ڈاکٹر محمد زاہد صدیق مغل

کل مضامین: 46

مسئلہ جبر و قدر: متکلمین کا طریقہ بحث

متکلمین الہیات کے باب میں تین سطح پر گفتگو کرتے ہیں: ذات باری کا ثبوت اور اس کے احکام، صفات باری تعالی اور اس کے احکام، افعال باری تعالی جو اس بات سے عبارت ہیں کہ خدا اور کائنات کا تعلق کس نوعیت کا ہے اس لئے کہ کائنات خدا کا فعل ہے ۔ مسئلہ جبر و قدر اللہ کے افعال سے متعلق بحث ہے، یعنی یہ بحث کہ خدا کے فعل اور بندے کے فعل میں کیا نسبت ہے۔ افعال باری کی یہ بحث دراصل مسائل حسن و قبح کی ایک فرع ہے۔ چونکہ افعال باری کی بحث ذات و صفات پر متفرع ہے، لہذا جو اصول و نتائج پہلی دو سطحوں میں طے ہو چکیں افعال باری کی بحث میں ان کا لحاظ رکھنا لازم ہے۔ یہ نہیں ہو...

صوفیہ، مراتبِ وجود اور مسئلہ وحدت الوجود (۳)

توحید وجودی اور معیت باری تعالیٰ: اس لحاظ سے ذات باری کو ہر شے سے ایک ایسی وجودی معیت حاصل ہے جو اس معیت سے مختلف ہے جو جوہر کو جوہر، جوہر کو عرض اور عرض کو عرض سے حاصل ہے اور نہ ہی یہاں حال و محل کے اتحاد جیسی کوئی شرط ہے۔ کائنات کی تخلیق کا مطلب نہ یہ ہے کہ ذات باری نے اپنے سوا پہلے سے موجود کسی شے (مثلاً ھیولی) کو کسی خاص ڈھب پر ڈھال دیا ہے اور نہ یہ ہے کہ اس نے وجود کو اس طرح کسی شے کی ذاتی صفت بنا دیا ہے کہ خلق کے بعد دو مستقل وجود ہوگئے ہیں، نہ یہ کہ اپنی ذات اور صفات ہی کو کائنات بنا دیا ہے اور نہ یہ کہ وہ اعیان کے ساتھ متحد ہوگیا ہے بلکہ یہ مؤثر...

صوفیہ، مراتبِ وجود اور مسئلہ وحدت الوجود (۲)

مرتبہ "واحدیت" (یعنی زیریں قوس) میں وجود و عدم کے بعض تعینات شامل ہو جاتے ہیں، یعنی یہاں ذات واحد کی صفت وجود بعض اعتبارات سے جمع یا کثرت کی صورت اختیار کر لیتی ہے۔ عدم کا مطلب وجودی قضئے کی نفی ہے، وجود مطلق کے مدمقابل عدم محض آتا ہے (یعنی "وجود ہے" کے حکم کی نفی "وجود نہیں ہے" بنتی ہے)۔ پھر جوں جوں وجود مطلق کے ساتھ تخصیص کرنے والے احکام لاگو ہوتے جاتے ہیں، "وجود مطلق" متعین و مقید بن جاتا ہے۔ مثلاً "گھر ہے" ایک مطلق حکم ہے، جبکہ "نیلا گھر ہے" یا "چھوٹا گھر ہے" وغیرہ مقید احکام ہیں۔ اسی طرح "گھر نہیں ہے" کے مقابلے میں "نیلا گھر نہیں ہے" مقید نفی یا عدم...

صوفیہ، مراتبِ وجود اور مسئلہ وحدت الوجود (۱)

اللہ تقدس و تعالیٰ کی حمد و ثناء ہے جس نے ہم سب کو خاتم النبیین والمرسلین ﷺ کے ذریعے نور ہدایت عطا کیا اور حضرت محمد ﷺ پر کروڑوں درود جنہوں نے ہمیں خُدا سے اقرب ترین راہ وصل سمجھایا اور خود اس پر عمل فرما کر ہماری عقول کو وہم کے فتنوں سے بچایا! ہم نے یہ مختصر رسالہ صوفیہ کرام کے بعض ایسے مقامات اور کلام کی وضاحت کے لئے لکھا ہے جسے سمجھے بغیر لوگ ان کے متعلق بدگمانی کا شکار ہوتے ہیں۔ اللہ سبحانہ ہماری محنت کو قبول فرمائے آمین ثُم آمین ۔ اس مقالے کی خصوصیت یہ ہے کہ اردو زبان میں ان حقائق کو اس ترتیب کے ساتھ موضوع نہیں بنایا گیا، اگرچہ بمبئی سے...

صفات متشابہات پر متکلمین کا مذہب تفویض و ائمہ سلف

صفات متشابہات سے مراد قرآن و سنت میں اللہ تعالی کے بارے میں مذکور وہ بیانات ہیں جن کے ظاہری معنی حدوث (زمانی و مکانی تصورات ) پر دلالت کرتے ہیں جیسے اللہ کا ید (ہاتھ)، اس کا مجییئ و نزول (آنا و جانا)، اس کی اصبع (انگلی)، اس کی ساق (پنڈھلی) وغیرہ۔ انہیں صفات خبریہ بھی کہہ دیا جاتا ہے۔ بعض اہل علم حضرات کا دعوی ہے کہ ائمہ اہل سنت جیسے کہ امام ابوحنیفہ (م 150 ھ ) ، امام مالک (م 179 ھ ) و امام اشعری (م 324 ھ) کی عبارات سے معلوم ہوتا ہے کہ ان صفات خبریہ یا متشابہات سے متعلق یہ حضرات اسی مذہب پر تھے جس کی تعلیم بعض متاخرین جیسے کہ علامہ ابن تیمیہ (م 728 ھ) نے دی۔ تاہم...

مسائل تحسین و تقبیح: معتزلہ، ماتریدیہ و اشاعرہ کے مواقف

مسائل حسن و قبح (خیر و شر) پر مختلف کلامی گروہوں (معتزلہ، ماتریدیہ و اشاعرہ) بعض نتائج میں ہم آہنگ اور بعض میں مختلف فیہ ہیں۔ اس کی وجہ کیا ہے؟ اکثر و بیشتر کتب میں اس کی بنیاد پر گفتگو و بحث نہ ہونے کے برابر ہے، اکثر مصنفین نتائج کا فرق بیان کرنے پر اکتفا کرتے ہیں کہ معتزلہ فلاں مسئلے میں فلاں بات کہتے ہیں اور ماتریدیہ و اشاعرہ فلاں جن میں سے بعض پر ان کے مابین اتفاق ہوتا ہے اور بعض میں اختلاف۔ مثلاً تکلیف مالا یطاق کے عدم جواز اور اسی طرح عقلی ادراک کی بنیاد پر بعض امور کی تکلیف لازما آنے پر معتزلہ و ماتریدیہ کے ایک گروہ کا اتفاق ہے جبکہ خلق...

