اسلام کا خاندانی نظام اور عصر حاضر (2)
خطبہ نمبر 3: مؤرخہ 19 اکتوبر 2016ء
حضرات علمائے کرام! محترم بزرگو، دوستو اور ساتھیو!
گزشتہ نشست میں اس موضوع پر گفتگو کا آغاز کیا تھا اور یہ عرض کیا تھا کہ تین مرحلوں میں بات ہوگی:
- پہلے مرحلے میں یہ کہ نبی اکرم ﷺ نے جاہلیت کے خاندانی نظام میں کیا کیا تبدیلیاں کیں تھیں۔ فیملی سسٹم (خاندان) تو زمانہ جاہلیت میں بھی تھا، بلکہ حضرت آدم علیہ السلام سے چلا آ رہا ہے اور ہر ملک میں ہے، ہر قوم میں ہے۔ جناب خاتم النبیین ﷺ نے جاہلیت کے نظام میں کیا تبدیلیاں کی تھیں۔
- پھر دوسرے مرحلے میں یہ عرض کروں گا کہ آج کا عالمی نظام ہم سے ہمارے ’’خاندانی نظام‘‘ کے بارے میں کن تبدیلیوں کا تقاضا کر رہا ہے۔
- تیسرے مرحلے میں اس پر گفتگو ہوگی (ان شاء اللہ العزیز) کہ ہمارا مؤقف کیا ہے اور ہم کہاں کھڑے ہیں۔
جاہلیت کے نظام میں جناب خاتم النبیین ﷺ نے جو تبدیلیاں کیں ان میں سے دو تین کا ذکر میں نے گزشتہ نشست میں عرض کیا تھا کہ جاہلیت کے زمانے میں نکاح کی اور مرد و عورت کے جنسی تعلق کی کتنی صورتیں تھیں۔ نکاح کے نام پر یا کسی بھی عنوان سے، نبی اکرم ﷺ نے ان دو صورتوں کے سوا باقی سب کی ممانعت فرمائی۔ پانچ، چھ صورتیں میں نے عرض کی تھیں۔ یہ زنا کی مختلف صورتیں تھیں، جن پر رواج کا ٹائٹل چڑھایا ہوا تھا۔ جتنی بھی نکاح کی صورتیں جاہلیت کے زمانے میں مروّج تھیں، جن کو زمانہ با امرِ مجبوری قبول کر رہا تھا، یا جن کا معاشرے میں وجود تھا، نبی اکرم ﷺ نے ان سب کی نفی فرما دی۔ صرف دو صورتیں باقی رکھیں:
الا علیٰ ازواجھم او ما ملکت ایمانھم فانھم غیر ملومین (سورۃ المؤمنون: 23، آیت: 6)
(سوائے اپنی بیویوں کے اور ان کنیزوں کے جو ان کی ملکیت میں آچکی ہوں۔)
اس کے بعد فرمایا:
فمن ابتغیٰ ورآء ذٰلک فاولئک ھم العٰدون (سورۃ المؤمنون: 23، آیت: 7)
(ہاں جو اس کے علاوہ کوئی اور طریقہ اختیار کرنا چاہیں تو ایسے لوگ حد سے گزرے ہوئے ہیں۔)
اس کے سوا جتنی صورتیں بھی جنسی تعلق کی یا شہوت پوری کرنے کی ہیں سب حرام ہیں۔ یہ دو: ’’الا علیٰ ازواجھم او ماملکت ایمانھم‘‘ یہ تو نکاح کی صورت ہے۔ ابھی میں بات کر رہا ہوں کہ نبی اکرم ﷺ نے جاہلیت کے نکاح کے طریقوں میں سے سارے رائج طریقے ختم کر دیے۔ صرف دو باقی رہنے دیے تھے جن کو جائز تسلیم کیا گیا، جن کو حضور ﷺ نے قبول کیا۔
تیسری تبدیلی یہ تھی کہ جاہلیت کے زمانے میں زنا کی بنیاد پر بھی نسب تسلیم ہوتا تھا۔ اگر مرد عورت اقرار کرتے تھے کہ ہمارا تعلق ہے تو بچے کا نسب ثابت ہو جاتا تھا۔ میں نے گزارش کی کہ جاہلیت کے زمانے میں نسب کے ثبوت کے بہت سے طریقے تھے۔ جناب خاتم النبیین ﷺ نے سب کی نفی فرما دی۔ فرمایا:
الولد للفراش، وللعاہر الحجر (صحیح بخاری، باب تفسیر المشبھات، حدیث نمبر: 2053)
(بچہ بیوی والے کے لیے ہے اور زانی کے لیے سنگساری ہے۔)
زانی کے لیے بچے کا نسب تسلیم نہیں ہوگا۔ بلکہ اس کو سنگسار کیا جائے گا۔
پانچویں اصلاح، جاہلیت کی رسم تبنّی اور تاَخی کی نفی
نسب کی بات ہوئی ہے تو جاہلیت کے زمانے میں ’’تبنّی، ’’تأخی‘‘ یہ جائز ذرائع تھے بیٹا بنانے کے، بھائی بنانے کے۔ کسی نے کسی کو بیٹا کہہ دیا وہ بیٹا ہو گیا۔ بھائی کہہ دیا وہ بھائی ہو گیا۔ یہ منہ بولا بیٹا، منہ بولا بھائی۔ ’’ظہار‘‘ بھی اسی قسم کی چیز ہے کہ بیوی کو ماں سے تشبیہ دے دی تو وہ حرام ہو گئی ہے۔ وہ اپنے مقام پر الگ مسئلہ عرض کروں گا۔ تبنی اور تأخی یعنی کسی کو بھائی بنا لیا، کسی کو بیٹا بنا لیا، کسی کو باپ بنا لیا، کسی کو بہن بنا لیا۔ یہ جاہلیت کے زمانے میں چلتا تھا۔ اسلام نے نفی فرما دی اور نفی بھی کہاں سے کی؟ خود جناب خاتم النبیین ﷺ کی ذات گرامی سے۔ رسول اللہ ﷺ نے پرانے رواج کے مطابق اپنے آزاد کردہ غلام زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کو بیٹا بنا لیا تھا۔ خود حضور ﷺ ابوزید کہلاتے تھے۔ زید ابن حارثہ، زید ابن محمد کہلاتے تھے۔
قرآن پاک میں صرف حضرت زید رضی اللہ عنہ کا نام ہے اور کسی صحابی کا نام نہیں ہے لیکن رب العزت نے ایسے مقام پر جا کے نفی کی کہ پھر کوئی گنجائش نہیں رہ گئی۔ خاتم النبیین ﷺ نے تو بیٹا بنا لیا تھا، زید بیٹا بن گئے تھے، کنیت تبدیل ہو گئی تھی، سب کچھ ہو گیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا نہیں:
ادعوہم لاٰبآئہم ھو اقسط عند اللہ (سورۃ الاحزاب: 33، آیت: 5)
((تم ان منہ بولے بیٹوں) کو ان کے اپنے باپوں کے نام سے پکارا کرو۔)
بیٹا اپنے باپ کا ہی ہوتا ہے، منہ کے کہنے سے نہ کوئی بیٹا بنتا ہے نہ کوئی بھائی بنتا ہے۔ آج کل یہ ہمارے ہاں عام طور پر چلتا ہے، دو جگہوں پر ہم عموماً مغالطہ کھاتے ہیں:
یہ لاولد (بے اولاد) جوڑے جو ہیں کسی بچے کو لے کر بیٹا بیٹی بنا لیتے ہیں اور اپنا نسب لکھوا دیتے ہیں، جو شرعاً درست نہیں ہے۔ بچہ لے کے پال لیا، بچہ پالنے میں کوئی حرج نہیں ہے، نسب تبدیل کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ حضور ﷺ کو اجازت نہیں ملی۔ زید بن محمد رضی اللہ عنہ نہیں بن سکے تو اور کوئی بھلا کیا بنے گا؟ ایک یہاں ہم گڑبڑ کرتے ہیں کہ بچہ لے کر پالا تو اپنا بیٹا لکھوا لیا۔
ایک گڑبڑ اور جگہ کرتے ہیں کہ عمرے پر یا حج پر جانے کے لیے عورت کے ساتھ محرم کا ہونا ضروری ہوتا ہے۔ تو محرم اگر نہیں ہوتا تو وہ کسی اور کو محرم بنا لیتی ہیں۔ میرے پاس کئی کیس آئے ہیں کہ جی میں نے بھائی بنا لیا ہے، آپ تصدیق کر دیں۔ مولوی صاحب! خدا کی قسم میں نے بھائی بنا لیا ہے۔ میں نے کہا بہن، بھائی بنانے سے نہیں بنتے، یہ بنے بنائے آتے ہیں۔ تبنی، تأخی، میں آج کل یہ دو باتیں زیادہ چلتی ہیں۔
دورِ جاہلیت میں یہ بیٹا بنانا، بھائی بنانا چلتا تھا، وارث بھی ہوتے تھے۔ خاتم النبیین ﷺ نے بیٹا بنایا تھا، اللہ نے قبول نہیں کیا۔ ہجرت کے بعد مہاجرین و انصار میں خاتم النبیین ﷺ نے مواخات کرائی تھی۔ بھائی بھائی بن گئے تھے، کچھ عرصہ ایک دوسرے کے وارث بھی ہوتے تھے لیکن یہ پرانے رواج تھے۔ اسلام نے وراثت کے احکام بتا کر ان سب کی نفی کر دی۔ ایک تبدیلی یہ کی کہ منہ بولا بیٹا، منہ بولا باپ، منہ بولا بھائی یا معاہدے کے تحت بھائی۔ اسلام نے اس کو تسلیم نہیں کیا۔ یہ ایک تبدیلی کا ذکر ہے۔
چھٹی اصلاح، رضاعت کو سببِ حرمت قرار دیا
ایک تبدیلی یہ کی کہ رضاعت کو حرمت کے اسباب میں شمار کیا۔ رضاعت پہلے بھی ہوتی تھی لیکن قبائل کے الگ الگ ضابطے تھے، رضاعت کو قرآن پاک نے حرمت کے مستقل اسباب میں شمار کیا:
امہٰتکم الٰتی ارضعنکم واخوٰتکم من الرضاعۃ (سورۃ النساء: 4، آیت: 23)
(اور تمھاری مائیں جنھوں نے تمھیں دودھ پلایا ہے، اور تمھاری دودھ شریک بہنیں)
دودھ پینے کی مدت میں بچے نے کسی عورت کا دودھ پی لیا ہے تو وہ ماں بیٹا بن گئے ہیں۔
یحرم من الرضاعۃ ما یحرم من النسب (صحیح مسلم، باب تحریم ابنۃ الاخ من الرضاعۃ، حدیث نمبر: 3657)
(جو نسب سے حرمت ثابت ہوتی ہے وہ رضاعت سے بھی ثابت ہوتی ہے۔)
اس کی بڑی تفصیلات ہیں لیکن میں نے اُصولی بات عرض کی ہے کہ رضاعت کو حرمت کے اسباب میں، محرم غیر محرم کے اسباب میں ایک مستقل سبب قرار دیا اور جناب خاتم النبیین ﷺ نے خود بھی اس کی پابندی کی اور دوسروں سے بھی پابندی کروائی۔
آپ ﷺ کا دو موقعوں پر حرمتِ رضاعت پر عمل
بخاری شریف کی روایت ہے خاتم النبیین ﷺ کو پیشکش کی گئی کہ حضرت حمزہ سید الشہداء رضی اللہ عنہ کی بیٹی مکے سے آگئی تھی، جوان تھیں، کسی نے خاتم النبیین ﷺ کو پیشکش کی یارسول اللہ! یہ آپ کی چچا زاد ہے، حضرت حمزہؓ کی بیٹی ہے، جوان لڑکی ہے، اس کے لیے مناسب یہی ہے کہ آپؐ اس سے شادی کر لیں۔ حضور ﷺ نے فرمایا نہیں بھائی وہ تو میرے لیے جائز نہیں ہے۔ کیوں؟ حمزہؓ اور میں چچا بھتیجا بھی ہیں، ٹھیک ہے مگر حمزہؓ اور میں رضاعی بھائی بھی ہیں۔ ہم دونوں نے ثوبیہؓ کا دودھ پیا تھا تو اس رشتے سے یہ میری بھتیجی لگتی ہے، یہ میں نہیں کر سکتا، کرنا چاہوں بھی تو بھی نہیں کر سکتا۔ (صحیح بخاری، باب الشھادۃ علی الانساب والرضاع، حدیث نمبر: 2645)
یہی پیشکش حضرت زینب رضی اللہ عنہا کے بارے میں ہوئی جو ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی بیٹی تھیں، نکاح میں ساتھ آئی تھیں۔ وہ بھی، ان کے بیٹے حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی، دونوں بہن بھائی ساتھ آئے تھے۔ تو کسی نے پوچھ لیا خاتم النبیین ﷺ سے۔ زینبؓ حضور ﷺ کے گھر میں ربیبہ کے طور پر پلی ہے، بیٹی کے طور پر۔ بیوی کی بیٹی، بیٹی ہوتی ہے۔ تو کسی نے پوچھ لیا کہ کیا آپؐ زینبؓ سے نکاح کرنا چاہتے ہیں؟ فرمایا نہیں بھائی زینبؓ تو دو وجہ سے مجھ پر حرام ہے۔ ایک اس حوالے سے کہ وہ میری ربیبہ ہے۔
