اسلام کا خاندانی نظام اور عصرِ حاضر (3)
خطبہ نمبر 5: مؤرخہ 13 نومبر 2016ء
حضرات علمائے کرام اور محترم دوستو بزرگو اور ساتھیو!
اس پہلو سے گفتگو کی ابتدا کی تھی کہ جاہلیت کے دور کا جو خاندانی نظام تھا، خاتم النبیین ﷺ نے اس میں کیا تبدیلیاں کیں؟ ان تبدیلیوں کا ذکر ہو رہا تھا اور پھر ایک بات درمیان میں ہوئی کہ جاہلیت کے دور میں غلام اور لونڈی کو بھی خاندان کا حصہ سمجھا جاتا تھا۔ اس لیے قرآن پاک اور احادیث میں ان کے متعلق احکام بیان ہوئے ہیں۔
مرد و عورت خاندان کے دو بنیادی ستون ہیں
مرد اور عورت ایک گاڑی کے دو پہیے اور خاندان کے دو بنیادی ستون ہیں۔ قرآن کریم نے ان دونوں کو خاندان و معاشرے کی بنیاد قرار دیا ہے۔
خلقکم من نفس واحدۃ وخلق منہا زوجہا وبث منہما رجالا کثیرا ونسآء (سورۃ النساء: 4، آیت: 102)
(جس نے تمھیں ایک جان سے پیدا کیا، اور اسی سے اس کی بیوی پیدا کی، اور ان دونوں سے بہت سے مرد اور عورتیں (دنیا میں) پھیلا دیے۔)
یہ دونوں بنیادی ستون ہیں، اگر ان میں توازن برقرار رہے تو نظام ٹھیک رہتا ہے، اگر ان میں توازن بگڑ جائے تو نظام خراب ہو جاتا ہے۔ اس کو آج کی زبان میں یوں تشبیہ دی جا سکتی ہے کہ ’’ویل بیلنسنگ‘‘ (Wheel Balancing) یعنی توازن قائم رہنا چاہیے۔ اگر ایک ویل کا بھی بیلنس خراب ہو جائے تو گاڑی دائیں بائیں لڑھک جاتی ہے۔ دونوں خاندانوں کے درمیان ویل بیلنسنگ (حسنِ توازن) تب ہی قائم رہ سکتا ہے جب تک میاں بیوی آپس میں درست رہیں، اور اسلام نے بھی یہی حسنِ توازن پیدا کیا ہے۔
مثال کے طور پر آج کا ایک بڑا عنوان ہے عورت کی مظلومیت۔ اسلام نے عورت کی مظلومیت کا خاتمہ کیا اور عورت کو مظلومیت سے مختلف مراحل میں نجات دلائی۔ اسلام نے عورت کو زندگی کا حق دیا۔ جاہلیت کے زمانے میں بچی کو ماں باپ کی مرضی کے مطابق رکھا جاتا تھا، اگر وہ زندہ دفن کریں تو ان کی مرضی، اگر وہ زندہ رکھیں تب ان کی مرضی تھی۔ ہزاروں بچیاں زندہ دفن ہوئی ہیں اس لیے کہ ان کے ماں باپ ان کو زندہ نہیں دیکھنا چاہتے تھے، اور پالنا نہیں چاہتے تھے۔ تو اسلام نے عورت کی زندگی کے حق کو پہلے بحال کیا اور اس کو حرام قرار دیا کہ کسی بچی کو عار کے ڈر سے یا فاقے کے ڈر سے قتل کرنا ظلم ہے، قتل ہے۔ بلکہ پیٹ کے اندر ایک بچے کے قتل کو بھی حضور ﷺ نے قتل قرار دیا اور اس کی دیت لازم قرار دی۔
[عن سعید بن المسیب، ان رسول اللہ قضی فی الجنین یقتل فی بطن امہ بغرۃ عبد، صحیح بخاری، باب الکھانۃ، حدیث نمبر: 5760]
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
ولا تقتلوا اولادکم من املاق (سورۃ الاسراء: 17، آیت: 31)
(اور اپنی اولاد کو مفلسی کے خوف سے قتل نہ کرو۔)
اسلام میں عورت کے حقوق
اسلام نے عورت کو رائے کا حق دیا، اس کی حیثیت و اہمیت پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی تفصیلی روایت بیان کر چکا ہوں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جاہلیت کے زمانے میں ہم قریشی بالخصوص عورت کو رائے کا حق نہیں دیتے تھے، اسے رائے کا کوئی حق نہیں ہوتا تھا، کسی بات پر ٹوکنے کا، انکار کرنے کا حق نہیں ہوتا تھا، لیکن جب اسلام آیا تو ہمیں پتہ چلا کہ عورت کی بھی رائے ہوتی ہے، عورت کو بھی کسی بات سے انکار کا، ٹوکنے کا حق ہے۔ جناب خاتم النبیین ﷺ نے عورت کا یہ حق بھی بحال کیا کہ عورت کی مرضی کے خلاف بالغ عورت کی شادی نہیں کی جا سکتی۔ (صحیح بخاری، باب الرحلۃ فی المسئلۃ النازلۃ وتعلیم اھلہ، حدیث نمبر 26)
ایک خاتون آئیں حضور ﷺ کے پاس اور کہا یا رسول اللہ ﷺ میرے ماں باپ نے میرا نکاح میری مرضی کے خلاف کیا ہے، میں راضی نہیں ہوں۔ آپ ﷺ نے پوچھا، تم راضی نہیں ہو؟ اس نے کہا میں اس رشتے پر راضی نہیں ہوں۔ آپ ﷺ نے اس کے باپ کو بلایا اور فرمایا، تم نے اس کا نکاح تو کر دیا ہے لیکن اس سے پوچھا ہے؟ اس نے کہا، یا رسول اللہ ﷺ نہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا، یہ تو ناراض ہے، اگر یہ راضی نہیں ہے تو نکاح ختم۔ خاتم النبیین ﷺ نے اس نکاح کو ختم کیا، اس کو تسلیم نہیں کیا۔ نکاح کے لیے بالغ لڑکی کی مرضی شرط ہے۔ (صحیح بخاری، باب لا یجوز نکاح المکرہ، حدیث نمبر 3)
