سات اکتوبر کے حملہ کے حوالے سے حماس پر الزامات کی حقیقت

شرکاء

  1. کیٹی ہالپر معروف امریکی صحافی، پوڈکاسٹ ہوسٹ اور سیاسی تجزیہ کار ہیں جو اپنے شو ’’دی کیٹی ہالپر شو‘‘ میں سماجی و سیاسی موضوعات پر بے باک گفتگو کے لیے جانی جاتی ہیں۔
  2. پروفیسر جان میرشائمر ممتاز امریکی ماہرِ سیاسیات ہیں جو اسرائیل، امریکہ اور عالمی طاقتوں کی سیاست پر اپنی تنقیدی آراء کے لیے معروف ہیں۔
  3. سوزان ابوالہویٰ فلسطینی نژاد امریکی ادیبہ، شاعرہ اور انسانی حقوق کی کارکن ہیں جن کا کام فلسطین کے مسئلے اور سامراجی بیانیوں کے خلاف مزاحمت پر مرکوز ہے۔

مذاکرہ

یہ ایک ویڈیو کی گفتگو ہے جس کا آغاز میزبان کیٹی ہالپر نے اس سوال سے کیا کہ سات اکتوبر کے حملے کے بعد دو سال مکمل ہونے پر آپ کا اس کے بارے میں کیا خیال ہے؟

سوزان ابوالہویٰ نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ ہر دن خوفناک رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج بھی اس پروپیگنڈا کی شدت میں اضافہ ہو رہا ہے اور وہی پرانے جھوٹے بیانیے بار بار دہرائے جا رہے ہیں جنہیں کئی مرتبہ جھٹلایا جا چکا ہے، جیسے کہ ’’بچوں کے سر قلم کیے گئے‘‘، ’’حماس نے بچوں کو جلایا‘‘ اور ’’مرد و عورتوں کے ساتھ بہیمانہ سلوک کیا‘‘۔ سوزان نے کہا کہ حتیٰ کہ اسرائیلی وزیرِ اعظم نیتن یاہو بھی ان ہی من گھڑت کہانیوں کو دہراتے ہیں، جبکہ مین اسٹریم میڈیا اور سیاسی شخصیات ان الزامات کو بغیر کسی تحقیق کے آگے بڑھاتی ہیں۔ ان کے بقول، یہ یا تو جان بوجھ کر بولا جانے والا جھوٹ ہے یا جہالت ہے، اور دونوں صورتیں خطرناک ہیں۔

انہوں نے کہا کہ دو سال گزر گئے مگر اب تک نہ کوئی آزاد تحقیق ہوئی، نہ کوئی شفاف رپورٹ سامنے آئی۔انہوں نے بتایا کہ اسرائیل تباہ شدہ گھروں اور گاڑیوں کو جو حماس کی دہشت گردی کے ثبوت کے طور پر پیش کرتا ہے وہ دراصل اسرائیلی ہیلی کاپٹروں کی فائرنگ سے تباہ ہوئیں۔ ان کے مطابق کم از کم 28 اپاچی ہیلی کاپٹروں نے اُس دن شدید گولہ باری کی اور کئی بار اپنے ہتھیار دوبارہ لوڈ کیے۔ اسرائیلی اخبار ’’ہارٹز‘‘ کے مطابق ان ہیلی کاپٹروں کی گولیوں سے سینکڑوں لوگ مارے گئے۔

سوزان نے بتایا کہ اسرائیل نے ہلاکتوں کے اعداد و شمار بھی بار بار بدلے۔ پہلے 2200، پھر 2000، پھر 1200، اور آخر میں 1139۔ لیکن عوامی تاثر کو قائم رکھنے کے لیے اسے دوبارہ 1200 پر گول کر دیا گیا۔ ان کے بقول یہی غلط اعداد و شمار اِس فلسطینی نسل کشی کے جواز کے طور پر استعمال کیے گئے۔ انہوں نے کہا کہ سر قلم کیے گئے بچوں اور اجتماعی عصمت دری جیسی داستانیں عوامی رائے کو اس بات پر قائل کرنے کے لیے تراشی گئیں کہ غزہ کے بے گناہ لوگوں کا قتلِ عام دراصل ایک جنگ ہے۔ سوزان کے الفاظ میں، یہ ظلم اور درندگی انسانی تاریخ میں اپنی مثال آپ ہے۔

اس کے بعد کیٹی ہالپر نے پروفیسر جان میرشائمر سے سوال کیا کہ 7 اکتوبر کے واقعات کے بارے میں اب تک جو معلومات سامنے آئی ہیں، ان کے مطابق اصل تصویر کیا ہے؟ اور پچھلے سال جب اس حوالے سے آپ کے ساتھ میری بات ہوئی تھی، اس کے بعد سے اب تک کیا تبدیلی آئی ہے؟