و ربآئبکم الٰتی فی حجورکم من نسآئکم الٰتی دخلتم بہن (سورۃ النساء: 4، آیت: 23)
(اور تمھاری زیر پرورش تمھاری سوتیلی بیٹیاں جو تمھاری ان بیویوں (کے پیٹ) سے ہوں جن کے ساتھ تم نے خلوت کی ہو۔)
وہ میری ربیبہ ہے۔ میری بیوی کی بیٹی ہے تو میری بھی بیٹی ہے۔ اور دوسرا اس کے باپ ابوسلمہ نے اور میں نے ثویبہ کا دودھ پیا ہوا ہے، ہم دونوں رضاعی بھائی بھی ہیں۔ یہ میری بھتیجی لگتی ہے، میری ربیبہ بھی ہے۔
[فقال: لو انہا لم تکن ربیبتی فی حجری ما حلت لی، انہا لابنۃ اخی من الرضاعۃ، صحیح بخاری، باب ویحرم من الرضاعۃ ما یحرم من النسب، حدیث نمبر: 5101]
ان دو وجہ سے مجھ پر حرام ہے۔ تو میں نے عرض یہ کیا کہ جناب خاتم النبیین ﷺ نے رضاعت کو حرمت کے اسباب میں مستقل سبب قرار دیا ہے۔ خود بھی اس پر پابندی کی اور دوسروں کو اس کا بھی حکم دیا۔
آج کل رضاعت کے بارے میں بے احتیاطی
یہاں یہ بھی عرض کرنا چاہوں گا کہ آج کل ہمارے ہاں اس مسئلے پر بھی بہت بے پرواہی برتی جاتی ہے۔ مسئلے کا علم نہیں ہوتا، نہ ہی ہم بیان کرتے ہیں۔ ہم زیادہ تر یہ مسائل عام لوگوں میں نہیں بیان کیا کرتے۔ تو لوگوں میں گھروں میں مائیں ایک دوسرے کے بچوں کو دودھ پلا دیتی ہیں اور وہ دودھ پی کر رشتہ تو قائم ہو جاتا ہے۔ لیکن حرمت، محرم غیر محرم، نکاح غیر نکاح وغیرہ اس طرح کے بعد میں بڑے لمبے مسئلے کھڑے ہو جاتے ہیں اور ہمارے ہاں کوئی پرواہ نہیں ہوتی۔
ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب پردے کے احکام آئے، تو ان کے رضاعی چچا تھے افلح رضی اللہ عنہا، یعنی جس عورت کا دودھ پیا تھا اس کے دیور تھے۔ جس عورت کا دودھ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے پیا ہوا تھا تو وہ ان کی ماں لگی، خاوند باپ لگا، اور خاوند کا بھائی کیا لگا؟ چچا لگا۔ تو اس رشتے سے وہ رضاعی چچا بنتے تھے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب پردے کے احکام آگئے کہ کوئی اجازت کے بغیر اندر نہیں آئے گا، تو ایک مرتبہ افلحؓ آئے تو میں نے باہر سے واپس کر دیا، آپ جائیں، اب پردہ ہے۔ اور خاتم النبیین ﷺ کو خبر دی، یارسول اللہ! افلحؓ آئے تھے میں نے انہیں واپس کر دیا۔ فرمایا: واپس کیوں کر دیا؟ یارسول اللہ! پردہ کا حکم تھا۔ فرمایا: تمھارا چچا ہے۔ یارسول اللہ! وہ کیسے چچا بن گیا؟ فرمایا: تمہارا رضاعی باپ اُن کا بھائی نہیں ہے؟ چچا ہے نا تمھارا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اس پر تعجب کیا اور کہا یا رسول اللہ! دودھ تو میں نے عورت کا پیا ہے، یہ تیسری جگہ کا چچا کیسے بن گیا؟ آپ ﷺ نے فرمایا، چچا ہے، وہ تمھارے پاس آسکتا ہے، اس کا تم سے پردہ نہیں ہے۔ تمھارے پاس آ سکتا ہے اس لیے کہ تمہارا چچا لگتا ہے۔ (صحیح بخاری، باب قولہ ان تبدوا شیئاً او تخفوہ، حدیث نمبر: 4796)
یہ دو تین باتیں اس لیے عرض کی ہیں کہ رضاعت کو جناب خاتم النبیین ﷺ نے حرمت کے مستقل اسباب میں شمار کیا ہے۔ اور اسلام کے خاندانی نظام میں آج بھی یہ شرعاً تو موجود ہے جب کہ عملاً ہمیں اس کی پرواہ نہیں ہے۔ یہ تبدیلی جناب خاتم النبیین ﷺ نے خاندانی نظام میں کی اور رضاعت کو باہمی حرمت کے اسباب میں شامل کیا۔
ساتویں اصلاح، محرّمات کا تعین
ایک اور تبدیلی کی جو بڑی بنیادی تبدیلی ہے کہ رشتوں کی حدود متعین کیں۔ کس سے نکاح جائز ہے کس سے نہیں۔ پوری فہرست دے دی:
حرمت علیکم امہٰتکم وبنٰتکم واخوٰتکم وعمٰتکم وخٰلٰتکم (سورۃ النساء: 4، آیت: 23)
(تم پر حرام کر دی گئی ہیں تمھاری مائیں، تمھاری بیٹیاں، تمھاری پھوپھیاں، تمھاری خالائیں۔)
یہ پوری فہرست ہے جس میں اللہ تعالیٰ فرما رہے ہیں کہ اس سے بھی نکاح حرام ہے، اس سے بھی حرام ہے۔ مائیں، بیٹیاں، پھوپھیاں، خالائیں، بھتیجیاں، بھانجیاں، یہ سارے رشتے گن کر فہرست دے دی کہ ان کا آپس میں نکاح کرنا جائز نہیں۔ میں تفصیل میں نہیں جانا چاہتا۔ لیکن اصولاً عرض کیا ہے کہ محرمات کی تفصیل بتا دی ہے کہ یہ رشتے آپس میں جائز ہیں اور یہ رشتے اسلام میں جائز نہیں ہیں۔
حتیٰ کہ جاہلیت کے زمانے میں یہ بھی ہوتا تھا (اس کا بھی قرآن پاک میں ذکر ہے) کوئی حد بندی نہیں تھی، جہاں موڈ (جی چاہا) ہوا نکاح کر لیا۔ حتیٰ کہ باپ کی منکوحہ، مطلقہ یا بیوہ سے بھی نکاح کر لیتے تھے۔ باپ کی منکوحہ وراثت میں بھی آجاتی تھی۔ باپ کی منکوحہ بیٹے کے نکاح میں بھی آجاتی تھی۔ قرآن پاک نے حکم دیا:
ولا تنکحوا ما نکح اٰبآؤکم من النسآء الا ما قد سلف (سورۃ النساء: 4، آیت: 24)
(اور جن عورتوں سے تمھارے باپ دادا (کسی وقت) نکاح کر چکے ہوں تم انہیں نکاح میں نہ لاؤ، البتہ پہلے جو کچھ ہو چکا وہ ہو چکا۔)
باپ کی منکوحہ کیا ہے؟ باپ کی منکوحہ ماں ہے۔ ایک لمحہ کے لیے بھی ہے تو ماں ہی ہے۔ یہ حرمت کے رشتے طے کیے کہ آپس میں یہ رشتے حلال ہیں۔ دو مسئلے قرآن پاک نے اتنی وضاحت سے بیان کیے ہیں کہ کوئی گنجائش چھوڑی نہیں ہے۔ ایک محرمات کا مسئلہ، اس کی پوری فہرست دی ہے۔ یہ حرام ہے، یہ حرام ہے، یہ حرام ہے۔ اور دوسرا وراثت کے حصے۔ اس کا تیسرا حصہ ہے، اس کا چوتھا حصہ ہے۔ حالانکہ یہ قرآن پاک کا عام اسلوب نہیں ہے۔ قرآن پاک کا عام اسلوب یہ کہ قرآن پاک زکوٰۃ کا حکم دیتا ہے لیکن اس کا نصاب بیان نہیں کرتا، قرآن پاک نماز کی رکعتیں بیان نہیں کرتا، لیکن یہاں محرمات کی پوری فہرست دی ہے۔ اور وراثت کے پورے حصے جیسے کہ پہاڑے پڑھ کر بیان کیے ہیں۔ اس کا چوتھا حصہ ہے، اس کا چھٹا ہے، اس کا آٹھواں ہے، اس کا آدھا ہے، اس کا ثلث ہے۔ پوری تفصیل کے ساتھ یہ دو مسئلے قرآن پاک نے کسی ابہام کے بغیر بیان کیے ہیں کہ کن کن محرمات سے نکاح حرام ہیں۔ اور دوسرا مسئلہ وراثت کے احکام ہیں۔
میں نے کہا، ایک تبدیلی قرآن پاک نے نکاح کے مسائل میں یہ کی کہ حلال حرام کی فہرست متعین کر دی، کس عورت سے نکاح جائز ہے کس عورت سے ناجائز ہے، کون محرمات میں سے ہے۔
واحل لکم ما ورآء ذٰلکم (سورۃ النساء: 4، آیت: 23)
(اور اس کے علاوہ تمھارے لیے حلال کر دیے گئے۔)
اور کن سے نکاح کرنا جائز ہے، محرمات کی پوری فہرست دے کر بتا دیا ہے کہ ان کی پابندی لازماً کرنی ہو گی۔
حرمت علیکم امہٰتکم وبنٰتکم واخوٰتکم وعمٰتکم وخٰلٰتکم و بنٰت الاخ و بنٰت الاُخت وامہٰتکم الٰتی ارضعنکم واخوٰتکم من الرضاعۃ و امہٰت نسآئکم و ربآئبکم الٰتی فی حجورکم من نسآئکم الٰتی دخلتم بہن فان لم تکونوا دخلتم بہن فلا جناح علیکم و حلآئل ابنآئکم الذین من اصلابکم و ان تجمعوا بین الاختین الا ما قد سلف ان اللہ کان غفورا رحیما (سورۃ النساء: 4، آیت: 23)
(تم پر حرام کر دی گئی ہیں تمھاری مائیں، تمھاری بیٹیاں، تمھاری بہنیں، تمھاری پھوپھیاں، تمھاری خالائیں، بھتیجیاں اور بھانجیاں، اور تمھاری وہ مائیں جنھوں نے تمھیں دودھ پلایا ہے، اور تمھاری دودھ شریک بہنیں اور تمھاری بیویوں کی مائیں، اور تمھاری زیر پرورش تمھاری سوتیلی بیٹیاں جو تمھاری ان بیویوں (کے پیٹ) سے ہوں جن کے ساتھ تم نے خلوت کی ہو۔ ہاں اگر تم نے ان کے ساتھ خلوت نہ کی ہو (اور انھیں طلاق دے دی ہو یا ان کا انتقال ہو گیا ہو) تو تم پر (ان کی لڑکیوں سے نکاح کرنے میں) کوئی گناہ نہیں ہے، نیز تمھارے صلبی بیٹوں کی بیویاں بھی تم پر حرام ہیں، اور یہ بات بھی حرام ہے کہ تم دو بہنوں کو ایک ساتھ نکاح میں جمع کرو، البتہ جو کچھ پہلے ہو چکا وہ ہو چکا، بے شک اللہ بہت معاف کرنے والا ہے۔)
یہ پوری فہرست دے کر ’’واحل لکم ما ورآء ذٰلکم‘‘ اس فہرست سے باہر سب جائز ہے۔ لیکن ’’محصنین غیر مسٰفحین ولا متخذی اخدان‘‘ (سورۃ المائدۃ: 5، آیت: 5) میں نے عرض کیا کہ ایک تبدیلی یہ کی کہ محرمات کی فہرست، حلال اور حرام رشتے متعین کر دیے کہ یہ رشتہ حلال ہے اور یہ حرام۔
آٹھویں اصلاح، کافر اور مسلمان کے درمیان نکاح کی نفی
ایک تبدیلی اور کی جو بنیادی تبدیلی ہے اور آج تک جھگڑے کا باعث بنی ہوئی ہے۔ اس وقت بھی عالمی سطح پر سب سے بڑا جھگڑا خاندانی نظام میں اس تبدیلی پر ہے۔ مسلمان اور غیر مسلم کا باہمی نکاح، جاہلیت کے زمانے میں یہ موجود تھا۔ ایسی خواتین حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے نکاح میں تھیں، حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے نکاح میں تھیں، اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے نکاح میں تھیں، اور بہت سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے گھر تھیں (تب یہ تعلق ناجائز نہیں تھا)۔ خود خاتم النبیین ﷺ کی بیٹی جناب ابو العاصؓ کے نکاح میں تھیں، اس وقت وہ مسلمان نہیں تھے۔ حضور ﷺ کی بڑی بیٹی حضرت زینب رضی اللہ عنہا حضرت ابو العاص ابن ربیعؓ کے نکاح میں تھیں جو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بھانجے تھے، آپس میں خالہ زاد تھے، نکاح ہوا تھا۔ یہ بہت دیر سے مسلمان ہوئے ہیں۔ آپ غزوۂ بدر کے قیدیوں میں تھے، ان کا بڑا دلچسپ واقعہ ہے۔
