متبادل بیانیہ ’’اصل بیانیے‘‘ کی روشنی میں (۲)

محمد زاہد صدیق مغل

قومی سیاسی پہلو پر چند اصولی کلمات

اصل شرع کی بالادستی ہے، ریاست بنانے کے طریقے ظروف ہیں۔ غامدی صاحب دراصل ظروف کو اولیت دے کر گفتگو کی ترتیب کو بدل رہے ہیں۔ جس بیانئے کو رد کرنے کے لیے غامدی صاحب نے بیانیہ وضع فرمایا ہے، اس کے تناظر میں اس کا سادہ سا جواب کچھ اس طرح ہے: 

’’’نیشن سٹیٹ‘ کا فارمیٹ بدلنا کوئی 'دین شکنی' نہیں ہے۔ ریاستی عمل (قوانین کے اجراء اور نفاذ) کو اسلام کا پابند کردینے کی جو بھی صورت مسلمانوں کی استطاعت میں ہو، مسلمان اْسے کیوں اختیار نہ کریں؟ 98 فیصد مسلم آبادی اپنی ’’سماجی قوت‘‘ اور ’’سیاسی رِٹ‘‘ کو اس کا ذریعہ بنائے، یہ ’’فتح‘‘ کی نسبت ایک کہیں نرم تر عمل ہے۔ مسلمانوں کو ’’غاصب‘‘ گرداننے کے معاملہ میں ’اصل بات‘ بہت پیچھے تک جاتی ہے جو شاید BJP کے زاویہ مطالعہ تاریخ سے جا ملے اور راجہ داہر کے ’حق‘ تک پہنچے! اصل یہ ہے کہ ہمارے ان شہروں کا اذانوں سے گونجنا جن فتوحات کا مرہونِ منت ہے، انہی کو صاف ظلم گردانیں۔ ورنہ اتنی بڑی مسلم جماعت (اسلامیانِ پاکستان) کا اپنی ناقابل مزاحمت سماجی و سیاسی برتری کے بل پر ریاستی عمل کو خدا کی عبادت میں دے دینا ’فتح‘ کی نسبت ایک کہیں زیادہ سمجھ آنے والی بات ہے۔ کسی زمین پر شریعت کی رِٹ قائم کرنے کے معاملہ میں اصل چیز مسلمانوں کے پاس اس بات کی ’’قدرت‘‘ ہونا ہے؛ جبکہ ’’فتح‘‘ یا ’’سیاسی و سماجی برتری‘‘ اِس قدرت کی ایک صورت۔ ’’قراردادِ مقاصد‘‘ ایسے کسی اقدام سے البتہ ’نیشن سٹیٹ‘ کی ساخت میں کچھ فرق آگیا ہے تو کوئی شریعت کی خلاف ورزی نہیں ہوگئی ہے۔ اصل بحث وہیں پر پہنچے گی: بارہ صدیوں تک نصف معمورہ ارض کا اسلام کی قلمرو بنا رہنا ’’غصب‘‘ کی ایک داستان ہے اور اسلام کا نصف جہان میں پھیلنا بڑی حد تک ’ظلم و بربریت‘ کا نتیجہ! ہمارا مشورہ ہے کہ ان کالموں میں مسئلہ کو اس کے پورے حجم کے ساتھ کھول دیا جائے۔ 

’ریاست‘ اور ’حکومت‘ میں آپ جیسے مرضی فرق کریں، اصل چیز ریاستی عمل کو اسلام کے تابع کرنا ہے؛ بایں طور کہ یہ ’افراد‘ کے موڈ اور مزاج پر نہ رہ جائے بلکہ یہاں کا باقاعدہ آئین ہو جو افراد کو آپ سے آپ پابند کرے۔ ریاستی عمل میں اسلام کی یہ مستقل حیثیت دورِحاضر کی بحثوں میں ’حکومت‘ سے زیادہ ’ریاست سے متعلق ہو گی، گو ہمیں اس کی شکلی صورت سے غرض نہیں۔‘‘ (از حامد کمال الدین صاحب) 

۳) متبادل بیانئے کے اثرات 

قرار داد مقاصد" کے جس بند کو توڑنے کی باتیں ہورہی ہیں، عملاً اس بند کے پیچھے کیا ہے، اسے بھی سمجھ لینا چاہئے، یک رخی مجرد و نظریاتی گفتگو نفس معاملہ کو واضح نہیں کرسکتی۔ 

’’یہاں اگر اسلام کا بہت کچھ بچ رہ گیا ہے تو وہ اس لیے کہ یہاں کوئی قراردادِمقاصد خاصے بھلے وقتوں میں پاس کرا لی گئی تھی، ورنہ پچھلے کئی عشروں سے یہاں جو خاک اڑنا شروع ہوئی ہے، وہ سب گرد آلود کرنے میں زیادہ دیر لگانے والی نہیں ہے۔ دیے ہوئے حالات میں یہ بات بلاخوفِ تردید کہی جا سکتی ہے کہ عملاً اسلامیانے کے عمل میں گو اس کی کوئی خاص افادیت نہیں رہی؛ کہ اسکے بعد یہ مسئلہ ’’ریاست‘‘ کا نہیں ’حکومت‘ کا رہ گیا تھا (ہمیں ریاست اور حکومت کا فرق سمجھانے والے توجہ فرمائیں!!!) البتہ اس ملک کے اندر کھلے کفر کا راستہ روکنے میں بے شمار پہلوؤں سے یہ چیز ایک ناقابل عبور بند کا کام دیتی رہی ہے اور یہ پہلو بھی کچھ کم خیر نہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ان لوگوں کے لیے صبح شام دعائے خیر کریں جو قراردادِمقاصد جیسا ایک آئینی اقدام آپ کی قوم کے لیے بروقت کر گئے۔

