(جامعہ اسلامیہ محمدیہ فیصل آباد میں ہونے والی ایک گفتگو کا خلاصہ)
مسئلہ کشمیر کیا ہے، اس کا پس منظر کیا ہے، اور اس کا ممکنہ حل کیا ہو سکتا ہے، ہماری نئی پود کی اکثریت اس کے بارے میں کچھ نہیں جانتی اور مسئلہ کشمیر کے ساتھ اس کی وابستگی محض جذباتی ہے۔ میں آپ کے سامنے آج مسئلہ کشمیر کا مقدمہ پیش کرنا چاہتا ہوں تاکہ ہم یہ دیکھ سکیں کہ موجودہ صورتحال کیا ہے اور اس حوالے سے ہماری ذمہ داری کیا بنتی ہے۔
بین الاقوامی دستاویزات کے مطابق کشمیر ایک متنازعہ خطہ ہے۔ اس خطے کا حدود اربعہ کچھ اس طرح ہے کہ اس میں: جموں کی ریاست ہے۔ وادئ کشمیر ہے۔ گلگت، بلتستان اور سکردو وغیرہ ہیں جنہیں ہم شمالی علاقہ جات کہتے ہیں۔ اور چین کی سرحد پر لداخ کا علاقہ ہے۔ یہ پورا خطہ کشمیر کہلاتا ہے۔
کشمیر پر پاکستان اور بھارت کے درمیان تنازعہ کا آغاز ۱۹۴۷ء میں ہوا تھا۔ اس سے پہلے پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش وغیرہ پر مشتمل یہ سارا خطہ متحدہ ہندوستان کہلاتا تھا اور یہاں انگریزوں کی حکومت تھی۔ انگریزوں نے ایک سو نوے سال پہلے ۱۷۵۷ء میں مغلوں سے حکومت چھیننا شروع کی تھی اور ۱۸۵۷ء تک قبضہ مکمل کر لیا تھا۔ اس کے بعد نوے سال تک تاجِ برطانیہ نے یہاں براہ راست حکومت کی ہے۔ جب انگریز ہندوستان سے رخصت ہونے لگے تو مسلمانوں کی ایک بڑی اکثریت نے یہ کہہ کر الگ ملک کا مطالبہ کیا کہ ہم تہذیبی اور ثقافتی طور پر ہندوؤں کے ساتھ مل کر نہیں رہ سکتے۔ اس پر تحریکِ پاکستان چلی اور بالآخر یہ ملک دو حصوں میں تقسیم ہو گیا۔
اس تقسیم میں ایک اصول یہ طے ہوا تھا کہ جن علاقوں میں مسلم اکثریت ہے وہ پاکستان میں شامل ہوں گے اور جن علاقوں میں غیر مسلم اکثریت ہے وہ ہندوستان میں رہیں گے۔ موجودہ بنگلہ دیش چونکہ مسلم اکثریت کا علاقہ تھا تو اس تقسیم میں وہ مشرقی پاکستان کے نام سے پاکستان کا حصہ بنا تھا اور ۱۹۷۱ء تک اس کی یہ حیثیت رہی۔ اسی طرح سندھ، بلوچستان، سرحد (خیبرپختونخوا)، اور مغربی پنجاب مسلم اکثریت کے علاقے ہونے کی وجہ سے پاکستان میں شامل ہوئے۔ پنجاب کا معاملہ یہ تھا کہ مغربی پنجاب تو مسلم اکثریت کا صوبہ تھا جبکہ مشرقی پنجاب میں ہندو سکھ سب ملے جلے تھے، چنانچہ پنجاب کی تقسیم کا فیصلہ ہوا۔ مغربی پنجاب جس میں لاہور، سیالکوٹ، نارووال، شکرگڑھ وغیرہ ہیں، یہ پاکستان کے حصے میں آئے۔ اور مشرقی پنجاب جس میں امرتسر، لدھیانہ اور ہریانہ وغیرہ ہیں، یہ بھارت کے حصے میں آئے۔
