عاصمہ شیرازی: آپ سکالر بھی ہیں، آپ کی نظر بھی ہے ان سارے معاملاے کے اوپر، کیا دیکھ رہے ہیں آپ، دو سال میں کیا ہوا ہے اس پورے محاذ کے اوپر اسرائیل کے اور فلسطین کے؟
مشاہد حسین سید: جی بالکل دو سال پورے ہو گئے ہیں۔ پہلے تو میں خراجِ تحسین پیش کرنا چاہتا ہوں فلسطینی مجاہدین کو، بچے، بچیاں، خواتین، مرد، جنہوں ظلم سہا ہے، جنہوں نے شہادتیں دی ہیں۔ اور جب یہ شروع ہوا تھا سلسلہ ’’طوفان الاقصیٰ‘‘ سات اکتوبر کو، تو ایک بڑا تکبر والا وار کریمینل ہے، نیتن یاہو نے کہا تھا کہ میرا ایک مقصد ہے اس جنگ کا کہ میں حماس کو صفحۂ ہستی سے مٹا دوں، اور یہ میرا ایک ٹارگٹ ہے۔ دو سال پہلے۔ اللہ کی شان دیکھیں کہ آج اسرائیل اور حماس کے مذاکرات ہو رہے ہیں۔
عاصمہ شیرازی: جی، کل ایک راؤنڈ ہوا۔
مشاہد حسین سید: کل ایک راؤنڈ ہوا ہے۔ اور امریکہ کی سرپرستی میں ہو رہے ہیں۔ اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ حماس کا ٹویٹ ری ٹویٹ کر رہے ہیں۔ جس میں انہوں نے … کی بات بھی کی ہے، جس میں انہوں نے زائنسٹ آکوپیشن (صہیونی تسلط) کی بات بھی کی ہے۔ اور جی ڈی وینس (امریکی نائب صدر) نے بھی ری ٹویٹ کیا ہے۔ ایگزیکٹلی وہ جو پورا۔
آپ دیکھیں عاصمہ صاحبہ کہ سات اکتوبر سے پہلے کیا نقشہ تھا؟ تھوڑا سا، مختصر سا ذرا دیکھ لیں۔ میٹنگ ہوئی دلی میں بائیس ستمبر کو۔ بائیڈن اور مودی نے اناؤنس کیا کہ ایک نیا کوریڈور بن رہا ہے ’’اسرائیل، انڈیا، مڈل ایسٹ کوریڈور‘‘ (IMEC)۔ جو سی پیک (CPEC) کو اور چائنیز کوریڈور کو کاؤنٹر کرے گا۔ ٹھیک ہے جی۔ چوبیس ستمبر کو نیتن یاہو نے یونائیٹڈ نیشنز جنرل اسمبلی میں نقشہ دکھایا، دا نیو مڈل ایسٹ، جس میں فلسطین کا کوئی ذکر نہیں۔ ٹھیک ہے جی۔
عاصمہ شیرازی: گریٹر اسرائیل۔
مشاہد حسین سید: گریٹر اسرائیل، پورا میپ دکھایا بڑے، کہ دیکھیں یہ ہے۔ فلسطین کا تو ہے ہی نہیں تھا نا۔ اور اٹھائیس ستمبر کو مجھے یاد ہے امریکہ کے اس وقت کے قومی سلامتی کے مشیر تھے جیک سَلِوان، انہوں نے کہا کہ جتنا پرسکون مشرقِ وسطیٰ اس وقت ہے، تاریخ میں نہیں ہوا۔ بالکل سب خیریت ہے۔ سب اچھا ہے۔ اور خیال تھا کہ ’’ابراہیم اکارڈز‘‘ آ رہے ہیں، اب لمبی لائن لگ جائے گی اسرائیل کو تسلیم کرنے کی۔ اور کسی نے فلسطین کا ذکر نہیں کیا۔
