ڈونلڈ ٹرمپ کا غزہ منصوبہ اور مسلم حکمرانوں کا بیانیہ

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم، السلام علیکم۔

پاکستان سمیت بہت سے جو مسلم ممالک ہیں ان کے حکمرانوں کے لیے ایک نئی مشکل پیدا ہو چکی ہے۔ ان حکمرانوں کو اس مشکل کا ابھی تک احساس تو نہیں ہو رہا لیکن ہم پہلے بھی ان کو اس مشکل سے آگاہ کر رہے تھے، اب مشکل پیدا ہو چکی ہے، دوبارہ آگاہ کر رہے ہیں۔ یہ مشکل نہ تو ان کے لیے کسی دہشت گرد تنظیم نے پیدا کی ہے، یعنی نہ تو القاعدہ نے کی ہے، نہ ٹی ٹی پی نے کی ہے، نہ ہی یہ مشکل جو ہے پاکستان کے حکمرانوں کے لیے پی ٹی آئی نے پیدا کی ہے، نہ ہی ٹی ایل پی نے پیدا کی ہے۔ یہ مشکل جو ہے یہ پیدا کی ہے بنجمن نیتن یاہو پرائم منسٹر آف اسرائیل نے۔ اور یہ مشکل کیسے پیدا کی ہے؟ یہ میں ابھی آپ کو بتاتا ہوں۔

غزہ امن معاہدہ کتنا پائیدار؟

جب کچھ دن پہلے مصر کے شہر شرم الشیخ میں ڈونلڈ ٹرمپ صاحب جو ہیں ان کو بلا کر غزہ کے امن معاہدے پر دستخط کیے گئے تو بہت سے جو مسلم ممالک کے حکمران ہیں انہوں نے بڑے فتح کے شادیانے بجائے اور پوری دنیا کو یہ بتایا جی کہ یہ ایک نئے دور کا آغاز ہے۔ اور ڈونلڈ ٹرمپ نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ جی ہزاروں سال پرانا جو مسئلہ فلسطین ہے وہ حل کی طرف جا رہا ہے۔ 

لیکن آپ یاد کریں کہ اس وقت بھی میں نے آپ کو خبردار کیا تھا کہ یہ غزہ امن معاہدہ جو ہے، ایک مثبت پیشرفت ہے، پازیٹو ڈیویلپمنٹ ضرور ہے، ہم سب غزہ میں سیزفائر چاہتے ہیں، ہم سب غزہ میں امن چاہتے ہیں، لیکن میں نے آپ کو بار بار یہ کہا تھا کہ نیتن یاہو کا جو ٹریک ریکارڈ ہے اس کو سامنے رکھیں تو لگتا نہیں کہ اس پہ عملدرآمد ہوگا۔ اور میں نے یہ بھی بار بار کہا کہ جو ڈونلڈ ٹرمپ ہیں یہ ایک ناقابل اعتبار شخص ہے۔ 

اور یاد کریں جب اسرائیلی پارلیمنٹ کی جو کاروائی ہے وہ براہ راست پاکستان سمیت بہت سے مسلم ممالک کے ٹی وی چینلز پہ دکھائی گئی جس میں ڈونلڈ ٹرمپ جو ہیں وہ نیتن یاہو کی تعریفیں کر رہے ہیں، نیتن یاہو سامنے بیٹھ کر تالیاں بجا رہے ہیں ڈیسک بجا رہے ہیں، تو وہ تقریر تھی جو ڈونلڈ ٹرمپ کی وہ مستقبل کا منظر سمجھنے کے لیے کافی تھی۔ اور پتہ چل رہا تھا کہ جیسے ہی حماس اسرائیل کے یرغمالیوں کو رہا کرے گی تو اس کے بعد نیتن یاہو جو ہے وہ اس غزہ امن پلان یا سیزفائر کی ایسی تیسی کر دے گا۔

اب آپ وہ جو پرانے وی لاگز ہیں وہ نکال کے دیکھ لیجیے، لیکن میں آپ کو بتاتا ہوں کہ میں یہ بات کیوں کر رہا تھا؟ اس لیے کہ میں بہت ریگولرلی جو اسرائیلی اخبارات ہیں اور ٹی وی چینلز ہیں ان کو مونیٹر کرتا ہوں۔ تو یہ دیکھیے یہ ٹائمز آف اسرائیل جو ہے یہ کیا کہہ رہا تھا، ٹائمز آف اسرائیل نے صاف صاف کہا:

Forging a durable peace for Gaza? Obviously impossible … but Trump did get all 20 living hostages back.

