امام شافعی: مستشرقین و ناقدین مستشرقین کی نظر میں

ڈاکٹر محمد زاہد صدیق مغل

میسر ذرائع کے مطابق امام ابو عبد اللہ محمد بن ادریس الشافعی رحمہ اللہ (م 204ھ / 820ء) کی کتاب "الرسالۃ" علم اصول فقہ کی پہلی کتاب مانی جاتی ہے۔ آپ نے "احکام شریعہ اخذ کرنے کے طریقے" کو الگ سے موضوع بنا کر اسے مدون کرنے کا اہتمام فرمایا جبکہ آپ سے قبل اس موضوع پر باضابطہ تحریر میسر نہیں، اگرچہ متعدد ائمہ مجتہدین فقہی احکام پر اپنا تفصیلی کام پیش کرچکے تھے۔ اسی لئے امام رازی (م 606ھ / 1210ء) کتاب "مناقب الامام الشافعی" میں امام شافعی کے بارے میں فرماتے ہیں کہ اصول فقہ میں آپ کو وہی مقام حاصل ہے جو ارسطو کا علم منطق اور علامہ خلیل کا علم عروض و شعر گوئی میں ہے کہ موخر الذکر سے پہلے لوگ بلاشبہ منطق کے قوانین برتتے تھے اور اشعار بھی کہتے تھے لیکن یہ ایک ذوقی نوعیت کی چیز تھی اور کوئی ایسا پیمانہ مقرر نہ تھا جس پر پرکھ کر منطقی استدلال و شعر کی موزونیت کو جانچا جاسکے اور دوسرے پر حجت قائم کی جاسکے۔ اسی طرح امام شافعی سے قبل لوگوں کے پاس کوئی ایسا منضبط قانون کلی نہ تھا جس کے ذریعے ایک دوسرے کے استدلال کو جانچا جاسکے کہ جس نے جو کہا وہ کیوں کر اور کیسے درست ہے۔

امام شافعی کے حوالے سے ایسی آراء اسلامی تاریخ میں موجود رہی ہیں، تاہم مستشرقین (orientalists) نے اپنے روایتی منہج بحث کو اختیار کرتے ہوئے جہاں یہ تاثر دینے کی کوشش کی سنت و حدیث کا زخیرہ اسلامی قانون کی ابتدائی تشکیل کے بعد (بالخصوص تیسری صدی ہجری) کی پیداوار ہے، ساتھ ہی بعض نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی امام شافعی سے قبل گویا ماخذات شرع کا کوئی واضح تصور مسلمانوں کے ہاں موجود نہ تھا اور مسلمان بے ڈھب طرز پر قانون تشکیل دیتے رہے، یہاں تک کہ امام شافعی نے تقریبا دو صدیوں بعد اخذ قانون کا قاعدہ مقرر کیا۔ ان آراء کے اظہار کا سلسلہ مشہور مستشرق گولڈزیہر سے ہوتی ہوئی جوزف شاخت اور مابعد تک پھیلا ہوا ہے۔ اسی تناظر میں مشہور مستشرق جوزش شاخت (Schacht,)نے کتاب The Origins of Muhammadan Jurisprudence میں امام شافعی کو اصول فقہ کا "ماسٹر آرکیٹیکٹ" قرار دیا۔ ان کی یہ بات "کلمۃ حق ارید بھا الباطل" کا مصداق تھی کیونکہ ان حضرات کی فکر کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ابتدائی صدیوں میں فقہ کی ڈویلپمنٹ کا اصول فقہ سے کوئی تعلق نہیں تھا، یہ نظری علم مسلمانوں نے بعد میں وضع کیا۔ گویا آپ سے قبل امام ابوحنیفہ (م 150 ھ / 767 ء ) و مالک (م 179 ھ/795ء) و دیگر مجتہدین نے فقہ کا جو ذخیرہ چھوڑا، وہ الل ٹپ اور مقامی روایات وغیرہ کے تناظر میں متشکل ہوتا رہا۔

