’’خطباتِ فتحیہ: احکام القرآن اور عصرِ حاضر‘‘ (۳)

اسلام کا خاندانی نظام اور عصرِ حاضر (1)

خطبہ نمبر 2: مؤرخہ 28 ستمبر 2016ء

حضرات محترم! یہ نشستیں جن کا اہتمام جامعہ فتحیہ کی طرف سے ہو رہا ہے۔ ان میں اس سال گفتگو کے لیے عمومی موضوع یہ منتخب کیا گیا ہے کہ قرآن پاک کے معاشرتی احکام کیا ہیں؟ سوسائٹی کے لیے، سماج کے لیے، معاشرے کے لیے، قرآن پاک کیا احکام، ضوابط اور قواعد ارشاد فرماتا ہے؟ لیکن میں پہلے مرحلے میں یہ بیان کرنا چاہوں گا کہ خاندانی نظام (Family System) کے حوالے سے قرآن پاک ہماری کیا رہنمائی کرتا ہے۔

انسانی سوسائٹی کا آغاز فیملی سسٹم (خاندان) سے ہوا

اس لیے کہ دنیا میں انسانی سوسائٹی کا آغاز جوڑے سے ہوا، خاندان سے ہوا۔ اللہ رب العزت نے جہاں نسلِ انسانی کے آغاز کی بات کی وہاں ایک جملہ ارشاد فرمایا:

خلقکم من نفس واحدۃ وخلق منہا زوجہا وبث منہما رجالا کثیرا ونساء (سورۃ النساء: 4، آیت: 1)
(تمھیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی سے اس کی بیوی پیدا کی اور ان دونوں سے بہت سے مرد اور عورتیں (دنیا میں) پھیلا دیے۔)

پوری انسانی سوسائٹی اسی جوڑے کی برکت سے ہے۔ جو سب سے پہلے جنت سے زمین پر اتارا گیا۔ انسانی سوسائٹی کا آغاز جوڑے سے ہوا ہے، یہ فیملی ہر زمانے اور ہر قوم میں رہی ہے، ہر مذہب میں رہی ہے، بغیر مذہب والوں کی بھی فیملی رہی ہے اور اب تک چلی آرہی ہے۔

فیملی سسٹم کے چار دائرے

پہلا دائرہ: فیملی کیا ہے؟ فیملی کے احکام کیا ہیں؟ قوانین کیا ہیں؟ ہر ملک، ہر قوم اور ہر مذہب کے اپنے اپنے ضابطے اور قوانین ہیں، اسلام کے اپنے ضابطے ہیں۔ اس حوالے سے بات آگے چلانے سے پہلے یہ عرض کروں گا کہ خاندانی نظام (Family System) سے متعلقہ قوانین کو آج کل کی اصطلاح میں خاندانی قوانین (Personal Laws) کہتے ہیں۔ آج قانونی اصطلاح میں پبلک لاء ہے، پرسنل لاء ہے، فوجداری قانون ہے، دیوانی قانون ہے، یہ دائروں میں تقسیم ہیں۔ تو ان قانونی دائروں کی تقسیم میں فیملی کے لیے اصطلاح پرسنل لاء کی ہے۔ ان متعلقہ قوانین و احکام کو پرسنل لاء کہا جاتا ہے۔

دوسرا دائرہ: اس میں تین چار بنیادی باتیں ہیں: نکاح کیا ہوتا ہے؟ نکاح کی تعریف کیا ہے؟ نکاح کے احکام و ضوابط کیا ہیں؟ نکاح کے بعد طلاق کیا چیز ہے؟ طلاق کے احکام اور اس کے مختلف دائرے کیا ہیں؟

تیسرا دائرہ: اولاد اور ماں باپ کے حقوق کیا ہیں؟ ماں باپ پر اولاد کی کیا ذمہ داریاں ہیں؟ اور اولاد پر ماں باپ کی کیا ذمہ داریاں ہیں؟

چوتھا دائرہ: ماں باپ اور اولاد میں سے کوئی فوت ہو جائے تو وراثت کیسے تقسیم ہو گی؟ یہ چار بڑے دائرے ہیں۔ ان سے متعلقہ قوانین کو (Personal Laws) یعنی خاندانی قوانین کہا جاتا ہے۔

دورِ جاہلیت اور ’’روشنی کے دور‘‘ کی حدِ فاصل

نکاح مرد اور عورت کا وہ جائز ملاپ ہے جس کے نتیجے میں اولاد ہوتی ہے اور خاندان تشکیل پاتا ہے۔ اس کی تھوڑی سی وضاحت کے لیے میں یوں عرض کروں گا: خاتم النبیین ﷺ کے زمانے سے پہلے کا دور، جسے ہم ’’دورِ جاہلیت‘‘ کہتے ہیں، یہ ہماری تقسیم ہے۔ ہمارے ہاں نبی پاک ﷺ کی بعثت اور تشریف آوری سے پہلے کا زمانہ کیا کہلاتا ہے؟ ہم تو اس کو دورِ جاہلیت کہتے ہیں۔ رسول ﷺ سے پہلے کی جو کوئی بات ہوتی ہے اس کو دورِ جاہلیت کہتے ہیں اور حضور ﷺ کے بعد دورِ علم کی بات ہوتی ہے۔