متحدہ ہندوستان میں سینکڑوں چھوٹی بڑی ریاستیں تھیں۔ ایسی ریاستیں بھی تھیں جن پر انگریزوں کی براہ راست حکومت تھی، اور ایسی ریاستیں بھی تھیں جو نیم خودمختار ریاستیں کہلاتی تھیں جن کے ساتھ انگریزوں کے معاہدے تھے۔ ان معاہدوں کی عمومی نوعیت یہ تھی کہ داخلی خودمختاری ریاست کے نواب یا مہاراجہ کی، جبکہ وفاقی اختیارات مثلاً کرنسی، خارجہ پالیسی، مواصلات، دفاع وغیرہ انگریز حکومت کے ذمے تھا۔ پاکستان میں جو چند ریاستیں شامل ہوئیں ان میں بہاولپور، سوات، قلات، خیرپور، چترال اور دیر وغیرہ شامل ہیں، جن میں انگریزوں کے زمانے میں بھی شرعی عدالتی نظام نافذ تھا جیسے سوات، بہاولپور، اور دیر کی ریاستیں وہ ہیں جن میں قضاء کا نظام رائج تھا۔ متحدہ ہندوستان کی تقسیم کے وقت یہ طے ہوا کہ ان ریاستوں کے سربراہ پاکستان یا بھارت میں سے جس کے ساتھ الحاق کرنا چاہیں کر لیں۔ پاکستان کے ساتھ جن علاقوں کا الحاق ہوا وہ اسی اصول کے تحت ہوا۔
کشمیر کا معاملہ کچھ مختلف تھا جہاں اکثریت تو مسلمانوں کی تھی لیکن حکومت ڈوگرا ہندو خاندان کی تھی۔ کشمیر کا پورا خطہ جو اَب مختلف حصوں میں تقسیم ہے، اس پر ڈوگرا خاندان کی حکومت تھی، تو مہاراجہ ہری سنگھ نے تقسیمِ ہند کے وقت کشمیر کی مسلم اکثریت کے رجحانات کے برعکس بھارت کے ساتھ الحاق کا اعلان کر دیا اور بھارتی فوج نے کشمیر میں داخل ہو کر قبضہ جما لیا۔ اس پر کشمیر کے مسلمانوں نے حکومت کے خلاف بغاوت کا اعلان کر دیا۔ ڈوگرا حکمران پہلے بھی بہت ظلم کرتے آ رہے تھے جس کی لمبی داستان ہے، لیکن ڈوگرا مہاراجہ کے بھارت کے ساتھ الحاق نے مسلمانوں میں بغاوت پیدا کر دی جس سے تحریکِ آزادی کا نیا سلسلہ شروع ہوا۔ سب سے پہلے گلگت والوں نے لڑائی کا آغاز کیا جس میں علماء اور عوام سب شریک ہوئے۔ اسی طرح وادئ کشمیر کے علاقوں میں بھی علماء نے جہاد کے فتوے پر جدوجہدِ آزادی کا آغاز کیا، یہاں بھی علماء کرام اور قومی سرداروں نے مل کر جہاد میں حصہ لیا۔ اس کے علاوہ قبائلی علاقوں کے مجاہدین اور پاکستان فوج نے بھی اس لڑائی میں حصہ لیا اور اس کے نتیجے میں مجاہدینِ آزادی سری نگر کے دروازے تک جا پہنچے۔ موجودہ آزاد علاقے میرپور، مظفر آباد، راولاکوٹ وغیرہ، یہ سب ڈوگرا حکومت کے خلاف اسی بغاوت کے دوران آزاد ہوئے تھے۔