کسے نہیں معلوم کہ اکثر تھرڈ ورلڈ ملکوں میں ’الیکشن‘ ایک مہذب ورادات کا نام ہے۔ این جی اوز، ملٹی نیشنلز، میڈیا، بینکرز، انٹرسٹ گروپس، تہذیبی ساخت کرنے والی لابیاں اس عمل کو اپنی مرضی کی جہت دینے میں یہاں کیسی کیسی سرگرمیاں نہیں دکھاتیں اور کیسی کیسی اثرانگیزی نہیں رکھتیں۔ اِس ’جمہوری‘ عمل سے ۔۔ ’’قرادادِمقاصد‘‘ جیسے کسی انتظام کی غیرموجودگی میں ۔۔ عالمی تقاضوں کے تحت یہاں ایک ہیومن اسٹ سٹیٹ آپ کو ضرور مل جانے والی ہے۔ جس بے بھروسہ جمہوری عمل پر آپ اسلام کی تقدیر کو معلق ٹھہرانا چاہتے ہیں، اس کا کوئی تجربہ آپ آج ہی کیوں نہیں کرلیتے؛ قراردادِمقاصد اس کے راستے میں کوئی رکاوٹ تو بہرحال نہیں ہے!‘‘ (از حامد کمال الدین صاحب)

یعنی سوچنا یہ ہے کہ اس قرار داد مقاصد کو ’’ہٹا کر‘‘ آخر یہ حضرات ’’کون سا خیر‘‘ برآمد کرنا چاہتے ہیں؟ کبھی یہ بھی غور کیجیے کہ اگر یہ کوئی رکاوٹ ہے تو کس کے خلاف؟ ہیومنسٹ سٹیٹ سٹرکچر کے یا اسلام کے؟ چنانچہ بات نہایت واضح ہے کہ دنیا ویسی نہیں جیسے ہمارے یہ ارباب علم فرض کرتے ہیں۔ اگر تو یوں ہوتا کہ دنیا میں لوگ واقعی ’’کھلے طور پر‘‘ اس معاملے میں آزاد ہوتے کہ بغیر کسی بیرونی مداخلت، بغیر کسی علمی ڈسکورس کے جبر نیز بغیر کسی استعماری قوت کی موجودگی کے اپنی اپنی مرضی سے اپنے اپنے نظریات کے مطابق اپنی اپنی اجتماعی زندگیوں کے فیصلے کررہے ہوتے، گویا جیسے یہ سب ایک دوسرے سے کٹے ہوئے الگ الگ جزیروں میں بس رہے ہوتے، تو شاید مسلمانوں سے بھی یہ تقاضا کسی معنی میں معنی خیز ہوتا کہ آخر تم ان سب آزاد لوگوں پر کیوں اپنے تصور خیر کو بالادست کردینا چاہتے ہو؟ تم بس انکے درمیان بس جاؤ اور جو تمہاری بات واقعی مان لے گا، وہاں تمہاری مرضی چلنے لگے گی اور بس۔ آخر یہ جھگڑا کس سے اور کیوں؟ سردست معاملہ تو یہاں یہ ہے کہ دنیا پر ’’لوگوں کی رائے‘‘ کے نام پر ایک ’’مخصوص تاریخ و علمیت سے برآمد ہونے والے جبر‘‘ کو مسلط کرنے کا پورا پورا بندوبست موجود ہے۔ اگر دنیا کے کسی خطے میں کہیں چند کمزور غلطی سے بھی اس جبر کے خلاف اجتماعی رائے کا اظہار کرلیں تو اسے تلپٹ کردینے کا پورا پورا انتظام بھی موجود ہے؛ مگر اس سب کے باجود بھی مسلمانوں سے یہ شکوہ کہ ’’آخر تم جو چاہتے ہو، وہ کیوں چاہتے ہو‘‘ کا کیا معنی؟ یہ جو حاضر و موجود ہے، یہ ایک عالمگیر ’’فتنہ‘‘ ہے، اور اس معاملے میں درحقیقت کوئی چوائس ہے ہی نہیں کہ یا تو اسکی بالادستی کو قبول کرکے اس کے تحت ’’صاغرون‘‘ ہوکر رہنا قبول کرلیا جائے اور یا پھر اس سے کشمکش جاری رکھی جائے یہاں تک کہ ’’دین اللہ کے لیے ہو جائے‘‘۔ مولانا مودودی (رح) نے کیا خوب کہا تھا کہ ’’دنیا والوں کے دین‘‘ کے معاملے میں درحقیقت کوئی چوائس ہوتی ہی نہیں، یہاں اگر مسلمان آگے بڑھ کر مداخلت نہیں کریں گے تو ایسا نہیں ہوگا کہ دنیا خلا میں معلق ہوکر کسی نیوٹرل مقام پر جا کھڑی ہوگی جہاں جو جو چاہے گا وہ ہوتا رہے گا، بلکہ جو باطل ہے، وہ آگے بڑھ کر زمام اقتدار اپنے ہاتھ میں لے کر رہے گا۔ جنہیں لگتا ہے کہ ایسا نہیں ہے، وہ حاضر و موجود کی نوعیت کو سمجھے ہی نہیں۔ پس اگر آپ ان سیکولروں، عالمی لابیوں اور استعماری قوتوں کو ’’ریاست کے معاملے‘‘ میں پیچھے ہٹا لیں اور پھر ان سے ’’نیوٹرل‘‘ رہنے کا پختہ عہد و پیمان لے لیں تو شاید ہم بھی ’’ریاست کے معاملے‘‘ سے پیچھے ہٹنے کے لیے تیار ہو جائیں۔ دشمن کی فوجیں سرحد پر حملے کے لیے تیار کھڑی دکھائی دے رہی ہوں اور کوئی ہمیں اس بنا پر اپنے دستے ہٹا لینے کی صلاح دے رہا ہو کہ ’’اس سے تمہارے کچھ سرحدی علاقے کے لوگوں کو نفسیاتی گرہ محسوس ہورہی ہوگی‘‘ تو ایسی صلاح آخر کس عقلمند کے لیے قابل قبول ہوگی؟

