خطیب جامعہ فتحیہ لاہور مولانا ڈاکٹر محمد سعید عاطف صاحب کے مندرجہ پیغام اور شکریہ کے ساتھ اس نئے سلسلہ کا آغاز کیا جا رہا ہے: ’’جامعہ فتحیہ میں حضرت مولانا زاہد الراشدی نے احکام القرآن کے تناظر میں وقیع علمی خطبات ارشاد فرمائے۔ یہ ’’خطباتِ فتحیہ‘‘ کے عنوان سے تخریج و تعلیق اور تحقیق کے ساتھ اعلیٰ معیار پر دارالمؤلفین کی طرف سے شائع ہو گئے ہیں۔ آپ کی علم پروری سے امید ہے کہ مجلّہ الشریعہ کے ہر شمارے میں اس علمی ارمغان کے ایک خطبے کو نذرِ قارئین فرمائیں گے۔ خیراندیش‘‘
عرضِ مرتب
اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب خاتم النبیین ﷺ پر نازل ہوئی۔ جس کا مفہوم یہ ٹھہرا کہ ختمِ نبوت کے طفیل اب صبحِ قیامت تک انسانیت کو درپیش مسائل کا حل قرآن و سنت کی روشنی میں ہی پیش کیا جائے گا۔ ہماری چودہ صدیوں سے زائد کی شاندار علمی تراث اس کی آئینہ دار ہے کہ اپنے وقت کے شہ دماغوں نے کتاب و سنت پر غور و فکر کر کے تہذیبِ انسانی کو شاندار اُصول دیے۔ ان ائمہ محدثین و فقہاء کے اُصولِ استنباط اور فکر و نظر کے عمق اور وسعت سے قانونی اور تہذیبی دُنیا قیامت تک مستفید ہوتی رہے گی۔
احکام القرآن اپنی بنیادی حیثیت سے نزول کے وقت سے وہی ہیں لیکن عصری تغیرات و تمدنی ارتقا کے سبب ان کی تفسیر اور توضیح میں برابر وسعت آتی رہی ہے۔ قرآن مجید کے حِکم و بصائر سے استنباط کی بدولت اس کے متعدد معاون علوم وجود میں آئے، جن سے فہمِ قرآنی میں وسعت پذیری کا عمل جاری رہا۔ دورِ خلفائے راشدینؓ میں ان احکامات کو قرآن و سنت کی بنیادوں پر ہمہ پہلو وسعت ملی۔ یہ وسعت اصلاً مقاصدِ نبوت کی تکمیل ہی کی ایک صورت تھی۔ بالخصوص اس معاملہ میں فراستِ فاروقیؓ نے صحابہ کرامؓ کے اجتماعی فہم سے فائدہ اُٹھا کر قوانین کی تشکیل اور توسیع کا عمل تیز تر فرما دیا۔
تمام قوانینِ اسلامیہ پر برتری و حکمرانی کتابُ اللہ کی تھی اس لیے احکام القرآن بھی تمدنی و سماجی ضرورتوں سے لے کر قانونی و سیاسی ضرورتوں تک کی بخوبی تکمیل کرتے رہے اور ان احکام کی توضیح میں نو بہ نو توسیع بھی ہوتی رہی۔ اور یہ احکام القرآن کی وسعت پذیری تھی جس کے سبب علماء و مفکرین اپنے اپنے عہد میں اٹھائے گئے علمی، تہذیبی، قانونی سوالات کے جوابات دیتے رہے۔ علم و فقاہتِ قرآنی کا یہ قافلہ فقہاء و محدثین اور مفکرین کی سیادت میں صدیوں تک اپنی عقل و دانش سے دینی علوم کی آبیاری کرتا رہا۔ احکام القرآن میں بالخصوص قرآن مجید کے قانونی پہلوؤں سے بیسیوں نئی جہات دریافت ہوئیں۔ اُصولِ فقہ (Islamic Principle of Jurisprudence) کا شاندار علم بھی اصلاً احکام القرآن ہی کی تمدنی و قانونی وسعت کا مظہر ہے۔