مشائخ احناف کے تصور دلالۃ النص پر چند سوالات

ان سوالات کا مقصد نفس مسئلہ کو سمجھنا ہے۔ حنفی اصول فقہ کے مطابق حدود و کفارات میں قیاس کااجراء جائز نہیں کہ قیاس ظنی ہے جس میں شبے کا امکان ہوتا ہے اور شبے سے حدود ساقط ہوجاتی ہیں نیز حدود شارع کی مقرر کردہ مقدارات ہیں جن میں رائے کا عمل دخل جائز نہیں۔ تاہم احناف کے نزدیک دلالۃ النص کے ذریعے حدود و کفارات کے احکام کا پھیلاؤ جائز ہے۔ چونکہ دلالۃ النص اور قیاس دونوں سے بظاہر منصوص حکم پھیل کر فرع پر جاری ہوتا ہے، سوال پیدا ہوتا ہے کہ دلالۃ النص اور قیاس میں کیا فرق ہے؟ یہاں ہم مشائخ احناف کے نزدیک اس کے تصور پر بحث کرتے ہیں۔ مشائخ احناف کے مطابق:...

امام شافعی: مستشرقین و ناقدین مستشرقین کی نظر میں

میسر ذرائع کے مطابق امام ابو عبد اللہ محمد بن ادریس الشافعی رحمہ اللہ (م 204 ھ / 820 ء ) کی کتاب "الرسالۃ" علم اصول فقہ کی پہلی کتاب مانی جاتی ہے۔ آپ نے "احکام شریعہ اخذ کرنے کے طریقے" کو الگ سے موضوع بنا کر اسے مدون کرنے کا اہتمام فرمایا جبکہ آپ سے قبل اس موضوع پر باضابطہ تحریر میسر نہیں، اگرچہ متعدد ائمہ مجتہدین فقہی احکام پر اپنا تفصیلی کام پیش کرچکے تھے۔ اسی لئے امام رازی (م 606 ھ / 1210 ء ) کتاب "مناقب الامام الشافعی" میں امام شافعی کے بارے میں فرماتے ہیں کہ اصول فقہ میں آپ کو وہی مقام حاصل ہے جو ارسطو کا علم منطق اور علامہ خلیل کا علم عروض و شعر گوئی...

مسائل حسن و قبح پر معتزلہ و تنویری فلاسفہ کے موقف کا فرق

تحریر کا مقصد اسلامی تاریخ کے گروہ "معتزلہ" سے متعلق ہماری تحریر و تقریر میں درآنے والی ایک عمومی غلط فہمی کی نشاندہی کرنا ہے۔ معتزلہ کے بارے میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ وہ شاید اسی قبیل کے افکار کا حامل گروہ تھا جیسے کہ جدید مغربی فلاسفہ یا ان سے متاثر جدید مسلم مفکرین کے افکار ہیں۔ یہ تاثر غلط بھی ہے اور غیرمفید بھی ۔ اس کی غلطی اور غیر افادیت دونوں کو مختصرا چند نکات کی صورت واضح کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ غلطی کی نوعیت: معتزلہ کے بارے میں جس بنا پر درج بالا تاثر قائم کیا جاتا ہے، وہ مسئلہ حسن و قبح (good and bad) پر ان کی خاص رائے ہے ۔ اسلامی تاریخ...

امام غزالی، درجات توحید اور غامدی صاحب کی تکفیری تلوار (۲)

3.4۔توحید کا چوتھا درجہ: توحید وجودی۔ اب توحید کے چوتھے درجے کی بات کرتے ہیں جس پر سب سے زیادہ بے چینی پائی جاتی ہے اور جسے غامدی صاحب نے کفار و مشرکین جیسا عقیدہ قرار دے کر عظیم ضلالت قرار دیا ہے۔ علم کلام کے مباحث میں اس درجہ توحید کی گفتگو کو "توحید وجودی" (Existential Unity) کا عنوان بھی دیا جاتا ہے جس کی متعدد تشریحات پائی جاتی ہیں جن میں دو اہم تر ہیں: ایک کو "مشاہداتی وحدت" کہتے ہیں، یہ ناظر و مشاہد کے اعتبارات سے قائم ہونے والی وحدت ہے۔ دوسری کو "وجودی وحدت" کہتے ہیں، یہ ناظر و مشاہد کے تناظرات سے ماوراء برقرار رہنے والی وحدت کا دعوی ہے۔ یہ تمام تفصیلات...

امام غزالی، درجات توحید اور غامدی صاحب کی تکفیری تلوار (۱)

1۔ تعارف: جناب جاوید احمد غامدی صاحب نے اپنی کتاب "برہان" میں تصوف کے موضوع کو تختہ مشق بناتے ہوئے اکابر صوفیاء کرام بشمول امام غزالی پر ضلالت اور کفریہ و شرکیہ نظریات فروغ دینے کے فتوے جاری فرمائے ہیں۔ نیز ان کے مطابق حضرات صوفیاء کرام نے خدا کے دین کے مقابلے میں ایک متوازی دین قائم کیا۔ اپنے مضمون کا آغاز وہ یہاں سے کرتے ہیں: "ہمارے خانقاہی نظام کی بنیاد جس دین پر رکھی گئی ہے، اُس کے لیے ہمارے ہاں ’تصوف‘ کی اصطلاح رائج ہے۔ یہ اُس دین کے اصول و مبادی سے بالکل مختلف ایک متوازی دین ہے جس کی دعوت قرآن مجید نے بنی آدم کو دی ہے" (برہان:...

