پچھلے کچھ عرصے میں مجاہدین کی انقلابی و جہادی حکمت عملی (یعنی ریاست کے اندرتعمیر ریاست) کے حوالے سے بہت سے خدشات کا اظہار کیا جانے لگا ہے اور اس ضمن میں ماہنامہ ’الشریعہ‘ نے باقاعدہ اس موضوع پر خاص نمبر نکالنے کا اہتمام کیا۔ یہاں ہمارا مقصد ان مضامین پر کوئی نقد پیش کرنا نہیں۔ پہلے ان کے پیش گزاروں کے سامنے چند سوالات رکھنا ہے تاکہ معاملے کا دوسرا رخ ان کے سامنے آسکے۔ امید ہے یہ حضرات سوالات کے علمی جوابات مہیا فرمائیں گے۔ دھیان رہے کہ اس سوال نامے کا مقصد نفس موضوع پر اپنی کوئی اصولی رائے بیان کرنا نہیں (کیونکہ اس کے لیے ایک الگ مضمون اور پیرایے کی ضرورت ہے) بلکہ اس کا مقصد جہادی حکمت عملی کے ناقدین کے مفروضات کو قبول کرتے ہوئے یہ دیکھنا ہے کہ آیا ان کے فکری منہج سے برآمد ہونے والے درج ذیل متعلقہ مضمرات و تضادات (anomalies) کا کوئی تسلی بخش جواب مل سکتا ہے یا نہیں تاکہ ان کی فکر ی جامعیت سب پر واضح ہوسکے۔ سوال نامے میں ربط کو برقرار رکھنے کے لیے کسی مخصوص قلم کار اور مضمون کو براہ راست مخاطب کرنے کے بجائے سوالات کو چار عنوانات میں تقسیم کرکے ماہنامہ ’الشریعہ‘ دسمبر ۲۰۰۸ میں شائع شدہ تینوں مضامین (بقلم مولانا زاہد الراشدی، محمد مشتاق احمد، حافظ زبیر) اور ان پر ڈاکٹر فاروق خان صاحب کے تبصرے کو زیر بحث لایا گیا ہے۔
(۱) مجاہدین اور عالمی قوانین کی پاسداری پر
یہ بات علمی (خصوصاً لبرل و سیکولر) حلقوں میں زور و شور سے اٹھائی جانے لگی ہے کہ مسلمان ریاستوں نے UNO کے چارٹر کے تحت عالمی قوانین پر دستخط کررکھے ہیں جن کی رو سے جہادی تحریکات کی جدوجہد شرعاً جائز نہیں ہے۔ اس دلیل پر درج ذیل سوالات پیدا ہوتے ہیں:
ا۔ کسی غیر شرعی قانون کی شرعی حیثیت کیا ہوتی ہے؟ مثلاً سود ادا کرنے کے قانون کی شرعی حیثیت کیا ہے؟
- کیا ہیومن رائٹس پر مبنی عالمی قوانین شرعی ہیں یاغیر شرعی؟ (i)
۲۔ کسی غیر شرعی قانون و معاہدے پر دستخط کرنے کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ کیا ایسا معاہدہ کرنا شرعاً جائز ہوتا ہے؟
۳۔ کیا کسی مسلمان حاکم کو شرعاً یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی رعایا کی طرف سے کسی غیر شرعی و کفریہ قوانین و معاہدوں پر دستخط کرے؟
۴۔ پھر اگر ایسا معاہدہ کرہی لیا جائے تو کیا کسی غیر شرعی قانون و معاہدے پر عمل کرنا شرعاً واجب ہوتا ہے؟
- یعنی کیا غیر شرعی معاہدہ لازم (Binding) ہوتا ہے؟
- اگر کوئی مسلمان حاکم اپنی رعایاکی طرف سے کسی ایسے غیر شرعی قانون پر دستخط کردے تو کیا مسلمان عوام ان کی پابندی پر شرعاً مجبور ہوگی؟ کیا معصیت میں حکمرانوں کی اطاعت کرنا لازم ہوتی ہے؟
۵۔ اگر معاہدے کا ایک فریق معاہدے کی کھلے عام مخالفت کرے توکیا اس کے بعد بھی دوسرے فریق پر معاہدے کی پابندی لازم رہتی ہے؟ کیا مشرکین مکہ نے جب صلح حدیبیہ کی مخالفت کی تھی تو معاہدہ کالعدم قرار دینے میں مسلمان حق بجانب تھے یا نہیں؟