ٹائمز آف اسرائیل جو ہے اس نے کوئی لگی لپٹی نہیں رکھی، اس نے صاف صاف کہا کہ غزہ میں امن ومن تو کوئی نہیں ہونا لیکن ٹرمپ صاحب جو ہیں ان کا کمال یہ ہے کہ وہ جو اسرائیل کے 20 یرغمالی ہیں ہوسٹیجز ہیں وہ ان کو واپس لے آئے ہیں۔

نیتن یاہو کا بیان اور غزہ میں مسلم فوج کا امکان

اور پھر اس کے بعد کیا ہوا؟ اس کے بعد نیتن یاہو صاحب جو ہیں انہوں نے ایک بیان دیا، بڑا واضح بیان تھا، جس کو کہ مغربی میڈیا نے رپورٹ کیا۔ یہ میرے پاس دی گارڈین، لندن سے شائع ہوتا ہے دی گارڈین، یہ اس کی سٹوری ہے، ہیڈ لائن ہے، یہ کیا کہہ رہی ہے:

Israel will disarm Hamas and demilitarise Gaza, says Netanyahu.

یعنی غزہ امن پلان میں جو کام ٹرمپ صاحب نے کہا تھا کہ انٹرنیشنل فوج آئے گی، اسلامی ممالک کی فوج آئے گی، وہ غزہ کو ڈی ملیٹرائز کرے گی اور وہ وہاں پہ امن قائم کرے گی، نیتن یاہو نے اس کی بھی ایسی تیسی پھر دی۔ اس نے کہا نہیں بھئی، یہ جو بھی کرنا ہے نا یہ اسرائیلی فوج نے کرنا ہے اور یہ ہم کریں گے۔ تو اس کے بعد تو کوئی شک کی گنجائش نہیں رہ گئی تھی کہ جو ٹرمپ کا غزہ پیس پلان ہے اس کا کوئی مستقبل نہیں ہے اس نے کامیاب نہیں ہونا۔

لیکن آپ دیکھیں کہ پاکستان سمیت بہت سے جو مسلم ممالک ہیں، ان کے جو حکمران ہیں، وہ اپنے عوام کو یہ سمجھانے کی کوشش کرتے رہے، یہ دعوے کرتے رہے ان کے سامنے کہ جناب ہم نے ٹرمپ کے ساتھ مل کے ایک بہت بڑا کام کر دیا ہے اور ہم نے تو غزہ والے جو ہیں ان کو امن دے دیا ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا کہ اب جب کہ غزہ والے جو ہیں، حماس والے جو ہیں، انہوں نے اسرائیل کے ساتھ ایک پیس ڈیل کر لی ہے تو بھئی آپ پاکستان میں شور کیوں مچا رہے ہیں؟ کیا ضرورت ہے آپ کو، انہوں نے تو صلح کر لی، حماس نے۔

جبکہ کوئی صلح ولح نہیں ہوئی تھی اور اس سو کالڈ جو شرم الشیخ میں معاہدہ ہوا تھا اس پہ عملدرآمد تو دور کی بات ہے اس پہ جب دستخط ہو گئے اس کے بعد بھی سب کو پتہ تھا کہ اس پہ کوئی عملدرآمد نہیں ہونا۔ اب یہ جو صورتحال تھی اس کے باوجود کچھ لوگ اس امید کا اظہار کرتے رہے کہ جناب ہو سکتا ہے کہ کوئی نہ کوئی بریک تھرو ہو جائے، کوئی اس غزہ کے امن معاہدے پہ عملدرآمد ہو جائے۔ 

مسلم حکمرانوں کا بیانیہ

لیکن جناب اب نیتن یاہو نے ایک ایسا کام کر دیا ہے کہ اس کے بعد تو اب ٹرمپ کے اس غزہ پیس پلان سے کوئی امید قائم رکھنا جو ہے وہ بے وقوفی کے سوا تو کچھ نہیں ہو گی۔ نیتن یاہو صاحب نے کیا کیا ہے؟ انہوں نے ٹرمپ کے لیے نہیں بلکہ پاکستان سمیت تمام مسلم ممالک کے جو سربراہان ہیں جو حکومتیں ہیں ان کے لیے ایک مشکل پیدا کر دی ہے۔ مشکل کیا پیدا کی ہے کہ یہ جو پاکستان سمیت بہت سے مسلم ممالک کی حکومتیں تھیں، یہ ایک نیریٹو، ایک بیانیہ بنا رہی تھیں کہ جناب حماس نے تو اسرائیل سے دوستی کر لی، غزہ والوں نے تو اسرائیل سے امن معاہدے پہ دستخط کر دیے، تو اب یہ آپ لوگ جو ہیں پاکستان میں بنگلہ دیش میں انڈونیشیا میں، آپ لوگ ان مسلم ممالک میں بیٹھ کے کیوں جناب فلسطینیوں کے لیے آنسو بہا رہے ہیں؟ یہ تھا نا نیریٹو؟ ابھی بھی آپ کے پاکستان کی حکومت کے بہت سے جو وزراء ہیں، ابھی بھی وہ یہ بات کرتے ہیں کہ غزہ والوں نے تو اسرائیل سے دوستی کر لی، انہوں نے تو ان کے ساتھ امن معاہدہ کر لیا، یہ آپ کیوں شور مچا رہے ہیں؟ 