عقل و نقل کا تعارض اور تاویل کے لیے امام غزالی کا قانون کلی

امام ابن تیمیہ (رحمہ اللہ علیہ) اپنی کتاب "درء تعارض" میں امام غزالی (رحمہ اللہ علیہ) اور امام رازی (رحمہ اللہ علیہ) پر اپنے روایتی جارحانہ انداز میں تنقید کرتے ہوئے رقم طراز ہوتے ہیں کہ یہ حضرات آیات قرآنی کی تاویل کے باب میں ایک ایسا عمومی قانون بیان کرگئے ہیں جو زندقہ کا پیش خیمہ اور اہل کتاب کے گمراہ لوگوں جیسا کام ہے۔ اس تحریر کا مقصد امام غزالی کی متعلقہ تحریر اور امام غزالی کے تصور عقل کی روشنی میں یہ دکھانے کی کوشش کرنا ہے کہ یوں لگتا ہے اس معاملے میں علامہ ابن تیمیہ سے دو امور میں سہو نظر ہوگیا ہے: پہلا امام صاحب کی بات کو اس کے خصوصی...

قادیانی مسئلے میں مختلف بیانیے

حکومت کی طرف سے عاطف میاں قادیانی کے بطور مشیر تقرر کولے کر قادیانی مسئلے پر ایک مرتبہ پھر نئے سرے سے بحث ہوئی جس میں مختلف فکری رجحانات کے احباب نے اپنی رائے کا اظہار کیا۔ اس مختصر تحریر میں ان متعدد آراء کا ذکر کیا جاتا ہے ۔ اس ضمن میں چار مواقف سامنے آئے ہیں اور چاروں سے الگ قسم کے نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ (۱) سیکولر بیانیہ: مسلم و قادیانیت کی مساوات۔ لبرل سیکولر فکر چونکہ فرد کی آزادی کے عقیدے پر ایمان کی دعوت دیتی ہےجس کے مطابق حقوق کا ماخذ انسان خود ہے، لہذا اس فکر کے مطابق ریاست کو حق نہیں کہ وہ آزادی کے سواء کسی دوسرے عقیدے کی بنیاد پر یا...

مباحث فطرت و اخلاق: بحث کیا ہے؟

"فطرت بطور ماخذ" کی بحث میں فطرت کے ماخذ ہونے کا انکار کرنے والے گروہ پر نقد کرتے ہوئے مختلف احباب غیر متعلق و غلط فہمیوں پر مبنی استدلال پیش کرتے ہیں، مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اختصار کے ساتھ ان کی وضاحت کردی جائے تاکہ نفس موضوع و بحث واضح ہوسکے اور کم از کم گفتگو تو اصل مدعے پر ہوا کرے۔ پہلی غلطی: اس ضمن میں پہلی غلطی یہ سوال ہوتا ہے: تو کیا آپ اسلام کو دین فطرت نہیں مانتے، یہ بات تو نصوص کے خلاف ہے؟ پھر چند نصوص پیش کرکے یہ ثابت کرنا شروع کردیا جاتا ہے کہ اسلام دین فطرت ہے۔ نیز اللہ تعالیٰ نے انسان کی ایک فطرت بنائی ہے وغیرہ۔ تبصرہ: یہ سوال اور...

کیا خاندانی نظام ظلم ہے؟ مارکیٹ، سوسائٹی، غربت اور خاندان کا تحفظ

کچھ روز قبل فیس بک پر خاندانی نظام کے غیر اسلامی ہونے کے حوالے سے ایک تحریر سامنے آئی جس میں کوئی اسلامی دلیل موجود ہی نہ تھی۔ اس تحریر کے استدلال کی کل بنیاد "بڑے بھائی پر ہونے والے مظالم" کا حوالہ تھی کہ اس پر خاندان کا بار گراں زیادہ ہوتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ زیر نظر تحریر میں خاندانی نظام کو اس کے وسیع تر معاشرتی و سیاسی تناظر میں پیش کیا گیا ہے اور جدید مارکیٹ سوسائٹی سے اس کا موازنہ بھی کیا گیا ہے۔ مسئلے کے اس پہلو کو عام طور پر نظر انداز کرکے خاندانی نظام پر گفتگو کی جاتی ہے، لہٰذا یہاں اس کی کچھ تفصیلات دی جاتی ہیں۔ آج دنیا میں جس پیمانے پر...

فقہاء و مکتب فراہی کے تصور قطعی الدلالۃ کا فرق

اس مختصر نوٹ میں فقہائے کرام و مکتب فراہی کے تصور قطعی الدلالۃ کا موازنہ کیا جائے گا جس سے معلوم ہوگا کہ فراہی و اصلاحی صاحبان کا نظریہ قطعی الدلالۃ نہ صرف مبہم ہے بلکہ ظنی کی ایک قسم ہونے کے ساتھ ساتھ سبجیکٹو (subjective) بھی ہے۔ قطعی الدلالۃ کے معنی میں ابہام۔ فقہاء کا ماننا یہ ہے کہ قرآن مجید کی تمام آیات کے معنی ایک ہی درجے میں واضح نہیں بلکہ معنی کا وضوح مختلف درجوں میں ہوتا ہے۔ آیات کے معنی واضح ہونے کے اعتبار سے فقہاء انہیں دو عمومی قسموں میں بانٹتے کرتے ہیں: (ا) واضح الدلالۃ (جس کی دلالت، سمجھنے کے لیے واضح و آسان ہے)۔ (2) خفی الدلالۃ (جس کی دلالت...

عصری لسانیاتی مباحث اور الہامی کتب کی معنویت کا مسئلہ

جدید لسانیاتی مباحث اپنی وضع میں پوسٹ ماڈرن مباحث سے ماخوذ ہیں۔ ان مباحث کی رو سے الفاظ کے تمام تر اطلاقات اور معانی معاشرتی ماحول اور نفس کی کیفیاتی تناظر کے مرہون منت ہوتے ہیں۔ اس فلسفے کے زور پر فلسفہ لسانیات کے ماہرین الہامی کتب کی نہ صرف آفاقیت پر سوال کھڑا کرتے ہیں بلکہ الہامی کتب سے منسوب کسی بھی قسم کی قطعی معنویت کا انکار کرتے ہیں۔ ظاہر ہے اگر کسی بھی لفظ اور عبارت کا معنی قطعی نہیں تو نصوص میں بیان کردہ حلال حرام اور اچھائی برائی کا کیا معنی، وہ بھی رہتی دنیا تک؟ اسی فکری منہج کے حوالے سے چند روز قبل فیس بک پر ایک کالم "مذہب پر عصری...