سری نگر جب فتح ہونے کے قریب تھا تھا ہندوستان کے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو جنگ بندی کے لیے اقوامِ متحدہ جا پہنچے اور یہ وعدہ کیا کہ اقوام متحدہ جو فیصلہ کرے گی ہم اسے منظور کریں گے۔ چنانچہ اقوامِ متحدہ نے پاکستان پر دباؤ ڈال کر جنگ بند کر وا دی اور اپنی قراردادوں کے ذریعے یہ وعدہ کیا کہ کشمیر کا فیصلہ کشمیر کے عوام استصوابِ رائے کے ذریعے کریں گے۔ اس سلسلہ میں مختلف وقتوں میں اقوامِ متحدہ کی قراردادیں سامنے آتی رہی ہیں لیکن پون صدی گزرنے کے باوجود یہ رائے شماری آج تک نہیں ہو سکی جس کی بڑی وجہ بین الاقوامی سطح پر بھارت کا اثر و رسوخ اور دباؤ ہے۔
مسئلہ کشمیر کے حوالے سے ایک بات یہ کہی جاتی ہے کہ اِس دور میں آپ مذہبی بنیادوں پر خطے کی تقسیم کی بات کیسے کر رہے ہیں۔ اس پر میری گزارش ہوتی ہے کہ اسرائیل کی تقسیم کس بنیاد پر ہوئی ہے اور کس نے کی ہے؟ اقوام متحدہ نے ہی کی ہے نا۔ اسی طرح انڈونیشیا کے جزیرے تیمور کے مشرقی خطے کو الگ عیسائی ریاست کس نے بنوایا ہے؟ اور پھر جنوبی سوڈان میں عیسائی اکثریت کے علاقے کو الگ ریاست کا درجہ کس نے دیا ہے؟ یہاں کشمیر میں آپ کہتے ہیں کہ مذہب کی بنیاد پر کیسے تقسیم ہو گی، جبکہ پاکستان تو بنا ہی مذہب کی بنیاد پر ہے۔
مسئلہ کشمیر کے متعلق اقوامِ متحدہ کا کردار تو ہمارے سامنے ہے لیکن مسلمان حکومتوں کی مشترکہ تنظیم او آئی سی (اسلامی تعاون تنظیم) نے بھی اب تک کوئی کردار ادا نہیں کیا اور فلسطین، کشمیر، اراکان، سنکیانگ وغیرہ خطوں میں بھی مسلمانوں پر ظلم اور جبر رکوانے میں او آئی سی کا کردار نہ ہونے کے برابر ہے۔
یہ کشمیر کا مقدمہ ہے جو مختصراً میں نے آپ کے سامنے رکھ دیا ہے۔ اس سلسلہ میں پہلی گزارش تو میں اپنی ریاست سے کرنا چاہوں گا کہ اس مقدمہ میں پاکستان کا کردار محض ایک حمایتی کا نہیں ہے بلکہ اقوامِ متحدہ میں بھارت کے مقابلے میں پاکستان ایک فریق ہے اور ہمیں اسی کردار کا تسلسل قائم رکھنا ہے۔ دوسری گزارش آزاد کشمیر کے علماء کرام اور وہاں کی حکومت سے کرنا چاہوں گا کہ کشمیر کے جو خطے اس وقت آزادکشمیر میں شامل ہیں وہ جہاد کے فتوے اور جہاد کے عمل کے نتیجے میں آزاد ہوئے ہیں۔ تو میرا سوال جہاد کے اس فتویٰ کے متعلق ہے کہ اس وقت اس کی کیا حیثیت ہے؟ اگر وہ قائم ہے تو اس کو آگے بڑھانے کی ذمہ داری کس کی ہے؟ میں آزادکشمیر کی حکومت اور وہاں کے علماء کرام سے یہ گزارش کروں گا کہ وہ اس حوالے سے اصولی موقف اور لائحہ عمل طے کریں، اور سلسلہ میں پاکستان کے حکومتی اداروں کو بھی اعتماد میں لیں اور انہیں نظر انداز نہ کریں۔
( تفصیلی خطاب: https://zahidrashdi.org/5736)