یہ بالکل اسی طرح ہے جس طرح کہ آج کے عالمی فلسفہ میں، آج کی تہذیب میں انقلابِ فرانس 1789ء سے پہلے کے دور کو تاریکی کا دور (Dark Ages) اور بعد کے دور کو روشنی کا دور کہا جاتا ہے۔ یہ اُن کی تقسیم ہے اور وہ ہماری تقسیم ہے۔ ہمارے ہاں ایک دورِ جاہلیت اور دوسرا دورِ اسلام ہے۔ اور درمیان میں حدِ فاصل جناب نبی اکرم ﷺ ہیں۔ حضور ﷺ سے پہلے جاہلیت کا دور اور حضور ﷺ کی بعثت کے بعد اسلام کا دور کہلاتا ہے۔ جب بھی حوالہ دیں گے تو ان ادوار کے حوالے سے دیں گے کہ یہ جاہلیت کے دور کی بات ہے اور یہ اسلام کے دور کی بات ہے اور یہ تقسیم ہمارے ذہنوں میں رچ بس گئی ہے۔

بالکل اسی طرز پر مغربی دنیا میں بھی ایسی ہی تقسیم ہے۔ فرانس میں 1789ء کو انقلاب آیا تھا۔ اب اس کو سوا دو سو سال سے زائد عرصہ ہو گیا ہے۔ پھر یہ انقلاب پھیلتے پھیلتے پورے یورپ میں پھیلا، اس وقت سے بادشاہت، جاگیر داری اور پاپائیت ختم ہوئی۔ سوسائٹی میں نئے دور کا آغاز اس بنیاد پر ہوا کہ اب ہم خود فیصلہ کریں گے۔ خدا سے، رسول سے، کتاب سے ہمارا کوئی تعلق نہیں ہو گا۔ یہ 1789ء تھا اور اب 2016ء ہے تو اس طرح اس انقلاب کو تقریبا سوا دو سو سال ہو گئے ہیں۔

مغربی دنیا میں آپ اگر کسی سے اس دور کی بات پوچھیں گے تو کہے گا ظلمت کے دور کی بات ہے، تاریکی کے دور کی بات ہے۔ انقلابِ فرانس کے بعد روشن خیالی کے دور کی بات ہے۔ تو یہ اُن کی تقسیم ہے، پہلی بات تاریک زمانوں کی ہے۔ حتیٰ کہ آپ بھی جب دنیا میں قرآن کے حوالے سے، شریعت کے حوالے سے، سنت کے حوالے سے بات کرتے ہیں اور خلافتِ راشدہ کی بات کرتے ہیں، رسول اللہ ﷺ کی سنت کی یا معاشرتی قوانین کی بات کرتے ہیں۔ تو پہلا جملہ یہ سننے کو ملتا ہے یہ ’’تاریک دور‘‘ (Dark Edge) کی بات ہے۔ یہ دنیا کو واپس تاریکی کی طرف لے جانا چاہتے ہیں۔ ہم دنیا کو روشنی کی طرف لا رہے ہیں، یہ معاملہ الٹا کر رہے ہیں، واپس تاریک دور کی طرف لے جا رہے ہیں۔ بس اس طرح سمجھیے مغرب میں روشن خیالی کی بات ہوتی ہے تو کون سا دور مراد ہوتا ہے؟ انقلابِ فرانس کے بعد کا۔ اس میں روشنی ہے یا نہیں، یہ الگ بات ہے۔ اور اس سے پہلے ان کے لیے تاریکیوں کا دور، ظلمتوں کا دور، جہالت کا دور ہے۔

ہمارے ہاں تقسیم دوسری ہے۔ نبی اکرم ﷺ سے پہلے کا دور کیا کہلاتا ہے؟ جاہلیت کا دور۔ اور حضور ﷺ سے جس نئے دور کا آغاز ہوا وہ کون سا دور کہلاتا ہے؟ اسلام کا دور۔ یہ بات خود نبی اکرم ﷺ نے ایک موقع پر ارشاد فرمائی ہے۔ حضور ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر جو خطبہ ارشاد فرمایا وہ ایک خطبہ نہیں تھا بلکہ کئی خطبے تھے۔ منیٰ میں کھڑے ہو کر ایک خطبہ میں ارشاد فرمایا: ’’کل امر الجاہلیۃ موضوع تحت قدمی‘‘: (آج جاہلیت کی ساری قدریں میرے پاؤں کے نیچے ہیں)۔ یہ خطبہ حجۃ الوداع کا تاریخی جملہ ہے اور یہ بہت بڑی بات بلکہ مین پوائنٹ یہی ہے۔اور یہیں سے تاریخ اپنا رخ بدل دیتی ہے۔

کل امر الجاہلیۃ موضوع تحت قدمی (صحیح مسلم، باب حجۃ النبی ﷺ، حدیث نمبر 1218)
(جاہلیت کی ساری قدریں میرے پاؤں کے نیچے ہیں۔)

آج کے دن جاہلیت کی ساری قدریں میرے پاؤں کے نیچے ہیں۔ میں اس کا ترجمہ یوں کرتا ہوں، حضور ﷺ نے فرمایا میں جاہلیت کی ساری قدروں کو پاؤں کے نیچے روند کر انسانیت کو علم، روشنی اور نور کے دور کی طرف لے جا رہا ہوں۔