دو سال بعد پیلسٹائن ایشو اِز پیراماؤنٹ، ایون ٹرمپ مان رہا ہے پوائنٹ نمبر 19 میں کہ فلسطین کا حقِ خود ارادیت ہو، ایک ریاست بننی چاہیے، ٹائم نہیں دیا لیکن اصول … ہے۔ سعودی عریبیہ نے بھی کہا ہے، پاکستان، جتنے بھی ملک ہیں کہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ’’ابراہیم اکارڈز‘‘ کا، وہ بات چھوڑیں۔ ابھی تو ایشو امیجیئٹ ہے کہ قتلِ عام کا خاتمہ ہو۔ جو زندہ رہنے کا حق ہے وہ تو آپ دیں نا۔ ریاست اس کے بعد بنتی ہے۔ اور ابھی یہ بھی ہو گیا کہ انیکسیشن نہیں ہو گی، آکوپیشن نہیں ہو گی، تو ایک مشرقِ وسطیٰ کا پورا نقشہ تبدیل ہو گیا ہے۔ اور اس میں دو تین جنگیں بھی ہوئی ہیں۔ پاکستان نے ہندوستان کو ہرایا ہے۔ ہندوستان کے پیچھے کون، اسرائیل تھا۔ ایران نے اسرائیل کو ہرایا ہے، اس کے پیچھے ہندوستان تھا۔ ایک سیاسی منظرنامہ تبدیل ہو گیا ہے۔
عاصمہ شیرازی: تو اس میں آپ کو کیا لگتا ہے کہ یہ جو پورا سیناریو ہے جو کہ آپ کہہ رہے تھے کہ یہ حماس کے ساتھ اب بات چیت ہو رہی ہے، جس کو کہ انہوں نے کہیں کبھی شامل ہی نہیں کیا تھا۔ تو اس پہ پایا کیا ہے اور کھویا بھی کچھ ہو گا۔ اس کے اوپر میں دیکھ رہی تھی کہ آپ نے بڑا اچھا اس کے اوپر اینالسس لکھا ہوا تھا۔
مشاہد حسین سید: جی، جو کھویا ہے وہ تو جانیں جو ضائع ہوئیں، جو ظلم ہوا ہے، جو بربریت ہوئی ہے، جو لائیو جینوسائیڈ ہسٹری میں ہوا ہے بہت۔ جو برٹش فگرز ہیں، دو لاکھ چھیاسی ہزار لوگ شہید ہو چکے ہیں۔ جس میں جو فیمن (قحط) سے بھی، جو قتلِ عام سے بھی، جو ہاسپیٹل میں بھی ہوئے ہیں۔ ٹوٹل فگرز۔ اور ہر ایک گھنٹے میں، پچھلے دو سالوں میں، ایک بچہ شہید ہوا ہے۔ انسانی جانیں، ہیومن لاسز۔ اور تباہی جو ہوئی ہے۔ وہ کھویا ہے۔ لیکن جو سیاسی طور پر میں سمجھتا ہوں کہ پیلسٹائن کاز زندہ ہو گیا ہے۔
عاصمہ شیرازی: اور پیرالل اسرائیل اور حماس اب ایک جگہ کھڑے ہو گئے ہیں۔
مشاہد حسین سید: ایک سطح پر آ گئے ہیں۔ اور ایک چیز بہت بڑی ہوئی ہے۔ آپ خود ابھی یورپ سے ہو کے آئی ہیں۔ میں ابھی پچھلے دنوں گیا ہوا تھا۔ مغربی رائے اب تبدیل ہو گئی ہے۔
عاصمہ شیرازی: بدل گئی ہے، بالکل، جی۔
مشاہد حسین سید: یہ بہت بڑی بات ہے۔ آپ دیکھیں کہ ایمسٹرڈیم میں تین لاکھ لوگوں کا نکلنا اسرائیل کے خلاف۔ تل ابیب میں بھی دو لاکھ لوگ نکلے۔ واشنگٹن، لندن، پیرس، برلن، میڈرڈ، سڈنی۔ سڈنی میں دو لاکھ لوگ نکلے تھے۔ تو یہ بہت بڑی بات ہے۔ مغربی رائے عامہ تبدیل ہوئی ہے۔
