اسلامی معاشیات یا سرمایہ داری کا اسلامی جواز؟ (۱)

محمد زاہد صدیق مغل

(وضاحت: مضمون کا مقصد کسی کی علمی حیثیت کم کرنا یا کسی کے خلوص پر شک کرنا ہرگز نہیں، بلکہ راقم الحروف کے خیال میں اسلامی معاشیات و بینکاری سے منسلک تمام حضرات خلوص دل کے ساتھ اسے خدمت اسلام سمجھتے ہیں اور ان کی غلطی اجتہادی خطا پر محمول ہے۔ واللہ اعلم بالصواب)


ارباب فکر و نظر پر خوب واضح ہے کہ پچھلی دو صدیوں کے دوران سر مایہ دارانہ نظام کے غلبے کے نتیجے میں اسلا می اصولوں کے مطا بق زندگی گزارنے کے مواقع کم سے کم تر ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ چو نکہ معاش معا شرتی زندگی کا وہ شعبہ ہے جس سے ہر خاص وعا م کو وا سطہ پڑتا ہے، لہٰذا اس کے تباہ کن اثرات سب سے زیادہ اسی شعبہ زندگی پر پڑے ہیں۔ نیز چونکہ سرمایہ داری کا اصل مقصد و محور صرف معاش ہی معاش ہے، لہٰذا موجودہ دور میں معا شی مسائل ہی نے سب سے زیادہ اہمیت اختیار کر لی ہے اورزندگی کے ہر مسئلے کو ’معاد‘ کے بجا ئے ’معا ش‘ کے نقطہ نگاہ سے دیکھے جانے کی روش عام ہونے لگی ہے اور اسی روش کے عام ہونے سے سرمایہ داری معا شروں پر غالب آاتی ہے۔ مثلاً سود کے مسئلے کو لیجیے، اس کے حق میں جتنی بھی عقلی تو جیہات پیش کی جاتی ہیں، ان کا لب لباب یہی تو ہے کہ یہ ترقی یعنی معا ش کی بڑھوتری کا ضامن ہے۔ لیکن معاد کا نقطہ نگاہ یہ ہے کہ سود اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے اعلان جنگ ہے، نیز آخرت میں ذلت و رسوائی کا باعث ہے۔ پس جب تک افراد اپنے معاش کے معا ملات کو معاد کے نقطہ نگاہ سے دیکھتے رہیں گے، سرمایہ داری کبھی معاشرے پر غالب نہیں آ سکتی، اور یہی وجہ ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام زندگی کی تمام تو جیہات، چاہے وہ لبرلزم ہو یا سوشلزم، مذہب کی معا شرتی بالا دستی کی شدید دشمن ہیں۔ 

معا شی مسا ئل حل کرنے کے لیے علماے کرام پہلے ہی دن سے جز واً جزواً پیش آنے والے مختلف مسا ئل اور ان کی شرعی حیثیت کے بارے میں ار با ب اختیار اور عوام کو آگاہ اور متنبہ کرتے چلے آئے ہیں اور الحمد للہ یہ سلسلہ آج بھی جاری و ساری ہے۔ ایسے ہی پیش آنے والے مسا ئل میں سے ایک اہم مسئلہ موجودہ سود پر مبنی بینکاری نظام کی شرعی حیثیت اور اس کے متبادل کا بھی تھا۔ علماے کرام نے اس مسئلے پر مختلف جہات سے اپنی اپنی تحقیقات پر مبنی لائق تحسین آرا پیش کیں جن کے نتیجے میں یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو کر سامنے آگئی کہ موجودہ بینکاری نظام میں جاری و ساری سود وہی ربا ہے جسے قرآن نے حرام قرار دیا ہے، لہٰذا جب تک بینکاری نظام کو سود سے پاک نہیں کیا جاتا اس وقت تک یہ کاروبار شرعاً جائز قرار نہیں دیا جا سکتا۔ بینکاری نظام کی اس شرعی حیثیت کو متعین کرنے کے بعد دوسرا مسئلہ اسکا متبادل نظام وضع کرنے کا تھا تو اس سلسلے میں بھی امت مسلمہ کے مختلف ممالک کے علما نے کئی حل پیش کیے ہیں اور مملکت پاکستان میں بھی اس امر میں کافی پیش قدمی ہوئی اور اس ضمن مولانا مفتی تقی عثمانی صا حب کی کاوشیں خصوصی اہمیت کی حامل ہیں۔ البتہ اس سلسلے میں کی گئیں تمام تر تحقیقات علماے کرام کے ذاتی اجتہا دات و آرا پر مبنی ہیں اور اب تک کوئی اجماعی رائے سامنے نہیں آسکی ۔ اسی طرح مروجہ اسلامی نظام بینکاری و زر (Finance) کی شرعی حیثیت اور مقاصد شریعہ کے حصول میں اس کی افادیت پر بھی علماے کرام مختلف الرائے ہیں۔ اسلامی بینکاری نظام پر تنقیدی تناظر میں کئی جہتوں پر بحث کرنا ممکن ہے، مثلاً: 

  • موجودہ بینکاری کی اسلام کاری کے امکانات، جس میں یہ سمجھنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ آیا موجودہ نظام بینکاری کو اسلامیانے کا کوئی طریقہ ممکن بھی ہے یا نہیں۔ کیا واقعی بینک ایک زری ثالث (financial intermediate) ہوتا ہے یا کچھ اور؟ 
  • اسلامی بینکاری نظام کار (methodology)کا اصول شریعہ کی روشنی میں تنقیدی جائزہ ، جس میں جزواً جزواً یہ دیکھا جاتا ہے کہ اسلامی بینک جو زری سروسز اور پراڈکٹس (Financial products and services) مہیا کرتے ہیں، آیا وہ قواعد شریعہ کے مطابق ہیں یا نہیں ؟
  • اسلامی اور مروجہ بینکاری نظام کا تطبیقی موازنہ، جس میں یہ دیکھنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ آیا واقعی اسلامی بینک موجودہ بینکاری نظام سے علیحدہ کوئی کام کربھی رہے ہیں یا محض لفظی ہیر پھیر سے کام چلا رہے ہیں ۔
  • سرمایہ داری اور اسلامی بینکاری کا باہمی ربط، جس میں اسلامی بینکاری نظام کار کو جزوی طور پر نہیں بلکہ ایک بڑے نظام زندگی کے ایک پرزے کے طور پر جانچ کر یہ دیکھنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ آیا اس طریقہ کار سے مقاصد الشریعہ کا حصول ممکن ہے بھی یا نہیں ۔

