صہیونی ریاست زوال کے قریب — جنگ بندی معاہدے میں کیا طے پایا؟

صہیونی ریاست زوال کے قریب

پچھلی ایک پوسٹ میں ہم نے غزہ جنگ کے نتیجے میں اسرائیل کی عالمی تنہائی پر تفصیلی روشنی ڈالی تھی۔ قدسیوں کی نسل کشی نے دجالی ریاست کے اندر بھی تباہ کن اثرات مرتب کیے ہیں۔ نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ اب خانہ جنگی کے خدشات بڑھ گئے ہیں اور خود اسرائیلی تجزیہ کار و ماہرین ناجائز ریاست کے وجود پر سوالات اٹھا رہے ہیں۔ آیئے اس پر تفصیلی روشنی ڈالتے ہیں۔ واضح رہے کہ یہ ساری تفصیلات خود اسرائیلی میڈیا سے اخذ شدہ ہیں۔

اسرائیلی ریاست کی اندرونی صورتحال

غزہ پر اسرائیلی جارحیت نے خود اسرائیلی ریاست کے اندر گہرے زخم چھوڑے ہیں۔ اس جنگ نے اسرائیلی معاشرے میں پہلے سے موجود دراڑوں کو مزید وسیع کر دیا ہے۔ عوامی رائے اور حکومت کے درمیان تناؤ میں اضافہ ہوا ہے، جبکہ اسرائیلی سماج مذہبی اور نظریاتی بنیادوں پر تقسیم ہو چکا ہے، دائیں بازو اور بائیں بازو کے مابین، سیکولر اور مذہبی (حریدی) گروہوں کے درمیان اختلافات انتہا کو پہنچ چکے ہیں۔ ان تقسیمات کا مظہر مسلسل احتجاجات، فوجی خدمت سے انکار کے بڑھتے ہوئے واقعات، سیاست دانوں اور فوجی قیادت کے مابین اختلافات، اور آخرکار ممکنہ خانہ جنگی کے انتباہات کی صورت میں سامنے آیا ہے۔

جنگ کے دوران اسرائیل کی اپنے "فوجی غلبے" پر یقین بھی بری طرح متزلزل ہو گیا۔ صہیونی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے اپنی سیاسی بقا کے لیے جنگ کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا، جس کے نتیجے میں عوام کے اعتماد میں مزید کمی واقع ہوئی۔ اب جبکہ جنگ بندی پر عمل درآمد شروع ہو چکا ہے، داخلی اختلافات بدستور موجود ہیں۔ نیتن یاہو کی سخت گیر دائیں بازو کی جماعتیں اس معاہدے کی مخالفت کر رہی ہیں اور اعلان کر چکی ہیں کہ وہ پارلیمان میں اس کے حق میں ووٹ نہیں دیں گی، جبکہ فوجی حکام کا کہنا ہے کہ افواج کا انخلا حکومت کی منظوری کے بعد ہی ممکن ہوگا۔

سیاسی منظرنامہ اس وقت مکمل انتشار کا شکار ہے۔ اسرائیلی ذرائع ابلاغ کی رپورٹر دِفنا لیئل کے مطابق، نیتن یاہو اپنی کرسی بچانے کے لیے ہر ممکن حربہ استعمال کر رہا ہے۔ وہ یہ بخوبی جانتا ہے کہ اُس کے ووٹر اب اُس کی کارکردگی سے سخت مایوس ہیں۔ آئندہ انتخابات 2026ء کی پہلی سہ ماہی میں متوقع ہیں، اس لیے نیتن یاہو عوامی توجہ اپنی ناکامیوں سے ہٹانے کے لیے اسرائیلی معاشرے میں مزید انتشار پیدا کرنے کی راہ اختیار کر رہا ہے۔

وہیں "ویلا" ویب سائٹ کی نامہ نگار تال شالیو کے مطابق، موجودہ حکومت نے گزشتہ دو برسوں کے دوران اپنی سب سے بڑی سلامتی کی ناکامی یعنی 7 اکتوبر کے واقعے کی ذمہ داری قبول کرنے سے انکار کیا ہے۔ حماس کے قبضے میں تاحال درجنوں اسرائیلی قیدی موجود ہیں، ہزاروں شہری اپنے گھروں سے بے دخل ہو چکے ہیں اور عوام جسمانی و نفسیاتی طور پر اس جنگ کے زخموں سے اب تک نہیں سنبھلے۔ تاہم حکومت کو ان تمام انسانی المیوں سے کوئی سروکار نہیں۔ اس کی زیادہ تر توجہ سیاسی اہداف پر مرکوز رہی ہے۔ تال شالیو کے مطابق، حکومت کی کارکردگی درج ذیل نکات میں سمٹ آئی ہے:

1- عدالتی نظام پر حملہ

حکومت نے عدلیہ کی آزادی کو ختم کرنے کے لیے "قانونی انقلاب" کی مہم جاری رکھی۔ اٹارنی جنرل اور داخلی سلامتی کے ادارے (شاباک) کے سربراہ سمیت ریاستی نگہبان اداروں پر دباؤ ڈالا گیا اور سپریم کورٹ کے ججوں کی تعیناتی میں سیاسی مداخلت کی گئی۔

2- میڈیا پر قدغنیں

حکومت نے سرکاری نشریاتی اداروں کی خودمختاری محدود کرنے اور فوجی ریڈیو بند کرنے کے لیے قوانین متعارف کرائے، تاکہ میڈیا کی آواز کو کنٹرول کیا جا سکے۔

3- فوجی خدمت سے استثناء کا تنازعہ

"یدیعوت احرونوت" کے تجزیہ کار یووال کارنی کے مطابق، حکومت نے جنگ کے دوران ایک طرف فوجیوں کو غزہ میں موت کے منہ میں دھکیلا اور دوسری طرف مذہبی طبقے (حریدیم) کو فوجی خدمت سے استثناء دینے کے قانون پر کام جاری رکھا۔ اس مقصد کے لیے سابق وزیرِ دفاع یوآف گیلانٹ کو برطرف کر کے یسرائیل کاٹس کو مقرر کیا گیا۔

4- یرغمالیوں کے اہل خانہ کے خلاف مہم

حکومت نے اُن خاندانوں کے خلاف سخت رویہ اپنایا جو اپنے عزیزوں کی رہائی کے لیے کنسٹ (پارلیمان) تک پہنچے۔ اسپیکر امیر اوحانا نے ایک ہفتے تک ان کے داخلے پر پابندی عائد کی، کمیٹیوں نے ان کے مطالبات پر غور کرنے سے انکار کیا، اور بعض مواقع پر پارلیمانی محافظوں سے ان خاندانوں کی جھڑپیں بھی ہوئیں۔

5- تحقیقات سے گریز

7 اکتوبر کی ناکامی کی تحقیقات کے لیے باضابطہ کمیشن بنانے سے مسلسل انکار کیا گیا۔ اس کے بجائے کینسٹ کے ارکان پر مشتمل ایک کمیٹی بنانے کی تجویز پیش کی گئی تاکہ سرکاری سطح پر آزادانہ تحقیقات کا راستہ بند کیا جا سکے۔

تال شالیو کے بقول یہ تمام واقعات ظاہر کرتے ہیں کہ غزہ کی جنگ نے نہ صرف اسرائیل کے بیرونی دشمنوں سے تصادم بڑھایا بلکہ داخلی طور پر بھی اسرائیلی ریاست کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ عوامی اعتماد متزلزل ہے، فوجی ادارے اور سیاسی قیادت ایک دوسرے پر الزام تراشی میں مصروف ہیں اور اسرائیلی سماج ایک خطرناک داخلی بحران کے دہانے پر پہنچ چکا ہے، ایسا بحران جو محض سیاسی نہیں بلکہ وجودی نوعیت کا ہے۔

یدیعوت احرونوت کے کالم نگار موتی شلخ اس صورتحال پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہتا ہے کہ

"حکومت نے حقائق سے اغماض، پردہ پوشی، بدعنوانی اور گستاخی کے سلسلے میں ریکارڈ توڑ دیئے ہیں، ایسے بدنام اور شرمناک طرزِ عمل کے ذریعے جس نے ریاست کو مزید زوال کی طرف دھکیل دیا ہے اور ایسی کوئی قوت نظر نہیں آتی جو اسے اس پستی سے روک کر گہرے گڑھے سے نکال سکے۔"

