شرم الشیخ میں غزہ کی جنگ بندی کے معاہدے پر دستخط ہو گئے اور بے اختیار بقول شاعر:
؏ دل خوش تو ہو گیا مگر آنسو نکل پڑے
اول تو ان ستر ہزار شہداء کو یاد کر کے جنہوں نے اپنی موت کو گلے لگا کر فلسطین کو زندہ رکھا۔
دوسرے یہ یاد کر کے کہ اس امن کا سہرا لاکھوں جانوں کے نقصان کے بعد اس کے سر بندھ رہا ہے جس نے قدس میں سفارت خانہ قائم کر کے اسے اسرائیل کا مرکز قرار دیا تھا اور دو سال تک غزہ کے قتلِ عام میں برابر کا شریک رہ کر جنگ بندی کی ہر قرارداد کو ویٹو کرتا رہا۔
تیسرے اس لئے کہ غزہ میں فی الحال الحمد للہ امن قائم ہو گیا مگر ہم اپنے گھر میں امن قائم نہ کر سکے۔ فلسطین کا جو مسئلہ حل ہونے لگا تھا اس کے بارے میں ایسے احتجاج اور توڑ پھوڑ کا کیا موقع تھا؟ اور اگر کچھ لوگوں کو اس پر اصرار بھی تھا تو آخر وہ پاکستانی مسلمان تھے، کیا حکومت کے لئے یہ ایسا مسئلہ تھا کہ اس پر قابو پانے کے لئے گولیاں چلا کر کئی خاندانوں کو اجاڑنا ضروری ہو؟
چوتھے اس لئے کہ عین اس موقع پر جب بھارت پاکستان سے کھلی دشمنی پر آمادہ ہے اور پاکستان کے باغیوں کی حمایت کر رہا ہے اور اس سے مار بھی کھا چکا ہے، ہمارے ایک پڑوسی بھائی نے قیامِ امن کے لئے پاکستان سے بات کرنے کے بجائے بھارت سے پینگیں بڑھانی شروع کر دیں اور پھر دو مسلمان پڑوسیوں میں جنگ شروع ہو گئی جو امتِ اسلامیہ کے کسی بھی دردمند کے لئے تشویشناک خبر ہے:
؏ کسے گواہ کریں کس سے منصفی چاہیں