غزوۂ بدر میں حضرت زینبؓ حضور ﷺ کے گھر میں ہیں اور خاوند کافر قیدیوں میں ہے۔ نکاح باقی ہے، نکاح قائم ہے۔ تو فدیہ کا فیصلہ ہوا۔ حضرت ابوالعاصؓ کے پاس کچھ دینے کو تھا نہیں۔ اُنھوں نے سوچا میں فدیے میں کیا دوں گا؟ تو اہلیہ محترمہ حضرت زینب رضی اللہ عنہا بھی وہیں مدینہ منورہ میں ہیں، ان کو پتہ چلا کہ میرا خاوند قیدی ہے، فدیے کا فیصلہ ہوا ہے، فدیے کے پیسے نہیں ہیں۔ تو اپنا ہار گلے سے اُتارا اور کسی ذریعے سے بھجوایا کہ وہ اس ہار کے ذریعے اپنا فدیہ ادا کر کے رہا ہو جائیں۔ تو حضرت ابوالعاصؓ نے دیکھ لیا کہ میری بیوی کا ہار ہے، بیوی نے بھیجا ہے۔ جب وہ حضور ﷺ کی خدمت میں پیش کیا گیا تو اسے دیکھ کر حضور ﷺ کی آنکھیں بھر آئیں۔ یہ ہار اصل میں حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا تھا، انھوں نے شادی کے موقع پر بیٹی کو ہدیہ کیا تھا۔ حضور ﷺ کو وہ پرانا دور یاد آ گیا یہ تو خدیجہ کا ہار ہے بیٹی کے پاس تھا بیٹی نے خاوند کو بھیجا ہے اس کو آزاد ہونے کے لیے۔ تو حضور ﷺ نے سفارش کی۔ عام طور پر اس قسم کی سفارشیں حضور ﷺ نہیں کیا کرتے تھے۔ حضور ﷺ نے صحابہ کرامؓ سے فرمایا، یہ خدیجہؓ کا ہار ہے، بیٹی کے پاس ماں کی نشانی ہے، اگر تم اجازت دو تو یہ بیٹی زینبؓ کو واپس کر دوں؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا یارسول اللہ جیسے آپ چاہیں۔
[’’ان رایتم ان تطلقوا لہا اسیرہا، وتردوا علیہا الذی لہا‘‘ سنن ابی داؤد، باب فی فداء الاثیر بالمال، حدیث نمبر 2692]
یہ میں بتا رہا ہوں کہ جاہلیت میں کافر و مسلم کا نکاح ہوتا تھا۔ بلکہ ایک اور واقعہ بھی بخاری شریف میں ہی ہے۔
[قال: حدثنی فصدقنی، ووعدنی فوفی لی‘‘ صحیح بخاری، باب ذکر اصہار النبیؓ، حدیث نمبر: 3729]
حضور ﷺ حضرت ابوالعاصؓ کی بڑی تعریف کیا کرتے تھے کہ بڑا وفادار نوجوان ہے، ابھی اسلام نہیں لایا تھا، اس نے پھر بھی وفاداری نبھائی۔ ایک دفعہ حضرت ابوالعاصؓ کسی معرکے میں قیدی ہو کر مدینہ منورہ آگئے۔ خاتم النبیین ﷺ کا ضابطہ یہ تھا کہ فیصلہ ہونے تک قیدی کو مسجد کے ستون سے باندھ دیا جاتا تھا۔ انھیں ستون سے باندھ دیا کہ صبح فیصلہ کریں گے۔ بیوی کو پتہ چل گیا کہ میرا خاوند قید ہو کر آیا ہے اور وہ ستون سے بندھا ہوا ہے، صبح اس کے مقدر کا فیصلہ ہونا ہے، فیصلہ قتل بھی ہو سکتا تھا، رہائی بھی ہو سکتی تھی، جرمانہ بھی ہو سکتا تھا، فیصلہ کچھ بھی ہو سکتا تھا۔
ایک روایت میں ہے کہ صبح نماز کے بعد حضرت زینب رضی اللہ عنہا گھر سے آئیں، دروازے کی اوٹ میں کھڑی ہوئیں، اور اعلان کیا کہ لوگو! میں زینب بنت رسول اللہ ہوں، میں نے ابوالعاص کو پناہ دے دی ہے۔ قیدی کون ہے؟ اُن کا خاوند ہے۔ حضور ﷺ جب نماز سے فارغ ہوئے تو فرمايا: ’’یجیر علی المسلمین ادناہم‘‘ (ایک عام مسلمان بھی کسی کو پناہ دینے کا حق رکھتا ہے۔)
[عن ام سلمۃ، زوج النبیؓ: ان زینب بنت رسول اللہ تارسل الیہا ابو العاص بن الربیع ان خذی لی امانا من ابیک، فخرجت فاطلعت راسہا من باب حجرتہا والنبی ﷺ فی الصبح یصلی بالناس، فقالت: ایہا الناس، انی زینب بنت رسول اللہ، وانی قد اجرت ابا العاص، فلما فرغ النبی ﷺ من الصلاۃ قال: ’’ایہا الناس، انہ لا علم لی بہٰذا حتی سمعتموہ، الا وانہ یجیر علی المسلمین ادناہم۔‘‘ مستدرک حاکم: ذکر بنات رسول اللہ ﷺ، حدیث نمبر: 6843]
ضابطہ اور قانون یہ تھا کہ کسی قیدی کو، کسی کافر دشمن کو عام آدمی بھی اگر پناہ دے دے تو وہ پناہ مؤثر ہو جاتی تھی۔ ان کو مسئلے کا پتہ تھا کہ اگر میں پناہ دوں گی تو میرا خاوند بچ جائے گا ورنہ پتہ نہیں کیا فیصلہ ہوگا اس کے بارے میں، آخر وہ میرا خاوند ہے۔
یہ بات ہوتی تھی کہ زمانہ جاہلیت میں کافی عرصہ تک بلکہ ابتدائے اسلام میں بھی کافی عرصہ تک مسلمان اور کافر کا نکاح رہا ہے اور بھی بہت سی مثالیں ہیں میں نے ایک مثال دی ہے۔ لیکن ایک وقت آیا جب حکم ہو گیا:
ولا تنکحوا المشرکٰت حتٰی یؤمن … ولا تنکحوا المشرکین حتی یؤمنوا (سورۃ البقرۃ: 2، آیت: 221)
(اور مشرک عورتوں سے اس وقت تک نکاح نہ کرو جب تک وہ ایمان نہ لے آئیں اور اپنی عورتوں کا نکاح مشرک مردوں سے نہ کراؤ جب تک وہ ایمان نہ لے آئیں)