اسلامی قانون کی تشکیل کے بارے میں مستشرقین کے یہ دعوے گمراہ کن تھے اور اسی لئے عالم اسلام کے اہل علم نے ان کا بھرپور تعاقب کیا۔ اس کاوش کے نتیجے میں ابتدائی صدیوں میں سنت و حدیث کی تدوین اور تشریعی حیثیت پر وقیع کام سامنے آیا جس کی ایک طویل لسٹ تیار کی جاسکتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اہل علم نے یہ دکھانے کی کوشش بھی کی کہ امام شافعی سے قبل اصول فقہ کے مباحث کا واضح ادراک موجود تھا۔ اسلامی یونیورسٹی کے ایک اہل علم جناب ڈاکٹر ظفر اسحاق انصاری صاحب (م 2016 ء ) نے ابتدائی دو صدیوں کے دوران کوفہ کے علاقے میں اسلامی قانون کی تشکیل پر پی ایچ ڈی کے وقیع مقالے ( Early development of Islamic Fiqh in Kufa with Special Reference to the Works of Abu Yousuf and Shaybani) میں ائمہ احناف کی کتب سے مستشرقین کے اس دعوے کی تردید کی ہے کہ ابتدائی صدیوں میں سنت و حدیث کو ماخذ قانون کے طور پر نہیں دیکھا جاتا تھا۔ آپ نے ان کتب کے تفصیلی حوالہ جات کے ذریعے یہ ثابت کیا ہے کہ ائمہ احناف کے نزدیک حدیث و سنت "خبر لازم" کی حیثیت رکھتی تھی اور اہل کوفہ کے بارے میں "اہل الرائے" کے عمومی پراپیگنڈے کے برعکس حنفی ائمہ کثرت کے ساتھ سنت و حدیث سے استدلال کیا کرتے تھے۔ اسی طرح آپ یہ بھی کہتے ہیں کہ مصر، شام، مدینہ و کوفہ کی فقہی روایات میں سے بالخصوص کوفہ کی فقہی روایت زیادہ مربوط و منظم تھی اور مختلف فقہی روایات کا یہی کام امام شافعی کی "الرسالۃ" کے لئے پیش خیمہ کی حیثیت رکھتا ہے۔

محترم انصاری صاحب کا یہ مقالہ بہت حد تک متوازن محسوس ہوتا ہے کیونکہ یہ نہیں مانا جاسکتا کہ ایک شخص یوں اچانک اٹھ کر یکدم "الرسالۃ" جیسی اتنی منظم کتاب لکھ دے، یقینا اس کی پشت پر ایک طویل علمی روایت موجود ہوتی ہے جسے مد نظر رکھتے ہوئے ہی چند مخصوص سوالات کو مقرر کرکے ان کا جواب دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔ مستشرقین کو جواب دیتے ہوئے تاریخی تناظر میں اس نوعیت کا کچھ کام جناب ڈاکٹر فضل الرحمان انصاری صاحب (م 1988ء) نے اپنی کتاب Islamic Methodology in History میں بھی پیش کیا، تاہم حدیث و سنت کے بارے میں ان کی آراء مسلمان اہل علم کی عمومی آراء کی نمائندگی نہیں کرتیں۔