خاتم النبیین ﷺ نے اس نکاح کو ختم کر دیا جس میں لڑکی کی رائے اس نکاح کے خلاف تھی۔ حضور ﷺ نے عورت کی رائے کا حق بحال کیا بلکہ میں تو اس سے زیادہ بات عرض کرتا ہوں کہ صرف عورت کو رائے کا حق نہیں دیا بلکہ قرآن پاک نے عورت کی رائے کے اظہار کو مجادلے کے عنوان سے ذکر کیا۔
قد سمع اللہ قول التی تجادلک فی زوجھا وتشتکی الی اللہ واللہ یسمع تحاورکما (سورۃ المجادلہ: 58، آیت: 1)
(اے پیغمبر ﷺ) اللہ نے اس عورت کی بات سن لی ہے جو آپؐ سے اپنے شوہر کے بارے میں بحث کر رہی ہے، اور اللہ سے فریاد کرتی جاتی ہے، اور اللہ تم دونوں کی گفتگو سن رہا ہے۔)
کہ اللہ نے اس عورت کی بات سن لی جو آپ ﷺ سے جھگڑا کر رہی تھی۔ جھگڑا کس سے کر رہی تھی؟ جناب خاتم النبیین ﷺ سے اپنے خاوند کے بارے میں۔ وہ آپ ﷺ سے مجادلہ کر رہی تھی اور اصرار کر رہی تھی تو اللہ پاک نے فیصلہ عورت کے حق میں دیا کہ عورت ٹھیک کہہ رہی ہے۔ آپ ﷺ نے انکار کر دیا تھا کہ میں کچھ نہیں کر سکتا۔ اللہ نے آپؐ کو فرمایا کہ آپؐ کو فیصلہ دینا چاہیے تھا اور عورت کا مؤقف تسلیم کیا۔ تو اللہ رب العزت نے عورت کو مجادلے کا حق دیا ہے۔
اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کیونکہ عورت کا محض خالی رائے پر اطمینان نہیں ہوتا جب تک کچھ نہ کچھ اور کسی نہ کسی انداز میں جھگڑا یا بحث مباحثہ نہ کر لے۔ یہ ایک نفسیاتی (Psychological) مسئلہ ہے کہ عام طور پر عورت خالی رائے کے اظہار پر مطمئن نہیں ہوتی جب تک وہ جھگڑا یا جدال نہ کر لے، اس لیے وہ جھگڑا کر کے ہی مطمئن ہو گی، تو اللہ رب العزت نے صرف رائے کا حق نہیں دیا بلکہ مجادلے کا حق بھی دیا ہے کہ وہ جھگڑا اور بحث مباحثہ بھی کر سکتی ہے۔ یہ عورت حضور ﷺ سے جھگڑی تو اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں پوری سورت نازل کی تو اس طرح سے اللہ تعالی نے عورت کو رائے کا حق دیا۔
خواتین کے معاملے میں جاہلیت کی چند ظالمانہ رسوم اور ان کا سد باب
جاہلیت کے زمانے میں عورت کو تنگ کرنے کے جو طریقے اختیار کیے جاتے تھے ان پر بھی ایک نظر ڈال لیں۔ جاہلیت کے زمانے میں عورت کو تنگ کرنے کا ایک راستہ یوں تھا کہ نکاح کی کوئی حد متعین نہیں تھی۔ دو، تین، چار، پانچ حتیٰ کہ بعض لوگ سو سو تک خواتین رکھتے تھے۔ قرآن پاک نے بیک وقت چار بیویوں سے زائد پر پابندی لگا دی۔
ام المؤمنین رضی اللہ عنہا نے پوری روایت تفصیل سے بیان کی، یہ اس لیے کہ زیادہ شادیوں کو لوگوں نے مذاق بنا لیا تھا۔ جس کے پاس کچھ پیسے ہیں یا گنجائش ہے اس نے دس دس بیس بیس خواتین بٹھا رکھی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ بیک وقت چار سے زائد نہیں رکھ سکتے، یہ آخری حد ہے کہ پہلی چار کی موجودگی میں پانچویں کا حق نہیں ہے۔ یہ عورت پر ہونے والے ظلم کے ختم کرنے کا ایک طریقہ ہے، جسے ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا عورت کی مظلومیت کے ایک دائرے کو ختم کرنے سے تعبیر فرماتی ہیں۔
فانکحوا ما طاب لکم من النسآء مثنیٰ وثلٰث وربٰع (سورۃ النساء: 4، آیت: 3)
(دوسری عورتوں میں سے کسی سے نکاح کر لو جو تمھیں پسند آئیں دو دو سے تین تین سے، اور چار چار سے۔)
[حدیث کی اہمیت کے پیش نظر اس حدیث کا متن مع ترجمہ پیش خدمت ہے:
اخبرنی عروۃ، انہ سال عائشۃ رضی اللہ عنہا، وقال اللیث: حدثنی یونس، عن ابن شہاب، قال: اخبرنی عروۃ بن الزبیر، انہ سال عائشۃ رضی اللہ عنہا، عن قول اللہ تعالی: {وان خفتم الا تقسطوا} [النساء: 3] الی {ورباع} [النساء: 3]، فقالت: «یا ابن اختی ہی الیتیمۃ تکون فی حجر ولیہا تشارکہ فی مالہ، فیعجبہ مالہا وجمالہا، فیرید ولیہا ان یتزوجہا، بغیر ان یقسط فی صداقہا، فیعطیہا مثل ما یعطیہا غیرہ، فنہوا ان ینکحوہن الا ان یقسطوا لہن، ویبلغوا بہن اعلی سنتہن من الصداق، وامروا ان ینکحوا ما طاب لہم من النساء سواہن» قال عروۃ: قالت عائشۃ: ثم ان الناس استفتوا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بعد ہذہ الآیۃ، فانزل اللہ: {ویستفتونک فی النساء} [النساء: 127] الی قولہ {وترغبون ان تنکحوہن} [النساء: 127] والذی ذکر اللہ انہ یتلی علیکم فی الکتاب الآیۃ الاولی، التی قال فیہا: {وان خفتم الا تقسطوا فی الیتامی، فانکحوا ما طاب لکم من النساء} [النساء: 3]، قالت عائشۃ: وقول اللہ فی الآیۃ الاخری: {وترغبون ان تنکحوہن} [النساء: 127] یعنی ہی رغبۃ احدکم لیتیمتہ التی تکون فی حجرہ، حین تکون قلیلۃ المال والجمال، فنہوا ان ینکحوا ما رغبوا فی مالہا وجمالہا من یتامی النساء الا بالقسط، من اجل رغبتہم عنہن۔ (صحیح بخاری، باب شرکۃ الیتیم واہل المیراث، حدیث نمبر: 2494)
(عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے دریافت کیا کہ اے اماں جان! ’’وان خفتم الا تقسطوا فی الیتامیٰ‘‘ (الآیہ) کا مطلب کیا ہے؟ انہوں نے جواب دیا، اے بھانجے! اس سے مراد وہ یتیم بچی ہے جو ولی کی پرورش میں ہو اور وہ اس کے مال و جمال کی وجہ سے اس کی رغبت کرے اور مہر تھوڑا دینا چاہے، تو اللہ تعالیٰ نے ان سے کمی مہر پر نکاح کرنے سے منع فرمایا ہے، ان کے ماسوا جن عورتوں سے چاہو نکاح کر لو۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ اس کے بعد لوگوں نے رسول اللہ ﷺ سے فتویٰ مانگا تھا تو اللہ تعالیٰ نے اس وقت یہ آیت ’’ویستفتونک فی النساء قل اللہ یفتیکم فیہن‘‘ (سورۃ النساء: 127) نازل کی جس کا خلاصہ یہ ہے کہ جب تم یتیم بچی کو تھوڑے مال کی وجہ سے چھوڑ دیتے ہو اور دوسری سے بیاہ کر لیتے ہو تو تم پر لازم ہے کہ جو زیادہ مالدار اور حسین ہو ان سے بھی نکاح نہ کرو، ان کے لیے پورا پورا انصاف کرو اور ان کا ٹھیک ٹھیک حق دے دو، تو پھر یہ ادائے حق اور نکاح جائز ہو گا۔)]
عورت کو تنگ کرنے کا ایک یہ طریقہ بھی ہوتا تھا کہ خاوند قسم کھا لیتے تھے کہ میں تمھارے قریب نہیں آؤں گا اور پھر سالہا سال تک اس معاملے کو لٹکائے رکھتے تھے۔ یہ تنگ کرنے کا ایک طریقہ تھا اور اس سے عورت تنگ ہوتی تھی۔ اور پھر سالہا سال اس کے پاس نہیں جاتے تھے کہ وہ عورت بیوی بھی ہے یا نہیں، وہ درمیان میں لٹکی رہتی تھی۔ قرآن پاک نے حد بندی کر دی کہ قسم اٹھا لی ہے، ٹھیک ہے، کہ چار مہینے تک رجوع نہیں کیا تو عورت کو طلاق ہو جائے گی، یہ چار مہینے سے زیادہ قسم کو قائم نہیں رکھ سکتے، یا رجوع کرو یا پھر طلاق دو۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ یہ بھی عورت پر ہونے والے ظلم کو ختم کرنے کا ایک قانون نافذ کیا گیا کہ اگر قسم اٹھا لی ہے تو سال سال دو دو سال لٹکانے کا تمھیں کوئی حق نہیں، ختم کرو۔ اگر چار مہینے سے زیادہ کی قسم اٹھا لی تو یہ ایلا ہوگا، جس کا ضابطہ ہے کہ چار مہینے کے اندر رجوع کرو اور قسم کا کفارہ دے دو، اور اگر چار مہینے میں رجوع نہیں کرو گے تو طلاق بائن ہو جائے گی۔
للذین یؤلون من نسآئہم تربص اربعۃ اشہر (سورۃ البقرہ: 4، آیت: 226)
(جو لوگ اپنی بیویوں سے ایلا کرتے ہیں (یعنی ان کے پاس نہ جانے کی قسم کھا لیتے ہیں) ان کے لیے چار مہینے کی مہلت ہے۔)
یہ ظلم کو ختم کرنے کا طریقہ ہے کہ چار مہینے سے زیادہ دیر قسم کے ماحول کو قائم نہیں رکھ سکتے۔ اس طرح طلاقوں پر تین سے زائد کی جو پابندی لگی ہے یہ بھی ظلم کو ختم کرنے کے لیے ہے۔ پہلے یہ تھا طلاق دی، پھر رجوع کر لیا، پھر طلاق دی، پھر رجوع کر لیا، دس دس سال تک یہ قصہ چلتا رہتا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تیسری طلاق کے بعد سلسلہ ختم، تیسری کے بعد اسے نہیں رکھ سکتے، اب چھوڑ دو۔ یہ سالہا سال تک عورت کو جو کشمکش اور امتحان میں رکھتے تھے، یہ چکر ہی سرے سے ختم کر دیا تاکہ وہ ظلم کا شکار نہ ہو۔