برصغیر پاک و ہند میں امام شاہ ولی اللہ دہلوی (وفات: 1762ء) نے اپنے علوم کی بنیاد احکام القرآن کو ہی بنایا۔ آپ کی گراں قدر خدمات و علمی فتوحات کا ہدف بھی احکام القرآن کی توسیع اور اس کا اطلاق رہا ہے۔ ’’فتح الرحمٰن‘‘ اور ’’الفوز الکبیر‘‘ سے لے کر ’’حجۃ اللہ البالغہ‘‘ اور آپ کی دیگر تصانیف کا اگر استحصاء کیا جائے تو ان کا حاصل بھی قرآنی حکمت و بصیرت کا شیوع اور اس پر وارد اشکالات کا ازالہ ہے؛ اور قرآن کے سیاسی، معاشی و جملہ احکام اور نظام کا غلبہ ہی ان کی فکر کا حاصل و خلاصہ ہے۔
اہلِ علم میں صدیوں سے یہ روایت رہی ہے کہ وہ دیگر اہلِ علم سے اخذ و استفادہ کرتے رہے ہیں اور ایک دوسرے کے متعلق علمی رائے بھی دیتے چلے آئے ہیں۔ امام ابوحنیفہ اور امام مالک کی باہمی معاصرت نے ان کے باہمی اعترافِ علم اور حسنِ تعلق میں کوئی فرق نہیں آنے دیا۔ اسلاف کے ہاں یہ روایت علمی تصانیف و تالیفات میں بکثرت نظر آئے گی۔ بالخصوص ہمارے فقہاء نے جس طرح دلیل و برہان کی بنیاد پر دیگر ائمہ و اعیانِ دین سے علمی اختلاف کیا، تو وہیں دوسرے فقہاء کی مضبوط و مُحکم دلیل کے سامنے اپنے مؤقف سے رجوع بھی کیا؛ اور علمی رجوع کے اس عمل نے باہمی محبت و احترام میں کوئی فرق نہیں آنے دیا۔
عصری تغیرات اور تمدنی ارتقا کی بدولت گذشتہ صدی میں یہ رجحان ’’خطبات‘‘ کی صورت میں بدل گیا۔ اب اہلِ علم دیگر علاقوں و ممالک کے اہلِ دانش و اصحابِ تفقہ سے خطبات اور مکالمے کی صورت میں استفادہ کرتے ہیں۔ مولانا سید سلیمان ندوی کے خطباتِ مدراس، جو 1925ء میں دیے گئے، یہ فہمِ اسلام و تفہیمِ سیرت کے لیے بہت مفید ہیں، اور شاعرِ مشرق علامہ محمد اقبال کے خطباتِ اقبال The Reconstruction of Religious Thought in Islam (’’تشکیلِ جدید اِلہٰیاتِ اِسلامیہ‘‘) کے عنوان سے 1928ء کے اواخر اور 1929ء کی ابتدا میں دیے گئے جو 1930ء میں شائع ہوئے۔
ماضی قریب میں اس کی ایک نمایاں مثال ڈاکٹر محمد حمید اللہ کے ‘‘خطباتِ بہاولپور‘‘ ہیں (جو 1980ء میں دیے گئے)۔ آپ کے یہ گراں قدر خطبات اہلِ پاکستان کے لیے ارمغانِ علمی کی حیثیت رکھتے ہیں، اس کے بعد ڈاکٹر محمود احمد غازی کے سلسلہ محاضرات کو نمایاں حیثیت حاصل ہے۔ پھر اس سلسلہ خطبات کی روایت میں مختلف شخصیات نے اپنی علمی استعداد کے مطابق اضافہ کیا اور یہ مبارک علمی سفر ہنوز جاری ہے۔
سربرآوردہ اور اعلیٰ فکری صلاحیتوں کے حامل اجل علماء نے احکام القرآن کو اپنی تگ و تاز کا مرکز بنایا۔ ہمارے عہد میں یہ امتیاز ایک نمایاں علمی شخصیت مولانا زاہد الراشدی صاحب کو حاصل ہے۔ علومِ ولی اللّٰہی سے ان کی نسبت شعوری و خاندانی ہے اور ان علوم سے اشتغال و استدلال ان کا خاص ذوق ہے۔ اپنے عمِ محترم مولانا عبد الحمید سواتی سے ولی اللّٰہی افکار کی تفہیم اور ذوق آپ کو منتقل ہوا۔ بالخصوص مولانا سواتی کی ولی اللّٰہی انداز کی تفسیرِ قرآن نے، جو اصلاً احکام القرآن ہی کی ایک صورت ہے، ان سے اس شعبہ میں استنباط و استشہاد مولانا زاہد الراشدی صاحب کے حصہ میں آیا؛ اور اپنے والد گرامی مولانا محمد سرفراز خان صفدر کے تبحرِ علمی اور توازنِ تحقیق نے بھی آپ کے علمی مزاج کی تشکیل میں بنیادی کردار ادا کیا۔ نصف صدی سے سیاسی تحریکوں میں آپ کی عملی شرکت کے سبب سیاسی فراست اور عصریات کی نباضی کا ملکہ بھی آپ کے افکار میں نمایاں نظر آتا ہے۔ مولانا زاہد الراشدی صاحب کو ایک طرف دینی علوم میں رسوخ فی العلم حاصل ہے تو دوسری جانب عصری و عالمی حالات کی نزاکتوں کا بھر پور ادراک ہے۔ ان پہلوؤں کے سبب آپ میں جامعیت کا ایک مزاج تشکیل پا گیا ہے۔ اعتدال و توازن کے ساتھ ساتھ فراست و حکمت بھی قسامِ ازل نے آپ کو ودیعت فرمائی ہے۔ بصیرت اور حکمت کو علمی جرأت و شائستگی سے پیش کرنا آپ کا اختصاصی پہلو ہے جو اُنھیں عصرِ رواں میں منفرد و ممتاز بناتا ہے۔
آپ احکام القرآن کو آج کے عالمی (Global) تناظر میں غلبۂ دین اور اجتماعیت کے اُسلوب میں پیش کرتے ہیں۔ احکام القرآن کے ذریعے اسلام کا عقلی اور تہذیبی غلبہ آپ کا مقصد ہے۔ مغربی فکر کی تفہیم اور اس کے مطالعہ و مشاہدہ کی بدولت آپ اہلِ مغرب کے علمی، فکری اور سیاسی مزاج سے آشنا ہیں۔ آپ جب احکام القرآن کی عصری توضیح کرتے ہیں تو ہمیں اس میں دینی روایت سے گہرا تعلق اور عصری معنویت کی وسعت برابر دکھائی دیتی ہیں۔ آپ اسلام و اہلِ اسلام کا مقدمہ اہلِ مغرب کے سامنے بڑی متانت، سنجیدگئ فکر اور اخلاص کے ساتھ رکھتے ہیں۔ اہلِ مغرب کی کوئی خوبی نظر آئے تو اس کا برملا اعتراف و اظہار کرتے ہیں۔ فکرِ مغرب کی حاملین شخصیات کا احترام کے ساتھ حوالہ دیتے ہیں۔ کمال حکمت سے ان مغربی شخصیات کے طرزِ فکر پر کہیں نقد کرتے اور کہیں ان کے اعترافات سے نتائج اخذ کر کے عصری تناظر میں قرآنی احکام کی برتری ثابت کرتے ہیں۔
آج کی بین الاقوامی دنیا میں جس طرح ’’عالمی معاہدات کی حکومت‘‘ ہے، ان معاہدات کی حساسیت اور احکام القرآن کے ساتھ ان کا جہاں جہاں ٹکراؤ ہے، آپ اس کی نشاندہی کرتے ہیں۔ آپ نے دینی و علمی حلقوں کو ان بین الاقوامی معاہدات کے خطرناک مضمرات سے آگاہ و خبردار کیا ہے۔ آپ کے بیانات میں دانش و حکمت کے ساتھ ساتھ ایک تدریجی ترتیب ہوتی ہے۔ ہر بات کو مرحلہ بہ مرحلہ تسہیل کے ساتھ اپنے مخصوص لفظ ’’دائروں‘‘ میں بیان کرتے ہیں۔ دینی روایت کے ساتھ گہرا علمی و عملی تعلق اور جدید مغربی فکر سے جس درجہ آپ کی آشنائی ہے اس درجے کی اونچی شخصیات اب کم نظر آتی ہیں۔ زندگی میں سادگی اور فکر میں گہرائی و توازن آپ کا طرۂ امتیاز ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں تادیر ان کے علمی استنباط سے مستفید فرمائے۔