اس مضمون کا مقصد ان تمام تناظروں پر نہیں بلکہ صرف آخری تناظر میں بحث کرنا ہے، یعنی ہمارے تجزیے کی بنیاد (unit of analysis) جزوی تفصیلات نہیں بلکہ نظام ہے۔ ہم یہ سمجھنے کی کوشش کریں گے کہ کس طرح اسلامی معاشیات و بینکاری نظام کا فلسفہ اور حکمت عملی سرمایہ داری کی تقویت اور اسلامی زندگی کی بیخ کنی کا باعث بنتا ہے۔ چونکہ پاکستان میں اسلامی بینکاری وغیرہ پر سب سے عمدہ تحقیق مولانا تقی عثمانی صاحب نے فرمائی ہے، لہٰذا ہمارے پیش نظر آپ کی کتاب ’’اسلام اور جدید معیشت و تجارت‘‘ ہے۔ مولانا کی قد آور شخصیت اور علماے کرام کے سامنے خطبات کی صورت میں پیش کیے جانے کی بنا پر اس کتاب کی علمی اہمیت و ثقاہت (authenticity) دیگر کتب سے بہت بڑھ کر ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس کتاب کو مدارس میں ایک بنیادی نصابی کتاب کے طور پر شامل کرلیا گیا ہے۔ 

مباحث مضمون کو ہم دو حصوں میں تقسیم کرتے ہیں۔ پہلے حصے میں اسلامی معاشیات کا علمیاتی تناظر اور عمومی ڈھانچہ (framework) بیان کرکے یہ دکھایا جائے گا کہ کیونکر اسلامی معاشیات کا لازمی نتیجہ سرمایہ داری ہی کی بالادستی ہے اور دوسرے حصے میں مولانا کی کتاب سے اس عمومی ڈھانچے کی تصویب (endorsement) بیان کرکے اس کی بنیادی غلطیاں واضح کی جائیں گی۔ وماتوفیقی الا باللہ 

۱ ) اسلامی معاشیات کا علمیاتی ڈھانچہ (epistemological framework)

دیگر سائنسز کی اسلام کاری کی طرح اسلامی معاشیات کی بنیادی غلطی سوشل سائنسز کو غیر اقداری (value-neutral) علمیت سمجھ کر اختیار کرلینا ہے۔ اسلامی ماہرین معاشیات کے خیال میں سوشل سائنسز کوئی ایسا غیر اقداری فریم ورک ہے جو کسی ’مجرد انسان ‘ (abstract and neutral human being) کے رویے سے بحث کرتا ہے، یعنی سوشل سائنسز کے فراہم کردہ فریم ورک کو ’کسی بھی‘ فرد اور معاشرے کے عمومی رویے کو سمجھنے اور ان سے حاصل ہونے والی پالیسیوں کو کسی بھی معاشرے پر لاگو کرکے ہر قسم کے مقاصد حاصل کرنا ممکن ہے۔ گویا ان کا مفروضہ یہ ہے کہ سوشل سائنسز کی حیثیت بس ایک آلے (tool) کی ہے جسے اپنی مرضی کے مطابق استعمال کیا جاسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلم مفکرین مغربی علوم کو ’’جو اچھا ہے وہ لے لو اور جو برا ہے اسے چھوڑ دو‘‘ کے پیرایے میں دیکھتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ سوشل سائنسز ہرگز کوئی غیر اقداری علوم نہیں بلکہ علوم اسلامیہ کی طرح ان کا ایک مخصوص مقصد ہے۔ سوشل سائنسز کسی ایسے ماورا انسان کے رویے سے بحث نہیں کرتے جس کے تناظر میں ’ہر‘ فرد اور معاشرے کا رویہ سمجھنا ممکن ہے اور نہ ہی یہ کوئی ایسی اٹل حقیقت ہیں جن کی بنیاد ایسے آفاقی تصورات پر قائم ہے جو ’انسانیت بحیثیت مجموعی‘ کا مظہر ہیں، بلکہ یہ اس مخصوص انسان کے رویے سے بحث کرتی ہیں جسے ہیومن بینگ (Human being)کہا جاتا ہے۔(ہیومن بینگ کی تفصیلات کے لیے دیکھیے راقم الحروف کا مضمون، ماہنامہ الشریعہ، مئی ۲۰۰۸) مختصراً ہیومن بینگ سے مراد ایسا انسا ن ہے: 

۱) جو خود کو قائم بالذات (الصمد) مانتا ہے ،

۲) جس کی نظر میں تمام تصورات خیر اور زندگی گزارنے کے تمام طریقے مساوی حیثیت رکھتے ہیں، اور جس کے خیال میں قدر متعین کرنے کا واحد پیمانہ انسانی ارادہ ہے، 

۳) جس کا مقصد زندگی انسانی ارادے و خواہشات کی لامحدود تکمیل یعنی سرمایے میں لامحدود اضافہ کرنا ہوتا ہے۔ 

