شرکاء
- کیٹی ہالپر معروف امریکی صحافی، پوڈکاسٹ ہوسٹ اور سیاسی تجزیہ کار ہیں جو اپنے شو ’’دی کیٹی ہالپر شو‘‘ میں سماجی و سیاسی موضوعات پر بے باک گفتگو کے لیے جانی جاتی ہیں۔
- پروفیسر جان میرشائمر ممتاز امریکی ماہرِ سیاسیات ہیں جو اسرائیل، امریکہ اور عالمی طاقتوں کی سیاست پر اپنی تنقیدی آراء کے لیے معروف ہیں۔
- سوزان ابوالہویٰ فلسطینی نژاد امریکی ادیبہ، شاعرہ اور انسانی حقوق کی کارکن ہیں جن کا کام فلسطین کے مسئلے اور سامراجی بیانیوں کے خلاف مزاحمت پر مرکوز ہے۔
مذاکرہ
یہ ایک ویڈیو کی گفتگو ہے جس کا آغاز میزبان کیٹی ہالپر نے اس سوال سے کیا کہ سات اکتوبر کے حملے کے بعد دو سال مکمل ہونے پر آپ کا اس کے بارے میں کیا خیال ہے؟
سوزان ابوالہویٰ نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ ہر دن خوفناک رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج بھی اس پروپیگنڈا کی شدت میں اضافہ ہو رہا ہے اور وہی پرانے جھوٹے بیانیے بار بار دہرائے جا رہے ہیں جنہیں کئی مرتبہ جھٹلایا جا چکا ہے، جیسے کہ ’’بچوں کے سر قلم کیے گئے‘‘، ’’حماس نے بچوں کو جلایا‘‘ اور ’’مرد و عورتوں کے ساتھ بہیمانہ سلوک کیا‘‘۔ سوزان نے کہا کہ حتیٰ کہ اسرائیلی وزیرِ اعظم نیتن یاہو بھی ان ہی من گھڑت کہانیوں کو دہراتے ہیں، جبکہ مین اسٹریم میڈیا اور سیاسی شخصیات ان الزامات کو بغیر کسی تحقیق کے آگے بڑھاتی ہیں۔ ان کے بقول، یہ یا تو جان بوجھ کر بولا جانے والا جھوٹ ہے یا جہالت ہے، اور دونوں صورتیں خطرناک ہیں۔
انہوں نے کہا کہ دو سال گزر گئے مگر اب تک نہ کوئی آزاد تحقیق ہوئی، نہ کوئی شفاف رپورٹ سامنے آئی۔انہوں نے بتایا کہ اسرائیل تباہ شدہ گھروں اور گاڑیوں کو جو حماس کی دہشت گردی کے ثبوت کے طور پر پیش کرتا ہے وہ دراصل اسرائیلی ہیلی کاپٹروں کی فائرنگ سے تباہ ہوئیں۔ ان کے مطابق کم از کم 28 اپاچی ہیلی کاپٹروں نے اُس دن شدید گولہ باری کی اور کئی بار اپنے ہتھیار دوبارہ لوڈ کیے۔ اسرائیلی اخبار ’’ہارٹز‘‘ کے مطابق ان ہیلی کاپٹروں کی گولیوں سے سینکڑوں لوگ مارے گئے۔
سوزان نے بتایا کہ اسرائیل نے ہلاکتوں کے اعداد و شمار بھی بار بار بدلے۔ پہلے 2200، پھر 2000، پھر 1200، اور آخر میں 1139۔ لیکن عوامی تاثر کو قائم رکھنے کے لیے اسے دوبارہ 1200 پر گول کر دیا گیا۔ ان کے بقول یہی غلط اعداد و شمار اِس فلسطینی نسل کشی کے جواز کے طور پر استعمال کیے گئے۔ انہوں نے کہا کہ سر قلم کیے گئے بچوں اور اجتماعی عصمت دری جیسی داستانیں عوامی رائے کو اس بات پر قائل کرنے کے لیے تراشی گئیں کہ غزہ کے بے گناہ لوگوں کا قتلِ عام دراصل ایک جنگ ہے۔ سوزان کے الفاظ میں، یہ ظلم اور درندگی انسانی تاریخ میں اپنی مثال آپ ہے۔
اس کے بعد کیٹی ہالپر نے پروفیسر جان میرشائمر سے سوال کیا کہ 7 اکتوبر کے واقعات کے بارے میں اب تک جو معلومات سامنے آئی ہیں، ان کے مطابق اصل تصویر کیا ہے؟ اور پچھلے سال جب اس حوالے سے آپ کے ساتھ میری بات ہوئی تھی، اس کے بعد سے اب تک کیا تبدیلی آئی ہے؟
