یہ رپورٹ دو حصوں پر مشتمل ہے: پہلے حصے میں ’’امہ ڈاٹ کام‘‘ کے آن لائن فورم پر ہونے والے ایک مباحثہ کے اہم نکات پیش کیے گئے ہیں جو عنوان ’’سعودی فتویٰ ہاؤس نمبر ۱۹۴۰۲: ابراہیمی ہاؤس یا وحدتِ مذاہب‘‘ کے تحت ستمبر ۲۰۲۴ء سے جولائی ۲۰۲۵ء تک چلا۔ جبکہ دوسرے حصے میں سعودی عرب کی فتویٰ کمیٹی ’’اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء‘‘ کے مذکورہ فتویٰ کے اہم نکات پیش کیے گئے ہیں۔ (ادارہ الشریعہ)
اُمّہ فورم کا مباحثہ
مباحثہ میں زیر بحث آنے والے موضوعات میں شرکاء نے فتوے کے مفاد، اس کے شرعی دلائل، اور اس کے ممکنہ سیاسی و مذہبی مضمرات پر گفتگو کی۔ بنیادی طور پر اس فتوے نے اس خیال کی مخالفت کی ہے کہ مختلف الہامی مذاہب کو ایک ہی مشترک مذہبی ڈھانچے (مثلاً باہم مل کر عبادت گاہیں یا مشترکہ صحیفہ شائع کرنا) کے تحت لایا جائے۔ ذیل میں مباحثے کے اہم نکات پیش کیے جا رہے ہیں۔
فتویٰ اور اس کی شرعی بنیاد
شرکاء نے فتویٰ کے اغراض اور دلائل بیان کیے، جن میں یہ نکتہ بھی شامل تھا کہ اسلام کو آخری دین قرار دیا جاتا ہے اور سابقہ صحائف (تورات، انجیل وغیرہ) کو تبدیل شدہ قرار دیا گیا ہے، اور اس بنیاد پر تینوں مذاہب کو مساوی طور پر ایک ہی مذہبی فریم میں لانے والی سوچ کو علماء نے شرعی اعتبار سے قابلِ قبول نہیں سمجھا۔
’’یہ دعوتِ وحدتِ مذاہب ایک مکر، فریب اور وہ سازش ہے جس کا مقصد اسلام کو کمزور کرنا ہے اور اس کی بنیادوں کو ہلانا ہے۔‘‘
فتویٰ کا ’’ابراہیمی ہاؤس‘‘ سے تعلق
کچھ شرکاء نے اس فتوے کو خاص طور پر Abrahamic Family House کے متعلق قرار دیا، جو ابوظبی میں ایک ایسا مرکز ہے جس کے ایک ہی کمپلیکس کے اندر مسجد، چرچ اور سنیگاگ تعمیر کیے گئے ہیں اور اس کا مقصد بین المذاہب مکالمے کا فروغ بتایا گیا ہے۔ فورم کے مباحثے میں متحدہ عرب امارات کے اس اقدام کے بارے میں مختلف آراء سامنے آئیں۔ بعض نے اسے خدشہ کی نگاہ سے دیکھا جبکہ بعض نے اس کا مقصد سمجھوتہ اور ہم آہنگی بتایا۔ کچھ نے فتویٰ کی حمایت کی اور کہا کہ مشترکہ عبادت گاہ یا مشترکہ صحیفوں کا خیال شرعی نقطۂ نظر سے قابلِ قبول نہیں۔ دیگر نے استدلال کیا کہ مذہبی رواداری اور مکالمہ معاشرتی ہم آہنگی کے لیے اہم ہیں، اور فتوے کو سیاسی تناظر میں دیکھا جانا چاہیے۔ بعض نے خدشہ ظاہر کیا کہ سخت مواقف بات چیت کی راہیں بند کر سکتے ہیں۔ جبکہ بعض نے کہا کہ عقیدہ کے حساس مسائل پر احتیاط ضروری ہے۔
غور و فکر کے نکات
مباحثے کے آخر میں چند عمومی نکات زیرِ غور آئے: فتوے کو بغیر تحقیق قبول نہیں کرنا چاہیے، اس معاملے میں علمی و معتدل بحث زیادہ فائدہ مند ہے، اور عقائد کے حساس مسائل پر تند روی سے گریز کیا جانا چاہیے، وغیرہ۔ الغرض اُمہ فورم کے اس مباحثہ نے اس موضوع کو عصرِ حاضر کے تناظر میں جانچنے کا ایک ہمہ جہت خاکہ پیش کیا ہے۔
مباحثہ : امہ فورم
فتویٰ کے اہم نکات
یہ فتویٰ سعودی عرب کی اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء (مستقل کمیٹی برائے علمی تحقیقات اور فتویٰ) نے جاری کیا ہے اور اس میں بنیادی طور پر ’’وحدتِ ادیان‘‘ (Unity of Religions) کی دعوت کو مسترد کیا گیا ہے۔ ذیل میں اہم نکات کا اردو ترجمہ پیش ہے:
دینِ حق صرف اسلام ہے
مسلمانوں کے اجماعی عقائد میں سے ہے کہ روئے زمین پر دینِ حق صرف دینِ اسلام ہے اور یہ تمام سابقہ ادیان، ملتوں اور شرائع کا خاتمہ کرنے والا اور ان کو منسوخ کرنے والا ہے۔ اب اللہ کی عبادت کا واحد دین صرف اسلام ہے۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے: ’’اور جو شخص اسلام کے سوا کوئی اور دین تلاش کرے گا، تو وہ ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا اور وہ آخرت میں نقصان اٹھانے والوں میں سے ہو گا‘‘ (آل عمران ۸۵)۔
قرآن کریم کا مقام اور توراۃ و انجیل کا حکم
