ساگر انجیٹی اور کرسٹل بال ’’بریکنگ پوائنٹس‘‘ کے اس پروگرام کے میزبان ہیں جنہوں نے امریکہ اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کی حالیہ نوعیت اور غزہ کے بارے میں اسرائیل کے اصل عزائم کے حوالے سے اپنے تجزیے پیش کیے ہیں۔
اسرائیل کا امریکی تابعدار ریاست ہونے کا تاثر اور نیتن یاہو کا رد عمل
ویڈیو کا آغاز ایک کلپ سے ہوتا ہے جس میں امریکی نائب صدر جے ڈی وینس اور اسرائیلی وزیراعظم ساتھ ساتھ کھڑے ہیں۔ وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو سے ایک سوال پوچھا جاتا ہے کہ ’’کیا اسرائیل امریکہ کی محض تابعدار ریاست (vassal state) یا زیر حفاظت ریاست (protectorate) بنتا جا رہا ہے، جو نہ صرف امریکی مشورے پر عمل کرتا ہے بلکہ امریکی احکامات کی تعمیل بھی کرتا ہے‘‘۔ نیتن یاہو نے اس تاثر کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ایک ہفتہ لوگ کہتے ہیں کہ اسرائیل امریکہ کو کنٹرول کرتا ہے، اور اگلے ہی ہفتے کہتے ہیں کہ امریکہ اسرائیل کو کنٹرول کرتا ہے، لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہے، دونوں ممالک کے درمیان شراکت داری اور اتحادی تعلق ہے جو مشترکہ اقدار اور مشترکہ اہداف پر مبنی ہے۔ اگرچہ کبھی کبھار معمولی اختلافات ہو سکتے ہیں لیکن مجموعی طور پر گزشتہ برس کے دوران دونوں فریقین کے درمیان اہداف اور ان کو حاصل کرنے کے طریقوں پر اتفاق رہا ہے اور وہ کامیابی سے اس میں آگے بڑھ رہے ہیں۔
نائب امریکی صدر کے دورہ کے دوران مغربی کنارے پر اسرائیلی خودمختاری کے بل کی منظوری
تجزیہ کاروں کی گفتگو کا آغاز نائب امریکی صدر جے ڈی وینس کی موجودگی کے دوران ہونے والے ایک بڑے اسرائیلی اقدام کے حوالے سے ہوتا ہے کہ کنیسٹ (اسرائیلی پارلیمنٹ) نے ایک بل کی منظوری دی جس میں مغربی کنارے (west bank) پر اسرائیلی خودمختاری (sovereignty) لاگو کرنے کی بات کی گئی۔ بل میں کہا گیا کہ اسرائیل کے قوانین، عدالتی نظام، انتظامیہ اور خودمختاری کو یہودیہ اور سامریہ (judea and samaria) کے تمام آبادکاری کے علاقوں پر لاگو کیا جائے گا۔ یہ بل 25-24 کے ووٹ سے منظور ہوا تھا۔ اگرچہ تکنیکی طور پر اس کی سرکاری سطح پر فوری عملدرآمد متوقع نہیں تھا لیکن اسے امریکہ کے لیے ایک بڑا سفارتی پیغام سمجھا گیا۔ ساگر نے اسے ’’سفارتی سطح کا سب سے بڑا ایف یو‘‘ قرار دیا جو نیتن یاہو کی حکومت نے امریکہ کو دیا ہے کیونکہ اسی عرصہ کے دوران اسرائیلی حکام سے ملاقاتوں میں امریکی نائب صدر جے ڈی وینس اسرائیل سے جنگ بندی کا ماحول بنانے کی درخواست کر رہے تھے۔
اسرائیل کے حکومتی اراکین کے غیر مصالحانہ بیانات
مکالمے میں اسرائیلی حکومت کے اندر موجود بنیادی حرکیات پر بھی روشنی ڈالی گئی، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ جنگ بندی یا فلسطینی ریاست کے حق میں نہیں ہیں۔ حکومت کے دو اہم ارکان سموٹریچ اور بن گویر کے بیانات کا حوالہ دیا گیا۔ وزیرِ خزانہ سموٹریچ نے سعودی عرب کو براہ راست مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اگر وہ معمول کے تعلقات کے بدلے فلسطینی ریاست کا مطالبہ کرتے ہیں تو اسرائیل کہے گا: ’’…تم سعودی صحرا میں اونٹ پر سواری جاری رکھ سکتے ہو‘‘۔