اسرائیلی پارلیمنٹ میں مغربی کنارے کی خودمختاری کا بل

تو بھئی اب آپ کو یہ بتانا ہے کہ شاید آپ کو نہیں پتہ کہ اسرائیل کی جو پارلیمنٹ ہے اس نے ایک بل منظور کر لیا ہے۔ دوبارہ میں آپ کو دی گارڈین کی ایک ہیڈ لائن دکھانا چاہتا ہوں۔ یہ ہے جی ہیڈ لائن۔ وہ کیا کہہ رہی ہے:

Israel's West Bank annexation moves threatening Gaza Peace Deal, says Marco Rubio.

کون کہہ رہا ہے؟ ٹرمپ کا سیکرٹری آف سٹیٹ، ٹرمپ کا وزیر خارجہ۔ وہ کہہ رہا ہے کہ اسرائیل کی پارلیمنٹ نے ویسٹ بینک پر جو قبضے کے لیے فیصلہ کیا ہے، ایک ریزولیوشن منظور کر لیا ہے، ایک بل منظور کر لیا ہے، اس سے غزہ  پیس ڈیل خطرے میں پڑ گئی ہے۔ یہ مارکو روبیو صاحب کہہ رہے ہیں۔

تو جناب یہ ایکچوئلی ہوا کیا ہے؟ ہوا یہ ہے کہ جو دریائے اردن کا مغربی کنارہ ہے اس کو ویسٹ بینک کہا جاتا ہے۔ اور ویسٹ بینک جو ہے یہ اس فلسطینی ریاست میں شامل ہونا تھا جس فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے پاکستان، سعودی عرب، مصر، تمام مسلم ممالک جو ہیں انہوں نے پچھلے دنوں ایک قرارداد منظور کی، یونائٹیڈ نیشنز میں بھی قرارداد منظور کی گئی، برطانیہ، فرانس، یہ تمام جو ویسٹرن کنٹریز ہیں یہ بھی اس فلسطینی ریاست کو سپورٹ کر رہے ہیں جناب کہ جس میں غزہ بھی شامل ہوگا اور ویسٹ بینک بھی شامل ہوگا۔

ایک آپ نے نعرہ سنا ہوگا ’’فرام دی ریور ٹو دی سی‘‘ (from the river to the sea)۔ ریور کا مطلب ہے دریائے اردن کا مغربی کنارہ۔ اور سی کا مطلب یہ ہے کہ غزہ کی پٹی پر جو سمندر ہے، غزہ ایک ساحلی شہر ہے۔ تو وہاں تک فلسطین ہے۔ یہ جو فلسطینی ہیں ان کا نعرہ بھی ان کی ایک آزاد جو ریاست ہے وہ اس کی نمائندگی کرتا تھا۔

تو اسرائیل جو ہے پہلے تو اس نے غزہ پیس پلان کی دھجیاں بکھیریں۔ پہلے یہ کہا کہ ہاں ہم اپنی فوج واپس بلا لیں گے۔ جب حماس نے ان کے یرغمالی چھوڑ دیے تو اب نیتن یاہو کہہ رہا ہے کہ ہم نے تو غزہ سے واپس نہیں جانا، ہم تو خود حماس کو ڈی ملیٹرائز کریں گے۔ اور اب اسرائیل کی پارلیمنٹ نے، دریائے اردن کا جو مغربی کنارہ ہے، وہاں پر اس نے قبضہ کرنے کے لیے ایک فیصلہ کر لیا ہے، اپنی پارلیمنٹ کے فورم پہ یہ فیصلہ کیا ہے، جس پہ کہ امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ مارکو روبیو صاحب بھی پریشان ہو گئے ہیں۔

