اسلامی ثقافت و تہذیب اسلامی معاشرت کے وہ جزو لاینفک ہیں جو عالم انسانیت میں انسانی فطرت و طبیعت کے تقاضوں کے حسین امتزاج ہیں۔ جہاں بھر میں اس وقت کئی تہذیبیں متعارف و آباد ہیں جو بزعم خود ترقی یافتہ ہیں۔ لیکن ان کی ظاہری ترقی و ترویج کے باوجود ان میں ایسے مہلک عناصر موجود ہیں جو نہ صرف اطراف عالم میں ان کی بدنامی کا سبب بنتے ہیں بلکہ انہی بنیادوں پر یہ نام نہاد تہذیبیں انسانی فطرت و جبلت کے بھی خلاف ہیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ ان تہذیبوں کے سکان و علم بردار شعوری یا لا شعوری طور پر ان عناصر کا شکار ہونے کی وجہ سے فطرت انسانی کی مخالف سمت پر رواں رہتے ہیں اور وہ اس بے راہ روی کو دورِ جدید کا تقاضہ قرار دیتے ہیں۔
مغربی تہذیب اس وقت اپنے غلبے اور عروج کے زمزے گا رہی ہے لیکن یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ ان کی تہذیب انسانی فطرت کا امتزاج نہیں بلکہ انسانی خواہشات کا شاہکار ہے۔ وہاں مذہب و خدا پرستی سے بے زار نفس پرستی کے وہ چوراہے موجود ہیں جہاں سے مرد و زن اپنی خواہشات کے طبلے بجاتے ہوئے انسانی معاشرت میں چاروں اوڑ پھیلتے جاتے ہیں اور وہاں مذہب پسندوں کی آزادانہ خدا پرستی کو سامان طنز و مزاح بنایا جاتا ہے۔
اگر ہندو تہذیب پر نظر ڈالی جائے تو وہاں خدائے برتر و بالا کے سوا متعدد معبودانِ باطلہ کی پرستش کے رواج پر مذہبی لیبل چسپاں ہے اور بدعات و خرافات کی وہ شاہراہیں متعارف ہیں جن کی وسعتیں فطرت انسانی کی مخالف سمت پر دور تک پھیلی ہوئی ہیں۔ ذات پات کے نظام نے اتحاد انسانیت کا شیرازہ بکھر کے اسے مختلف ذاتوں میں تقسیم کیا ہوا ہے۔
یہودی تہذیب تو مظلوم انسانیت کے خون سے سینچی ہوئی وہ تہذیب ہے جس کے بارے میں تاریخ انسانیت کی شہادت یہ ہے کہ اس تہذیب نے مذہبی انتہاء پسندی اور قومیت پرستی کے لیے انسانیت کو تہہ تیغ کیا ہے۔ جناب موسیٰ و عزیز علیہم السلام کے نظریہ توحید سے یوں انحراف کیا کہ اپنے پیشواؤں کو ہی ابنیت خدا کا درجہ دے دیا جو حقیقت میں ان کی تعظیم نہیں بلکہ مذہبی لبادے میں بدترین توہین ہے۔
اور پھر عیسائی تہذیب بھی اپنی اخوات تہذیبوں سے پیچھے نہ رہ سکی۔ اس نے بھی نسل پرستی کا وہ بازار گرم کیا جو خود ان کے لیے مہلک ثابت ہوا۔ الف ثانی کے اواخر میں نوآبادیاتی نظاموں کے قیام کے دوران دیگر ادیان و اقوام پر ظلم و تعدی پر مبنی قائم کردہ تسلط بھی تاریخ کا سیاہ ترین باب ہے۔ عبادت گاہوں اور کلیساؤں میں نفس پرستی کا مداوا ملنا اور مذہبی پیشواؤں کی خدا کاریوں میں مداخلت بھی کسی سے مخفی نہیں۔
دوسری جانب تہذیب اسلام کا جائزہ لیجیے جہاں اگرچہ فرقہ واریت کا عنصر بظاہر ایک مہلک عنصر ہے لیکن وہیں یہ بات بھی مخفی نہیں کہ اس فرقہ واریت کی اصولیات متحد ہیں اور انہی متحدہ اصولیات اور حقائق تک پہنچنے کے لیے ان کی تعبیر و تشریح میں مختلف شخصیات و گروہوں کا باہمی اختلاف پیدا ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ اسے ”اختلاف العلماء رحمۃ“ کہا گیا اور اختلاف کا یہ رخ ہر دور میں ممدوح رہا ہے اور فطرت انسانی اس کی متقاضی بھی ہے۔ اور یہی اختلاف اتباع مذہبیت کی دلیل بھی ہے کہ ایک شخص دوسرے سے بڑھ کر مذہب کا پیروکار بننا چاہتا ہے۔ ہاں! یہ بات بجا ہے کہ فروعی اختلافات کو رواج دے کر انہیں مذہبیت کا درجہ دینا غلط ہے۔ ماسوائے اس عنصر کے اسلامی تہذیب میں اسلامی اصولوں اور تعلیم و تربیت کا رواج اس کی امتیازیت کو دوبالا کرتا ہے۔
یہاں فن و ثقافت اور فقہ و شریعت بھی حیات انسانی کو صحیح نہج پر گزارنے کے لیے بنیادی رہنمائی فراہم کرتی ہیں۔ اور اسلام کا امتیازی نظام عدالت و معیشت بھی اسلامی تہذیب کے وہ عناصر ہیں جنہوں نے امیر و غریب، حکمران و گداگر کی تفریق کو ختم کر کے انسانیت کو ایک ہی قالب میں یکجان ہونے کا تصور دیا۔ اور اسی پر مزید اتفاق و اتحاد کا تصور اسلامی تہذیب کا وہ عظیم عنصر ہے جس نے انسانیت کی انفرادیت کا لحاظ رکھنے کے ساتھ ساتھ اجتماعیت کے فروغ کی وہ مثالیں پیش کیں جو کوئی اور تہذیب نہ کر سکی۔ اس کی بنیاد ”انما المؤمنون اخوۃ“ اور "المسلم أخ المسلم" جیسے عظیم ارشادات ربانی و پیغمبری ہیں اور اس کا نتیجہ ہے ؎
ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز
نہ کوئی بندہ رہا اور نہ کوئی بندہ نواز
یہاں خواتین کو مختلف حیثیتوں کے ساتھ وہ حقوق مہیا کیے گئے جو تاریخ عالم میں آج تک کہیں مہیا نہ ہوئے۔ جنہوں نے عورت کو سامانِ تلذذ و خواہش قرار دینے کے بجائے کہیں ثقف جنت درجہ دیا تو کہیں اس کی پرورش باپ کے لیے ذریعہ نجات ٹھہری اور کہیں اس کا تعاون و اشتراک ایک مرد کے کامیابیوں کا راز بنا اور اسے جنتی حوروں کی سربراہی کا مقام ملا۔

