مروّجہ نعت خوانی اور ہمارے نعت خواں

’’مجھے تو آج تک کسی عالم یا کسی مفتی نے نہیں روکا، بلکہ مجھ سے مکرر مکرر یہ نعتیں سنی جاتی ہیں۔ علماء ان نعتوں کی فرمائش کرتے ہیں۔ آپ کون ہوتے ہیں اِن نعتوں کے پڑھنے سے روکنے والے؟ آپ تو عالم بھی نہیں ہیں۔ اور پھر اگر اصلاح ہی مقصود ہے تو جلسہ عام میں سب کے سامنے سرزنش کوئی صحیح طریقہ ہے؟‘‘

یہ ہیں ایک نوجواں نوآموز نعت خواں کے الفاظ جس کو عرصہ تین چار سال سے میں اسٹیج پر نعت خوانی کے جوہر دکھاتے ہوئے دیکھ رہا ہوں۔ کئی مرتبہ سوچا کہ عزیزم کو اُس کے اس انداز سے روکوں لیکن اس کی ناراضگی کے ڈر سے نہ روک سکا۔ سوچا کہ کوئی مفتی صاحب یا کوئی عالم دین خود روک دے گا کہ میاں نعت کا ایک تقدس ہوتا ہے، حمد کا ایک مقام ہوتا ہے، ایسا کلام معروف گانوں کی طرز میں پڑھنا ممنوع اور ناجائز ہے۔ آوازوں کی لہروں سے موسیقی کے سُر پیدا کرنا یا سانس کی صدا اور اُس کے زیروبم سے موسیقی کی دُھن پیدا کر کے حمد و نعت گناہ اور فسق؛ لیکن وائے افسوس ہے کہ آج علماء کی خاموشی اس کے لیے وجہ جواز بن گئی ہے۔

اور طرہ یہ کہ علماء کا مکرر مکرر کہہ کر سننا اور ایسے نعت خوانوں کو اپنے جلسوں اور محافلِ نعت میں بلانا اُن کے لیے سند کا درجہ ہو گیا ہے۔ انتہا تو یہ کہ نعت میں قرآن کی آیات یا آیات کے ٹکڑے گانوں کی طرز میں پڑھے جانے لگے۔ ’’وتعز من تشاء وتذل من تشاء‘‘ اور ’’ورفعنا لک ذکرک‘‘ کے الفاظ موسیقی کی صدا اور روم پیدا کر کے پڑھنا نعت کی مقبولیت کا سبب بن گیا ہے۔

ان محافل کے سامعین جو خود ابھی مدارس کے طالب علم ہیں اور تربیت سے محروم ہیں وہ اِن نعتوں کو سنتے اور سر دھنتے ہیں، اِن نعت خوانوں کو پسند کرتے ہیں۔ بزرگ کہتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بال مبارک کو اگر اِسم تصغیر سے بالڑا کہہ دیا تو دانستہ کہنے والا کافر ہو جائے گا، اور نادانستہ کہنے والا بھی توبہ کرے اور کثرت سے درود شریف پڑھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم راضی کر لے۔

گزشتہ پندرہ بیس سال سے ہمارے ملک میں حمد و نعت کی محافل عروج پر ہیں۔ پہلے یہ رواج صرف بریلوی فکر کے ماحول میں دیکھا جاتا تھا لیکن اب ہر مکتبہ فکر اس کو پذیرائی بخش رہا ہے۔ علماء دیوبند کے اسٹیج پر جذبہ حریت کی بیداری، تحفظِ ختمِ نبوتؐ، ناموسِ صحابہؓ، توحید و سنت کا پرچار، اور اصلاحِ معاشرت جیسے موضوعات پر تقاریر ہوتی تھیں۔ علماء خطباء ایک سے بڑھ کر ایک تشریف لاتے تھے۔ ان کے ساتھ ایک یا دو شاعر جذبے اور سرشاری کے ساتھ نظریاتی و فکری شاعری کرتے تھے، پانچ یا سات شعر پڑھ کر جلسہ کا رنگ بدل دیتے تھے۔ بسا اوقات خطباء کو موضوع شعراء کے کلام سے مل جاتا تھا۔

آج معاملہ الٹ ہو گیا ہے۔ اسٹیج پر نعت خوانوں کی کثرت ہوتی ہے، ایک ایک گھنٹہ ہر نعت خواں نعت پڑھتا ہے۔ اور خطیب صاحب طفیلی ہوتے ہیں، درمیان میں کہیں کوئی تقریر وزنِ بیت کے طور پر رکھی جاتی ہے، مقرر بھی اگر سر ہلائے تو فبھا ورنہ لوگ اُکتا جاتے ہیں اور مجمع سے اُٹھنا شروع کر دیتے ہیں اور پھر جب کوئی نعت خواں آتا ہے تو دوبارہ جلسہ گاہ میں آ جاتے ہیں۔

