السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
تمام اہلِ پاکستان، مرد عورت، چھوٹے بڑے، شہری دیہاتی، سب کے لیے میرا محبت بھرا سلام ہے اور ان حالات میں ڈھیروں دعائیں ہیں، اللہ ہماری حفاظت فرمائے (آمین)۔
اللہ نے ہمیں دینِ اسلام دیا ہے جس کا نام ہی سلامتی ہے۔ اور ہمارے عقیدے کا نام ایمان ہے جو امن سے ہے۔ اور میں بخاری شریف کی ایک حدیث آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں۔ میرے نبیؐ نے ہمیں کیا فرمایا؟ ہمارے بارے میں دنیا کے میڈیا نے مشہور کر دیا ہے یہ دہشت گرد ہیں۔ کوئی کرتا ہے تو وہ، وہ نہیں کر رہا جو میرے نبیؐ نے فرمایا۔ بخاری شریف کی روایت ہے ۲۹۶۵ اور ۲۹۶۶۔
اللہ تعالیٰ کے رسول ’’قام فی الناس خطیبا‘‘ آپؐ لوگوں میں کھڑے ہوئے تقریر کرنے کے لیے اور فرمایا: ’’ايھا الناس لا تتمنوا لقاء العدو‘‘ لوگو! جنگ کی تمنا مت کرو اور لڑنے کی تمنا مت کرو، یعنی پہل نہ کرو۔ ’’وسلوا اللہ العافیۃ‘‘ اللہ سے عافیت مانگو۔ ’’فاذا لقیتموھم‘‘ لیکن اگر وہ چڑھ آئیں، جیسے ہندوستان ہمارے اوپر چڑھ دوڑا، ایک غلط مفروضے پر، پہلگام کو بہانہ بنا کر، بغیر تحقیق کے اس نے حملے کیے، عام لوگ شہید ہوئے، مرد، عورت، بچے۔ تو آپؐ نے فرمایا ’’فاذا لقیتموھم‘‘ اور پھر جب ٹکر ہو جائے تو ’’فاصبروا‘‘ پھر صبر کرو۔ اور جان لو کہ ’’ان الجنۃ تحت ضلال السیوف‘‘ جنت تلواروں کی چھاؤں میں ہے۔
تو مسلمان پہل نہیں کرتے، جو ہمیں تعلیم دی گئی ہے۔ اور پھر اس کے بعد جنگ کیسے کرنی ہے، صرف ہمارے نبی نے بتایا ہے۔ اور کسی کے پاس اصول کوئی نہیں ہے۔ میرے نبیؐ نے فرمایا: درخت نہیں کاٹنے، فصلوں کو نہیں جلانا، عورتوں کو قتل نہیں کرنا، بچوں کو قتل نہیں کرنا، عام شہریوں کو قتل نہیں کرنا، بوڑھوں کو قتل نہیں کرنا۔ مندر، کلیسا، گرجا، گوردوارہ نہیں گرانا۔ اور مندر کے پجاری، کلیسا کے پادری، گوردوارے کے گیانی، ان پر ہاتھ نہیں اٹھانا۔ یہ اصول کسی نبی نے نہیں بتائے (یعنی روایات میں اس کا تذکرہ نہیں ملتا)، ہمارے نبی نے ہمیں یہ اصول بتائے۔
اُحد کی جنگ میں حضرت ابو دجانہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ دشمن کو چیرتے ہوئے پیچھے پہنچے ان کے تو عورتیں کھڑی تھیں، وہ ان کو دیکھ کر بھاگیں، لیکن ہندہ ڈر کے مارے بھاگ نہ سکیں، تو ایسے اس کے سر پر تلوار رکھی، اس نے چیخ ماری، آپ نے تلوار پیچھے ہٹا لی۔ پیچھے ایک اور ساتھی ان کے ساتھ تھے، کہنے لگے قتل کیوں نہیں کیا؟ کہنے لگے، میرے نبی کی تلوار ہے، عورت کے خون سے گندا (آلود) نہیں کروں گا۔ ہمیں تو جنگ بھی کرنے کا طریقہ بتایا گیا ہے۔ ’’ان جنحوا للسلم فاجنح لہا‘‘ اگر وہ صلح کی پیشکش کریں فوراً صلح کر لو۔ چونکہ قتل و غارت اسلام کا عنوان ہی نہیں ہے۔