کسی مشرک کافر عورت سے تم نکاح نہیں کرو گے اور کسی کافر مرد کے نکاح میں مسلمان عورت نہیں دو گے کہ ایمان لائیں گے تو پھر گنجائش کی کوئی صورت صحیح ہوگی، ورنہ ایمان لائے بغیر مسلمان اور کافر کا نکاح آپس میں درست نہیں۔ مسلمان اور کافر کا نکاح آپس میں کیوں درست نہیں ہے؟ ( تفصیل اپنے مقام پر آئے گی)
آج دُنیائے کفر کے ساتھ ہمارا ایک جھگڑا یہ بھی ہے کہ بہت سے ملکوں میں مسلمان اور غیر مسلم آپس میں نکاح کرتے ہیں، اور عدالتیں فیصلہ کرتی ہیں کہ ٹھیک ہے بھائی تمھیں کیا اعتراض ہے؟ کیوں کہ نکاح کی تعریف اقوامِ متحدہ کے منشور کے مطابق یہ کی گئی ہے کہ کوئی مرد عورت آپس میں رضامندی سے نکاح کر لیں تو مذہب کی کوئی قید نہیں ہے۔ میں آج کی عالمی تبدیلی بتا رہا ہوں۔
کتابیہ عورت کا مسلمان مرد سے نکاح درست ہے
ایک تبدیلی جناب خاتم النبیین ﷺ نے کی، وہ بڑی بنیادی اور اہم تھی کہ اب تک جھگڑا چل رہا ہے کہ مسلمان اور غیر مسلم کے نکاح کا، لیکن اس میں ایک استثناء رکھا کہ اہلِ کتاب کے ساتھ، یک طرفہ، دوطرفہ نہیں، مسلمان مرد کا کتابیہ عورت کے ساتھ نکاح درست ہے۔ اس استثناء کے ساتھ بقیہ تمام مسلمان غیر مسلموں کے باہمی نکاح ختم کر دیے گئے۔ جو خواتین موجود تھیں وہ فارغ کر دی گئیں، ان کو بھجوا دیا گیا، ان کو خرچے دیے گئے، یہ ایک مستقل تفصیل ہے۔ لیکن یہ بنیادی تبدیلی تھی خاندانی نظام میں کہ مسلمان اور غیر مسلم کا آپس میں نکاح نہیں ہو سکتا سوائے اس کے کہ کوئی کتابیہ عورت کسی مسلمان مرد کے نکاح میں ہو، یہ بھی خاندانی نظام میں ایک بنیادی تبدیلی تھی۔
نویں اصلاح، عورت کو اظہارِ رائے کا حق
یہ تو قانونی اور ضابطے کی تبدیلیاں تھیں کہ اس طرح کا نکاح درست ہے یا نہیں ہے؟ یہ بیوی ہے یا نہیں ہے؟ لیکن ایک معاشرتی تبدیلی بھی کی۔ معاشرتی ماحول کی تبدیلی حضرت عمر رضی اللہ عنہ تفصیل سے بیان کرتے ہیں کہ ہم جب ہجرت کر کے ’’مدینہ منورہ‘‘ آئے تو ہمارے ہاں قریش کا ماحول یہ تھا کہ عورت کو مرد کی کسی بات کا جواب دینے کا حق نہیں تھا۔ خاوند نے جو بات کہہ دی سو کہہ دی۔ عورت آگے سے ٹوکے، عورت کسی بات سے کہہ دے کہ یوں نہیں یوں ہے۔ یہ نہیں ہو سکتا تھا۔ خاوند کی بات کے جواب میں یا ٹوکنے کا عورت کا حق نہیں ہوتا تھا۔ یہ قریش میں چلتا تھا۔ انصارِ مدینہ میں آزادی تھی کہ عورتیں جواب دیتی تھیں، بسا اوقات انکار بھی کرتی تھیں۔ (صحیح مسلم، باب فی الایلاء، واعتزال النساء، حدیث نمبر 31)
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن میں گھر میں تھا، بیوی کو کوئی بات کہی تو اس نے کہا یوں نہیں یوں ہے۔ مجھے غصہ آیا کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ تم کون ہو بولنے والی؟ میں تو پرانے ماحول کے مطابق کہہ رہا تھا کہ تم کون ہو بولنے والی کہ یہ بات یوں نہیں یوں ہے۔ تم نے مجھے ٹوکا ہے۔ میں سخت غصے میں تھا۔ اس نے مجھے آگے سے پھر ٹوکا کہ جناب غصے مت ہوں اپنی بیٹی کو جا کے دیکھیں۔ اپنی بیٹی سے جا کر پوچھیں، یہ تو ہوتا ہے۔ اگر بات غلط ہے تو میں غلط کہوں گی۔ مجھے پسند ہے تو کہوں گی، نہیں پسند تو نہیں کہوں گی۔ مجھے مت ڈانٹیں بیٹی سے جا کے پوچھیں، وہاں بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔
بیٹی کون؟ ام المؤمنین حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا۔ حضرت عمرؓ کہتے ہیں میرے پاؤں کے نیچے سے زمین نکل گئی۔ حضور ﷺ کے گھر میں ایسا ہوتا ہے؟ کہنے لگی، جا کر پوچھ لو۔ بیوی نے مجھے ٹوک دیا۔ کہتے ہیں کہ میں نے چادر کندھے پر ڈالی اور سیدھا بیٹی کے گھر میں چلا گیا اور کہا کہ بیٹی! میں یہ کیا سن رہا ہوں، بیوی خاوند کو کسی بات پر جواب دے! تو بیٹی نے کہا کہ یہاں تو ایسے ہوتا ہے۔ حضرت عمرؓ نے کہا بیٹی کیا کہہ رہی ہو؟ ابا جی یہاں تو ہوتا ہے کہ کوئی بات پسند نہ ہو تب بھی کہہ دیتی ہیں۔ ہم میاں بیوی ہیں تو میاں بیوی کبھی آپس میں ناراض بھی ہو جاتے ہیں اور کبھی جواب بھی دے دیتے ہیں۔ کسی بات پر نہ بھی کر دیتے ہیں اور کبھی ٹوک بھی دیتے ہیں، یہ تو ہوتا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے بیٹی کو سمجھایا کہ بیٹی آئندہ ایسا نہ کرنا۔