خطبات کا مختصر جائزہ
احکام القرآن کے عنوان سے موسوم یہ خطبات برصغیر کے قدیم علمی مرکز جامعہ فتحیہ (قائم شدہ: 1875ء) اچھرہ لاہور میں دیے گئے ہیں۔ جامعہ میں دیے گئے یہ خطبات ایک طرف سادہ اندازِ بیان کے حامل ہیں تو دوسری جانب حکمت و دانش کے ساتھ ساتھ عالمانہ تجزیے پر بھی مشتمل ہیں۔ ان خطبات میں عقائدِ اسلامیہ سے لے کر مسلمانوں کے سیاسی افکار اور معاشرت کے متعدد پہلو زیرِ بحث لائے گئے ہیں۔ عہدِ نبویؐ کے پاکیزہ ماحول کی مثالیں خطبات میں جابجا موجود ہیں۔ مولانا راشدی صاحب کا مطالعۂ مغرب عملی نوعیت کا بھی ہے۔ آپ نے مغرب اور امریکہ کے متعدد اسفار کیے ہیں، اس لیے آپ مغربی معاشرے کی خوبیوں اور کمزوریوں سے بخوبی آگاہ ہیں۔ مولانا نے بہت سادہ اسلوب میں حکیمانہ نکات کو پیش کیا ہے۔
مغرب میں خاندان کا ادارہ بکھرتا چلا جا رہا ہے۔ اہلِ مغرب اپنی سیاسی و معاشی پالیسیوں کے ذریعے اپنی تہذیبی اقدار کو پوری دُنیا اور بالخصوص مسلمانوں میں تیزی سے پھیلا رہے ہیں۔ ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کی امداد کی آڑ میں ایسے مطالبات بھی ساتھ ہی رکھ دیے جاتے ہیں جو مسلمانوں کی تہذیبی اقدار اور بالخصوص خاندانی نظام کے مخالف ہیں۔ اسی طرح اقوام متحدہ کے چارٹر کی متعدد دفعات اسلامی عقائد و افکار کے خلاف ہیں۔ آپ نے ضمناً ان کی نشاندہی کے ساتھ ساتھ ان کا تجزیہ کر کے انھیں مذہبی آزادیوں اور انسانی حقوق کے خلاف ہونا ثابت کیا ہے۔ اور علماء کو توجہ دلائی ہے کہ اس حساس پہلو پر اپنی علمی تو جہات مرتکز کریں۔
ان خطبات میں مولانا محترم نے اسلام کے خاندانی نظام پر وارد اعتراضات میں سے منتخب اعتراضات کا جواب بہت علمی وقار اور حکمت کے ساتھ دیا ہے۔ فیملی سسٹم کی اسلام میں اہمیت بتلائی ہے، مسلم معاشرے کے نمایاں خصائص اور محاسن بیان کیے ہیں۔ غلامی سے متعلق مغربی حلقوں کی غلط فہمیوں کا تاریخی حوالوں سے ازالہ کیا ہے۔ اسلام میں خاندان کی مرکزیت کو خاتم النبیین ﷺ کے اُسوہ کی روشنی میں پیش کر کے مغربی حلقوں کے اعتراضات کا جواب دیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ آپ نے مغربی معاشرے اور خاندان کو درپیش مسائل کی نشاندہی کرتے ہوئے ان پر متوازن تبصرہ کیا ہے۔ اس ذیل میں اُنھوں نے اپنے مشاہدۂ مغرب کی مثالیں بیان کی ہیں۔ اسی تناظر میں مسلم معاشرے و تہذیب کے تحفظ پر بھی حکیمانہ گفتگو فرمائی ہے۔