جو مسلمان بادشاہوں نے کیا، وہ بادشاہ تھے، بادشاہوں کا مذہب حکومت ہوتی ہے، وہ چاہے ہندو ہو، چاہے وہ سکھ ہو، چاہے وہ عیسائی ہوں۔ یہ جو پہلی اور دوسری جنگِ عظیم ہوئی، کوئی مسلمان تھے آپس میں؟ دونوں طرف عیسائی تھے۔ پہلی جنگ میں دو کروڑ مارے گئے، دوسری جنگ میں آٹھ کروڑ مارے گئے۔ اور مرہٹوں نے پورے ہندوستان کا ستر فیصد فتح کیا، ان کی تلوار مسلم غیر مسلم میں تمیز نہیں کرتی تھی، سب کی گردنیں اڑاتے تھے وہ۔ اس لیے جب ان کو پانی پت کی لڑائی میں شکست ہوئی تو پانی پت کی عوام ہندو، عورتیں، مرد، مسلم لاٹھیاں اور تلواریں لے کر ان کے پیچھے بھاگے تھے ان کو قتل کرنے کے لیے۔
صرف اسلام ہمیں یہ سبق سکھاتا ہے، کوئی اس پر عمل نہ کرے تو وہ کوئی دلیل نہیں ہے۔ میں نے آپ کو بخاری شریف سے، جو ہماری قرآن کے بعد سب سے آتھنٹک کتاب ہے، اس سے میں نے حوالہ دیا ہے کہ میرے نبیؐ نے فرمایا، ہم لڑنا نہیں چاہتے، ہمارا مقصد لڑائی نہیں ہے، ہمارا مقصد ہے تم کلمہ پڑھ لو، ایمان لے آؤ، مسلمان ہو جاؤ، ایک رب پر ایمان لے آؤ۔ تینتیس کروڑ دیوی دیوتا، یہ بھی کوئی عقل میں آنے والی بات ہے؟ تو خیر میں مذہب کی طرف نہیں جاتا۔
میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہمارے کچھ لیڈر کہہ رہے ہیں کہ انہوں نے ہماری مسجدیں گرائیں، تم کے مندر گراؤ۔ نہیں، میں یہ ہرگز نہیں کہوں گا۔ میں اپنی فوج سے اپیل کروں گا، کسی مندر کو مت گرائیں۔ انہوں نے ہماری عوام پہ حملہ کیا، چھبیس مرد، عورت، بچے شہید ہوئے ہیں۔ میں ہرگز نہیں کہوں گا کہ افواجِ پاکستان عام شہریوں پر حملہ کریں، عام شہریوں کو قتل کریں۔ ہاں، جو سامنے آئے، وہ ہماری جان لینا چاہتا ہے، تو ہم اس کی جان لیں گے۔ ہم عام شہریوں پر ہاتھ نہیں اٹھاتے، بوڑھوں پر ہاتھ نہیں اٹھاتے، عورتوں پر، بچوں پر ہاتھ نہیں اٹھاتے۔ پادریوں پر، پجاریوں پر، گیانیوں پر ہم ہاتھ نہیں اٹھاتے۔ کسی مندر، گرجا، گوردوارے کو چھیڑنے کا ہمیں حکم نہیں ہے۔ یہ اسلام کا پیغام ہے۔
اور اللہ کے فضل سے ہماری شکست بھی ہماری جیت ہے، اور جیت بھی جیت ہے۔ چونکہ ایمان والا جب قتل ہوتا ہے جنت میں جاتا ہے۔ اور اللہ کو نہ ماننے والا، کروڑوں دیویوں کو ماننے والا، جب وہ قتل ہوتا ہے تو وہ نرک میں جاتا ہے، اس نے اللہ کو پہچانا ہی نہیں ہے۔ امام حسین علیہ السلام ہمارے بہت، میرے پاس الفاظ ہی کوئی نہیں ہیں، وہ اپنے بہتر ساتھیوں سمیت شہید ہو گئے، شکست ہو گئی، یزید کامیاب ہو گیا۔ لیکن اللہ کی قسم، کامیاب حسین ہیں اور ناکام یزید ہے۔ زندگی موت تو ہمارا مسئلہ ہی نہیں ہے۔ ہم تو اللہ کے لیے لڑتے ہیں، اللہ کے لیے مرتے ہیں، اللہ کے لیے جیتے ہیں۔
