’’خطباتِ فتحیہ: احکام القرآن اور عصرِ حاضر‘‘ (۲)

پیش لفظ

نحمدہ تبارک و تعالیٰ و نصلی ونسلم علیٰ رسولہ الکریم وعلیٰ آلہ واصحابہ و اتباعہ اجمعین۔

جامعہ فتحیہ اچھرہ لاہور ہمارے خطے کے قدیم ترین دینی اداروں میں سے ایک ہے جو 1875ء سے دینی تعلیم و تدریس اور عوامی اصلاح و ارشاد کی مساعی جمیلہ میں مصروف چلا آ رہا ہے اور مختلف اوقات میں جہاں مشاہیر اہلِ علم و فضل تعلیمی خدمات دیتے رہے ہیں وہاں بہت سی علمی شخصیات نے اس سے استفادہ کیا ہے۔ یہ ادارہ اپنی تاریخ کے حوالے سے دارالعلوم دیوبند، مظاہر علوم سہارنپور، مدرسہ شاہی مراد آباد، اور مدرسہ معین الاسلام ہاٹ ہزاری بنگلہ دیش کے ساتھ قدیم دینی مراکز میں شمار ہوتا ہے۔

جامعہ فتحیہ کے مہتمم حافظ میاں محمد نعمان لاہور کی اہم سماجی و سیاسی شخصیت ہیں اور جامعہ کے نظام میں اپنے اسلاف کی بخوبی نمائندگی کر رہے ہیں، ان کے ارشاد پر مجھے چند سالوں سے جامعہ فتحیہ میں جزوی طور پر تدریسی خدمات میں شرکت کی سعادت اس طرح حاصل ہو رہی ہے کہ ہفتے کے دن کو ظہر کے وقت حاضر ہوتا ہوں اور دورۂ حدیث شریف کے طلبہ کو بخاری شریف اور حجۃ اللہ البالغہ کے چند منتخب ابواب کا درس دیتا ہوں، جبکہ عصر کے بعد عوام الناس سے کسی عمومی موضوع پر گفتگو کا موقع مل جاتا ہے۔ اس دوران مشاورت سے یہ طے ہوا کہ کچھ خصوصی خطبات ’’احکام القرآن‘‘ پر دیے جائیں اور عصرِ رواں کے منتخب مسائل کو زیر بحث لا کر انھیں حکمتِ قرآنیہ کی روشنی میں حل کیا جائے، اس پس منظر میں یہ چودہ خطبات دیے ہیں۔

اسلام کے خاندانی نظام کے مختلف پہلوؤں پر بات چیت ہوئی اور دینی مدارس کے کردار و مسائل اور آئندہ حکمتِ علمی پر بھی گفتگو ہوئی، اور کچھ نشستوں میں سرور کائنات ﷺ کی سیرتِ طیبہ کے کچھ حصوں پر گزارشات پیش کرنے کا شرف حاصل ہوا۔

جامعہ فتحیہ کے خطیب مولانا محمد سعید عاطف ہمارے قابلِ احترام دوست اور باذوق ساتھی ہیں۔ انھوں نے اس گفتگو کو بہت حد تک مرتب کر دیا ہے جس کا بیشتر حصہ خاندانی نظام کے بارے میں ہے۔ گفتگو تو سادہ اور عوامی سطح کی ہے مگر حافظ صاحب محترم کے حسنِ ذوق نے اسے مستقل کتاب کی شکل دے دی ہے۔ جس میں انھوں نے آیات و احادیث و اقوالِ سلف کی تخریج کے ساتھ ساتھ ضروری مقامات پر وضاحتی نوٹس شامل کیے ہیں اور ان کے علاوہ میرے مختلف اخبارات میں شائع ہونے والے کالموں میں متعلقہ مضامین کو بھی اس کا حصہ بنایا ہے، آخر میں مصادر و مراجع کی فہرست بھی مرتب فرمائی ہے، جو ان کے عمدہ تحقیقی ذوق کی علامت ہے۔ علاوہ ازیں ان خطبات کے آخر میں حافظ سعید صاحب نے میرے ایک پرانے مضمون بعنوان ’’انسانی اجتماعیت کے تقاضے اور اسلام کا عادلانہ نظام‘‘ کو بھی شامل کر دیا ہے، اس طرح سے کچھ عصری مباحث پر میری علمی رائے بھی ان خطبات کا حصہ بن گئی ہے (الحمد للہ)

حافظ صاحب موصوف کے شکریہ کے ساتھ تمام احباب سے میری درخواست ہے کہ جامعہ فتحیہ کے بانیان اساتذہ و طلبہ کے ساتھ ساتھ ہم دونوں کو بھی اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں کہ اللہ تعالیٰ تادمِ آخر اسی نوعیت کی سرگرمیوں میں مصروف رکھیں اور قبولیت و رضا کے ساتھ انھیں ہمارے لیے ذخیرہ آخرت بنا دیں۔ آمین یا رب العالمین۔

مولانا زاہد الراشدی

خطیب مرکزی جامع مسجد، شیرانوالہ، گوجرانوالہ

نزیل جامعہ فتحیہ، اچھرہ، لاہور

12 جولائی 2022ء

قرآن کریم کے معاشرتی احکام اور عصرِ حاضر

خطبہ نمبر 1: مؤرخہ 28 اگست 2016ء (تمہیدی خطبہ)                            

الحمد للہ رب العالمین والصلاۃ والسلام علیٰ سید الرسل و خاتم النبیین و علیٰ آلہ و اصحابہ و اتباعہ اجمعین۔ اما بعد!

دینِ اسلام کے حوالے سے اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ موضوعِ بحث اسلام کے بہت سے احکام ہیں۔ ان میں کہیں بحث ہے اور کہیں کشمکش اور اشکالات و شبہات ہیں۔ لیکن آج کی تمہیدی گفتگو میں، میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ اس کی ضرورت کیا ہے؟ اور ہمارے دل میں کیوں یہ داعیہ پیش آیا کہ ہم اس عنوان کو اپنی گفتگو کے لیے منتخب کریں۔

قرآن کریم کا بڑا معجزہ اس کا محفوظ ہونا ہے

شاہ ولی اللہ نے اس بات پر گفتگو کی ہے کہ قرآن پاک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات میں سب سے بڑا معجزہ ہے اس کے معجزہ ہونے کی بہت سی وجوہ ہیں جنہیں ہم وجوہِ اعجاز کہتے ہیں۔ قرآن پاک کے بیسیوں وجوہِ اعجاز بیان کیے جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر قرآن پاک کے اعجاز کا ایک بڑا پہلو یہ ہے کہ قرآن پاک جوں کا توں محفوظ ہے جیسا نازل ہوا تھا ویسا ہی آج الحمد للہ موجود ہے۔ یہ کتابی شکل میں مرتب ہوا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے زمانے میں، پھر اس کے بعد ایک قراءت پر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دور میں امت کو یکجا کیا گیا، بعینہ آج وہی قرآن پاک جوں کا توں محفوظ ہے۔

