یہ تحریر ’’دریائے اردن سے سمندر تک’’ کے نعرے کے بارے میں ہے جسے انگریزی میں From the river to the sea اور عربی میں ’’من النھر الى البحر‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس کا اشارہ دریائے اردن اور بحیرہ روم کے درمیان واقع پورے علاقے کی طرف ہے، جسے تاریخی طور پر فلسطین (Palestine) کہا جاتا تھا اور جو پہلی جنگِ عظیم میں خلافتِ عثمانیہ اور جرمنی کی شکست کے بعد برطانوی مینڈیٹ کے تحت آیا تھا۔ آج اس علاقے میں موجودہ اسرائیل کے علاوہ مقبوضہ مغربی کنارہ اور غزہ کی پٹی آتے ہیں۔
یہ نعرہ اور اس کی مختلف شکلیں فلسطینیوں اور اسرائیلیوں دونوں نے استعمال کی ہیں اور یہ عام طور پر اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ اس پورے علاقے میں دو ریاستوں (two states) کی بجائے ایک ریاست (one state) ہونی چاہیے۔
فلسطینی نقطۂ نظر
1960ء کی دہائی میں فلسطین لبریشن آرگنائزیشن (PLO) نے اس نعرے کو برطانوی مینڈیٹ والے فلسطین کو استعماریت سے آزاد (decolonized) ریاست کے قیام کے لیے استعمال کیا۔ 1969ء تک PLO نے اس سے مراد ایک جمہوری سیکولر ریاست (one democratic secular state) کا قیام لیا، جو اسرائیل کی یہودی مذہبی ریاست کی جگہ لے گی۔
حالیہ تناظر میں بہت سے فلسطینی کارکنان اس نعرہ کو دہائیوں کی اسرائیلی فوجی حکمرانی کے خلاف ’’امن اور مساوات کی پکار‘‘ سمجھتے ہیں۔ دنیا بھر میں فلسطین کی حمایت میں ہونے والے احتجاجی مظاہروں میں یہ نعرہ استعمال ہو رہا ہے۔
حماس نے بھی اپنے 2017ء کے چارٹر میں اس نعرے کو استعمال کیا جس کی وجہ سے ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ اسرائیل کی تحلیل (dismantling) اور وہاں کی یہودی آبادی کو ہٹانے یا ختم کرنے کی وکالت کرتا ہے۔ جبکہ ’’اسلامی جہاد‘‘ نے ’’دریائے اردن سے سمندر تک عرب اسلامی زمین‘‘ کا نعرہ اختیار کیا ہے۔
اسرائیلی نقطۂ نظر
کچھ مؤرخین کے مطابق یہ نعرہ دراصل ایک ابتدائی صیہونی نعرے کے طور پر شروع ہوا تھا جو ’’ارضِ اسرائیل‘‘ (Eretz Israel) کی حدود کو ظاہر کرتا تھا۔ ریویژنیسٹ صیہونیت کے بانی زیوی جابوتنسکی کا ایک ترانہ بھی تھا جس میں کہا گیا تھا: ’’اردن کے دو کنارے ہیں؛ یہ بھی ہمارا ہے اور دوسرا بھی‘‘۔
1977ء میں اسرائیلی دائیں بازو کی لیکوڈ پارٹی (Likud Party) کے انتخابی منشور میں کہا گیا تھا: ’’سمندر اور اردن کے درمیان صرف اسرائیلی خودمختاری ہوگی‘‘۔
حالیہ برسوں میں دیگر اسرائیلی سیاستدانوں بشمول وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے بھی اس علاقے میں صرف اسرائیلی خودمختاری کی بات کی ہے۔