مستشرقین کے کام پر یہ ایک قسم کا رسپانس تھا، اس ضمن میں مستشرقین کے جواب میں ایک اور رسپانس دنیا کے مختلف علاقوں کے اندر اہل علم کے ہاں "اینٹی استشراق" تحریک کی صورت سامنے آیا ، یہ اہل علم مسلمانوں کے ساتھ خاص نہیں۔ ان مصنفین کو مستشرقین سے یہ شکایت ہے کہ یہ لوگ مختلف اہل مذاھب کی ایسی تاریخ لکھتے ہیں جو انہیں احساس کمتری کا شکار کرتی ہے، لہذا ان مستشرقین کو رد کرنا ضروری ہے۔ امام شافعی کے تناظر میں ایسی تحریر لکھنے والے اہل علم میں ایک اہم نام جناب وائل حلاق صاحب کا ہے۔ آپ نے 1993 کے اپنے ایک مقالے (Was al-Shafii the Master Architect of Islamic Jurisprudence?) میں تاریخی تجزیات کی بنیاد پر اس رائے کا اظہار کیا کہ امام شافعی کو اصول فقہ کا ماسٹر آرکیٹکٹ کہنا غلط ہے، آپ کی کتاب "الرسالۃ" کا اصول فقہ کی تشکیل میں نہ خاص کردار ہے اور نہ ہی آپ کے خیالات کو کم از کم 100 سال تک کوئی اہمیت دی گئی۔ آپ کی کتاب الرسالۃ ایک ابتدائی نوعیت کی چیز تھی نہ کہ حرف آخر (یہ دعوی مسلمانوں میں سے کسی نے کیا بھی نہیں کہ آپ کا کام حرف آخر تھا) بلکہ یہ کتاب اصول فقہ کے بجائے اصول حدیث سے متعلق ہے۔ مسلمانوں نے آپ کے بعد اس علم کو مزید ترقی دی اور جسے آج اصول فقہ کہتے ہیں، وہ تیسری و چوتھی صدی ہجری میں مسلمانوں کے مختلف گروہوں کی باہمی بحث و تمحیص کے بعد پانچویں صدی ہجری کے آغاز میں سامنے آیا اور اس ضمن میں وہ قاضی باقلانی (م 403 ھ) کو بنیادی اہمیت کا حامل سمجھتے ہیں۔ تاہم یہ بات سمجھ نہیں آسکی کہ آخر علامہ جصاص (م 370 ھ) کو وہ اس ضمن میں کیونکر اہمیت دینے کے لئے تیار نہیں جنہوں نے "الفصول فی الاصول" کے نام سے اس فن پر ایک ضخیم کتاب لکھی۔

حلاق صاحب کے اس تجزیے پر مختلف اہل علم، بشمول مستشرقین اور اہل اسلام، کا رد عمل سامنے آیا۔ اس رد عمل کو دو بنیادی نکات میں سمویا جاسکتا ہے:

1) یہ دیکھنا کہ تیسری و چوتھی صدی ہجری کے دوران امام شافعی کو کس قسم کا رسپانس ملا

2) یہ دیکھنا کہ امام شافعی کی "الرسالۃ" اور امام جصاص کی "الفصول" کے درمیانی تقریبا ڑیڑھ سو سالہ دور میں اصول فقہ پر کس نوعیت کا کام ہوا تاکہ یہ دیکھا جاسکے کہ الرسالہ کا ان کے ساتھ کیسا تعلق ہے۔

اس ضمن میں متعدد اہل علم نے اپنی تحقیقات پیش کیں جو حلاق صاحب کے درج بالا مقدمات کی تردید کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ ان تمام تحریرات کا احاطہ کرنا یہاں ممکن نہیں، تاہم بحث و جواب کی نوعیت سمجھنے میں احمد الشمسی کی The Canonization of Islamic Law: A Social and Intellectual History نیز احمد تامل صاحب کے پی ایچ ڈی مقالے The Missing Link in the History of Islamic Legal Theory: The Development of Usool al-Fiqh between al-Shāfi and al-Jaṣṣāṣ during the 3rd/9th and Early 4th/10th Centuriesکا مطالعہ سود مندہوگا۔ بدقسمتی سے تیسری و چوتھی صدی ہجری کے دوران اصول فقہ پر لکھی جانے والی اکثر کتب ہمیں میسر نہیں، تاہم پچھلے کچھ عرصے میں محققین مختلف لائبریریز میں محفوظ بعض مخطوطات کو ایڈٹ کرکے سامنے لائے ہیں جیسے شافعی عالم سریج (م 306 ھ / 918 ء )کی فقہ کی کتاب کا وہ حصہ جو اصول فقہ پر مبنی ہےاور اسی طرح چوتھی صدی ھجری کے نصف میں انتقال کرنے والے شافعی عالم الخفاف کی کتاب کا اصولی مقدمہ۔ یہ دونوں مخطوطات احمد الشمسی صاحب نے اپنے مقالے Bridging the Gap: Two Early Texts of Islamic Legal Theory میں جمع کردئیے ہیں۔