اور باقی سب آسمانی کتابیں نہ تو مکمل طور پر محفوظ ہیں اور نہ ہی مکمل طور پر موجود ہیں۔ مثال کے طور پر ایک بات عرض کرتا ہوں۔ بائبل بنی اسرائیل کی کتابوں کا مجموعہ ہے، تورات بھی ہے، زبور بھی ہے، انجیل اور اس سے متعلقہ صحیفے بھی ہیں۔ بائبل کے دو حصے ہیں: عہد نامہ قدیم اور عہد نامہ جدید۔ لاہور میں پاکستان بائبل سوسائٹی، ایک ادارہ ہے اس کے قیام کو ایک سوسال سے زیادہ عرصہ ہو گیا ہے یہ ایک قدیم اشاعتی ادارہ ہے۔ گوجرانوالہ میں کیتھولک عیسائیوں کا بہت بڑا مرکز ہے، یہ تعلیم دیتے ہیں، کتابیں چھاپتے ہیں۔ ان کا گوجرانوالہ سے ایک ماہانہ رسالہ ‘‘کلام حق‘‘ کے نام سے نکلتا ہے۔ کئی سال تو مجھے پڑھتے ہوئے ہو گئے ہیں۔ کلامِ حق نے آج سے کوئی دس بارہ سال پہلے انارکلی بائبل سوسائٹی کے حوالے سے ایک رپورٹ چھاپی۔ اس میں یہ تھا کہ انارکلی میں جو پاکستان بائبل سوسائٹی ہے، اس نے پاکستان بننے سے پہلے جو انگلش میں بائبل چھاپی تھی 1931ء میں، اس کا اور سن 2001ء میں نئی چھپنے والی کا حوالہ دیا ہے۔

کلامِ حق نے لکھا ہے کہ دونوں ایڈیشنوں میں پینتالیس آیات کا فرق ہے۔ انھوں نے باقاعدہ نقشہ بنایا ہے کہ پہلے یہ لفظ تھا اب نہیں، پہلے نہیں تھا اب ہے، ایک ہی مکتبہ ایک ہی شہر کے دو ایڈیشنوں میں پینتالیس آیات کا فرق ہے۔ تو اس پر میں نے کالم لکھا اور اس پر ایک جملہ کہا کہ ستر سال سے ان کی کتاب میں پینتالیس آیات کا فرق پڑ گیا ہے، اندازہ کریں کہ اس ’’غریب‘‘ کے ساتھ دو ہزار سال میں کیا کچھ ہوا ہو گا۔ یہ میں نے مثال دی ہے۔ الحمد للہ ہمارا قرآن پاک جوں کا توں محفوظ ہے۔ اللہ تعالی کی بے نیازی دیکھیے محفوظ بھی کس اہتمام کے ساتھ ہے۔

حضرت سید نفیس شاہ صاحب ہمارے بڑے بزرگ تھے۔ ان کا کتب کے حوالے سے بڑا اچھا ذوق تھا۔ ہم لندن میں اکٹھے ہو گئے، حضرت شاہ صاحب بھی تشریف لے گئے تھے، میں بھی وہاں تھا۔ کتاب کا تھوڑا بہت ذوق میرا بھی ہے، شاہ صاحب کا کتاب کا بہت عمدہ ذوق تھا، مشورہ ہوا کہ انڈیا آفس لائبریری جاتے ہیں۔ ہم شاہ صاحب کی قیادت میں گئے، وہاں مصحفِ عثمانی کا ایک نسخہ موجود ہے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانے میں جو قرآن پاک تھے ان کے چھ سات نسخے لکھوائے گئے تھے جو پوری دنیا میں بھیجے گئے۔ اعلان یہ تھا کہ یہ ایک معیاری (Standard) نسخہ ہے، اپنے نسخے اس کے مطابق کر لو۔ جس کو ہم مصحفِ عثمانی کہتے ہیں، اس کا ایک اصلی (Original) نسخہ وہاں پر اب بھی موجود ہے۔ میں نے اس کی زیارت کی ہے، اس پر مختلف بادشاہوں کی مہریں بھی لگی ہوئی ہیں۔ شاہ جہاں کی، بادشاہ جہانگیر کی۔

ایک جملہ میں نے پڑھا: ’’ھذا مصحف عثمان بن عفان‘‘، یہ مصحف عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کا ہے۔ تو میں وہاں سوچنے لگا کہ یا اللہ! تو اپنے قرآن کی حفاظت کن سے کروا رہا ہے، پتہ نہیں اس نسخہ کی حفاظت ہم کر سکتے یا نہ کر سکتے، تو، اللہ حفاظت کن سے کروا رہا ہے اور کہاں کروا رہا ہے۔ انگریزوں سے ظاہرً‌ا حفاظت کروائی اور محفوظ طریقے سے انگلستان میں رکھوایا۔ صرف حفاظت ہی نہیں بلکہ اس کی پوری سند لکھی ہے کہ یہ مصحف کس کے پاس تھا، اس کے بعد کسی خلیفہ کے پاس آیا، باقاعدہ ایک مکمل سند موجود ہے کہ یہ نسخہ فلاں فلاں سے ہوتا ہوا یہاں تک پہنچا ہے۔

حضرت عثمانؓ کی تلاوت والا نسخہ استنبول میں محفوظ ہے

قرآن پاک کے اعجاز میں سے ایک اعجاز یہ بھی ہے کہ قرآن پاک جوں کا توں موجود ہے۔ دو نسخے تو پہلے والے موجود ہیں: ایک یہ، اور دوسرا استنبول میں ہے۔ جس نسخے کی تلاوت کرتے ہوئے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ شہید ہوئے تھے اور اس پر خون کے نشانات بھی موجود ہیں، وہ استنبول میں ہے۔ اس کی زیارت کے لیے جانے کا ایک مرتبہ تقاضا ہوا لیکن کسی وجہ سے زیارت نہیں کر سکا۔

حضرت مولانا ضیاء القاسمیؒ اور حضرت مولانا منظور احمد چنیوٹیؒ اور میں، ہم تینوں گئے، راستے میں لندن جاتے ہوئے ہم استنبول ٹھہرے، ہمارا ارادہ تھا کہ حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے مزار پر حاضری دیں گے اور مصحف کی زیارت بھی کریں گے۔ مزار پر تو حاضری ہو گئی لیکن قرآن پاک کی زیارت نہیں کر سکے، اتفاق کی بات ہے کہ ان دنوں توپکاپی میوزیم بوجہ مرمت ایک ہفتہ کے لیے بند تھا۔