تمام سوشل سائنسز درحقیقت اس مخصوص انسان اور اس کے تعلقات سے ابھرنے والی معاشرت و ریاست سے بحث کرتی ہیں، یعنی ان کا مطمع نظر ایک ایسے معیاری معا شرے اور ریاست کی ترتیب و تنظیم کا لائحہ عمل وضع کرنا ہے جہا ں افراد کو زیادہ سے زیادہ آزادی اور سرمایے کی بڑھوتری کے مواقع میسر آسکیں۔ اس مخصوص انفرادی پس منظر کے علاوہ کسی دوسری انفردایت اور معاشرت کے رویے کی تفہیم کے لیے یہ سرے سے کوئی بنیاد فراہم ہی نہیں کرتیں۔ اس کی مثال یوں سمجھی جا سکتی ہے جیسے اسلامی علمیت میں علم الفقہ کا مقصد قرآن و سنت میں وارد شدہ نصوص سے وہ اصول اخذ کرنا ہے جن کی روشنی میں یہ طے کیا جا سکے کہ ان گنت انسانی اعمال و افعال سے رضا ے الہٰی کے حصول کا درست طریقہ کیا ہے (یعنی ان اعمال کا شرعی حکم بیان کیا جا سکے) نیز یہ معلوم کیا جا سکے کہ افراد کے تعلقات کو کن تعلیمات کا پا بند بنا کر معاشرے کو احکامات الہٰی کے تابع کیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح علم تصوف کا مقصد وہ لائحہ عمل فراہم کرنا ہے جس کے ذریعے فرد اپنے نفس کو احکامات الہٰی پر راضی کرنے کے قابل ہوجائے۔ بالکل اسی طرح سوشل سائنسز کا مقصد ایک طرف سرمایہ دارانہ شخصیت ، معا شرے و ریاست کی علمی توجیہ پیش کرنا ہے اور دوسری طرف یہ افراد کے تعلقات میں آزادی کی ان لازمی حد ود کا تعین کرنے کے اصول وضع کرتی ہیں جن کے نتیجے میں سرمایہ دارانہ معا شرتی و ریاستی صف بندی وجود میں آسکے۔ (سو شل سائنسز کا معا شرتی پالیسیاں وضع کرنے کے ساتھ کیا تعلق ہے، اس کے لیے جمہوریت پر ہمار ا مضمون دیکھیے : ساحل نومبر ۲۰۰۶ )۔ سو شل سائنسز کا مقصد ایک ایسے دستور، ایک ایسے قانون، ایک ایسے معا شرتی نظام کا قیا م ہے جسے الہامی اور آسمانی قانون سے کوئی واسطہ یا رابطہ نہ ہو۔ جس طرح علم تصوف کوئی ایسا غیر اقداری علم نہیں جس کے ذریعے ’ہر قسم کی انفرادیت ‘ کا فروغ ممکن ہوسکے ، بالکل اسی طرح سوشل سائنسز بھی کوئی غیر اقداری علوم نہیں بلکہ یہ ایک مخصوص انفرادیت کے رویے سے بحث کرتی ہیں۔ 

اس ضمن میں دوسری بات یہ کہ ہر اجتماعیت یا معاشرتی صف بندی کو تشکیل دینے کے لیے ایک خاص نوعیت کی پالیسیاں اور قوت نافذہ یا ریاستی ادارے کی ضرورت ہوتی ہے ۔ یہ پالیسیاں ایک علمیت سے نکلتی ہیں جو ایک مخصوص انفرادیت، معاشرت و ریاست کی تشکیل اور تنظیم کو ممکن بنانے کا ذریعہ ہوتی ہیں۔ ہر پالیسی ہر قسم کے معاشرے میں قابل استعمال نہیں ہوتی جس کی بنیادی وجہ اس مقصد کا اختلاف ہوتا ہے جس کے لیے افراد کسی معاشرتی صف بندی کی پابندی کو قبول کرتے ہیں۔ مثلاً ایک ایسا معاشرہ جس کا مقصد وجود آزادی اور لذت پرستی ہو، اس میں شراب وشباب خانے پھیلانے، قرضے کی معیشت کو عام کرنے عورتوں کو ملازمت کا پیشہ اختیار کرنے پر ابھارنے وغیرہ کی پالیسی اس مقصد کی منطق کے عین مطابق ہے، جبکہ یہی پالیسیاں ایک مذہبی معاشرے کے مقصد کے لیے سم قاتل ثابت ہوتی ہیں۔ایک لبرل سرمایہ دارانہ (capitalist) معاشرے کو کامیاب طریقے سے چلانے کے لیے مارکیٹ کے ادارے کو زیادہ سے زیادہ مضبوط بنانے کی پالیسی اپنانا پڑتی ہے جبکہ ایک اشتراکی (socialist) معاشرے کے قیام کے لیے سب سے پہلے اسی مارکیٹ کے ادارے کوتہس نہس کرنا ضروری امر ہوتا ہے[گو کہ سرمایہ داری اور اشتراکیت دونوں کا اصل مقصد آزادی یا سرمایے کی بڑھوتری ہی ہوتا ہے، دونوں ہی تحریک تنویر سے نکلنے والے دو دھارے ہیں جن میں اختلاف اس بات پر ہے کہ اس مقصد کو حاصل کرنے کا صحیح ترین طریقہ کیا ہے] چنانچہ پالیسی اور مقصد کا تعلق اس قدر واضح بات ہے کہ اگر آپ سے کوئی کہے ’’پالیسی بناؤ‘‘ تو آپ اس سے پہلا سوال یہی پوچھیں گے ’’کس لیے‘‘۔ آپ پالیسی کو کسی حکیم کے نسخے کے مشابہ سمجھ سکتے ہیں کہ جیسے ہر نسخہ ہر بیماری میں قابل استعمال نہیں ہوتا، با لکل ایسے ہی ہر مقصد ہر پالیسی کے ذریعے قابل حصول نہیں ہوتا۔ مقصد کا یہ تعلق نہ صرف پالیسی کے ساتھ، بلکہ خاص نوعیت کے ریاستی ادارے کی ہیئت کے ساتھ بھی ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر ایک لبرل سرمایہ دارانہ معاشرہ جمہوری طرز حکومت جبکہ اشتراکی معاشرہ مزدوروں کی ڈکٹیٹر شپ کا خواہاں ہوتا ہے۔ چنانچہ سوشل سائنسز کے تجزیے سے ماخوذ شدہ پالیسیاں ہر گز اسلامی معاشرت کے فروغ کاباعث نہیں بنتیں بلکہ ان کے نتیجے میں سرمایہ دارانہ انفرادیت و معاشرت ہی کا فروغ ظہور پزیر ہوتا ہے۔ پس یوں سمجھیے کہ سوشل سائنسز سرمایہ دارانہ نظام زندگی کی علمیت (Epistemology) ہیں جو اس نظام کے تحت گزاری جانے والی زندگی کی عملی شکل اور اس کے لوازمات کی وضاحت کرتی ہیں۔ دوسرے لفظوں میں یہ سرمایہ داری کے بازو ہیں جن کے سہارے یہ ایک عملی نظام زندگی کی شکل اختیار کر پاتا ہے۔ 