یہ سلسلہ یونہی چلتا رہا تو وہ وقت دور نہیں جب ’’اقلیتوں کے مساوی حقوق کی مجروحیت‘‘ کی دہائی پر یہاں کچھ ’’مذہبی بیانئے‘‘ دینے والے یہ بھی کہیں گے کہ اپنے یہاں کے اسکولوں کے نصاب سے ان باتوں کو حذف کرنا بھی ’’شرعاً لازم‘‘ ہے کہ ’’اس کائنات کا خالق خدا ہے‘‘، ’’’انسان کی ہدایت کے لیے خدا نے پیغمبر بھیجے‘‘۔ کیوں جی، کیا ہمارے یہاں ملحد نہیں بستے؟ تو کیا عالمی معاہدوں کی رو سے وہ بھی اس ملک میں برابر کے حصے دار نہیں؟ آخر مسلمانوں کو حق ہی کیا ہے کہ ان ملحدوں کے بچوں پر اپنے ایسے مذہبی نظریات مسلط کرکے ان کی ذہن سازی کریں؟

چنانچہ آئین کی چند اسلامی شقوں سے علماء نے یہ کامیابی حاصل کی ہے کہ ملک میں سیکولرائزیشن کا عمل سست روی کا شکار ہے، یہ شقیں اسکی راہ میں کیسے کیسے روڑے اٹکاتی ہیں، یہ کوئی دیسی لبرلز سے پوچھے۔ مگر چند ارباب علم ’’اقلیتوں کے حقوق‘‘ (وہ اقلیتیں جنہیں اس ملک میں بہترین سکول و کالج چلانے، یہاں کے تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرنے، نوکریاں کرنے، یہاں تک کہ عدالت عظمی کے جج تک بننے جیسے کھلے حقوق و مواقع میسر ہیں) کے غم میں اس بند کو ہٹادینے کے درپے ہیں۔ بعض اوقات ایک جگہ پر کھڑے رہنے بلکہ مخالف کی آگے بڑھنے کی رفتار کو کم کرنے کے لیے بھی بہت ساری قوت و محنت درکار ہوتی ہے جس کا اندازہ صرف اس وقت ہوتا ہے جب وہ قوت و محنت بھی ضائع کردی جائے۔ قرار داد مقاصد سے حاصل ہونے والے عملی فوائد کو اسی تناظر میں دیکھا جانا چاہیے کہ یہ کھلے کفر کے اظہار کے آگے بند باندھنے نیز ملک میں سیکولرائزیشن کی رفتار کو سست روی کا شکار کرنے میں کلیدی حیثیت رکھتی ہے۔

پھر یہ بات بھی قابل غور ہے کہ علماء نے بڑی محنت سے اس نظام کو چلانے والوں کے ارادوں کو قرآن و سنت کے کلے سے باندھنے کے لیے اسلامی نظریاتی کونسل اور شریعت بنچ جیسی جو کامیابیاں حاصل کیں، جدید ارباب علم انہیں اپنی نکتہ شناسیوں میں بہا لے جانا چاہتے ہیں۔ جبکہ علماء کی اس جمہوری جدوجہد سے نالاں ملک کے ایک مسلح طبقے کی شکایت ہی یہ ہے کہ اس نظام کے اندر اسلامیت تلاش کرنے کا جو یہ راستہ آپ نے تلاش کیا ہے، یہ ذرا ہی دور جا کر ختم ہوجاتا ہے۔ گویا ملک کے اس ناراض طبقے کو واپس لانے کے لیے علماء اب تک جو جواب دیتے آئے ہیں، یہ جدید ارباب علم ’’اقلیتوں کی ذہنی تسکین بحال کرنے کے لیے‘‘ ان شقوں کو آئین سے ختم کرکے علماء کو ان ناراض طبقوں کے سامنے بالکل ہی لاجواب کردینا چاہتے ہیں اور اس کے بعد یہ امید رکھتے ہیں کہ ملک سے ریاست کے خلاف شدت پسندانہ رویہ ختم ہوجائے گا۔ 