ایک سروے کے مطابق حفاظ کی تعداد ایک کروڑ تیس لاکھ ہے

وجوہِ اعجاز میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ہزاروں نہیں لاکھوں بلکہ لاکھوں سے بھی زیادہ قرآن پاک کے حفاظ موجود ہیں۔ آج (2016ء) سے پانچ سال پہلے امریکہ کے ایک ادارے نے دنیا میں سروے کیا تھا کہ قرآن پاک کے حافظ کتنے ہوں گے، تو رپورٹ چھپی تھی کہ دنیا میں باقاعدہ حافظوں کی تعداد 13 ملین کے لگ بھگ ہے، یعنی ایک کروڑ 30 لاکھ، یہ تو آج سے پانچ چھ سال پہلے تھے، اب یقیناً‌ کم تو نہیں ہوئے ہوں گے بلکہ پہلے سے بھی بڑھ چکے ہیں، تو یہ اس قدر حفاظ کا ہونا بھی قرآن پاک کے وجوہِ اعجاز میں سے ہے۔

قرآن کریم میں معاشی اور معاشرتی مسائل کا حل ہے

قرآن پاک کے اعجاز کے بیسیوں پہلو ہیں۔ امام شاہ ولی اللہ دہلوی نے لکھا ہے کہ آنے والے دور میں سب سے بڑا پہلو یہ ہوگا کہ سوسائٹی کے مسائل کو حل کرنے کے لیے قرآن پاک کیا رہنمائی کرتا ہے، قرآن پاک سوسائٹی کے مسائل کا کیا حل پیش کرتا ہے۔ (الفوز الکبیر: الباب الثالث الفصل الرابع فی وجوہ اعجاز القرآن الکریم، مکتبۃ البشریٰ، کراچی، 2011ء، ص 86)

اس پر شہادتیں موجود ہیں، کھلی شہادتیں، دستاویزی شہادتیں، لوگ قرآن پاک کی طرف رجوع کر رہے ہیں۔ ان میں دو واقعات عرض کرنا چاہوں گا:

پاپائے روم اس وقت پوپ فرانسیس ہیں۔ اس وقت (جب) اس سے پہلے پوپ بینی ڈکٹ پاپائے روم تھے، انھوں نے دنیا کے معاشی بحران کو ختم کرنے کے لیے ایک کمیٹی بنائی تھی، اس کی رپورٹ یہ تھی کہ دنیا کے معاشی نظام میں بیساکھیوں کے سہارے مزید چلنے کی سکت نہیں رہی۔ دنیا کو معاشی انصاف فراہم کرنا ہے تو وہ معاشی اصول اپنانے ہوں گے جو قرآن پاک نے انسانیت کو دیے ہیں۔

جبکہ پولوشن اور ماحولیاتی آلودگی کے حوالے سے نیویارک کی ایک کانفرنس میں شہزادہ چارلس نے بھی اس قسم کی بات کی تھی۔ اس کا ایک جملہ عرض کرتا ہوں، اس نے کہا کہ دنیا میں جو آلودگی (Pollution) ہے وہ سائنسدانوں کی پھیلائی ہوئی ہے۔ وہ ان سائنسدانوں سے لڑتا ہے کہ تم یہ ٹھیک نہیں کر رہے، اس کے لیکچر کا یہ خلاصہ ہے جو اس نے نیویارک میں دیا تھا۔ اس نے کہا کہ دنیا کو اگر تباہی سے بچانا چاہتے ہو تو تمھیں وہ معاشرتی اصول اپنانے ہوں گے جو قرآن نے دیے ہیں۔ سماج کے، زندگی کے، فطرت کے، جو قرآنی قوانین ہیں وہ اپنانے ہوں گے۔

حضرت شاہ ولی اللہ کی قرآن کے بارے میں پیشین گوئی

حضرت شاہ ولی اللہ نے فرمایا تھا کہ آنے والے دور میں قرآن پاک کے اعجاز کا سب سے نمایاں پہلو یہ ہوگا کہ قرآن اور قرآن کے بیان کردہ احکام، قرآن کی بیان کردہ شریعت، سوسائٹی کا سسٹم، سماج کا نظام، یہ دنیا کو ماننا پڑے گا کہ سب سے بہتر نظام ہے۔ اور مسلمانوں کے اہلِ علم کو اس پر کام کرنا ہوگا کہ سماج کے مسائل پر، سوسائٹی کی مجبوریوں پر، معاشرے کی مشکلات پر قرآن پاک کیا رہنمائی کرتا ہے، اور جس طرح قرآن رہنمائی کرتا ہے اس طرح رہنمائی کریں۔ شاہ صاحب یہ بات تین سو سال پہلے فرما گئے تھے، دنیا پر یہ بات اب واضح ہو رہی ہے۔

ولی اللہی اسلوبِ بیان کے بارے میں چند نو مسلموں کی رائے

امریکن نومسلم خاتون ہیں ڈاکٹر ایم کے ہرمینسن صاحبہ، اس پر کام کر رہی ہیں، انھوں نے دینی علم پڑھا ہے۔ اس خاتون نے حضرت شاہ ولی اللہ پر پی ایچ ڈی کی ہے۔ اللہ تعالیٰ ایسے بھی کام لے رہے ہیں۔ شکاگو یونیورسٹی کی شاہ ولی اللہ چیئر کی چیئرپرسن ہیں، وہاں بیٹھی کام کر رہی ہیں، گوجرانوالہ میں ایک مرتبہ ہمارے ہاں تشریف لائی تھیں، ان کا کہنا یہ ہے کہ مغرب سے اگر اسلام کی بات کہنا چاہتے ہو تو شاہ ولی اللہ کی زبان سے کہو، ان کے اسلوب میں کہو۔

برطانیہ میں ایک نو مسلم ڈاکٹر یحییٰ برٹ بھی اسی پر کام کر رہا ہے، اس کا کہنا یہ ہے کہ دنیا سے اگر اسلام کی بات کرنی ہے تو شاہ ولی اللہ سے اِس کے انداز سیکھو اور ان کی زبان سیکھو۔

کچھ عرصہ قبل گوجرانوالہ میں ایک نو مسلم ملائیشیا سے تشریف لائے جو ایک بڑے بدھ مذہبی راہنما کے فرزند ہیں۔ انھوں نے اٹھارہ سال اسلام کا مطالعہ کیا ہے۔ شاہ ولی اللہ کے علوم کا انگریزی میں ترجمہ بھی کر رہے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ اگر آج کی جدید دنیا سے اسلام کی بات کرنی ہے تو شاہ ولی اللہ کا اسلوبِ بیان سیکھو وگرنہ دنیا سے اسلام کی بات نہ کرو۔