خواتین کے تحفظ کا بل ۔ اصل مسئلہ اور حل

پنجاب اسمبلی میں "خواتین کے تحفظ" کے نام پر جو نیا قانون پاس کیا گیا ہے اسے لے کر ہمارے یہاں کہ مذہب پسند اور لبرل طبقات میں فکری بحث و مباحثہ اور سیاسی رسہ کشی جاری ہے۔ اس قانون کی حمایت کرنے والوں کے خیال میں اس بل سے نہ صرف یہ کہ خواتین کو مردوں کے تشدد سے تحفظ فراہم ہوگا بلکہ خواتین کی ترقی میں بھی پیش قدمی ہوگی (جیسا کہ کچھ سیاسی احباب نے اسے خواتین کی ترقی کا بل قرار دیا ہے)۔ یہاں اختصار کے ساتھ ہم ان مفروضات کا ذکر کریں گے جن کی بنا پر یہ بل ہمارے سماجی حقائق کے ساتھ مطابقت اور ہماری تہذیبی اقدار کے تحفظ کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ بل میں چونکہ...

’’اسلام اور سائنس کا باہمی تعلق‘‘

جناب مولانا زاہد الراشدی صاحب کا 'اسلام اور سائنس' پر کالم پڑھا، مختصر تبصرہ یہ ہے: ’’سائنس کائنات کی اشیاء پر غور و فکر کرنے، ان کی حقیقت جاننے، ان کی افادیت و ضرورت کو سمجھنے کا نام ہے، ان کے استعمال کے طریقے معلوم کرنے کا نام ہے۔‘‘ نہ جانے وہ کون سی سائنس ہے جو ’’حقیقت تلاش‘‘ کررہی ہے۔ جدید سائنس، جس کا ظہور تاریخ میں ہوا، وہ تو کائنات کے ذرے ذرے کو سرمایے میں تبدیل کرکے نفع میں اضافے کی جدوجہد سے عبارت ہے۔ سائنس کا دائرہ کار ’’(1) یہ چیز کیا ہے؟ اور (2) کیسے کام کرتی ہے‘‘ ہے جبکہ مذہب کا دائرہ کار ’’(3) اسے کس نے بنایا ہے‘‘ اور ’’(4) اس...

سود، کرایہ و افراط زر: غلط سوال کے غلط جواب کا درست جواب

صدر مملکت کے حالیہ بیان کے بعد بعض اہل علم احباب ایک مرتبہ پھر سود کے جواز کے لیے وہی دلائل پیش کرنے میں مصروف ہیں جو اپنی نوعیت میں کچھ نئے نہیں۔ اس ضمن میں پیش کئے جانے والے بعض دلائل کی نوعیت تو دلیل سے زیادہ غلط فہمیوں کی ہے۔ مثلاً ایک دلیل یہ دی جاتی ہے کہ سود لینا اس لیے معقول ہے کیونکہ وقت کے ساتھ افراط زر کی وجہ سے کرنسی کی قدر میں کمی ہوجاتی ہے۔ اسی طرح ایک اور دلیل میں سود کو اثاثوں کے کرایے پر قیاس کرلیا جاتا ہے۔ اس مختصر تحریر میں سود کے حق میں دیے جانے والے ان دو دلائل کا تجزیہ پیش کیا جاتا ہے۔ جدید محققین نے کرایے کے جواز اور سود و...

متبادل بیانیہ ’’اصل بیانیے‘‘ کی روشنی میں (۲)

قومی سیاسی پہلو پر چند اصولی کلمات۔ اصل شرع کی بالادستی ہے، ریاست بنانے کے طریقے ظروف ہیں۔ غامدی صاحب دراصل ظروف کو اولیت دے کر گفتگو کی ترتیب کو بدل رہے ہیں۔ جس بیانئے کو رد کرنے کے لیے غامدی صاحب نے بیانیہ وضع فرمایا ہے، اس کے تناظر میں اس کا سادہ سا جواب کچھ اس طرح ہے: ’’’نیشن سٹیٹ‘ کا فارمیٹ بدلنا کوئی 'دین شکنی' نہیں ہے۔ ریاستی عمل (قوانین کے اجراء اور نفاذ) کو اسلام کا پابند کردینے کی جو بھی صورت مسلمانوں کی استطاعت میں ہو، مسلمان اْسے کیوں اختیار نہ کریں؟ 98 فیصد مسلم آبادی اپنی ’’سماجی قوت‘‘ اور ’’سیاسی رِٹ‘‘ کو اس کا ذریعہ بنائے،...

متبادل بیانیہ ’’اصل بیانیے‘‘ کی روشنی میں (۱)

غامدی صاحب کا حال ہی میں چھپنے والا "متبادل بیانیہ" زیر بحث ہے۔ اس میں بہت سی باتوں کا ذکر ہے؛ سردست صرف اسکی دو شقوں پر گفتگو کرنا مقصود ہے؛ ایک یہ پاکستانی ریاست کو مسلمان بنانا نہ صرف ازروئے شرع مطلوب و مقصود نہیں بلکہ یہ خلاف عقل بھی ہے۔ دوسری یہ کہ خلافت کوئی دینی اصطلاح نیز اسکا قیام کوئی دینی تقاضا نہیں۔ ریاست اور مذہب۔ اس پر گفتگو کے تین پہلو ہیں، ایک کلامی، دوسرا قومی، تیسرا حاضر و موجود وسیع تر تناظر میں اس کے متوقع نتائج۔ تینوں پر ترتیب وار گفتگو کی جاتی ہے۔ (1) متبادل بیانئے کا کلامی سیاسی پہلو۔ شق نمبر ایک کے مطابق (جہاں تک میں سمجھا...

دیسی سیکولروں کی مغالطہ انگیزیاں (۲)

۵) سیکولر ریاست خیر کے معاملے میں غیر جانبدار ہوتی ہے۔ سیکولر لوگ اکثر یہ راگ الاپتے بلکہ اس راگ کے ذریعے اہل مذہب پر رعب جمانے کی کوشش کرتے ہیں کہ دیکھو ’سیکولرازم کا مطلب ریاست اور مذہب میں جدائی ہے اور بس، سیکولر ریاست کا کوئی اخلاقی ایجنڈہ (دین) نہیں ہوتا اور یہ خیر کے معاملے میں غیر جانبدار ہوتی ہے‘۔ اس دعوے کا مقصد یہ ثابت کرنا بلکہ دھوکہ دینا ہوتا ہے کہ (۱) چونکہ سیکولر ریاست ایک پوزیٹو (positive، حقیقت جیسی کہ وہ ہے ) ریاست ہوتی ہے نہ کہ نارمیٹو (normative، حقیقت جیسی کہ اسے ہونا چاہئے )، (۲) اسی لئے سیکولر ریاست کسی تصور خیر کی بیخ کنی نہیں کرتی،...