دورِ جاہلیت کے طریقۂ نکاح میں نبی اکرم ﷺ کی اصلاحات

میں نے یہ فرق اس لیے واضح کیا تاکہ یہ بتاؤں کہ جناب خاتم النبیین ﷺ نے نکاح کے حوالے سے جاہلیت کی کون سی قدر میں ختم کی تھیں اور کون سی نئی چیز میں داخل کی تھیں۔ نکاح تو جاہلیت کے زمانے میں بھی تھا، خاندان بھی تھا، بچے بھی ہوتے تھے، میاں بیوی بھی ہوتے تھے، ان میں طلاق بھی ہوتی تھی، سب کچھ ہوتا تھا۔ خاتم النبیین ﷺ نے جاہلیت کے خاندانی نظام میں کیا اصلاحات کیں؟ پہلے کیا تھا اور آپ ﷺ نے کیا کیا؟ پہلے مرحلے میں نبی اکرم ﷺ نے جاہلیت کے فیملی سسٹم (خاندانی نظام) میں کیا تبدیلیاں کیں۔ اس کے بعد میں یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ آج کا عالمی فلسفہ خاندانی نظام میں کیا تبدیلیاں چاہتا ہے۔

دورِ جاہلیت میں رائج نکاح کی مختلف صورتیں

ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اس کی تشریح فرماتی ہیں:

(صحیح بخاری کی طویل روایت ہے: عروۃ بن الزبیر، ان عائشۃ، زوج النبی اخبرتہ ان النکاح فی الجاہلیۃ کان علی اربعۃ انحاء … الخ۔ (صحیح بخاری، باب من قال لا نکاح الا بولی، حدیث نمبر 5127))

جاہلیت کے دور کے مرد اور عورت کے جو تعلقات ہوتے تھے، جن کو نکاح سے تعبیر کیا جاتا تھا، کون سے تعلق کو جائز سمجھا جاتا تھا، جس کو نکاح سمجھا جاتا تھا اور جس کے نتیجے میں ہونے والی اولاد کا نسب ثابت ہوتا تھا؟ اس زمانے میں یہ قانون تھا کہ کوئی بھی مرد اور عورت اگر رضامند ہیں تو یہ زنا کی ایک جائز صورت سمجھی جاتی تھی۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں: جاہلیت کے زمانے میں جو طریقے رائج تھے اور جو جائز سمجھے جاتے تھے، ان میں ایک طریقہ تو یہی تھا جو ہمارے ہاں ہے کہ مرد عورت ایک معاہدے کے تحت زندگی بھر کے لیے اکٹھے ہو گئے ہیں۔ اعلان کر دیا کہ ہم میاں بیوی ہیں اور زندگی بھر کے لیے یہ نکاح کافی ہے۔ اس کے علاوہ بھی تین چار صورتیں تھیں۔

متعدد افراد سے تعلق: ایک عورت کا بیک وقت آٹھ نو اور دس افراد سے تعلق ہوتا تھا، یہ سب کی مشترکہ بیوی ہوتی تھی۔ سب کو معلوم ہوتا تھا کہ اس عورت کا تعلق اس سے بھی ہے، اس سے بھی ہے، سوسائٹی بھی جانتی تھی۔ جب بچہ پیدا ہوتا تھا تو اس بارے میں قانون کیا تھا، ضابطہ کیا تھا؟ وہ یہ تھا کہ عورت ان میں سے کسی ایک کو بلاتی تھی اور کہتی کہ یہ بچہ تمھارا ہے اور اس متعلقہ مرد کو تسلیم کرنا پڑتا تھا وہ اس سے انکار نہیں کر سکتا تھا۔

دوسری یہ صورت ہوتی تھی کہ تعداد کی کوئی تعیین نہیں تھی۔ دروازے پر جھنڈا لگا ہوتا تھا، یہ خاص قسم کی علامت ہوتی تھی جس کا مطلب یہ تھا کہ جس کا جی چاہے وہ آ جائے۔ اس میں مردوں کی کوئی تعداد متعین نہیں، نہ دس کی، نہ بیس کی، نہ چالیس کی۔ اس زمانے میں یہ جائز صورت سمجھی جاتی تھی۔ اور آج بھی مغرب میں جنسی مزدور (Sex Workers) کے طور پر جائز ہی سمجھی جاتی ہے۔ اصطلاح بدل گئی ہے۔ پہلے طوائف کہا جاتا تھا، اب سیکس ورکرز کہلاتی ہیں۔

عہدِ جاہلیت میں جب اس قسم کے نکاح کے نتیجے میں بچہ پیدا ہوتا تو یہ سوال کہ اس کے نسب کا کیا کریں؟ وہ خاتون اندازے سے لوگوں کو بلاتی تھی اور قیافہ شناس آتا تھا۔ اسے آپ آج کا ڈی این اے ٹیسٹ سمجھ لیں۔ اس زمانے میں یہ کام قیافہ شناس کرتا تھا۔ وہ بچے کا ناک نقشہ دیکھ کر فیصلہ کرتا تھا کہ یہ بچہ اس مرد کا ہے۔ اور اس شخص کو یہ بچہ قبول کرنا پڑتا تھا، وہ انکار نہیں کر سکتا تھا۔ مجلس میں جرگے میں پنچایت میں یہ قیافہ شناس جس کے نقش و نگار دیکھ کر کہتا کہ یہ بچہ اس کا ہے، اس کو ماننا پڑتا کہ یہ بچہ میرا ہے، اس طرح سے نسب ثابت ہوتا تھا۔