قرآن پاک اور جناب خاتم النبیین ﷺ نے عورت کو صرف رائے کا حق ہی نہیں دیا بلکہ یہ فرمایا کہ مرد بالغہ عورت پر اس کی مرضی کے خلاف اس پر اپنا فیصلہ مسلط نہیں کر سکتے ۔ فقہائے کرام اس کی تعبیر کرتے ہیں کہ بالغہ پر ’’ولایتِ اجبار‘‘ حاصل نہیں ہے۔ عورت کی عزتِ نفس کا خیال کیا کہ عورت عزت کی مستحق ہے۔ ایک چھوٹی سی مثال عرض کروں گا، یہ دیکھیں کہ عورت کی عزتِ نفس کیا ہے؟ اس کا ایک احترام ہے، اس کو معاشرتی احترام حاصل ہے جس کو احترامِ عرفی کہتے ہیں۔ چھوٹا سا واقعہ پیش خدمت ہے:
ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا اور ان کے خاوند حضرت ابوسلمہ رضی اللہ عنہ صحابی تھے اور حضور ﷺ کے رضاعی بھائی بھی تھے۔ دونوں نے حضرت ثویبہ رضی اللہ عنہا کا دودھ پیا تھا۔ ابو سلمہؓ فوت ہو گئے۔ حضرت ام سلمہؓ ایک معزز اور باوقار خاتون تھیں، با حیثیت خاتون تھیں، تو جناب خاتم النبیین ﷺ کو احساس ہوا کہ اس عورت کی عزت تب قائم رہے گی جب میں اس سے نکاح کروں۔ معاشرے میں ہوتا ہے کہ اس کا مقام (Status) کیا ہے، اس کی سطح کے لوگ کون ہیں۔
حضور ﷺ نے ام سلمہ رضی اللہ عنہا کو پیغام دیا کہ میں نکاح کرنا چاہتا ہوں۔ انھوں نے عذر پیش کیا، یا رسول اللہ ﷺ ایک تو میری اولاد ہے، میرے ساتھ بیٹا بھی ہے (عمر)، بیٹی بھی ہے (زینب)۔ یہ جوان تھے۔ نکاح میں حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی طرف سے وکیل بھی ان کے بیٹے عمر رضی اللہ عنہ ہی تھے۔ تو یہ حضورؐ کا بیٹا بھی تھا کیونکہ بیوی کا بیٹا، بیٹا ہی ہوتا ہے۔ حضرت ام سلمہؓ نے فرمایا کہ ان کا خرچہ بھی میں ہی کرتی ہوں۔ تو حضور ﷺ نے فرمایا اگر تمھارے بیٹے ہیں تو میرے بھی بیٹے ہیں، ان کا خرچہ میں برداشت کروں گا۔ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا ہنرمند خاتون تھیں، گھر میں چھوٹا موٹا کام کرتی تھیں اور کچھ کما بھی لیتی تھیں۔
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے عرض کی، یا رسول اللہ ﷺ، ایک مسئلہ اور بھی ہے کہ میں غصے والی بھی ہوں، مجھے غیرت بہت آتی ہے۔ تو حضورؐ نے فرمایا، میں اللہ تعالیٰ سے دعا کروں گا کہ اللہ پاک وہ معاملہ ٹھیک کر دیں۔ تو ان معاملات کو طے کرنے کے بعد ام سلمہ رضی اللہ عنہا حضور ﷺ کے نکاح میں آئیں۔ (سنن نسائی، باب انکاح الابن امہ، حدیث نمبر: 3224)
فقہاء نے قانون لکھا ہے کہ اگر کوئی آدمی کنواری سے شادی کرے تو سات دن اس کا حق ہے کہ الگ وقت دے، یہ باری میں شمار نہیں ہوں گے۔ دو بیویاں ہوں، تین ہوں، تو دن تقسیم ہوتے ہیں۔ اگر عورت ثیبہ (بیوہ یا طلاق والی) ہے تو اس کو الگ تین دن ملیں گے۔ اگر پہلی مرتبہ شادی ہو رہی ہے تو سات دن اس کا حق ہوتا ہے ورنہ تین دن۔
[ان فقہاء کا مستدل یہ روایت ہے: ’’فقال رسول اللہ … للبکر سبع، وللثیب ثلاث، صحیح مسلم، باب قدر ما تستحقہ البکر، حدیث نمبر: 1460]
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا ثیبہ تھیں، ان کے خاوند فوت ہو گئے تھے، اولاد بھی تھی۔ حضور ﷺ کے ان کے ساتھ جب تین دن گزر گئے تو حضورؐ نے ایک بات فرمائی حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے مقام اور اسٹیٹس کو ملحوظ رکھتے ہوئے۔ آپ ﷺ نے فرمایا:
ان شئت سبعت لک وان سبعت لک سبعت لنسائی لیس بک علی اہلک ہوان۔ (سنن ابی داؤد، حدیث نمبر: 2124)
(ام سلمہ اگر تم چاہو تو سات دن تمھیں پورے دے سکتا ہوں تاکہ تمھاری وجہ سے تمھارے خاندان کی عزت میں کمی نہ ہو جائے۔)
کیا عجیب بات ارشاد فرمائی آپ ﷺ نے کہ کہیں تمھارے خاندان کو یہ طعنے نہ ملیں کہ تمھاری خاتون بیاہی گئی ہے اور اس کو محض تین دن ملے ہیں۔ مسئلہ (Status) مقام و مرتبہ کا ہے، محض باری کا نہیں۔ خاندان میں عورت کی جو عزت و وقار ہے وہ برقرار رہے۔