یہ بھی کہا جارہا ہے کہ ’’آئین میں قرآن و سنت کی بالادستی‘‘ کی شق کی اس لیے ضرورت نہیں کیونکہ جب پارلیمنٹ میں اکثریت مسلمانوں کی ہوگی تو قرآن و سنت کی بالادستی تو گویا ان کے عقیدے کا لازمی حصہ ہی ہوگا، تو وہ جو بھی قانون ’’باہمی مشورے‘‘ سے بنائیں گے، اسے ’’’عملی طور پر‘‘ قبول کرلینا چاہیے۔ اگر کوئی فرد یا گروہ سمجھتا ہے کہ وہ قانون قرآن و سنت کی غلط تشریح ہے تو وہ چاہے تو اس سے اختلاف کرے اور رائے عامہ کو ہموار کرے۔ الغرض اس قسم کی کسی شق کی بنیاد پر پارلیمنٹ کی رائے کو عدالت عظمی میں چیلنج کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ 

گویا ہمارے یہ احباب اب الطاف حسین، نواز شریف، عمران خان، و زرداری جیسوں کے مشوروں سے بننے والی تشریح اسلام کو امت سے ’’فائنل اتھارٹی‘‘ منوالینا چاہتے ہیں، وہ بھی ایسی جسے کسی قانونی فورم پر قرآن و سنت کی بنیاد پر چیلنج بھی نہ کیا جاسکتا ہو۔ (ویسے خود نواز شریف و عمران خاں بھی اس تجویز کو سن کر ایک لمحے کے لیے شاید چونک اٹھیں کہ یہ تو ہم پر ایسا بار ڈالا جارہا ہے جس کی ہم نے کبھی تمنا ہی نہ کی)۔ اگر ایسا ہی ہے، تو پھر آئین نامی ہر شے ہی کو ختم کردینا چاہیے کہ اسکی بھی کیا ضرورت؟ اور ہمارے یہ ارباب علم ذرا ایسی ہی کوئی بات عاصمہ جہانگیر و اعتزاز حسن جیسوں سے آئین میں لکھے ہوئے ’’بنیادی انسانی حقوق‘‘ کے بارے میں بھی تو منوا کر دکھائیں۔ کیا خیال ہے کہ پارلیمنٹ میں بیٹھے لوگ کیا انسان نہیں کہ وہ انسانوں کے حقوق متعین کرنے کے لئے ’’انسانی حقوق‘‘ نامی کسی مسودے کے محتاج ہوں گے؟ جب یہ لوگ اعتراض کریں تو ان کا منہ بھی اسی دلیل سے بند کرا کر دیکھیں کہ ’’جاؤ ان انسانی حقوق کے بارے میں عوامی رائے ہموار کیجئے‘‘۔ پھر آٹے دال کا بھاؤ معلوم ہوجائے گا۔ 

ایک الزامی سوال 

’’متبادل بیانئے والوں‘‘ کے نظریہ ریاست کی رو سے یورپ و امریکہ کی جدید سیکولر ریاستیں ’’سیکولرانہ جنرل ول‘‘ کو ریاست کا وظیفہ قرار دے کر اپنی عوام پر جبر و استبداد کا باعث بنتی ہیں۔ دوسرے لفظوں میں ان کے نظریہ ریاست کی رو سے یہ ریاستیں بھی استبدادی و جابرانہ ہیں۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ان کے نظریے کی رو سے بھی تاریخ کی بدترین استبدادی160ریاستیں ہیں کہ یہ لوگ خود اپنے اوپر ہی نہیں بلکہ گلوبل ولیج بنانے کے شوق میں ’’باہر والوں‘‘ پر بھی اپنے نظریات کو مسلط کرتے آرہے ہیں۔ اب اس قسم کے استبداد کے خلاف ’’انسداد فتنہ‘‘ کے تحت جہاد کے مشروع ہونے کے یہ حضرات بھی قائل ہیں۔ تو کیا یہ حضرات ان ریاستوں کے خلاف اپنے نظریہ جہاد و ریاست کی روشنی میں امت مسلمہ پر ’’جہاد کی اصولی مشروعیت‘‘ کا اعلان فرمائیں گے؟ کیا ایک ’’متبادل بیانیہ‘‘ اس پر بھی نہیں ہونا چاہیے؟ 