- تاریخی تناظر میں بتایا جائے کہ کیا ہر جگہ عالمی قوانین کی خلاف ورزی پہلے امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے کی یا مجاہدین نے؟ اگر امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے کی تو پھر مسلمان ریاستوں اور مجاہدین کو ان قوانین کی دہائی دینے کا کیا مطلب؟
۶۔ کیا ’اسلامی حکومت‘ اور ’مسلمانوں کی حکومت‘ ایک ہی شے کے دونام ہیں یا ان میں فرق ہے؟
- کیا ’مسلمانوں کی کافر حکومت‘ ایک محال شے ہے؟
- ظاہر ہے علماء نے ہیومن رائٹس کی جن شقوں کو غیر اسلامی قرار دیا ہے، وہ اب بھی عالمی کفریہ قوانین کا حصہ ہیں تو کیا ہیومن رائٹس کے واضح کافرانہ قانون کو ماننے اور ان پر دستخط کرنے کے بعد بھی ’مسلمان حکومتیں‘ اسلامی ہی رہیں؟
- کیا اس کافرانہ قانون پر دستخط ثبت کرنا بذات خود کسی ریاست کے غیر اسلامی ہونے کی دلیل نہیں؟
۷۔ لہٰذا دور حاضر میں وہ ’اسلامی حکومت‘ ہے ہی کہاں جو مسلمانوں کی طرف سے معاہدہ (اور وہ بھی غیر شرعی) کرنے کی مجاز ہو اور اس کا کیا گیا معاہدہ مسلمانوں پر لازم ہو؟
۸۔ اسلامی جدوجہد کا مقصد موجودہ سرمایہ دارانہ قانون پر مبنی نظام کی جزوی اصلاح (reform) کرنا ہے یا اسے تبدیل (replace) کرنا؟
- اگر مقصد صرف جزوی اصلاحات کرنا ہی ہے تو پھر کیا آپ یہ مانتے ہیں کہ یہ قانونی نظام اصولاً اسلامی ہی ہے (جو کہ اصلاً نہیں ہے)؟
- اور اگر مقصد اسے تبدیل کرنا ہے تو اس قانون کے اندررہ کر جدوجہد کرنے کا کیا معنی ہوا؟ دنیا میں وہ کون سا قانون ہے جسے ’اپنانے اور اختیار کرنے‘ کے نتیجے میں وہ تبدیل ہوگیا ہو اور اس قانون پر مبنی نظام تہہ تیغ ہوگیا ہو؟ کیا قانون کے اندر رہتے ہوئے کارروائی کرنے کا مطلب اس قانون کی ابدیت کو ماننا نہیں ہے؟ (ii)
۹۔ بعض علماء کرام صرف مجاہدین ہی کے خلاف ’متفقہ فتویٰ‘ کیوں چھپواتے ہیں:
- ایسی کافر ریاست کا ’متفقہ شرعی حکم ‘ کیوں بیان نہیں کیا جاتا جو مسلم علاقوں پر لشکر کشی کر دے؟
- ایسے مسلمان حکمرانوں کے بارے میں شریعت کا ’متفقہ حکم‘ کیوں نہیں بتایا جاتا جو کفا ر کو معصوم مسلمانوں کے قتل عام کرنے کی اجازت دے (iii) اور اس کے بدلے کے طور پر Friends of Pakistan سے اربوں ڈالر وصول کرے؟
(۲) خود کش حملے کے اطلاق کی بحث پر
جن لوگوں کا خیال ہے کہ خود کش حملہ صرف اس وقت جائز ہے جب وہ میدان جنگ میں ہو اور اس کا ٹارگٹ تبعاً بھی غیر محاربین نہ ہوں، ان سے سوال ہے کہ:
۱۔ موجودہ جنگی ہتھیاروں کے پس منظر میں میدان جنگ اور میدان امن کے فرق کا تعین کیسے کیا جائے گا؟
الف) موجودہ دور کی جنگی حکمت عملی میں سب سے پہلے اسی چیز کی کوشش کی جاتی ہے کہ دشمن کی سپلائی لائن اور Strategic جگہوں کو توڑا جائے (مثلاً بجلی گھر، پل اور نیٹ ورکنگ کے ادارے وغیرہ تباہ کرنا)۔ کیا یہ چیزیں بھی میدان جنگ کے قدیم تصور میں شامل ہوتی ہیں؟ پھر ظاہر ہے اس میں بھی لازماً ’غیر محاربین‘ ہلاک ہوتے ہیں۔ (ایسا تو ہونہیں سکتا کہ بم گرانے سے قبل تمام لوگوں کو وہاں سے ہٹا دیا جائے)، کیا اسلامی فوج کے لیے بھی ایسا کرنا غیر شرعی فعل ہوگا کہ اس میں غیر محاربین ہلاک ہوجاتے ہیں؟
