ایل جی بی ٹی کیو پلس (LGBTQ+) کی اصطلاح ان افراد کے حقوق اور سماجی قبولیت کے لیے عالمی سطح پر استعمال کی جاتی ہے جو اپنی جنسی شناخت (sexual orientation) یا صنفی شناخت (gender identity) کے لحاظ سے روایتی معاشرتی ماحول سے مختلف ہیں، یا ایسا محسوس کرتے ہیں، یا اس کا دعویٰ کرتے ہیں۔ اس اصطلاح میں درج ذیل افراد شامل ہیں:
- L یعنی Lesbian: وہ عورت جو دوسری عورتوں کی طرف جنسی کشش رکھتی ہے۔
- G یعنی Gay: وہ مرد جو دوسرے مردوں کی طرف جنسی کشش رکھتا ہے۔
- B یعنی Bisexual: وہ شخص جو مردوں اور عورتوں دونوں کی طرف کشش محسوس کرتا ہے۔
- T یعنی Transgender: وہ فرد جو اپنی صنفی شناخت اس جنس سے مختلف بتائے جس میں وہ پیدا ہوا تھا۔
- Q یعنی Queer: وہ سب افراد جو روایتی صنفی یا جنسی شناخت سے ہٹ کر اپنی پہچان رکھتے ہیں۔
- + یعنی Plus: ان تمام دیگر شناختوں کی نمائندگی کرتا ہے جو ان زمروں سے باہر ہیں۔
(ادارہ الشریعہ)
جماعتِ اسلامی ہند نے ۱۸ اگست (۲۰۲۴ء) کو دہلی میں ’’ایل جی بی ٹی کیو پلس تحریک کا نظریاتی تجزیہ‘‘ کے عنوان سے ایک جامع سیمینار منعقد کیا، جس میں مختلف علمی و فکری جہتوں سے اس تحریک کا جائزہ لیا گیا۔ اس ایک روزہ پروگرام کا اہتمام جماعت کے شعبۂ تحقیق و تصنیف نے کیا، اور اس میں ماہرینِ تعلیم، فکری رہنما، اور محققین نے نظریاتی، نفسیاتی، طبی، سماجی اور سیاسی زاویوں سے اپنی آراء پیش کیں۔
افتتاحی خطاب جماعتِ اسلامی ہند کے سیکرٹری محی الدین غازی نے کیا، جنہوں نے پروگرام کے بنیادی تصور اور اس کے پس منظر پر روشنی ڈالی۔ ان کے بعد امریکا کے ’’امل انسٹیٹیوٹ‘‘ کے ڈین ڈاکٹر آصف حیرانی نے ’’ایل جی بی ٹی کیو پلس تحریک کی نظریاتی بنیادیں‘‘ کے موضوع پر تفصیلی گفتگو کی، جس میں انہوں نے بتایا کہ یہ تحریک دراصل 1960ء اور 1970ء کی دہائی کے ’’جنسی انقلاب‘‘ سے ابھری، جس نے مرد و عورت کے بارے میں روایتی اخلاقی معیارات کو چیلنج کیا۔ انہوں نے کہا کہ مابعد جدیدیت (Postmodernism) نے اخلاقیات کی معیاری بنیاد کو کمزور کر کے انسانی شناخت کو ایک قابلِ تبدیل اور ذاتی رجحان میں بدل دیا، جس کے نتیجے میں ’’جنسی آزادی‘‘ اور ’’ہم جنس پرستی‘‘ جیسے رجحانات کو عام کیا گیا۔ ڈاکٹر حیرانی نے کہا کہ مذہب سے دوری اور الحاد پر مبنی رویے نے ان تصورات کو مزید تقویت دی ہے اور یہ رویے اب سماجی اقدار اور خاندانی نظام کے لیے خطرہ بن چکے ہیں۔
محی الدین غازی نے اپنے خطاب میں ’’قرآنی زاویے سے اخلاقیات‘‘ کے عنوان پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ قرآن انسان کی فطرت کے خلاف کسی عمل کو قبول نہیں کرتا۔ انہوں نے حضرت لوطؑ کی قوم کی مثال پیش کرتے ہوئے بتایا کہ ہم جنس پرستی کو قرآن نے سختی سے ممنوع قرار دیا ہے، اور قرآن کی اخلاقیات کا بنیادی پیغام عفت، پاکدامنی اور ازدواجی زندگی کے تقدس کے گرد گھومتا ہے۔ اسلام میں نکاح صرف مرد اور عورت کے درمیان ممکن ہے، اور اس سے باہر ہر قسم کا تعلق گناہ شمار ہوتا ہے۔
جماعتِ اسلامی ہند کے اسسٹنٹ سیکرٹری ڈاکٹر شاداب منور موسیٰ نے ’’ایل جی بی ٹی کیو پلس: ایک تہذیبی چیلنج‘‘ کے عنوان سے گفتگو کی۔ انہوں نے بتایا کہ یہ تحریک مغربی تہذیب اور سیکولر نظریات سے جنم لینے والا ایک رجحان ہے جو اسلامی اقدار سے براہِ راست متصادم ہے۔ مغرب نے اپنی معاشرت کو لامذہبیت اور فرد کی خودمختاری کے اصول پر استوار کیا ہے، جس کے نتیجے میں جنس اور خاندان کے تصورات بری طرح بکھر گئے ہیں۔ انہوں نے زور دیا کہ مسلم معاشرہ مغربی ماڈلز کی نقالی سے پرہیز کرے اور اپنی تہذیبی اساس کو محفوظ رکھنے کے لیے اسلامی تعلیمات سے رہنمائی لے۔
