منصوبہ کی ابتدا
انڈیا - مڈل ایسٹ - یورپ اقتصادی راہداری (India-Middle East-Europe Economic Corridor) ایک نیا بین الاقوامی منصوبہ ہے جو حالیہ برسوں میں عالمی سیاست اور معیشت کا اہم موضوع بن گیا ہے۔ اس منصوبے کا بنیادی مقصد بھارت، خلیجی عرب ممالک اور یورپ کے درمیان تجارت، توانائی اور ڈیجیٹل رابطوں کو ایک منظم اور جدید نظام کے تحت استوار کرنا ہے۔
آئی میک (IMEC) منصوبہ پہلی مرتبہ ستمبر 2023ء میں بھارت میں ہونے والے جی ٹوئنٹی (G20) سربراہی اجلاس میں باضابطہ طور پر متعارف کرایا گیا، جہاں امریکہ، یورپی یونین، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، اٹلی، فرانس اور جرمنی سمیت کئی بااثر ممالک نے اس کی حمایت کی۔ اس راہداری کو چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو، خصوصاً سی پیک (CPEC) کے متبادل کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، تاکہ عالمی تجارتی راستوں میں چین کے بڑھتے ہوئے اثر کو متوازن کیا جا سکے۔
اغراض و مقاصد
آئی میک کے قیام کا بنیادی خیال یہ ہے کہ بھارت کو یورپ تک پہنچنے کے لیے ایک نیا محفوظ اور مختصر راستہ دیا جائے جو خلیجی ممالک سے گزرتا ہوا بحیرۂ روم کے راستے یورپ سے جا ملے۔ اس راہداری میں سمندری اور زمینی دونوں ذرائع شامل کیے گئے ہیں۔ اس پورے نظام میں بجلی، انرجی پائپ لائنز، فائبر آپٹک نیٹ ورک، اور جدید لاجسٹک نظام شامل کرنے کی تجویز ہے تاکہ تجارت کے ساتھ ساتھ ڈیجیٹل اور توانائی کے تبادلے بھی آسان ہوں۔ ابتدائی منصوبے کے مطابق:
- بھارت کے مغربی ساحل سے مال بردار جہاز متحدہ عرب امارات کے بندرگاہوں تک جائیں گے۔
- وہاں سے سامان سعودی عرب کے اندر سے ہوتا ہوا ریلوے کے ذریعے اردن جائے گا۔ یا پھر اسرائیل کے راستے سے بحیرۂ روم تک پہنچے گا۔
- اور پھر وہاں سے سمندری راستے کے ذریعے یورپی ممالک مثلاً اٹلی، فرانس یا یونان تک رسائی حاصل کی جائے گی۔
چین بمقابلہ مغرب
یہ منصوبہ جغرافیائی لحاظ سے اس لیے اہم سمجھا جاتا ہے کہ یہ چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو، خاص طور پر سی پیک کے مقابلے میں بھارت اور مغربی طاقتوں کے لیے ایک متبادل پلیٹ فارم فراہم کرتا ہے۔ وہ اس طرح کہ:
- CPEC چین اور پاکستان کے اشتراک سے گوادر بندرگاہ سے چین کے مغربی حصے تک زمینی راستہ بناتا ہے۔ جبکہ IMEC بھارت کو بحری اور ریلوے راستوں کے ذریعے یورپ سے ملانے کی کوشش ہے۔
- CPEC کا زور جنوب ایشیا اور وسطی ایشیا کے ممالک پر چین کا اثر بڑھانے پر ہے۔ جبکہ IMEC کے ذریعے مغربی بلاک توانائی اور تجارت کے میدان میں ایک متوازی نیٹ ورک قائم کرنے کی کوشش میں ہے تاکہ ایشیا اور یورپ کے درمیان رابطے کا دارومدار صرف چین پر نہ رہے۔
ممالک کا ردعمل
سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات جیسے ممالک اس منصوبے کے بڑے حامی ہیں، کیونکہ وہ تیل پر انحصار کم کرکے خود کو تجارتی اور تزویراتی مرکز کے طور پر منوانا چاہتے ہیں۔ اسی طرح امریکہ اور یورپی ممالک بھی اس منصوبے کو ایک اسٹریٹجک موقع سمجھتے ہیں جس کے ذریعے وہ چین کے اثر سے الگ ایک مستحکم سپلائی چین قائم کر سکیں۔