اسرائیلی اکیڈیمک ابراہام فرانس نے ٹائمز آف اسرئیل (Times of Israel) کے پلیٹ فارم پر شائع تحریر میں شدید سوال اٹھایا:

"حکمراں پارٹی لیکوڈ نے دو سال سے نتن یاہو کو کیوں آزاد چھوڑ رکھا ہے کہ وہ آبادکاری علاقوں کے مذہبی قومی سخت گیر رہنماؤں جن کا پس منظر مسییحی نظریات سے میل کھانے والا ہے، کی دھنوں پر اپنی پالیسی چلائے، اس کے نتائج یعنی ''یہودی ریاست'' کی تباہی اور اس کے انحطاط کے بارے میں سوچے بغیر؟"

اس نے آگے پوچھا:

"کیا اس حکومت کو وہ سیاسی راستہ اپنانے کی اجازت دی جانی چاہیے جو برسوں تک جنگوں کو جاری رکھے، ایک ایسا راستہ جس نے سولہ برس سے زائد عرصے سے اسی حکومت کی قیادت میں اسرائیلی عوام کو کڑوا گھونٹ ہی پلایا، ان کے وجود کو خطرے میں ڈالا اور ریاست کو ایسے سنگین سوالات کے سامنے کھڑا کر دیا ہے جن کے جوابات نہیں مل رہے؟"

پروفیسر یدیڈیا شٹرن، جو ''یہوڈی پیپل پالیسی انسٹیٹیوٹ'' (JPPI) کا صدر ہے، نے خبردار کیا کہ حکومت کے فیصلے اندرونی محاذ پر آتش گیر ثابت ہو رہے ہیں اس ''آٹھویں محاذ'' کو، یعنی "اسرائیل بمقابلہ اسرائیل" اور اس کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ حکومت جنگ کے دوران "تندرست گوشت کو کاٹتی" جا رہی ہے۔ یدیعوت احرونوت میں اپنے مضمون میں اس نے مزید لکھا کہ

"یہ پالیسیاں عوام کے اکثریتی حصہ میں شدید بے چینی اور ہنگامی کیفیت پیدا کر رہی ہیں اور یہ وجودی، اخلاقی اور سیکورٹی نوعیت کے اہم سوالات جنم دے رہی ہیں، ایسے سوالات جو کہ بالآخر تمام اسرائیلیوں کے سر پر منڈلاتے ہوئے ''ہیکل کی تباہی" کی مانند نتائج لا سکتے ہیں، جیسا کہ کہاوت ہے: ''میرے لیے اور میرے دشمنوں کے لیے۔"

ریاست کے وجود پر سنجیدہ سوالات

غزہ پر دو سالہ جنگ کے دوران اسرائیل نے نہ صرف عسکری اور سیاسی ناکامیاں برداشت کیں بلکہ اپنے وجود کے بارے میں بھی گہرے سوالات کو جنم دیا۔ اسرائیلی ذرائع ابلاغ اور ماہرین کے نزدیک اب یہ سوال محض تجریدی نہیں رہا کہ آیا یہ ریاست اپنی بقا برقرار رکھ سکے گی یا نہیں۔ بہت سے تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اسرائیل تیزی سے ایک ایسی سمت بڑھ رہا ہے جہاں "ریاست بے نگہبان" ہو جائے گی، ایک ایسی صورتِ حال جس میں اقتدار چند انتہا پسند قوتوں کے ہاتھ میں مرتکز ہو جائے گا اور ریاست اپنے جمہوری و اخلاقی توازن کو کھو بیٹھے گی۔

اسرائیلی خفیہ ادارے "موساد" کے سابق اعلیٰ افسر حائیم تومار نے یدیعوت احرونوت میں شائع اپنے مضمون میں خبردار کیا کہ موجودہ حالات "انتہائی خطرناک موڑ" کی طرف اشارہ کر رہے ہیں، جو ریاست کے وجودی ڈھانچے میں سنگین تبدیلی لا سکتے ہیں۔ اُس کے مطابق اگر یہ رجحانات برقرار رہے تو اسرائیل ایک ایسے راستے پر چل پڑے گا جو اسے اندرونی طور پر کھوکھلا کر دے گا۔ اس نے چند اہم خدشات کا اظہار کیا:

1- مذہبی جبر میں اضافہ

حکومت مکمل طور پر بے لگام ہو چکی ہے اور ایسے قوانین لانے کی راہ ہموار کر رہی ہے جو ریاست کے قیام سے قائم سماجی توازن کو درہم برہم کر سکتے ہیں۔ اسرائیل رفتہ رفتہ ایک مذہبی ریاست کے قالب میں ڈھل رہا ہے۔

2- اظہارِ رائے کی آزادی میں کمی

ذرائع ابلاغ پر سخت پابندیاں عائد کی جا رہی ہیں۔ حکومت جانتی ہے کہ میڈیا عوامی رائے پر کس قدر اثرانداز ہوتا ہے، اس لیے وہ خبروں کے بہاؤ کو کنٹرول کر کے سیاسی نظام پر اپنی گرفت مضبوط رکھنا چاہتی ہے۔

3- عدالتی نظام کی کمزوری

حکومت "قانونی انقلاب" کے نام پر عدلیہ کو بے اثر کر رہی ہے، تاکہ وہ سیاسی سطح پر اپنے فیصلوں کے تابع نہ رہے۔ اس سے اقتدار میں جواب دہی کا تصور تقریباً ختم ہوتا جا رہا ہے۔

4- استبدادی نظام کی تشکیل

اقتدار پر قابض گروہ اب کھلے عام مخالفین کو کچلنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ اسرائیل ان عالمی طاقتوں سے قربت بڑھا رہا ہے، جن کے نظام استبدادی یا نیم فاشسٹ نوعیت کے ہیں، خصوصاً یورپ کی دائیں بازو کی انتہا پسند جماعتوں سے۔

5- نظریاتی ضد کو قومی مفاد پر فوقیت

نیتن یاہو اور اس کے اتحادی غزہ میں کسی بھی قیمت پر جنگ جاری رکھنے کے حامی ہیں، خواہ اس کی انسانی قیمت کچھ بھی ہو۔ وہ اسے اپنی نظریاتی برتری کی جنگ سمجھتے ہیں، نہ کہ قومی سلامتی کی۔

یہ داخلی بحران اسرائیلی ریاست کی بنیادوں کو ہلا رہا ہے۔ اپس فلائر (AppsFlyer) کے سی ای او اورن کانئیل نے چینل 12 میں شائع اپنے مضمون میں لکھا کہ "سات اکتوبر کے حملے کی ناکامی کے بعد پیدا ہونے والے عدمِ اعتماد کے طوفان نے ریاست کے وجود، معیشت اور سلامتی تینوں کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔" اس نے اسرائیلی عوام سے براہِ راست سوال کیا: “کیا آپ اس ریاست میں رہنا چاہتے ہیں؟”

اس کے مطابق، یہ سوال اسرائیل کے قیام کے 77 سال بعد پیدا ہوا ہے اور اس بار خطرہ باہر سے نہیں بلکہ اندر سے ہے۔ ریاست اپنے عوام کا اعتماد کھو چکی ہے اور یہی اندرونی بحران اس کی بقا کے لیے سب سے بڑا خطرہ بن چکا ہے۔ یہ بحران سرحدوں سے ماورا ہے اور اب وجودی نوعیت اختیار کر چکا ہے۔ اس نے مزید کہا کہ اب عدمِ اعتماد ہر سطح پر پھیل چکا ہے، عوام کے درمیان، قیادت میں، فوج اور سیکورٹی اداروں کے اندر، ہر جگہ۔ جنگ کے بعد تقسیم، نفرت اور غیر ذمہ دارانہ الزامات کا طوفان اُمڈ آیا ہے۔ متحد ہونے کے بجائے اسرائیلی معاشرہ بکھرتا جا رہا ہے اور اپنے فوجیوں کو عزت دینے کے بجائے اُنہیں ایک لاحاصل جنگ میں جھونکا جا رہا ہے۔ اس نے خبردار کیا کہ