دانائی کی زبان، حکمت کی زبان، لوگوں کے مسائل کے پس منظر اور ضروریات کی بات۔ میں مشرق و مغرب دنیا میں بہت سے نو مسلموں کی مثالیں دے سکتا ہوں جن سے میری ملاقاتیں ہوئی ہیں۔ اب دنیا کہہ رہی ہے کہ شاہ ولی اللہ کو سمجھو، شاہ ولی اللہ کی بات کرو، ان کے لہجے و اسلوب میں بات کرو۔ جبکہ شاہ ولی اللہ یہ کہتے ہیں کہ قرآن پاک میں اپنے حوالوں سے ضرور باتیں کرو لیکن قرآن پاک کی بات سماج کے حوالے سے بھی کرو۔

قرآن کریم کے پیش کردہ نظام کے مقابل کوئی نظام نہیں

یہ قرآن پاک کا چیلنج ہے:

وإن کنتم فی ریب مما نزلنا علیٰ عبدنا فاتوا بسورۃ من مثلہ وادعوا شہداءکم من دون اللہ ان کنتم صادقین (سورۃ البقرۃ 2، آیت: 23)
(اور اگر تم اس (قرآن) کے بارے میں ذرا بھی شک میں ہو جو ہم نے اپنے بندے (محمد ﷺ) پر اتارا ہے تو اس جیسی کوئی ایک سورت ہی بنا لاؤ۔ اور اگر سچے ہو تو اللہ کے سوا اپنے تمام مددگاروں کو بلالو۔)

ایک آیت اور ایک سورت کا مقابلہ تم نہیں کر سکتے۔ شاہ صاحب کہتے ہیں کہ پچھلے زمانے میں ان آیات کا مفہوم یہ سمجھا جاتا تھا کہ فصاحت میں بلاغت میں، لیکن آنے والے دور میں اس چیلنج کا ترجمہ یہ ہوگا کہ قرآن پاک نے اور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانی سوسائٹی کی مشکلات کے حل کے لیے جو قانون اور ضابطے دیے ہیں ان جیسا ایک قانون لا کر دکھاؤ۔ قرآن پاک کے معاشرتی احکام، سنتِ رسولؐ کے معاشرتی احکام، اور اسلام کا جو سماجی نظام ہے، ان میں سے کسی ایک کے ضابطے اور قوانین میں سے کسی ایک کا مقابلہ کر کے دکھاؤ۔

حضرت شاہ ولی اللہ کی ایک تحریک یہ تھی کہ قرآن کی بات کرو، معاشرتی مسائل کے حوالے سے سماج کی مشکلات کے حوالے سے جو لوگوں کو مشکلات درپیش ہیں ان کو سامنے رکھو، قرآن اور سنتِ رسولؐ سے استنباط کر کے اس کا حل پیش کرو۔

آج کی بڑی ضرورت، قرآن سے معاشرتی مسائل کا حل پیش کرنا ہے

جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ آج کی سب سے بڑی ضرورت قرآن مجید سے معاشرتی مسائل کا حل پیش کرنا ہے۔ مجھے پڑھتے پڑھاتے ہوئے دورِ طالب علمی میں ساٹھ سال ہو گئے ہیں اسی میں وقت گزارا ہے اور اسی طرح آخر تک وقت گزارنے کا ارادہ ہے، اللہ تعالیٰ توفیق عطا فرمائے۔ زندگی بھر کا تجربہ یہی ہے کہ قرآن پاک کے اعجاز کے سارے پہلوؤں پر بات کریں۔ آج کی ضرورت یہ ہے، سماج کے حوالے سے جو انسانی مشکلات درپیش ہیں، معاشرے کے جو مسائل ہیں، ان مسائل کے حل کے لیے قرآن پاک اور جناب خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتِ مبارکہ کیا کہتی ہے، اس حوالے سے قرآن پاک کو پڑھا جائے، سمجھا جائے، پیش کیا جائے اور دنیا کو بتایا جائے کہ لوگوں کے مسائل کا حل اس دنیا کے بتائے ہوئے سسٹم میں نہیں ہے بلکہ قرآن پاک میں ہے۔

سماج اور وحی الٰہی کا باہمی تعلق

ہماری دنیا کے آج کے سماج کا ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ کیا مذہب اور ریاست کا کوئی باہمی تعلق ہے؟ یہ آج کے سماج کا بہت بڑا مسئلہ ہے۔ سماج اور وحی کا باہم کوئی تعلق ہے؟ معاشرے کا اور آسمانی تعلیمات کا ایک دوسرے سے کوئی رشتہ ہے؟ اور ہے تو کس لیول پر ہے؟ میں عرض کرتا ہوں کہ سماج کا آغاز کہاں سے ہوا اور کیسے ہوا، قرآن پاک کیا کہتا ہے؟ قرآن پاک سے پوچھ لیں کہ انسانی سوسائٹی کا آغاز کہاں سے ہوا؟ انسانی سوسائٹی کا آغاز ایک جوڑے سے ہوا۔ اللہ جل شانہ نے جنت میں فرمایا تھا:

وقلنا یا اٰدم اسکن انت و زوجک الجنۃ
(اے آدمؑ تم اور تمھاری بیوی جنت میں رہو۔)

تم اور تمھاری بیوی جنت میں رہو، یہ سماج کا آغاز ہے۔ پھر ان پر ایک پابندی لگا دی:

وکلا منھا رغدا حیث شئتما ولا تقربا ھذہ الشجرۃ (سورۃ البقرہ 2، آیت: 35)
(اور اس میں سے جہاں سے چاہو جی بھر کے کھاؤ مگر اس درخت کے پاس بھی مت جانا۔ )

کیا مطلب؟ یعنی سوسائٹی مکمل آزاد نہیں ہے بلکہ جائز اور ناجائز کی پابندیوں کے ساتھ ہے۔ سوسائٹی ہر لحاظ سے آزاد نہیں ہے بلکہ پابندیوں کے حصار میں ہے۔ میں دو باتیں عرض کیا کرتا ہوں: (1) انسانی سوسائٹی کا آغاز فرد سے نہیں جوڑے سے ہے (2) انسانی سوسائٹی کا آغاز پابندیوں سے ہے۔ یہ انسانی سوسائٹی کا آغاز اور زیرو پوائنٹ ہے کہ یہ کھانا ہے اور یہ نہیں کھانا، یہ پابندی تھی۔ انھوں نے درخت سے کھا لیا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا، نقل مکانی کرو (ہجرت کرو) چلو زمین کی طرف۔