اگر ہمارے ان محترم اہل علم کا خیال ہے کہ ان سیکولر ملکوں میں عوام کو ’’ووٹ ڈالنے کا حق‘‘ ہونا ان ریاستوں کے غیر استبدادی ہونے کی گویا دلیل ہے تو کسی غلط فہمی میں نہ رہیں، یہ استبدادی قوتیں اپنوں کی ’’ول آف آل‘‘ کو بھی ’’اصولاً‘‘ یہ حق نہیں دیتیں کہ وہ ریاست کی طرف سے مسلط شدہ ’’مخصوص جنرل ول‘‘ کے خلاف جا سکیں، چاہے عوام کی رائے کچھ بھی ہو یا رہی ہو یا ہو جائے۔ ان عالمی معاہدوں کی جنم بھومی یعنی امریکی آئین ریڈ انڈینز کی ’’اجتماعی مرضی‘‘ سے جاری نہیں کیا گیا تھا بلکہ ان کی ’’اجتماعی قبر‘‘ پر کھڑے ہوکر امریکی ریاست پر مسلط کیا گیا تھا۔

نیز کیا یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے یہاں آئین میں جو ’’اسلامی شقیں‘‘ لکھی ہوئی ہیں انہیں عالمی سیکولرازم کے یہ ٹھیکیدار ’’عالمی معاہدوں‘‘ کے تحت اپنی کسی ’’اصولی رائے‘‘ کے تحت قبول کیے بیٹھے ہیں؟ ہرگز نہیں، یہ ’’کڑوا گھونٹ‘‘ فی الوقت صرف اس لیے پینا گوارا کر رکھا ہے کہ انہیں یقین ہے کہ ہمارے یہاں جو موجودہ و متوقع اہل اقتدار و حکومت ہیں، وہ ان شقوں کے نفاذ میں کوئی خاص دلچسپی نہیں رکھتے۔ جس دن انہیں یہ خوف محسوس ہوا کہ ہمارے یہاں کی ’’ول آف آل‘‘ سے کسی ایسی جماعت کا برسر اقتدار آنا یقینی ہوچلا ہے جو ان شقوں کو ’’سنجیدگی سے‘‘ برتنے کا ارادہ رکھتی ہے تو دنیا ان استبدادی قوتوں کا وہی ’’اصلی چہرہ‘‘ پھر سے دیکھے گی جس کا مظاہرہ الجزائر اور مصر میں ہوا تھا۔

پس ہمارے یہ حضرات اپنے ’’متبادل بیانیہ جہاد‘‘ کے ذریعے ’’اصل بیانئے‘‘ میں جہاد کی جس مشروعیت کو شعوری طور پر کالعدم ٹھہرانے نکلے تھے، ’’متبادل بیانیہ ریاست‘‘ کی رو سے غیر شعوری طور پر خود اسی موڑ پر آن پہنچے؛ بس اتنا سا فرق ہے کہ ’’اصل بیانئے‘‘ میں یہ ذمہ داری قیام اسلام کے لیے قبول کرنا پڑتی ہے جبکہ متبادل نظریے میں یونانی جمہوریت کے قیام کے لیے۔

اسلام اور تصور خلافت

غامدی صاحب کا کہنا ہے کہ نہ صرف یہ کہ خلافت کوئی دینی اصطلاح نہیں بلکہ مسلمانوں پر کسی عالمی خلافت یہاں تک کہ کسی عالمی سیاسی وحدت (مثلاً کنفیڈریشن) کا قیام بھی کوئی دینی تقاضا نہیں (اس قسم کی کسی وحدت کے قیام کی خواہش کو زیادہ سے زیادہ بس ایک نیک خواہش کہا جاسکتا ہے نہ کہ دین کا کوئی حکم) کیونکہ ازروئے اسلام قومیت کی بنیاد مذہب نہیں بلکہ دیگر عناصر (مثلاً تاریخی نسلی شناخت وغیرہم) ہوا کرتے ہیں؛ مسلمانوں کے درمیان باہمی تعلق اخوت کا ہے نہ کہ قومیت کا۔ ان کا کہنا ہے کہ قرآن و حدیث میں اس قسم کی خلافت کا کوئی تصور موجود نہیں۔ ذیل میں اختصارکے ساتھ ان کے ان دعووں کا تجزیہ کیا جاتا ہے۔ 

قرآن میں تصور خلافت

خلافت (رسول اللہ کی سیاسی نیابت) کا تصور یہ ہے کہ امور ریاست اس حق کے مطابق چلائے جانے چاہئیں جسے شارع نے حق کہا نہ کہ اپنی طرف سے وضع کردہ کسی تصور حق (یعنی ہوائے نفس) کے تحت۔ دیکھئے، خدا نے اپنے برگزیدہ رسول کو بعینہ یہی تلقین فرمائی:

یَا دَاوُدُ إِنَّا جَعَلْنَاکَ خَلِیْفَۃً فِیْ الْأَرْضِ فَاحْکُم بَیْْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ وَلَا تَتَّبِعِ الْہَوَی فَیُضِلَّکَ عَن سَبِیْلِ اللّٰہِ
’’اے داؤد! ہم نے آپ کو زمین میں خلیفہ بنایا، پس آپ لوگوں کے درمیان حق کی بنیاد پر فیصلے کریں اور (اس حق کے مقابلے میں کسی کی) خواہشات کی پیروی نہ کریں کہ (اگر فرض محال آپ نے ایسا کیا تو) اللہ کی راہ سے ہٹ جائیں گے‘‘۔