ساگر اور کرسٹل دونوں اس بات پر متفق تھے کہ یہ بیان ان عرب ممالک کے لیے توہین آمیز ہے جن کے دستوں کو غزہ میں گشت کرنا ہے اور جن کے پیسوں سے تعمیر نو ہونی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ امریکہ ایک خواب جیسی حالت میں ہے جو یہ سمجھ رہا ہے کہ اسرائیلی حکومت واقعی جنگ بندی چاہتی ہے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ بالکل بھی جنگ بندی نہیں چاہتے۔ تجزیہ کاروں نے امریکی سیاستدانوں کی نمائشی سیاست پر تنقید کی جو نیتن یاہو اور ان کی حکومت کو کچھ اور دکھانے کی کوشش کرتے ہیں، حالانکہ وہ کھلے عام کہہ رہے ہیں کہ وہ غزہ کو فلسطینیوں کے حوالے کبھی نہیں کریں گے بلکہ وہاں بستیاں بنائیں گے اور فلسطینیوں کو نکال دیں گے۔
جے ڈی وینس کا رد عمل اور مغربی کنارے کے متعلق موقف
جے ڈی وینس نے اسرائیل سے رخصت ہونے سے پہلے کنیسٹ کے ووٹ پر ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس سے ناخوش تھے، اور اگر یہ پولیٹیکل سٹنٹ تھا تو بے وقوفانہ تھا۔ انہوں نے کہا کہ ہم اسرائیل کو مغربی کنارے پر قبضہ کرنے کی اجازت نہیں دیں گے اور ہم اس بل سے خوش نہیں ہیں۔
تاہم کرسٹل نے نشاندہی کی کہ حقیقت میں یکطرفہ قبضہ (de facto annexation) ہو چکا ہے، اور بڑے پیمانے پر بستیوں کی تعمیر (mass settlements) ہو چکی ہے، جس نے دو ریاستی حل (two-state solution) کے امکان کو بنیادی طور پر ختم کر دیا ہے۔ یہاں تک کہ اسرائیل نے مغربی کنارے کے لیے ’’ویسٹ بینک‘‘ کی اصطلاح کو بھی ترک کر کے ’’یہودیہ اور سامریہ‘‘ کی بائبل کی اصطلاح استعمال کرنا شروع کر دی ہے تاکہ اس علاقے پر اپنی خودمختاری کو مزید مضبوط کیا جا سکے۔ مغربی کنارے میں فلسطینیوں کی روزمرہ زندگی مکمل طور پر اسرائیلیوں کے کنٹرول میں ہے، چاہے بظاہر کچھ علاقے فلسطینی اتھارٹی کے زیر کنٹرول ہی کیوں نہ ہوں۔
غزہ کے لیے امریکی منصوبہ مغربی کنارے جیسا ہے
کرسٹل نے وال سٹریٹ جرنل کی ایک رپورٹ پیش کی جس کے مطابق امریکہ کا فیز 2 منصوبہ دراصل غزہ کو ایک نئے مغربی کنارہ میں بدلنے کی کوشش معلوم ہوتا ہے۔
-
امریکی منصوبہ غزہ کو دو حصوں میں تقسیم کرتا ہے: ایک اسرائیل کے زیر کنٹرول علاقہ، اور دوسرا حماس کے زیر کنٹرول علاقہ۔
-
جیرڈ کشنر نے اسرائیلی زیر کنٹرول نصف کو دوبارہ تعمیر کرنے کا منصوبہ پیش کیا، جو حماس کے غیر مسلح ہونے تک جاری رہے گا۔
-
اس وقت اسرائیل غزہ کی پٹی کے 53% پر قابض ہے، اور کسی بھی فلسطینی کے غیر واضح ’’ییلو لائن‘‘ کے قریب جانے پر انہیں گولی مار دی جاتی ہے۔
-
اس منصوبے کے تحت اسرائیل اپنے زیر قبضہ علاقے کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا چاہتا ہے تاکہ وہاں تعمیر نو شروع ہو، اور پھر حماس پر دباؤ ڈالا جائے کہ وہ ہتھیار ڈال دے، کیونکہ فلسطینی دوبارہ تعمیر شدہ علاقوں میں رہنا چاہیں گے۔