مولانا کی فکر میں نہ تو مغرب سے مخاصمت نظر آتی ہے اور نہ ہی مغربی اقدار و تصورات سے کسی درجہ کی مرعوبیت دکھائی دیتی ہے۔ آپ مغرب پر نقد کرتے ہوئے بھی ان کے اچھے پہلوؤں، جیسے انسان دوستی اور ڈسپلن وغیرہ کا برملا اعتراف کرتے ہیں۔ آپ ان خطبات میں پورے احترام کے ساتھ مغربی دانشوروں کی فکر کا حوالہ دے کر اس کا عقلی و معاشرتی تجزیہ کرتے ہیں۔ اس نقد و تجزیہ میں ہمیں کہیں بھی مغرب دشمنی نظر نہیں آتی۔ آپ رد عمل کی نفسیات کا شکار نہیں ہوتے بلکہ آپ کا انداز حکیمانہ اور دعوتی ہوتا ہے۔ تفہیمِ مغرب کا یہ اسلوب ہمارے علمی و مذہبی حلقوں میں اب کم کم پایا جاتا ہے۔ آپ مغرب کے ساتھ مناظرے کی بجائے مکالمے اور بریفنگ (Briefing) کے قائل نظر آتے ہیں۔
دینی افکار و شخصیات کے ساتھ ساتھ دینی مدارس بھی اہلِ مغرب کی مخصوص توجہ اور تنقید کا موضوع بنے ہوئے ہیں۔ بالخصوص برصغیر پاک و ہند بشمول بنگلہ دیش کے دینی مدارس، جو دینی علوم و اخلاق کے ساتھ ساتھ دینی تہذیب و اقدار کے عملی نمونے بھی پیش کرتے ہیں۔ مولانا نے عقلی بنیادوں پر ان مدارس کی اخلاقی و تہذیبی افادیت ثابت کی ہے۔ اہلِ مغرب اپنے سیاسی و معاشی تسلط کے زعم میں اپنے تہذیبی غلبے کو بھی لازمی سمجھتے ہیں۔ ان کی راہ میں دیگر رکاوٹوں کے ساتھ ساتھ ایک رکاوٹ راسخ العقیدہ مسلمان اور ان کی تہذیبی اقدار ہیں۔
مولانا محترم نے ان خطبات میں مدارسِ دینیہ کی تاریخ اور ان کی عزیمت و قربانی کے متعدد پہلو بیان کیے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ مدارس پر وارد اعتراضات کا حکیمانہ اور تجزیاتی انداز میں جواب بھی دیا ہے۔ آپ نے لبرل و آزاد حلقوں کے الزامات کے ساتھ ساتھ مغربی فکر سے مرعوب کچھ اپنوں کی غلط فہمیوں کو بھی دور کیا ہے؛ اور ثابت کیا ہے کہ ایک مسلم معاشرے میں عمدہ اخلاق، حسنِ معاشرت اور اعلیٰ اقدار کے تحفظ اور فروغ کے لیے مدارس کا وجود کس قدر ضروری ہے۔ دینی مدارس کی تعلیم و تزکیے میں خدمات بیان کی ہیں؛ اور ساتھ ہی سیاست میں ان مدارس کے اجتماعی کردار (Role) کے مثبت پہلو اجاگر کیے ہیں۔ اس حسنِ تفہیم کے ساتھ ساتھ آپ نے دینی مدارس کو اس فکری کشمکش میں ان کی ذمہ داریوں کا احساس بھی دلایا ہے۔ اس ضمن میں اُنھوں نے سوسائٹی اور مذہب کے باہمی تعلق کی ضرورت بتاتے ہوئے ثابت کیا ہے کہ فکری و اخلاقی ارتقا کے لیے اسلام سے پختہ تعلق کی کس قدر ضرورت ہے۔ اس درویش خدا مست کی جہاں بین نگاہ نے اہلِ مدارس کے لیے آئندہ اہداف کی تعیین بھی کر دی ہے۔
جامعہ فتحیہ میں دیے گئے آپ کے یہ خطبات عصری اور دینی دانش کا نمونہ ہیں۔ چونکہ یہ خطبات ہفتہ وار ہوتے تھے اس لیے ان میں ربط اور تسلسل کے لیے بقدر ضرورت تکرار رہی، ایسے مقامات کو مختصراً حذف کیا گیا، جہاں تکرار طویل ہو گئی تو وہاں اوّل بحث کا حوالہ دے دیا ہے۔ ان خطبات میں ہر طبقے کے لوگ شریک ہوتے تھے، اس لیے کئی نکات کو سادہ انداز سے بیان کیا گیا ہے۔