اھبطوا منہا جمیعا
(اب تم سب یہاں سے اتر جاؤ۔)

حکم تو ہو گیا کہ جنت سے اتر جاؤ، زمین پر جاؤ، دو باتیں اللہ رب العزت نے اس موقع پر ارشاد فرمائیں:

ولکم فی الارض مستقر و متاع الیٰ حین
(اور تمھارے لیے ایک مدت تک زمین میں ٹھہرنا اور کسی قدر فائدہ اٹھانا (طے کر دیا) گیا ہے)

(یہ میں سماج کا آغاز بیان کر رہا ہوں) کہ زمین پر اتر جاؤ وہاں رہنے کی جگہ بھی ہو گی اور کھانے پینے کا بندوبست بھی ہوگا، روٹی کپڑا مکان بھی ہو گا۔ ہمیشہ کے لیے نہیں بلکہ ایک مدت متعین ہے۔ کسی کا زمانہ چالیس سال، کسی کا پچاس سال، ساٹھ سال، نوے سال۔ کرنا کیا ہے؟ صرف زمین پر نہیں بھیج رہا بلکہ:

فاما یاتینکم منی ھدی فمن تبع ھدای فلا خوف علیہم ولا ھم یحزنون والذین کفروا و کذبوا باٰیتنا اولٰئک اصحاب النار ھم فیھا خالدون (سورۃ البقرہ 2، آیت: 38)
(پھر اگر میری طرف سے کوئی ہدایت تمھیں پہنچے تو جو لوگ میری ہدایت کی پیروی کریں گے ان کو نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ کسی غم میں مبتلا ہوں گے۔ اور جو لوگ کفر کا ارتکاب کریں گے اور ہماری آیتوں کو جھٹلائیں گے وہ دوزخ والے لوگ ہیں جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے۔)

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ انسان کو ہدایات میں دوں گا اور میں بتاؤں گا کہ کیا کرنا ہے۔ جس نے میری ہدایت کی پیروی کی جو میری ہدایت (Direction) پر چلا، وہ تو خوف اور غم سے نجات پائے گا اور اپنے گھر جنت میں واپس آئے گا۔ اور جس نے میری ہدایت پر عمل نہیں کیا وہ دوسرے گھر جائے گا (یعنی جہنم میں)۔

والذین کفروا و کذبوا باٰیتنا اولٰئک اصحاب النار ھم فیھا خالدون (سورۃ البقرہ 2، آیت: 38، 39)
(اور جو کفر کا ارتکاب کریں گے اور ہماری آیتوں کو جھٹلائیں گے وہ دوزخ والے لوگ ہیں جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے۔)

یہ ہے انسانی سوسائٹی کا نقطہ آغاز، یہ ہے زیرو پوائنٹ، تو قرآن نے انسانی سوسائٹی کا آغاز یہاں سے بیان کیا ہے اور ایک جگہ فرمایا:

وبث منھما رجالا کثیرا ونساء (سورۃ النساء 4، آیت: 1)
(اور ان دونوں سے بہت سے مرد اور عورتیں (دنیا میں) پھیلا دیے۔)

ساری سوسائٹی کا پھیلاؤ ان دونوں سے یعنی حضرت حوا اور حضرت آدم علیہ السلام سے ہے۔ میں نے عرض کیا ہے کہ یہ بات کہنا کہ سوسائٹی کا سماج کا آسمانی تعلیمات سے کوئی تعلق نہیں، سماج خود مختار ہوتا ہے، سماج اپنے فیصلے کرنے میں آزاد ہوتا ہے۔ قرآن اس بات کو تسلیم نہیں کرتا، قرآن پاک کیا کہتا ہے؟ بھیجا بھی میں نے ہے، بکھیرا، پھیلایا بھی میں نے ہے، مستقر (دنیا کا ٹھکانہ) بھی میں نے دیا ہے، اور متاع (وسائلِ زندگی) بھی میں نے دیے ہیں، اور ہدایات بھی میں دوں گا۔ سماج کا یہ آغاز قرآن کا بیان کردہ ہے۔

نسلِ انسانی کے آغاز کے بارے میں مغربی نظریہ اور قرآنی موقف

ہمیں مغربی نظامِ فکر سے متاثر ہو کر انسانی سوسائٹی کا آغاز یوں پڑھایا جاتا ہے، وہ یہ کہ انسان جانوروں کی طرح جنگل میں رہتا تھا اور آہستہ آہستہ انسانی سوسائٹی میں شعور آیا لباس کا، قانون اور تعلیم کا، سوسائٹی آہستہ آہستہ خود پیش رفت کر کے آگے بڑھی۔ میں کہتا ہوں کہ قرآن مجید سے پوچھو کہ قرآن کیا کہتا ہے، یہ علم اور تعلیم سوسائٹی کے ارتقاء کا نتیجہ ہے یا اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی ہے۔

اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا کیا تو پہلے کیا کِیا؟

وعلم اٰدم الاسماء کلھا (سورۃ البقرۃ 2، آیت: 31)
(اور آدم علیہ السلام کو (اللہ نے) سارے نام سکھا دیے۔)

یہ علم وہبی (اللہ کی طرف سے عطا کردہ) ہے۔ آدم علیہ السلام کو سب سے پہلے کیا سکھایا تھا؟ درمیان میں ایک لطیفہ عرض کر دیتا ہوں۔ ایجوکیشن کا زیرو پوائنٹ بھی یہی ہوتا ہے، نام سکھائے جاتے ہیں۔ کسی بھی زبان کو آپ دیکھ لیں اس کے سکھانے کی ابتدا ناموں سے ہوتی ہے۔ یہ بکری ہے، یہ گائے ہے، آغاز ناموں سے ہوتا ہے۔ اللہ پاک فرماتے ہیں کہ یہ سب کچھ میں نے سکھایا تھا۔

الرحمٰن علم القرآن، خلق الانسان، علمہ البیان (سورۃ الرحمٰن 55، آیت: 1-4)
(وہ رحمٰن، جس نے قرآن کی تعلیم دی۔ اس نے انسان کو پیدا کیا۔ اسی نے اس کو بیان کرنا سکھایا۔)

دوسری جگہ فرمایا:

وعلم اٰدم الاسماء کلھا (سورۃ البقرۃ 2، آیت: 31)
(اور آدمؑ کو (اللہ نے) سارے نام سکھا دیے۔)