نکاحِ استبضاع: ایک نکاح کی صورت یہ تھی کہ میاں بیوی آپس میں رضامندی سے فیصلہ کرتے تھے کہ کسی اچھے خاندان کا بیج حاصل کرتا ہے، نسل حاصل کرنی ہے۔ جیسے نسل حاصل کرنے کے لیے گائے کو بھیجتے ہیں، تو میاں بیوی کی رضا مندی (Understanding) سے خاتون کسی اچھے خاندان میں جاتی تھی اور اس وقت تک وہاں رہتی تھی جب تک اسے حمل نہ ہو جائے۔ دونوں میاں بیوی راضی ہیں انڈرسٹینڈنگ ہے، جب وہ بات مکمل ہو جاتی تو واپس آ جاتی تھی، وہ بچہ اس کا سمجھا جاتا تھا اور مقصد پیچھے یہ ہوتا تھا کہ بہادر ہے، شاعر ہے، یہ ہے، وہ ہے۔ یہ بھی نکاح کا طریقہ تھا جو سوسائٹی میں جائز سمجھا جاتا تھا۔

نکاحِ مؤقت: ایک یہ صورت تھی کہ وقت طے کر کے نکاح کرنا، دو مہینے کے لیے، چھ مہینے کے لیے، سال دو سال، پانچ سال کے لیے۔ وہ دو گھنٹے ہوں یا بیس سال، وہ نکاح مؤقت ہے۔ اسلام نے باقاعدہ نکاح، یعنی زندگی بھر کا معاہدہ، صرف اسی صورت کو جائز رکھا۔ باقی نکاح مؤقت، نکاح استبضاع، بدکاری وغیرہ ساری صورتیں منع فرما دیں۔ بس آج سے یہ نکاح ہوگا اس کے علاوہ کسی کو نکاح نہیں سمجھا جائے گا۔ اور قرآن پاک نے اس کا اعلان فرما دیا:

والذین ہم لفروجہم حٰفظون، الا علیٰ ازواجہم او ما ملکت ایمانہم فانہم غیرملومین (سورۃ المومنون: 23، آیت: 5، 6)
(اور جو اپنی شرم گاہوں کی (اور سب سے) حفاظت کرتے ہیں۔ سوائے اپنی بیویوں اور ان کنیزوں کے جو ان کی ملکیت میں آچکی ہوں کیونکہ ایسے لوگ قابلِ ملامت نہیں ہیں)

قرآن نے اس کا اعلان کیا، باقاعدہ زندگی بھر کی بیوی ہو گی۔ اور رہی لونڈی، تو لونڈی کی بات میں اپنے مقام پر کروں گا کہ لونڈی کیا چیز ہے، مگر یہاں نکاح کے حوالے سے بات کر رہا ہوں۔ نکاح میں قرآن پاک نے بھی کیا ہے۔

والذین ہم لفروجہم حٰفظون (سورۃ المومنون: 23، آیت: 5)
(اور جو اپنی شرم گاہوں کی (اور سب سے) حفاظت کرتے ہیں۔)

کہ ایمان والوں کا وصف یہ ہے کہ وہ اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں۔ یا باقاعدہ بیویاں ہوں یا لونڈیاں بس۔

فمن ابتغٰی ورآء ذٰلک فاولئک ہم العٰدون (سورۃ المومنون: 23، آیت: 7)
(ہاں جو اس کے علاوہ کوئی اور طریقہ اختیار کرنا چاہیں تو ایسے لوگ حد سے گزرے ہوئے ہیں۔)

اس کے علاوہ کوئی جو بھی صورت اختیار کرے گا وہ گناہ کی ہے، تو نکاح کے جو بھی دوسرے طریقے جاہلیت میں رائج سمجھے جاتے تھے وہ حضور ﷺ نے منع فرما دیے۔

پہلی اصلاح، زنا سببِ نسب نہیں

اس ضمن میں ایک دلچسپ واقعہ ہے۔ (بخاری شریف کی بڑی تفصیلی روایت ہے) حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کے بھائی نے وصیت کی تھی وہ لڑکا جو فلاں کے گھر میں پیدا ہوا وہ میرا ہے۔ جب تمھیں موقع ملے اسے قابو کر لینا۔ فتح مکہ کے بعد حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کو موقع ملا انھوں نے اسے قابو کر لیا۔ فرمایا یہ میرا بھتیجا ہے۔ وہ ام المؤمنین حضرت سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا کے باپ کی لونڈی سے تھا۔ اس رشتے سے وہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کا بھائی لگتا تھا۔ جبکہ دوسرے دعوے سے وہ حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کا بھتیجا لگتا تھا۔ دونوں کا جھگڑا ہو گیا۔

جو بات میں کہنے لگا ہوں وہ یہ ہے، کوئی آدمی دعویٰ کر دیتا کہ فلاں عورت کے گھر میں جو بچہ پیدا ہوا ہے وہ میرا ہے۔ اور عورت تصدیق کر دیتی تو بچہ اس کا شمار ہوتا تھا۔ میرے خیال میں ڈی این اے ٹیسٹ کی صورت میں آج بھی مغرب میں یہی طریقہ ہے۔ نبی پاک ﷺ نے یہ سلسلہ ختم کیا اور بنیادی قاعدہ بیان کیا۔ جو اصول کے طور پر عرض کرنا چاہتا ہوں۔ فرمایا:

الولد للفراش وللعاھر الحجر (صحیح بخاری، باب من قضیٰ بحق اخیہ، حدیث نمبر: 7182)
(بچہ شوہر کا ہوگا اور زانی کے لیے پتھر ہے۔)

زنا سے نسب ثابت نہیں ہوگا اور زانی کو پتھر پڑیں گے۔ نسب اس سے ثابت ہوگا جس کے بستر پر بچہ ہے۔ اس کا قانونی زبان میں ترجمہ کرتا ہوں کہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ زنا آج کے بعد نسب کا سبب نہیں ہوگا۔ جب (کہ) زمانہ جاہلیت میں زنا نسب کا سبب سمجھا جاتا تھا۔ نبی پاک ﷺ نے فرمایا: نہیں۔ اور صاف اعلان کر دیا: ’’الولد للفراش وللعاھر الحجر‘‘ نسب اس سے ثابت ہو گا جس کے گھر میں بچہ پیدا ہوا ہے۔ اور کوئی زنا کا دعویٰ کرے گا تو اس کو نسب نہیں ملے گا، اس کو پتھر ملیں گے، سنگسار کر دیا جائے گا۔ حضور ﷺ نے نسب کے ثبوت کو واضح کر دیا کہ اگر زنا ثابت بھی ہو جائے تب بھی نسب کسی طرح ثابت نہیں ہوگا۔ تو بنیادی اعلان حضور ﷺ نے یہ کیا کہ زنا آج کے بعد نسب کے ثبوت کا سبب تسلیم نہیں کیا جائے گا۔

دوسری اصلاح، بیویوں کی تحدید

جناب خاتم النبیین ﷺ نے ایک تبدیلی یہ کی جس کا ذکر قرآن پاک میں ہے۔ نبی ﷺ نے فرمایا کہ جاہلیت کے زمانے میں بیویوں کی تعداد کے بارے میں کوئی پابندی نہیں تھی۔ دس دس، پچاس پچاس، سو سو، کوئی حد نہیں تھی۔ طاقتور آدمی، مالدار آدمی جتنی مرضی چاہے کر لے، کوئی پرسان حال نہیں۔ لطف کی بات یہ کہ ایسی اکثر روایات کی راویہ ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ہیں۔ ان کے بھانجے حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے مسئلہ پوچھا کہ اماں جان قرآن کی ایک آیت سمجھ نہیں آرہی۔

(عروۃ بن الزبیر، انہ سال عائشۃ رضی اللہ عنہا، عن قول اللہ تعالیٰ: وان خفتم الا تقسطوا۔ (صحیح بخاری، باب باب شرکۃ الیتیم واہل المیراث، حدیث نمبر: 2494))

قرآن پاک کی بہت سی آیات لوگوں کو بظاہر سمجھ نہیں آتی تھیں تو بڑوں سے رجوع کرتے تھے۔ اماں جان سے ان کی قرآن فہمی کی وجہ سے زیادہ رجوع ہوتا تھا۔ ان کے بھانجے نے کہا: اماں جان مجھے آیت سمجھ نہیں آئی۔ قرآن پاک کی ایک آیت ہے:

وان خفتم الا تقسطوا فی الیتٰمٰی فانکحوا ما طاب لکم من النسآء مثنٰی وثلٰث وربٰع (سورۃ النساء: 4، آیت: 3)
(اگر تمھیں خوف ہو کہ تم یتیموں کے ساتھ انصاف نہیں کر سکو گے پھر شادیاں کرو جو عورتیں اچھی لگیں دو سے تین سے چار سے۔)

سوال یہ کیا ہے: یتیموں سے انصاف نہ کر سکو تو شادیاں کرو، اس کا کیا مطلب ہے؟ اماں جان دونوں جملوں کا جوڑ سمجھ نہیں آتا کہ اگر تمھیں خوف ہو کہ یتیموں سے انصاف نہیں کر سکو گے تو پھر دو شادیاں کرو، تین کرو، چار کرو۔ کیا مطلب ہے اس کا؟ ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے تمام تر پس منظر بیان کیا تب حضرت عروہ رضی اللہ عنہ کو بات مکمل طور پر سمجھ آئی۔

قرآن پاک کی بیسیوں ایسی آیات ہیں جب تک آپ اس کا پس منظر نہیں سمجھیں گے آیت سمجھ نہیں آئے گی۔ ہماری زبان میں پس منظر (Background) ہے اور مفسرین کی اصطلاح میں ہے ’’شانِ نزول‘‘۔ ان میں سے ایک یہ آیت بھی ہے جو حضرت عروہ رضی اللہ عنہ کو سمجھ میں نہیں آئی۔ اماں جان نے فرمایا: بیٹا اس کا ایک خاص پس منظر ہے کہ جاہلیت کے زمانے میں قبائلی سسٹم تھا، برادریاں اور قبیلے تھے۔ قبیلوں کا یہ سسٹم تھا کہ کوئی بچی یتیم ہو جاتی تھی جو خوبصورت ہے یا مال دار ہے، قبیلے کا سردار یہ چاہتا تھا یہ باہر نہیں جانی چاہیے۔ اس کی یا تو وجہ مال ہوتی تھی یا حسن۔ لڑکی خوبصورت ہے تو وہ کہہ دیتا میری بیوی ہے، سردار کا فیصلہ آخری ہوتا تھا۔ یہ جاہلیت کے کلچر کی ایک تصویر ہے۔ سرداری نظام تھا، قبائلی سسٹم تھا۔ لڑکی کا باپ فوت ہو گیا، وہ یتیم ہو گئی ہے، خوبصورت ہے، تب سردار کی نیت خراب ہو گئی، بس یہ اس کی بیوی ہے، خرچہ ورچہ نہیں دیتے تھے، مال ہڑپ کرتے تھے، اور تعداد کی پابندی نہیں تھی اپنا اختیار سمجھا جاتا تھا۔