"یہ تمام علامتیں ایک ایسے بڑے زوال کی نشاندہی کرتی ہیں جس کے اثرات طویل المیعاد ہوں گے اور ہمیں اُس بنیادی سوال پر واپس لے آتی ہیں: کیا اسرائیل واقعی اپنی سو سالہ عمر تک پہنچ پائے گا؟"

اسی تناظر میں اسرائیلی پائلٹس یونین کے صدر میدان بار نے معاریو میں لکھا کہ دو برس کی جنگ کے بعد، جب سینکڑوں فوجی ہلاک اور ہزاروں زخمی ہو چکے ہیں، یہ بات عیاں ہو گئی ہے کہ موجودہ حکومت نے ایک تاریخی موڑ پیدا کر دیا ہے۔ اس کے الفاظ میں:

“یہ حکومت اسرائیل کی تاریخ کا وہ موڑ بن چکی ہے جو اُس کی آئندہ شناخت متعین کرے گا۔ اس ریاست نے 77 سال تو گزار لیے، لیکن کس نے کہا کہ یہ ایک صدی مکمل کرے گی؟”

یوں اسرائیل کے اندر اب سوالات اس کے وجود، نظریاتی شناخت اور سیاسی بقا کے گرد گھومنے لگے ہیں اور یہ سوالات کسی دشمن ملک کی نہیں بلکہ خود اسرائیلیوں کی زبان سے اٹھ رہے ہیں۔

سیاسی نظام کا انہدام

اسرائیلی تجزیہ کار رونین تسور نے چینل 12 میں شائع اپنے مضمون میں خبردار کیا ہے کہ غزہ کی جنگ کے آغاز کی دوسری برسی ایسے نئے اشارے لے کر آئی ہے جو اسرائیلی سیاسی نظام کے بکھراؤ اور اندرونی توازن کے خاتمے کی طرف واضح پیش رفت دکھا رہے ہیں۔ اس کے مطابق، حکومت اب "ریاست کے گہرے اداروں" (Deep State) کو اپنی خدمت میں لانے کے لیے عدالتی نظام کو مسخ کر رہی ہے۔ یہ عمل اگر جاری رہا تو ایک ایسا مصنوعی توازن پیدا ہوگا جو دیرپا نہیں رہ سکتا اور ریاست رفتہ رفتہ اپنے سلامتی، معیشت اور داخلی ہم آہنگی کے نظام سے محروم ہو جائے گی۔ تسور نے اسرائیلی فیصلہ سازوں کی بصیرت کے فقدان کو انتہائی سخت الفاظ میں تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ

"موجودہ سیاسی نظام ایک ایسی بس کی مانند ہے جس کا ڈرائیور ایک خطرناک ڈھلان پر تیز رفتاری سے گاڑی دوڑا رہا ہے، بغیر بریک کے، جبکہ اندر اونچی آواز میں موسیقی بجائی جا رہی ہے تاکہ مسافروں کی خوفناک چیخیں دبائی جا سکیں۔"

تسور کے نزدیک یہ منظر اسرائیلی سیاست کی موجودہ کیفیت کی مکمل تمثیل ہے یعنی قیادت اندھی، راستہ کھائی کی طرف اور عوام کو فریب میں مبتلا رکھا جا رہا ہے۔

اسی بحران کی طرف اشارہ کرتے ہوئے شوکی فریڈمین، جو یہودی پیپل پالیسی انسٹیٹیوٹ (JPPI) کا ایگزیکٹو ڈائریکٹر ہے، نے ویلا (Walla) ویب سائٹ پر اپنے مضمون میں لکھا کہ حکومتی رہنماؤں کا طرزِ عمل پچھلے دو برسوں میں ایسی صورتحال پیدا کر چکا ہے جس سے افراتفری ایک مستقل حکومتی پالیسی بنتی جا رہی ہے۔ اس نے بتایا کہ اس نئی حقیقت کی خصوصیات درج ذیل ہیں: روزمرہ زندگی میں تشدد کے واقعات میں اضافہ۔ کرپشن اور بدعنوانی کا کھلم کھلا پھیلاؤ۔ قانون کی حکمرانی کا خاتمہ۔ ریاستی اداروں پر عوامی اعتماد میں شدید کمی جو اب محض 41 فیصد رہ گیا ہے۔ جبکہ اسرائیلی عوام کے ذاتی تحفظ کے احساس میں بھی گراوٹ آچکی ہے، جو 45 فیصد پر آ گیا ہے۔

فریڈمین کے مطابق، عدلیہ، پارلیمان (کنیسٹ) اور حکومت کے درمیان کشمکش اسرائیل میں کوئی نئی بات نہیں، مگر پچھلے دو برسوں کے دوران جو کچھ ہوا وہ ایک خطرناک موڑ کی نشاندہی کرتا ہے۔ اس کے بقول، دائیں بازو کے سیاست دانوں نے وزیر اعظم نتن یاہو کی قیادت میں عدالتی نظام کو "پِٹنے والا تھیلا" بنا دیا ہے، اب ہر حکومتی ناکامی، بدانتظامی اور بحران کی ذمہ داری عدلیہ پر ڈال دی جاتی ہے۔ اس کے الفاظ میں:

"یہ صورتحال صرف ایک سیاسی گراوٹ نہیں بلکہ اخلاقی زوال کی نئی سطح ہے، جس نے ریاست کے بنیادی ڈھانچے کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔"

اس طرح اسرائیل کے اندر یہ احساس تقویت پکڑ رہا ہے کہ موجودہ حکومت نے جمہوری توازن، ریاستی اداروں کی خودمختاری اور سماجی یکجہتی تینوں کو شدید خطرے میں ڈال دیا ہے۔ داخلی انتشار، زوالِ اعتماد اور بڑھتی نفرت کے ساتھ اسرائیل اب بظاہر ایک ایسے راستے پر گامزن ہے جہاں اس کا اپنا نظامِ سیاست ہی اس کی تباہی کی بنیاد بن سکتا ہے۔

آمرانہ نظام اور ریاست کی تباہی کی طرف

سابق اسرائیلی وزیراعظم ایہود باراک نے اسرائیلی نیوز چینل 12 کی ویب سائٹ پر شائع اپنے مضمون میں موجودہ وزیراعظم نیتن یاہو پر سخت تنقید کرتے ہوئے الزام لگایا ہے کہ وہ ملک کو ایک آمریت میں تبدیل کر رہا ہے۔ باراک کے مطابق نیتن یاہو نے پارلیمنٹ اور عدلیہ کو اپنے قابو میں لے کر اپوزیشن کو غیر مؤثر بنا دیا ہے اور ریاستی اداروں یعنی “نگہبانوں” کو ان کے اصل کردار سے محروم کر دیا ہے۔ باراک نے کہا کہ نیتن یاہو ایک ایسی حکومت چاہتا ہے جو کسی تنقید یا احتساب کے بغیر چلے، جسے وہ اکیلا شخصی طور پر کنٹرول کرے۔ اس کے اردگرد ایسے لوگ ہیں جو اقتدار اور دولت کے پجاری ہیں اور اسی سوچ کے باعث اسرائیل ایک فساد زدہ، قوم پرست اور فاشسٹ آمریت کی طرف بڑھ رہی ہے، جو جلد یا بدیر عالمی تنہائی اور مکمل تباہی کا شکار ہو جائے گی۔

ادھر اسرائیلی ویب سائٹ زمان اسرائیل کے سیکورٹی رپورٹر آریہ ایگوزی نے اپنے تجزیئے میں لکھا کہ آج اسرائیل پر "حماقت کا بادل" چھا گیا ہے۔ نیتن یاہو نے اپنے گرد نااہل مگر وفادار افراد کا گھیرا بنا لیا ہے، جو روزانہ اپنی غلطیوں سے ملک کو تباہ کر رہے ہیں۔ یہ زوال صرف 7 اکتوبر کے واقعات سے نہیں، بلکہ حکومت کے روزانہ کے غلط فیصلوں کا نتیجہ ہے۔