ب) آج کل کے دور میں محارب تلوار لے کر آبادی سے باہر کسی میدان میں تو آتا نہیں، تو کیا اب بھی صرف ایسے ہی فوجی کو مارا جائے گا جو عملاً بندوق اٹھائے ہو اور دوسرے کسی کو نہیں، چاہے وہ ’میدان امن‘ میں قائم اپنے آفس میں بیٹھے کمپیوٹر کی مدد سے ہی اصل جنگ کیوں نہ لڑ رہے ہوں؟
ج) اگر دوران جنگ غیر محاربین کا تبعاً مرجانا بھی ہر حال میں غلط ہی ہے تو کیا پھر جدید اسلحہ ترک کرکے مسلمان صرف صرف تلوار سے جنگ لڑیں کہ کسی غیر محارب کے مرنے کا احتمال تو تیر چلانے تک میں بھی موجود ہے؟
د) اگر دوران جنگ پاکستانی فوج بھارت پر میزائل چلائے تو کیا آپ اسے یہی مشورہ دیں گے کہ ’دیکھنا کہیں تمہارا میزائل اور بم کسی غیر محارب کی جان نہ لے؟‘ اگر ہاں تو پھر ان میزائلوں اور ایٹمی ہتھیاروں کی تعریف و توصیف کے کیا معنی کیونکہ ان ہتھیار وں سے تو ایسی رعایت ممکن ہی نہیں؟
ھ) کیا پاکستانی فوج اس وقت دیر، بونیر اور سوات (اور اس سے قبل وانا وغیرہ) میں جو آپریشن کررہی ہے، وہ وہاں اس باریک فرق کو ملحوظ رکھتی ہے اور کیا اس کے ہاتھوں سینکڑوں غیر محارب نہیں مررہے؟ سب جانتے ہیں کہ دوران آپریشن وہ معصوم عوام کا قتل کرکے اسے collatral damage کا خوبصورت نام دیتی ہے (iv)۔ تو ایسے فوجی آپریشن اور ان میں شامل فوجیوں کا شرعی حکم کیا ہے؟
و) امریکہ اور اس کے اتحادی (بشمول پاکستان) اس وقت بغداد، فاٹا، افغانستان، فلسطین وغیرہ پر جہازوں کی مدد سے جو بم گرارہے ہیں، وہ کس ’میدان جنگ‘ پر گر رہے ہیں؟ اگر یہ لوگ میدان جنگ اور امن کے قدیم تصورات کی رعایت کرنے کے پابند نہیں تو صرف مسلمان مجاہدین کو ان کی دہائی کیوں دی جاتی ہے؟
۲۔ درج ذیل کا حکم کیا ہے؟
الف) شریعت میں شب خون مارنے کی جو اجازت موجود ہے، اس کا اطلاق کیا ہے؟
ب) بخاری شریف کی روایت کے مطابق دور نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں دشمن اسلام کعب بن اشرف کو اس کے گھر میں گھس کر خفیہ طریقے سے قتل کیا گیا (حالانکہ اس وقت مسلمانوں کا مکہ والوں سے امن معاہد ہ بھی تھا)۔ کیا یہ قاتلانہ حملہ میدان جنگ میں کیا گیا تھا؟
۳۔ پھر جو مفکرین موجودہ دستوری و جمہوری پاکستان کو اسلامی قرار دیتے ہیں ، ظاہر ہے ان کے مطابق پارلیمنٹ عوام کی نمائندہ ہے اور وہ جو کرتی ہے، اصولاً و قانوناً عوامی خواہشات ہی کا مظہر ہوتاہے ۔
- اس وقت پاکستان پر جو امریکی حملے جاری ہیں (اور اس سے قبل امارت افغانستا ن پر جو حملے ہوئے) وہ اصولاً ہماری پارلیمنٹ کی اجازت سے ہورہے ہیں اور پارلیمنٹ محض عوام کی نمائندہ ہے۔ کیا اس منطق سے ساری پاکستانی عوام حربی نہیں ٹھہری کہ وہ ایک حربی کافر کا ساتھ دے رہے ہیں؟ ظاہر ہے پاکستانیوں نے ان امریکی حملوں کے خلاف اتنی چستی بھی نہیں دکھائی جتنی کہ چیف جسٹس کی بحالی کے لیے دکھائی۔