ہم نے ان خطبات کی ترتیب و تہذیب میں ایک دو مقامات پر آپ کے فکر انگیز اخباری کالموں سے بھی استفادہ کیا ہے۔ یہ کالم اپنے اختصار اور موضوع سے مناسبت کی بنا پر شامل کرنے ضروری سمجھے گئے۔ عصری دانش اور عدالت میں فروکش شخصیت جناب جسٹس بدیع الزمان کیکاؤس کی طرف سے اُٹھائے گئے چند اہم سوالات کے جوابات بھی ’’انسانی اجتماعیت کے جدید تقاضے اور اسلام کا عادلانہ نظام کے عنوان‘‘ سے شامل کیے ہیں۔ یہ سوالات بظاہر تو سوالات ہیں لیکن یہ اصل میں لبرلز حلقوں کی طرف سے اُٹھائے گئے اعتراضات ہیں۔ مولانا زاہد الراشدی صاحب نے کمال جامعیت و توازن کے ساتھ قرآن و سنت اور فکرِ اسلامی کی روشنی میں شائستہ علمی لہجے میں ان کے جوابات تحریر فرمائے ہیں۔ یہ اشکالات اب بھی پیدا کیے جا رہے ہیں۔ یہ جوابات بھی بنیادی طور احکام القرآن کی جہت سے ہیں۔ اس تناظر میں ان کا شمول بھی اس مجموعہ خطبات میں ضروری سمجھا گیا۔
حضرت استاذ زادہ صاحب کے خطبات میں وارد آیات و احادیث کی تخریج کی گئی ہے۔ کہیں حوالہ دیا گیا ہے اور کسی جگہ ضرورت سمجھتے ہوئے پوری روایت درج کی ہے۔ دورانِ خطبات جن جملوں کی تکرار ہوئی انھیں حذف کر دیا ہے۔ بسا اوقات دورانِ گفتگو جملوں کی ترتیب میں الفاظ کی تقدیم و تاخیر ہو جاتی ہے، ایسے مقامات کو تحریری انداز میں بدلا گیا ہے۔ بسا اوقات دورانِ گفتگو جملوں کی ترتیب کو تحریر میں بدلنے کے لیے متعدد تبدیلیاں کرنی پڑی ہیں۔ یہ کام بھی بہت احتیاط سے سرانجام دیا گیا ہے۔ پھر بھی کوشش کی ہے کہ گفتگو کی بے ساختگی برقرار رہے۔ آخر میں مصادر کی فہرست بھی لگا دی ہے۔ جناب محمد شاہد حنیف (MLIS) نے محنت کے ساتھ فنی بنیادوں پر جامع اشاریہ مرتب کر دیا ہے، اس سے متعلقہ موضوع، شخصیت و مقام تک رسائی آسان تر ہو گئی ہے۔ اپنی طرف سے کوشش کی ہے کہ ان خطبات کی پیش کاری (Presentation) میں کوئی فنی کمی نہ رہے۔ پھر بھی احتیاطاً یہ خطبات مولانا راشدی صاحب کے سامنے رکھے گئے۔ آپ نے انھیں بالتفصیل دیکھ کر اپنے قلم سے اصلاح و تصویب فرمائی اور مخلصانہ و محبانہ دعاؤں سے بھی نوازا۔
یہ طالب علم حضرت الاستاذ مولانا سرفراز خان صفدر اور علومِ ولی اللّٰہی کے شناور مولانا عبد الحمید سواتی کا ادنیٰ شاگرد ہے۔ اس عالی خانوادے سے علمی و تربیتی نہج کا فیض پایا ہے۔ شعوری و فکری تعلق کے ساتھ ساتھ اس نسبت سے بھی حضرت استاذ زاده (مولانا راشدی صاحب) سے شعوری محبت، عقیدت اور تعلقِ خاطر ہے۔ اللہ ان کی دانش و حکمت اور اس علمی خانوادہ کے فیضان سے اہلِ علم کو تادیر مستنیر فرمائیں۔
ہم دارالمؤلفین کے رُکن جناب ڈاکٹر ضیاء الحق قمر کے خصوصی طور پر ممنون ہیں، ان کی مشاورت سے کئی مراحل طے ہوئے۔ ان خطبات کی کمپوزنگ، تخریج اور دیگر حوالوں سے ہمیں مولانا ضیاء الرحمٰن صاحب کا خصوصی تعاون حاصل رہا، اس مجموعۂ خطبات کی ترتیب اور تشکیل میں ان کے مشوروں سے بھی استفادہ جاری رہا، ہم ان کے بھی شکرگزار ہیں۔