میں چونکہ کافی عرصہ سے اسٹیج سے وابستہ ہوں، میری تربیت بڑے بڑے بزرگوں نے کی ہے، حضرت حافظ الحدیث حضرت مولانا عبد اللہ درخواستیؒ، حضرت بنوریؒ، حضرت نور الحسن بخاریؒ، حضرت دین پوریؒ، حضرت دوست محمد قریشیؒ، حضرت لعل حسین اخترؒ، حضرت نفیس شاہؒ، مولانا محمد علی جالندھریؒ، حضرت مولانا عبید اللہ انورؒ، مولانا غلام غوث ہزارویؒ، حضرت سعد، مولانا غلام اللہ خانؒ، مولانا مفتی محمودؒ، مولانا سرفراز خان صفدرؒ، حضرت مولانا خواجہ خان محمدؒ، مولانا حکیم محمد اختر صاحبؒ جیسے بزرگوں کی توجہات رہی ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ والد محترم مرحوم سید امین گیلانی، جو امیر شریعتؒ کے تربیت یافتہ اور حضرت لاہوریؒ کی چشمِ معرفت سے فیض یافتہ تھے، نے مجھے خوب نکھارا اور سنوارا۔ 

اس لیے مجھے چند ایک نعت خوانوں کو چھوڑ کر باقی سب پر افسوس ہے، کوئی تربیت نہیں، کوئی اصلاح نہیں، کوئی محنت کا جذبہ نہیں، کوئی سیکھنے کا شوق نہیں، غیر معیاری انتخابِ کلام، معروف گانوں کی طرز میں پڑھنا، سانس لے کر رِدھم پیدا کر کے تک دِھن تک دِھن کی آواز نکالنا سامعین کے ذوقِ سماعت کی تسکین بنتا جا رہا ہے۔ ہر چند کہ سنجیدہ سامعین یہ سب کچھ سن کر دل میں کڑھ رہے ہوتے ہیں، کبھی کبھی کہیں کہیں اس سے اعلانِ بیزاری بھی کر لیتے ہیں، لیکن نعت خواں مست ہیں، اکثر اوقات حمد اور نعت کے مضامین نہایت سطحی اور ہلکے ہوتے ہیں کہ توہین اور ذم کا پہلو نکلتا ہے، کچھ مثالیں عرض کرتا ہوں۔