بتائیے خلافت کا تصور، جسے امت کے فقہاء نیز سیاسی مفکرین امام ماوردی سے لے کر مولانا مودودی تک "قولی تواتر" کے ساتھ بیان کرتے چلے آئے ہیں، اسکا مفہوم اسکے سواء اور کیا ہے؟ خدا نے قرآن میں اپنے نیک بندوں اور پسندیدہ قوموں کو زمین میں اقتدار عطا کرکے فیصلے کرنے کا جب ذکر کیا تو اسے بالعموم "خلافت" (خلیفہ، استخلاف) سے تعبیر کیا، اسی طرح احادیث میں بھی خلفاء کا ذکر ہوا؛ لہٰذا علماء نے اس تصور کو بیان کرنے کے لئے یہ اصطلاح استعمال کی۔ اب اگر کسی کو اس تصور کو بیان کرنے کے لئے "خلافت" کی یہ اصطلاح پسند نہیں تو وہ چاہے تو اسکے لئے اپنی طرف سے کوئی دوسرا نام رکھ لے، بھلا اصطلاح میں کیا لڑائی؟ لیکن کیا وہ یہ کہنا چاہتا ہے کہ "خلافت کا یہ تصور" ہی خدا کو مطلوب نہیں؟

آیت شوریٰ اور عالمی خلافت (جمہوریت)۔۔۔۔۔ خود آپ کے اصول سے دلیل

دیکھئے "امرھم شوری بینھم" کے تحت آپ دعوی کرتے ہیں کہ "جمہوریت خدا کے حکم" کا درجہ رکھتی ہے۔ غامدی صاحب اس آیت کے تحت لکھتے ہیں:

"پھر اِس مقام پر چونکہ قرآن مجید نے اِسے ضمیر غائب کی طرف اضافت کے سوا کسی دوسری صفت سے مخصوص نہیں کیا، اِس لیے نظام کا ہر پہلو اِس میں شامل سمجھا جائے گا۔بلدیاتی مسائل، قومی و صوبائی امور ، سیاسی و معاشرتی احکام، قانون سازی کے ضوابط ،اختیارات کا سلب و تفویض، امرا کا عزل و نصب، اجتماعی زندگی کے لیے دین کی تعبیر ،غرض نظام ریاست کے سارے معاملات اِس آیت میں بیان کیے گئے قاعدے سے متعلق ہوں گے۔ ریاست کا کوئی شعبہ اِس کے دائرے سے باہر اور کوئی حصہ اِس کے اثرات سے خالی نہ ہو گا۔" (میزان)

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس آیت میں "ھم" کا مصداق کون ہے؟ آپ کے اصول تفسیر کی رو سے یہاں "ھم" کا اشارہ "تمام مسلمانوں" کی طرف مانا جانا چاہیے یا کہ پاکستان، ایران یا فلسطین کے مسلمانوں کی طرف الگ الگ؟ (اس دوسری صورت میں دلیل درکار ہے)۔ توکیا خود آپ کے اصولوں کے مطابق آیت کا مطلب یہ نہیں بنا کہ مسلمانوں کی ایک "عالمی جمہوریت" ہونی چاہیے جہاں "سب مسلمانوں کے مشورے" سے ان کے حکمران چنے جائیں؟ اب دیکھیے، ان قومی ریاستوں میں تو ایسا ہرگز نہیں ہورہا؛ نیز اس جمہوریت (آپکے "نظام شوری") کے قیام کا مقصد یہی تھا نا کہ "تمام مسلمانوں" کے اجتماعی مفادات انکی اجتماعی رائے سے طے ہونا چاہئے؟ تو کیا ان قومی ریاستوں میں ایسا ہوتا ہے نیز کیا ایسا ہوسکنا ممکن ہے؟ آخر اس "ھم" کے مصداق کو جغرافیائی لکیروں ۔۔ وہ بھی ایسی لکیریں جو خود مسلمانوں نے اپنی مرضی سے نہیں کھینچیں تھیں بلکہ استعمار نے ان انکے لیے طے کیں۔۔ کا پابند بنانے کی کیا دلیل ہے کسی مفسر کے پاس؟ تو اب بتایا جائے کہ اگر "امرھم شوری بینھم" کا مطلب جمہوریت کا خدائی حکم ہے تو اسکا مطلب "عالمی جمہوریت" کا حکم کیوں نہیں؟ آپ اسے عالمی خلافت نہیں کہنا چاہتے نہ کہیں، عالمی جمہوریت کہہ لیں مگر اپنی اس دلیل کے تحت آپ اسے جمہوریت ہی کی طرح کا خدائی حکم کیوں نہیں مانتے؟ یہاں ضمیر کے مراجع طے کرکے جس ریاست کی بات ہورہی ہے "وہ ریاست" کونسی ریاست ہے، قومی یا عالمی؟ نیز یہاں جس طرز کی ریاست کی بات ہورہی ہے اس کا مزاج کس ریاست کا متقاضی ہے؟اگر "نظام" (امور ریاست) نیز "اس کے ہر پہلو" کو اس آیت سے کشید کیا جاسکتا ہے تو اس" نظام" کے معاملے میں "ھم" سے "تمام مسلمانوں کو ایک ساتھ" کیوں نہیں مراد لیا جاسکتا؟ آخر وہ کونسا قرینہ ہے جو "نظام کے ہر پہلو "کے استدلال کے لئے تو قطعی دلیل کا درجہ رکھتا ہے مگر "تمام مسلمانوں" کو مراد لینے کے لیے دلیل نہیں؟ یا تو کسی قرآنی دلیل یا قرینہ صارفہ سے یہ ثابت کردیا جائے کہ آیت شوری سے "عالمی جمہوریت" کا مفہوم نکالنا قطعا غلط ہے اور یا پھر اسے "حالیہ قوموں " تک محدود کرنے کی دلیل دے دی جائے۔ بصورت دیگر اگر کوئی اس آیت میں مراد "قوم" لینا چاہتا ہے تو یہ اسکی ذاتی رائے ہے اور بس جسکی بنیاد پر اسے یہ حق نہیں مل سکتا کہ وہ یہاں "تمام مسلمانوں کی عالمی جمہوریت" مراد لینے والوں کو غلط کہے اور ایک "خدائی حکم" کو اپنی طرف سے دین سے خارج کردے کیونکہ کوئی امر جس طرح کسی کے کھنے سے دین نہیں بن جاتا بالکل اسی طرح کسی کے کہہ دینے سے خارج بھی نہیں ہوجاتا۔ 1