بہت سے یہودیوں کے لیے بشمول اینٹی ڈیفامیشن لیگ (ADL) جیسے وکالتی گروپس اس نعرے کو یہودیوں سے نفرت (antisemitic)، نفرت انگیز بیان (hate speech)، اور نسل کشی پر اکسانے (incitement to genocide) کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ فلسطینیوں کی طرف سے اس نعرہ کا استعمال اسرائیل کو ختم کرنے کی وکالت کرتا ہے۔
بین الاقوامی استعمالات اور تشریحات
بعض کا کہنا ہے کہ یہ نعرہ (ایک ریاست کی صورت میں) تمام باشندوں (یہودیوں اور فلسطینیوں) کی آزادی، انسانی حقوق، اور مساوی شہریت کی بات کرتا ہے۔
اس نعرے کو بین الاقوامی سطح پر القاعدہ کے بانی اسامہ بن لادن اور حزب اللہ کے راہنما حسن نصر اللہ نے بھی فلسطین کی مکمل آزادی کے تناظر میں استعمال کیا ہے۔
کچھ مغربی ممالک میں اسے دہشت گرد تنظیموں کی علامت کے طور پر دیکھا جاتا ہے جس پر قید یا جرمانے کی سزا ہو سکتی ہے۔ برطانوی پارلیمنٹ کے رکن اینڈی میکڈونلڈ کو اس نعرے کے استعمال پر لیبر پارٹی سے معطل کر دیا گیا تھا۔ امریکی ایوان نمائندگان نے ایک قرارداد منظور کی جو اس نعرے کو یہودی مخالف (antisemitic) قرار دیتی ہے۔ نیدرلینڈز کی عدلیہ نے پہلے اسے آزادئ اظہار کے تحت محفوظ قرار دیا تھا لیکن بعد میں پارلیمنٹ نے اسے تشدد کی پکار قرار دینے کی تحریک منظور کی۔
سوشل میڈیا پلیٹ فارمز اس نعرہ کے استعمال کو اعتدال میں لانے کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن اس بات پر اتفاق نہیں ہے کہ یہ کب نفرت انگیز تقریر کے زمرے میں آتا ہے۔ میٹا (Meta) کے نگران بورڈ نے 2024ء میں فیصلہ دیا کہ یہ نعرہ بذاتِ خود ’’نفرت انگیز تقریر‘‘ کے زمرے میں نہیں آتا۔
نعرہ کا تاریخی پس منظر
اس نعرے کے تاریخی استعمال کے اصل ماخذ پر اختلاف ہے۔ فلسطینی عالم ایلیوٹ کولا کا کہنا ہے کہ اس نعرے کو سمجھنے کے لیے فلسطین کی تقسیم اور اس پر اسرائیلی قبضے کی تاریخ کو دیکھنا ضروری ہے، جیسے:
- 1947ء کا اقوام متحدہ کی تقسیم کا منصوبہ (UN Partition Plan)۔
- 1948ء کا نکبہ (Nakba) یعنی فلسطینیوں کی بڑے پیمانے پر بے دخلی۔
- 1967ء کی جنگ جس میں اسرائیل نے مغربی کنارہ اور غزہ پر قبضہ کیا۔
- اسرائیلی بستیوں، فوجی اڈوں اور چیک پوائنٹس سے گھرا ہوا مغربی کنارہ۔
ایک اور مؤرخ ماہا نصر کے مطابق 1967ء سے پہلے بھی اس نعرے کا استعمال نہ صرف اسرائیل بلکہ مغربی کنارے میں اردن اور غزہ کی پٹی میں مصر کی حکمرانی سے بھی آزادی حاصل کرنے کی فلسطینی امید کا اظہار کرتا تھا۔
مختصراً یہ کہ اردو میں ’’دریائے اردن سے سمندر تک‘‘، انگریزی میں From the river to the sea، اور عربی میں ’’من النھر الى البحر‘‘ کا یہ نعرہ ایک متحرک اور کثیر الجہتی جملہ ہے جو فلسطین کے اِس تاریخی علاقے کے آئندہ سیاسی حل کے مطالبات اور تصورات کی عکاسی کرتا ہے، البتہ اس کی تشریح کرنے والے گروہوں کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے۔
ماخذ
https://en.wikipedia.org/wiki/From_the_river_to_the_sea