  • ہمارے اکثر نعت خواں آج کل ایک لوری پڑھتے ہیں: ’’حلیمہ میں تیرے مقدراں تو صدقے، نبی دا تو جھولا جھلیندی وی ہوسیں۔‘‘ اس نظم میں مضامین خیالی ہیں۔ ایسے بھی ہوتا ہوگا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے جب کوئی چیز منسوب کرنی ہو تو پہلے اس کی تحقیق کی جانی چاہیے۔ کیا معروف سیرت نگاروں نے یہ لکھا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ناراض بھی ہوتے تھے اور حلیمہ مناتی تھیں، لبوں میں لب ملاتی تھیں، بکریاں چرا کر جب حضورؐ آتے تھے تو ٹانگیں دباتی تھیں، وغیرہ وغیرہ۔ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی بات کو منسوب کرنا جہنم میں ٹھکانا بنانے کے مترادف ہے تو واقعات کو منسوب کرنا کیسا ہے؟ ’’فاعتبروا یا اولی الابصار‘‘۔
  • ایک نعت خواں کو ’’ورفعنا لک ذکرک‘‘ کی نظم پتہ نہیں کہاں سے مل گئی، اس کو وہ ہر محفل میں سنانا واجب سمجھتا ہے۔ اس میں ایسے کئی الفاظ ہیں جو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شانِ اقدس کے منافی ہیں۔ مثلاً: تیرے تیور مرا زیور، تیرے ذرے میرے دیپک۔ نہ اُس تُک بند کو پتہ ہے کہ دیپک کسے کہتے ہیں، نہ اِس نعت خواں کو معلوم ہے۔ بھلے مانس! دیپک ایک راگ ہے، یا ایک چھوٹے سے دیے کو کہتے ہیں، بڑا دیا (دیوا) دیپ ہوتا ہے۔ اب اللہ پاک تو سراجِ منیر کہیں اور ہمارے تُک بند دیپک کہیں۔ پھر ذرے کا تعلق سورج سے ہے دیے سے تو نہیں۔ ’’میں تو ہے سورج‘‘ تو کہا جا سکتا ہے لیکن دیپک ہرگز جائز نہیں۔
  • اکثر نعت خواں سنے گئے کہ اللہ تعالیٰ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نعتیں پڑھتا ہے، اللہ عزوجل حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام پڑھتا ہے۔ حالانکہ وہ درود و سلام بھیجتا ہے پڑھتا نہیں۔ اللہ کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق میں بہت بے قرار دیکھا (معاذ اللہ) اللہ کو عام دنیاوی عاشق بنا دیا، حالانکہ معاملہ الٹ تھا، حضورؐ بے قرار تھے۔ اللہ تعالیٰ بے قراری سے پاک ہیں۔ میں نے وہیں اُٹھ کر اس کی تردید کی۔
  • ایک نعت خواں کہہ رہے تھے کہ اللہ پاک سوچتا رہا کہ اپنے محبوب کو کیسا بناؤں، حتیٰ کہ اللہ پاک نے اپنا پورا ٹِل (زور) لگایا تب جا کر سمجھ میں آیا کہ اپنا محبوب کیسا بناؤں (استغفر اللہ) علماء اسٹیج پر بیٹھے تھے لیکن انہوں نے غور نہ کیا کہ کیا کفر اور ہذیان یہاں بیان ہوا ہے۔ میں چونکا میں نے اُٹھ کر اُس نعت خواں کی سرزنش کی تو وہ کہنے لگے یہ تو فلاں شاعر صاحب کا کلام ہے۔ یعنی جیسے وہ صاحب کوئی علمی اتھارٹی کا درجہ رکھتے ہیں۔
  • ایک حمد خواں نے ایک حمد میں یہ جملہ استعمال کیا کہ ’’کوچہ میں بازار میں اللہ، اکتارے کے تار میں اللہ‘‘۔ نعوذ باللہ کفر یا فسق نہیں تو کیا ہے؟ اِکتارہ موسیقی کا آلہ ہے اُس کو چھیڑیں تو سُر نکلتا ہے۔ اُس سُر میں اللہ ہے! نعت خواں صاحب نے پڑھ دیا، سننے والوں نے سبحان اللہ کہہ دیا۔ انہیں بھی معلوم نہیں ہم نے سبحان اللہ کہاں کہنا ہے استغفر اللہ کہاں کہنا ہے۔
  • ہمارے نعت خوانوں میں ایک پنجابی نعت بڑی مقبول ہوئی ہے: ’’سونا ایہو جیا جگ وچ لبھدا ای نئیں۔ آکھے آپ خدا، جبریل تو جا، جا کے سوہنے نو لیا۔ تیرے بنا عرش سجدا ای نہیں‘‘۔عرش تو اللہ کی تجلیات اور انوار کا مرکز ہے، اس پر اللہ تعالیٰ کی کرسی ہے جس پر وہ اپنی شان کے مطابق جلوہ فرما ہے۔ عرش مرکزِ حاکمیت ہے، مرکزِ حاکمیت پر احکم الحاکمین کے سوا کون بیٹھ سکتا ہے۔ ایک لمحہ کے لیے بھی آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے شریکِ اقتدار نہیں رہے۔ اور گویا واقعہ معراج سے قبل اور آپؐ کی وہاں سے تشریف آوری کے بعد عرش بے زینت تھا اور آج پھر بے زینت ہے کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اب تو عرش پر نہیں ہیں۔

قارئین کرام! یہ چند نمونے پیش کیے گئے ہیں۔ آپ انصاف سے بتائیں کیا یہ محافل باعثِ ثواب ہیں یا مستوجبِ گناہ۔ ان نعت خوانوں کو اگر بغرضِ اصلاح منع کریں تو ناراض ہو جاتے ہیں حالانکہ ضابطہ یہ ہے کہ اگر جلسہ میں کوئی ایسا کلمہ کہا گیا ہے تو اس کی اصلاح جلسہ اور مجمع میں کی جائے، اور اگر تنہائی میں کہا گیا ہو تو خلوت میں کی جائے۔ اپنی اَنا کا تو اتنا کرب محسوس کرتے ہیں، یہ نہیں دیکھتے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ناموس کا معاملہ ہے اُن کو کتنی تکلیف ہوئی ہو گی۔

آخر میں یہی عرض ہے کہ آپ ضرور ایسی محفلیں منعقد کروائیں لیکن لِلّٰہ ایسے نعت خوانوں کی حوصلہ شکنی کریں جو یہ شعور نہیں رکھتے کہ نعت کس کو کہتے ہیں، نعت اور حمد کیسے پڑھتے ہیں۔ اپنے اکابر شعراء کا کلام پڑھا کریں۔ جناب سید نفیس الحسینی شاہ صاحبؒ، سید امین گیلانیؒ، حفیظ تائبؒ، حافظ لدھیانویؒ، قاری محمد طیب صاحبؒ، ذکی کیفی صاحب، جناب اقبال عظیم صاحب مرحوم؛ جن کا بے شمار کلام پڑھا جا سکتا ہے، اس میں سے انتخاب کریں۔ اللہ توفیق نصیب فرمائے، آمین، وما علينا الا البلاغ۔