میرشائمر نے جواب میں کہا کہ سوزان کی تمام باتیں درست ہیں۔ ان کے مطابق اب ہمارے پاس اس واقعے کی عمومی صورتِحال کا ایک واضح نقشہ موجود ہے۔ انہوں نے بتایا کہ بہت سے اسرائیلی دراصل اسرائیلی افواج ہی کی فائرنگ کا نشانہ بنے۔ ان کے بقول یہ صرف "ہنیبال ڈاکٹرائن" (Hannibal Doctrine) کی بات نہیں تھی بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اسرائیل کی فوجی بوکھلاہٹ بھی شامل تھی۔ اسرائیلی فوج اس حملے کے لیے بالکل تیار نہیں تھی، اس لیے اس نے فوری ردعمل میں بڑے پیمانے پر فائر پاور استعمال کی، توپ خانے، ہوائی حملے، اور ہیلی کاپٹرز۔ نتیجہ یہ ہوا کہ حماس کے جنگجوؤں کے ساتھ ساتھ عام اسرائیلی شہری بھی اس فائرنگ کی زد میں آگئے۔

انہوں نے کہا کہ ’’ہنیبال ڈاکٹرائن‘‘ کے تحت اسرائیل اپنے اغوا شدہ شہریوں کو دشمن کے قبضے میں جانے سے پہلے ہی مارنے کی پالیسی پر عمل کرتا ہے، اس لیے کچھ اسرائیلی اسی پالیسی کے نتیجے میں مارے گئے۔

میرشائمر کے مطابق، بین الاقوامی قانون کے لحاظ سے فلسطینیوں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ ایک قید خانے (یعنی غزہ کی محصور پٹی) سے نکلنے کی کوشش کریں اور قابض افواج کے خلاف مزاحمت کریں۔ اس لیے اگر انہوں نے اسرائیلی فوجیوں کو نشانہ بنایا تو یہ ’’قتل‘‘ نہیں بلکہ جنگی تصادم تھا۔ البتہ انہوں نے اس بات کو تسلیم کیا کہ جو عام شہری مارے گئے ہیں، وہ جس نے بھی مارے ہیں، اس نے جنگی جرم کا ارتکاب کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ زیادہ تر اسرائیلی یا تو فوجی تھے جو جنگ میں جائز ہدف بنتے ہیں، یا وہ شہری تھے جنہیں خود اسرائیلی فورسز نے مارا۔ ہمیں یہ اندازہ لگانے میں ہچکچاہٹ نہیں ہونی چاہیے کہ اسرائیل کی اپنی فائر پاور نے اپنے ہی شہریوں کو کتنا نقصان پہنچایا۔

انہوں نے مزید کہا کہ مغربی میڈیا میں ان حقائق کو جگہ نہیں دی گئی، کیونکہ وہاں کی خبریں اسرائیلی پروپیگنڈا کی بازگشت ہوتی ہیں۔ 

آخر میں میرشائمر نے کہا کہ اصل حیرت کی بات یہ ہے کہ کوئی یہ نہیں پوچھتا کہ یہ سب کیوں ہوا؟ کیوں فلسطینیوں نے ایک دن اس دیوار کو توڑنے کی کوشش کی جس کے پیچھے وہ سترہ سال سے قید تھے؟ ان کے مطابق غزہ ایک concentration camp بن چکا تھا جہاں لوگوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک ہو رہا تھا، اور آخرکار وہاں سے ایک بغاوت کا ابھرنا ہونا بالکل ظاہر بات تھی۔ 

انہوں نے واضح کیا کہ اسرائیل نے اکتوبر 7 کو ’’ہولوکاسٹ‘‘ سے تشبیہ دی، جیسے فلسطینی گویا نازی ہوں، مگر یہ موازنہ لغو اور گمراہ کن ہے۔ جرمنوں نے یہودیوں کے ساتھ جو کیا، وہ اس سے بالکل مختلف ہے جو فلسطینیوں نے اسرائیلیوں کے ساتھ کیا۔ فلسطینی تو خود مظلوم ہیں جو ایک محصور قید خانے میں زندگی گزار رہے تھے، اور 7 اکتوبر ان کے اسی جبر کے خلاف ردِعمل کی ایک شکل تھی۔

انہوں نے کہا کہ میں ہرگز شہریوں کے قتل کو درست نہیں کہتا، مگر یہ صرف کہانی کا ایک حصہ ہے۔ پوری تصویر کہیں زیادہ پیچیدہ ہے۔ اور جتنا ہم اس پر گہرائی سے بات کرتے ہیں، اتنا ہی واضح ہوتا جاتا ہے کہ اس دن کے واقعات کی بڑی ذمہ داری اسرائیل پر عائد ہوتی ہے۔

https://youtu.be/5NiJqduiBvA


(الشریعہ — نومبر ۲۰۲۵ء)