تو یہ ایک بہت ہی تشویشناک صورتحال ہے اور یہ جو مارکو روبیو کی سٹیٹمنٹ ہے یہ صرف ٹرمپ ایڈمنسٹریشن کی پریشانی ظاہر نہیں کرتی، یہ آپ ذرا سوچیں کہ آنے والے دنوں میں جب اسرائیل غزہ کے بعد اب ویسٹ بینک پر بھی قبضہ کرنے کی کوشش کرے گا، وہاں پر بھی وہ قتل عام کرے گا، وہاں پر بھی وہ ہولوکاسٹ شروع کرے گا، تو اس کے بعد ہوگا؟ کیا پاکستان اور جو دیگر مسلم ممالک ہیں، وہاں کی جو حکومتیں ہیں، انہوں نے جو ایک بیانیہ بنایا تھا اس بیانیہ کی بھی دھجیاں نہیں بکھر جائیں گی؟ یہ ہے وہ مشکل جو نیتن یاہو پیدا کرنے والا ہے۔

اسرائیل کے متعلق مغربی ممالک میں عوامی رائے کی تبدیلی

اور ابھی کچھ مزید مشکلات بھی میں ذکر کروں گا لیکن پہلے میں آپ کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اب ٹرمپ ایڈمنسٹریشن کے لیے کیا مشکلات پیدا ہو گئی ہیں؟ ٹرمپ کے لیے سب سے بڑی مشکل یہ پیدا ہو گئی ہے کہ جو امریکہ کا پبلک اوپینین ہے وہ اسرائیل کے خلاف ہو گیا ہے۔ تو اب یہ جو پبلک اوپینین خلاف ہو گیا ہے اسرائیل کے، اس کی خبر ہمیں کون دے رہا ہے؟ اس کی خبر ہمیں دے رہا ہے نیویارک ٹائمز۔ نیویارک ٹائمز کہہ رہا ہے:

American's support for Israel dramatically declines.

یہ ہے جی، میں نے اس کا پرنٹ نکالا ہے۔ نیویارک ٹائمز نے ایک سروے کیا ہے اور اس سروے میں نیویارک ٹائمز یہ بتا رہا ہے جی کہ

In the aftermath of the Hamas-led attacks on Israel on Oct. 7, 2023, American voters broadly sympathised with Israelis over Palestinians, with 47 percent siding with Israel and 20 percent with Palestinians. In the new poll, 34 percent said they sided with Israel, and 35 percent with Palestinians. 31 percent said they were unsure or backed both equally.

7 اکتوبر 2023ء کو جب حماس نے اسرائیل پر حملہ کیا تھا تو اس وقت 47 پرسنٹ جو امریکی ہیں وہ اسرائیل کے ساتھ کھڑے تھے اور 20 فیصد امریکی جو ہیں وہ فلسطینیوں کے ساتھ تھے۔ لیکن اب 2025ء میں سروے کیا ہے نیویارک ٹائمز نے کہ اب اسرائیل کی حمایت 34 فیصد ہے اور فلسطینیوں کی حمایت 35 فیصد ہے (اور 31 تذبذب میں ہیں یا دونوں کے ساتھ ہیں)۔ کہاں پہ؟ امریکہ میں۔ اب یہ نیویارک ٹائمز کی خبر ہے۔

لیکن امریکہ میں ایک پیو ریسرچ سینٹر ہے (Pew Research Center) جو پبلک اوپینین کو مونیٹر کرنے والا اور اس کا اندازہ لگانے والا سب سے کریڈیبل ادارہ ہے۔ یہ پیو کی رپورٹ بھی میرے پاس ہے۔ میں آج آپ کو ساری ایویڈنس بھی ساتھ ساتھ دکھا رہا ہوں۔ پیو کہہ رہی ہے جی کہ 

39% now say Israel is going too far in its military operation against Hamas. 
59% now hold an unfavourable opinion of the Israeli government.

59 پرسنٹ امریکنز جو ہیں ان کی اوپینین اسرائیلی حکومت کے بارے میں اَن فِیوریبل (غیرحمایتی) ہو گئی ہے۔ تو اس لیے مارکو روبیو صاحب جو ہیں وہ پریشان ہیں، وہ کہہ رہے ہیں جی کہ یہ جو ویسٹ بینک پر قبضہ کرنے کی اسرائیلی خواہش ہے اس سے تو امن پلان تباہ و برباد ہو جائے گا۔

اور اس کے ساتھ ہی ساتھ امریکہ کے علاوہ یورپ میں بھی پبلک اوپینین جو ہے وہ بہت زیادہ اینٹی اسرائیل ہو گئی ہے۔ اور اسی لیے آپ نے دیکھا کہ یورپ سے لے کے آسٹریلیا تک اسرائیل کے خلاف بڑے بڑے مظاہرے ہو رہے ہیں اور اتنے بڑے مظاہرے کسی مسلم ملک میں نہیں ہوئے لیکن مغربی ممالک یورپ میں خاص طور پہ بڑے بڑے مظاہرے ہو رہے ہیں۔ اس سے جو وہاں کی حکومتیں ہیں وہ بھی پریشر میں آ رہی ہیں اور اس کا اثر بھی ٹرمپ پہ پڑ رہا ہے۔