(پاکستان نعت کونسل کے تعارفی کتابچہ سے ماخوذ)


(الشریعہ — نومبر ۲۰۲۵ء)

الشریعہ — نومبر ۲۰۲۵ء

جلد ۳۶ ، شمارہ ۱۱

مسئلہ کشمیر کا مختصر جائزہ اور ممکنہ حل
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

غزہ کی جنگ بندی     /     تحریک لبیک کا معاملہ
ڈاکٹر محمد امین

کلامِ الٰہی کو سمجھنے کا ایک اُصول
الشیخ متولی الشعراوی

قرآن سے راہنمائی کا سوال
ڈاکٹر محمد عمار خان ناصر

حدیثِ نبوی ﷺ: شُبہات اور دِفاع کے درمیان، مسلمانوں پر کیا لازم ہے؟
الدکتور محمد طلال لحلو
طارق علی عباسی

فارغینِ مدارس کے معاشی مسائل و مشکلات اور حل
ڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی

مروّجہ نعت خوانی اور ہمارے نعت خواں
سید سلمان گیلانی

محمد نام رکھنے کے متعلق فضائل کی حقیقت
مفتی سید انور شاہ

محمد نام کے فضائل
جامعۃ العلوم الاسلامیۃ

متاعِ مطيع
پروفیسر میاں انعام الرحمٰن

اقوام عالم کی تہذیبوں کا تقابلی جائزہ
مولانا حافظ واجد معاویہ

حقوق الإنسان: فروق أساسية بين المنظور الإسلامي والغربي
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
مولانا حافظ فضل الہادی سواتی

The Kashmir Issue: A Brief Overview and Possible Solution
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

’’خطباتِ فتحیہ: احکام القرآن اور عصرِ حاضر‘‘ (۵)
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
مولانا ڈاکٹر محمد سعید عاطف

’’اسلام اور ارتقا: الغزالی اور جدید ارتقائی نظریات کا جائزہ‘‘ (۹)
ڈاکٹر شعیب احمد ملک
ڈاکٹر ثمینہ کوثر

ماہانہ بلاگ

پاکستان اور افغانستان کا ناخوشگوار تصادم — اہم نکات
مولانا مفتی منیب الرحمٰن

پاک افغان تعلقات اور ہماری یکطرفہ قومی پالیسیاں
مولانا فضل الرحمٰن

اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء کا فتویٰ نمبر ۱۹۴۰۲ اور ابراہیمی ہاؤس
اُمّہ ڈاٹ کام
صید الفوائد

قواعد و ضوابط برائے تحقیق و تصنیف اور اشاعت
اسلامی نظریاتی کونسل

تعلیمی کیریئر کب اور کیسے منتخب کرنا چاہیے؟
ڈاکٹر ناصر محمود
فخر الاسلام

+LGBTQ تحریک کا نظریاتی تجزیہ: جماعتِ اسلامی ہند کا سیمینار
السیرۃ

انڈیا  -  مڈل ایسٹ  -  یورپ   اقتصادی راہداری   (IMEC)
ادارہ الشریعہ

کسے گواہ کریں کس سے منصفی چاہیں
مولانا مفتی محمد تقی عثمانی

ڈونلڈ ٹرمپ کا غزہ منصوبہ اور مسلم حکمرانوں کا بیانیہ
حامد میر

غزہ میں حماس کی جنگ: دو سال میں کیا کھویا کیا پایا؟
مشاہد حسین سید
عاصمہ شیرازی

فلسطین:    غاصبانہ قبضہ اور حقِ خود ارادیت کا معاملہ
فاطمہ بھٹو

صہیونی ریاست زوال کے قریب — جنگ بندی معاہدے میں کیا طے پایا؟
ضیاء الرحمٰن چترالی

سات اکتوبر کے حملہ کے حوالے سے حماس پر الزامات کی حقیقت
دی کیٹی ہالپر شو

غزہ کے بارے میں امریکہ اور اسرائیل کا اصل پلان
دی ینگ ٹرکس

امریکہ اور اسرائیل کے باہمی تعلقات اور غزہ کے بارے میں اسرائیل کا اصل منصوبہ
بریکنگ پوائنٹس

غزہ جنگ بندی کی خلاف ورزی میں سینکڑوں فلسطینیوں کی شہادت
ورلڈ نیوز میڈیا

’’دریائے اردن سے بحیرۂ روم تک‘‘ کا نعرہ
ویکی پیڈیا

صمود فلوٹیلا: آغاز و مراحل اور اختتام و نتائج
ادارہ الشریعہ

مطبوعات

شماریات

Flag Counter