دیسی سیکولروں کی مغالطہ انگیزیاں (۱)

(۱) کون سا اسلام جناب، کیونکہ مولویوں کا اسلامی احکامات کی تشریح میں اختلاف ہے، لہٰذا جب تک یہ اختلافات ختم نہیں ہوجاتے اسلام کو اجتماعی نظم سے باہر رکھو۔ (۲) ٹھیک ہے اختلافات ہمارے درمیان بھی ہیں، مگر ہم لڑتے تو نہیں نا ، مولوی تو لڑتے ہیں ایک دوسرے کو کافر و گمراہ کہتے ہیں۔ (۳) عقل پر مبنی نظام مذہب کی طرح ڈاگمیٹک نہیں ہوتا۔ (۴) عقلی نظام تبدیل ہوسکتا ہے، لہٰذا یہ اختلافا ت رفع کا بہتر فریم ورک فراہم کرتا ہے۔ (۵) سیکولر ریاست خیر کے معاملے میں غیر جانبدار ہوتی ہے۔ (۶) چونکہ سیکولر ریاست کا کوئی اخلاقی ایجنڈا نہیں ہوتا، لہٰذا یہ کسی تصور خیر کی...

اخلاقیات کی غیر الہامی بنیادوں کا داخلی محاکمہ

جدید زمانے کے مذہب مخالفین، خود کو عقل پرست کہنے والے اور چند سیکولر لوگ یہ دعوی کرتے ہیں کہ اخلاقیات (خیرو شر، اہم و غیر اہم)یعنی قدر کا منبع الہامی کتاب نہیں ہونا چاھئے (کیوں؟ بعض کے نزدیک اس لیے کہ مذہبی اخلاقیات ڈاگمیٹک ہوتی ہیں، بعض کے نزدیک اس لیے کہ ان کی عقلی توجیہہ نہیں ہوتی اور بعض کے نزدیک اس لیے کہ وہ سرے سے وحی کو علم ہی نہیں مانتے، مگر یہ ’کیوں‘ فی الحال ہمارے لیے اہم نہیں )۔ جب ان سے پوچھا جائے کہ اچھا یہ بتاؤ کہ پھر اخلاقیات کی بنیاد کیا ہے تو انکے مختلف لوگ مختلف دعوے کرتے ہیں۔ اس مختصر مضمون میں ہم اخلاقیات کی انہی معروف غیر...

مغربی اجتماعیت : اعلیٰ اخلاق یا سرمایہ دارانہ ڈسپلن کا مظہر؟ (۲)

غربت اور افلاس کا فروغ اور اس کے مجوزہ حل۔ ذرائع پیداوار پر مارکیٹ ڈسپلن کے غلبے کے نتیجے میں غربت و افلاس ،معاشی و سماجی ناہمواریوں اور استحصال نے جنم لیا۔ (یہاں اس بات کا دھیان رہے کہ اگرچہ سرمایہ دارانہ نظام میں لوگوں کی مطلق آمدن (absolute income) میں اضافہ ہونے کی بنا پر مطلق (absolute) غربت تو کم ہوجاتی ہے، البتہ اضافی (relative) آمدنیوں کا تفاوت اور اضافی غربت میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ہر سرمایہ دارانہ معاشرے میں لوگوں کی آمدنیوں میں مسلسل اضافے کے باوجود ۹۸ فیصد لوگ خود کو محروم اور ناخوش محسوس کرتے ہیں)۔ اس کی بنیادی طور پر چند وجوہات...

مغربی اجتماعیت : اعلیٰ اخلاق یا سرمایہ دارانہ ڈسپلن کا مظہر؟ (۱)

مغربی اثرات کے تحت اسلامی دنیا میں بیسویں صدی کے دوران جو فکری مواد لکھا گیا اس کا ایک مفروضہ یہ بھی ہے کہ ’مغرب کی اجتماعی زندگی چند اعلی انسانی اخلاقی اقدار کا مظہر ہے، لہٰذا مغرب ہم سے بہتر مسلمان ہے بس کلمہ پڑھنے کی دیر ہے‘۔ یہی دعویٰ ان الفاظ میں بھی دہرایا جاتا ہے کہ ’اجتماعی زندگی کی تشکیل کے معاملے میں مغرب ہم سے بہت بہتر اقدار کا حامل ہے، البتہ ذاتی معاملات (مثلاً بدکاری، شراب نوشی وغیرہ کے استعمال ) میں کچھ نا ہمواریاں پائی جاتی ہیں‘۔ دوسرے لفظوں میں یہ دعویٰ کرنے والے حضرات یہ کہنا چاہتے ہیں کہ مغرب کا اجتماعی نظم ’اسلامی تعلیمات...

جزا و عذاب قبر کی قرآنی بنیادیں

موجودہ دور میں انکار و تخفیف سنت مختلف پیراؤں میں جلوہ گر ہوتی ہے جس کی ایک شکل یہ اصول اختیار کرنا ہے کہ حدیث و سنت کی بنیاد پر کوئی عقیدہ ثابت نہیں ہوسکتا۔ چند روز قبل راقم کو اسی قسم کی صورت حال کا سامنا کرنا پڑا جب ہمارے ایک عزیز نے دوران گفتگو یہ سوال کردیا کہ جناب، یہ عذاب قبر کا جو تصور ہمارے ہاں رائج ہے، اس کی شرعی بنیاد کیا ہے؟ سوال فی البدیہہ تھا، لہٰذا راقم نے چند احادیث کا حوالہ پیش کردیا، لیکن چونکہ آج کل تخفیف حدیث کی وبا عام ہے، لہٰذا جھٹ سے کہنے لگے کہ ’ قرآن میں کہاں ہے؟‘ جب ان صاحب کے استدلال کا تجزیہ کیا تو ان کی بنیادیں درج...