اللہ تعالیٰ نے انسان کو وہبی علم دیا ہے، اللہ تعالیٰ نے ہر جاندار کو اس کا بنیادی اور ضروری علم وہبی (فطری) طور پر دیا ہے، کسبِ عمل بعد میں ہے، اس میں بتدریج ترقی ہوتی ہے اور توسع ہوتا ہے۔ ایک چھوٹی سی مثال دوں گا، ساری چیزیں انسان کسب (ذاتی علم، جدوجہد) سے حاصل نہیں کرتا۔ بنیادی چیز وہبی ہوتی ہے، آگے کسب سے انسان ترقی کرتا ہے۔

دیکھیں بچہ پیدا ہوا ہے، پیدا ہونے سے پہلے ماں کے پیٹ میں اس کی خوراک کا راستہ ناف تھا، پیدا ہوتے ہی ناف کاٹ دیتے ہیں۔ بچے کو بھوک لگتی ہے، منہ مارتا ہے، ماں کا سینہ تلاش کرتا ہے۔ اس کو یہ کس نے بتایا؟ کس نے بتایا کہ مجھے خوراک یہاں سے ملنی ہے۔ حالانکہ پہلے یہاں سے خوراک کبھی نہیں ملی لیکن منہ بلا رہا ہے، ماں کا سینہ تلاش کر رہا ہے کہ کہاں سے دودھ ملے گا؟

ایک منظر اور دیکھیں آنکھ میں خارش ہوئی ہے، بچہ کیا کرتا ہے؟ ہاتھ کی پشت سے خارش کرتا ہے، آپ نے اس کو خارش کرتے ہوئے دیکھا ہے، تو اس کو یہ کس نے بتایا ہے؟ میں نے آپ کو یہ چھوٹی سی مثال دی کہ انسان کو اللہ تعالیٰ نے اس کی ضرورت کا علم فطری طور پر دیا ہے یعنی بنیادی علم انسان کے پاس وہبی ہے۔

انسانی ضروریات (روٹی، کپڑا، مکان وغیرہ) کا آغاز قرآن کی روشنی میں

یہاں ایک عجیب بات کہی جاتی ہے کہ انسان جنگلوں میں ننگا رہتا تھا، اس نے تدریجاً‌ ترقی کی اور وہ مرحلہ بہ مرحلہ آگے بڑھا، اسے آہستہ آہستہ شعور میسر آیا۔ جبکہ قرآن کہتا ہے کہ جنت میں جب آدم اور حوا علیہما السلام نے درخت سے پھل کھایا تو

بدت لھما سواتھما وطفقا یخصفان علیھما من ورق الجنۃ (سورۃ الاعراف 7، آیت: 22)
(تو ان دونوں کی شرم کی جگہیں ایک دوسرے پر کھل گئیں اور وہ جنت کے کچھ پتے جوڑ جوڑ کر اپنے بدن پر چپکانے لگے۔)

جنت کا لباس چونکہ اتر گیا تھا اس لیے بے ساختہ درختوں کے پتے توڑ توڑ کر اپنے وجود کو چھپانے لگے۔ یہ فطرت ہے، نیچر (Nature) ہے۔ انسان کا لباس ان کے پاس تھا، لباس کوئی تعلیم اور ڈپلومہ حاصل کر کے تو انھوں نے نہیں بنایا تھا۔ ان کی پاکیزہ فطرت میں لباس بھی تھا اور اس کی اہمیت کا احساس بھی تھا۔ اور قرآن پاک نے ہمیں بھی یہ سبق دیا ہے:

یا بنی اٰدم لا یفتننکم الشیطان کما اخرج ابویکم من الجنۃ ینزع عنھما لباسھما لیریھما سواٰتھما (سورۃ الاعراف 7، آیت: 27)
(اے آدمؑ کے بیٹو اور بیٹیو! شیطان کو ایسا موقع ہرگز ہرگز نہ دینا کہ وہ تمھیں اسی طرح فتنے میں ڈال دے جیسے اس نے تمھارے ماں باپ کو جنت سے نکالا، جبکہ ان کا لباس ان کے جسم سے اتروا لیا، تاکہ ان کو ایک دوسرے کی شرم کی جگہیں دکھا دے۔)

پورا فلسفہ بیان کر دیا قرآن پاک نے کہ دیکھو! تمھارے باپ دادا کو شیطان نے ورغلایا تھا اور بے لباس کر دیا تھا، کہیں تمھیں بھی یہ شیطان لباس سے محروم نہ کر دے۔ قرآن کہتا ہے کہ تمھارے باپ آدم اور اماں حواء علیہما السلام کا لباس کس نے اتروایا تھا؟ شیطان نے۔ کہاں اتروایا تھا؟ جنت میں۔ تمھیں بھی گمراہ کرنے پر آئے گا تو سب سے پہلے لباس اتروائے گا۔ قرآن پاک ہمیں خبر دار کر رہا ہے۔ شیطان نے وہاں بھی یہی حربہ اختیار کیا تھا۔ اور زمین میں سوسائٹی کو خراب کرنے کے لیے بھی یہی حربہ استعمال کرے گا اور لباس اتروائے گا، بے حیا بنائے گا۔ لباس نیچر کا حصہ ہے لیکن پھر بھی یہ کہا جاتا ہے کہ انسان جنگل میں جھونپڑیوں میں رہتا تھا، وہاں سے ہوتے ہوئے کچے کوٹھے تک پہنچا۔ اس بارے میں قرآن کیا کہتا ہے:

ان اول بیت وضع للناس للذی ببکۃ (سورۃ آل عمران 3، آیت: 96)
(حقیقت یہ ہے کہ سب سے پہلا گھر جو لوگوں (کی عبادت) کے لیے بنایا گیا یقینی طور پر وہ ہے جو مکہ میں واقع ہے۔)

پہلا بیت یا گھر کہاں بنا تھا؟ کب بنا تھا؟ مکہ میں کس نے بنایا تھا؟ سب سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام نے بنایا ہے زمین پر۔ جناب باری تعالیٰ کی بارگاہ میں دونوں آدم و حوا علیہ السلام اپنے رب سے معافی مانگتے رہے:

ربنا ظلمنا انفسنا وان لم تغفر لنا و ترحمنا لنکونن من الخاسرین (سورۃ الاعراف 7، آیت: 23)
(اے ہمارے پروردگار! ہم اپنی جانوں پر ظلم کر گزرے ہیں، اور اگر آپ نے ہمیں معاف نہ فرمایا اور ہم پر رحم نہ کیا تو یقیناً‌ ہم نامراد لوگوں میں شامل ہو جائیں گے)

پھر جب معافی مل گئی تو فرمایا کہ زمین کو تمھارا منفرد گھر بنایا ہے۔ یہ جو کہا جاتا ہے انسان کو شعور بہت دیر بعد آیا۔ دیکھیے قرآن پاک سماج کا آغاز کہاں سے کر رہا ہے اور کیسے بیان کر رہا ہے۔

