مسائل تحسین و تقبیح: معتزلہ، ماتریدیہ و اشاعرہ کے مواقف

ڈاکٹر محمد زاہد صدیق مغل

مسائل حسن و قبح (خیر و شر) پر مختلف کلامی گروہوں (معتزلہ، ماتریدیہ و اشاعرہ) بعض نتائج میں ہم آہنگ اور بعض میں مختلف فیہ ہیں۔ اس کی وجہ کیا ہے؟ اکثر و بیشتر کتب میں اس کی بنیاد پر گفتگو و بحث نہ ہونے کے برابر ہے، اکثر مصنفین نتائج کا فرق بیان کرنے پر اکتفا کرتے ہیں کہ معتزلہ فلاں مسئلے میں فلاں بات کہتے ہیں اور ماتریدیہ و اشاعرہ فلاں جن میں سے بعض پر ان کے مابین اتفاق ہوتا ہے اور بعض میں اختلاف۔ مثلاً تکلیف مالا یطاق کے عدم جواز اور اسی طرح عقلی ادراک کی بنیاد پر بعض امور کی تکلیف لازما آنے پر معتزلہ و ماتریدیہ کے ایک گروہ کا اتفاق ہے جبکہ خلق افعال عباد (بندوں کے افعال کی تخلیق ) کے مسئلےپر ان کا اختلاف ہےوغیرہ۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ اتفاق و اختلاف کس اصول پر متفرع ہے؟ یہاں ہم اختصار کے ساتھ چند نکات کی صورت اس پر روشنی ڈالتے ہیں۔ تحریر کا مقصد یہ تعین کرنا نہیں کہ کس فریق کا موقف درست ہے،نہ ہی ہر فریق کے دلائل پر بحث کی گئی ہے۔

معتزلہ کا موقف

پہلے ہم معتزلہ کا موقف بیان کرتے ہیں۔

1۔ اختلاف کی بنیاد ہر فریق کے نزدیک ذات باری سے متعلق عدل و حکمت کے مفہوم کا فرق ہے۔ معتزلہ و ماتریدیہ کا اس بات پر اتفاق ہے کہ حسن و قبح افعال و اشیا کے اوصاف ہیں، اس لئے ان کے نظریہ اخلاق کو essentialist or objectivist theory of morality کہا جاسکتا ہے۔ افعال و اشیاء کے یہ اوصاف دراصل اللہ کی صفت حکمت کا مظہر ہیں جس کے بعض تقاضوں کو انسان پہچان سکتا ہے۔

2۔ معتزلہ کے نزدیک حکمت کا مطلب خدا کے فعل میں "اصلح للعباد" کا پہلو پایا جانا ہے۔ ان کے مطابق ہر فاعل کا ارادہ کسی مصلحت پر مبنی ہوتا ہے، یہ مصلحت یا فاعل کی جانب لوٹتی ہے اور یا مفعول کی۔ چونکہ خدا مصلحت و فائدے کے حصول سے ماورا ہے، لہذا ماننا ہوگا کہ اس کے ارادے میں بندوں کی مصلحت پیش نظر ہوتی ہے۔

3۔ چونکہ خدا قادر و جواد ہے، لہذا اس کی بارگاہ سے بندوں سے متعلق ایسے ہی فعل کا صدور ہوتا ہے جس میں بندوں کا امکانی طور پر سب سے زیادہ (optimal or maximum possible) فائدہ ہو، اسے "اصلح للعباد "کہتے ہیں۔ جو فعل انسانوں کی مصلحت کے پہلو کے مطابق ہووہ حسن ، عدل و حکمت ہے، جو اس کے خلاف ہو وہ قبیح و ظلم ہے اور جو اس سے خالی ہو وہ "عبث " ہے جو کہ سفاہت ہے۔ انسان کی مصلحت و فائدے سے مراد وہی عام تصورات ہیں جن سے انسان واقف ہے اور شریعت انہی بنیادوں پر انسان کو خطاب کرتی ہے۔ چنانچہ اخلاقی قضایا (moral judgements) بندے و خدا کے مابین مشترک ہیں اور یہی اشتراک خطاب کی تفہیم کی بنیاد فراہم کرتا ہے۔ اگر عدل و ظلم اور حکمت پر مبنی یہ قضایا دونوں کے مابین مشترک نہ ہوں تو شارع کے خطاب کا مفہوم سمجھنا ممکن نہ ہوگا۔

4۔ حکمت کے اس تصور کے پیش نظر افعال تین قسم کے ہیں:

(الف) وہ جن کی اچھائی کے پہلو کو انسان اس بنا پر پہچان سکتا ہے کہ ان میں انسان کا یقینا فائدہ و مصلحت ہی ہوگی جیسے کہ ایمان باللہ کا مفید ہونا، شکر منعم (یعنی انعام کرنے والے کا شکر بجا لانا) حسن ہونا وغیرہ،

(ب) وہ جن کے عدم مصلحت کے پہلو کو انسان عقل سے جان سکتا ہے جیسے کفر کا برا ہونا، بلا وجہ جھوٹ بولنا یا بلاوجہ کسی کی جان تلف کرنا وغیرہ،

(ج) وہ جن سے متعلق انسان قطعیت کے ساتھ فیصلہ نہیں کرسکتا اور متذذب ہوتا ہے جیسے کہ پانچ وقت نماز کی ادائیگی یا زنا کی قباحت وغیرہ