سرمایہ دارانہ انفرادیت کا حال اور مقام (۳)

۳۔ اصلاح انفرادیت کے اسلامی کام کی نوعیت۔ یاد رہنا چاہیے کہ مغربی فرد کے اضطرار کی بنیاد گناہ سے آگاہی ہے۔ یعنی اللہ تعالی نے انسان کو عبد پیدا کیا ہے اور جب وہ عبدیت سے چھٹکارا حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے تو درحقیقت اپنی اصل اور فطرت سے لڑتا ہے اور نتیجتاً ہر وقت اضطرار اور گناہ کے احساس سے معمور رہتاہے اور گناہ پر مطمئن ہونے کے لیے لغو تعبیریں تلاش کرکے خود کو دھوکا دیتا ہے۔ گناہ سے چھٹکارا اس وقت ممکن ہے جب انسان عبدیت کی نیت کرے، اللہ اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا اور گناہ معاف کردیتا ہے۔ اس کے دل کو اضطرار سے نجات دلا کر اطمینان کی دولت سے...

سرمایہ دارانہ انفرادیت کا حال اور مقام (۲)

۲۔ سرمایہ دارانہ انفرادیت (Capitalist Subjectivity)۔ اب ہم دیکھیں گے کہ سرمایہ دارانہ یعنی موجودہ مغربی تہذیب کا عام باشندہ عقائد اور حال کے فساد کا شکار ہے۔ پہلی صدی عیسوی کے آخر تک بیشتر عیسائیوں نے ان عقائد کے ایک حصے کو رد کردیا جنکی تبلیغ حضرت مسیح علیہ السلام نے فرمائی اور جنہیں انکے حواریوںؓ نے قبول کیا تھا۔ دوسری سے چودھویں صدی عیسوی تک کی مغربی عیسائیت حضرت مسیح علیہ السلام اور یونانی افکار کا ایک مرکب بن گئی تھی۔ تحریک نشاۃ ثانیہ اور تحریک اصلاح مذہب (Renaissance and Reformation) نے مسیحی عقائد کو تقریباً مکمل طور پر رد کردیا اور یونانی عقائد و افکار کی...

سرمایہ دارانہ انفرادیت کا حال اور مقام (۱)

اس مضمون کا مقصد سرمایہ دارانہ نظام زندگی کی تفہیم کے لیے چند مطلوب بنیادی مباحث کو مربوط انداز میں پیش کرنا ہے۔ سرمایہ داری یا کسی بھی نظام زندگی پر بحث کرتے وقت مفکرین کا نقطہ ماسکہ اجتماعی زندگی اور اسکے لوازمات کی تشریح و تنقیح رہتی ہے اور وہ انفرادیت جو ان تمام اجتماعی معاملات کو جنم دیتی ہے نظروں سے اوجھل رہتی ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اجتماعی زندگی فرد کے تعلقات کے مجموعے کے سواء اور کچھ بھی نہیں (۱)۔ انسانی زندگی ایک مربوط عمل ہے۔ انسان کی سوچ، عمل اور تعلقات میں گہرا ربط ہے۔ عمل اور تعلقات سوچ کے اظہار کا ذریعہ ہیں۔ سوچ کی بنیاد احساس...

عصر حاضر میں خروج کا جواز اور شبہات کا جائزہ

چند روز قبل ایک این جی او کی طرف سے راقم الحروف کو مکالمہ بعنوان ’’عصر حاضر میں تکفیر و خروج‘‘ کے موضوع پر شرکت کی دعوت دی گئی جس میں مختلف مکاتب فکر کے علماء کرام نے شرکت فرمائی۔ چند وجوہات کی بناء پر راقم مکمل پروگرام میں شرکت نہ کرسکا، البتہ پروگرام کی ریکارڈنگ کے ذریعے شرکائے گفتگو کا مقدمہ اور ان کے دلائل سننے کا موقع ملا۔ پوری نشست کا خلاصہ یہ ہے کہ تقریباً تمام ہی شرکائے محفل نہ صرف یہ کہ عصر حاضر میں مسلم ریاستوں کے خلاف خروج کے اصولی عدم جواز پر متفق ہیں بلکہ قریب قریب ان کا یہ نظریہ ایک آفاقی قضیہ بھی ہے، یعنی ماسوا کفر بواح خروج...

کیا معاصر جہاد ’منہاج دین‘ کے خلاف ہے؟

ماہنامہ الشریعہ، شمارہ اکتوبر ۲۰۱۱ میں فاضل مصنف جناب اویس پاشا قرنی صاحب کا مضمون ’عصر حاضر میں غلبہ اسلام کے لیے جہاد‘ نظر سے گزرا۔ صاحب مضمون نے اپنے مضمون میں دو مقدمات پر بحث کی ہے۔ اولاً، موجودہ دور میں نصوص دعوت کو منسوخ ٹھہرانے والے حضرات کا رد (مضمون کے اس حصے سے ہمیں اتفاق ہے کہ دعوت و تبلیغ کی اہمیت کا انکار کرنا کسی طور درست نہیں)۔ ثانیاً، موجودہ دور میں جہادی جدوجہد کو نہ صرف غیر ضروری بلکہ منہاج شریعت کے خلاف ثابت کرنے کی کوشش کرنا۔ اس ضمن میں فاضل مصنف بنیادی طور پر دو دلائل پیش کرتے ہیں: (۱) جہادی جدوجہد ناکامی و نقصان سے عبارت...

اسلامی بینکاری: زاویہ نگاہ کی بحث (۲)

اسلامی بینکاری بطور حکمت عملی اور انداز فکر : پھر اسلامی بینکاری کے نام پر جس شے کو ’تبدیلی کی حکمت عملی‘ کے طو پر اختیار کر لیا گیا ہے اس کی نوعیت پر غور کرنا بھی ضروری ہے کیونکہ اس بحث سے یہ اندازہ لگانا بھی ممکن ہوجائے گا کہ آیا اسلامی بینکاری کو فروغ دینے والے حضرات بذات خود اسے مجبوری سمجھتے بھی ہیں یا نہیں نیز اس کے ذریعے وہ کس نوع کی تبدیلی کی توقع رکھتے ہیں۔ کسی موجود نظام میں تبدیلی کے لیے برپا کی جانے جدوجہد کو حکمت عملی کے تین ادوار پر تقسیم کرکے سمجھا جاسکتا ہے، short run, middle run and long run (قریب یا قلیل، وسط اور طویل مدتی)۔ ان میں سے ہر دور...