مجھے خیال ہوا کہ ساتھ اس کی پڑوسن ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیٹی ہے، حضور ﷺ کی لاڈلی بیوی ہے، شاید یہ اس کی موازنہ کرتی ہو۔ میں نے کہا کہ بیٹی نہ نہ، اپنی پڑوسن کو نہ دیکھنا، وہ ابوبکرؓ کی بیٹی ہیں۔ میں خبردار، خبردار کہتا رہا۔ بیٹی کیا کہتی، وہ خاموش ہو کر بیٹھی رہی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں بیٹی کو سمجھا بجھا کے نہیں بلکہ ڈانٹ ڈپٹ کر کے اٹھا۔ اب مجھے پتا چلا کہ گھر کے ماحول میں ایسا ہوتا ہے۔
میں پھر اُم المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس گیا (وہ بڑی سمجھدار خاتون تھیں، حضرت عمرؓ کزن لگتی تھیں) میں نے ام سلمہؓ سے پوچھا کہ یہ بتاؤ کہ میاں بیوی میں کبھی جھگڑا ہو جاتا ہے، لڑائی ہو جاتی ہے؟ کہنے لگی، جی ہو جاتا ہے گھر کا معاملہ ہے۔ حضرت عمرؓ کہتے ہیں کہ میں نے ام سلمہؓ کو تھوڑا سمجھانا شروع کیا، انہوں نے مجھے آگے سے ڈانٹ دیا کہنے لگیں ’’یا ابن الخطاب دخلت فی کل شئی‘‘ (اے خطاب کے بیٹے! ہر معاملے میں دخل اندازی کرتے ہو، حتیٰ کہ ازواجِ مطہراتؓ کے درمیان بھی دخل دینے آگئے ہو۔) حضرت عمرؓ نے کہا کہ ان کے اس تبصرے نے میری کمر ہی توڑ دی، نجانے میں نے کس کس کو سمجھانا تھا۔ وہ تو بیٹی تھی چپ کر کے بیٹھی رہیں۔ حضرت ام سلمہؓ برابر کی تھیں، کزن تھیں، انہوں نے مجھے کہہ دیا کہ ہر معاملے میں دخل دیتے ہو، حتیٰ کہ حضورؐ اور ان کی بیویوں کے معاملے میں بھی دخل دینے آگئے ہو؟ جاؤ اپنا کام کرو۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ’’کسرت ظھری‘‘ (انہوں نے میری کمر ہی توڑ دی) کہ کسی تیسری کے پاس جانے کا مجھے حوصلہ نہیں ہوا۔ میں وہاں سے واپس آیا جناب خاتم النبیین ﷺ کی خدمت میں کہ یا رسول اللہ ﷺ یہ آج بڑا عجیب واقعہ ہوا ہے۔ جب میں نے یہ کہا تو حضورؐ نے بہت ہی خوبصورت تبصرہ فرمایا۔ میں نے کہا، یا رسول اللہ ﷺ بیٹی کو تو میں نے ڈانٹ دیا تھا، اُم سلمہؓ کو میں نہیں ڈانٹ سکا، اس نے یہ یہ کہا مجھ سے۔ حضورؐ مسکرائے، فرمایا: ’’ھی ام سلمۃ‘‘ وہ تو امِ سلمہ ہے، وہاں کیا کرنے گئے تھے۔ یہ میں ترجمہ کر رہا ہوں۔
میں نے عرض کیا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جاہلیت کے زمانے میں قریش کے ماحول میں عورت کو کسی بات کا جواب دینے کا، کسی بات کے ٹوکنے کا، یا کسی بات کا انکار کرنے کا ہمارے ہاں ماحول نہیں تھا ’’فلما جاء الاسلام‘‘ جب اسلام آیا تو پتا چلا کہ عورت کو بھی کسی بات سے انکار کرنے کا حق ہوتا ہے، عورت کی بھی کوئی رائے ہوتی ہے، عورت کا بھی کوئی حق ہوتا ہے، وہ بھی کسی بات پر لڑ سکتی ہے، کسی بات پر ٹوک سکتی ہے، کسی بات کا جواب دے سکتی ہے۔
تو میں عرض کرتا ہوں کہ جناب خاتم النبیین ﷺ نے معاشرتی نظام میں ایک تبدیلی یہ بھی کی کہ عورت کو رائے کا حق دیا، عورت کی آزادی کرائے بحال کی اور عورت کو یہ حق دیا کہ اگر اس کو کسی بات پر اختلاف ہو تو کہہ سکے کہ جناب! یہ بات یوں نہیں یوں ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے قول کے مطابق کم از کم قریش کے ماحول میں یہ بات نہیں تھی۔ جب اسلام آیا تو پتا چلا کہ عورت کا بھی کوئی حق ہوتا ہے، عورت کی بھی کوئی رائے ہوتی ہے۔
زمانۂ نبوی ﷺ میں عورتوں کے اظہارِ رائے کی ایک مثال
اس پر ایک چھوٹا سا واقعہ عرض کر کے آج کی بات سمیٹوں گا۔ اُم المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ایک لونڈی خرید کر آزاد کی تھی بریرہ رضی اللہ عنہا۔ حدیثِ بریرہؓ صحیح بخاری کی طویل روایتوں میں سے ہے۔
[عروۃ بن الزبیر، ان عائشۃ، زوج النبی اخبرتہ: ان النکاح فی الجاہلیۃ کان علی اربعۃ انحاء … الخ، صحیح بخاری، باب من قال لا نکاح الا بولی، حدیث نمبر 5127]
حافظ ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں کہ حدیثِ بریرہؓ سے فقہاء نے ایک سو سے زائد مسائل مستنبط کیے ہیں۔ مشہور روایت ہے، لمبے قصے میں نہیں جاتا، متعلقہ حصے کو عرض کرتا ہوں۔ بریرہؓ لونڈی تھیں اور لونڈی ہونے کی حیثیت سے حضرت مغیث رضی اللہ عنہ کے نکاح میں تھیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بریرہؓ کو خریدا اور آزاد کر دیا۔ پھر وہ حضرت عائشہؓ کے پاس خادمہ کے طور پر رہیں۔ پہلے وہ لونڈی تھیں اب خادمہ کے طور پر یعنی آزاد عورت کے طور پر حضرت عائشہؓ کی خدمت میں رہیں۔