اللہ پاک نے یہ حکم اس جاہلیت کی رسم کو توڑنے کے لیے نازل کیا، دو باتیں نازل کیں: ایک یہ کہ یتیم بچی کو گھر میں داخل کر کے انصاف نہیں کر سکتے تو اس کو چھوڑ دو اور آزاد عورتیں تلاش کرو تاکہ تمھیں کوئی پوچھنے والا ہو۔ ایک پابندی یہ لگائی کہ لڑکی یتیم ہے اور تمھارا شادی کا ارادہ بنتا ہے تو کرو لیکن شرط کیا ہے؟ اگر ان کے حقوق پورے نہیں کر سکتے، ان کا خرچہ پورا نہیں کر سکتے، انصاف فراہم نہیں کر سکتے، تو یتیم بچی کو خراب نہ کرو۔ آزاد عورتوں سے نکاح کرو تاکہ کوئی پیچھے پوچھنے والا تو ہو کہ میاں کیا کر رہے ہو؟ یہ بھی بڑی حکمت ہے۔ ان غریبوں کو پیچھے کون پوچھے گا؟

یہاں ایک تجزیئے کی طرف اشارہ کرنا چاہوں گا کہ خاندان کے سسٹم میں اسلام نے اس بات کا بھی لحاظ رکھا ہے کہ لڑکی کو نکاح میں لائے ہیں تو اس کے پیچھے پوچھنے والے بھی ہونے چاہئیں۔ ہماری بہن کس حال میں ہے؟ ہماری بیٹی کس حال میں ہے؟ اور اگر کوئی زیادتی کی ہے تو پوچھ سکیں کہ کیا ہو رہا ہے۔ صاحبِ ہدایہ نے مسئلہ بیان کیا ہے کہ میاں بیوی جن کا نکاح ہوا ہے۔ جہاں میاں رہے گا وہاں بیوی بھی رہے گی ۔ لیکن کوئی خاوند اپنی بیوی کو اس کے خاندان سے اتنی دور نہیں لے جا سکتا کہ میل ملاپ کے واسطے ہی ختم ہو جائیں۔ ’’لان الغریبۃ توذیٰ‘‘ (ہدایہ، باب المہر، ج ۱، ص 206) (مسافر عورت کو اذیت دی جائے گی) کوئی پوچھنے والا نہیں ہوگا، یہ پوچھنا بھی ایک حق ہے۔ اتنا دور نہیں لے جا سکتا کہ ماں باپ کے ساتھ میل جول کے اسباب ہی ختم ہو جائیں۔ وجہ کیا بیان کی ’’لان الغریبۃ توذیٰ‘‘ مسافر عورت کو اذیت دی جائے گی اور پوچھنے والا کوئی ہوگا نہیں۔ تو قرآن پاک نے کہا کہ نکاح آزاد عورتوں سے کرو، دو ہوں، تین ہوں، چار ہوں، لیکن کسی کو تنگ نہ کرو، اس کی بے بسی سے فائدہ مت اٹھاؤ۔

چار بیویوں تک مشروط اجازت ہے

دوسری پابندی یہ لگا دی کہ چار سے زیادہ نہیں، یہ چار کی پابندی ہے، چار کا حکم نہیں ہے۔ چار سے زیادہ کی ممانعت ہے کہ زیادہ سے زیادہ چار کر سکتے ہو اگر کرنا چاہو۔ یہ امتدادِ حکم کے لیے نہیں، یہ اسقاط ماوراء کے لیے ہے۔ یہ زیادہ (Maximum) کی حد ہے، کم (Minimum) کی نہیں۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں قرآن پاک نے پابندی لگا دی۔ چار سے زیادہ کی ممانعت کے لیے اور یتیم بچیوں کو ظلم سے بچانے کے لیے۔ اور یہ جاہلیت کے نظام میں تبدیلی تھی کہ چار سے زیادہ نہیں۔ اور چار بھی مشروط ہیں، ایک سے زیادہ کی اجازت ہے لیکن مشروط ہے۔ ’’فان خفتم الا تعدلوا فواحدۃ‘‘ (سورۃ النساء: 4، آیت: 3) اگر تمھیں ڈر ہو کہ میں انصاف نہیں کر سکوں گا تو پھر ایک پر ہی گزارا کرو۔ ایک سے زیادہ کی اجازت انصاف اور عدل کی شرط پر ہے۔ ایک سے زیادہ میں انصاف کرنا ویسے بھی مشکل کام ہوتا ہے۔