اسلامی بینکاری: زاویہ نگاہ کی بحث (۱)

ماہنامہ الشریعہ شمارہ جون اور جولائی ۲۰۱۰ میں مفتی زاہد صاحب دامت برکاتہم نے راقم الحروف کے مضمون ’اسلامی بینکاری غلط سوال کا غلط جواب‘ کے تعقب میں اپنے مضمون ’غیر سودی بینکاری کا تنقیدی جائزہ‘ (حصہ دوئم و سوئم) میں ’زاویہ نگاہ کی بحث ‘ کے تحت چند مزید شبہات پیش کیے ہیں۔ مفتی صاحب کی طرف سے اٹھائے گئے دلائل و نکات پر ذیل میں راقم کا تبصرہ پیش ہے۔ چونکہ مفتی صاحب نے اپنی تنقید کا زیادہ تر حصہ ہمارے مضمون کے اصل موضوع کے بجائے ضمنی و اضافی پہلو (زاویہ نگاہ کی بحث) پر صرف کیا ہے لہٰذا پہلے ہم اسی پہلو پر کچھ عرض کرنا چاہیں گے کیونکہ اپنے اصل...

اسلامی بینکاری: زاویہ نگاہ کی بحث

ماہنامہ الشریعہ شمارہ مئی ۲۰۱۰ میں مفتی زاہد صاحب دامت برکاتہم العالی نے راقم الحروف کے مضمون ’اسلامی بینکاری: غلط سوال کا غلط جواب‘ کے تعقب میں اپنے مضمون ’غیر سودی بینکاری کا تنقیدی جائزہ‘ (حصہ اول) میں ’زاویہ نگاہ کی بحث ‘ کے تحت چند گزارشات پیش کی ہیں جن پر مختصر تبصرہ کرنا راقم ضروری سمجھتا ہے۔ (۱) راقم الحروف نے اپنے مضمون میں یہ بنیادی بحث اٹھائی تھی کہ اسلامی بینکاری کے حامیین نے اصل بحث کی ترتیب کو الٹ دیا ہے۔ مفتی صاحب نے بحث کی موجودہ ترتیب کے حق میں بجا طور پر یہ وضاحت فرمائی کہ علمائے کرام خود کو اس ترتیب پر اس لیے مجبور پاتے...

اسلامی بینکاری: غلط سوال کا غلط جواب (۳)

(۳) اسلامی بینکنگ کے امکانات کا جائزہ۔ بینکنگ کے درست تصور کو سمجھ لینے کے بعد اب ہم اس کی اسلامیت کا جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس بحث کو ہم درج ذیل امور پر تقسیم کرتے ہیں۔ ۱.۳: بینکنگ کی شرعی حیثیت۔ جیسا کہ ابتدائے مضمون میں ذکر کیا گیا تھا کہ بینکنگ کی اسلام کاری ممکن ہونے کا دعوی دوشرائط کی تکمیل پر منحصر ہے۔ اول fractional reserve banking کاشرعاً جائز ہونا، دوئم نظام بینکاری کو سود کے بجائے بیع میں تبدیل کرلینا۔ مجوزین بینکاری نظام کا غلط تصور قائم کرنے کی وجہ سے صرف ’غیر سودی بینکاری ‘ کے امکانات کی ثانوی بحث میں الجھے رہتے ہیں ، گویا ان کے نزدیک...

اسلامی بینکاری: غلط سوال کا غلط جواب (۲)

(۲) مجوزین کے نظریہ بینکاری کا جائزہ۔ اس مختصر وضاحت کے بعد ہم درج بالا نظریہ بینکنگ (جو درحقیقت مجوزین اسلامی بینکاری کا نظریہ بینکنگ بھی ہے) کا تنقیدی جائزہ پیش کرتے ہیں۔ بحث کو سادہ اور عام فہم رکھنے کے لیے حد امکان تک علم معاشیات کے ٹیکنکل مواد سے صرف نظر کرنے کی کوشش کی جائے گی، اسی لیے بہت سی دیگر تفصیلات کونظر انداز کرتے ہوئے ہم درج بالا تصور بینکنگ کی دو خامیوں پر اکتفا کریں گے (۱۳)۔ ۱.۲: نیوکلاسیکل نظریہ بینکنگ کی بنیادی خامیاں۔ نیوکلاسیکل مفکرین کا یہ اصول کہ ’بینک کو بچتوں سے زائد قرض فراہم نہیں کرنے چاہیے ‘ ان مفروضوں پر مبنی ہے...

اسلامی بینکاری: غلط سوال کا غلط جواب (۱)

مروجہ سودی بینکاری کو ’مسلمان بنانے‘ کی مہم پچھلی دو دہائیوں سے اپنے عروج پر ہے اور نہ صرف یہ کہ مجوزین اسلامی بینکاری بلکہ ان کے ناقدین کی ایک اکثریت نے بھی یہ فرض کرلیا ہے کہ اس مہم کے ذریعے نظام بینکاری کو کسی نہ کسی درجے (زیادہ یا کم کے اختلاف کے ساتھ) اسلامی بنا ہی لیا گیا ہے۔ اگر اصولاً یہ مقدمات درست مان لیے جائیں کہ (۱) اپنے مقاصد اور طریقہ کار (procedure) دونوں اعتبارات سے بینک کی اسلام کاری ممکن ہے، نیز (۲) اسلامی بینکاری درست سمت میں رواں دواں ہیں تو ان کے منطقی لازمے کے طور پر جو بحث ابھرے گی، وہ اس نظام میں ’مزید اصلاح‘ کی کوشش کرنے ہی...

معاصر مجاہدین کے معترضین سے استفسارات

پچھلے کچھ عرصے میں مجاہدین کی انقلابی و جہادی حکمت عملی (یعنی ریاست کے اندرتعمیر ریاست) کے حوالے سے بہت سے خدشات کا اظہار کیا جانے لگا ہے اور اس ضمن میں ماہنامہ ’الشریعہ‘ نے باقاعدہ اس موضوع پر خاص نمبر نکالنے کا اہتمام کیا۔ یہاں ہمارا مقصد ان مضامین پر کوئی نقد پیش کرنا نہیں۔ پہلے ان کے پیش گزاروں کے سامنے چند سوالات رکھنا ہے تاکہ معاملے کا دوسرا رخ ان کے سامنے آسکے۔ امید ہے یہ حضرات سوالات کے علمی جوابات مہیا فرمائیں گے۔ دھیان رہے کہ اس سوال نامے کا مقصد نفس موضوع پر اپنی کوئی اصولی رائے بیان کرنا نہیں (کیونکہ اس کے لیے ایک الگ مضمون اور...