اگر اس کے جواب میں کسی کا استدلال یہ ہے کہ "جہاں بھی مسلمان ایک جماعت (بشمول قوم) کی شکل میں ہیں اور معاملہ ان کی اجتماعیت سے متعلق ہے، وہاں وہ یہ بات باہمی مشورے سے طے کریں گے۔ اگر مسئلہ گلی محلے کی سطح کا ہے تو اس سطح پر طے ہوگا۔ اگر شہر کا ہے تو شہر کی سطح پر؛ اگر ملک کا ہے تو ملک کی سطح پر اور اگر پورے عالم اسلام کا مسئلہ ہے تو ظاہر ہے عالمی سطح پر طے ہوگا"؛ گویا "امرھم" کے الفاظ سے واضح ہے کہ جن لوگوں سے متعلق "امر" ہوگا مشاورت کا عمل انھی تک محدود ہوگا۔ اس جواب سے ہمارے یہ محترم ہمارے بہت قریب آگئے کہ اس سے اتنی بات تو معلوم ہوگئی کہ مسلمانوں کی عالمی جمہوریت نہ سہی، مگر کم از کم مثلا "ایک کنفڈریشن ٹائپ کسی شے کا قیام" تو بہرحال اس آیت کا مصداق ضرور ہے، یعنی جس سطح کا مسئلہ ہوگا اسی سطح کی مشاورت ضروری ہوگی۔ اب ’’مسائل‘‘ کی کوئی سطح ظاہر ہے مقامی ہوگی، کوئی علاقائی، تو کوئی ملکی تو کوئی اقلیمی، تو کوئی عالمی۔ غرض "ھم" کی ضمیر مسلمانوں کی طرف ہے یعنی جہاں تک ’’مسلمان‘‘ وہاں تک ’’شوریٰ‘‘۔ کوئی فرق ہو گا تو صرف مسئلہ کی سطح اور نوعیت کے لحاظ سے۔تو کیا اس سے یہ ثابت نہیں ہو گیا کہ وہ امور جو مسلمانوں کے عالمی مصالح سے متعلق ہوں، ان کی بابت نیشنل سطح پر ’’فیصلے" (decision) لینا شرعاً ممنوع ہوگا؟ بے بسی اور بدنظمی میں عذر کی بات الگ ہے، اصولاً ممنوع ہوگا یا نہیں؟ کیا اس بدنظمی کے خاتمہ کی جانب پیش قدمی مستحسن ہوگی یا نہیں؟ مگر اسکا کیا کیا جائے کہ محترم غامدی صاحب تو اس دینی فریضے کے بھی قائل نہیں۔ چنانچہ اگر تھوڑی دیر کے لیے یہ تسلیم کر بھی لیا جائے کہ روئے زمین پر مسلمانوں کے 58 انتظامی یونٹ بن جانا جائز ہے پھر بھی مسلمانوں کو اس آیت کی رو سے "ایک عالمی شوریٰ" کا پابند کیوں نہ کیا جائے؟ جس یونٹ کے مسلمان اس عالمی شوریٰ کا حصہ بننے سے انکاری ہوں، انہیں معصیت کا مرتکب کیوں نہ کہا جائے؟ اس کا حل یہ ہے کہ آپ ’’شوریٰ‘‘ کو واجب ہی قرار نہ دیں؛ لیکن اس صورت میں جمہوریت کا دینی حکم بھی خودبخود ساقط ہو جاتا ہے۔