مجھے یاد ہے جب میں سٹوڈنٹ تھا، امریکہ میں جارج ٹاؤن میں، تو یاسر عرفات صاحب آئے تو ایک امریکن پروفیسر تھا پالیسٹینین، ایڈورڈ سعید، بڑا مشہور تھا، اس نے کہا تھا عرفات صاحب کو کہ جس دن مغربی رائے عامہ تبدیل ہوئی بشمول امریکہ، اس دن آپ اپنے مقاصد کے قریب پہنچیں گے۔ وہ دن آج آگیا ہے۔
عاصمہ شیرازی: لیکن مشاہد صاحب، اس پورے دو سال میں لبنان میں حزب اللہ کو بہت نقصان پہنچا، ایران کے اندر اسماعیل ہنیہ اور حماس کی ٹاپ لیڈرشپ کو شہید کیا گیا۔ آپ دیکھیں کہ پورے ریجن کے اندر، سیریا پہ اٹیکس کر رہا ہے اسرائیل، یمن، قطر۔
مشاہد حسین سید: سیریا، یمن، قطر۔ چھ ممالک پر حملہ کیا ہے نا انہوں نے۔
عاصمہ شیرازی: جی، تو کیا آپ کو لگتا ہے کہ اس کی بھی گریٹر اسرائیل کی جو خواہش ہے وہ اس معاہدے یا اس بات چیت سے وہ دم توڑ جائے گی یا وہ مزید بڑھے گی ابھی؟
مشاہد حسین سید: دیکھیں نا، گریٹر اسرائیل کا تو۔ دو ممالک ہیں جو توسیع پسند ہیں۔ ایک ہمارے پڑوس میں ہندوستان جو اکھنڈ بھارت کی بات کرتے ہیں، ہندوتوا سوچ کے۔ اور اکھنڈ بھارت کا نقشہ بھی انہوں نے چپکا دیا ہے لوک سبھا میں۔ جس میں پاکستان، افغانستان، بنگلہ دیش، تاجکستان، میانمار شامل ہیں۔ ان کا پلان ہے جو ان کی زبان یدیش میں کہتے ہیں ایرٹس اسرائیل، گریٹر اسرائیل۔ یہ جو آپ بات کر رہی ہیں، جس میں خدانخواستہ وہ مکہ کا بھی ذکر ہے۔ تو اس حوالے سے ان کی سوچ تو یہ تھی۔ اور اب تو وہ جان بچائے اپنی نیتن یاہو کہ وہ جیل جانے سے کیسے بچے گا۔ یا تو جیل جائے گا اسرائیل کا، یا ہتھکڑی لگ کے اس کو ہیگ لے جانا پڑے گا کیونکہ he is a war criminal تو وہ میرا خیال ہے شاید ٹرمپ گارنٹی دے دے گا ان کی حفاظت کے لیے۔ لیکن یہ ابسولوٹلی گریٹر اسرائیل کا پلان نہیں ہو سکا۔
دوسری بات ہے کہ جو ’’ابراہیم اکارڈز‘‘، جس کا خیال تھا ایک لائن لگے گی۔ میرا صرف ایک تھوڑا سا ہے، شق ایڈ کرنی چاہیے، میری تجویز ہو گی کہ ٹرمپ کے تین سال ہیں۔ وہ گارنٹر ہے۔ اس کے بعد تو وہ صدر نہیں ہوں گے نا۔ ہم جو آٹھ مسلم ممالک ہیں وہ ان سے یہ یقین دہانی کروا لیں کہ 2028ء سے پہلے فلسطینی ریاست کا قیام جس کا کیپیٹل یروشلم ہو۔ یہ ضروری ہے۔ اور یہ ٹائم لائن دینا پڑے گا آپ کو۔