قرآن کی رو سے قوانین و ضوابط کا خالق اللہ تعالیٰ ہے نہ کہ خود انسان

کہا جاتا ہے، قانون ضابطہ بھی انسان کی اپنی پیدا کردہ چیز ہے۔ قرآن کہتا ہے، نہیں۔ پہلا قتل کیوں ہوا تھا؟ کس نے کیا تھا؟ قتل کون ہوا تھا؟ قانون کا جھگڑا تھا۔ روایات کے مطابق جو رشتہ اس کے لیے جائز نہیں تھا اس کا تقاضا کر رہا تھا؟ تو جائز ناجائز ہی قانون ہوتا ہے۔ پورا مکالمہ قرآن نے ذکر کیا ہے۔ ایک نے دھمکی دی، کہا، میں تجھے مار دوں گا۔ ہابیل نے کہا کہ میں ہاتھ نہیں اٹھاتا، آپ کی مرضی ہے (دیکھیے سورۃ المائدۃ 5، آیت: 27 تا 31)۔ تو قتل کا سبب ضابطہ اور قانون تھا۔ (جائز اور ناجائز) ضابطے اور قانون کی خلاف ورزی جھگڑے کا باعث بنی تھی۔

میں نے یہ چند باتیں اس لیے عرض کیں کہ قرآن پاک سماج اور معاشرے کو کس نگاہ سے دیکھتا ہے؟ سماج کا آغاز کہاں سے اور کن خصوصیات کے ساتھ ہوا تھا۔ قرآن مجید ان کو بیان بھی کرتا ہے اور بتاتا ہے کہ قدم قدم پر ہم ان کی کس طرح رہنمائی کرتے رہے ہیں۔ ایک ایک کر کے پیغمبر بھیجتے رہے جب تک سوسائٹی کا نظام انتہا اور کمال کو نہیں پہنچ گیا۔ جگہ جگہ پیغمبرؑ بھیجے جو تمھاری رہنمائی کرتے رہے۔

انبیائے کرام علیہم السلام نے عقیدے اور عبادت کے ساتھ ساتھ سماج کی بات بھی کی

پہلے فرد (Person) ہے، پھر خاندان (Family) پھر سوسائٹی (Society) پھر ریاست (State) ہے۔ ان چاروں مراحل میں قرآن پاک ہماری رہنمائی کرتا ہے۔ حضرات انبیائے کرام علیہم السلام نے ان چاروں دائروں میں رہنمائی کی ہے۔ یہ بات جو لوگوں کے ذہنوں میں ہے کہ حضرات انبیائے کرام علیہم السلام اس لیے آئے تھے کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت ہو، شرک نہ ہو، وہ اللہ کی عبادت کا درس دینے آئے تھے، یہ بات بھی ٹھیک ہے۔ لیکن انبیائے کرام علیہم السلام نے سوسائٹی میں صرف عقیدے کی بات نہیں کی بلکہ سوسائٹی کی خرابیوں کی بات بھی کی اور ان کی نشاندہی کی بلکہ ان کے خلاف جدوجہد بھی کی۔ مثلاً‌ حضرت شعیب علیہ السلام کا ذکر ہے، انھوں نے کہا:

قوم اعبدوا اللہ ما لکم من الٰہ غیرہ (سورۃ ہود 11، آیت: 84)
(اے میری قوم! اللہ کی عبادت کرو، اس کے سوا تمھارا کوئی معبود نہیں ہے۔)

آگے فرمایا:

ویا قوم اوفوا المکیال والمیزان بالقسط ولا تبخسوا الناس اشیاءھم ولا تعثوا فی الارض مفسدین (سورۃ ہود 11، آیت: 85)
(اور اے میری قوم کے لوگو! ناپ تول پورا پورا کیا کرو، اور لوگوں کو ان کی چیزیں گھٹا کر نہ دیا کرو۔ اور زمین میں فساد پھیلاتے مت پھرو۔)

کہ ناپ تول میں کمی نہ کرو، تم ایک نمبر مال دکھا کر دو نمبر مال مت دو، اور ان کو ان کی چیزیں کم کر کے مت دو۔ حضرت شعیب علیہ السلام کو طعنے سننے پڑے۔ ایک طعنہ یہ دیا تھا، ’’لانت الحلیم الرشید‘‘  (سورۃ ہود، آیت: 87) کہ تُو تو سمجھدار آدمی ہے، یہ کیا باتیں شروع کر دیں تو نے کہ ناپ تول میں کمی نہ کرو، مارکیٹ میں کیسے دخل اندازی شروع کی؟ پھر یہ طعنہ بھی ملا:

اصلاتک تامرک ان نترک ما یعبد اٰباؤنا او ان نفعل فی اموالنا ما نشآء (سورۃ ہود 11، آیت: 87)
(کیا تمھاری نماز تمھیں یہ حکم دیتی ہے کہ ہمارے باپ دادا جن کی عبادت کرتے آئے تھے، ہم انھیں بھی چھوڑ دیں۔)

کیا یہ باتیں تمہاری نمازیں تمھیں سکھاتی ہیں کہ یہ کرو اور یہ نہ کرو، یہ بیچو یہ حلال ہے، یہ نہ بیچو یہ حرام ہے؟ تو حضرت شعیب علیہ السلام نے صرف عقیدہ اور عبادت کی بات نہیں کی بلکہ معاشرے کی خرابی اور حلال و حرام کی بات بھی کی۔ آپ نے قوم کے معاشی و تجارتی نظام کو موضوع بنایا ہے۔

حضرت لوط علیہ السلام نے اپنی قوم کو کہا کہ تم مرد کے مرد کے ساتھ جنسی فعل کرتے ہو اور یہ بہت غلط حرکت ہے، تم اللہ کے عذاب کو دعوت دیتے ہو، باز آجاؤ۔ حضرت لوط علیہ السلام کی دعوت کا میدان خاندانی نظام، عفت اور پاک دامنی تھی۔ جس سے انحراف و انکار پر اللہ تعالیٰ نے پوری قوم کو پتھر مار کر زمین میں دھنسا دیا تھا۔

جبکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام تو آزادی کا پرچم لے کر کھڑے ہو گئے تھے۔

فارسل معنا بنی اسرائیل ولا تعذبھم (سورۃ طہ 20، آیت: 47)
(بنو اسرائیل کو ہمارے ساتھ بھیج دو اور انھیں تکلیفیں نہ پہنچاؤ۔)