اس پہلو پر بھی غور فرمانا چاہیے کہ غامدی صاحب اس آیت کے تحت فرماتے ہیں جب کہتے ہیں کہ "اِس مقام پر چونکہ قرآن مجید نے اِسے ضمیر غائب کی طرف اضافت کے سوا کسی دوسری صفت سے مخصوص نہیں کیا، اِس لیے نظام کا ہر پہلو اِس میں شامل سمجھا جائے گا؛ "بلدیاتی مسائل، قومی و صوبائی امور 133133 غرض نظام ریاست کے سارے معاملات اِس آیت میں بیان کیے گئے قاعدے سے متعلق ہوں گے"۔ تو یہ بات سمجھ سے بالا تر ہے کہ آخر یہاں صرف "صوبائی و قومی تک" کے معاملات آیت میں شامل ہونے جبکہ "امت" (عالمی) کے معاملات شامل نہ ہونے کی آخر کونسی دلیل ہے؟ الغرض غامدی صاحب کو تو اپنے فلسفے کے تحت سب سے آگے بڑھ کر کہنا چاہئے کہ "یہاں ضمائر کی روشنی میں یہ بات قطعی ہے کہ مسلمانوں کی کم از کم ایک کنفڈریشن کا قیام دینی فریضہ ہے جو انکے عالمی مسائل کو انکے مشورے سے نمٹا سکے"۔الغرض انکے اپنے اصول تفسیر کی رو سے یہ آیت اس معاملے میں بالکل قطعی ہے کہ "ھم" کا "امر"جس سطح کا ہوگا مشاورت بھی اسی سطح پر مطلوب ہے، اسے محدود کرنے یا ضروری نہ سمجھنے کی کوئی دلیل موجود نہیں۔ 

مسلم وحدت اور عالمی خلافت۔۔۔۔۔ آپ کی بیان کردہ نصوص کے مقاصد سے استدلال

اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ قومیت کی بنیاد اسلام نہیں بلکہ جغرافیائی و تاریخی نسلی شناختیں ہوا کرتی ہیں تب بھی یہ سوال اپنی جگہ قائم ہے کہ کیا قرآن و حدیث میں مسلمانوں کو "اخوت" کے جس رشتے میں باندھا گیا ہے اسکا کوئی "سیاسی تقاضا" بھی ہے یا نہیں؟ کیا قرآن و حدیث میں ایسی کوئی نص موجود ہے جس میں مسلمانوں کو موجودہ معنی میں "قومی وحدت" اور "قومی مفادات" کے فروغ کی پرزور تلقین کی گئی ہو؟ اسکے برعکس قرآن پلٹ پلٹ کر کہیں "امت وسط و خیر امۃ تو کہیں "اخوۃ و ملۃ" جیسی اصطلاحات "مسلم اکائی" کے لیے استعمال کرکے مسلم ذہن کو اپنی اس "بنیادی شناخت" کی طرف متوجہ کرتا چلا جاتا ہے۔ اسی طرح احادیث میں بھی یہ تھیم تسلسل کے ساتھ مل جاتی ہے؛ مثلاً ایک حدیث میں مسلم اکائی کو "ایک جسم" سے تشبیہ دے کر یہی بات سمجھائی گئی ہے کہ:

اخوت اسکو کہتے ہیں چبھے کانٹا جو کابل میں
تو ہندوستاں کا ہر پیر و جواں بیتاب ہوجائے

تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قرآن و حدیث میں یہ تھیم جو اس قدر تسلسل کے ساتھ بیان ہوئی ہے، کیا یہ مسلمانوں سے کوئی سیاسی تقاضا نہیں کرتی؟ کیا قومیت کے یہ جدید تصورات ۔۔ جہاں ایک "قومی مسلم ملک" اپنے قومی مفاد میں دوسرے قومی ملک کی گویا جڑ تک کاٹنے میں مصروف ہوجاتا ہے۔۔ شارع کے بیان کردہ مطلوبہ تصور وحدت کا سیاسی اظہار ہیں؟ تو آخر یہ بات کس منطق پر کھی جارہی ہے کہ خدا مسلمانوں سے ان قومی ریاستوں سے آگے کوئی دینی تقاضا نہیں کرتا؟ فی الوقت ہم طریقے کی بحث نہیں کررہے کہ یہ کرنا کیسے ہے، بلکہ فی الوقت تو گفتگو اس پر ہے کہ اس "ذمہ داری" کو اتنی آسانی سے کوئی کس طرح مسلمانوں کے کاندھوں سے اتار کر انہیں حاضر و موجود پر راضی کرسکتا ہے؟ چنانچہ اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ اس ضمن میں امت کے فقہاء نے نصوص کے منشا کو سمجھنے میں غلطی کہ پھر بھی سوال تو اپنی جگہ قائم ہے کہ اس معاملے میں "خدا چاہتا کیا ہے؟" یہ کہ مسلمان ایک گلوبل سرمایہ دارانہ نظم میں سرمایہ دارانہ قومی ریاستوں کی صورت میں بٹ کر سرمائے کی دوڑ میں دوسروں سے آگے بڑھ جانے کی جدوجہد میں لگے رہیں؟ فی الوقت نفس امری۔۔ جس پر آپ کو بظاہر کوئی خاص اعتراض نہیں ۔۔ تو یہی ہے۔ یا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ خدا کو اس سوال سے کوئی غرض نہیں کہ مسلمانوں کو اس معاملے میں کیا کرنا چاہیے، بس جو بھی دنیا کا چلن ہو اسی پر عمل کرلو؟ اس صورت میں بھی گھوم پھر کر پہلا ہی جواب لوٹ آتا ہے۔ 

آراء و افکار

(مئی ۲۰۱۵ء)

تلاش

Flag Counter