علم معاشیات کا خاکہ 

اس اصولی تمہید کے بعد اب ہم معاشیات کے مضمون کے علمی ڈھانچے کا عمومی نقشہ پیش کرتے ہیں۔ یوں تو معاشیات کے مضمون میں کئی مکتبہ ہائے فکر نمایاں اہمیت کے حامل ہیں، البتہ تین اہم ترین نظریات درج ذیل ہیں: 

۱) نیوکلاسیکل (neoclassical) یا مارکیٹ اکانومی جوسرمایہ داری کی لبرل (یعنی Individualistic ) تعبیر کی توجیہ و تشریح بیان کرتی ہے ۔

۲) سوشلزم و مارکسزم ، جو سرمایہ داری کی اجتماعی (collectivist)تعبیر بیان کرتی ہیں ۔

۳) سوشل ڈیموکریسی جو اول الذکر دونوں کی خامیوں کو دور کرکے اور خوبیوں کو جمع کرکے سرمایہ داری کے لیے ایک قدرے بہتر فریم ورک فراہم کرنے کی کوشش کرتی ہے ، اسے مکسڈ (mixed)اکانومی وغیرہ بھی کہا جاتا ہے۔ 

ان تینوں نظریات کے اندر بذات خود کئی ذیلی نظریات بھی موجود ہیں جن کی تفصیل کا یہ موقع نہیں۔ (اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے فقہ حنفی کے اندر پھر بریلوی یا دیوبندی کی تقسیم وغیرہ )۔ یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ ان تمام نظریات میں اختلاف اہداف (ends) پر نہیں بلکہ طریقہ کار (method) پر ہے ، یعنی لبرل سرمایہ داری ہو یا اشتراکی سرمایہ داری دونوں کے نزدیک اصل اہداف و مقاصد آزادی، مساوات اور ترقی ہی ہیں، البتہ اختلاف اس امر میں ہے کہ ان اہداف کو حاصل کرنے کا درست طریقہ کار کیا ہے۔ ایک کے نزدیک وہ طریقہ مارکیٹ اکانومی جبکہ دوسرے کے نزدیک پلاننگ ہے۔ اسی طرح سوشل ڈیموکریسی بھی ان تینوں سے علیحدہ کوئی منفرد نظام نہیں بلکہ انہی مقاصد کے لیے دونوں کی خوبیوں کو جمع کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کی مثال یوں سمجھیے جیسے فقہ کے مختلف مکاتب فکر میں یہ مقصد مشترک ہے کہ سب کے سب شارع ہی کی رضا حاصل کرنے کا درست طریقہ معلوم کرنا چاہتے ہیں۔ اسلامی معاشیات در حقیقت نیوکلاسیکل نظریہ اکنامکس کی ایک ذیلی شکل (off-shoot) ہے نہ کہ بذات خود کوئی علیحدہ مکتبہ ہائے فکر (independent school of thought)۔ ایسا اس لیے کہ اسلامی معاشیات نیوکلاسیکل اکنامکس کے تمام بنیادی تصورات کو ’فطری حقائق ‘ مان کر اس میں چند تحدیدات تجویز کرتی ہے۔ نیوکلاسیکل اکنامکس بنیادی طور پر سرمایہ دارانہ شخصیت ہیومن بینگ کے رویے سے بحث کرتی ہے جس کے مطابق : 

۱) انسان اصلاً آزاد ہے، اس کی خواہشات لامحدود ہونی چاہئیں اور زندگی کا مقصد زیادہ سے زیادہ خواہشات کی تکمیل ہے۔

۲) ہر قسم کے نظام ہدایت سے علی الرغم اپنی خواہشات کی ترجیحات طے کرنے کا معیار ہر فرد کا نفس ہے جسے حاصل کرنے کی جدوجہد کا اسے حق ہے (every individual is the best judge of his own welfare) ۔

۳) عمل صرف کا مقصد زیادہ سے زیادہ لذت (utility maximization)کا حصول ہے۔ لذت پرستی کے اس انفرادی تعقل اور روحانیت کی بنیاد پر علم معاشیات صارف کا رویہ (consumer behavior) کچھ یوں بیان کرتی ہے کہ اس کا مقصد تو حصول لذت ہی ہوتا ہے مگر مسئلہ یہ ہے کہ اس کے پاس اتنی آمدن نہیں کہ وہ اپنی تمام خواہشات پوری کرنے پر قادر ہو۔ لہٰذا صارف کو چاہیے کہ وہ حصول لذت کے زیادہ سے زیادہ مواقع حاصل کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ آمدن کمانے کی کوشش کرتا رہے اور ذرائع میں اضافہ کرنے کی جدوجہد کرنا ہی عقلمندی (rationality) کا معیار ہے۔

۴) پیداواری عمل کا مقصد زیادہ سے زیادہ نفع خوری (profit maximization) اور سرمایے کی بڑھوتری (accumulation of capital) ہونا چاہیے۔ پیداواری عمل میں منتہا اضافے کے لیے ضروری ہے کہ یہ عمل مسابقت (competition) کے اصول پر مرتب ہو اور ہر فرد کو چاہئے کہ وہ اپنی توانیاں اور مہارت (talent) سرمایے میں اضافے کے لیے تج کردے ۔

۵) تمام تر معاشرتی تعلقات غرض کی بنیاد پر قائم ہونے چاہئیں جن کا مقصد اپنے اپنے مقاصد کا حصول ہوتا ہے۔ 

ان تمام تصورات کوفطری ماننے کے بعد نیوکلاسیکل اکنامکس ان سوالا ت کا جواب دیتی ہے کہ:

الف) وہ کون سی معاشرتی ادارتی صف بندی (institutional arrangment)ہے جس کے نتیجے میں ہر فرد کے لیے سرمائے کی بڑھوتری اور عمل صرف کے زیادہ سے زیادہ مواقع فراہم کیے جا سکتے ہیں ۔