تو یہ انبیاء کرام علیہم السلام ہی تھے، ان میں سے کوئی ہم جنس پرستی کی مذمت کی بات کر رہا ہے، تو کوئی ناپ تول میں کمی اور حلال و حرام پر بات کر رہا ہے، اور کوئی قوم کی آزادی کی بات کر رہا ہے۔ یہ معاشرتی مسائل تھے انبیاء کرام علیہم السلام نے جن کی نشاندہی فرمائی۔

اب دیکھیں وقت کے ساتھ ساتھ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے معاشرے میں کیا اصلاحات فرمائیں۔ ایک جملہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا عرض کرنا چاہتا ہوں، آپؐ نے جب صفا پہاڑی پر کھڑے ہو کر پہلی دعوت دی تھی تو اس کے بائیس سال بعد حجۃ الوداع میں منیٰ میں کھڑے ہو کر بھی ایک بات فرمائی: 

کل امر الجاھلیۃ موضوع تحت قدمی (صحیح مسلم، باب حجۃ النبی ﷺ، حدیث نمبر 1218)
(آج جاہلیت کی ساری قدریں میرے پاؤں کے نیچے ہیں۔)

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عرصہ میں کون سی قدریں پاؤں تلے روندی تھیں۔ شرک اور کفر تو تھا ہی، شراب تھی، سود، عریانی، فحاشی، ہم جنس پرستی، بچیوں کو زندہ دفن کرنا، قبائلی عصبیت، ناچ گانا، یہ ساری باتیں تھیں یا نہیں؟ تو میں نے آج یہ بات تمہیدی طور پر عرض کی کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن پاک صرف عقیدہ اور عبادت کی بات نہیں کرتے بلکہ سماج اور معاشرت کی بات بھی کرتے ہیں، اسلام کی بات کرتے ہیں، اور اسلام کا جامع پیغام بھی یہی ہے کہ آنے والا دور سسٹم کے ٹکراؤ اور اسلام کی بالادستی کا دور ہو گا۔ وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔

(جاری)


قرآن / علوم القرآن

اسلام اور عصر حاضر

(الشریعہ — اگست ۲۰۲۵ء)

الشریعہ — اگست ۲۰۲۵ء

جلد ۳۶ ، شمارہ ۸

ام المؤمنین حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

علمِ حدیث کی تاریخ؛ آغاز و ارتقا
ڈاکٹر سید عبد الماجد غوری
فضل الرحمٰن محمود

’’سنتوں کا تنوع‘‘۔ ایک تجزیاتی مطالعہ
ابو الاعلیٰ سید سبحانی

مسئلہ تکفیر پر چند معاصر کتب
ڈاکٹر محمد عمار خان ناصر

مسلمانانِ عالم کی موجودہ صورتِ حال اوراس کا تدارُک
ڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی

اہلِ سنت کے مقدسات کی توہین حرام ہے
سید علی خامنہ ای

حد سے تجاوز کی معاشرتی روایات اور اسلامی تعلیمات
مولانا مفتی محمد
مولانا مفتی طارق مسعود

مولانا محمد فاروق شاہین: ایک ہمہ جہت شخصیت
مولانا قاری محمد ابوبکر صدیق
مولانا حافظ عزیز احمد

جمعہ کے دن خرید و فروخت اور ہفتہ وار تعطیل کی شرعی حیثیت
مفتی سید انور شاہ

Ummul-Mumineen Khadija Radhi Allahu Anhaa
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر : باقاعدہ سلسلہ کی تکمیل
ابو الاعلیٰ سید سبحانی
ادارہ الشریعہ

’’خطباتِ فتحیہ: احکام القرآن اور عصرِ حاضر‘‘ (۲)
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
مولانا ڈاکٹر محمد سعید عاطف

حدیث میں بیان کی گئی علاماتِ قیامت کی تاریخی واقعات سے ہم آہنگی، بائیبل اور قرآن کی روشنی میں (۳)
ڈاکٹر محمد سعد سلیم

’’اسلام اور ارتقا: الغزالی اور جدید ارتقائی نظریات کا جائزہ‘‘ (۶)
ڈاکٹر شعیب احمد ملک
ڈاکٹر ثمینہ کوثر

ماہانہ بلاگ

قانونِ ناموسِ رسالت پر فوری اور مؤثر عمل درآمد کیا جائے
ڈاکٹر محمد امین

توہینِ مذہب کے مقدمات اور اسلام آباد ہائی کورٹ
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
مولانا حافظ امجد محمود معاویہ

پاکستان کا دستوری نظام اور افغانستان کا قانونِ اساسی 2004ء
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد
محمد اسرار مدنی

غزہ میں جنگ بندی کیوں نہیں ہو پا رہی ہے؟
ڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی

فلسطینی ریاست تسلیم کرنے والے ممالک اور آسٹریلیا کا موقف
اے بی سی نیوز آسٹریلیا
ویکی پیڈیا

بھارت کے چودہ ارب ڈالرز کے مسلم اوقاف کو کیسے لوٹا جا رہا ہے؟
الجزیرہ

دس فٹبالرز جنہوں نے اسلام قبول کیا
اسلام آن ویب

پاکستان کے قانون کی رو سے ٹرانسلیشنز اور ٹرانسکرپٹس کے جملہ حقوق
ادارہ الشریعہ

پاکستان کا ایٹمی پروگرام: کب، کیوں اور کیسے؟
ڈاکٹر رابعہ اختر
وائس آف امریکہ

ایٹمی قوت کے حصول کا سفر اور ایٹمی سائنسدانوں کا ’’جرم‘‘
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

پاکستان کا جوہری ریاست بننے کا سفر
مڈل ایسٹ آئی
ٹی آر ٹی ورلڈ

ڈاکٹر عبد القدیر کون تھے اور ان کے رفقاء انہیں کیسے یاد کرتے ہیں؟
قاسم علی شاہ فاؤنڈیشن
دی سینٹرم میڈیا

یومِ تکبیر کی کہانی، ڈاکٹر ثمر مبارک مند کی زبانی
ڈاکٹر ثمر مبارک مند
جاوید چودھری

دو ایٹمی ادارے: پاکستان اٹامک انرجی کمیشن اور خان ریسرچ لیبارٹریز
ادارہ الشریعہ

پراجیکٹ 706 :   پاکستان کی جوہری بم سازی
دی سینٹرم میڈیا

1998ء :  بھارتی ایٹمی تجربوں سے پاکستان کے ایٹمی تجربات تک
کیری سبلیٹ

ہم نے جنوبی ایشیا میں دفاعی توازن قائم کر دیا ہے
ڈاکٹر عبد القدیر خان
دی نیوز پاکستان

مطبوعات

شماریات

Flag Counter