عاصمہ شیرازی: یہ ہو پائے گا؟ کیونکہ ظاہر ہے کہ یروشلم کی ہی تو جنگ ہے جو کہ اس وقت جاری ہے۔
مشاہد حسین سید: دیکھیں نا، آپ کوشش کرتے ہیں۔ یہ ممکن تھا کہ خلیل الحیا نیگوشیٹ کرے گا ان کو۔ جن کے بیٹے کو شہید کیا جو سارا کچھ کیا۔ تو وہ اللہ تعالیٰ کا اپنا نظام ہے، دنیا کا اپنا نظام ہے۔
عاصمہ شیرازی: اور اس میں آپ پاکستان کو کہاں دیکھتے ہیں؟ ظاہر ہے کہ ابھی بہت ذکر رہا، پاکستان جو ہے وہ بیس نکات کے حوالے سے بھی دیکھیں، ٹرمپ کے ساتھ جو آٹھ ملک ملے ان میں بھی پاکستان شریک تھا، تو کہاں دیکھتے ہیں؟
مشاہد حسین سید: پاکستان پہ اللہ تعالیٰ کا یہ بڑا فضل ہے کہ آپ پانچ مختلف کیپیٹلز دیکھیں: ریاض، تہران، بیجنگ، ماسکو، واشنگٹن۔ بیک وقت ہمارا ان پانچوں کیپیٹلز میں ایک امپیکٹ ہے ایک اثر ہے ایک مقام ہے اور ایک رسائی ہے۔ رہبر ہوں سید آیت اللہ خامنہ ای صاحب، یا ایم بی ایس ہوں سعودی عریبیہ کے رہنما، یا صدر ڈونلڈ ٹرمپ ہوں، یا شی جن پنگ ہوں، یا پیوٹن ہوں۔ سب پاکستان کی طرف عزت کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں اور پاکستان کا ایک نیا مقام پیدا ہوا ہے، ایز اے میجر مسلم پاور، جو اپنے خطے میں، اور اب تو میں کہتا ہوں، پاکستان اِز پارٹ آف دی گریٹر مڈل ایسٹ، جو سعودی عربیہ معاہدہ کے بعد ان کی حفاظت کی بھی بات، اب سکیورٹی بھی۔
عاصمہ شیرازی: یہ پیراڈائم شفٹ نہیں ہے کہ پاکستان جو کہ الائنڈ وِد افغانستان اینڈ ہندوستان تھا، اب وہ مڈل ایسٹ کی طرف زیادہ۔
مشاہد حسین سید: جی بالکل، یہ آپ نے بڑا صحیح لفظ استعمال کیا پیراڈائم شفٹ۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہوئی ہے، شکر ہے یہ افغانستان کا جو بوجھ رکھا ہوا تھا، ایک غلط اور ناقص افغان پالیسی میں، وہ ہمیں نیچے دھکیل رہا تھا۔ تیس سالوں سے ہم کیا کرتے رہے؟ افغان وار، افغان جہاد، افغان دِس۔ اس کو لے کے آؤ، اس کو لے کے آؤ، اس کو بٹھاؤ، ہمارا بندہ آئے گا۔ تباہی ہوئی ہے ہمارے لیے، نقصان پہنچا ہے ہمیں۔ شکر ہے اس میں جان چھڑائی ہے۔ اب جو افغانستان جانے، ان کے کام جانیں۔ ہمارا تعلق نہیں ہے ان سے انٹرفیئر کرنے کا کیا کرنے کا۔ لیکن اس سے یہ ہوا کہ ہمیں آزادی مل گئی۔ ہمارا ایک رول ابھرا۔