آپ ﷺ کی ازواجِ مطہراتؓ کی تعداد پر وارد اعتراض اور اس کا جواب

جناب نبی اکرم ﷺ کے پاس بیک وقت نو بیویاں تھیں۔ یہ بھی ایک دلچسپ بات ہے کہ حضور ﷺ پر ہونے والے اعتراضات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ جب چار کی پابندی لگی تو باقی سب سے حضور ﷺ نے زائد بیویاں چھڑوا دیں کہ چار سے زائد بیویوں کو چھوڑ دو اور خود کیوں نہیں چھوڑیں؟ نو بیویاں آخری وقت تک تھیں۔ یہ مغرب کے اعتراضات میں سے ایک بڑا اعتراض ہے کہ خود کیوں نہیں چھوڑیں باقیوں سے چھڑوا دیں؟ آسان سی بات عرض کر دیتا ہوں۔ باقیوں نے جو چھوڑیں ان کا کوئی نہ کوئی ٹھکانہ بن گیا۔ حضور ﷺ کی بیویوں کو قرآن پاک نے کہا کہ ’’وازواجہ امہٰتہم‘‘ (سورۃ الاحزاب: 33، آیت 26) کہ نبی کی بیویاں تمھاری مائیں ہیں۔ ساتھ ہی فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ کے بعد ان میں سے کسی کے ساتھ کسی کو نکاح کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ ’’ولا ان تنکحوا ازواجہ من بعدہ ابدا‘‘ (سورۃ الاحزاب: 33، آیت: 53) تو یہ پانچ کدھر جاتیں؟ تو ان کے مقام و مرتبے (Status) کا تقاضا یہ تھا، ان کے احترام کا تقاضا یہ تھا۔ فرمایا: ’’لا یحل لک النسآء من بعد‘‘ ان کے بعد نئی کی اجازت نہیں ہے۔ باقیوں کے لیے چار کے بعد نہیں، آپ ﷺ کے لیے نو کے بعد نہیں۔ نئی شادی آپ ﷺ نہیں کر سکتے ۔ ’’لا یحل لک النساء من بعد ولا ان تبدل بہن من‘‘ (سورۃ الاحزاب: 33، آیت 52) اور پھر حضور ﷺ پر یہ پابندی بھی لگی کہ ان میں سے کوئی تبدیل بھی نہیں کر سکتے، یعنی ان کو چھوڑ کر کسی اور سے نکاح کر لیں۔ یہ پانچ جن کو چھوڑنا تھا وہ کدھر جاتیں؟ وہ تو امت کی مائیں ہیں۔ ان کے احترام کا تقاضا تھا، ان کے پروٹوکول کا تقاضا تھا کہ یہ نو کی نو رہیں اور اسی نبویؐ نسبت کی شان سے رہیں۔

میں نے یہ عرض کیا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ قرآن پاک نے چار سے زیادہ پر پابندی لگا دی کہ بیک وقت چار سے زیادہ نکاح نہیں کر سکتے۔ ایک بنیادی تبدیلی قرآن پاک نے یہ کی۔

تیسری اور چوتھی اصلاح، نکاح میں اعلان اور نان نفقہ کی ذمہ داری

ایک اور تبدیلی کی جاہلیت کے نظام میں کہ جہاں نکاح کا ذکر کیا ہے وہاں دو تین شرطیں رکھی ہیں۔ اس کا میں اپنی زبان میں ترجمہ کیا کرتا ہوں۔ فرمایا کہ:

فما استمتعتم بہ منہن فاٰتوہن اجورہن (سورۃ النساء: 4، آیت: 24)
(چنانچہ جن عورتوں سے (نکاح کر کے) تم نے لطف اٹھایا ہو، ان کو ان کا وہ مہر ادا کرو جو مقرر کیا گیا ہو۔)

قرآن پاک نے مالی ذمہ داریاں قبول کرنے کا کہا۔ مالی ذمہ داریوں کے بغیر نکاح کرنے کی اجازت نہیں۔

ایک پابندی یہ لگائی کہ خفیہ تعلق نہیں ہوگا۔

ولا متخذٰت اخدان (سورۃ النساء: 4، آیت: 25)
(اور نہ خفیہ طور پر ناجائز آشنائیاں پیدا کریں۔)
ولا متخذی اخدان (سورۃ المائدۃ: 5، آیت: 5)
(اور نہ خفیہ آشنائی پیدا کرنا۔)

نہ گرل فرینڈ (Girl Friend) نہ بوائے فرینڈ (Boy Friend) جو ہوگا کھلا (Open) اور عام ہوگا۔ اور ان کی مالی ذمہ داریاں قبول کر کے ہو گا۔ نکاح کے لیے قرآن پاک نے چند شرطیں لگا دیں۔ ایک شرط یہ کہ ان کی مالی ذمہ داریاں نفقہ کی (مہر کی نہیں) زندگی بھر کی مالی ذمہ داری قبول کرتے ہو تو اجازت ہے۔ خفیہ نہیں اعلانیہ ’’محصنین غیر مسٰفحین ولا متخذی اخدان‘‘ (سورۃ المائدۃ: 5، آیت: 5)

قرآن نے چار باتیں کہی ہیں: ایک یہ کہ مالی ذمہ داری قبول کرو۔ دوسری بات ہے کہ گھر بسانا مقصد ہو، محض خواہش پوری کرنا نہیں، ’’محصنین‘‘ یعنی گھر بساؤ گے، ’’غیر مسافحین‘‘ یعنی محض خواہش پوری نہیں کرو گے۔ تیسرے خفیہ تعلق نہ ہو، اعلانیہ ہو، اس لیے کم از کم دو گواہوں کی شرط رکھی ہے، فقہائے کرام نے کہا ہے کہ اس سے کم میں نکاح کی اجازت نہیں ہے، خاتون سے خفیہ تعلق نہیں ہوگا اعلانیہ ہوگا۔ چوتھی مالی ذمے داریوں کے ساتھ ہوگا، گھر بسانا ہوگا۔