ایک جنگ میں لڑائی ہو رہی تھی، ایک طرف خالد بن ولیدؓ تھے، ایک طرف دوسرا عربوں کا کفار کا لشکر تھا۔ تو کفار کے سردار نے پوچھا، کیا بات ہے، ہم زیادہ بھی ہیں، وہ تھوڑے بھی ہیں، لیکن وہ ہمارے اوپر چڑھائی کرتے چلے جا رہے ہیں۔ تو ان کے سالار نے کہا، ان میں سے ہر آدمی یہ چاہتا ہے میں پہلے مر جاؤں دوسرا بعد میں مرے۔ ہم میں سے ہر ایک یہ چاہتا ہے کہ یہ پہلے مرے میں بعد میں مروں۔
اور میں نے ایسے ہی چھوٹا سا کلپ سنا، میں عام طور پر سنتا نہیں ہوں، کہ ان کے گھروں میں لاشیں بھیجو تاکہ ان کے گھروں میں بھی چیخ و پکار مچے۔ اللہ کے بندو! ہمارے گھروں میں جب شہید کی لاش آتی ہے تو دیگیں چڑھائی جاتی ہیں، جشن منائے جاتے ہیں، پورے گاؤں والے آ کر مبارک دیتے ہیں، تم شہید کی ماں ہو، شہید کی بیوی ہو، شہید کے بچے ہو۔ یہ حال دہائی تو تمہارے ہاں پڑتی ہے، کیونکہ تمہارے سامنے موت کے بعد کی زندگی کا تصور ہی کوئی نہیں ہے۔ ہم تو ؎
شہادت ہے مطلوب و مقصودِ مومن
نہ مالِ غنیمت نہ کشور کشائی
ہمارا شاعر علامہ اقبال ہمیں سنا گیا ہے۔ میرا نبیؐ سنا گیا ہے۔ تو ہم ملک فتح کرنے کے لیے نہیں لڑتے۔ جو مسلمان بادشاہوں نے کیا وہ اسلام کا سیمپل (مثال) نہیں ہے۔ بادشاہ، بادشاہ ہوتے ہیں، وہ ہندو، سکھ، عیسائی، دہریہ، ان کا کام اپنی حکومت قائم کرنا ہوتا ہے۔
تو میں اپنی افواج سے ہاتھ جوڑ کر اپیل کروں گا، کسی مندر پر حملہ نہ کریں، کسی گوردوارے پر حملہ نہ کریں، کسی گرجے پر حملہ نہ کریں، کسی شہری آبادی پر حملہ نہ کریں۔ ان کے فوجی ٹھکانوں پر حملہ کریں۔ جب انہوں نے زیادتی کی ہے تو اب اللہ نے ہمیں اجازت دی ہے کہ ہم اس کا جواب دیں۔ ہم ظالم نہیں ہیں، ظالم ہندوستان والے ہیں کہ انہوں نے اس طرح ایک واقعہ خود کروایا اور پھر ہمارے اوپر چڑھائی کر دی۔ تو میں اپنی افواجِ پاکستان کے لیے ہاتھ اٹھا کر دعا دیتا ہوں، اللہ انہیں سلامت رکھے، اللہ ان کو ہر میدان میں فتح نصیب فرمائے۔ اللہ نے ہمیں یہ ہیروز دیے ہیں، ہمارا سپاہی بھی اتنا ہی قیمتی ہے جتنا جنرل عاصم منیر قیمتی ہے۔ ایک سپاہی شہید ہو، ایک جرنیل شہید ہو، دونوں کا درجہ اللہ نے آسمانوں پہ بڑا رکھا ہے۔ تو لہٰذا،