۴۔ جن لوگوں کی رائے یہ ہے کہ خود کش حملہ ہر حال میں حرام ہے تو اس کی علت حرمت کیاہے ؟
الف) اگر یہ حرمت اس فعل کے خود کشی ہونے کی بنا پر عمومی اور ہر حال میں ہے تو ۶۵ء کی جنگ میں خود کشی کرنے والے پاکستانی فوجیوں کا حکم کیا ہے؟ راشد منہاس کی خود کشی کو کیا کہا جائے گا؟
ب) اگر یہ حرمت معصوم لوگوں کو مارنے کی وجہ سے ہے تو پھر علت حرمت ’خود کش حملہ‘ نہیں بلکہ کسی دوسرے انسان کا ’قتل ناحق‘ ہوئی۔ اس صورت میں خود کش حملے کی تخصیص کیوں کی جاتی ہے؟ جس طرح قتل نا حق خود کش حملے سے حرام ہے، اسی طرح بمبار طیارے اور ہیلی کاپٹر سے بم گرا کر بھی حرام ہے، تو پھر پاکستانی پائلٹ اور فوج پر فتویٰ کیوں نہیں لگایا جاتا؟
۵۔ اگر خود کشی کی علت حرمت اپنی جان لینا ہے اور یہ ہر حال میں حرام ہے، تو جس طرح اپنی جان لینا حرام ہے، اسی طرح بلاوجہ اپنے جسم کے کسی عضو کو کاٹ دینا بھی حرام ہی ہے۔ فرض کریں ایک شخص یہ جانتے ہوئے بھی کہ کسی دوسرے شخص کی جان بچاتے وقت میری ٹانگ یا بازو لازماً کٹ جائے گی، اس کی جان بچا کر اپنی ٹانگ یا بازو کٹوالیتا ہے تو اس فعل کا شرعی حکم کیا ہوگا؟ اگر یہ جائز ہے تو جس دلیل کی بنا پر یہاں استثناء پیدا کیا گیا، وہی دلیل خود کشی کے لیے کیوں غیر معتبر ہے؟
- پھر کیا ایسے حملوں کو ’فدائی حملوں‘ کے بجائے ’خود کش‘ کہنا بذات خود ایک مخصوص طرز فکر کی ترجمانی کرنا نہیں ہے؟
۶۔ کیا ایسا نہیں ہے کہ خود کش حملہ جدید ہتھیاروں (مثلاً ٹینک یا جنگی جہاز) کی عدم دستیابی کی وجہ سے بم دشمن کے علاقے میں پہنچانے کا محض ایک ذریعہ ہے؟ اگر مجاہدین کے پاس بھی جنگی جہاز وغیرہ ہوتے تو کیا انہیں یہ حملے کرنے کی ضرورت پڑتی؟
(۳) بغیر ریاست جہاد پر
جن مفکرین کے خیال میں ریاستی سطح کے علاوہ کسی صورت جہاد جائز ہی نہیں، ۱ن سے سوال ہے کہ:
۱۔ کیا دفاعی جہاد کے لیے بھی یہی شرط عائد کی جائے گی؟ اگر ہاں تو شرعی دلائل اور اقوال فقہا سے اس کی دلیل بتائی جائے۔
- دور حاضر میں جاری اکثر و بیشتر جہاد اقدامی ہیں یا دفاعی؟
۲۔ کتب فقہ میں شرائط جہاد کے ضمن میں ریاست کا ذکر ملتا ہے یا امیر کا؟
- اگر شرط امیر کی ہے تو کیا یہ شرط دور حاضر کے ہر جہاد میں پوری ہوتی ہے یا نہیں، خصوصاً طالبان کے جہاد میں کہ انہوں نے تو ریاست بھی قائم کردی تھی؟
- اگر کہا جائے کہ امیر سے مراد تمام مسلمانوں کا مشترکہ امیر ہے تو اس صورت میں کیا پاکستانی حکومت (بلکہ تمام مسلمان حکومتوں) کا اعلان جہاد بھی غیر معتبر نہیں ہو گا؟ کیوں کہ پاکستان تمام مسلمانوں کی نہیں بلکہ مخصوص جغرافیائی حدود پر قائم ایک قومی ریاست ہی ہے اور اس کے حکمران تمام مسلمانوں کے حکمران نہیں مانے جاتے۔
۳۔ ’جہاد کب لازم ہوگا‘ یعنی اعلان جہاد کے لیے طالبان کے بجائے پاکستانی ریاست کے حکمرانوں کے اعلان کا اعتبار کیوں ضروری سمجھا جاتا ہے، جبکہ طالبان نے ایک اسلامی ریاست قائم کرکے دکھا بھی دی ہے؟ آخر طالبان کی آواز پر لبیک کہنا کیوں ضروری نہیں؟