الشریعہ — نومبر ۲۰۲۵ء

جلد ۳۶ ، شمارہ ۱۱

مسئلہ کشمیر کا مختصر جائزہ اور ممکنہ حل
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

غزہ کی جنگ بندی     /     تحریک لبیک کا معاملہ
ڈاکٹر محمد امین

کلامِ الٰہی کو سمجھنے کا ایک اُصول
الشیخ متولی الشعراوی

قرآن سے راہنمائی کا سوال
ڈاکٹر محمد عمار خان ناصر

حدیثِ نبوی ﷺ: شُبہات اور دِفاع کے درمیان، مسلمانوں پر کیا لازم ہے؟
الدکتور محمد طلال لحلو
طارق علی عباسی

فارغینِ مدارس کے معاشی مسائل و مشکلات اور حل
ڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی

مروّجہ نعت خوانی اور ہمارے نعت خواں
سید سلمان گیلانی

محمد نام رکھنے کے متعلق فضائل کی حقیقت
مفتی سید انور شاہ

محمد نام کے فضائل
جامعۃ العلوم الاسلامیۃ

متاعِ مطيع
پروفیسر میاں انعام الرحمٰن

اقوام عالم کی تہذیبوں کا تقابلی جائزہ
مولانا حافظ واجد معاویہ

حقوق الإنسان: فروق أساسية بين المنظور الإسلامي والغربي
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
مولانا حافظ فضل الہادی سواتی

The Kashmir Issue: A Brief Overview and Possible Solution
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

’’خطباتِ فتحیہ: احکام القرآن اور عصرِ حاضر‘‘ (۵)
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
مولانا ڈاکٹر محمد سعید عاطف

’’اسلام اور ارتقا: الغزالی اور جدید ارتقائی نظریات کا جائزہ‘‘ (۹)
ڈاکٹر شعیب احمد ملک
ڈاکٹر ثمینہ کوثر

ماہانہ بلاگ

پاکستان اور افغانستان کا ناخوشگوار تصادم — اہم نکات
مولانا مفتی منیب الرحمٰن

پاک افغان تعلقات اور ہماری یکطرفہ قومی پالیسیاں
مولانا فضل الرحمٰن

اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء کا فتویٰ نمبر ۱۹۴۰۲ اور ابراہیمی ہاؤس
اُمّہ ڈاٹ کام
صید الفوائد

قواعد و ضوابط برائے تحقیق و تصنیف اور اشاعت
اسلامی نظریاتی کونسل

تعلیمی کیریئر کب اور کیسے منتخب کرنا چاہیے؟
ڈاکٹر ناصر محمود
فخر الاسلام

+LGBTQ تحریک کا نظریاتی تجزیہ: جماعتِ اسلامی ہند کا سیمینار
السیرۃ

انڈیا  -  مڈل ایسٹ  -  یورپ   اقتصادی راہداری   (IMEC)
ادارہ الشریعہ

کسے گواہ کریں کس سے منصفی چاہیں
مولانا مفتی محمد تقی عثمانی

ڈونلڈ ٹرمپ کا غزہ منصوبہ اور مسلم حکمرانوں کا بیانیہ
حامد میر

غزہ میں حماس کی جنگ: دو سال میں کیا کھویا کیا پایا؟
مشاہد حسین سید
عاصمہ شیرازی

فلسطین:    غاصبانہ قبضہ اور حقِ خود ارادیت کا معاملہ
فاطمہ بھٹو

صہیونی ریاست زوال کے قریب — جنگ بندی معاہدے میں کیا طے پایا؟
ضیاء الرحمٰن چترالی

سات اکتوبر کے حملہ کے حوالے سے حماس پر الزامات کی حقیقت
دی کیٹی ہالپر شو

غزہ کے بارے میں امریکہ اور اسرائیل کا اصل پلان
دی ینگ ٹرکس

امریکہ اور اسرائیل کے باہمی تعلقات اور غزہ کے بارے میں اسرائیل کا اصل منصوبہ
بریکنگ پوائنٹس

غزہ جنگ بندی کی خلاف ورزی میں سینکڑوں فلسطینیوں کی شہادت
ورلڈ نیوز میڈیا

’’دریائے اردن سے بحیرۂ روم تک‘‘ کا نعرہ
ویکی پیڈیا

صمود فلوٹیلا: آغاز و مراحل اور اختتام و نتائج
ادارہ الشریعہ

مطبوعات

شماریات

Flag Counter