ہائے ہائے، مجھے ایک بات یاد آگئی۔ شمر کہنے لگا امام حسینؓ سے، ابھی تمہیں قتل کریں گے، وہ آگے سے ہنس پڑے، سبحان اللہ۔ ’’اب الموت تخوفنی؟‘‘ ارے پاگل، مجھے موت سے ڈرا رہے ہو؟ موت تو ہمارے لیے پھولوں کا ہار ہے۔ تو اللہ کے فضل سے، اللہ کا شکر ہے ہمارے ہاں جب شہید کی لاش آتی ہے تو کوئی چیخ و پکار، رونا دھونا نہیں ہوتا، خوشیاں منائی جاتی ہیں۔ حضرت معاذہ عدویہ رحمۃ اللہ علیہا کے خاوند صلہ بن اشیم اور ان کے دو بیٹے، تینوں میدانِ جنگ میں شہید ہو گئے۔ تو محلے کی عورتیں آئیں، تو ایک دم حضرت معاذہؒ نے فرمایا: مبارک دینے آئی ہو تو بسم اللہ، اور اگر سوگ منانے آئی ہو تو واپس جاؤ، بھلا میں کیسے سوگ مناؤں، میرے تو تین۔ شہید تو مر کر زندہ ہو جاتا ہے ’‘لا تقولوا لمن یقتل فی سبیل اللہ اموات بل احیاء ولا کن لا تشعرون‘‘ ہمیں تو زندگی ملتی ہے، لہٰذا ہمیں موت سے نہ ڈراؤ۔ ہماری لاشوں پر خوشیاں نہ مناؤ، ہم تو تم سے زیادہ خوشی مناتے ہیں جب کوئی ہمارا شہید ہوتا ہے۔
تو میں افواجِ پاکستان کے لیے دعا کرتا ہوں، ایئرفورس کے لیے دعا کرتا ہوں، نیوی کے لیے دعا کرتا ہوں، سب کے لیے دعا کرتا ہوں۔ اور آخر میں ایک اپیل کرتا ہوں کہ یہ جو ہمارے ملک میں انتشار ہے سیاسی، اس کو اللہ کے واسطے ختم فرما دیں اور آپس میں ایک ہو جائیں۔ اگر آپس میں بھڑنا بھی ہے تو دشمن سے نمٹنے کے بعد، ابھی ایک ہو جائیں اور یہ سیاسی اختلاف مٹا دیں۔ اللہ آپ سب کی حفاظت فرمائے کہ آپ کی زندگی ہماری زندگی ہے، آپ کی حیات ہماری حیات ہے، ہم پہلے آپ کے لیے دعا کر رہے ہیں پھر اپنے بچوں کے لیے دعا کر رہے ہیں۔
پاکستان زندہ باد۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ۔
https://youtu.be/02XDr9oxRW8
اللہ تعالیٰ نے اپنے قدرت کو دکھایا اور اپنے سے دس گنا بڑے دشمن کو اللہ تعالیٰ نے شکست دی، جیسے اللہ نے بدر میں اور پتہ نہیں کتنے بے شمار، تاریخ بھری پڑی ہے ’’کم من فئۃ قلیلۃ غلبت فئۃ کثیرۃ باذن اللہ‘‘ (البقرہ ۲۴۹) بہت دفعہ ہو چکا ہے کہ چھوٹی چھوٹی جماعتوں نے بڑے بڑے لشکروں کو شکست دے دی۔ تو یہاں بھی ایسا ہی تھا۔ تو جب اللہ تعالیٰ فتح دے تو پھر ہمارے جذبات کیا ہونے چاہئیں؟ ہمارے اندر تکبر نہ آئےکہ ہم نے یہ کر دیا۔ کیا تو اللہ نے ہے۔
بدر کی لڑائی ہے اور اللہ اپنے نبی سے فرما رہے ہیں ’’وما رمیت اذ رمیت ولٰکن اللہ رمیٰ‘‘ (الانفال ۱۸) اس سے بڑی کوئی بات ہو سکتی ہے؟ میرے نبی آپ جو تیر چلا رہے تھے نا، وہ آپ نہیں چلا رہے تھے، آپ کا اللہ چلا رہا تھا۔ ’’فلم تقتلوھم ولٰکن اللہ قتلہم‘‘ آپ نے نہیں انہیں قتل کیا، ہم نے انہیں قتل کیا۔ بدر کے بعد اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے ’’ان تستفتحوا فقد جاء کم الفتح وان تنتہوا فہو خیر لکم وان تعودوا نعد ولن تغنی عنکم فئتکم شیئا ولو کثرت وان اللہ مع المؤمنین‘‘ (الانفال ۱۹) یہ تو اوپر کا نظام بتا رہا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے قریش سے کہا تم مانگتے تھے کہ کوئی فیصلہ فرما، تو آج ہم نے فیصلہ کر دیا ہے، تو اب بہتر یہ ہے کہ تم باز آ جاؤ اور کوئی قدم نہ اٹھاؤ ۔ اگر تم آؤ گے تو پھر میں خود آؤں گا ’’ان تعودوا نعد‘‘ میں آوں گا۔ اور جب میں آؤں گا تو تمہاری کوئی طاقت تمہیں کام نہیں دے گی، جب کہ میں ایمان والوں کے ساتھ ہوں گا۔
تو پوری قوم کے اوپر واجب ہے کہ تکبر سے بچے اور تکبر انہ جملوں سے بچے۔ ہم نے فتح کیا، ہم نے مٹی میں ملا دیا۔ عاجزی، شکر، شکرانے کا صدقہ، شکرانے کے نفل، اور شکرانے کی دعائیں کہ یا اللہ جو کچھ کیا وہ آپ نے کیا۔ میں تھوڑا سا دکھاتا ہوں کہ فتح مکہ پر جب آپ فاتحانہ داخل ہوئے تو آپ کس طرح داخل ہوئے؟ اللہ کے نبی جھنڈے کے پیچھے،آپ کے سیدھے ہاتھ ابوبکرؓ اونٹنی پر، آپ کے الٹے ہاتھ اسید بن حضیر انصاریؓ، اور آپ کے ساتھ اونٹنی کے پیچھے اسامہ بن زیدؓ۔ اب جب آپ دس ہزار کا لشکر لے کے چل رہے ہیں اور آگے ان میں کوئی ہمت ہی نہیں ہے، تو آپ کو تو ایسے بیٹھنا چاہیے تھا، نعوذ باللہ، اور ایسے دیکھتے، کیا آج پتہ چل گیا قریش کو کہ ہم کون ہیں؟ قربان، قربان۔
اس کا پالان ہوتا ہے، اس کی ایج اوپر چڑھی ہوئی ہوتی ہے۔ یہاں سے ایسے، وہاں سے ایسے۔ تو میرے نبیؐ کی یہ ٹھوڑی اس ایج کے اوپر ایسے لگی ہوئی تھی، یوں سر ساتھ لگا ہوا ہے۔ چونکہ یہ بادشاہ نہیں ہیں، فاتح نہیں ہیں، یہ رحمت اللعالمین ہیں۔ اور آپ کی زبان پہ کیا جاری ہے ’’لا الٰہ الا اللہ وحدہ‘‘ تو ایک اللہ اکیلا وحدہ لا شریک۔ ’’نصر عبدہ‘‘ آج تو نے اپنے بندے کی مدد کی۔ ’’انجز وعدہ‘‘ آج تو نے اپنا وعدہ پورا کر دیا ’’وھزم الاحزاب وحدہ‘‘ میں نے نہیں، میرے صحابہ نے نہیں، تو نے شکست دی قریش کو۔
یہ مسلمان کا طریقہ ہے کہ اللہ ہمیں فتح دے تو ہم تکبر نہیں کرتے۔ اب سوشل میڈیا کا زمانہ ہے، ایسی وہ واہیات، میں نے دیکھی تو نہیں میں نے سنی ہیں کہ انڈیا کا مذاق اڑا رہے ہیں، مذاق اڑا رہے ہیں۔ نہیں، مذاق نہیں اڑانا ہے، شکر ادا کرنا ہے۔
اچھا، جب اللہ کے نبی پہنچے ابو سفیان کے سامنے تو ابو سفیان کہنے لگا ’’یا محمد الیوم یوم الملحمہ؟ الیوم تستحل الحرمۃ؟‘‘ آج خون بہانے کا دن ہے؟ آج حرم حلال ہو گیا ہے لڑائی کے لیے؟ آپ نے فرمایا ’’لا، الیوم یوم المرحمۃ‘‘ آج رحمت کا دن ہے۔ تو اس کے بعد پھر آپ نے طواف کے بعد دو نفل پڑھے اور بیت اللہ کے دروازے پر کھڑے ہو کر اس طرح اس کی چوکٹوں پہ ہاتھ رکھ لیا۔ ’’ما انا صانع بکم؟‘‘ آج کیا کروں گا تمہارے ساتھ؟ سب کو انتظار تھا گردنیں اڑیں گی۔ جو کچھ انہوں نے کیا تھا تو ،سہیل بن عمرو جو ابھی کہہ رہے تھے …… وہ کہنے لگے ’’کریم ابن کریم‘‘ سبحان اللہ۔ آپ سخی ہیں، سخی کے بیٹے ہیں۔ مہربان ہیں، مہربان کے بیٹے ہیں۔ اٹھارہ برس جس طرح میرے نبیؐ نے گزارے، تم نے پڑھے ہو نا، تو پھر میری بات کا وزن تم پر پڑے گا ورنہ نہیں پڑے گا۔ میں نے پڑھا ہے، میرا کلیجہ پگھلتا ہے چونکہ میں نے تاریخ پڑھی ہے۔