5۔ ہر تین صورت میں عقل اور شارع کاحکم یا خطاب افعال میں قدر پیدا نہیں کرتے بلکہ انہیں ظاہر کرتے ہیں، یعنی عقل ذات باری کی صفت حکمت کے بعض پہلووں یا نتائج کو اصلح للعباد کے تناظر میں قطعی طور پر پہچان لیتی ہے اور یہ ادراک خدا کی جانب بندے کی تکلیف کی بنیاد ہے۔ اسی طرح شارع جب نماز کا حکم دیتے ہیں تو یہ حکم نماز میں خیر کا پہلو وضع نہیں کرتا بلکہ اسے ظاہر کرتا ہے۔ افعال کی قدر کی وجودی بنیاد خدا کا حکم نہیں بلکہ اس کی صفت حکمت ہے اور عقل کے ذریعے بعض اخلاقی امور کا یہ ادراک اسی طرح ہے جیسے عقل ذات باری کے وجود اور اس کی بعض صفات کا ادراک کرلیتی ہے کہ مثلا وہ عالم و قادر ہے۔ اسی طرح وہ اس کی صفت حکمت کے مفہوم کے تقاضوں کا بھی ادراک کرسکتی ہے۔

6۔ اس بنا پر معتزلہ کا ماننا تھا کہ:

الف) جن لوگوں تک نبی کی خبر نہیں پہنچی ان پر ان امور کی تکلیف ہے جن کے حسن و قبح کو عقلاً جاننا ممکن ہے اور وہ خدا کی بارگاہ میں ان کے لئے جوابدہ ہیں۔ نبی کو مبعوث کرنا بھی بندوں کی مصلحت سے متعلق ضروری عقلی تقاضا ہے، لہذا یہ بھی ضروری ہے۔

ب) خدا شر کا ارادہ نہیں کرتا اور نہ بندوں کے افعال تخلیق کرتا ہے بلکہ بندے اپنے افعال کو خدا کی جانب سے دی گئی قدرت و اختیار سے خود خلق کرتے ہیں اور یہی ان کی جوابدہی کی بنیاد ہے۔ اگر خدا برائی کا ارادہ کرے گا یا ان افعال کو خلق کرے گا تو اس پر شریر ہونے کا الزام آئے گا، اور یہ بات محال ہے کہ ایک حکیم ایسے افعال کا ارادہ کرے۔ کسی برے فعل کا ارادہ تبھی ممکن ہے جب فاعل کو اس کی برائی کا علم نہ ہو، یا وہ اس فعل کو کرنے کا محتاج ہو اور یا اسے یہ علم نہ ہو کہ اسے اس کی حاجت نہیں اور خدا ان تینوں باتوں سے ماورا ہے۔ یہ معتزلہ کے نزدیک انسانی افعال سے متعلق "مسئلہ شر " (problem of evil) کا حل ہے۔

ج) اسی طرح بندوں کے افعال سے جو نتائج جنم لیتے ہیں (مثلا پتھر پھینکنے پر وہ لڑھکتا ہوا جاتا ہے، تو پتھر کو پھینکنا فعل جبکہ اس کا لڑھکنا فعل کا نتیجہ ہے) ان کی نسبت بھی بندوں کی جانب ہوگی (انہیں "افعال متولدہ " کہتے ہیں، اس کی نسبت سے متعلق پر حکمائے معتزلہ کی آرا مختلف ہیں)۔

د) یہ جائز نہیں کہ خدا بندوں کو بلا کسی سابقہ گناہ سزا یا تکلیف دے کیونکہ یہ ظلم (اصلح للعباد یعنی بندوں کی مصلحت کے خلاف) ہے۔ رہے وہ اعمال و مظاہر جن میں بظاہر کسی بے گناہ انسان کو تکلیف ہوتی ہے (جیسے حادثہ، طوفان و زلزلہ وغیرہ) تو لطف و عوض کے اصولوں کے تحت ان کا مداوا کیا جانا لازم ہے۔ لطف کا مطلب یہ ہے کہ خدا اس تکلیف کی وجہ سے بندے کو کسی نیک عمل کی توفیق عطا کردیتا یا معصیت سے بچا لیتا ہے، عوض کا مطلب آخرت میں بندوں کی ایسی تکالیف کا ازالہ کردیا جانا ہے جو بلا عذر تھیں۔ یہ معتزلہ کے نظام فکر میں "مسئلہ شر " کے اس پہلو کا حل ہے جو انسانی افعال سے متعلق نہیں۔

ھ) عدل و حکمت (یعنی بندوں کی مصلحت) کے تقاضوں کے تحت یہ جائز نہیں کہ خدا اعمال کی جزا ان کی نوعیت کے مطابق نہ دے، یعنی اچھے عمل کی جزا ثواب اور برے کی عقاب۔

و) بندوں پر ایسے اعمال کی تکلیف ڈالنا جائز نہیں جنہیں ادا کرنے کی ان میں استطاعت نہ ہو (اسے تکلیف مالا یطاق کہتے ہیں)۔ ایسا حکم دینا سفاھت ہے جو خدا کے شایان شان نہیں۔