یہ ایک مستقل قانون ہے کہ لونڈی جب آزاد ہو جاتی ہے تو اس کو حق مل جاتا ہے کہ اگر اس کے مالک نے اس کا نکاح کہیں کر دیا تھا، اب آزادی کے بعد وہ اس شخص کے نکاح میں رہے یا نہ رہے۔ یعنی آزادی کے وقت جو حقِ رائے ہوتا ہے کہ وہ نکاح کرے یا نہ کرے، آزادی کے بعد وہ حق بحال ہو جاتا ہے کہ وہ خاوند کے ساتھ نکاح میں رہے یا نہ رہے۔ اس کو ’’خیارِ عتق‘‘ (آزادی کا اختیار) کہتے ہیں۔ حضرت بریرہؓ آزاد ہو گئیں، حضرت مغیثؓ خاوند تھے۔ بریرہؓ کو پتہ تھا مسئلے کا کہ مجھے ’’خیارِ عتق‘‘ حاصل ہوا ہے، میں خاوند کے نکاح میں رہوں یا نہ رہوں۔ انہوں نے خاوند کے ساتھ ترکِ تعلق کر لیا۔ جبکہ وہ کہہ رہا تھا کہ اللہ کی بندی ہم میاں بیوی ہیں، اب وہ بہت پریشان ہو گئے۔ وہ اتنے پریشان تھے کہ مدینہ کی گلیوں میں دیوانہ وار گھومتے تھے، آنکھوں سے آنسو بہہ رہے ہوتے اور کہتے کہ کوئی ہے جو بریرہؓ کو منائے۔ حضور ﷺ نے خود دیکھا کہ گلیوں میں پھر رہا ہے۔ حضرت بریرہؓ کسی کی بات سن نہیں رہیں تھیں۔ کہتی ہیں کہ میرا حق تھا میں نے چھوڑ دیا۔
رسول اللہ ﷺ نے خود دیکھا کی ’’فی سکک المدینۃ‘‘ مدینہ کی گلیوں میں روتا پھر رہا ہے، دیوانہ وار گھوم رہا ہے اور آواز دے رہا ہے کوئی ہے جو بریرہؓ کو منا دے۔ یہ حالت جو دیکھی تو قابلِ ترس حالت تھی۔ کیوں کہ یہ حالت ترس کی ہوتی ہے اور ترس کھانا بھی چاہیے، یہ سنت ہے۔ خاتم النبیین ﷺ نے بلا کر پوچھا کہ کیا ہوا؟ انہوں نے کہا: وہ نہیں مان رہی۔ اچھا ٹھیک ہے۔ آپؑ تشریف لے گئے، بریرہؓ کو بلایا اور پوچھا کہ بریرہؓ کیا قصہ ہے؟ کہنے لگی یا رسول اللہ میں نے انہیں چھوڑ دیا ہے۔ فرمایا: بریرہؓ وہ بڑا پریشان ہے، وہ روتا پھرتا ہے۔ بریرہؓ کہہ رہی تھیں کہ میں کیا کروں میں نے انہیں چھوڑ دیا ہے۔ حضور ﷺ نے فرمایا، اِس کا حال یہ ہے کہ نام نہیں سننا چاہتی اور اُس مغیثؓ کا حال یہ ہے کہ نام لے لے کر بازاروں اور گلیوں میں گھوم رہا ہے۔
حضور ﷺ نے فرمایا: بریرہؓ! اپنے اس فیصلے پر نظر ثانی کر سکتی ہو؟ اس غریب کا برا حال ہے۔ بریرہؓ نے آپ سے ایک سوال کیا، یہ بڑا بنیادی سوال تھا۔ اس نے کہا کہ یا رسول اللہ ﷺ یہ جو آپ فرما رہے ہیں کہ میں مغیثؓ کے پاس واپس چلی جاؤں، یہ آپ کا حکم ہے یا مشورہ ہے؟ بہت بڑی اور بنیادی بات بیان کی کہ یارسول اللہ! حکم ہے؟ کیونکہ حکم کے مخالف چلنے کی مجال کس کو ہے۔
وما کان لمؤمن ولا مؤمنۃ اذا قضی اللہ ورسولہ امرا ان یکون لہم الخیرۃ من امرھم (سورۃ الاحزاب: 33، آیت: 36)
(اور جب اللہ اور اس کا رسول کسی بات کا حتمی فیصلہ کر دیں تو نہ کسی مومن مرد کے لیے یہ گنجائش ہے نہ کسی مومن عورت کے لیے کہ ان کو اپنے معاملے میں کوئی اختیار باقی رہے۔)
اللہ یا اللہ کا رسول ﷺ کوئی فیصلہ کر دے پھر کسی کے لیے اختیار نہیں۔ یا رسول اللہ! اتنی بات فرما دیں، یہ حکم ہے؟ فرمایا، یہ حکم نہیں ہے، مشورہ ہے۔ انہوں نے کہا اگر مشورہ ہے تو پھر میرا اختیار باقی ہے، اگر حکم ہے تو کس کو مجال ہے۔ اگر مشورہ ہے تو مشورے میں تو اختیار ہوتا ہے۔ حضور ﷺ نے فرمایا، ہاں، یہ میرا حکم نہیں ہے۔ بریرہؓ نے کہا ’’لا حاجۃ لی‘‘ مجھے کوئی ضرورت نہیں ہے۔
میں وہ بات بیان کر رہا ہوں کہ خاتم النبیین ﷺ نے گھر کی چار دیواری کے اندر رائے کا جو حق دیا، جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم بیوی کو رائے کا حق نہیں دیتے تھے، اب لونڈی کو بھی وہ حق مل رہا ہے۔ عورت کا یہ رائے کا حق معاشرتی تبدیلی تھی۔
خاندانی نظام میں جناب خاتم النبیین ﷺ نے عورت کو صرف رائے کا حق نہیں دیا بلکہ فیصلے کا بھی حق دیا، علم کا بھی حق دیا۔ میں تو عرض کیا کرتا ہوں کہ حضور ﷺ کا تو اپنا گھر یونیورسٹی بن گیا تھا، تعلیم گاہ بن گیا تھا اور حضور ﷺ کی تعلیمات کے ایک بڑے حصے کو اُمت کی ماؤںؓ نے منتقل کیا۔ سب سے بڑے حصے کو کس نے منتقل کیا؟ ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے۔ میں نے یہ عرض کیا ہے کہ خاتم النبیین ﷺ نے جاہلیت کے خاندانی نظام میں جو تبدیلیاں کی تھیں ان میں سے چند کا میں نے ذکر کیا:
- محرمات کی فہرست متعین کی۔
- رضاعت کو حرمت کے اسباب میں شامل کیا۔
- مسلم غیر مسلم کا نکاح ختم کیا۔
- تبنی اور تأخی کا جو پرانا جاہلیت کا اصول تھا وہ ختم کیا۔
- عورت کی رائے اور اس کے اختیار کو بحال کیا۔
نکاح کے باب میں یہ جو تبدیلیاں حضور ﷺ نے کی ہیں، بتانا ہے کہ جاہلیت کے زمانے میں خاندانی نظام کا دائرہ کیا تھا اور اسلام کے بعد خاندانی نظام کا دائرہ کیا ہے۔ و آخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