امام شافعی کی کتاب "الرسالۃ " کے بارے میں مستشرق نارمین کالڈر (Norman Calder) نے اس رائے کا اظہار بھی کیا کہ یہ کتاب آپ نے نہیں بلکہ بعد کے دور کے کسی شافعی عالم نے تحریر کی ہے، اس کی وجہ محقق کے خیال میں یہ ہے کہ کتاب کے مباحث خاصے ایڈوانس نوعیت کے ہیں جنہیں دوسری صدی ہجری میں پیش کیا جاسکنا مشکل معلوم ہوتا ہے۔ تاہم اہل علم نے اسلامی علوم کے متعدد داخلی شواھد سے یہ ثابت کردیا ہے کہ یہ رائے غلط ہے۔ مثلا ابو یعقوب بویطی (پیدائش اندازا 170 ھ - متوفی 231 ھ) امام شافعی کے ایک شاگرد تھے۔ آپ نے "مختصر" کے نام سے امام شافعی کے "الرسالۃ" کا خلاصہ لکھا جسے محققین نے کچھ سال قبل مخطوطات سے تصنیف میں ڈھال دیا ہے اور احمد الشمسی نے انگریزی زبان میں اس کا ترجمہ بھی کیا ہے۔ای طرح مشہور معتزلی عالم جاحظ (م 255ھ) کے رسالے "رد ھاشم علی ادعاء أميۃ البسالۃ" میں اس کتاب کا ذکر موجود ہے۔ الغرض اس نوع کے متعدد نظائر یہ ثابت کرتے ہیں کہ الرسالۃ امام صاحب ہی کی تصنیف تھی۔

ان محققین کو جواب دینے کے لئے حلاق صاحب نے 2019 میں Uṣūl al-Fiqh and Shāfiʿī’s Risāla Revisited کے نام سے ایک تفصیلی مقالہ لکھا۔ اس تحریر میں حلاق صاحب کے استدلال کا حاصل یہ ہے کہ کسی علم کے اصول فقہ کہلائے جانے کے لئے جن پانچ شرائط کا پورا ہونا ضروری ہے، ان شرائط پر امام شافعی کی الرسالۃ تو کجا پانچویں صدی ہجری کی اکثر کتب بھی ان پر بمشکل پورا اترتی ہیں۔ یہ پانچ شرائچ درج ذیل ہیں:

الف) چار ماخذات دین یعنی قرآن، سنت ، اجماع و قیاس کا واضح تصور ہونا۔ حلاق صاحب نے ایک مستشرق جوزف لوری کی تحقیق (Does Shafi have a Theory of Four Sources of Law?) پر اعتماد کرتے ہوئے اس رائے کو اختیار کیا کہ امام صاحب کے ہاں اس کا تصور موجود نہیں (یہ صراحتا ایک غلط رائے ہے کیونکہ آپ کی کتب "الرسالۃ " و "الام" میں صریح عبارات میں ان چار کا بالترتیب ذکر موجود ہے)

ب) ان چار ماخذات کا ترتیب وار لحاظ کئے جانے کا ادراک ہونا کیونکہ ترتیب بدلنے سے بہت فرق پڑتا ہے۔ حلاق صاحب کی رائے میں اس ترتیب کے وجوب کا واضح ادراک قاضی باقلانی کے ہاں ملتا ہے

ج) ایسے علم کے وجود کا ادراک ہونا جو فقہ سے الگ و بلند تر اصول و قواعد سے بحث کرتا ہو اور اس کے ماہرین کے ہاں "ادلۃ اجمالیۃ" کا واضح تصور پایا جائے

د) اپنی الگ شناخت کا شعور رکھنے والے (یعنی self-conscious)) علم کا وجود ہونا، یعنی ایک ایسا علم جو خود اپنے اصول و قواعد کا جواز و شعور رکھتا ہو کہ اس علم کا مقصد و سکوپ کیا ہے وغیرہ وغیرہ۔ حلاق صاحب کے خیال میں اصول فقہ پر یہ دور جوینی (م 478 ھ) و غزالی (م 505 ھ) و سرخسی (م 483 ھ) تک پہنچ کر آتا ہے۔

ھ) اصول فقہ الگ سے ایک نوع ہو جسے ضبط تحریر میں لانے کا ایک منفرد انداز ہو اور اس کے ماہرین کی منفرد کمیونٹی الگ سے پہچانی جاتی ہو۔ ان کے خیال میں علامہ باقلانی کے دور کے بعد اس نوع کے وجود کی ابتدا ہوئی۔