ذ) خدا از روئے حکمت بندوں کو ایسے افعال کا مکلف نہیں بنا سکتا جو برے ہیں، مثلا وہ کفر کرنے یا جھوٹ بولنے کا حکم نہیں دے سکتا کہ ایسا کرنا سفاہت ہوگی اور خدا اس سے منزہ ہے۔

ملاحظہ کیا جاسکتا ہے کہ (الف ) تا (ذ) تمام جزئیات معتزلہ کے نظریہ عدل و حکمت کے ساتھ مربوط ہیں۔

ماتریدیہ کا موقف

اب ہم ماتریدیہ کے موقف کا خلاصہ لکھتے ہیں۔

7۔ ماتریدیہ کے نزدیک حکمت کا مطلب کسی فعل میں "اصلح للعباد" کا پایا جانا نہیں بلکہ "عاقبت حمیدہ" کا پہلو پایا جانا ہے، چاہے اس میں اصلح للعباد کی رعایت ہو یا نہ ہو۔ یعنی حکیم وہ ہے جس کا فعل نتیجے کے اعتبار سے اچھا اور حمد کا کوئی پہلو لئے ہو، بعض معاملات میں وہ پہلو بندوں کی مصلحت بھی ہوسکتی ہے لیکن یہ ضروری نہیں۔ ایک عمل اپنے بعض فوری نتائج کے اعتبار سے شر معلوم ہوسکتا ہے، لیکن چونکہ وہ حکیم کا فعل ہے لہذا وسیع تر تناظر میں اس میں کوئی ایسا پہلو موجود ہوتا ہے جو نتیجے کے اعتبار سے اچھا و برتر اور لائق حمد ہوتا ہے۔ مثلاً کسی ڈاکٹر (حکیم) کا مریض کا آپریشن کرنا فوری طور پر تکلیف کا باعث ہوتا ہے، تاہم مریض کے وسیع تر تناظر میں وہ خیر ہوتا ہے۔ اسی طرح خدا کے ہر فعل (یہاں تک کہ شیطان کی تخلیق) میں بھی حکمتیں پوشیدہ ہیں۔

8۔ ماتریدیہ کا تصور حکمت دو اعتبارات سے معتزلہ کے تصور سے مختلف ہے:

الف) معتزلہ کا تصور (اصلح للعباد) بہت حد تک انسان مرکزیت (humancentricism) پر مبنی ہے اور اسی لئے ان کے ہاں اخلاقی قضایا سے متعلق انسانی تصورات و احساسات کو خدا پر لاگو کرنے کا رویہ زیادہ ہے جبکہ ماتریدیہ کے مطابق حکمت کے پہلو خدا کی جانب لوٹتے ہیں۔ چونکہ خدا حکیم ہے لہذا اس کے ہر فعل میں یقیناً کوئی نہ کوئی قابل حمد پہلو ہوتا ہے، چاہے انسان کو سمجھ آئے یا نہ آئے

ب) معتزلہ کا تصور "اصلح للعباد" محدود جبکہ ماتریدیہ کا تصور "عاقبت حمیدہ" وسیع تناظر کا حامل ہے اور اسی بنا پر وہ بعض ایسے افعال کی توجیہہ فراہم کرتا ہے جو معتزلہ کے تصور کے تحت ممکن نہیں جس کی مثالیں آگے آئیں گی۔

9۔ معتزلہ کی طرح ماتریدیہ کے نزدیک بھی عقل نیز خطاب الہی اعمال کی اخلاقی قدر ظاہر کرتے ہیں نہ کہ ان میں قدر وضع کرتے ہیں، اخلاقی قدر کی بنیاد صفت حکمت ہے۔ اسی بنا پر احناف کے ہاں حسن و قبیح لعینہ کی اقسام موجود ہیں۔ ماتریدیہ بھی معتزلہ کی طرح اعمال کو تین اقسام میں رکھتے ہیں جن کا ذکر اوپر گزرا ، اس کی بنیاد یہ ہے کہ ان کے مطابق حکمت (عاقبت حمیدہ) کے بعض مثبت و منفی پہلووں کو انسانی عقل جان سکتی ہے۔

10۔ جوابات کی نوعیت کے اعتبار سے ماتریدیہ کی آرا کو دو بڑے گروہوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے: سمرقندی روایت اور بخاری روایت۔ اول الذکر کے بڑے نمائندگان مثلاً خود امام ابو منصور ماتریدی (م 334 ھ) اور امام ابو معین نسفی (م 508 ھ) ہیں جبکہ میسر کتب کی رو سے موخر الذکر کے نمائندگان میں امام ابو الیسر بزدوی (م 493 ھ) اور علامہ کمال ابن الہمام (م 861 ھ ) وغیرہ ہیں۔ ان گروہوں کے مابین تحسین و تقبیح سے متعلق بعض مسائل پر اختلاف ہے، اگرچہ عام طور پر اول الذکر کی آر ا ہی ماتریدیہ کے ہاں عام مقبول ہیں۔

11 ۔ چنانچہ ماتریدیہ کا کہنا ہے کہ:

الف) جس شخص تک نبی کی خبر نہیں پہنچی اس پر توحید کا اقرار اور شرک سے اجتناب عقلاً واجب ہے، یہ اہل سمرقند کا قول ہے اور اس کی حمایت میں امام ابوحنیفہ (م 150ھ) سے دو مشہور اقوال بھی منقول ہیں۔ ان حضرات کے مطابق کفر وشرک کی شناعت اور ایمان باللہ و شکر منعم کا حسن ہونا حکمت کے ایسے لازمی تقاضوں میں سے ہے جن کا ادراک عقل کرسکتی ہے۔ تاہم امام ابوالیسر بزدوی اس تکلیف کے قائل نہیں اور وہ امام ابوحنیفہ کے قول کی توجیہہ کرتے ہیں۔ اہل سمرقند میں بعض کے ہاں یہ رائے بھی پائی جاتی ہے کہ نبی کو مبعوث کرنا بھی حکمت کے ضروری تقاضوں میں سے ہے۔

ب) خدا تمام افعال کا ارادہ کرنے والا اور انسان کے تمام افعال کا خالق ہے۔ چونکہ خدا کے ہر فعل میں کوئی حکمت پوشیدہ ہوتی ہے جو اس فعل کو بالآخر حسن بناتی ہے، لہذا خدا کا کوئی بھی ارادہ و فعل شر نہیں ہوسکتا۔ یہ مسئلہ خیر و شر (problem of evil) کا ماتریدی حل ہے اور اس مسئلے پر اہل سمرقند و بخاری کا اتفاق ہے۔ معتزلہ اصلح للعباد کے اپنے محدود تصور کی بنا پر انسانی ارادے سے ظاہر ہونے والے شر کی نسبت خدا کے ارادے کی جانب کرنے سے قاصر تھے، ماتریدیہ حکمت کے تصور کو پھیلا کر ایسا ممکن بنا دیتے ہیں کہ اگرچہ بندے کا کوئی فعل فوری و محدود تناظر میں شر ہو تاہم وسیع تر تناظرمیں وہ خیر (عاقبت حمیدہ کا پہلو لئے) ہی ہوتا ہے، لہذا خدا کی جانب سے اس کا ارادہ کرنا عدل و حکمت کے خلاف نہیں۔ کیونکہ معتزلہ کے نظرئیے میں شر کی نسبت خدا کی جانب جائز نہیں، لہذا ان کے نزدیک بندے کو عطا کردہ فعل کرنے کی قدرت فعل کرنے کے لمحے سے قبل ہوتی ہے جس میں استقلال پایا جاتا ہے تاکہ اس کے ارادے سے جنم لینے والے شر کی نسبت خدا کی جانب نہ ہو۔ اس کے برعکس ماتریدیہ کے نزدیک یہ قدرت فعل کے ساتھ اور لمحاتی ہوتی ہے اور یہ نتیجہ ان کے تصور حکمت کی بنا پر ممکن ہے۔ تاہم دونوں میں مشترک یہ ہے کہ ہر فریق اپنے اپنے انداز سے شر کی نسبت خدا سے دور کرتا ہے۔

ج) بندوں کے افعال سے جو نتائج ظاہر ہوتے ہیں (یعنی افعال متولدہ)، اسی درج بالا اصول پر خدا ان کا بھی خالق ہے۔

د) عقلاً یہ جائز ہے کہ خدا بندوں کو بلا کسی سابقہ گناہ تکلیف دے اور اس پر عوض دینا واجب نہیں، اس لئے کہ عین ممکن ہے ان مصائب کے پس پشت خدا کی کوئی حکمت پوشیدہ ہو جس کا ہمیں علم نہیں۔ یہاں پھر غور کیجئے کہ ماتریدیہ کا تصور حکمت کیونکر انہیں معتزلہ کے نتیجے سے الگ کررہا ہے۔ یاد رہے کہ یہاں یہ نہیں کہا جارہا کہ خدا ناگہانی مصائب کا عوض نہیں دے سکتا یا نہیں دے گا، وحی کی خبر کی بنیاد پر یہ تصور رکھنا جائز ہے۔ تاہم عقل کی رو سے تصور حکمت کے تحت یہ لزوم ثابت نہیں ہوتا جیسا کہ معتزلہ کا کہنا ہے۔

ھ) عدل و حکمت کے تقاضوں کے تحت یہ جائز نہیں کہ خدا کفر و شرک کرنے والے کو ابدی جنت اور اہل ایمان کو ابدی جہنم عطا کرے۔ اس مسئلے پر اہل سمرقند و بخاری کا اختلاف ہے کہ کیا واقعی عقل کی رو سے یہ حکمت کا کوئی تقاضا ہے؟ علامہ ابن الہمام اس کے قائل نہیں۔ لیکن جو اس کے قائل ہیں ان کے نزدیک ایسا فعل عاقبت حمیدہ کے پہلو سے خالی ہوگا اور نتیجتاً یہ خدا کے شایان شان نہیں۔

و) بندوں کو ایسے اعمال کی تکلیف دینا جائز نہیں جنہیں ادا کرنے کی ان میں استطاعت نہ ہو کیونکہ ایسا حکم دینا انسانوں کو مکلف بنا کر آزمائش میں ڈالنے کی حکمت کے خلاف ہے لہذا یہ سفاھت ہے جو خدا کے شایان شان نہیں۔ اس مسئلے پر بھی اہل سمر قند و اہل بخاری کا اختلاف ہے۔

