فاطمہ بھٹو ایک دانشور اور سماجی راہنما کے طور پر معروف ہیں جنہوں نے پاکستان اور خطے کو درپیش مسائل کے حوالے سے متعدد مواقف اختیار کیے ہیں۔ ان کا تعلق بھٹو سیاسی خاندان سے ہے۔ وہ میر مرتضیٰ بھٹو کی صاحبزادی اور ذوالفقار علی بھٹو کی پوتی ہیں، جبکہ بے نظیر بھٹو ان کی پھوپھی تھیں۔ سیاسی وراثت کے باوجود فاطمہ بھٹو نے خود کو سیاست سے دور رکھا اور زیادہ تر ادب، انسانی حقوق اور عالمی انصاف کے موضوعات پر اپنی تحریروں اور خطابات کے ذریعے اظہارِ خیال کیا۔ وہ بین الاقوامی میڈیا میں پاکستان کی سماجی و سیاسی صورتحال، بالخصوص خواتین کے حقوق، جمہوریت، اور مشرقِ وسطیٰ کے انسانی بحرانوں پر اپنی جرأتمندانہ آراء کے حوالے سے جانی جاتی ہیں۔ چنانچہ مسئلہ فلسطین کو وہ محض ایک جغرافیائی یا سیاسی کشمکش نہیں بلکہ انسانی، اخلاقی اور تاریخی اعتبار سے دیکھتی ہیں۔
فلسطین ایک ریاست ہے
فاطمہ بھٹو کا فلسطین کے بارے میں ایک واضح موقف ہے اور یہ وہی موقف ہے جو قائد اعظم محمد علی جناح نے پیش کیا تھا کہ ہم اسرائیلی ریاست کو کبھی تسلیم نہیں کریں گے:
“All of Palestine is occupied territory. Stop talking about the genocide-defending Europe ‘recognizing a Palestinian state’.”
’’پورا فلسطین ایک مقبوضہ علاقہ ہے‘‘ کا جملہ ان کے پورے نظریے کا نچوڑ ہے، اس طرح وہ یہ مانتی ہیں کہ انصاف کو جزوی نہیں ہونا چاہیے اور فلسطینی عوام کا حق صرف چند سرحدوں یا کاغذی معاہدوں سے پورا نہیں ہوتا بلکہ یہ ایک مکمل قوم کی آزادی سے وابستہ ہے۔ جبکہ ٹویٹ کے دوسرے حصے میں وہ یورپ پر تنقید کر رہی ہیں جو فلسطینیوں کی نسل کشی کو ہر طرح کی امداد کے ذریعے سپورٹ کرتا آرہا ہے اور اب عوامی دباؤ میں آ کر فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کی بات کر رہا ہے۔
دو ریاستی حل دھوکہ ہے
دو ریاستی حل کے بارے میں ان کا مؤقف غیر مبہم ہے اور وہ اسے ایک ناکام تصور قرار دیتی ہیں جو کہ مسئلے کی اصل بنیادوں کو نظر انداز کرتا ہے:
“2 state solution? That was never a possibility. Palestine is the home of Palestinians.”
اس ٹویٹ کا پہلا جملہ ’’دو ریاستی حل؟ اس کا کبھی امکان نہیں رہا‘‘ ان کے اس موقف کو واضح کرتا ہے کہ دو ریاستی حل پر عملدرآمد کبھی ممکن نہیں رہا۔ اور اس ۱۹۴۷ء میں سامنے آنے والے اقوامِ متحدہ کے اس دو ریاستی حل (قرارداد نمبر ۱۸۱) پر ابھی تک عملدرآمد نہ ہو پانا اور کسی فلسطینی ریاست کا وجود نہ ہونا فاطمہ بھٹو کے اس دعوے کی دلیل سمجھی جا سکتی ہے۔ جبکہ اس ٹویٹ کا دوسرا جملہ ’’فلسطین فلسطینیوں کا گھر ہے‘‘ یہ بتاتا ہے کہ اگر دو ریاستی حل پر عملدرآمد ممکن بھی ہو تب بھی یہ ناانصافی پر مبنی ہے اور فلسطین کے علاقے پر زبردستی اسرائیل ریاست قائم کرنا ظلم اور جبر کے سوا کچھ اور نہیں کہلا سکتا کیونکہ فلسطین کی سرزمین پر حکومت صرف فلسطینیوں کا حق ہے۔
پاکستان کے بدلتے موقف پر تنقید
پاکستان کے ایک وفاقی عہدیدار کی ٹویٹ پر تنقید کرتے ہوئے انہوں نے کہا:
“This is a shameful tweet for Pakistan. 2 state solution? That was never a possibility …”
دنیا کی بدلتی ہوئی صورتحال اور ’’سیاسی لین دین‘‘ کے ماحول میں ممکنہ طور پر پاکستان کے بدلتے ہوئے موقف پر انہوں نے اپنے ردعمل کا اظہار کیا ہے اور ایک طرح سے حکومت کو پاکستان کے دیرینہ موقف سے انحراف پر شرم دلائی ہے کہ اگر پاکستان بین الاقوامی حالات سے متاثر ہو کر دو ریاستی حل قبول کرتا ہے تو اس کا واضح مطلب اسرائیلی ریاست کو تسلیم کرنا ہو گا جو کہ پاکستان کے لیے شرمناک بات ہو گی۔ فاطمہ بھٹو کی نظر میں دو ریاستیں اس مسئلے کا حقیقی حل نہیں ہے اور وہ اس منصوبے کو تاریخی اور عملی طور پر ناقابل عمل قرار دیتی ہیں اور اس کے بجائے اس پر زور دیتی ہیں کہ فلسطین کا حقِ ملکیت فلسطینی لوگوں کا ہے۔
فلسطینی احتجاج پر لگنے والی پابندیوں پر تبصرہ
وہ مغربی حکومتوں تنقید کرتی ہیں جو اپنے ممالک میں فلسطینیوں کے حق میں ہونے والے مظاہروں اور احتجاجی ریلیوں پر پابندیوں کے لیے مختلف حربے استعمال کرتے ہیں۔ ایک ٹویٹ میں انہوں نے فرانس کے صدر میکرون پر تنقید کرتے ہوئے کہا:
“This tweet is actual satire when Macron has banned Palestinian protests in France and supported Israel’s genocide against Palestine.”