تو حضور ﷺ نے عورت کو صرف رائے کی آزادی کا حق نہیں دیا بلکہ اس کی معاشرتی حیثیت اور معاشرتی عزت و وقار کا بھی لحاظ رکھا ہے کہ اس کی عزتِ نفس میں فرق نہ آئے، صرف اس کے لیے ہی نہیں بلکہ اس کے خاندان کی عزت پر بھی فرق نہ آئے۔ تو میں عرض کرتا ہوں کہ آج کل جو یہ کہتے ہیں کہ عورت پاؤں کی جوتی ہے، یہ بات بالکل غلط ہے۔ حضور ﷺ تو عورت کے خاندان کی عزت کا بھی احترام کر رہے ہیں۔ جناب خاتم النبیین ﷺ نے عورت کو رائے اور اس کا حق دیا۔ عزتِ نفس بھی دی کہ معاشرے میں اس کا احترام ہے، اس کا ایک وقار ہے۔
جاہلیت کے زمانے میں ایک بات اور تھی کہ خاندان ہی عورت کے بارے میں فیصلے کرتا تھا۔ قرآن میں اس کا ذکر ہے۔ حضرت معقل بن یسار رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میری بہن ایک صاحب کے نکاح میں تھیں، اس نے طلاق دے دی۔ طلاق کے بعد عدت بھی گزر گئی، رجوع نہیں کیا۔ مجھے اس بات پر غصہ تھا۔ عدت گزرنے کے بعد دونوں کا ارادہ ہوا کہ نکاح کر لیتے ہیں، اور اس طرح نکاح ہو جاتا ہے۔ حضرت معقل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ سابقہ بہنوئی میرے پاس آیا، میں نے کہا جاؤ اب نکاح نہیں ہوگا، میں اب رشتہ نہیں دوں گا۔ حضرت معقلؓ کہتے ہیں کہ میں نے انکار کر دیا جبکہ مجھے پتہ تھا کہ بہن راضی ہے، مگر میں اپنے انکار پر اڑا ہوا تھا۔ اللہ پاک نے قرآن میں حکم اتارا:
فلا تعضلوہن ان ینکحن ازواجہن اذا تراضوا بینہم بالمعروف (سورۃ البقرہ: 2، آیت: 232)
(اے میکے والو) انھیں اس بات سے منع نہ کرو کہ وہ اپنے (پہلے) شوہروں سے دوبارہ نکاح کریں، بشرطیکہ وہ بھلائی کے ساتھ ایک دوسرے سے راضی ہو گئے ہوں)
کیونکہ اب ان میں صلح ہو گئی ہے، تم رکاوٹ کیوں بنتے ہو اگر رجوع کی گنجائش ہو؟ جب وہ معروف طریقے سے آپس میں متفق ہو گئے ہیں اور جھگڑا ختم ہو گیا ہے اور دوبارہ نکاح کرنا چاہتے ہیں تو تم کیوں روکتے ہو؟ فرمایا، یہ جو خاندان رکاوٹ بن جاتا ہے کہ خاندان کی عزت کا مسئلہ ہے، اگر وہ آپس میں راضی ہیں اور یہ ان کے اختیار میں ہے تو خاندان والے دوبارہ نکاح کرنے سے نہیں روک سکتے۔ حضرت معقل بن یسار رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ان آیات کے بعد میں نے اپنی بہن کا نکاح سابقہ بہنوئی سے کر دیا۔ کیونکہ قرآن کہتا ہے کہ جب وہ آپس میں راضی ہیں تو پھر تم رکاوٹ نہیں بنو گے۔
[عن الحسن، فلا تعضلوہن قال: حدثنی معقل بن یسار، انہا نزلت فیہ، قال: زوجت اختالی من رجل فطلقہا۔ صحیح بخاری، باب من قال: لا نکاح الا بولی، حدیث نمبر: 5130]
دور جاہلیت میں مختلف قبائل تھے، ہر قبلے کا قانون الگ تھا، رسم و رواج بھی الگ تھے۔ چونکہ باقاعدہ ایک نظم نہیں تھا، ہر ایک کا اپنا اپنا سسٹم تھا، قبائل میں یہ ہوتا ہے، روایات و رواج بھی اپنے اپنے تھے، سب کے قانون ایک جیسے نہیں تھے، بہت سے قبائل میں یہ ہوتا تھا کہ ایک شخص فوت ہوا تو اس کی بیوی بھی وراثت میں شمار ہوتی تھی اور وراثت خاندان کا حق ہوتا تھا کہ اس کے بارے میں فیصلہ کرے، وہ خود فیصلہ نہیں کر سکتی۔
قرآن پاک نے کہا: ’’لا یحل لکم ان ترثوا النسآء کرھا‘‘ (سورۃ النساء: 4، آیت: 19)۔ یہ وراثت نہیں ہے، یہ آزاد نفس ہے، یہ مال نہیں جو وراثت میں اِدھر اُدھر کر دینا تمھارے اختیار میں ہو۔ دھکے سے زبردستی وارث نہ بنو، وہ آزاد ہے اپنی مرضی سے جہاں جائے۔ اس بنیاد پر کہ چونکہ ہمارے بھائی یا باپ کی بیوی تھی، تم اس کو وراثت میں تقسیم نہیں کر سکتے۔ بعض قبائل میں تو عورتیں وراثت میں باقاعدہ تقسیم ہوتی تھیں۔ اللہ پاک نے فرمایا، نہیں، جبرًا وارث مت بنو، یہ تمھاری وراثت نہیں ہیں۔ یہ آزاد روح ہے، آزاد انسان ہے، اس کی اپنی رائے اپنا حق ہے۔ بعض جگہ تو یہ ہو جاتا تھا، ہر جگہ نہیں۔ ہر قبیلے کے رسم و رواج مختلف تھے۔