ذ) خدا از روئے حکمت بندوں کو ایسے افعال کا مکلف نہیں بنا سکتا جو قطعی طور پر برے (قبیح لعینہ) ہیں جیسے کفر کرنے یا جھوٹ بولنے کا حکم دینا کہ ایسا حکم سفاہت ہے۔

12۔ ماتریدیہ کا تصور حکمت وسیع تر تناظر رکھنے کے باوجود چونکہ essentialist اخلاقی تصور ہے جس کے بعض پہلووں کے عقلی ادراک کا امکان بھی موجود ہے، لہذا معتزلہ کے نظرئیے کی طرح بعض مسائل میں وہ بھی قدرت و ارادہ باری تعالی پر چند اخلاقی حدود و قیود عائد کرتا ہے۔ تاہم اس بحث سے واضح ہے کہ ہر گروہ کی جزئیات ان کے اصول سے متفرع ہیں اور محض ان جزئیات کی مطابقت و اختلاف کی بنیاد پر انہیں ایک جیسا یا الگ قرار دینا درست نہیں۔

اشاعرہ کا موقف

اب اشاعرہ کے موقف کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے ۔

13۔ اشاعرہ کے نزدیک حکمت کا معنی نہ اصلح للعباد ہے اور نہ عاقبت حمیدہ، بلکہ اس کا مطلب فعل کا ارادے و مشیت کے مطابق ہونا ہے۔ حکیم وہ ہے جس کے افعال اس کے ارادے کے عین مطابق ہوں اور سفاہت کا مطلب فاعل کے ارادے اور فعل میں عدم مطابقت ہونا ہے، کہ مثلاً فاعل نے خاص طرز کا تالا یا جھولا بنانے کا ارادہ کیا لیکن بعینہ ویسا بنا نہ سکا۔ اس تعریف کے ذریعے اشاعرہ حکمت کو ان تمام اخلاقی تصورات سے جدا کر کے اسے خدا کی قدرت و ارادے کی جانب پھیر دیتے ہیں جو معتزلہ و ماتریدیہ کے اخلاقی نظریات میں پیوست ہیں۔

14۔ اشاعرہ کے نزدیک انسانی سطح پر اخلاقی قضایا کے نام پر افعال کے جو اخلاقی احکام و تصورات پائے جاتے ہیں وہ ان افعال کی خصوصیات نہیں ہیں، بلکہ وہ تصورات افعال اور فاعل کی غرض و مصلحت کے مابین ہم آہنگی یا عدم آہنگی سے جنم لیتے ہیں۔ جو فعل کسی فاعل کی غرض کے مطابق ہو وہ اسے حسن کہتا ہے ، جو اس کی غرض کے خلاف ہو وہ اس کے نزدیک قبیح کہلاتا ہے اور جو نہ اس کی غرض کے حصول میں مفید ہو اور نہ مزاحم اسے عمل عبث (یا سفاہت) کہتے ہیں۔ انسان کی بالاخر غرض و مصلحت جلب منفعت و دفع مضرت ہے اور انسانوں کی سطح پر خیر و شر کے تمام تصورات انہی سے ماخوذ ہیں۔

15۔ چونکہ خدا جلب منفعت و دفع مضرت نیز اغراض و مصلحتوں سے ماورا ہے، لہذا انسانوں کی سطح پر جاری ہونے والے اخلاقی تصورات کو خدا کے افعال کی نوعیت سمجھنے اور ان کی حد بندی کے لئے استعمال کرنے کی بنیاد موجود نہیں۔ اخلاقی قضایا سے متعلق Essentialist نظرئیے کا مفروضہ ہے کہ اخلاقی قضایا کی سچائی فاعل پر مبنی نہیں بلکہ از خود فعل کی نوعیت پر مبنی ہے۔ فاعل چاہے خدا ہو یا بندہ ، فعل کی اخلاقی قدر (moral value) کا اس سے تعلق نہیں۔ اس کے برعکس اشاعرہ کا کہنا ہے کہ فاعل دو طرح کے ہیں، انسان اور خدا۔ چونکہ انسانی سطح پر افعال پر لاگو ہونے والے اخلاقی احکام (moral judgements) اغراض و مصلحتوں سے عبارت ہیں اور خدا ان انسانی اغراض و مصلحتوں سے ماورا (بلکہ ان کا خالق) ہے، لہذا اول الذکر فاعل (یعنی انسان ) کے اخلاقی تصورات کو بنیاد بنا کر موخر الذکر فاعل (یعنی خدا ) کے افعال کی تفہیم ممکن نہیں۔ حسن، قبیح و عبث نیز عدل و ظلم کے جن تصورات سے ہم واقف ہیں وہ خدا کی بارگاہ میں لاگو ہی نہیں ہوتے۔ مثلاً ظلم کا مطلب کسی کی ملکیت میں ایسا تصرف ہےجو جائز نہیں جبکہ خدا کائنات کا تنہا مالک ہے اور اسے حق ہے کہ اپنی مملکت میں جیسے چاہے تصرف کرے، اس کا ہر فعل لازماً حسن و عدل (necessarily good and just) ہے (یعنی جو وہ کرے وہی حسن ہے)، اس کا ہر فعل حکمت والا ہے کیونکہ اس کا ہر فعل اس کے ارادے کے عین مطابق ہوتا ہے۔