دوسری جانب، اسرائیلی انسٹیٹیوٹ برائے مستقبل کی اسٹرٹیجک حکمتِ عملی (ISFI) کے بانی ماہرین یوجین کینڈل اور رون تسور نے ایک مشترکہ مضمون میں خبردار کیا ہے کہ اسرائیل کے سیاسی اور سماجی ڈھانچے میں گہرے شگاف پیدا ہو چکے ہیں اور اگر نظامِ حکومت میں بنیادی تبدیلی نہ کی گئی تو ریاست کا وجود خطرے میں پڑ سکتا ہے۔ ان کے مطابق "وقت تیزی سے ختم ہو رہا ہے" اور موجودہ نظام اب ریاست کا مستقبل محفوظ نہیں رکھ سکتا۔ انہوں نے خطرات کو چار بنیادی نکات میں بیان کیا:

1- سماجی تقسیم

اسرائیلی معاشرہ محض سیاسی اختلاف نہیں بلکہ نظریاتی تصادم کا شکار ہے، جس سے اندرونی تصادم اور "اقدار کی جنگ" کا خدشہ ہے۔

2- معاشی بحران

ایک طبقہ دوسرے طبقے کے مالی سہارے پر جی رہا ہے، جس سے فی خاندان لاکھوں شیکل سالانہ بوجھ بڑھ رہا ہے اور یہ آنے والے برسوں میں دگنا ہو سکتا ہے۔

3- سیکورٹی بحران

اسرائیل کا روایتی "عوامی فوجی ماڈل" ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے، ہزاروں فوجیوں کی کمی ہے، جو مستقبل میں فوج کی صلاحیت کو کمزور کر دے گی۔

4- صہیونی شناخت کا بحران

ایک گروہ “ایک ریاست” کا نظریہ مسلط کرنا چاہتا ہے، جس سے ملک مزید تقسیم ہو گا اور “یہودی خواب” ختم ہو جائے گا۔

اسی تناظر میں چینل 13 کی ایڈیٹر بیلا ایلیزیروف نے لکھا کہ نیتن یاہو اپنے اتحادیوں اور مخالفین دونوں کو سیاسی دباؤ اور بلیک میلنگ کے ذریعے قابو میں رکھے ہوئے ہیں۔ جنگ اور افراتفری کے ماحول کو وہ اپنی طاقت بڑھانے کے لیے استعمال کر رہا ہے، جبکہ اس کی کابینہ کے ارکان، نقصان جانتے ہوئے بھی، اس کی مخالفت کی ہمت نہیں کرتے۔

سابق لیکوڈ وزیر لیمور لیونات نے یدیعوت احرونوت میں لکھا کہ ریاستی اداروں پر حملے خود وزیر اعظم کی سطح سے شروع ہوتے ہیں۔ وزراء ایک دوسرے سے بڑھ کر عدلیہ، میڈیا اور قانونی اداروں پر حملے کر رہے ہیں، ریاستی راز افشا کر رہے ہیں اور قانونی استثنیٰ کو ذاتی ڈھال بنا چکے ہیں، تاکہ “وزیراعظم کے خاندان نما حلقے” کو خوش رکھا جا سکے۔

ان تمام تبصروں سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیل کے اندر خود اس کی نخبہ طبقہ بھی ملک کے مستقبل سے خوف زدہ ہے۔ سیاست دان، صحافی، سابق وزراء اور ماہرین سب اس بات پر متفق ہیں کہ اسرائیل اپنی تاریخ کے خطرناک ترین موڑ پر کھڑا ہے۔ 77 سالہ یہ ریاست اب اندرونی آمریت، سماجی تقسیم اور ادارہ جاتی زوال کے ایسے دائرے میں پھنس چکی ہے، جہاں سے واپسی ممکن نہیں لگتی اور شاید وہ اپنی صدی مکمل ہونے سے پہلے ہی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جائے۔

فوج کی ساکھ تباہ اور صلاحیت پر عوامی اعتماد کا بحران

غزہ پر دو سال طویل جنگ کے بعد اسرائیل کے اندر یہ احساس تیزی سے پھیل رہا ہے کہ فوج نے سات اکتوبر کے حملے سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ معاریو اخبار میں وکیل اوریئیل لِن کے مطابق جنگ نے فوج کی کارکردگی میں سنگین خامیاں اور کمزوریاں بے نقاب کر دی ہیں، جن کی بھاری قیمت سیکڑوں فوجیوں کی جانوں کی صورت میں چکانی پڑی۔ اگرچہ فوجی قیادت بار بار اعلان کرتی رہی کہ فوج کو سیاست سے دور رکھا جائے گا، لیکن ہزاروں فوجیوں کی جانب سے جنگ جاری رکھنے سے انکار اور احتجاجی دستخطی مہم نے ادارے کو براہِ راست سیاسی تنازعات میں گھسیٹ لیا ہے۔ اسرائیل ڈیفنس کے عسکری تجزیہ کار دان اَرکین کے مطابق یہ اقدام فوج کے اندر ممکنہ بغاوت کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے، جس میں فضائیہ، پیرا ٹروپرز، انفنٹری، بکتر بند دستے، انٹیلی جنس اور یونٹ 8200 کے اہلکار شامل ہیں۔

یروشلم کے شالوم ہارتمان انسٹیٹیوٹ سے وابستہ پروفیسر آوی ساگیہ نے یدیعوت احرونوت میں لکھا کہ فوج کی جانب سے ان اہلکاروں کو برخاست کرنا درست قدم نہیں، کیونکہ وہ ریاست کے دفاع کے لیے تیار ہیں مگر “کسی سیاسی مہم کے مہرے بننے” سے انکار کرتے ہیں۔

فوجی اور سیاسی قیادت میں خطرناک تصادم

فوج اور حکومت کے درمیان اختلافات اب کھلے تصادم کی شکل اختیار کر چکے ہیں۔ زمان اسرائیل کے سیکورٹی رپورٹر آریہ ایگوزی کے مطابق نیا چیف آف اسٹاف ایال زامیر بخوبی سمجھتا ہے کہ وہ جلد یا بدیر قربانی کا بکرا بنایا جائے گا، کیونکہ وزراء نااہل، سطحی اور ذاتی مفادات کے اسیر ہیں۔ اس نے کہا کہ اسرائیل ایک کمزور، خوف زدہ اور بلیک میل شدہ وزیراعظم کے ہاتھوں میں ہے۔

جامعہ حیفا کے بین الاقوامی تعلقات کے پروفیسر اوری بار یوسف کے مطابق نیتن یاہو نے انٹیلی جنس اداروں کے سربراہوں سے ذاتی وفاداری کا تقاضا شروع کر دیا ہے، جس سے ادارہ جاتی نظام تباہ ہو رہا ہے۔ اس نے انکشاف کیا کہ وزیراعظم کے دفتر میں ایک علیحدہ انٹیلی جنس سیل قائم کیا گیا ہے جو نیتن یاہو کو صرف وہی رپورٹس فراہم کرتا ہے جو وہ سننا چاہتا ہے۔ گزشتہ دو برسوں میں سیاسی اور عسکری اداروں کے درمیان اعتماد کا فقدان سنگین سطح تک پہنچ گیا ہے، خاص طور پر اس وقت جب نیتن یاہو نے شاباک کے سربراہ رونین بار اور وزیرِ دفاع یوآف گیلانٹ دونوں کو برطرف کیا۔

فوج کے سابق ترجمان رونین مانلیس نے چینل 12 سے گفتگو میں کہا کہ "ان برطرفیوں کے لیے 'شرم' کا لفظ بھی کم ہے"۔ اس کے بقول نیتن یاہو اب اداروں کے تمام “نگہبانوں” کو دھمکیاں دے رہا ہے کہ اگر وہ اس کی مرضی کے مطابق نہ چلے تو انہیں معزول کر دیا جائے گا۔

صورتحال اب انتہائی خطرناک اور بے مثال تناؤ کی سطح تک جا پہنچی ہے، جس کی چند جھلکیاں یوں ہیں:

  1. چینل 12 کے عسکری مبصر نیر دفوری کے مطابق وزراء کابینہ کے اجلاسوں میں چیف آف اسٹاف جنرل زامیر سے توہین آمیز انداز میں گفتگو کرتے ہیں۔
  2. معاریو کے صحافی بن کاسپت کے مطابق قومی سلامتی کے وزیر ایتمار بن گویر اور شاباک سربراہ رونین بار کے درمیان تلخ جملوں کے تبادلے کے بعد ہاتھا پائی تک نوبت پہنچ گئی، بن گویر نے اسے "غدار" اور "مجرم" کہہ کر جیل بھیجنے کا مطالبہ کیا۔
  3. زمان اسرائیل کی صحافی برنیت گورین کے مطابق وزیرِ دفاع اسرائیل کاتس نے سابق آرمی چیف جنرل ہرتسی ہالِیوی پر دباؤ ڈالا کہ وہ انٹیلی جنس چیف شلومی بائندر کو سرِعام ڈانٹے اور بن گویر کے کہنے پر اسے برخاست کرے۔
  4. فوج کے سابق ترجمان نحمان شای نے معاریو میں لکھا کہ کاتس کا یہ رویہ “شرمناک” ہے، جس کا مقصد سیکورٹی اداروں کی قیادت کو عوامی طور پر ذلیل کر کے ہٹانا ہے۔
  5. ویللا کے کالم نگار نیر کیپنس کے مطابق نیتن یاہو نے موساد کے سربراہ ڈیوڈ بارنیا کو برطرف کر کے رون ڈرمر کو اس کی جگہ مقرر کیا، جو محض “ربڑ اسٹمپ” کا کردار ادا کرتا ہے۔
  6. اسرائیل ڈیفنس کے ایڈیٹر دان اَرکین کے مطابق اختلافات اب فوج کے اندر بھی پھیل چکے ہیں، جہاں وزیرِ دفاع، سابق چیف آف اسٹاف، ریاستی محتسب اور فوجی ترجمان آپس میں شدید محاذ آرائی میں ہیں، جو فوجی ادارے کی اندرونی ٹوٹ پھوٹ اور انتشار کی علامت ہے۔

ان تمام واقعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیل نہ صرف سیاسی طور پر منقسم ہے بلکہ فوجی ادارے کی ساکھ اور فیصلہ کن قوت پر اعتماد بھی تیزی سے ختم ہو رہا ہے۔ اب اسرائیلی ماہرین خود سوال اٹھا رہے ہیں کہ کیا ایسی حالت میں فوج آئندہ کسی جنگ میں واقعی “فیصلہ کن کامیابی” حاصل کر سکتی ہے؟

نتن یاہو اور اقتدار میں رہنے کی ضد

اسرائیلی صحافی یارون ابراہام (چینل 12) کے مطابق، بنیامین نتن یاہو نے اقتدار سے چمٹے رہنے کی ایسی ضد دکھائی ہے جس نے خود اسرائیلی عوام کو یقین دلا دیا ہے کہ وہ اپنی کرسی بچانے کے لیے قوم تک کو داؤ پر لگا سکتا ہے۔ اس نے لکھا کہ اسرائیلی عوام کے ذہن میں ایک سوال بار بار گونج رہا ہے: "آخر نتن یاہو اب تک اقتدار میں کیسے موجود ہے؟" جب کہ وہ بدعنوانی کے مقدمات کا سامنا کر رہا ہے اور اکتوبر 2023 میں پیش آنے والی "یہودی قوم کی سب سے بڑی تباہی" کے ذمہ دار بھی اسی کو ٹھہرایا جاتا ہے۔ اس کے باوجود وہ ہر موقع پر یہ ظاہر کرتا ہے کہ اقتدار کی کرسی بچانے کے لیے وہ ہر چیز قربان کر دے گا۔

دوسری جانب نداو تامیر، جو اسرائیل میں قائم امریکی لابنگ تنظیم "جے اسٹریٹ" کا سربراہ ہے، نے ویب سائٹ "زمان اسرائیل" پر اپنے مضمون میں لکھا کہ نتن یاہو خود کو فرانسیسی بادشاہ لوئی چہاردہم (Louis XIV) سمجھتا ہے اور ہر بحران کے وقت یہ پیغام دیتا ہے کہ "میں ہی ریاست ہوں"۔ تامیر کے مطابق، یہ رویہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ اسرائیل ایک ایسے کرپٹ لیڈر کے ہاتھوں یرغمال ہے جس نے پورے ملک کو اپنی ذاتی خواہشات اور خاندانی مفادات کے تابع کر دیا ہے۔

معروف عسکری تجزیہ کار الون بن ڈیوڈ (چینل 13) نے بھی اخبار معاریو میں اپنے مضمون میں لکھا کہ نتن یاہو اس وقت اپنی ناکامیوں کے سیاسی نتائج سے بچنے کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہا ہے، وہی ناکامیاں جنہوں نے اسرائیلی ریاست کو پے در پے جھٹکے دیئے۔ الون بن ڈیوڈ کے مطابق، نتن یاہو کی مصنوعی مسکراہٹ، چہرے پر گہرا میک اپ اور بیرونی دنیا سے پڑنے والی طنزیہ چپتیں اب اس کی اصل حالت کو چھپانے میں ناکام ہو چکی ہیں۔ وہ ایک ایسا سیاست دان بن چکا ہے جو اقتدار کے نشے میں حقیقت سے کٹ چکا ہے اور اس کے لیے ریاست سے زیادہ اپنی کرسی کی حفاظت اہم ہو چکی ہے۔

اسرائیل سے فرار کا رجحان

اسرائیل کے مرکزی ادارۂ شماریات کی تازہ رپورٹ کے مطابق ملک کی آبادی اگرچہ ایک کروڑ تک پہنچ چکی ہے، مگر اس میں سے 82 ہزار افراد کو حساب سے خارج کیا گیا ہے کیونکہ وہ ملک چھوڑ کر بیرونِ ملک جا چکے ہیں۔ یہ اعداد و شمار اسرائیلی میڈیا میں سرخیوں کا مرکز اور سیاسی بحث کا نیا موضوع بن گئے۔

اخبار یدیعوت احرونوت کے لکھاری عکیفا لام کے مطابق، ان اعداد و شمار نے اسرائیلی حلقوں میں شدید ردعمل پیدا کیا ہے، کیونکہ یہ ظاہر کرتے ہیں کہ زیادہ تر جانے والے افراد اعلیٰ تعلیم یافتہ، پیشہ ور، ڈاکٹر اور تکنیکی ماہر ہیں یعنی وہ طبقہ جو ملک کی ترقی کی بنیاد سمجھا جاتا ہے۔

یوناتان یاکوبووِچ، جو “مرکز برائے پالیسیِ ہجرت” کا بانی ہے، نے کہا کہ بڑھتی ہوئی الٹی ہجرت (Reverse Migration) دراصل اُن لوگوں کی آواز ہے جنہوں نے اسرائیل سے امید کھو دی ہے۔ یہ لوگ جنگ کے خوف اور معاشرتی بے یقینی کا شکار ہیں اور اُن کے نزدیک اب اسرائیل میں زندگی ناقابلِ برداشت ہو چکی ہے۔

تل ابیب یونیورسٹی کی فلسفۂ سیاست کی لیکچرار کوتی شوہام نے اخبار اسرائیل ہیوم میں اپنے مضمون میں متنبہ کیا کہ ٹیکنالوجی، معیشت، طب اور ثقافت کے باصلاحیت افراد اب اپنے لیے ملک میں کوئی محفوظ مستقبل نہیں دیکھتے۔ حکومت کی جانب سے آزادیِ رائے کو محدود کرنے والے قوانین، تخلیقی سوچ کو دبانے اور نجی ملکیت پر قدغنوں نے باصلاحیت نوجوانوں کو نقلِ مکانی پر مجبور کر دیا ہے۔ غزہ جنگ، غیرمنصفانہ معاشی پالیسیاں، حریدی مذہبی طبقے کی لازمی فوجی بھرتی کی مخالفت اور عدلیہ کے خلاف مہم نے ان طبقات میں شدید مایوسی پیدا کر دی ہے۔ انہیں اندیشہ ہے کہ اگر وہ ابھی نہ گئے تو مستقبل میں شاید کبھی اسرائیل واپس بھی نہ آ سکیں۔