تاہم، ترکی اور مصر جیسے ممالک نے اس منصوبے کے روٹ پر اعتراضات یا تحفظات ظاہر کیے ہیں، کیونکہ انہیں خدشہ ہے کہ ان کی روایتی بندرگاہوں اور تجارتی راستوں کو نظرانداز کیا جا رہا ہے۔ بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر مصر شامل نہ ہوا تو سوئز کینال کی حیثیت متاثر ہو سکتی ہے، جو اس وقت دنیا کی سب سے مصروف تجارتی گزرگاہ ہے۔ غزہ کی جنگ کی وجہ سے مصر نے کہا ہے کہ خطے میں پائیدار امن کے بغیر کسی بڑے علاقائی منصوبے کی کامیابی کا تصور محض مفروضہ ہے۔
اس کے باوجود بھارت، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور یورپی ممالک نے سفارتی سطح پر رابطے برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ حالیہ مہینوں میں دوبارہ ملاقاتوں اور پالیسی بیانات کے ذریعے اس منصوبے کو ’’زندہ‘‘ رکھنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
منصوبہ کی عملی صورتحال
یہ منصوبہ اگرچہ سیاسی طور پر توجہ کا مرکز بن چکا ہے لیکن عملی طور پر ابھی ابتدائی مراحل میں ہے۔ جی ٹوئنٹی کے موقع پر معاہدے پر دستخط کے بعد اس پر تکنیکی اور مالیاتی حوالے سے غوروخوض چل رہا ہے۔ مختلف بین الاقوامی تحقیقی ادارے اور تھنک ٹینکس اس کی معاشی افادیت، ممکنہ راستوں، اور سرمایہ کاری کے طریقوں پر رپورٹس جاری کر چکے ہیں۔ البتہ منصوبے کی پیشرفت کو خطے کی موجودہ سیاسی صورتحال نے خاصا متاثر کیا ہے۔ غزہ کی جنگ، اسرائیل اور ہمسایہ ممالک کے درمیان کشیدگی، بحیرہ احمر میں حوثی حملے، اور مجموعی طور پر مشرقِ وسطیٰ کی غیر مستحکم صورتحال نے اس راہداری کے مجوزہ راستے کو غیر یقینی بنا دیا ہے۔
ابھی تک اس منصوبے کے تحت کسی بڑی تعمیر یا انفراسٹرکچر کا آغاز نہیں ہوا۔ 2024ء اور 2025ء کے دوران مختلف اعلیٰ سطح کی میٹنگز اور پالیسی ورکشاپس تو ہوئیں، جن میں تکنیکی پہلوؤں، سرمایہ کاری کے فریم ورک، اور ریلوے و بندرگاہی تعاون پر بات چیت کی گئی، لیکن حقیقی مالی سرمایہ کاری کے فیصلے ابھی باقی ہیں۔ مغربی تھنک ٹینکوں جیسے Atlantic Council اور بھارتی تحقیقی ادارے RIS نے اس منصوبے پر تفصیلی جائزے شائع کیے ہیں جن میں اسے ’’مستقبل کے اقتصادی ربط کا خواب‘‘ قرار دیا گیا ہے۔ تاہم انہی رپورٹس میں یہ بھی اعتراف کیا گیا ہے کہ جب تک مشرقِ وسطیٰ میں سیاسی استحکام نہیں آتا، منصوبے کی تعمیر ممکن نہیں۔
اگر مجموعی طور پر دیکھا جائے تو IMEC فی الحال ایک کاغذی اور سفارتی منصوبہ ہے جس کا مقصد مستقبل میں عالمی تجارتی راستوں کو نئے زاویوں سے ترتیب دینا ہے۔ اسے اس وقت چین کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کے مقابلے میں مغربی بلاک کا سب سے منظم جواب سمجھا جاتا ہے۔ لیکن جب تک اس کے لیے سرمایہ کاری، سلامتی کی ضمانت، اور خطے کے ممالک کے مفادات میں ہم آہنگی پیدا نہیں ہوتی، یہ منصوبہ عملی شکل اختیار نہیں کر سکے گا۔ اس کے باوجود یہ حقیقت اپنی جگہ قائم ہے کہ آئی میک نے بین الاقوامی تعلقات میں ایک نیا بیانیہ پیدا کیا ہے جس کے ذریعے بھارت اور مغربی دنیا اپنے جغرافیائی اور اقتصادی اثر کو ازسرِنو منظم کرنا چاہتے ہیں۔ مستقبل میں اگر حالات سازگار ہوئے تو یہ راہداری مشرق سے مغرب تک تجارتی روابط کا نیا باب ثابت ہو سکتی ہے۔