ب) حکومت کا تعلق معاشرے کے ساتھ کس نوعیت کا ہونا چاہیے، یعنی وہ ریاستی لائحہ عمل (state policy)کیا ہے جسے اپنانے کے نتیجے میں سرمایے کا اضافہ تیز ہوسکے اور سرمایے کی بڑھوتری کے لیے کس قسم کے محرکات کو معاشرے میں عام کرنا چاہیے، وغیرہ غیرہ ۔

نیوکلاسیکل ماہرین معاشیات کے خیال میں مارکیٹ (market) وہ ادارہ ہے جو سرمایے میں تیز ترین اضافے کی بنیاد فراہم کرتا ہے، یعنی اگر تمام ذرائع پیداوار کو مارکیٹ کے تابع کردیا جائے تو سرمایے میں اضافے کی شرح سب سے زیادہ ہوسکے گی۔ مارکیٹ سے مراد وہ نظام ہے جہاں افراد غرض کی بنیاد پر ایک دوسرے سے تعلق قائم کرتے ہیں اور کسی شے و خدمت کی قدر کا تعین اس معیار سے طے پاتا ہے کہ اس کے نتیجے میں مجموعی لذت (aggregate utility) اور سرمایے کی بڑھوتری میں کتنا اضافہ ہوتا ہے۔ مثلاً ایک کرکٹر کی تنخواہ امام مسجد سے کئی لاکھ گناہ زیادہ اس لیے ہوتی ہے کہ اس کے عمل سے سرمایے میں اتنی ہی مناسبت سے زیادہ اضافہ ہوتا ہے، ایک ڈاکٹر کی فیس قرآن پڑھانے والے قاری صاحب کی فیس سے ، نیز بینک کے شریعہ ایڈوائزر کی فیس مدرسے کے مدرس سے اسی بنیاد پر زیادہ ہوتی ہے کہ ان کی صلاحیتیں سرمایے میں زیادہ اضافے کا باعث بنتی ہے۔ الغرض مارکیٹ جس بنیاد پر قدر کا تعین کرتی ہے، وہ سرمایے میں اضافے کا اصول ہے اور اس پیمانے کے علاوہ کسی عمل کی قدر متعین کرنے کا کوئی دوسراپیمانہ سرمایہ داری میں سرے سے مفقود ہے۔ طلب و رسد (supply and demand) کے قوانین سرمایے میں اضافے ہی کے اظہار کا ذریعہ ہیں۔ ان قوانین کے پیچھے جو ذہنیت (rationality) کار فرما ہوتی ہے وہ سرمایے میں اضافے (accumulation) اور مسابقت (competition) کی عقلیت ہے، یعنی مارکیٹ در حقیقت حرص و حسد (accumulation and competition) کی روحانیت کا اظہار ہوتی ہے۔ 

المختصر اس نظریہ معاشیات کے مطابق مارکیٹ وہ ادارہ ہے جہاں ہر شخص کو اپنی ’ہر قسم ‘ کی خواہشات حاصل کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ سرمایہ کمانے کے موقع ملتے ہیں۔ مزید یہ کہ اس معاشرتی صف بندی میں حکومت کا کام خود کاروبار کرنا نہیں بلکہ نفع خوری کے مجموعی عمل پر مبنی کاروبار کا تحفظ ہوتاہے جسے nightwatch man state کہتے ہیں۔ اس ریاست کا کام ایسا لائحہ عمل (macroeconomic policy) بنانا ہوتا ہے جس کے ذریعے مسابقت کی بنیاد پر قائم بڑھوتری سرمایے کا نظام باہمی مسابقت کی وجہ سے انتشار کا شکار نہ ہو۔ اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ مارکیٹ اکانومی میں بڑھوتری سرمایے کا طریقہ کمپنیوں کے درمیان مسابقت ہوتا ہے اور اس طریقہ کار میں یہ امکان ہمیشہ رہتا ہے کہ کمپنیوں اور افراد کی رسہ کشی کے نتیجے میں مجموعی نفع میں اضافے کے بجائے کمی ہوجائے، لہٰذا لبرل جمہوری حکومت ایسی پالیسی اپناتی ہے کہ متضاد مفادات (conflicting interests) کے گروہوں (مثلاً مزدور اور سرمایہ دار) اور کمپنیوں کی باہمی رسہ کشی کے باوجود مجموعی نفع میں اضافہ ہوتا چلا جائے ۔ 

اس تفصیل سے واضح ہے کہ نیوکلاسیکل اکنامکس جو معاشرتی و ریاستی لائحہ عمل فراہم کرتی ہے، وہ ہر گز بھی غیر اقداری نہیں بلکہ سرمایہ دارانہ مقصد (عمل تکاثر) اور اخلاقیات (حرص و حسد ) کے حصول کا ذریعہ ہے۔ یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ مارکیٹ کا اثر و نفوذ تو معاشرے میں بڑھ رہا ہو مگر افراد حرص و حسد کی ذہنیت میں مبتلا نہ ہورہے ہوں۔ یاد رہے کہ مارکیٹ محض کسی ’مخصوص جگہ ‘ کا نام نہیں جیسے عام طور پر سمجھا جاتا ہے بلکہ مارکیٹ سے مراد ہر وہ تعلق ہے جس کی بنیاد زر کی مقدار کے عوض اشیا و خدمات کی لین دین ہو۔ موجودہ دور کے تعلیمی ادارے ، ہسپتال، کنسلٹنسی کمپنیاں وغیرہ بھی سب مارکیٹ میں شامل ہیں۔ انہی معنی میں مارکیٹ کسی مخصوص دائرہ عمل کا نام نہیں بلکہ یہ پورے معاشرے یہاں تک کہ خاندان تک کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے جس کا نظارہ ہم مغرب میں دیکھ سکتے ہیں۔ اسی بات کو یوں کہا جاتا ہے کہ market is atotalizer۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ مارکیٹ اب مدارس تک میں گھس آئی ہے جس کا اظہار علماے کرام کا پیسے لے کر فتوے دینے کی روش میں ظاہر ہے۔ اپنی چودہ سو سالہ تاریخ پر خط تنسیخ پھیرتے ہوئے پیسے لے کر فتوے دینے کے اس عمل کا خوبصورت نام ’کنسلٹنسی فرم ‘ اور ’بینک کنسلٹنسی‘ وغیرہ رکھ لیا گیا ہے۔ 