اسی دوران، تنظیم "اسرائیل فار دی نیگیو" کی صدر استیر لوزاتو نے اخبار معاریو میں خبردار کیا کہ اگر ہجرت کا یہ سلسلہ جاری رہا تو اسرائیل کو “دماغی فرار” (Brain Drain) کے خطرناک نتائج بھگتنے پڑیں گے۔ اس کے مطابق، 2024ء کے اختتام تک اسرائیل کی آبادی کا تخمینہ 1 کروڑ 27 ہزار لگایا گیا، جس میں 76.9٪ یہودی، 21٪ فلسطینی اور 2.1٪ دیگر اقلیتیں شامل ہیں۔ تاہم، بیرونِ ملک جانے والوں میں زیادہ تر وہ افراد ہیں جو اعلیٰ ٹیکنالوجی، میڈیکل اور سائنسی شعبوں سے وابستہ ہیں، جو ریاستی نظام کی اخلاقی اور تعلیمی ناکامی کی علامت ہے۔ ان کے بقول، معاشرتی تقسیم بڑھ رہی ہے اور انتہا پسند عناصر اندرونی خلفشار کو ہوا دے رہے ہیں۔

پروفیسر آریئے اِلداد نے بھی اخبار معاریو میں لکھا کہ 2024ء میں اسرائیل چھوڑنے والوں کی تعداد اُن لوگوں سے کہیں زیادہ رہی جو واپس لوٹے۔ ان کے مطابق 83 ہزار اسرائیلی ملک چھوڑ گئے جبکہ صرف 24 ہزار واپس آئے، جس سے یہ سوال پیدا ہوا کہ کیا اسرائیلی قوم اپنی ریاست سے دستبردار ہونے کے دہانے پر پہنچ چکی ہے؟

یدیعوت احرونوت کی صحافی عنات لیف-اَدلر کے مطابق، یہ اعداد و شمار ایک نئی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ ان کے مطابق صرف 2024ء میں، جب جنگ جاری تھی، 82 ہزار 700 اسرائیلی ملک چھوڑ کر گئے، جبکہ واپس آنے والوں کی تعداد صرف 23 ہزار 800 رہی۔ اس طرح 58 ہزار 900 افراد کے فرق کے ساتھ اسرائیل کو منفی ہجرت کا خالص خسارہ برداشت کرنا پڑا۔ مزید یہ کہ مارچ 2023ء سے مارچ 2025ء کے درمیان بیرونِ ملک مقیم اسرائیلیوں کی تعداد میں 24 فیصد اضافہ ہوا۔ صرف 2024ء کے پہلے چھ ماہ میں 4800 اسرائیلیوں نے اپنی مستقل رہائش ختم کرنے کی درخواستیں جمع کرائیں، جو 2022ء کی اسی مدت کے مقابلے میں ڈھائی گنا زیادہ ہیں۔

یہ تمام حقائق اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ اسرائیل آج نہ صرف جنگ اور سیاسی بحران سے دوچار ہے، بلکہ اس کے شہریوں کے ذہنوں میں ریاست سے فرار کا رجحان بھی تیزی سے جڑ پکڑ رہا ہے۔ اس وقت جب کہ ریاست اسرائیل اندرونی مسائل اور بحرانوں کا سامنا کر رہی ہے، ہجرت کے حوالے سے مطالبات بڑھ رہے ہیں اور لوگ اس سے مستقل طور پر چھوڑنے کا سوچ رہے ہیں، جس کے نتیجے میں اس کی سماجی تشکیل، کام کرنے کی صلاحیت اور خوشحالی پر منفی اثرات مرتب ہوں گے، جیسا کہ متعدد اسرائیلی تجزیئے اور تخمینے ظاہر کرتے ہیں۔

صحافی شموئیل روزنیر نے اخبار معاریو میں لکھا کہ

"اس سال یہودیوں کی اسرائیل آنے میں کمی واقع ہوئی ہے اور یہ کسی کے لیے حیران کن نہیں ہونا چاہیے۔ ہر وہ شخص جو یہاں ہجرت کے بارے میں سوچ رہا ہے، اسے اپنے فیصلے پر غور کرنا چاہیے کیونکہ یہ ملک جنگ کی حالت میں ہے اور اس کا مطلب ہے کہ ہجرت کا وقت بالکل مناسب نہیں ہے۔ اگر ہجرت کو جنگ کے بعد مؤخر کیا جا سکے تو لوگ اس کے بعد آئیں گے، سوائے اس کے کہ جنگ کا نتیجہ ان کے فیصلے کو بدل دے۔"

اس نے مزید کہا کہ

"اس سال ملک چھوڑنے والوں کی تعداد 80 ہزار سے تجاوز کر گئی ہے، جو پچھلے بیشتر سالوں کے مقابلے میں بڑی تعداد ہے اور یہ حیران کن نہیں بلکہ ایک زیادہ مشکل اور خطرناک صورتحال ہے۔ ان حالات میں واضح ہے کہ اسرائیلیوں میں فرار کی خواہش بڑھے گی اور یہاں رہنے کی خواہش کم ہوگی۔ کچھ لوگ عارضی طور پر جا رہے ہیں تاکہ حالات ٹھیک ہونے کے بعد واپس آئیں، کیونکہ وہ مایوس ہیں اور چاہتے ہیں کہ کوئی نیا لیڈر جنگ میں کامیاب ہو اور زندگی کو درست راستے پر لے آئے اور اگر حالات بہتر ہوئے تو وہ واپس آئیں گے۔"

اس نے بتایا کہ

"کچھ اسرائیلی ملک اس لیے چھوڑ رہے ہیں کیونکہ انہیں محسوس ہوتا ہے کہ یہ ملک ان کے لیے مناسب نہیں رہا اور یہ ایک انتہائی مشکل، متنازع اور ثقافتی طور پر غیر آرام دہ احساس ہے۔ اگرچہ ملک سالانہ 80 ہزار اسرائیلیوں کے جانے کو آسانی سے سہہ سکتا ہے کیونکہ آبادی بڑھ رہی ہے، لیکن یہ تمام 80 ہزار کے جانے کو آسانی سے نہیں سنبھال سکتا، خاص طور پر اگر یہ تمام لوگ ڈاکٹر ہوں، کیونکہ ملک میں ڈاکٹروں کی تعداد کم ہے اور اگر ان کے ساتھ 30 ہزار نرسیں بھی جائیں، تو واضح ہے کہ اس کا منفی اثر آبادیاتی طور پر بہت شدید ہوگا۔"

روزنیر نے کہا کہ

"یہ ہجرت دیگر حوالوں سے بھی بہت خطرناک ہے، کیونکہ صحت کا نظام ڈاکٹرز اور نرسوں کے بغیر کام نہیں کرے گا۔ اسرائیل کی موجودہ صورتحال میں یہ 80 ہزار کا ہجرت کرنا بڑا خطرناک ہے۔ 70 فیصد سے زائد ایسے لوگ ہیں جنہوں نے اعلیٰ ڈگری، ڈاکٹریٹ یا اس کے برابر تعلیم حاصل کی ہے۔

اسرائیل کے اندرونی انقسامات

غزہ کی جنگ نے اسرائیلی معاشرے کے اندر چھپے ہوئے تضادات اور نسلی تعصبات کو کھول کر رکھ دیا ہے۔ رپورٹوں کے مطابق، مشرقی یہودی یا سفاردی، جو اسرائیل کی آبادی کا اہم حصہ ہیں، اب بھی ثقافتی، تعلیمی، اقتصادی اور عدالتی نظام میں نمایاں طور پر کم نمائندگی رکھتے ہیں۔ دوسری جانب، مغربی نژاد اشکنازی یہودی ریاست کی تمام طاقت اور وسائل پر قابض ہیں، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیل کے اندر خود یہودی قوم کے درمیان بھی نسلی امتیاز گہرا ہے۔ اخبار یدیعوت احرونوت میں شائع مضمون میں دو معروف لکھاریوں یفعات بیتون اور سیغال ناغار رون نے لکھا کہ سفاردی یہودی ریاست میں منظم تعصب کا شکار ہیں اور انہیں بعض اوقات ’’نسلی شیطان‘‘ بھڑکانے کا الزام دیا جاتا ہے۔