جنگی جرائم کے بارے میں رپورٹس

اب اس کی کیا وجہ ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ جو یونائٹیڈ نیشنز ہے، جس کو ٹرمپ کچھ نہیں سمجھتا، یونائٹیڈ نیشنز نے غزہ میں اور دیگر فلسطینی علاقے ہیں وہاں پر جو اسرائیلی مظالم ہیں اس کے بارے میں ایویڈنس کلیکٹ کرنے کی شروع کی، تو یونائٹڈ نیشنز کی جو ہیومن رائٹس کونسل ہے جنیوا بیسڈ، اس کو یہ پتہ چلا ہے کہ

More than a human can bear, Israel's systematic use of sexual reproductive and other forms of gender-based violence since October 2023.

یونائٹڈ نیشنز ہیومن رائٹس کونسل کی جو رپورٹ ہے وہ کہہ رہی ہے کہ اسرائیلی فوج جو ہے وہ ریپ کو فلسطینیوں کے خلاف ایک ہتھیار کے طور پہ استعمال کر رہی ہے۔ اچھا، اب یہاں پر میں آپ کو یہ بھی بتانا چاہتا ہوں کہ جب اکتوبر 2023ء میں حماس نے اسرائیل پر حملہ کیا تھا تو اس وقت کچھ جو مغربی نشریاتی ادارے ہیں وہ یہ کہہ رہے تھے کہ حماس نے بھی اسرائیل کے اندر گھس کے وہاں پہ جو اسرائیلی عورتیں ہیں ان کا ریپ کیا ہے۔ اور یہ اس وقت کی بی بی سی کی ایک رپورٹ ہے۔ یہ میں آپ کو بتا رہا ہوں کہ یہ حماس پہ بھی الزام لگایا گیا تھا اور بی بی سی نے کہا تھا کہ

Israel Gaza: Hamas raped and mutilated women on 7 October, BBC Hears.

اور بی بی سی نے کہا جی کہ ہمارے پاس اس کی ایویڈنس موجود ہے۔ لیکن بی بی سی نے یہ نہیں کہا کہ یہ سسٹمیٹک طریقے سے ہوا۔ حماس والے جو ہیں وہ ادھر گئے انہوں نے اگر یہ کام کیا تو یہ انتہائی قابل مذمت کام تھا لیکن ان میں سے اکثر وہاں پہ مارے گئے۔

اب جو امریکن میڈیا ہے وہ کیا کہہ رہا ہے؟ یہ دیکھیں جی، این بی سی جو ہے وہ امریکہ کا ایک نشریاتی ادارہ ہے۔ این بی سی جو ہے وہ یو این کو کوٹ کر کے کہہ رہا ہے کہ

U.N. finds 'clear and convincing' information that hostages have been raped in Gaza.

اسرائیلی فوج جن فلسطینی عورتوں کو گرفتار کرتی ہے، اپنی حراست میں لیتی ہے، تو ان کا سسٹمیٹک طریقے سے گینگ ریپ ہوتا ہے۔ یہ این بی سی نے کہا ہے، ایک امریکی نشریاتی ادارہ ہے۔ 

ڈونلڈ ٹرمپ اور مسلم حکمرانوں کی مشکل

اس وجہ سے ٹرمپ صاحب کو بڑی مشکلات کا سامنا ہے۔ اور یہ خبریں جب مڈل ایسٹ میں پہنچتی ہیں، عرب ممالک میں پہنچتی ہیں، تو پھر یہ عرب نیوز بھی آپ کو یہ بتاتا ہے کہ

The tide of public opinion in Europe is turning against Israel.

عرب نیوز کو یہ بھی بتانا چاہیے تھا کہ ’’دی ٹائیڈ آف پبلک اوپینئن اِن مڈل ایسٹ اینڈ مسلم ورلڈ اِز آلسو اگینسٹ اسرائیل‘‘۔ اور پاکستان کا تو آپ کو پتہ ہی ہے۔ تو یہ ایک فرق ہے اور ایک مشکل ہے جو کہ پیدا ہو گئی ہے۔ اس وقت نہ صرف ٹرمپ کے لیے بلکہ بہت سے مسلم ممالک کے جو سربراہان ہیں ان کے لیے ایک مشکل پیدا ہو گئی ہے، انہوں نے ایک نیریٹو بنایا تھا کہ جناب حماس کی اور غزہ والوں کی تو اسرائیل کے ساتھ پیس ڈیل ہو گئی ہے تو یہ آپ لوگ فلسطینیوں کے لیے آنسو کیوں بہاتے ہیں؟ نیتن یاہو نے نہ صرف اس پیس ڈیل کو تباہ و برباد کر دیا ہے بلکہ اس نے اب ویسٹ بینک پر بھی قبضے کا منصوبہ بنا لیا ہے۔ جس پہ کہ مارکو روبیو صاحب بھی بڑے پریشان ہیں۔