پروفیسر عبد الرؤف صاحب کی تنقید کے جواب میں

ماہنامہ الشریعہ شمارہ جنوری ۲۰۰۹ میں محترم پروفیسر عبد الرؤف صاحب نے راقم الحروف کے مضمون ’’اسلامی معاشیات یا سرمایہ داری کا اسلامی جواز؟‘‘ کا تنقیدی جائزہ پیش کیاہے۔ درحقیقت صاحب تنقید نے ’تنقید ‘ سے زیادہ ’تبصرہ‘ تحریر فرمایاہے کیونکہ ان کے مضمون کا نصف سے زیادہ حصہ ہمارے مضمون کے خلاصے اور تجزیے پر مشتمل ہے۔ پروفیسر صاحب کی تنقید پڑھنے کے بعد راقم الحروف کسی تفصیلی جواب کا موقع نہیں پاتا کیونکہ پروفیسر صاحب نے ہمارے مضمون کے مرکزی خیال یعنی ’اسلامی معاشیات سرمایہ داری کا ایک نظریہ ہے‘ پر کوئی اصولی نقد پیش کرنے کے بجائے چند جزوی...

اسلامی معاشیات یا سرمایہ داری کا اسلامی جواز؟ (۳)

نفع کمانے کو نفع خوری پر قیاس کرنے کی غلطی: اسلامی ماہرین معاشیات نفع کمانے اور علم معاشیات کے تصور نفع خوری (profit-maximization) کو خلط ملط کردیتے ہیں۔ یہ بات ٹھیک ہے کہ کاروبار کے نتیجے میں جو نفع حاصل ہوتا ہے اسلام اس کا قائل ہے لیکن اسلام نفع خوری کا ہرگز قائل نہیں۔ نفع تو کسی مقصد کے لیے کمایا جاتا ہے جیسے حضرت عثمانؓ کے نفع کمانے کا مقصد غزوات میں سرمایے کی فراہمی، غریب مسلمانوں کی مدد وغیرہ تھا، اس کے مقابلے میں نفع خوری کا مطلب نفع کا حصول بالذات مقصود (profit for the sake of profit) اور تعقل (rationality) کی بنیاد بنا لینا ہے۔ نفع خوری کی اس مکروہ ذہنیت کا سب سے...

اسلامی معاشیات یا سرمایہ داری کا اسلامی جواز؟ (۲)

اسلامی معاشیات پر اس عمومی تبصرے کے بعد اب ہم مولانا تقی عثمانی صاحب کی کتاب کی طرف چلتے ہیں۔ (۲) مولانا تقی عثمانی اور اسلامی معاشیات۔ مولانا کی کتاب ’’اسلام اور جدید معیشت و تجارت‘‘ کھلے عام لبرل سرمایہ داری کا اسلامی جواز پیش کرتی ہے۔ مولانا معاشیات کو غیر اقداری علم سمجھ کر معاشی مسئلے کے بارے میں یہ تصور قائم کرتے ہیں: ’’انسانی وسائل محدود ہیں اور اسکے مقابلے میں ضروریات اور خواہشات بہت زیادہ ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان لامحدود ضروریات اور خواہشات کو محدود وسائل کے ذریعے کس طرح پورا کیا جائے؟ اقتصاد اور اکنامکس کے یہی معنی...

اسلامی معاشیات یا سرمایہ داری کا اسلامی جواز؟ (۱)

ارباب فکر و نظر پر خوب واضح ہے کہ پچھلی دو صدیوں کے دوران سر مایہ دارانہ نظام کے غلبے کے نتیجے میں اسلا می اصولوں کے مطا بق زندگی گزارنے کے مواقع کم سے کم تر ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ چو نکہ معاش معا شرتی زندگی کا وہ شعبہ ہے جس سے ہر خاص وعا م کو وا سطہ پڑتا ہے، لہٰذا اس کے تباہ کن اثرات سب سے زیادہ اسی شعبہ زندگی پر پڑے ہیں۔ نیز چونکہ سرمایہ داری کا اصل مقصد و محور صرف معاش ہی معاش ہے، لہٰذا موجودہ دور میں معا شی مسائل ہی نے سب سے زیادہ اہمیت اختیار کر لی ہے اورزندگی کے ہر مسئلے کو ’معاد‘ کے بجا ئے ’معا ش‘ کے نقطہ نگاہ سے دیکھے جانے کی روش عام ہونے...

سرمایہ دارانہ یا سائنسی علمیت: ایک تعارف

کسی تہذیب کا تصور علم اس کے اہداف و مقاصد کے اظہار کا سب سے بلند ترین درجہ ہوتا ہے۔ در حقیقت تصور علم ہی وہ اساس ہے جہاں کسی تہذیب کے مقاصد علمی و فکری سطح پر متشکل ہوتے ہیں۔ ہر تصور علم ایک تہذیب کے حیات انسانی کی حقیقت کی بابت ما بعد الطبعیاتی ایمانیات کا مرہون منت ہوتا ہے۔ یعنی یہ سوال کہ علم کیا ہے کا جواب مقصد علم کے بغیر دینا ناممکن ہے اور یہ مقصد لازماً ایک ما بعد الطبعیاتی ایمان پر قا ئم ہوتا ہے ۔ یہی وہ بنیادی بات ہے جس پر غور نہ کر نے کے سبب کئی اہل علم و فکر نے مغربی علوم کو اسلامی تاریخ میں تلاش کرنے نیز ان کی اسلام کاری کرنے کی ٹھوکریں...

غامدی صاحب کے نظریہ اخلاق کا تنقیدی جائزہ

اس مضمون میں ہم جاوید احمد غامدی صاحب کے نظریہ اخلاق کا ایک مختصر مگر جامع تنقیدی جائزہ پیش کرنے کی کوشش کریں گے۔ غامدی صاحب کا نظریہ اخلاق درحقیقت اسلام کے بجائے مغربی ما بعد الطبیعیات پر مبنی ہے اور امت مسلمہ کو اعتزال قدیمہ کی راہوں پر ڈالنے کی مکمل صلاحیت رکھتا ہے۔ غامدی صاحب کا یہ نظریہ ان کی ’’اخلاقیات‘‘ نامی کتاب میں تفصیل کے ساتھ موجود ہے۔ چونکہ غامدی نظریہ اخلاق اور غامدی نظریہ فطرت باہم مربوط ہیں، لہٰذا نظریہ اخلاق کے کچھ مباحث ’’میزان‘‘ نامی کتاب کے باب ’’اصول ومبادی‘‘ میں بھی بیان ہوئے ہیں۔ اس مضمون کے لیے ہم انہیں دو...
1-46 (46)