اخبار معاریو میں لیؤرا مینکا جو مذہبی صہیونی خواتین تنظیم “ایمونا” کی سابق سربراہ ہے، نے انکشاف کیا کہ اسرائیل کے حریدی (انتہائی مذہبی) تعلیمی اداروں میں امتیاز ایک عام رجحان بن چکا ہے۔ ہر تعلیمی سال میں درجنوں طلبہ کو ان کی سفاردی نسل کی بنیاد پر داخلے سے محروم کر دیا جاتا ہے۔ جبکہ اسرائیل دو برسوں سے غزہ میں جاری خونی جنگ میں مصروف ہے اور سینکڑوں فوجی مارے جا چکے ہیں، وہیں دوسری طرف احتیاطی فوجی (ریزرو سروس) میں شامل کئی اہلکار جنگ میں حصہ لینے سے انکار کر رہے ہیں۔ اس کے برعکس حریدی طبقہ بدستور فوجی خدمت سے انحراف کرتا رہا ہے اور اپنی بھرتی کے خلاف طرح طرح کے مذہبی بہانے پھیلا رہا ہے، جیسا کہ صحافی صوفی رون موریا نے معاریو میں لکھا۔

جنگ کے بعد فوج میں اہلکاروں کی شدید کمی کے پیش نظر، اسرائیلی حلقوں میں یہ مطالبہ زور پکڑ رہا ہے کہ حریدیم کو لازمی طور پر فوجی خدمت کے دائرے میں لایا جائے۔ حتیٰ کہ بعض تجزیہ کاروں نے انکار کرنے والوں پر ذاتی سزائیں عائد کرنے کی تجویز دی ہے، تاکہ معاشرتی خلیج کو کم کیا جا سکے اور سیکورٹی کی ضروریات پوری ہوں۔ عالیزا بالوخ، جو اسرائیلی مرکز برائے تعلیمی امتیاز کی سربراہ ہے نے چینل 12 پر کہا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ اسرائیلی معاشرے میں کوئی بھی طبقہ خود کو ’’نیلے خون‘‘ والا یعنی اعلیٰ نسل کا نہ سمجھے۔

دوسری جانب، ایتائی لینڈزبرگ نیوو نے زمان اسرائیل میں لکھا کہ ملک میں مذہبیت کا رجحان خطرناک حد تک بڑھ رہا ہے۔ اس کے مطابق، مذہبی شدت پسند گروہ عبادت گاہوں کی تعمیر میں اضافہ، خواتین کو پبلک مقامات سے ہٹانے، بسوں اور فٹ پاتھوں پر مردوں اور عورتوں کی علیحدگی جیسے اقدامات پر زور دے رہے ہیں۔ بعض جگہوں پر خواتین کے لباس اور چہروں پر پردہ کے مطالبات بھی بڑھ رہے ہیں۔ یہ رجحان اسرائیل کو خودکشی کی راہ پر لے جا رہا ہے۔ ایریت روزنبلوم، جو تنظیم “دے فیملی” (The Family) کی بانی ہے، نے ویب سائٹ ویللا پر لکھا کہ مذہبیت میں اضافہ دراصل سیکولر اور مذہبی طبقے کے درمیان تقسیم کو خطرناک حد تک بڑھا رہا ہے۔ اس کے مطابق، اسرائیل کی شناخت ایک کثیر الثقافتی قومی شناخت سے بدل کر ایک مذہبی الگ تھلگ ریاست میں ڈھلتی جا رہی ہے۔

عامی باخار نے زمان اسرائیل میں تبصرہ کیا کہ دو سال کی جنگ کے بعد اسرائیل ایک ایسے جسم کی مانند ہو گیا ہے جس کے خلیات بکھر چکے ہیں، کچھ حریدی ہیں، کچھ کاہانی (انتہا پسند مذہبی قوم پرست)، کچھ لبرل اور یہ سب اب ایک دوسرے کو دشمن سمجھ کر آپس میں لڑ رہے ہیں۔ اسرائیلی معاشرہ ایک بیمار جسم کی طرح ہے جو اپنی شناخت اور وحدت کھو چکا ہے۔

اب صورتِ حال یہ ہے کہ اسرائیلی خود اپنے درمیان بڑھتی نفرت اور سیاسی تقسیم کو ’’تیسرے ہیکل کی تباہی‘‘ سے تشبیہ دینے لگے ہیں۔ ان کے نزدیک اگر یہ داخلی کشمکش یونہی بڑھتی رہی، تو وہ دن دور نہیں جب خود اسرائیلی ریاست اندر سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جائے گی۔ خدا کرے کہ وہ دن جلد دیکھنا نصیب ہو۔ آمین۔

(۱۰ اکتوبر ۲۰۲۵ء)

حماس اور اسرائیل کے درمیان معاہدے میں کیا طے پایا؟

شرم الشیخ میں پیر سے جاری مذاکرات کے نتیجے میں بالآخر جمعرات کی صبح امریکہ کی ثالثی میں تحریکِ مزاحمت (حماس) اور اسرائیل کے درمیان ایک تاریخی معاہدہ طے پا گیا، جو صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے امن منصوبے کے پہلے مرحلے کی نمائندگی کرتا ہے۔ یہ معاہدہ غزہ میں دو برس سے جاری خونریز جنگ کے خاتمے کی سمت ایک فیصلہ کن قدم سمجھا جا رہا ہے۔

معاہدے کا اعلان اور پس منظر

امریکی وزیرِ خارجہ مارکو روبیو نے واشنگٹن میں وائٹ ہاؤس اجلاس کے دوران صدر ٹرمپ کو سرگوشی میں یہ اطلاع دی کہ "غزہ کے لیے پہلا مرحلہ طے پا گیا ہے۔" اس کے بعد صدر ٹرمپ نے فوری طور پر اعلان کیا کہ "یہ معاہدہ ایک مضبوط اور دائمی امن کی ابتدا ہے، جو تمام فریقوں کے لیے انصاف پر مبنی ہوگا۔"

ذرائع کے مطابق یہ مذاکرات مصر، قطر، ترکی اور امریکہ کی مشترکہ نگرانی میں ہوئے۔ فریقین نے اس بات پر اتفاق کیا کہ جنگ بندی کے بعد تمام مغوی اسرائیلی شہریوں اور فوجیوں کی رہائی اور اسرائیلی فوج کے مکمل انخلا کو بیک وقت عملی جامہ پہنایا جائے گا۔

معاہدے کی بنیادی شرائط

1- فائر بندی

فریقین نے مکمل جنگ بندی پر اتفاق کیا ہے، تاہم اس کے نفاذ کا حتمی وقت جلد اعلان کیا جائے گا۔

2- قیدیوں کا تبادلہ

تحریکِ مزاحمت پیر کے روز تک 20 اسرائیلی قیدیوں کو زندہ حالت میں رہا کرے گی، جب کہ اس کے بدلے اسرائیل 2000 سے زائد فلسطینی قیدیوں کو آزاد کرے گا۔ ان میں 250 عمر قید کی سزا پانے والے اور 1700 جنگ کے دوران گرفتار شدگان شامل ہوں گے۔

3- لاشوں کی واپسی

امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کے مطابق، فریقین کے درمیان 28 اسرائیلی قیدیوں کی لاشوں کی واپسی پر بھی اتفاق ہوا ہے، جو مرحلہ وار عمل میں لائی جائے گی کیونکہ بعض کی شناخت اور مقامات کی تصدیق میں وقت درکار ہے۔

4- امدادی سامان کی فراہمی

معاہدے کے مطابق 400 ٹرک روزانہ غزہ میں داخل ہوں گے جو خوراک، پانی، دوائیں اور تعمیراتی مواد لائیں گے۔ یہ تعداد ابتدائی پانچ دن کے بعد مزید بڑھائی جائے گی۔

5- بے گھر شہریوں کی واپسی

جنوبی غزہ سے بے دخل کیے گئے ہزاروں خاندانوں کو اپنے علاقوں میں فوری واپسی کی اجازت دی جائے گی، خاص طور پر شمالی اور وسطی غزہ میں۔

6- اسرائیلی انخلا

امریکی نشریاتی ادارے اے بی سی نے وائٹ ہاؤس کے ایک سینئر اہلکار کے حوالے سے بتایا کہ اسرائیلی فوج کا انخلا 24 گھنٹے کے اندر مکمل کر لیا جائے گا اور فوجی اہلکار "طے شدہ حدِ فاصل" تک پیچھے ہٹ جائیں گے۔

