یہ ہے کہ ہم سب جو بھی والدین ہیں یا جو ٹو بی پیرنٹس ہیں ان کے لیے میری گزارش یہ ہے کہ اپنے بچوں کے اندر یہ صلاحیت پیدا کریں کہ وہ اپنا انتخاب کر سکیں اور اس انتخاب پر وہ اعتماد کر سکیں۔ اسی طرح سے جب وہ کیریئر کے کسی سٹیج پر آکے، بھلے وہ ایٹ گریڈ کے بعد ہو، وہ ہائر سیکنڈری سکول کے بعد ہو، یا کسی یونیورسٹی کے اندر ایڈمیشن لیتے وقت ہو، جب وہ اپنے لیے کسی سبجیکٹ کا کسی ڈسپلن کا فیصلہ کریں گے تو یقیناً یہ فیصلہ ان کا ایک بڑا پُراعتماد فیصلہ ہو گا اور ان شاء اللہ وہ جب اپنے اس کیریئر میں آئیں گے تو بہت ایکسل کریں گے۔ اس امید کے ساتھ کہ ہمارا آج کا پروگرام بھی آپ کے لیے فائدہ مند ثابت ہو گا، اجازت دیجیے، اللہ حافظ۔