اس معاملے میں قرآن پاک نے اور جناب خاتم النبیین ﷺ نے چند بنیادی تبدیلیاں کی تھیں جن میں سے میں نے تین چار کا ذکر کیا ہے کہ جاہلیت کے نظام میں یہ تھا اور اسلام نے آکر یہ یہ تبدیلیاں کی ہیں۔ یوں چند تبدیلیاں میں نے ذکر کی ہیں۔ اور نکاح میں جاہلیت کے زمانے میں کی جانے والی اصلاحات کا ذکر کیا ہے۔ جبکہ آج کا عالمی نظام ہم سے جن تبدیلیوں کا تقاضا کر رہا ہے وہ اسلام کے نظام سے خاصی مختلف ہیں۔ وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔

قرآن / علوم القرآن

اسلام اور عصر حاضر

(الشریعہ — ستمبر ۲۰۲۵ء)

الشریعہ — ستمبر ۲۰۲۵ء

جلد ۳۶ ، شمارہ ۹

مدنی مسجد اسلام آباد کا معاملہ
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
ادارہ الشریعہ

مسجد گرانے کے متعلق چند اہم اصولی سوالات
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد

اکیسویں صدی میں تصوف کی معنویت اور امکانات
مولانا شاہ اجمل فاروق ندوی

خطبہ حجۃ الوداع اغیار کی نظر میں
مولانا حافظ واجد معاویہ

شہیدِ کربلا حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مظلومانہ شہادت
مولانا محمد طارق نعمان گڑنگی

خادمۂ رسول ؐحضرت امِ رافع سلمٰیؓ
مولانا جمیل اختر جلیلی ندوی

سوشل میڈیا کے منفی استعمال کے نتائج
مولانا مفتی عبد الرحیم

خواتین کا مسجد میں باجماعت نماز ادا کرنا
ڈاکٹر محمد عمار خان ناصر

خطبہ، تقریر اور نمازِ جمعہ میں لاؤڈ اسپیکر کا غلط استعمال
مفتی سید انور شاہ

کُل جماعتی دفاعِ شعائر اللہ سیمینار: اعلامیہ، سفارشات، قراردادیں
قرآن و سنہ موومنٹ پاکستان

غزہ پر اسرائیل کا نیا حملہ: فلسطین کا مستقبل کیا ہو گا؟
ڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی

East and West: Different Futures for Different Pasts
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

’’خطباتِ فتحیہ: احکام القرآن اور عصرِ حاضر‘‘ (۳)
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
مولانا ڈاکٹر محمد سعید عاطف

حدیث میں بیان کی گئی علاماتِ قیامت کی تاریخی واقعات سے ہم آہنگی، بائیبل اور قرآن کی روشنی میں (۴)
ڈاکٹر محمد سعد سلیم

’’اسلام اور ارتقا: الغزالی اور جدید ارتقائی نظریات کا جائزہ‘‘ (۷)
ڈاکٹر شعیب احمد ملک
ڈاکٹر ثمینہ کوثر

ماہانہ بلاگ

بونیر میں امدادی سرگرمیاں اور مدارس کے طلباء
مولانا مفتی فضل غفور
مولانا عبد الرؤف محمدی

اسلام ایک عالمی مذہب کیسے بنا؟
ایپک ہسٹری

پاکستان اور عالمِ اسلام: فکری و عملی رکاوٹیں کیا ہیں؟
عبد اللہ الاندلسی
پال ولیمز

ردِ عمل پر قابو پانے کی ضرورت
محسن نواز

غزہ کو بھوکا مارنے کے اسرائیلی اقدامات کو کیسے روکا جائے؟
الجزیرہ

گلوبل صمود فلوٹیلا: غزہ کی جانب انسانی ہمدردی کا سمندری سفر
ادارہ الشریعہ

صمود (استقامت) فلوٹیلا میں پاکستان کی نمائندگی
مولانا عبد الرؤف محمدی

فلسطینی ریاست کی ممکنہ تسلیم کا برطانوی فیصلہ اور اس کی مخالفت
ادارہ الشریعہ

فلسطین کے متعلق آسٹریلیا اور دیگر مغربی ممالک کا بدلتا ہوا رجحان: ایک مذاکرہ کی روئیداد
اے بی سی نیوز آسٹریلیا

’’سیرتِ مصطفیٰ ﷺ (۱)‘‘
حضرت مولانا محمد ادریس کاندھلویؒ
مولانا ڈاکٹر حافظ ملک محمد سلیم عثمانی

’’مطالعۂ سیرتِ طیبہ ﷺ : تاریخی ترتیب سے‘‘
ڈاکٹر حافظ سید عزیز الرحمٰن

’’اکبر بنام اقبال: ایک صدی کے بعد 133 غیرمطبوعہ خطوط کی دریافت‘‘
ڈاکٹر زاہد منیر عامر

’’فہمِ اقبال — کلامِ اقبال کا موضوعاتی انتخاب‘‘
رانا محمد اعظم

مطبوعات

شماریات

Flag Counter