یورپی پارلیمنٹ میں اسرائیل کے خلاف اقتصادی پابندیوں کا امکان

اب ہو کیا رہا ہے؟ اب ہو یہ رہا ہے کہ جو یورپین کنٹریز ہیں اسپیشلی یورپین یونین میں جو ممالک شامل ہیں، ان کی ایک پارلیمنٹ ہے برسلز میں، اس پارلیمنٹ میں ایک بل آگیا ہے، اور بل یہ ہے کہ اسرائیل جو ہے اس نے پوری دنیا کے سامنے ایک پیس پلان پر عملدرآمد کا وعدہ کیا لیکن اب وہ اس پہ عملدرآمد نہیں کر رہا، اس نے پوری دنیا کے سامنے یہ وعدہ کیا کہ وہ غزہ سے اپنی فوج واپس بلائے گا، وہ غزہ سے فوج واپس نہیں بلا رہا، تو آپ کیا کریں؟ تو کیونکہ وہاں پر بھی پبلک اوپینین بہت خلاف ہو رہی ہے اسرائیل کے، تو اب وہ یہ کہہ رہے ہیں جی کہ اب ہمارے پاس اور کوئی راستہ نہیں ہے کہ ہم اسرائیل پر اقتصادی پابندیاں لگائیں، سیکشنز لگائیں۔ کسی زمانے میں یہ ممالک جو ہیں انہوں نے ایران پر پابندیاں لگائی تھیں، پھر انہوں نے رشیا پر پابندیاں لگائیں، اب یہ اسرائیل پر پابندیاں لگانے پر مجبور ہو رہے ہیں۔ اور ٹرمپ صاحب جو ہیں وہ بڑی مشکل میں پھنس گئے ہیں۔

اب یہ ایک تو میں نے آپ کو بتایا کہ نیتن یاہو کی وجہ سے جو پاکستان سمیت بہت سے مسلم ممالک کے حکمران ہیں ان کو یہ مشکل پیش آئے گی کہ انہوں نے شرم الشیخ میں جو ایک معاہدہ ہوا تھا اس کے بعد ایک نیریٹو بنایا ایک بیانیہ بنایا کہ جناب وہ غزہ والوں نے تو صلح کر لی اسرائیل سے تو یہ آپ پاکستان کے مسلمان جو ہیں آپ کیوں فلسطینیوں کے لیے آنسو بہاتے ہیں؟ ایک تو یہ مشکل ہو گئی۔ اب دوسری مشکل کیا ہونے والی ہے؟ وہ ابھی ہونے والی ہے، ابھی پیدا نہیں ہوئی ہے۔

پہلی مشکل تو پیدا ہو چکی ہے، دوسری ابھی پیدا ہونے والی ہے، وہ یہ ہے کہ اگر یورپین پارلیمنٹ نے اسرائیل پر اقتصادی پابندیاں لگانے کا فیصلہ کر لیا تو ٹرمپ صاحب بڑی مشکل میں پڑ جائیں گے کیونکہ ٹرمپ صاحب تو کسی بھی صورت میں اسرائیل پر اقتصادی پابندیاں لگانے کے حامی نہیں ہیں۔ اور اس کے بعد وہ مسلم ممالک بھی مشکل میں پڑ جائیں گے جنہوں نے اسرائیل کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات قائم کیے ہوئے ہیں۔ اور یہ جو غزہ میں ہولوکاسٹ ہو رہا ہے، فلسطینیوں کا قتل عام ہو رہا ہے، فلسطینی عورتوں کا ریپ ہو رہا ہے، اس کے بعد بھی ان مسلم ممالک نے اسرائیل کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات منقطع نہیں کیے تو ان کے لیے بھی مشکل ہو جائے گی کہ جناب اب تو یورپین ممالک جو ہیں انہوں نے پابندیاں لگا دی ہیں۔

اور ہو سکتا ہے کہ کچھ جو مغربی ممالک ہیں وہ اسرائیل کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات منقطع بھی کر لیں جیسا کہ کچھ ملک ہیں اس دنیا میں جنہوں نے یہ جو حالیہ اسرائیلی ظلم و ستم ہے اس کے بعد اسرائیل کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات منقطع کیے۔ تو یہ مغربی ممالک کی جو پبلک اوپینین ہے یہ ان کو فورس کرے گی کہ وہ بھی اسرائیل کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات کو منقطع کریں۔ تو یہ بڑی مشکل پڑ جائے گی اور پھر کیا کریں گے آپ؟

اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی خواہشمندی

پھر وہ پاکستان میں صاحبانِ علم و دانش جو یہ کہتے ہیں جناب کہ ’’عربوں نے تو دوستی کر لی، عربوں نے تو اسرائیل کو تسلیم کر لیا، تو پاکستان کی اسرائیل سے کیا لڑائی ہے تو آپ بھی کر لیں‘‘، ان کے لیے بھی بڑی مشکل ہو جائے گی۔ اور جن لوگوں نے ٹرمپ کے ساتھ بہت تصویریں کھنچوائیں اور شرم الشیخ میں انہوں نے بڑی تقریریں کیں کہ جناب ایک بہت بڑا بریک تھرو کر دیا اور ٹرمپ جو ہیں وہ امن کے بہت بڑے پیامبر بن کر سامنے آئے ہیں اور ان کو اب ایک واقعی نوبل پیس پرائز مل جانا چاہیے۔ تو ان کے یہ جو دعوے ہیں اور ان کی جو نومینیشن ہے، وَنس اگین پاکستان کی حکومت نے شرم الشیخ میں کھڑے ہو کے ٹرمپ صاحب کو پھر نومینیٹ کر دیا نوبل پیس پرائز کے لیے، تو وہ کون سا پیس پرائز ہے جو اب آپ ٹرمپ کو دلوائیں گے؟ کیونکہ نیتن یاہو نے تو اس غزہ پیس پلان کا بھی خانہ خراب کر دیا اور اب تو وہ کہہ رہا ہے کہ میں نے ویسٹ بینک پہ بھی قبضہ کرنا ہے۔

تو میں کہنا صرف یہ چاہتا ہوں کہ اپنی جو فارن پالیسی ہے اس کو احتیاط سے آگے بڑھانا چاہیے اور صرف ایک سپرپاور کے صدر کو خوش کرنے کے لیے ایسی سٹیٹمنٹس نہیں دینی چاہئیں جس کے بارے میں آپ کو صرف پاکستان کے اندر سے نہیں، پاکستان کے باہر سے بھی بہت سے لوگ وارن کر رہے تھے کہ ٹرمپ صاحب جو ہیں وہ ناقابل اعتبار ہیں، ان پر آپ بہت زیادہ ٹرسٹ کر رہے ہیں، آپ ضرورت سے زیادہ ان کی تعریفیں کر رہے ہیں، کہیں آپ کو مہنگی نہ پڑ جائیں۔ تو اب وہ مہنگی تو پڑیں گی نا، کیونکہ نیتن یاہو نے اگر ٹرمپ کی عزت کا خیال نہیں کیا تو ایک عام امریکن اس کی عزت کا کیا خیال کرے گا؟ اب تو نیویارک ٹائمز کہہ رہا ہے جی کہ ’’اسرائیلیز لوزنگ امریکن سپورٹ‘‘۔

اور میں آپ کو یہاں پہ ایک آرٹیکل جو ہے آخر میں وہ بھی دکھانا چاہتا ہوں۔ یہ سی این این کا آرٹیکل ہے، تھوڑے دن پہلے شائع ہوا ہے، یہ کہہ رہا ہے جی

With rare earths, deft diplomacy (and ample flattery), Pakistan shows how to deal with Trump 2.0

فلیٹری کا لفظ استعمال کیا ہے۔ آرٹیکل میں یہ کہا گیا ہے جی کہ پاکستانی جو ہیں نا، یعنی پاکستان کی حکومت، اس کو پتہ ہے ٹرمپ کو کیسے ڈیل کرنا ہے۔ کیسے کرنا ہے؟ خوشامد سے۔ تو ہم نے جو ٹرمپ صاحب کو خوش کرنے کے لیے ان کی خوشامد کی، کاش کہ وہ خوشامد ہمارے کام آ جاتی، لیکن وہ ہمارے کسی کام نہیں آ رہی، اور وہ تو ٹرمپ صاحب کے بھی کسی کام نہیں آ رہی۔ تو اس لیے گزارش صرف یہ ہے بہت ادب کے ساتھ کہ آئندہ ٹرمپ صاحب کی تعریف کرنے یا ان کی خوشامد کرنے سے پہلے یہ جو سی این این میں آرٹیکل لکھا ہے صوفیہ سیفی نے، اور آرٹیکل میں ٹرمپ کے ساتھ شہباز شریف صاحب بھی نظر آ رہے ہیں، تو آئندہ کسی انٹرنیشنل فورم پہ ٹرمپ صاحب کی تعریف کرنے سے پہلے اس آرٹیکل کو ضرور ذہن میں رکھیے گا، بہت بہت شکریہ۔

https://youtu.be/miRbzZzVJFo

(۲۳ اکتوبر ۲۰۲۵ء)