16۔ حسن و قبح کے essentialist تصور کی تردید کے بعد اشاعرہ کا کہنا ہے کہ حسن کا ایک معنی کسی شے و فعل کی اغراض کے ساتھ ہم آہنگی ہے، دوسرا معنی کسی فعل کا مطلقا جواز ہونا ہے اور تیسرا مطلب اس پر ثواب و عقاب کے احکام کا مرتب ہونا ہے۔ پہلے معنی بندوں کے مابین معقول ہیں، دوسرے معنی اللہ تعالی سے متعلق ہیں اور تیسرے معنی انسان کی تکلیف کی بنیاد ہیں۔ چونکہ حسن و قبح کے انسانی تصورات (یعنی اغراض کے ساتھ ہم آھنگی و عدم آھنگی) کو بنیاد بنا کر یہ طے نہیں کیا جاسکتا کہ خدا کیسا حکم دے اور کیسا نہ دے، لہذا کس عمل پر ثواب ہوگا اور کس پر عقاب، اس کا عقلی ادراک ممکن نہیں اور یہ نبی کی خبر پر موقوف ہے۔ خدا کو حق ہے کہ جیسا چاہے حکم دے کہ اس کا ہر حکم عدل و حسن ہے۔

17۔ اسی لئے اشاعرہ کے نزدیک خدا کا حکم وخطاب کسی عمل کی قدر ظاہر نہیں کرتا بلکہ اس میں قدر وضع کرتا ہے اور خدا کے حکم پر کسی اخلاقی تصور کی بنیاد پر کوئی روک نہیں۔ معتزلہ و ماتریدیہ چونکہ essentialist تھیوری کے قائل ہیں، لہذا ان کے نزدیک خدا ایسا ہی حکم دیتا ہے جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق ہو (وہ تقاضے جو حکم سے الگ مستقل حیثیت رکھتے ہیں)۔ ان تقاضوں میں سے بعض کو چونکہ انسان جان سکتا ہے، لہذا ثواب و عقاب سے متعلق بعض پہلووں کو پہچاننے کی اساس انسانی عقل و فطرت کی گرفت میں ہے اور خدا کا حکم بھی ان کے مطابق ہی ہوتا ہے۔ اسی اصول کی بنا پر اصول فقہ میں امر کی بحث کی ابتدا کرتے ہوئے احناف کہتے ہیں کہ ہر امر میں لازما کوئی نہ کوئی حسن پہلو ہوتا ہے، اگرچہ وہ ہمیں معلوم نہ ہو۔ حنفی نظام میں اس جملے میں "حسن" سے مراد "عاقبت حمیدہ" ہوتی ہے جبکہ معتزلہ کے ہاں "اصلح للعباد"، تاہم دونوں کے ہاں امر و نہی حکمت الہیہ کے مطابق ہوتے ہیں۔

یاد رہے کہ خدا کے حکم کی عقل سے ماخوذ اخلاقی قضایا کے ساتھ مطابقت کا لزوم اس بنا پر نہیں کہ انسان اپنی عقل سے خدا پر کچھ واجب کررہا ہے بلکہ اس بنا پر ہے کہ یہ خدا کے حکیم ہونے کا تقاضا و مفہوم ہے جسے انسان نے بس پہچان لیا ہے، اسی طرح جیسے انسان نے خدا کے قادر ہونے کو پہچان لیا ہے (اس ادراک کی بنا پر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ "انسان نے خدا کو قادر بنا دیا ہے" بلکہ خدا لازما قادر ہی ہے)۔ معتزلہ و ماتریدیہ دونوں کے ہاں اس لزوم کا یہی مفہوم ہے۔ اشاعرہ چونکہ اس لزوم کو ثابت کرنے والی بنیاد ہی کے قائل نہیں، لہذ ان کے ہاں ایسا کوئی لزوم ثابت نہیں۔

18۔ اس اصول پر ان جزئیات سے متعلق اشاعرہ کے موقف کو سمجھا جا سکتا ہے جن کا ذکر اوپر گزرا:

الف) جس شخص تک نبی کی خبر نہیں پہنچی اس پر کسی شے کی تکلیف لازم نہیں کیونکہ تکلیف کا مطلب اللہ کی جانب سے ثواب و عقاب کے حکم کا جاری ہوکر بندے کو اس کا علم ہونا ہے اور یہ نبی کی خبر پر موقوف ہے۔

ب) خدا بندوں کے تمام افعال کا ارادہ کرنے والا ہے، اس کا ہر ارادہ لازماً حسن ہے۔ وہ جس چیز پر ثواب و عقاب کا ارادہ کرے، بندے کے لئے وہی حسن و قبیح ہے کیونکہ بندے کی غرض منفعت کا حصول اور مضرت کو دفع کرنا ہے ، لہذا ابدی زندگی کے ثواب کا حصول اور عقاب سے بچنے کے جذبات خدا کے حکم کو بندے کے عمل کی بنیاد بناتے ہیں۔ اس کے برعکس معتزلہ و ماتریدیہ کے ہاں اس کی بنیاد اخلاقی قضایا کی فاعل سے علی الرغم معروضی حیثیت ہے (کہ مثلاً شکر منعم چونکہ ہے ہی حسن اور انسان پر اس کی تکلیف عقل کی رو سے لازم ہے، لہذا یہ عقلی ادراک نبی کی بات ماننے کی بنیاد بنتا ہے)۔ چونکہ اشاعرہ کے ہاں حسن کامطلب خدا کی جانب سے ثواب دینے کا ارادہ کرنا اور قبیح کا مطلب عقاب دینے کا ارادہ کرنا ہے، لہذا خدا کا بندوں کےتمام افعال کا ارادہ کرنا عدل و حسن ہے کیونکہ اس پر حسن و قبح کا وہ اصول لاگو ہی نہیں جو بندوں پر لاگو ہے، وہ جو چاہے وہی حسن ہے۔ یہ "مسئلہ شر " (problem of evil) کا اشعری حل ہے۔