میرشائمر نے جواب میں کہا کہ سوزان کی تمام باتیں درست ہیں۔ ان کے مطابق اب ہمارے پاس اس واقعے کی عمومی صورتِحال کا ایک واضح نقشہ موجود ہے۔ انہوں نے بتایا کہ بہت سے اسرائیلی دراصل اسرائیلی افواج ہی کی فائرنگ کا نشانہ بنے۔ ان کے بقول یہ صرف "ہنیبال ڈاکٹرائن" (Hannibal Doctrine) کی بات نہیں تھی بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اسرائیل کی فوجی بوکھلاہٹ بھی شامل تھی۔ اسرائیلی فوج اس حملے کے لیے بالکل تیار نہیں تھی، اس لیے اس نے فوری ردعمل میں بڑے پیمانے پر فائر پاور استعمال کی، توپ خانے، ہوائی حملے، اور ہیلی کاپٹرز۔ نتیجہ یہ ہوا کہ حماس کے جنگجوؤں کے ساتھ ساتھ عام اسرائیلی شہری بھی اس فائرنگ کی زد میں آگئے۔
انہوں نے کہا کہ ’’ہنیبال ڈاکٹرائن‘‘ کے تحت اسرائیل اپنے اغوا شدہ شہریوں کو دشمن کے قبضے میں جانے سے پہلے ہی مارنے کی پالیسی پر عمل کرتا ہے، اس لیے کچھ اسرائیلی اسی پالیسی کے نتیجے میں مارے گئے۔
میرشائمر کے مطابق، بین الاقوامی قانون کے لحاظ سے فلسطینیوں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ ایک قید خانے (یعنی غزہ کی محصور پٹی) سے نکلنے کی کوشش کریں اور قابض افواج کے خلاف مزاحمت کریں۔ اس لیے اگر انہوں نے اسرائیلی فوجیوں کو نشانہ بنایا تو یہ ’’قتل‘‘ نہیں بلکہ جنگی تصادم تھا۔ البتہ انہوں نے اس بات کو تسلیم کیا کہ جو عام شہری مارے گئے ہیں، وہ جس نے بھی مارے ہیں، اس نے جنگی جرم کا ارتکاب کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ زیادہ تر اسرائیلی یا تو فوجی تھے جو جنگ میں جائز ہدف بنتے ہیں، یا وہ شہری تھے جنہیں خود اسرائیلی فورسز نے مارا۔ ہمیں یہ اندازہ لگانے میں ہچکچاہٹ نہیں ہونی چاہیے کہ اسرائیل کی اپنی فائر پاور نے اپنے ہی شہریوں کو کتنا نقصان پہنچایا۔
انہوں نے مزید کہا کہ مغربی میڈیا میں ان حقائق کو جگہ نہیں دی گئی، کیونکہ وہاں کی خبریں اسرائیلی پروپیگنڈا کی بازگشت ہوتی ہیں۔
آخر میں میرشائمر نے کہا کہ اصل حیرت کی بات یہ ہے کہ کوئی یہ نہیں پوچھتا کہ یہ سب کیوں ہوا؟ کیوں فلسطینیوں نے ایک دن اس دیوار کو توڑنے کی کوشش کی جس کے پیچھے وہ سترہ سال سے قید تھے؟ ان کے مطابق غزہ ایک concentration camp بن چکا تھا جہاں لوگوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک ہو رہا تھا، اور آخرکار وہاں سے ایک بغاوت کا ابھرنا ہونا بالکل ظاہر بات تھی۔
انہوں نے واضح کیا کہ اسرائیل نے اکتوبر 7 کو ’’ہولوکاسٹ‘‘ سے تشبیہ دی، جیسے فلسطینی گویا نازی ہوں، مگر یہ موازنہ لغو اور گمراہ کن ہے۔ جرمنوں نے یہودیوں کے ساتھ جو کیا، وہ اس سے بالکل مختلف ہے جو فلسطینیوں نے اسرائیلیوں کے ساتھ کیا۔ فلسطینی تو خود مظلوم ہیں جو ایک محصور قید خانے میں زندگی گزار رہے تھے، اور 7 اکتوبر ان کے اسی جبر کے خلاف ردِعمل کی ایک شکل تھی۔
انہوں نے کہا کہ میں ہرگز شہریوں کے قتل کو درست نہیں کہتا، مگر یہ صرف کہانی کا ایک حصہ ہے۔ پوری تصویر کہیں زیادہ پیچیدہ ہے۔ اور جتنا ہم اس پر گہرائی سے بات کرتے ہیں، اتنا ہی واضح ہوتا جاتا ہے کہ اس دن کے واقعات کی بڑی ذمہ داری اسرائیل پر عائد ہوتی ہے۔