اللہ کی آخری کتاب قرآن کریم ہے، جو کہ توراۃ، زبور اور انجیل سمیت تمام سابقہ کتب کو منسوخ کرنے والی اور ان پر حاکم ہے۔ اب اللہ کی عبادت کے لیے صرف قرآن ہی منزل کتاب ہے۔ یہ ضروری ہے کہ یہ یقین رکھا جائے کہ توراۃ اور انجیل کو قرآن کریم نے منسوخ کر دیا ہے اور ان میں تحریف (ردوبدل)، زیادتی اور کمی واقع ہوئی ہے۔ ان کتب میں جو کچھ صحیح تھا، وہ اسلام سے منسوخ ہو چکا ہے اور باقی سب محرف یا بدلا ہوا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے توراۃ کے ایک نسخہ کو دیکھ کر غصے کا اظہار فرمایا تھا اور کہا تھا کہ اگر موسیٰ (علیہ السلام) بھی زندہ ہوتے تو انہیں میری پیروی کے سوا چارہ نہ ہوتا۔
نبی اکرم ﷺ کی ختمِ نبوت اور رسالت کی عالمگیریت
ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء والمرسلین ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی بھی رسول کی اتباع واجب نہیں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت تمام انسانوں کے لیے عام ہے، اور عیسیٰ علیہ السلام بھی آخری زمانے میں نازل ہوں گے تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کی پیروی کریں گے۔
اسلام نہ قبول کرنے والوں کا حکم
اسلام کے اصولوں میں یہ بھی شامل ہے کہ یہود و نصاریٰ اور دیگر، جو اسلام میں داخل نہیں ہوئے، ان کے کافر ہونے کا اعتقاد رکھنا اور انہیں کافر کہنا ضروری ہے۔ جو شخص یہود و نصاریٰ کو کافر نہ سمجھے وہ خود کافر ہو جاتا ہے، شرعی قاعدہ کے مطابق: ’’جو کافر کو کافر نہ سمجھے وہ کافر ہے‘‘۔
’’وحدتِ ادیان‘‘ کی دعوت کے مضمرات
ان بنیادی شرعی اصولوں کی روشنی میں ’’وحدتِ ادیان‘‘ (تینوں ادیان کو ایک سانچے میں ڈھالنے) کی دعوت ایک خبیث اور مکار سازش ہے۔ اس کا مقصد حق کو باطل سے ملانا، اسلام کو منہدم کرنا، اور مسلمانوں کو ارتداد کی طرف کھینچنا ہے۔ یہ دعوت اسلام اور کفر، حق اور باطل کے درمیان کے فرق کو مٹاتی ہے، اور مسلمانوں اور کفار کے درمیان کی نفرت (تفریق) کی دیوار کو گراتی ہے۔ یہ دعوت ولاء (مسلمانوں سے دوستی) اور براء (کافروں سے بیزاری) کو ختم کرتی ہے اور اللہ کے کلمے کو بلند کرنے کے لیے جہاد اور قتال کو ختم کرنے کی راہ ہموار کرتی ہے۔ اگر یہ دعوت کسی مسلمان کی طرف سے ہو تو یہ اسلام سے واضح ارتداد (کفر) سمجھی جائے گی، کیونکہ یہ اسلامی عقائد کے بنیادی اصولوں سے ٹکراتی ہے اور یہ اللہ عزوجل کے کفر پر رضامندی، قرآن کی صداقت کو باطل کرنے، اور اسلام کے ناسخ ہونے کو باطل کرنے کے مترادف ہے۔ لہٰذا یہ فکر شرعاً قطعی طور پر حرام اور مردود ہے۔
عملی اقدامات کی ممانعت
- ایسی گنہگارانہ دعوت کی طرف بلانا، اس کی حوصلہ افزائی کرنا، مسلمانوں میں اسے رواج دینا، یا اس کی کانفرنسوں اور سیمینارز میں شامل ہونا جائز نہیں ہے۔
- توراۃ اور انجیل کو اکیلے یا قرآن کریم کے ساتھ ایک ہی جلد میں چھاپنا جائز نہیں ہے۔
- ایک ہی احاطے میں مسجد، چرچ اور معبد بنانے کی دعوت قبول کرنا بھی جائز نہیں ہے، کیونکہ یہ اسلام کے علاوہ کسی اور دین کو اللہ کی عبادت کا ذریعہ تسلیم کرنے کے مترادف ہے۔
- چرچوں کو ’’اللہ کے گھر‘‘ کا نام دینا بھی جائز نہیں ہے، کیونکہ وہاں اسلام کے علاوہ کسی اور طریقے سے عبادت کی جاتی ہے، بلکہ یہ وہ گھر ہیں جہاں اللہ کے ساتھ کفر کیا جاتا ہے۔
کفار کو اسلام کی دعوت
کفار کو بالخصوص اہلِ کتاب کو اسلام کی دعوت دینا مسلمانوں پر واجب ہے، لیکن یہ صرف مناسب بحث و مباحثہ کے ذریعے ہونا چاہیے، اور اس سلسلہ میں شریعتِ اسلامیہ سے کسی قسم کا تنزل نہیں ہونا چاہیے۔ درج بالا مطالبات پورے کرنے یا ان کے مقاصد حاصل کرنے کے لیے ایسی ملاقاتیں اور مباحثے باطل ہیں جن سے اسلام کی مضبوط کڑیوں اور ایمان کے عہد پر زد پڑتی ہو۔
فتویٰ کا متن : صید الفوائد