معاہدے کی تصدیق اور عالمی ردعمل

قطر کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان ماجد الانصاری نے تصدیق کی کہ تمام فریقین نے پہلے مرحلے کے تمام نکات اور ان کے نفاذ کے طریقہ کار پر اتفاق کر لیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ "یہ معاہدہ جنگ کے خاتمے، قیدیوں کی رہائی اور انسانی امداد کے تسلسل کو یقینی بنائے گا، جب کہ آئندہ مراحل کے لیے بنیاد فراہم کرے گا۔"

اسرائیلی وزیرِ اعظم بنیامین نیتن یاہو نے جمعرات کے روز کابینہ کا اجلاس بلا کر معاہدے کی منظوری دینے کا اعلان کیا، جب کہ واشنگٹن نے بتایا کہ صدر ٹرمپ چند روز میں مصر کا دورہ کریں گے اور امکان ہے کہ وہ اسرائیلی پارلیمان (کنیسٹ) سے خطاب بھی کریں۔

ٹرمپ نے اپنے بیان میں کہا: "یہ دن دنیا کے لیے ایک عظیم دن ہے، عربوں، مسلمانوں، اسرائیلیوں اور امریکیوں سب کے لیے۔"

عوامی ردِ عمل

تل ابیب میں اسرائیلی شہریوں نے خوشی کا اظہار کیا، قیدیوں کے اہلِ خانہ نے ایک دوسرے کو گلے لگا کر جشن منایا۔ اسرائیلی میڈیا نے اسے "طویل ترین جنگ کے خاتمے کی امید" قرار دیا۔

دوسری طرف غزہ میں رات بھر تکبیر اور تسبیح کی صدائیں بلند رہیں۔ بجلی اور انٹرنیٹ کی بندش کے باوجود شہری سڑکوں پر نکل آئے، ایک دوسرے کو معاہدے کی خبر دیتے رہے۔ کئی صحافیوں نے جذباتی مناظر میں خوشی کے آنسو بہائے۔

اگلے مراحل

ابھی یہ واضح نہیں کہ غزہ کی انتظامیہ کس کے ہاتھ میں ہوگی۔ ٹرمپ کے 20 نکاتی امن منصوبے میں تجویز دی گئی ہے کہ اصلاح شدہ فلسطینی اتھارٹی کو بعد ازاں بین الاقوامی نگرانی میں حکومت سونپی جائے۔ اگلے مرحلے میں مذاکرات کا مرکز تحریکِ مزاحمت کے غیر مسلح ہونے، ٹیکنوکریٹ حکومت کے قیام اور بین الاقوامی امن کونسل کی نگرانی جیسے امور ہوں گے، جس کی سربراہی خود امریکی صدر کریں گے۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ معاہدہ بلاشبہ دو برسوں سے جاری خونی جنگ میں پہلی حقیقی پیش رفت ہے۔ اگر طے شدہ نکات پر عمل درآمد ہو گیا تو غزہ میں امن اور بحالی کے ایک نئے دور کا آغاز ممکن ہے۔ تاہم خطے کے ماہرین کے مطابق، اعتماد کی کمی، سیاسی بے یقینی اور زمینی حقائق اس عمل کے لیے اب بھی بڑے چیلنج ہیں۔ غزہ کے عوام کے لیے یہ لمحہ محض ایک وقفہ نہیں بلکہ امید کی کرن ہے، اس امید کی جو ملبوں کے درمیان اب بھی زندہ ہے۔ اللہ کرے کہ یہ امید بر آئے اور انہیں مستقل چین سکون نصیب ہو۔ آمین۔

(۹ اکتوبر ۲۰۲۵ء)


(الشریعہ — نومبر ۲۰۲۵ء)

الشریعہ — نومبر ۲۰۲۵ء

جلد ۳۶ ، شمارہ ۱۱

مسئلہ کشمیر کا مختصر جائزہ اور ممکنہ حل
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

غزہ کی جنگ بندی     /     تحریک لبیک کا معاملہ
ڈاکٹر محمد امین

کلامِ الٰہی کو سمجھنے کا ایک اُصول
الشیخ متولی الشعراوی

قرآن سے راہنمائی کا سوال
ڈاکٹر محمد عمار خان ناصر

حدیثِ نبوی ﷺ: شُبہات اور دِفاع کے درمیان، مسلمانوں پر کیا لازم ہے؟
الدکتور محمد طلال لحلو
طارق علی عباسی

فارغینِ مدارس کے معاشی مسائل و مشکلات اور حل
ڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی

مروّجہ نعت خوانی اور ہمارے نعت خواں
سید سلمان گیلانی

محمد نام رکھنے کے متعلق فضائل کی حقیقت
مفتی سید انور شاہ

محمد نام کے فضائل
جامعۃ العلوم الاسلامیۃ

متاعِ مطيع
پروفیسر میاں انعام الرحمٰن

اقوام عالم کی تہذیبوں کا تقابلی جائزہ
مولانا حافظ واجد معاویہ

حقوق الإنسان: فروق أساسية بين المنظور الإسلامي والغربي
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
مولانا حافظ فضل الہادی سواتی

The Kashmir Issue: A Brief Overview and Possible Solution
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

’’خطباتِ فتحیہ: احکام القرآن اور عصرِ حاضر‘‘ (۵)
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
مولانا ڈاکٹر محمد سعید عاطف

’’اسلام اور ارتقا: الغزالی اور جدید ارتقائی نظریات کا جائزہ‘‘ (۹)
ڈاکٹر شعیب احمد ملک
ڈاکٹر ثمینہ کوثر

ماہانہ بلاگ

پاکستان اور افغانستان کا ناخوشگوار تصادم — اہم نکات
مولانا مفتی منیب الرحمٰن

پاک افغان تعلقات اور ہماری یکطرفہ قومی پالیسیاں
مولانا فضل الرحمٰن

اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء کا فتویٰ نمبر ۱۹۴۰۲ اور ابراہیمی ہاؤس
اُمّہ ڈاٹ کام
صید الفوائد

قواعد و ضوابط برائے تحقیق و تصنیف اور اشاعت
اسلامی نظریاتی کونسل

تعلیمی کیریئر کب اور کیسے منتخب کرنا چاہیے؟
ڈاکٹر ناصر محمود
فخر الاسلام

+LGBTQ تحریک کا نظریاتی تجزیہ: جماعتِ اسلامی ہند کا سیمینار
السیرۃ

انڈیا  -  مڈل ایسٹ  -  یورپ   اقتصادی راہداری   (IMEC)
ادارہ الشریعہ

کسے گواہ کریں کس سے منصفی چاہیں
مولانا مفتی محمد تقی عثمانی

ڈونلڈ ٹرمپ کا غزہ منصوبہ اور مسلم حکمرانوں کا بیانیہ
حامد میر

غزہ میں حماس کی جنگ: دو سال میں کیا کھویا کیا پایا؟
مشاہد حسین سید
عاصمہ شیرازی

فلسطین:    غاصبانہ قبضہ اور حقِ خود ارادیت کا معاملہ
فاطمہ بھٹو

صہیونی ریاست زوال کے قریب — جنگ بندی معاہدے میں کیا طے پایا؟
ضیاء الرحمٰن چترالی

سات اکتوبر کے حملہ کے حوالے سے حماس پر الزامات کی حقیقت
دی کیٹی ہالپر شو

غزہ کے بارے میں امریکہ اور اسرائیل کا اصل پلان
دی ینگ ٹرکس

امریکہ اور اسرائیل کے باہمی تعلقات اور غزہ کے بارے میں اسرائیل کا اصل منصوبہ
بریکنگ پوائنٹس

غزہ جنگ بندی کی خلاف ورزی میں سینکڑوں فلسطینیوں کی شہادت
ورلڈ نیوز میڈیا

’’دریائے اردن سے بحیرۂ روم تک‘‘ کا نعرہ
ویکی پیڈیا

صمود فلوٹیلا: آغاز و مراحل اور اختتام و نتائج
ادارہ الشریعہ

مطبوعات

شماریات

Flag Counter