پاک افغان تعلقات اور ہماری یکطرفہ قومی پالیسیاں

افغانستان کی سرزمین ہو یا پاکستان کی سرزمین، کسی کے خلاف اسے استعمال نہیں ہونا چاہیے۔ کیا ہم یہ تردید کر سکتے ہیں کہ افغانستان میں جب بیس سال تک جنگ رہی تو پاکستان سے مجاہدین نہیں گئے؟ اور کیا اسٹیبلشمنٹ کی نگرانی میں نہیں گئے؟ کیا کرزئی صاحب نے یا اشرف غنی نے وہاں سے احتجاج کیا کہ پاکستان سے مداخلت ہو رہی ہے افغانستان کے اندر؟ کیا بیس سال کی اس جنگ میں ہم نے امریکہ کو اڈے نہیں دیے؟ ہم نے امریکہ کو فضائیں نہیں دیں؟ ان اڈوں اور فضاؤں سے گزر کر افغانستان پر حملے نہیں کیے گئے؟ وہاں کی طالبان حکومت نہیں پلٹی گئی؟ بیس سال تک بمباریاں ہوئیں، کیا وہاں سے کوئی شکایت آئی کہ آپ کی سرزمین سے جہاز اڑ رہے ہیں، آپ کی فضائیں استعمال ہو رہی ہیں، ہم پر بمباریاں ہو رہی ہیں؟

تو اگر آدمی خود مضبوط ہو، ان کے اعصاب مضبوط ہوں اور خود اعتمادی اندر موجود ہو تو پھر مسئلہ بنانے کے لیے بہانے تلاش نہیں کرنے چاہئیں۔ کیا آج تک اگر یہاں افغانی پکڑے گئے ہیں یا افغانی مارے گئے ہیں، کوئی افغانستان کی امارتِ اسلامیہ سے احتجاج آیا ہے کہ ہمارے لوگوں کو کیوں مارا ہے، یا ہمارے لوگوں کو کیوں گرفتار کیا گیا ہے، یا ان کے خلاف آپریشن کیوں کیا گیا ہے؟

تو اس لیے یکطرفہ طور پر، سوائے اس کے کہ ہم افغانستان میں دوبارہ ایک بے قراری کی طرف جائیں گے۔ اور کیا ہم نے قسم کھا رکھی ہے کہ افغانستان میں استقلال نہیں چھوڑنا، وہاں ہمیشہ بے قراری رکھنی ہے؟ اور پھر اپنا دامن صاف رکھنا ہے اور سارا گند دوسرے کے دامن میں پھینکنا ہے۔ خود صاف اور شفاف بن کر بے گناہ بن کر دوسروں کو گنہگار قرار دینا، یہ ایک پالیٹکس ہے اور ہمیں اس پولیٹکس سے نکلنا چاہیے۔ بے قرار اور غیر مستحکم افغانستان پاکستان کے لیے کبھی بھی مفید ثابت نہیں ہو سکتا۔ اور افغانستان کے اور بھی پڑوسی ہیں لیکن سب سے طویل ترین سرحد پاکستان سے ملتی ہے، کوئی ڈھائی ہزار کلومیٹر پاکستان کے ساتھ مل رہے ہیں اُس کے۔ جس کے دونوں طرف ایک ہی قوم آباد ہے اور وہ پشتون قوم ہے۔ تو کیا ان طریقوں سے ہم پشتون قوم کو ایک دوسرے سے الگ کر سکتے ہیں، ایک دوسرے کے خلاف محاذ آرا کر سکتے ہیں، ایک دوسرے کے خلاف نفرتیں پیدا کر سکتے ہیں؟ یہ ساری وہ پالیسیاں ہیں کہ جس پر میں یہ سمجھوں گا کہ ہمیں نظرثانی کرنی چاہیے۔ 

پاکستان کا چپہ چپہ ہمیں عزیز ہے۔ ہم پاکستان کے چپے چپے کے لیے قربانی دینے کو تیار ہیں۔ اگر انڈیا کے خلاف جنگ ہوتی ہے، ہم نے ایک صف ہو کر فوج کی پشت پر کھڑے ہونے کا اعلان کیا تھا۔ اور آج بھی ہم اسی جذبے سے بات کر رہے ہیں۔ لیکن یہ ہے کہ جب معاملات پیچیدہ ہوں تو اس کو راہِ راست پر لانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اور ہم اپنے ملک کے ساتھ ہیں، ملک کے وفادار ہیں، ملک کی بہتری کے لیے سوچیں گے۔ اگر حکومت یا اسٹیبلشمنٹ کوئی غلط فیصلے کرتی ہے، یا وہ ملکی مفاد کے خلاف ہمیں نظر آتے ہیں، ہم اس کی نشاندہی کرتے ہیں اور نشاندہی کرنا ہمارا حق ہے۔ 

facebook.com/reel/829829006223953


(الشریعہ — نومبر ۲۰۲۵ء)