یہاں نوٹ کیجئے کہ ماتریدیہ بھی اس نتیجے تک پہنچتے ہیں کہ خدا انسان کے سب افعال کا خالق ہے لیکن ان کے استدلال کا اصول مختلف ہے۔ اسی طرح تینوں (معتزلہ، ماتریدیہ و اشاعرہ) کے نزدیک خدا کا ہر فعل حسن ہے اور وہ شر کا ارادہ نہیں کرتا، تاہم توجیہ کا طریقہ الگ اصول پر مبنی ہے۔

ج) اسی اصول پر خدا افعال متولدہ کا بھی خالق ہے۔

د) خدا کے لئے جائز ہے کہ بندوں کو بلا کسی سابقہ گناہ لطف و عوض کے بنا تکلیف دے۔

ھ) خدا کے لئے جائز ہے کہ کافر کو ابدی جنت اور ایمان والے کو ابدی جہنم دے، عقل کی رو سے خدا کے اس فعل میں کوئی ظلم و سفاہت نہیں۔

و) خدا کے لئے جائز ہے کہ بندوں کو ایسا حکم دے جس کی ادائیگی کی استطاعت بندے میں نہ ہو، عقل کی رو سے اس میں کوئی سفاہت نہیں۔

ذ) خدا کی جانب سے کفر و کذب پر ثواب دینے کا ارادہ کرنا عقلاً جائز ہے۔

نوٹ کیجئے کہ (د) تا (ذ) تمام جزئیات کی بنیاد اشاعرہ کے تصور حکمت پر مبنی یہ اصول ہے کہ خدا کا کوئی بھی فعل قبیح، ظلم یا سفاہت نہیں ہوسکتا، حکمت کے وہ تصورات (اصلح للعباد اور عاقبت حمیدہ) جن کی بنیاد پر قبیح لعینہ، ظلم یا سفاہت کے احکام خدا کے افعال پر جاری کئے جاتے ہیں، اشاعرہ اس کی بنیاد ہی کے قائل نہیں۔ یہاں یہ بات ذہن نشین رہے کہ اشاعرہ یہ نہیں کہتے کہ خدا کے حکم میں انسان کی کوئی مصلحت ہو ہی نہیں ہوسکتی، نص سے یقینا اس کا علم ہوسکتا ہے۔ درج بالا بحث حکم عقلی کے تناظر میں ہے۔

19۔ مسائل حسن و قبح پر تین گروہوں کے مواقف کا خلاصہ و موازنہ اس گوشوارے سے سمجھا جاسکتا ہے۔ ماتریدیہ کے ہاں دو آراء دکھانے کا مقصد جزئیات میں ماتریدیہ کا معتزلہ و اشاعرہ کے ساتھ امکانی حد تک اتفاق و عدم اتفاق کے پہلووں کو اجاگر کرنا ہے کیونکہ ماتریدیہ کو عام طور پر تحریروں میں ان دو گروہوں کے مابین رکھ کر بحث کی جاتی ہے، ان جزئیات سے متعلق بعض اختلافات دیگر کلامی مکاتب فکر کے ہاں بھی مل جاتے ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ جزئیات میں دونوں گروہوں سے اتفاق و عدم اتفاق سے علی الرغم ماتریدیہ کا اصول اور توجیہہ کا طریقہ دونوں سے مختلف ہے۔

خاتمہ بحث

20۔ یہ تحریر چند امور پر روشنی ڈالتی ہے:

الف) "فلاں قدیم عالم کی فلاں رائے ظاہر کرتی ہے کہ ان پر اعتزال کا اثر تھا"، یہ طریقہ بحث ناکافی ہے کیونکہ یہ محض نتائج دیکھ کر فیصلہ کرنا ہے جبکہ یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ ان کا اصول کیا تھا۔ معتزلہ و ماتریدیہ الگ اصول کی بنیاد پر بعض یکساں نتائج تک پہنچتے ہیں۔

ب) معتزلہ و ماتریدیہ ہر ایک کے نزدیک اگرچہ عقل اور وحی خیر و شر کو ظاہر کرتے ہیں نیز عقل سے بعض امور کی تکلیف لازم آتی ہے، تاہم اس کا یہ مطلب نہیں کہ دونوں کے نزدیک وحی کی ضرورت نہیں کیونکہ عقل سے معلوم ہونے والے ایسے معاملات بہت کم ہیں نیز وحی نے انہیں بھی موضوع بنایا ہے۔ چنانچہ حکمت کے پہلو سے ماخوذ قضایا کا زیادہ تر مقصد نص کی شرح کی بعض حدود و قیود متعین کرنا ہے (کہ مثلا چونکہ یہ اصول قطعی ہیں، لہذا نص میں ان امور کے خلاف بات نہیں ہوسکتی اور اگر بظاہر ہو تو ان اصولوں کی روشنی میں ان کی مناسب توجیہہ کی جائے گی)۔