’’ما انا صانع بکم؟‘‘ انہوں نے کہا ’’کریم بن کریم‘‘۔ آپؐ نے کہا ’’اقول لکم کما قال اخی یوسف لاخوتہ لا تصریب علیکم الیوم انتم الطلقاء‘‘۔ کہا، آج میں وہی کہوں گا جو میرے بھائی یوسفؑ نے اپنے بھائیوں سے کہا تھا، جاؤ تمہارے اوپر کوئی الزام نہیں۔ تصریب کا مطلب ہوتا ہے کہ آپ کے اوپر کوئی جرم ثابت ہی کوئی نہیں۔
اور یہ جو عدالتوں میں ایک دوسرے کے خلاف کیس کرتے ہیں، سارے جھوٹی ایف آئی آر لکھواتے ہیں۔ ایک قتل کرتا ہے، دس کے نام لکھتے ہیں۔ ایک لاکھ کا نقصان ہوتا ہے، دس لاکھ کی درخواست دیتے ہیں۔
میرے نبیؐ نے کہا، جاؤ تم آزاد ہو۔ کہا، نہیں جی ہم غلام ہیں۔ سب نے کلمہ پڑھ لیا، چند ایک بدقسمت محروم رہے، سب نے کلمہ پڑھ لیا۔
تو میں سب سے کہتا ہوں، پوری قوم سے کہتا ہوں، تکبر کا جملہ نہ بولو …… ستر جہاز، کسی ایک جہاز کو ہٹ نہ کر سکیں، دنیا کی تاریخ میں ایسا کبھی نہیں ہوا، ان کے سارے نشانے خطا اور ہمارے سارے نشانے صحیح، اور ان کے کتنے جہاز تباہ، اور یہ سارے صحیح سلامت واپس۔ یہ اس اللہ نے کیا ہے۔ اللہ کی قسم اللہ نے کیا ہے۔ اتنا سا تو جہاز ہوتا ہے، چاروں طرف سے گولیاں آ رہی ہیں، کیوں نہیں لگ رہیں، کون روک رہا ہے؟ اللہ۔ تو بھائیو، شکرانے کے نفل پڑھو اور صدقہ کرو اور دعائیں کرو اور اللہ کی نافرمانی سے توبہ کرو، اس کی فرمانبرداری میں جھکو۔
ابھی تو ہم اتنے غافل ہیں کہ اور اتنے گناہوں میں پورا ملک برباد ہے اور پھر اللہ نے یہ کر کے دکھا دیا۔ تو جب ہم اس کی مان کر چلیں گے تو کیسے مدد آئے گی۔
فضائے بدر پیدا کر، فرشتے تیری نصرت کو
اتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی
یہ ہمارے اقبال نے کہا تھا۔ ہم نے تو فضائے بدر پیدا ہی نہیں کی اور فرشتوں کی قطار اندر قطار آ گئی۔ سارے جہاز سلامت آئے ، تاریخ کا معجزہ ہے یہ، یہ تاریخ میں کبھی ہوا نہیں ہے۔ تو بھائیو، شکر ادا کرو، سر جھکاؤ۔ میرے بس میں ہو تو یہ سارے جو بنا رہے ہیں نا اُن کے کارٹون، میں سب کے جا کر پاؤں پکڑوں کہ نہ اللہ کی مدد کو ہم سے دور کرو۔ ہم نہ ظالم ہیں نہ سنگدل ہیں، بطور مسلم۔ ویسے تو ہم سارا کچھ ہیں، لیکن بطور مسلم نہ اللہ کے نبی نے ہمیں ظلم کی اجازت دی ہے نہ سنگدلی کی اجازت دی ہے۔