الشریعہ — نومبر ۲۰۲۵ء

جلد ۳۶ ، شمارہ ۱۱

مسئلہ کشمیر کا مختصر جائزہ اور ممکنہ حل
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

غزہ کی جنگ بندی     /     تحریک لبیک کا معاملہ
ڈاکٹر محمد امین

کلامِ الٰہی کو سمجھنے کا ایک اُصول
الشیخ متولی الشعراوی

قرآن سے راہنمائی کا سوال
ڈاکٹر محمد عمار خان ناصر

حدیثِ نبوی ﷺ: شُبہات اور دِفاع کے درمیان، مسلمانوں پر کیا لازم ہے؟
الدکتور محمد طلال لحلو
طارق علی عباسی

فارغینِ مدارس کے معاشی مسائل و مشکلات اور حل
ڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی

مروّجہ نعت خوانی اور ہمارے نعت خواں
سید سلمان گیلانی

محمد نام رکھنے کے متعلق فضائل کی حقیقت
مفتی سید انور شاہ

محمد نام کے فضائل
جامعۃ العلوم الاسلامیۃ

متاعِ مطيع
پروفیسر میاں انعام الرحمٰن

اقوام عالم کی تہذیبوں کا تقابلی جائزہ
مولانا حافظ واجد معاویہ

حقوق الإنسان: فروق أساسية بين المنظور الإسلامي والغربي
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
مولانا حافظ فضل الہادی سواتی

The Kashmir Issue: A Brief Overview and Possible Solution
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

’’خطباتِ فتحیہ: احکام القرآن اور عصرِ حاضر‘‘ (۵)
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
مولانا ڈاکٹر محمد سعید عاطف

’’اسلام اور ارتقا: الغزالی اور جدید ارتقائی نظریات کا جائزہ‘‘ (۹)
ڈاکٹر شعیب احمد ملک
ڈاکٹر ثمینہ کوثر

ماہانہ بلاگ

پاکستان اور افغانستان کا ناخوشگوار تصادم — اہم نکات
مولانا مفتی منیب الرحمٰن

پاک افغان تعلقات اور ہماری یکطرفہ قومی پالیسیاں
مولانا فضل الرحمٰن

اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء کا فتویٰ نمبر ۱۹۴۰۲ اور ابراہیمی ہاؤس
اُمّہ ڈاٹ کام
صید الفوائد

قواعد و ضوابط برائے تحقیق و تصنیف اور اشاعت
اسلامی نظریاتی کونسل

تعلیمی کیریئر کب اور کیسے منتخب کرنا چاہیے؟
ڈاکٹر ناصر محمود
فخر الاسلام

+LGBTQ تحریک کا نظریاتی تجزیہ: جماعتِ اسلامی ہند کا سیمینار
السیرۃ

انڈیا  -  مڈل ایسٹ  -  یورپ   اقتصادی راہداری   (IMEC)
ادارہ الشریعہ

کسے گواہ کریں کس سے منصفی چاہیں
مولانا مفتی محمد تقی عثمانی

ڈونلڈ ٹرمپ کا غزہ منصوبہ اور مسلم حکمرانوں کا بیانیہ
حامد میر

غزہ میں حماس کی جنگ: دو سال میں کیا کھویا کیا پایا؟
مشاہد حسین سید
عاصمہ شیرازی

فلسطین:    غاصبانہ قبضہ اور حقِ خود ارادیت کا معاملہ
فاطمہ بھٹو

صہیونی ریاست زوال کے قریب — جنگ بندی معاہدے میں کیا طے پایا؟
ضیاء الرحمٰن چترالی

سات اکتوبر کے حملہ کے حوالے سے حماس پر الزامات کی حقیقت
دی کیٹی ہالپر شو

غزہ کے بارے میں امریکہ اور اسرائیل کا اصل پلان
دی ینگ ٹرکس

امریکہ اور اسرائیل کے باہمی تعلقات اور غزہ کے بارے میں اسرائیل کا اصل منصوبہ
بریکنگ پوائنٹس

غزہ جنگ بندی کی خلاف ورزی میں سینکڑوں فلسطینیوں کی شہادت
ورلڈ نیوز میڈیا

’’دریائے اردن سے بحیرۂ روم تک‘‘ کا نعرہ
ویکی پیڈیا

صمود فلوٹیلا: آغاز و مراحل اور اختتام و نتائج
ادارہ الشریعہ

مطبوعات

شماریات

Flag Counter