چنانچہ ان شرائط کو بنیاد بنا کر وہ الرسالۃ کو اصول فقہ کے لئے ایک غیر ضروری نہ سہی تو کم از کم بالکل ابتدائی نوعیت کی ایک چیز دکھانے کی کوشش کرتے ہیں۔

تاہم حلاق صاحب کے اس تجزئیے پر ذہن میں درج ذیل سوالات پیدا ہوتے ہیں:

1) کیا کسی نے امام شافعی کو انہی پانچ شرائط کے معنی میں اصول فقہ کا ماسٹر آرکیٹیکٹ کہا تھا کہ حلاق صاحب نے اسے بنیاد بنا کر یہ مقدمہ رد کیا؟ اگر ایسا کسی نے نہیں کہا تو یہ بات سمجھنا مشکل ہے کہ آخر حلاق صاحب نے رد کس کا لکھا؟ بظاہر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ 1993 کے مقدمے کے دفاع کے لئے انہوں نے ایسی سخت شرائط مقرر کیں۔

2) حلاق صاحب کا 1993 کا مقدمہ زیادہ تر تاریخی نوعیت کا تھا جس پر ناقدین نے تاریخی شواھد کے ذریعے ان کے مقدمے کی غلطی کو واضح کرنے کی کوشش کی۔ لیکن 2019 میں حلاق صاحب نے تاریخی کے بجائے تجزیاتی گراؤنڈ پر اپنا دفاع کیا کہ جن شواہد کو ناقدین نے پیش کیا وہ کیونکر اصول فقہ کہلانے کے مستحق نہیں۔ اس اعتبار سے حلاق صاحب کے دو مقالہ جات کی بحث میں بظاہر ربط محسوس نہیں ہوتا۔

3) کسی علم کے اصول فقہ کہلائے جانے کے لئے خود ان پانچ شرائط کی علمی حیثیت کیا ہے؟ کیا ماضی کے مسلمان اہل علم میں سے کسی نے ایسی شرائط پیش کیں؟ ممکن ہے حلاق صاحب اس سوال کو غیر ضروروی قرار دیں لیکن اہل اسلام کے روایتی طبقے کے لئے یہ سوال اہمیت کا حامل ہے کیونکہ اس طرح پھر کوئی بھی ماہر اپنی طرف سے ایسی مزید سخت شرائط عائد کرکے اصول فقہ کی ڈویلپمنٹ کو مزید دو تین صدیاں آگے دھکیل سکتا ہے۔

4) حلاق صاحب کا یہ تجزیہ مستشرقین کے اس اعتراض کا جواب کیسے دیتا ہے کہ "اصول فقہ و فقہ دو الگ قسم کے علوم تھے اور اصول فقہ بہت بعد کی پیداوار ہے"، یہ واضح نہیں ہو پاتا۔ بلکہ ان کی تحقیق سے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ مسلمانوں نے چار سو سال تک بغیر کسی واضح تصور اصول کے فقہ کی تشکیل جاری رکھی۔

5) حلاق صاحب کی شرائط کا حاصل یہ ہے: (الف) سڑک کا مطلب 240 فٹ چوڑی سڑک ہے جس کے ہر طرف 3 بسیں بیک وقت کراس کر سکیں، (ب) ایسی سڑک کی تعریف پر پاکستان میں موٹروے پورا اترتی ہے، (ج) پاکستان میں موٹروے 1997 میں بنی، (د) لہذا پاکستان میں سڑک 1997 میں بنی، اس سے پہلے پاکستان میں سڑک نہیں تھی۔