اور وہ پیراڈائم شفٹ یہ ہوا ہے کہ پہلی دفعہ مڈل ایسٹ میں، پچاس سال کے بعد، بھٹو صاحب کے زمانے میں تھا، 1973ء وار میں بھی ہم نے حصہ لیا تھا۔ لوگ دیکھ رہے ہیں ہماری طرف کہ پاکستان میں جان ہے یار، یہ تو بڑے دبنگ لوگ ہیں، دے کین بی دا نیٹ سکیورٹی پرووائیڈر، کیونکہ امریکہ سے ان کا اعتماد اٹھ گیا ہے قطر (پر حملے) کے بعد۔ پھر سعودیہ عریبیہ سے بھی جو ان کے وعدے تھے پورے نہیں ہوئے۔ یہ ایک واقعی۔
عاصمہ شیرازی: تو آپ کو لگتا ہے کہ جو غزہ امن معاہدہ ہے اس کے اندر جو پیس کیپنگ فورسز ہوں گی اس میں پاکستان کا کردار ہو سکتا ہے؟
مشاہد حسین سید: میرا خیال ہے بالکل، وی شوڈ ویلکم دیٹ، جس میں کہتے ہیں کہ نان عرب مسلم فورس، پاکستان بھی ہے، انڈونیشیا بھی ہے، ترکی بھی ہے۔ دیکھیں جی اگر غزہ کے لوگ باہر نکلیں گے اور پاکستانی کو دیکھیں گے تو کہیں گے ’’السلام علیکم‘‘۔ کم سے کم وہ گولی تو نہیں مارے گا ان کو، تنگ تو نہیں کرے گا۔ کتنی بڑی تبدیلی ہو گی، اِٹ وِل بی اے سی چینج، کہ وہ مسلمان پیس کیپنگ فورس ہے۔ اور ہمیں ان کو ویلکم کرنا چاہیے اور ہمیں اس میں شامل ہونا چاہیے۔
عاصمہ شیرازی: اور حماس کا اس کے اوپر کیا ردعمل ہو گا کیونکہ ’’مائنس حماس‘‘ ہے اِس وقت جو چل رہا ہے۔
مشاہد حسین سید: مائنس حماس کیسے؟ ہمارے ہاں کئی فارمولے آئے مائنس ون کے سب فیل ہو گئے۔ مائنس شائنس کیسے نہیں کر سکتے۔ دنیا کا اپنا نظام ہے۔ آپ ختم کریں نا حماس کو۔ نہیں ختم کر سکے۔ جو کام آپ جنگ میں نہیں ختم کر سکے، آپ چاہتے ہیں کانفرنس ٹیبل میں ختم کریں، وہ کیسے ممکن ہے؟ حماس اِز اے پلیئر، حماس سے تو آپ بات کر رہے ہیں۔ ابھی تک حماس نے ہوسٹیجز پکڑے ہوئے ہیں جناب۔
عاصمہ شیرازی: لیکن اس پورے اس میں، چونکہ آپ۔
مشاہد حسین سید: اور حماس، ایک چیز میں خود واضح کر دوں عاصمہ صاحبہ، دے آر اے سیاسی تنظیم، ڈیموکریٹکلی الیکٹڈ 2006ء کے الیکشن میں۔ آپ کو یاد ہو گیا آپ تو اتنی سینئر رپورٹر ہیں کہ 2006ء میں مشرف صاحب کا دور تھا، شوکت عزیز پرائم منسٹر تھا، اس وقت میں چیئرمین تھا خارجہ امور کمیٹی، میں نے حماس کے فارن منسٹر کو بلایا تھا محمود ظہار صاحب کو، پارلیمنٹ میں انہوں نے خطاب کیا تھا، اور ہم نے سب سے پہلے ان کو فائنانشل سپورٹ بھی دی تھی۔
عاصمہ شیرازی: بالکل بالکل پاکستان نے اس میں کافی رول۔
مشاہد حسین سید: پاکستان، تو ہمارا فلسطین کے ساتھ بڑا پرانا رشتہ ہے۔ پاکستان کا۔