اسلامی معاشیات کا فریم ورک 

اسلامی معاشیات جدیدی (revisionist) فکر کا شاخسانہ ہے جس کا اصل ہدف مغرب کی اسلام کاری (Islamization of west) ہے۔ اس مکتبہ فکر کے خیال میں مغرب اور اسلام میں بنیادی نوعیت کی مماثلت پائی جاتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ یہ طبقہ اسلامی تاریخ و علمیت کی معتبر تعبیر چھوڑ کر ایک نئی تعبیر تلاش و پیش کرتا ہے۔ اس فکر کے حاملین اسلامی تاریخ اور علمیت کو مکمل طور پر رد نہیں کرتے، لیکن جدید دور میں پائے جانے والے تمام مغربی تصورات کو خیر تسلیم کرکے اسلامی تاریخ ہی کا تسلسل گردانتے ہیں۔ ان کے خیال میں سائنس کے اصل موجد تو مسلمان تھے نیز یہ کہ سائنس اصل میں مسلمانوں کی کھوئی ہوئی میراث ہے، کبھی ملٹی کلچرلزم (multi-culturalism) یعنی کثیر معاشرتی نظام کو مدنی معاشرے میں تلاش کیا جاتا ہے، امام ابوحنیفہ ؒ کی ذات میں موجودہ بینکاری نظام کا بانی دکھایا جاتا ہے، جمہوریت کو بھی اسلام ہی کا عطیہ قرار دیا جاتا ہے وغیرہ۔ المختصر دور جدید میں مقبول عام ہر جاہلانہ تصور کو کسی نہ کسی طرح اسلامی تاریخ سے جوڑ دینے میں ہی اسلام کی بقا سمجھی جاتی ہے ۔ 

اسلامی ماہرین علم معاشیات کے اوپر بیان کردہ فریم ورک کوغیر اقداری اور ’فطری‘ (یعنی انسانی فطرت کا جائز اظہار) سمجھ کراپناتے ہیں ۔ ان کے خیال میں معاشیات کا بنیادی مقدمہ تو عین درست ہے، البتہ اسے چند شرعی تحدیدات کا پابند بنانے کی ضرورت ہے، یعنی وہ لبرل سرمایہ داری کو ’دائرہ شریعت کا پابند ‘ بنانے کی بات کرتے ہیں، بالکل اس طرح جیسے سیاسی مسلم مفکرین جمہوریت کو دائرہ شریعت کا پابند بنانے کی خواہش رکھتے ہیں۔ گویا ان مفکرین کا مفروضہ ہے کہ لبرل سرمایہ داری کو شریعت کا پابند بنا کر اسلامی اہداف کا حصول ممکن ہے۔ چنانچہ اسلامی معاشیات کے ماہرین معاشیات کے ان مفروضات کو قبول کرتے ہیں کہ : 

۱) فرد کی خواہشات لامحدود ہونی چاہئیں۔

۲) اسے عملِ صرف مزے لینے (utility maximization) کے لیے ہی کرنا چاہیے۔

۳) کاروبار کا اصل مقصد نفع خوری (profit maximization) یعنی سرمایے کی بڑھوتری ہی ہونا چاہیے۔ 

لذت پرستی اور نفع خوری کے اس فریم ورک کو انفرادیت کے اظہار کا ’فطری حق ‘ مان کر اسلامی معاشیات کے ماہرین اس میں چند اسلامی تحدیدات (constraints) کا اضافہ کرتے ہیں۔ ان کے مطابق زید کو عملِ صرف تو منتہا مزے اٹھانے کے لیے ہی کرنا چاہیے لیکن یہ لامحدود خواہشات پوری کرنے کے لیے اسے ایسا طرز عمل اختیار کرنا چاہیے جس سے معاشرے کی مجموعی لذت (aggregate utility OR social welfare) میں کمی نہ ہو۔ مثلاً یہ کہ وہ ایسی اشیا استعمال نہ کرے جن کی شرع میں ممانعت ہے وغیرہ۔ اسی طرح زید کے کاروبار کا اصل مقصد تو نفع خوری (profit maximization) ہی ہونا چاہیے، البتہ یہ نفع خوری معاشرے کے مجموعی مفاد اور نفع کی قیمت پر نہیں ہونی چاہیے، لہٰذا ضروری ہے کہ نفع خوری کے جذبات کو چند ضروری اسلامی تحدیدات کا پابند بنایا، یعنی وہ سرمایے میں اس طرح اضافہ نہ کرے جس کی شرع اجازت نہ دیتی ہو۔ مثلاً وہ چاہے تو زر کا بازار یعنی بینک تو بنائے، البتہ سودی کاروبار کرنے کے بجائے شرعی حیلے استعمال کرکے جائز طریقے سے سرمایہ دارانہ معاشرت کو فروغ دے، ایسے ہی سٹے کے بازار یعنی اسٹاک ایکسچینج میں شرعی اصولوں کے مطابق سٹے بازی کو فروغ دے۔ 

اسلامی معاشیات کے مطابق زید کے ’دائرہ شریعت کے پابند لذت پرستی اور نفع خوری ‘ کے اس رویے کا نتیجہ یہ ہوگا کہ معاشرے میں سب کے لیے زیادہ سے زیادہ لذت پرستی ممکن ہوسکے گی اور صحیح معنی میں سرمایے میں اضافے اور ترقی کا عمل تیز ہوسکے گا۔ ان ماہرین کے خیال میں اسلام کا مقصد بھی معاشی ترقی اور اجتماعی انصاف کا حصول ہے (Khursheed A: 1979, p. 226) ، تزکیے اور فلاح کا معنی وہی ہے جسے علم معاشیات میں ’زیادہ سے زیادہ انسانی ویلفئیر و بہبود ‘ (optimization of human well being) کہاجاتا ہے۔ (Khursheed A: 1979, p. 231)، بہتر زندگی و مادی بہبود و غیرہ کا فروغ بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مشن کا ایک حصہ تھا، نیز مادی وسائل کے حصول کی جدوجہد کرنا بھی اتنی ہی روحانیت کا باعث ہے کہ جتنا نماز ادا کرنا‘ (Chapra U: 1979, p. 197)۔ اسلامی ریاست کو انہی معنی میں ایک ویلفئیر اسٹیٹ کے روپ میں پیش کیا جاتا ہے جن معنی میں سوشل ڈیموکریٹ معیشت دان اسے پیش کرتے ہیں۔ (Chapra U: 1979, p. 176, 200) اسلامی معاشرے میں بھی بینک اور اسٹاک ایکسچینج اسی طرح کام کرتی رہیں گی جس طرح سرمایہ دارانہ معاشروں میں ہم دیکھتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ دوسرے لفظوں میں اسلام اور سرمایہ داری میں اصولاً کوئی فرق نہیں کیونکہ جن تحدیدات کو ’اسلام‘ کے نام پر پیش کیا جاتا ہے، ان کا اصل مقصد اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ ان کے نتیجے میں زیادہ لذت پرستی اور ترقی ممکن ہو سکے گی۔ (Chapra U: 1993, p. 113, 116) 