مستشرقین کے جواب میں امام شافعی کے کام کے تناظر میں ایک اہم رائے محترم عمران احسن نیازی صاحب کی بھی ہے۔ جیسا کہ اوپر عرض کی گئی کہ جناب ظفر اسحاق انصاری صاحب نے مستشرقین کو جواب دیتے ہوئے یہ واضح کرنے کی کوشش کی کہ ائمہ احناف کے ہاں ماخذ شرع اور اصول و قواعد کا واضح ادراک پایا جاتا تھا، اگرچہ انہوں نے اس موضوع پر کوئی باضابطہ تحریر نہ لکھی ہو۔ آپ کے شاگرد محترم عمران احسن نیازی صاحب اپنی کتاب Theories of Islamic Law میں آپ کے اس تجزئیے پر یہ اضافہ فرماتے ہیں کہ نہ صرف یہ کہ ائمہ احناف و مالکیہ امام شافعی سے قبل اصول وضع فرمارہے تھے بلکہ ان کے کام کی نوعیت امام شافعی کے کام اور ان کے نظریہ اصول سے مختلف نوعیت کی تھی۔ آپ کے نزدیک مستشرقین کی بنیادی غلطی یہ تھی کہ انہوں نے ان دو مناہج اصول کو ایک فرض کرتے ہوئے یہ سمجھا کہ امام شافعی اصول فقہ کے بانی تھے جبکہ امام شافعی صرف اس کے ایک خاص منہج یا نظریے کے بانی تھے جسے وہ "حرفیت پسندی" (لٹرل ازم) کہتے ہیں۔ اس کے برعکس ان سے قبل فقہائے احناف نے جس نظرئیے کی بنیاد ڈالی اسے وہ نظریہ اصولیت پسندی (theory of general principles) کہتے ہیں اور مشائخ احناف نے بعد میں اپنے ائمہ سے منقول جزئیات سے اپنا اصولی نظام الگ سے وضع کیا۔ تاہم مستشرقین ان دو نظاموں کو الگ کرنے کے بجائے اصول فقہ کو "کلاسیکل اسلامک تھیوری" کے عنوان میں بند کرکے اس غلط فہمی کا شکار ہوئے کہ امام شافعی گویا ہر قسم کے اصول فقہ کے بانی تھے۔ نیازی صاحب کے مطابق امام شافعی کے پیش نظر دین کے اس حصے جسے وہ "فکسڈ پارٹ" کہتے ہیں، اس کے لئے ایسی میتھاڈولوجی وضع کرنا تھا جو نصوص کے ظاہری معنی کے اندر یا اس سے قریب رہتے ہوئے اخذ احکام کو ممکن بنائے جبکہ فقہائے احناف اس سے زیادہ عمومی سطح پر قواعد عامہ اخذ کرنے کا فریم ورک تیار کررہے تھے۔

اس طرز استدلال سے وہ مستشرقین کا یہ تاثر غلط ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ امام شافعی سے قبل اصول فقہ کا وجود نہ تھا۔ اسلامی تاریخ میں تعبیر نصوص کے دو مناہج رہے ہیں، یہ بات ان معنی میں درست ہے کہ الفاظ و معنی کے فہم کا ایک نظریہ قائلین قیاس کا تھا جبکہ دوسرا نظریہ منکرین قیاس کا (جس کی مثالیں ابتدائی صدیوں میں النظام معتزلی، مکتب اہل تشیع اور گروہ خوارج کی صورت نظر آتی ہیں)۔ چنانچہ محترم نیازی صاحب کے استدلال کے درست ہونے کے لئے یہ لازم ہے کہ امام شافعی کو علمائے ظاہریہ جیسے منکرین قیاس کی صفوں کے قریب کیا جائے تاکہ یہ بات ثابت ہوسکے کہ امام شافعی پوری طرح سے اس اصولی منہج کی نمائندگی نہیں کرتے جس کی بنیاد ائمہ احناف وغیرہ نے ڈالی بلکہ آپ کا نظریہ اصول احناف سے مختلف نوعیت کا تھا۔ اسی لئے نیازی صاحب رماتے ہیں کہ امام شافعی کے خیالات اسی گروہ سے قربت رکھتے ہیں جس میں علامہ داؤد ظاہری آتے ہیں اور اس کی دلیل آپ کے نزدیک یہ ہے کہ امام صاحب کے قیاس کا تصور قیاس اولی اور قیاس شبہ تک محدود ہے، اول الذکر کے قیاس ہونے ہی میں اختلاف ہے کیونکہ احناف اسے دلالۃ النص کہتے ہیں جبکہ موخر الذکر ان کے نزدیک تحقیق مناط سے عبارت ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ قیاس کا وہ تصور جسے اہل فقہ قیاس علت کہتے ہیں، امام شافعی کے ہاں اس کا ادراک نہیں ملتا۔ آپ کے اصول فقہ میں قیاس کی بحثوں پر یہ اضافہ جات کئی صدیاں بعد امام جوینی و غزالی نے کئے اور اسی لئے آپ فرماتے ہیں کہ امام شافعی کے ہاں "تخریج مناط" کا وہ تصور نہیں پایا جاتا جس کی بات امام غزالی کرتے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ آپ کے نزدیک یہ ہے کہ امام شافعی کا اصل منہج لٹرل ازم تھا اور احناف کی طرح جنرل پرنسپلز کی دریافت وغیرہ آپ کے پیش نظر نہ تھا۔ اسی وجہ سے آپ نے استحسان کے حنفی تصور کو رد کیا جو گویا اخذ قواعد کی ایک الگ میتھاڈولوجی کا مظہر تھا۔ چنانچہ یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ امام شافعی نے ایک ایسے اصول فقہ کی بنیاد رکھی جو اپنے سے پیش رو فقہا کے مقابلے میں تنگ تھی اور نیازی صاحب کے مطابق اسی لئے امام شافعی کی فقہ کو ڈویلپ ہونے میں دو صدیوں سے بھی زیادہ وقت لگا اور آپ کے نظریات فقہی مباحث پر زیادہ اثر نہ ڈال سکے، بعد کے دور میں شافعی علماء کے ہاں آپ کے نظریات کو اخذ و ترمیم کے ساتھ قبول کیا گیا۔