(الشریعہ — نومبر ۲۰۲۵ء)

الشریعہ — نومبر ۲۰۲۵ء

جلد ۳۶ ، شمارہ ۱۱

مسئلہ کشمیر کا مختصر جائزہ اور ممکنہ حل
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

غزہ کی جنگ بندی     /     تحریک لبیک کا معاملہ
ڈاکٹر محمد امین

کلامِ الٰہی کو سمجھنے کا ایک اُصول
الشیخ متولی الشعراوی

قرآن سے راہنمائی کا سوال
ڈاکٹر محمد عمار خان ناصر

حدیثِ نبوی ﷺ: شُبہات اور دِفاع کے درمیان، مسلمانوں پر کیا لازم ہے؟
الدکتور محمد طلال لحلو
طارق علی عباسی

فارغینِ مدارس کے معاشی مسائل و مشکلات اور حل
ڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی

مروّجہ نعت خوانی اور ہمارے نعت خواں
سید سلمان گیلانی

محمد نام رکھنے کے متعلق فضائل کی حقیقت
مفتی سید انور شاہ

محمد نام کے فضائل
جامعۃ العلوم الاسلامیۃ

متاعِ مطيع
پروفیسر میاں انعام الرحمٰن

اقوام عالم کی تہذیبوں کا تقابلی جائزہ
مولانا حافظ واجد معاویہ

حقوق الإنسان: فروق أساسية بين المنظور الإسلامي والغربي
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
مولانا حافظ فضل الہادی سواتی

The Kashmir Issue: A Brief Overview and Possible Solution
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

’’خطباتِ فتحیہ: احکام القرآن اور عصرِ حاضر‘‘ (۵)
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
مولانا ڈاکٹر محمد سعید عاطف

’’اسلام اور ارتقا: الغزالی اور جدید ارتقائی نظریات کا جائزہ‘‘ (۹)
ڈاکٹر شعیب احمد ملک
ڈاکٹر ثمینہ کوثر

ماہانہ بلاگ

پاکستان اور افغانستان کا ناخوشگوار تصادم — اہم نکات
مولانا مفتی منیب الرحمٰن

پاک افغان تعلقات اور ہماری یکطرفہ قومی پالیسیاں
مولانا فضل الرحمٰن

اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء کا فتویٰ نمبر ۱۹۴۰۲ اور ابراہیمی ہاؤس
اُمّہ ڈاٹ کام
صید الفوائد

قواعد و ضوابط برائے تحقیق و تصنیف اور اشاعت
اسلامی نظریاتی کونسل

تعلیمی کیریئر کب اور کیسے منتخب کرنا چاہیے؟
ڈاکٹر ناصر محمود
فخر الاسلام

+LGBTQ تحریک کا نظریاتی تجزیہ: جماعتِ اسلامی ہند کا سیمینار
السیرۃ

انڈیا  -  مڈل ایسٹ  -  یورپ   اقتصادی راہداری   (IMEC)
ادارہ الشریعہ

کسے گواہ کریں کس سے منصفی چاہیں
مولانا مفتی محمد تقی عثمانی

ڈونلڈ ٹرمپ کا غزہ منصوبہ اور مسلم حکمرانوں کا بیانیہ
حامد میر

غزہ میں حماس کی جنگ: دو سال میں کیا کھویا کیا پایا؟
مشاہد حسین سید
عاصمہ شیرازی

فلسطین:    غاصبانہ قبضہ اور حقِ خود ارادیت کا معاملہ
فاطمہ بھٹو

صہیونی ریاست زوال کے قریب — جنگ بندی معاہدے میں کیا طے پایا؟
ضیاء الرحمٰن چترالی

سات اکتوبر کے حملہ کے حوالے سے حماس پر الزامات کی حقیقت
دی کیٹی ہالپر شو

غزہ کے بارے میں امریکہ اور اسرائیل کا اصل پلان
دی ینگ ٹرکس

امریکہ اور اسرائیل کے باہمی تعلقات اور غزہ کے بارے میں اسرائیل کا اصل منصوبہ
بریکنگ پوائنٹس

غزہ جنگ بندی کی خلاف ورزی میں سینکڑوں فلسطینیوں کی شہادت
ورلڈ نیوز میڈیا

’’دریائے اردن سے بحیرۂ روم تک‘‘ کا نعرہ
ویکی پیڈیا

صمود فلوٹیلا: آغاز و مراحل اور اختتام و نتائج
ادارہ الشریعہ

مطبوعات

شماریات

Flag Counter