اسلامی معاشیات بطور سرمایہ داری کی خادم 

اس تفصیل سے عین واضح ہے کہ اسلامی تحدیدات (constraints) لگانے کا مقصد سرمایہ دارانہ اہداف (لذت پرستی، نفع خوری و سرمایے میں اضافے) کا رد نہیں بلکہ اس کے حصول کا درست طریقہ کا رہے جو ان مفکرین کے خیال میں اسلام فراہم کرتا ہے۔ جو چیز اسلامی معاشیات کے ایجنٹ (economic agent (کو موجودہ معاشیات کے ایجنٹ سے ممیز کرتی ہے، وہ ان کی زندگیوں کے اہداف کا فرق نہیں بلکہ یہ ہے کہ اسلامی صارف طویل المدت (long term) لذت پرستی کے لیے قلیل المدت (short term) لذت پرستی کے رویے کو ترک کردیتا ہے، گویا وہ ایک عمدہ لذت پرست ہوتا ہے۔ اسی لیے ہم کہتے ہیں کہ اسلامی ماہرین معاشیات دراصل Rule utilitarianism فلسفے پر عمل پیرا ہیں اور ان کے خیالات سوشل ڈیموکریٹ معیشت دانوں کے افکار کا ہو بہو چربہ ہیں۔ یعنی اسلامی معاشیات جو بنیادی بات کہتی ہے، وہ یہ ہے کہ زیدکو چاہیے کہ وہ زہد و فقر کی اقدار اپنانے کے بجائے دنیا سے زیادہ سے زیادہ متمتع ہونے کے لیے خوب عملِ صرف (consumption) کرے، ہاں حرام اشیا استعمال نہ کرے، نیز وہ کاروبار کو اللہ تعالیٰ کی رضا یا آخرت کا گھر کمانے کا ذریعہ نہیں بلکہ زیادہ سے زیادہ نفع کمانے کے لیے کرے، البتہ حرام اشیا کی پیداوار کا باعث نہ بنے۔ اسلامی معاشیات کے خیال میں اسلامی تعلیمات، مثلاً سود کی ممانعت و نظام زکوٰۃ کے اجرا وغیرہ، پر صحیح معنی میں عمل کرنے کا ثمر یہ ہوگا کہ معاشرے میں زیادہ سے زیادہ لذت پرستی کے مواقع فراہم ہو جائیں گے اور ’ا صل ترقی‘ تب ہی ممکن ہوگی جب اسلامی تحدیدات کے اندر رہتے ہوئے لذت پرستی اور نفع خوری کے مجموعی عمل کو فروغ دیا جائے گا۔ گویا لبرل مفکر کانٹ کی Kingdom of Ends اور اشتراکی مفکر مارکس کیMarxist Utopia کا خواب صحیح معنی میں اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے کے بعد شرمندہ تعبیر ہو گا جہاں ہر فرد کو جو وہ چاہے گا، میسر ہوسکے گا ۔ دوسرے لفظوں میں اسلامی ماہرین معاشیات یہ کہتے ہیں کہ سرمایہ داری اپنے لیے جو ہدف (عمل تکاثر) مقرر کرتی ہے، وہ تو عین حق ہے البتہ اس کے حصول کا درست طریقہ وہ نہیں جو معاشیات کا مضمون بتاتا ہے بلکہ اس کا اصل طریقہ تو اسلام کے پاس چودہ سو سال سے محفوظ ہے ۔ 