برادر گرامی حافظ میاں محمد نعمان صاحب (مہتمم جامعہ فتحیہ) کی علم دوستی کے سبب مولانا راشدی صاحب سے جامعہ میں اہلِ لاہور مستفید ہوئے ہیں۔ مہتمم صاحب اکثر خطبات میں اہتمام کے ساتھ شریک ہوئے۔ ہمارے ذمے مہتمم صاحب کا اور برادر محترم میاں محمد عفان (ناظم جامعہ فتحیہ) کا شکریہ ازبس لازم ہے۔ ان کی توجہ، حسنِ انتظام اور اہلِ علم سے محبت و اکرام ور مہمان نوازی کے سبب دانش و حکمت کی یہ بزم سجی رہی۔ اور اُن خطبات کی سماعت کے لیے دور دور سے تشنگانِ علم جامعہ فتحیہ تشریف لاتے رہے۔
جامعہ فتحیہ ڈیڑھ صدی کی دینی و تہذیبی روایات کا حامل عظیم علمی مرکز ہے۔ ان خطبات کے سبب جامعہ کی علم پروری کی تاریخ میں ایک روشن اور تابناک باب کا اضافہ ہوا ہے۔ رب تعالیٰ مولانا کی ذاتِ گرامی سے مستفیض فرمائے۔ اللہ تعالیٰ اس سراجِ علم (جامعہ فتحیہ) کی ضوفشانی کو تادیر قائم رکھیں۔
تقدیم
یہ حقیقت ہے کہ جب تک اپنے عہد کی فکری و علمی آگہی نہ ہو تب تک نتیجہ خیز علمی مکالمے کا امکان نہیں رہتا۔ ہمارے جلیل القدر فقہاء نے اپنے عہد کے علمی چیلنجز کو قانونی اور تمدنی میدان میں قبول کر کے ان کا فقہی لٹریچر کی صورت میں شاندار جواب دیا۔ یہ جواب تبھی ممکن ہوا جب انھیں عصری تقاضوں سے کامل آگہی ہوئی۔ اس تناظر میں اہل علم کا یہ قول عصری علمی دانش کا مظہر ہے کہ من لم یعرف بعرف اہل زمانہ فھو جاھل (جو اپنے زمانے کے تقاضوں سے واقف نہ ہو تو وہ حقیقتاً جاہل ہے)۔
ہمارے عہد کی ایک محترم، ذی وقار اور نمایاں علمی شخصیت مولانا زاہد الراشدی صاحب کی ہے۔ آپ کو اللہ نے ایک طرف دینی روایت سے کامل ہم آہنگی کی بدولت رسوخ فی العلم سے نوازا ہے تو دوسری جانب آپ کی نمایاں خصوصیت عصرِ رواں اور بالخصوص مغربی فکر سے آگہی ہے۔ ان دونوں پہلوؤں کے سبب حضرت راشدی صاحب کی شخصیت میں ایک خاص جامعیت اور توازن آگیا ہے۔
مولانا راشدی صاحب کو اللہ تعالیٰ نے اپنے عہد کے تقاضوں کی جو بصیرت اور ان کا فہم عطا کیا ہے وہ خاصے کی چیز ہے۔ اسی تناظر میں آپ نے ’’احکام القرآن‘‘ کی عصری تطبیق اور توضیح پر فاضلانہ خطبات ارشاد فرمائے اور اُن خطبات میں اپنے عہد کے سوالات کا علمی انداز میں جواب دیا ہے۔ آج کی معاصر دُنیا جدید ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا کی بدولت اپنے فوائد اور نقصانات سمیت تیز تر ہو گئی ہے۔ ان کے پھیلائے گئے مغالطوں کا ادراک، عالمی قوتوں کی گہری سیاسی چالیں، مذہب بیزاری، اور ترقی پذیر دنیا کے وسائل کا استحصال؛ ایسے مغربی مقاصد کا فہم جب تک نہ ہو تب تک جوابی حکمتِ عملی تیار نہیں کی جا سکتی۔ مولانا نے جامعہ فتحیہ میں دیے گئے ان خطبات میں مغرب کے مقابلے کی حکمتِ عملی کا نقشہ بھی پیش فرمایا اور اُن سے مکالمہ کرنے کے اسلوب کی بھی نشان دہی فرمائی ہے۔