ج) معتزلہ کے موقف سے متعلق یہ غلط فہمی عام رہی ہے کہ ان کے نزدیک عقل موجب (تکلیف شرعی واجب کرنے والی) ہے جبکہ ماتریدیہ کے نزدیک عقل صرف کاشف (اس تکلیف کو ظاہر کرنے والی) ہے، موجب ذات باری ہے۔ تاہم یہ کمزور بات ہے جیسا کہ قاضی عبد الجبار معتزلی (م 415 ھ ) کی کتب نیز متاخرین علمائے کلام کی آرا سے واضح ہے کیونکہ معتزلہ کے نزدیک بھی حسن و قبح کی وجودی بنیاد ذات باری کی صفت حکمت ہے (اگرچہ وہ اس کا الگ مفہوم مراد لیتے ہیں)۔ اس غلط فہمی کی بنا پر معتزلہ کو ان کے مخالفین کی جانب سے عقل سے شریعت سازی کرنے کا الزام دیا جاتا رہا۔

د) معتزلہ کا اصل مقصد شریعت کو معطل کرنا نہیں تھا بلکہ ان کا اصل زور چار پہلووں پر تھا:

  • شر سے خدا کی تنزیہہ و پاکی بیان کرنا،
  • انسانی ذمہ داری کے لئے انسان کے اختیار کے پہلو کو اجاگر کرنا،
  • یہ واضح کرنا کہ خدا کی جانب سے بندوں کو مکلف بنانا عدل کے انسانی تصورات و تقاضوں کی رو سے عین جائز ہے اور اگر نبی مبعوث نہ ہو تب بھی بندے عقل و فطرت کے تقاضوں کے تحت جوابدہ ہوں گے،
  • نیز اثبات نبوت کی دلیل سے متعلق بعض مسائل کا قابل فہم حل نکالنا (اس پہلو پر تحریر میں گفتگو نہیں ہوئی، ماتریدیہ کے بعض مواقف کے پس پشت بھی یہ پہلو موجود ہے)۔

ھ) معتزلہ کے موقف کو عمومی قسم کے بیانات کے ساتھ بیان کرکے اسے معتزلہ کی جانب منسوب کرنا درست نہیں کیونکہ وہ عمومی بیانات اہل سنت کے موقف پر بھی لاگو ہو جاتے ہیں۔ مثلاً یوں کہنا کہ "معتزلہ کے نزدیک حسن و قبح اعمال کے ذاتی اوصاف ہیں جنہیں عقل سے جانا جاسکنا ممکن ہے اور اس عقلی ادراک سے تکلیف شرعی لازم آتی ہے"۔ ظاہر ہے یہ عمومی بیان اہل سنت میں ماتریدیہ کے ایک گروہ پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ اسی لئے خود ماتریدیہ اپنی کتب میں تحسین و تقبیح پر بحث کرتے ہوئے اپنا موقف یوں بیان نہیں کرتے بلکہ وہ اصلح للعباد کے پہلو اور اس کے تقاضوں کی تردید پر زور دیتے ہیں کیونکہ یہ وہ خاص پہلو ہے جو ماتریدیہ کو معتزلہ سے الگ کرتا ہے۔

و) ماتریدیہ کے موقف کو صرف جزئیات پر فوکس کرتے ہوئے معتزلہ و اشاعرہ کے مواقف کے مابین بطور سینڈوچ ("درمیانی" یا "متوسط" رائے) بنا کر پیش کرنا درست طریقہ نہیں، بالخصوص جب اصول بھی واضح نہ کیا جائے۔

ذ) محض جزئیات کے پیش نظر اشاعرہ کے بعض مواقف سے جو توحش محسوس ہوتا ہے(مثلاً یہ کہ خدا کفر کا حکم دے سکتا ہے)، وہ ان کا اصول نہ سمجھنے کی بنا پر ہوتا ہے۔

ح) ماتریدیہ میں بخاری روایت کے حاملین مسائل تحسین و تقبیح میں اگرچہ اکثر و بیشتر اشاعرہ کے ساتھ ہیں، تاہم اس کا یہ مطلب نہیں کہ دونوں کے ہاں حکمت کا مفہوم بھی یکساں ہے، اشاعرہ ان نتائج تک حکمت کے اپنے جدا گانہ تصور کی بنا پر پہنچتے ہیں۔ اسی لئےیہ ہر مسئلے پر یکساں رائے نہیں رکھتے۔

ط) اسی طرح مسائل تحسین و تقبیح پر ماضی قریب اور جدید دور کی بعض شخصیات کی آرا کو بھی بعض جزوی مماثلتوں کی بنا پر معتزلہ کی رائے کے ساتھ ملانا درست نہیں کیونکہ اس نوع کی آرا اہل سنت کے ہاں بھی موجود ہیں۔ یہاں بھی ہر کسی کے اصول کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔

اس مختصر تحریر میں مسائل تحسین و تقبیح کے اصولوں اور اکثر جزئیات کا نچوڑ پیش کردیا گیا ہے۔ وما توفیقی الا باللہ


آراء و افکار

(جون ۲۰۲۳ء)

تلاش

Flag Counter