علم معاشیات کے اس فریم ورک کو غیر اقداری اور ٹیکنیکل سمجھ کر اپناتے وقت اسلامی ماہرین معاشیات یہ بھول جاتے ہیں کہ اس کے ذریعے وہ سرمایہ دارانہ اخلاقیات مثلاً لذت پرستی، حرص وحسد، شہوت، مادی مفادات کی فوقیت وغیرہ کا اسلامی جواز فراہم کررہے ہیں کیونکہ اگر اسلام کا ہدف بھی ترقی اور سرمایے کی بڑھوتری ہی ہے نیز انسان کی خواہشات لامحدود ہونی چاہئیں توماننا پڑے گا کہ اسلام بھی لذت پرستی اور حرص و حسد جیسے رزائل نفس کے فروغ کی تعلیم دیتا ہے۔ یہ سرمایہ داری کی مخلص خدمت ہی کا صلہ ہے کہ جہاں استعماری طاقتیں دیگر شعائر و احکامات اسلامی کو تو مٹانے دینے کے درپے ہیں ، وہی طاقتیں اسلامی معاشیات و بینکاری کو ہاتھوں ہاتھوں لے کر کر خود اپنے ممالک میں فروغ دے رہی ہیں۔ شاید یہ پہلا اسلامی حکم ہوگا جس پر عمل کرنے کے لیے مسلمانوں سے زیادہ کفار گرم جوش ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ اس حکمت عملی کا خوبصورت نام 'Shariah compliance' (اصول شریعہ سے ہم آہنگی) رکھ لیا گیا ہے جس کا مطلب ’دائرہ شریعت کی پابند سرمایہ داری‘ ہے۔ اسلامی ماہرین معاشیات پر امید ہیں کہ اس حکمت عملی کے نتیجے میں ’اسلام ‘ کا فروغ ہوگا۔ اپنے آپ کودھوکہ دینے کی اس سے بہترین مثال شاید ہی کوئی دی جا سکے کیونکہ اس لائحہ عمل کا مقصد سرمایہ دارانہ نظم اجتماعی کا انہدام (Destruction)نہیں بلکہ اس کی اسلامی تطہیر (Reconstruction)اور سرمایہ داری کی اسلامی توجیہ (Islamic version of capitalism) تیار کرنا ہے۔ یہ حکمت عملی اپنانے والے مفکرین کبھی اس سوال کا جواب نہیں دیتے کہ اس نام نہاد Shariah complianceکے نتیجے میں جو انفرادیت و معاشرت عام ہو رہی ہے، وہ اسلامی ہے یا سرمایہ دارانہ؟ کیا اسلامی بینکاری کے نتیجے میں اس شخصیت کے وقوع پزیر ہونے کی ادنی امید بھی کی جاسکتی ہے جس کا نقشہ احادیث کی کتاب الرقاق میں پیش کیا جاتا ہے؟ کیا بلاسود بینکاری کے نام پر لوگوں کو مصنوعی طریقے سے معیار زندگی بلند کرنے کے لیے قرضے دے کر انہیں دنیا پرستی کا سبق دیا جاتا ہے یا زہد کا؟ اسلامی معاشیات کے بنیادی مقدمات مان لینے کے بعد جو شخصیت پروان چڑھے گی، وہ کیونکر تقوے و پرہیزگاری کا پیکر ہوگی؟ آخر کیا وجہ ہے کہ حکمت عملی تو استعمال ہو اسلامی، مگر فروغ ہو سرمایہ داری کا؟ اس حکمت عملی کو اپنانے والے ماہرین یا تو سرمایہ داری سے ناواقف ہیں اور یا پھر اسلام سے۔ اسلامی معاشیات کی یہ حکمت عملی درحقیقت نظام اسلامی کے احیاء نہیں بلکہ اس کی تحلیل کی ضمانت ہے جس کے ذریعے دنیا پرستوں کی ایک فوج دین کے نام پر تیار کی جارہی ہے۔ 

اسلامی معاشیات کے اس فریم ورک کی ایک اور خامی فقہ اسلامی کا ناقص تصور قائم کرنا بھی ہے۔ علم معاشیات و بینکاری وغیرہ کو دائرہ شریعت کا پابند بنانے کا مطلب یہ ہوا کہ اسلام کو ئی علمیت نہیں بلکہ اسلام مخصوص اعمال و افعال (fixed dos and don'ts) کا نام ہے۔ یعنی اسلام کوئی ایسا با ضابطہ نظام نہیں جس کی ادارتی صف بندی خود اس کی اپنی علمی بنیادوں سے طے پاتی ہوں بلکہ وہ تو محض ایک ’مخصوص رویہ ‘ ہے جس کا اظہار کسی بھی نظام زندگی کے اندر ممکن ہے۔ ظاہر بات ہے اسلام اگر ایک علمیت اور دین ہے تو پھر کسی دوسرے نظام میں اس کی پیوندکاری کے کیا معنی ؟ خوب یاد رہے کہ دائرہ شریعت کی پابند معاشیات و بینکاری کا فروغ مقاصد الشریعہ و تزکیے وغیرہ کا نہیں بلکہ لذت پرستی، حرس و حسد، دنیا پرستی و بڑھوتری سرمایے کے فروغ کا ہم معنی ہے۔ اس اقرار کے بعد ہماری معاشرتی و ریاستی حکمت عملی کا مطمع نظر (end result) ایسی فضا پیدا کرنا نہیں ہوتا جس کے بعد لوگوں کے لیے اپنی ذات کو آقاے دوجہاں صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں فنا کرنے کے زیادہ مواقع میسر آجائیں اور نبی علیہ السلام کی ہر سنت پر عمل کرنا نیز خلافت راشدہ کی طرف مراجعت ممکن ہوسکے، بلکہ ہم شرع کو چند گنے چنے افعال کا نام سمجھ کر حالات کے تناظر میں کم سے کم درجے کا تعین (retreat) کرنے کی فکر میں لگے رہتے ہیں تاکہ لوگوں کے لیے دائرہ شریعت کے اندر رہتے ہوئے اپنی خواہشات پر چلنا ممکن ہوسکے۔ ایسا نظام زندگی جس کی معاشرتی پالیسیاں اس کے نقطہ انتہا (optima) کے بجائے ادنیٰ درجے (minima) کے معیار سے متعین ہوں، خود اپنی موت کا سامان اکھٹا کرتا ہے کیونکہ انسانی زندگی کے دائرے عمل میں کسی ایک نظام کے سکڑنے کا لازمی مطلب کسی دوسرے نظام کی بالادستی ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر گزرتے دن کے ساتھ اسلامی بینکاری اور سودی بینکار ی کے کاروبار میں مماثلت بڑھتی چلی جارہی ہے اور ہر آنے والے دن کے ساتھ حرام قرار دی جانے والی زری (financial) پراڈکٹس کی فہرست شرعی حیلے استعمال کرکے سکڑتی چلی جارہی ہے۔ دائرہ شریعت کے سکڑنے کا مطلب انسانی ارادے کی عمل داری (human self-determination) بڑھنے کے سوا اور کچھ نہیں۔ چنانچہ اسلامی معاشیات کے ذریعے انسانی آزادی یعنی سرمایے کی بڑھوتری کا جواز پابندی شریعت کی شرط کے ساتھ فراہم کیا جارہا ہے اور اس اصول کے مطابق ہم اسلام کو بطور مستقل نظام زندگی نہیں بلکہ سرمایہ دارانہ نظام کے اندر بطور چند حدود (limiting constraints) کے شامل (treat)کرتے ہیں جس کا لازمی نتیجہ سرمایہ داری کا اسلام پر غلبہ ہوتا ہے اور نام نہاد اسلامی تحدیدات آہستہ آہستہ سکڑتی چلی جاتی ہیں۔ (جاری)

آراء و افکار

(اگست ۲۰۰۸ء)

تلاش

Flag Counter