تجزیہ کاروں نے یہ بھی بتایا کہ یہ ’’ماسٹر پلان‘‘ دو سال سے تیار کیا جا رہا ہے، جیسا کہ وِٹکوف (Steve Witkoff) نے ایک انٹرویو میں بتایا۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ حالیہ جنگ کے نتیجے میں نہیں بلکہ ایک پہلے سے موجود منصوبہ ہے۔ ان تمام عوامل کے پیش نظر اس منصوبہ بندی کو سنجیدگی سے لینا مشکل ہے کیونکہ اسرائیلی حکومت کی طرف سے کسی حقیقی امن کی خواہش نظر نہیں آتی۔
اس کے بعد تجزیہ کاروں نے اس پر گفتگو کی کہ اسرائیل اپنے زیر قبضہ علاقوں میں کس طرح کا ماحول چاہتا ہے اور اب مغربی کنارہ کی طرح غزہ میں بھی اسرائیل اپنا من مرضی کا ماحول قائم کرنا چاہتا ہے جس میں فلسطینیوں کی زندگی کے حوالے سے ہر طرح کا کنٹرول اسرائیل کے پاس ہو۔
بحران سے نکلنے کا راستہ: ایک ریاستی حل؟
کرسٹل نے یہ نکتہ اٹھایا کہ چونکہ اسرائیل عملی طور پر مغربی کنارے پر قبضہ کر چکا ہے، اس لیے بہت سے لوگ اب دو ریاستی حل سے ہٹ کر ایک ریاستی حل (one-state solution) کی طرف مائل ہو رہے ہیں، یعنی اگر اسرائیل سب کچھ ضم کرنا چاہتا ہے تو اسے تمام لوگوں کو شہری حقوق (citizenship rights) دینے ہوں گے۔ تاہم اسرائیلی سیاستدانوں اور شدت پسند عناصر کے لیے یہ آبادیاتی خطرہ (demographic threat) ہونے کی وجہ سے قطعی طور پر ناقابل قبول ہو گا کیونکہ فلسطینیوں کو حقوق دینے سے اسرائیل کی آبادیاتی اور سیاسی حقیقت بدل جائے گی۔ تجزیہ کار کے مطابق اسی لیےنسل کشی (genocide)، نسلی صفائی (ethnic cleansing)، اور قبضے (occupation) کی یہ پوری مہم چلائی جا رہی ہے کہ اسرائیلی کسی بھی صورت میں فلسطینیوں کو اپنے سیاسی نظام میں کوئی کردار ادا کرنے کی اجازت نہیں دینا چاہتے۔
امریکی انتظامیہ کا غیر یقینی طرز عمل
ساگر نے امریکی سیاست کی غیر مستقل مزاجی (inconsistency) اور عدمِ توجہی (lack of focus) پر تشویش کا اظہار کیا۔ تجزیہ کار کا کہنا ہے کہ نائب صدر، امریکی ایلچی، اور صدر کے داماد کو مسلسل اسرائیل میں موجود رہنا پڑ رہا ہے تاکہ جنگ بندی کو اس طریقے سے برقرار رکھا جا سکے۔ اس کے علاوہ امریکی انٹیلی جنس کمیونٹی کو ہر دھماکے کی نگرانی کرنی پڑ رہی ہے تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ دوبارہ جنگ کے لیے اسرائیلی جھوٹ نہیں بول رہے ہیں۔ جبکہ یوکرین کے ساتھ امریکی انتظامیہ کی طرف سے کیے گئے متضاد معاملات کا ذکر کرتے ہوئے ساگر نے بتایا کہ خود امریکی انتظامیہ کا طرزعمل بھی غیر یقینی اور ناقابل بھروسہ ہے، کسی وقت کچھ بھی توقع کی جا سکتی ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق اسرائیل جانتا ہے کہ وہ کیا چاہتا ہے، جبکہ امریکی صدر نہیں جانتے کہ وہ کیا چاہتے ہیں، کیونکہ صدر اپنی وائٹ ہاؤس کی تزئین و آرائش اور ذاتی منصوبوں میں مگن ہیں۔ اس کے علاوہ امریکی انتظامیہ یوکرین اور وینزویلا کے معاملات میں بھی ملوث ہے اور یوں لگتا ہے کہ وہ ہر طرف پوری توجہ نہیں دے پائے گی اور یہ صورتحال بھی اسرائیلی عزائم کے حوالے سے تشویشناک ہے۔