ڈاکٹر محمد رضوان، ڈائریکٹر ’’سی ایس آر‘‘ نے ’’ایل جی بی ٹی کیو پلس پر نفسیاتی و حیاتیاتی زاویے‘‘ کے عنوان سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ یہ مسئلہ سائنسی بنیادوں سے زیادہ سماجی و فکری تشکیل کا نتیجہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ جنسی رجحان اور صنفی شناخت کو اکثر فطری سمجھا جاتا ہے، حالانکہ سائنسی تحقیق کے مطابق یہ ماحول، پرورش، اور ثقافتی اثرات کا امتزاج ہے۔ انہوں نے اس بات پر بھی تشویش ظاہر کی کہ بھارت میں ’’اصلاحی معالجات‘‘ پر پابندی عائد کر دی گئی ہے، جس سے مزید فکری ابہام پیدا ہوا ہے۔
جماعت کے نائب امیر امین الحسن نے ’’اسلامی زاویے سے تربیتِ اولاد‘‘ کے موضوع پر بات کرتے ہوئے کہا کہ آج کے معاشرے میں بچوں کو جنسی طور پر بگاڑنے والی تصویری، ادبی اور ڈیجیٹل یلغار اپنے عروج پر ہے۔ والدین کے لیے یہ ایک سخت آزمائش کا دور ہے کہ وہ کس طرح اپنے بچوں کو ان اثرات سے بچائیں۔ انہوں نے زور دیا کہ بچوں کی تربیت میں اسلامی طرزِ فکر پیدا کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے تاکہ وہ ان بے راہ روی کے رجحانات کا شعوری طور پر مقابلہ کر سکیں۔
معروف صحافی عبدالسلام پُتھیگے نے ’’ایل جی بی ٹی کیو پلس تحریک کے سماجی و سیاسی اثرات‘‘ پر بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ تحریک محض ایک سماجی رجحان نہیں بلکہ عالمی سطح پر اخلاقی اقدار پر حملہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ میڈیا، کارپوریٹ دنیا، اور سیاسی ادارے اس تحریک کو فروغ دینے میں سرگرم ہیں۔ انہوں نے زور دیا کہ معاشرے کو فعال ردِعمل دینا چاہیے، جذباتی نہیں بلکہ شعوری اور مہذب انداز میں، تاکہ اخلاقی اور خاندانی اقدار کی حفاظت کی جا سکے۔
’’دی کمپینین‘‘ کے مدیر خوشحال احمد نے ’’بھارت میں ایل جی بی ٹی کیو پلس اور معاشرہ‘‘ کے عنوان سے گفتگو کرتے ہوئے ہندوستانی تہذیب میں ہم جنس تعلقات کی تاریخی و ثقافتی جڑوں کا جائزہ لیا۔ انہوں نے بتایا کہ بعض قدیم متون مثلاً مہا بھارت اور ویدک کہانیوں میں ایسی مثالیں موجود ہیں جنہیں آج کے ہم جنس پرست گروہ اپنی حمایت میں استعمال کرتے ہیں۔ تاہم انہوں نے واضح کیا کہ یہ بیانیہ جدید دور میں نوآبادیاتی اثرات، مغربی نظریات، اور سرمایہ دارانہ نظام کے زیرِ اثر تشکیل پایا ہے۔ انہوں نے ’’پنک کیپیٹلزم‘‘ (Pink Capitalism) کا ذکر کیا جس کے ذریعے کارپوریٹ ادارے اس تحریک کو مالی اور تشہیری سطح پر تقویت دے رہے ہیں۔
اختتامی خطاب جماعتِ اسلامی ہند کے امیر سید سعادت اللہ حسینی نے کیا۔ انہوں نے کہا کہ اسلامی نقطۂ نظر میں جنسی رجحان اور اخلاقیات کا تعین اللہ تعالیٰ کے احکامات سے ہوتا ہے، نہ کہ انسانی خواہشات سے۔ اسلام میں جنسی تعلق صرف مرد و عورت کے جائز ازدواجی رشتے کے اندر ہی درست ہے، جبکہ مغرب نے اسے فردی آزادی اور ذاتی حق کے نام پر بگاڑ دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایل جی بی ٹی کیو پلس تحریک نہ صرف خاندانی ڈھانچے بلکہ بچوں کے بنیادی حقوق کے لیے بھی ایک سنگین خطرہ ہے۔ حسینی صاحب نے زور دیا کہ مسلمانوں کو اس فکری یلغار کے مقابلے میں مضبوط علمی و اخلاقی بنیادوں پر کھڑا ہونا چاہیے، کیونکہ یہ محض سماجی مسئلہ نہیں بلکہ ایک تہذیبی جنگ ہے۔
پروگرام کے اختتام پر تمام مقررین کے افکار کو سراہتے ہوئے یہ عہد کیا گیا کہ جماعتِ اسلامی ہند آئندہ بھی اس نوع کے فکری مباحث کو جاری رکھے گی تاکہ امتِ مسلمہ کو عصری چیلنجز کا شعوری طور پر سامنا کرنے کے لیے تیار کیا جا سکے۔ اس موقع پر یہ پیغام دیا گیا کہ مسلمان اس تحریک کے اثرات سے باخبر رہیں، اپنی خاندانی اور اخلاقی اقدار کی حفاظت کریں، اور قرآنی تعلیمات کی روشنی میں معاشرے میں عفت و حیا کے فروغ کے لیے کردار ادا کریں۔