امام شافعی کے تصور اصول فقہ کی بحث میں محترم نیازی صاحب کا یہ مقدمہ ایک دلچسپ اضافہ ہے کہ انہوں نے اس کے ذریعے مستشرقین کے مقدمے کا جواب دینے کی کوشش کی (آپ کے مطابق اصول فقہ میں اخذ احکام کی ایک نہیں بلکہ تین تھیوریز پائی جاتی ہیں، درج بالا دو کے سوا تیسری تھیوری امام غزالی نے "مقاصد شریعت" کے تناظر میں وضع کی جسے تاحال پوری طرح برتا نہیں جاسکا)۔ امام شافعی کے بارے میں محترم نیازی صاحب کے اس مقدمے کے حوالے سے تاحال ایسی کوئی تحریر ہماری نظر سے نہیں گزری جس میں اس کا جائزہ لینے کی کوشش کی گئی ہو، آپ کی اس کتاب پر جناب ظفر اسحاق انصاری صاحب نے تقریظ لکھتے ہوئے ان کی تحقیق و نتائج فکر کی تحسین فرمائی ہے ۔ تاہم نیازی صاحب کی طرف سے امام شافعی کے تصور قیاس کو انڈر ڈویلپ یا محدود ثابت کرکے انہیں علامہ داؤد ظاہری جیسے حرفیت پسندوں کا پیش رو کہنا اور ان کے منہج اصول کو احناف و مالکیہ کے منہج سے الگ ثابت کرنا محل نظر مقدمات ہیں۔ ان مقدمات کا جائزہ لینے کے لئے اقسام قیاس، مسالک علت و استحسان کی بحثوں کی روشنی میں امام شافعی کی عبارات اور ان کی امثلہ پر بحث کرکے ائمہ و مشائخ احناف کی آراء کے ساتھ اس کے موازنے کی ضرورت ہے۔ اس ضمن میں ساتھ ہی ساتھ یہ دیکھنے کی بھی ضرورت ہے کہ کیا اسلامی تاریخ میں علمائے شوافع و احناف نے خود ایسی کسی رائے کا اظہار کیا کہ امام شافعی کا منہج علمائے ظاہریہ جیسا تھا نیز آپ کے ہاں قیاس علت جیسے تصورات نہیں پائے جاتے؟ یہ جائزہ ان شاء اللہ الگ تفصیلی تحریر میں پیش کیا جائے گا۔

مسلم مفکرین

(دسمبر ۲۰۲۱ء)

تلاش

Flag Counter