یہ جملہ سیاسی طنز ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اخلاقی احتجاج بھی ہے جو عالمی طاقتوں کے اس دوہرے معیار کو بے نقاب کرتا ہے جو آزادیٔ اظہار اور انسانی حقوق کے نعرے تو لگاتی ہیں مگر جب بات فلسطین کی آتی ہے تو خاموش ہو جاتی ہیں۔
فاطمہ بھٹو فلسطین کے مسئلے کو ایسے انسانی المیے کے طور پر بیان کرتی ہیں جس میں ظلم و جبر اور جلاوطنی کے ساتھ ساتھ حق تلفی کا پہلو بہت نمایاں ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ جب ظلم کے سامنے خاموشی اختیار کی جاتی ہے تو وہ دراصل ظلم کی پرورش بن جاتی ہے۔ چنانچہ وہ عالمی میڈیا اور سوشل پلیٹ فارمز کے کردار پر بھی سوال اٹھاتے ہوئے کہتی ہیں:
“Meta is censoring anyone who posts on Palestine — I’m seeing it on my feed.”
یہ جملہ سوشل میڈیا کی اس یکطرفہ روش کی طرف اشارہ کرتا ہے جس میں فلسطینی مظلوموں کی آواز دبانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ فاطمہ بھٹو کے نزدیک یہ محض سیاسی مداخلت نہیں بلکہ ایک فکری سنسرشپ ہے جو حقائق کو چھپانے کے مترادف ہے۔ اس ٹویٹ کے مطابق وہ اپنے اکاؤنٹ کی فیڈ کی صورتحال دیکھ کر یہ جان چکی ہیں کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر فلسطین کے حوالے سے بات کرنے والوں کو کیسی پابندیوں کا سامنا ہے۔ چنانچہ وہ مغربی لابیوں اور حکومتوں کے ساتھ ساتھ میڈیا اور ٹیکنالوجی کی طاقت اور اس کے استعمال پر بھی سوال اٹھا رہی ہیں۔
فلسطینی عوام کو خراجِ تحسین
ایک موقع پر وہ فلسطینی عوام کے عزم کو سراہتے ہوئے لکھتی ہیں:
“Palestine can never be surrendered. No matter how many craven governments back their terrorist oppressors, the people will never betray.”
فلسطینیوں کی حمایت میں جذبے سے لبریز ان الفاظ میں وہ اس بات کو ایک حقیقت کے طور پر تسلیم کرتی ہیں کہ حکومتیں بزدلی یا مفاد پرستی کے باعث دباؤ میں آ سکتی ہیں مگر عوام کے دلوں میں جو مزاحمت اور ایمان ہے اسے کوئی طاقت شکست نہیں دے سکتی۔
“Palestine can never be surrendered. No matter how many craven governments back their terrorist oppressors, the people will never betray …”
یہ ٹویٹ ایک عزم کا اظہار ہے کہ فلسطین کا مسئلہ صرف علاقائی جنگ یا سیاسی ڈیل نہیں بلکہ عوامی جدوجہد ہے اور معاشرتی سطح پر سب سے اہم موقف فلسطینی عوام کا بیانیہ ہے۔ فاطمہ بھٹو نے ’’بزدل حکومتیں‘‘ کہہ کر ان ریاستوں پر تنقید کی ہے جو طاقتور اتحادات اور معاشی منصوبوں کا حصہ بن کر مسئلہ فلسطین کو نظرانداز کرتی ہیں اور یوں وہ دہشت گرد غاصبوں کی پشت پناہی کا باعث بنتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کچھ بھی ہو فلسطینی عوام کبھی اپنے حق سے دستبردار ہوں گے چاہے عالمی طاقتیں مفاد پرستی اور مصلحت کوشی میں اس مسئلے کو کتنا ہی نظرانداز کر لیں۔
تین بنیادی مواقف
فاطمہ بھٹو کی مذکورہ بالا ٹویٹس کی روشنی میں فلسطین کے بارے میں ان کا موقف دوٹوک ہے کہ مسئلہ فلسطین محض سرحدی تنازعہ نہیں ہے بلکہ غاصبانہ قبضہ کے مقابلے میں حق خودارادیت کا معاملہ ہے۔ فاطمہ بھٹو کے بیانات میں تین واضح پہلو ابھر کر سامنے آتے ہیں:
- فلسطین ایک ریاست ہے جس کی آزادی کے لیے جاری جدوجہد کو کسی سفارتی معاہدے کے تابع نہیں کیا جا سکتا۔
- ’’دو ریاستی حل‘‘ ایک سیاسی نعرہ ہے جو اصل مسئلہ یعنی غصب اور ظلم کی حقیقت کو چھپاتا ہے۔
- میڈیا، عالمی ادارے اور طاقتور ممالک اکثر اس مسئلے کی سچائی کو دبانے کے لیے خاموشی اختیار کرتے ہیں یا کنٹرول شدہ بیانیہ استعمال کرتے ہیں۔