ہمارے ہاں مطالعہ و فہمِ مغرب کا رجحان بہت کمزور ہے۔ ہمارے اکثر حلقے اہلِ مغرب کے متعلق یک طرفہ رائے رکھتے ہیں۔ دورانِ تعلیم مجھے مغرب کو دیکھنے اور سمجھنے کا موقع ملا، اس قیامِ مغرب کے مشاہدے کی روشنی میں جب تجزیہ کرتا ہوں تو صاف محسوس ہوتا ہے کہ ہمارا فہمِ مغرب کا معیار سطحی ہے۔ ضرورت ہے کہ مغرب کو سیاسی اور تاریخی تناظر کے ساتھ ساتھ سماجی تناظر میں بھی سمجھا جائے۔ جہاں ان کی متعدد خرابیاں اور کمزوریاں ہیں ان کی نشاندہی کر کے تجزیاتی انداز میں اس پر تبصرہ کیا جائے۔ ساتھ ہی اہلِ مغرب کی معاشرتی خوبیوں: پاپندئ وقت اور صفائی و صحت وغیرہ کا بھی کھلے دل سے اعتراف کیا جائے۔
ہماری یہ خوش قسمتی ہے کہ مولانا زاہد الراشدی صاحب ان شخصیات میں سے ہیں جنھوں نے مغربی ممالک و امریکہ کے کثیر اسفار کیے اور اُن کے اہلِ دانش سے براہِ راست مکالمے کے ذریعے مغرب و امریکہ کو سمجھا ہے۔ اس لیے آپ کے ہاں یک طرفہ رائے اور ردعمل کی نفسیات نہیں ہے بلکہ وہ علمی مسلّمات کے ذریعے مغربی فکر کا تجزیہ کرتے ہیں۔ ضرورت ہے کہ آج کی مذہبی دانش بھی مولانا کی طرح مغرب کو سمجھے تاکہ ہم مغرب و اہلِ مغرب کی پھیلائی گئی غلط فہمیوں سے آگاہ ہو سکیں۔ مولانا راشدی صاحب نے اہلِ مغرب سے معاندانہ انداز کی بجائے مفاہمتی اور باہمی مکالمہ کا اسلوب تجویز کیا ہے اور آج کے حالات میں اسی کی ضرورت ہے۔
مولانا کے یہ ’’خطباتِ فتحیہ‘‘ ہمارے لیے ایک علمی اعزاز ہیں۔ آپ نے رواں سادہ اسلوب میں مُحکم دلائل کے ساتھ اہلِ دین کا مقدمہ پیش کیا ہے۔ دینی مدارس کے تحفظ اور بقا کے لیے بڑی فراست اور جرأت کے ساتھ اپنا نقطہ نظر رکھا ہے۔ اور اہلِ مدارس کے لیے مستقبل کے راستوں کی نشاندہی بھی کی ہے۔ یقیناً یہ سلسلۂ خطبات اہلِ ذوق کے ہاں حسبِ روایت پذیرائی حاصل کرے گا۔ اور اہلِ علم حضرات اس طرح کے علمی خطبات کی روایت کو آگے بڑھائیں گے۔
میرے تعلیمی ساتھی (Class Fellow) اور جامعہ فتحیہ کے فاضل و خطیب مولانا ڈاکٹر حافظ محمد سعید عاطف صاحب نے ان خطبات کو بڑے اہتمام سے تحقیقی انداز سے مرتب کیا ہے، وہ ہمارے شکریہ کے مستحق ہیں۔ اللہ تعالیٰ جامعہ فتحیہ کو اپنی روایت کے مطابق اہلِ علم، اربابِ تحقیق اور اصحابِ دانش کا مرکز بنائے؛ اور ہم دینِ متین کو اپنی روایت کی روشنی میں عصری تقاضوں کے مطابق دُنیا کے سامنے پیش کرتے رہیں۔ رب تعالیٰ اس عہد کے اہلِ علم کو حضور اکرم ﷺ کی سنت کی تعبیر و تشریح اور اس کی عصری تطبیق کی توفیق سے نوازیں۔