بعض قبائل میں یہ تھا کہ باپ کی منکوحہ سے بڑا بیٹا شادی کر لیتا تھا۔ بڑا بیٹا چونکہ بڑا وارث ہوتا تھا، لہٰذا حق سمجھتا تھا کہ میرے باپ نے جس سے نکاح کیا تھا وہ میری بیوی ہو گی۔ قرآن نے فرمایا: یہ وراثت یا ترکہ نہیں ہے، بلکہ ماں ہے۔
ولا تنکحوا ما نکح آباءکم من النساء۔ (سورۃ النساء: 4، آیت: 22)
(اور جن عورتوں سے تمھارے باپ دادا (کسی وقت) نکاح کر چکے ہوں، تم انھیں نکاح میں نہ لاؤ۔)
پچھلی باتیں جو ہو چکیں سو ہو چکیں، آئندہ کے لیے یہ قانون ہے کہ باپ کی منکوحہ ماں ہے، اس کے ساتھ آئندہ ماں جیسا سلوک کرو گے۔ یہ بھی جاہلیت کی ایک رسم تھی جو اسلام نے ختم کی اور عورت کے وقار کو بحال کیا۔
[عن مقاتل بن حیان قال: کان اذا توفی الرجل فی الجاہلیۃ عمد حمیم المیت الی امراتہ، فالقی علیہا ثوبا، فیرث نکاحہا فیکون ہو احق بہا، فلما توفی ابو قیس بن الاسلت عمد ابنہ قیس الی امراۃ ابیہ، فتروجہا۔ سنن کبریٰ بیہقی، باب ما جاء فی قولہ تعالیٰ: الا ما قد سلف، حدیث نمبر: 13927]
جاہلیت میں یہ بھی تھا کہ عورت عام طور پر وراثت میں حصہ دار نہیں سمجھی جاتی تھی، اکثر قبائل میں یہ رواج تھا۔ بعض جگہ میں حصہ دار سمجھی جاتی تھی لیکن اکثر قبائل میں یہ تھا کہ اس کو وراثت میں حصہ دار نہیں سمجھا جاتا تھا۔ بعض قبائل میں یہ رواج تھا جو آج کل ہمارے جاگیردارانہ نظام میں بھی ہے کہ بڑا بیٹا ہی وارث ہو گا بس۔ ہندؤوں میں بھی یہی رواج ہے اور بڑی جاگیرداریوں میں آج بھی یہی رواج ہے اور اس حوالے سے وراثت کی بات چلتی ہے۔
عورتوں کا حق مہر و وراثت اور مروجہ کوتاہیاں
یہ بڑا طویل اور پیچیدہ مسئلہ ہے کہ آج بھی ہم اس کی بہت سی کمزوریوں اور قباحتوں کا شکار ہیں۔ انگریزوں کے دور میں علماء کو باقاعدہ یہ مہم چلانی پڑی تھی۔ حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانویؒ اور دوسرے کئی علمائے کرام اس میں شریک تھے۔ اس وقت یہ پوچھا جاتا تھا کہ وراثت شریعت کے مطابق تقسیم ہو گی یا رواج کے مطابق؟ یہ انگریزوں کے زمانے میں تھا۔ پھر ہمارے ہاں بھی بہت دیر تک یہ بات چلتی رہی کہ اس پر خاندانوں کو اختیار ہے کہ شریعت کے مطابق تقسیم ہو یا رواج کے مطابق۔
لطف کی بات یہ ہے کہ پاکستان بننے کے بعد زمینداروں کا اور مزارعین کا ایک اور جھگڑا چلا۔ کیونکہ یہ تصور تھا کہ وراثت جب تقسیم در تقسیم ہو گی تو اس تقسیم سے جاگیر تو ہاتھ سے گئی۔ بالآخر وہ چار چار مرلے ہی رہ جائیں گے۔ اس خوف سے ایک انجمن بنی (انجمن تحفظ حقوق زمینداراں)۔ انجمن میں ہمارے قابل احترام بزرگ نواب زادہ نصر اللہ خان بھی تھے۔ نواب صاحب دینی مزاج کے آدمی تھے، آپ نے بڑا زور لگا کر اس میں یہ لفظ شامل کروایا ’’انجمن تحفظ حقوق زمینداراں تحت الشریعہ‘‘۔ کہ مطلق آزادی نہیں ہے، ہم شریعت کے باغی نہیں ہیں، شریعت کے دائرے میں رہیں گے، بالکل توڑنے بھی نہیں دیں گے بالکل رکھنے بھی نہیں دیں گے، جو شریعت کہے گی وہی کریں گے۔
دیکھیں ہمارے ہاں پہلے زمانے میں بھی تھا بڑی جاگیرداری میں کہ عورت کو وراثت میں حصہ نہ ملے، بعض جگہ اس لیے اس کی شادی قرآن سے کروا دیتے تھے۔ اب تو یہ ختم ہو گیا ہے کہ عورت بڑی ہو گئی ہے اس کی شادی کریں گے تو اسے وراثت میں حصہ دینا پڑے گا اور زمین تقسیم ہو گی۔ اور زمین تقسیم ہونا اور وہ بھی زمیندار کے لیے! توبہ توبہ۔ زمین تقسیم ہوئی تو گویا ماں تقسیم ہو گئی، یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ تو یہ اس زمانے میں رواج تھا اور ہمارے ہاں بھی شور مچتا رہا کہ لڑکی کو آمادہ کرتے تھے کہ قرآن سے شادی کر لے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔
میں نے شادی کا یہ بندھن ایک ویڈیو میں دیکھا ہے۔ اس میں یہ ہوتا تھا کہ ایک اچھا سا گھر بنوا دیا اور اسے ساری سہولتیں مہیا کر دیں، گھر میں باقاعدہ نکاح کی تقریب ہوتی تھی اور اسے دلہن بنا یا جاتا تھا اور قرآن پاک یعنی دولہا کو سجا کر اس کی جھولی میں ڈال دیتے تھے کہ تیری شادی قرآن سے ہو گئی ہے، اب ساری زندگی گھر میں رہنا ہے اور قرآن پاک پڑھنا ہے۔ وہ بے چاری کیا پڑھتی ہو گی، بچی کو وراثت سے محروم کرنے کے لیے ہمارے ہاں یہ بھی چلتا رہا ہے۔
ہمارے ہاں یہ بھی چلتا ہے بلکہ میں تو کہا کرتا ہوں کہ ہمارے پنجاب میں یہ کلچر سا بن گیا ہے کہ بیوی کو مہر نہیں دینا، بیٹی کو وراثت نہیں دینی، بہن کو حصہ نہیں دینا۔ اور نہ دینے کے لیے کئی بہانے تلاش کرتے ہیں کہ جی اس نے معاف کر دیا۔ ایک مرتبہ ایک معاملہ آیا والد محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ کے پاس، میں بھی اتفاق سے پاس بیٹھا ہوا تھا۔ فرمایا، پہلے بتاؤ کہ بچیوں کو حصہ دیا ہے؟ بولے، انھوں نے معاف کر دیا تھا۔ بھائی کیسے کیا؟ معاف کیسے کیا؟ ان کو پہلے دیا تھا پھر معاف کیا؟ بولے، نہیں۔ فرمایا، تمھارے قبضے میں تھا پھر معاف کیا؟ اللہ کے بندے زمین تقسیم کرو، اس کا حصہ متعین کرو، اس کی فرد اس کے حوالے کرو۔ اس کے بعد کہو کہ بہن یہ ہمیں واپس کر دو۔ پھر وہ اگر دے دے تو یہ معافی ہے۔
والد صاحب کی یہ بات مجھے آج بھی یاد ہے۔ یہ ان بہنوں نے ہمیں معاف کر دیا تھا جی! حصہ متعین نہیں ہوا تو کیا معاف کیا، کچھ بھی نہیں۔ یہ ہمارے ہاں رواج بنا ہوا ہے۔ بڑے دلچسپ کیس آتے ہیں۔ اگر دیتے بھی ہیں (یہ معاشرے کی حقیقت بیان کر رہا ہوں) تو بہن کو حصہ دے کر یہ کہتے ہیں ’’اگوں متھے لگنا ای؟‘‘ یعنی آئندہ تعلقات و رشتہ داری رکھنی ہے؟ بڑی خوفناک دھمکی ہے کہ وراثت کا حصہ لو اور زندگی بھر کا ساتھ ختم۔
مجھے پشاور کی ایک محترمہ نے فون کیا کہ میں کالج میں لیکچرار ہوں، والد صاحب فوت ہو چکے ہیں، کافی جائیداد چھوڑی ہے، پشاور کے ایک بازار میں شریعت کے مطابق میرا حصہ تقریباً آٹھ دکانیں بنتی ہیں۔ میں نے بھائیوں سے تقاضا کیا ہے تو انھوں نے کہا کہ حصہ لے لو مگر زندگی بھر کا میل جول ختم، مرنا جینا ختم۔ میں آپ سے مشورہ لینا چاہتی ہوں کہ کیا کروں۔ وہ مجھے حصہ دینے کو تیار ہیں مگر اس شرط پر کہ تعلقات ختم۔ میں نے کہا کہ بیٹی میں کچھ نہیں کہہ سکتا، پشاور کے ماحول کو میں نہیں سمجھتا، میں تمھیں یہ مشورہ بھی نہیں دیتا کہ وراثت چھوڑ دو، اور یہ مشورہ بھی نہیں دے سکتا کہ بھائیوں کو چھوڑ دو۔ اس سوسائٹی میں عورت کا بھائیوں سے محروم ہو جانا وراثت کی محرومی سے بڑی محرومی ہے کہ ’’جی پچھوں کنڈ ای ننگی ہو گئی اے‘‘ (یعنی اب قریبی رشتوں میں سے کوئی خیر خبر لینے والا نہیں) کل خدانخواستہ کچھ ہوا تو اسے کون سنبھالے گا۔ میں نے کہا کہ بیٹا میں آپ کو کوئی مشورہ نہیں دے سکتا، پشاور کے علماء سے رابطہ کرو، وہ وہاں کے ماحول کو سمجھتے ہیں۔
اب اگر کوئی کراچی کے معاشرتی ماحول کا کوئی مسئلہ مجھ سے پوچھے گا تو کراچی کے ماحول سے میں واقف نہیں ہوں، میں گوجرانوالہ کو دیکھ کر فیصلہ کروں گا اور وہاں جھگڑا پڑ جائے گا، ہر ایک کا اپنا اپنا عُرف ہے اپنا تعامل ہے۔ وہاں کے علماء بہتر جانتے ہیں کہ یہاں کونسی بات مناسب ہے اور کونسی نہیں، تو سماجی مسائل میں دور دراز سے فتوے نہیں لینے چاہیں۔ بہرحال میں نے اس کو اس حکمت سے انکار کر دیا۔
وراثت کی اہمیت
جاہلیت کے زمانے میں یہ تھا کہ عورت کو وراثت کا حقدار نہیں سمجھا جاتا تھا، اس کو وراثت نہیں دی جاتی تھی۔ قرآن پاک نے عورت کو وارث قرار دیا اور حصہ بھی متعین کیا۔ یہ واحد مسئلہ ہے جو تفصیل سے بیان ہوا ہے۔ قرآن پاک نے نماز کی رکعتیں بیان نہیں کیں مگر وراثت کے مسئلے گویا پہاڑے پڑھ کر بیان کیے ہیں۔ اس کا چھٹا حصہ ہے، اس کا آٹھواں، اس کا نصف، ثلث، آدھا۔ میں نے محاورے کے طور پر کہا ہے کہ پہاڑے پڑھ پڑھ کر بیان کیے ہیں۔ اتنا تعین قرآن پاک نے کسی مسئلے کا نہیں کیا جتنا وراثت کا کیا ہے۔ نماز کی، حج کی تفصیلات بیان نہیں فرمائیں، دیگر فرائض و واجبات کی تفصیلات قرآن پاک نے متعین نہیں کیں، حضور ﷺ پر چھوڑ دیا، مگر وراثت کے حصے متعین کیے اور بیان کر کے فرمایا:
’’تلک حدود اللہ‘‘ (سورۃ البقرہ: 2، آیت: 187)
(یہ اللہ کی (مقرر کی ہوئی) حدود ہیں۔)
قرآن پاک نے حصے بیان کر کے اس کو حدود کہا ہے۔ فقہی طور پر حدود اللہ کا اطلاق کس پر ہوتا ہے؟ جرائم کی سزاؤں پر۔ جبکہ قرآن پاک نے دو تین جگہوں پر حدود اللہ کا لفظ بولا ہے۔ دونوں جگہوں پر خاندانی نظام کے حوالے سے بولا ہے۔ دوسرے پارے میں طلاق کے مسائل بیان کر کے ’’تلک حدود اللہ‘‘ کہا، اور وراثت کے مسائل بیان کر کے بھی ’’تلک حدود اللہ‘‘ یہ اللہ حدیں ہیں۔
ہمارے ہاں سزاؤں پر جو حدود اللہ کا اطلاق ہوتا ہے یہ جناب خاتم النبیین ﷺ کے ایک ارشاد کی بنیاد پر ہے۔ جب فاطمہ مخزومیہ سے چوری ہوئی تو آپ ﷺ نے ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا تو لوگوں نے حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کو سفارشی بنایا تو آپ ﷺ ہم نے یہ کہہ کر ڈانٹا:
اتشفع فی حد من حدود اللہ؟ (سورۃ البقرہ: 2، آیت: 187)
(اللہ کی حدوں کے بارے میں سفارش کرتے ہو؟)
پھر مسجد میں خطبہ ارشاد فرمایا۔ تو میں عرض کر رہا ہوں کہ قرآن پاک نے وراثت کے مسائل بیان کیے اور حصے متعین کیے۔ بیٹی کا یہ حق ہے، خاوند کا، بیٹی کا، ماں کا، باپ کا یہ حق ہے۔ یہ سارے حقوق اللہ نے متعین کیے ہیں۔ اور جو جاہلیت کا رواج تھا کہ بیٹی وارث ہے یا نہیں، اس کو ملے گا یا نہیں ملے گا۔ عورت کو اللہ رب العزت نے وراثت کا حصہ دلوایا اور وراثت کا مستقل حقدار قرار دیا۔
ہمارے ہاں ایک کیس چلتا رہا، اس وقت وہ رٹ سندھ ہائی کورٹ کے فریزر میں ہے (تفصیل اپنے مقام پر عرض کروں گا ابھی صرف یہ بتا رہا ہوں کہ ہمارے آج کے جھگڑے کیا ہیں) ایک عورت نے دعویٰ دائر کیا کہ میرا بین الاقوامی قانون کے مطابق وراثت میں حصہ برابر بنتا ہے اور میرے بھائی مجھے آدھا دے رہے ہیں۔
للذکر مثل حظ الانثیین (سورۃ النساء: 4، آیت 11)
(مرد کا حصہ دو عورتوں کے برابر ہے۔)
حالانکہ انصاف کا تقاضا یہ ہے (میں بھی اسی باپ کی بیٹی ہوں) اور بین الاقوامی قانون کا تقاضا بھی یہی ہے کہ مجھے برابر ملنا چاہیے۔ تو جسٹس صاحب مصیبت میں پڑ گئے، انھوں نے فیصلہ لکھا کہ تم ٹھیک کہتی ہو تمھارا حصہ برابر بنتا ہے اور بین الاقوامی قانون کا تقاضا بھی یہ ہی ہے کہ تمھیں برابر حصہ ملنا چاہیے۔ جبکہ قرآن پاک میں یہ جو مذکور ہے: ’’للذکر مثل حظ الانثیین‘‘ یہاں علماء مغالطے میں پڑ گئے ہیں، یہ حصے کا بیان نہیں ہے بلکہ کم از کم (minimum) کی حد ہے کہ کم از کم آدھا تو دو، اس سے کم نہیں دینا۔ اور پورے حصے کا بیان اس آیت میں ہے:
ان اللہ یامر بالعدل والاحسان وایتآئ ذی القربیٰ (سورۃ النحل: 16، آیت: 90)
(بے شک اللہ انصاف کا، احسان کا اور رشتہ داروں کو (ان کے حقوق) دینے کا حکم دیتا ہے۔)
کہ انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ اس کو پورا ملنا چاہیے۔ (اندازہ لگائیں کہ فہمِ دین کی سطح کیا ہے۔) تو فیصلہ ہو گیا، سپریم کورٹ میں رٹ ہو گئی، اور جو سالہا سال سے رٹوں والے ڈیپ فریزر (محفوظ شدہ عدالتی فیصلے) میں پڑا ہوا ہے۔ کبھی موقع ملا تو ان شاء اللہ بتاؤں گا کہ ہمارا عدالتی مقدموں والا فریزر کتنا جاندار اور مضبوط ہے کہ بڑی بڑی بلائیں اس میں منجمد پڑی ہوئی ہیں۔
عورت کی جاہلیت کے دور کی جو مظلومیت تھی، ان میں سے چند باتیں میں نے بیان کی ہیں۔ اللہ رب العزت نے عورت کو ظلم کے ماحول سے، جبر سے، محرومی سے نجات دلانے کے لیے اس کی رائے، اس کی عزتِ نفس، اس کے معاشرتی وقار اور حیثیت کو برقرار رکھنے کے لیے قرآن پاک میں کیا کیا اقدامات کیے، ان میں سے پانچ سات کا میں نے ذکر کیا ہے۔ تو آج کی گفتگو یہیں پر سمیٹتے ہیں۔