- کیا فریضہ جہاد کی ادائیگی کے لیے مسلمانوں کو فاسق و فاجر، طاغوتی نظام کے حامی اور استعمار کے ایجنٹ حکمرانوں پر اعتماد کرنا چاہیے؟
- کیا اسلام قومی اور وطن پرستانہ ریاستوں کے قیام و بقا کا حامی ہے؟
- پھر جن مفکرین کے خیال میں اعلان جہاد کی اصل ذمہ داری پاکستانی حکومت پر ہے، کیا انہوں نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے؟ کیا نائن الیون کے بعد پاکستان کھل کر مکمل طور پر استعمار کی ایک باج گزرا ریاست کے طور پر سامنے نہیں آگیا؟
۴۔ پاکستان سمیت دیگر مسلم ممالک جن عالمی قوانین کے پابند ہیں، ان میں واضح طور پر درج ہے کہ مذہب کے لیے کوئی جنگ نہیں لڑی جائے گی اور جہاد تو ہوتی ہی مذہبی جنگ ہے تو کیا اس کا مطلب یہ نہیں ہوا کہ مسلمان ریاستیں اس قانون پر دستخط کر کے جہاد کی منکر ہوچکیں؟ کیا اس کے بعد بھی وہ ’اسلامی ریاستیں ‘ کہلانے کی مستحق رہتی ہیں؟
۵۔ چنانچہ وہ ’اسلامی ریاست ‘ ہے کہاں جو جہاد کا اعلان کرے گی؟ اب سوال یہ ہے کہ جب اسلامی ریاست سرے سے موجود ہی نہ ہو یا وہ اتنی بزدل ہوکہ کفر کے غلبے کے مقابلے میں ذلت کی زندگی کو شہادت پر ترجیح دینے لگے یا کفر کی آلہ کار بن چکی ہو تو ایسی صورت میں مسلمانوں پر ہونے والے ظلم وجور کا مداوا کیا ہو؟ نیز اسلامی ریاست کے قیام کے لیے کیا کیا جائے؟
۶۔ عدم یا انہدام ریاست کے جواب میں :
الف) اگر کہا جائے کہ مسلمانوں کو اسلامی ریاست قائم یا بحال کرکے پھر جہاد کرنا چاہیے تو سوال یہ ہے کہ جب عدم و انہدام اسلامی ریاست کی وجہ غلبہ کفر تھا اور بقول آپ کے بغیر جہاد اسلامی ریاست قائم ہوچکی (یعنی کفر مغلوب ہوگیا) تو پھر جہاد کس لیے کیا جائے گا؟ جہاد کا مقصد کفر کی مغلوبیت ہی تو تھی؟ پھر انقلابی جدوجہد کیے بغیر اسلامی ریاست کیسے قائم ہوگی؟
ب) اگر کہا جائے کہ مسلمانوں کو پر امن جمہوری طریقوں سے تعمیر ریاست کی جدوجہد کرنی چاہیے تو سوال یہ ہے کہ جمہوری و دستوری طریقے سے آج تک کون سی اسلامی ریاست قائم ہوسکی ہے؟ اسلامی ریاست تو درکنار، کیا خود جمہوری ریاستیں دنیا میں جمہوری طریقے سے کہیں قائم ہوسکی ہیں؟ اگر ایسا ہی تھا تو امریکہ، برطانیہ، فرانس، چائنہ، روس وغیرہم کے خونی انقلابات کی ضرورت کیوں پڑی؟ (v) کیا جمہوریت مسلمانوں کی تاریخ و علمیت سے خود بخود برآمد ہوئی یا جمہوری ادارے استعمار نے ان پر بالجبر مسلط کیے؟
ج) اگر کہا جائے کہ ایسی جگہیں جہاں غلبہ کفار کی وجہ سے مسلمانوں پر ظلم ہو رہا ہے، انہیں وہاں سے ہجرت کر جانا چاہیے تو سوال یہ ہے کہ یہ حکم کس شرعی دلیل اور منطق سے اخذ کیا گیا ہے کہ جب حملہ آور کافر بذریعہ قوت اسلامی ریاست تباہ کرکے اس پر قابض ہوجائے تو مسلمانوں کو اپنی ریاست پلیٹ میں رکھ ان کے سامنے پیش کرکے خود وہاں سے نکل جانا چاہیے ؟ کیا کسی باغیرت قوم کے لیے ایسا کرنا ممکن ہوسکتا ہے؟ اور پھر ہجرت کرکے جائیں تو کہاں جائیں، جب کہ تقریباً ہر مسلم ریاست ہی سرمایہ دارانہ قانون پر مبنی قوم پرستانہ ریاست بن چکی ہو؟
۷۔ یہ بات درست ہے کہ جہاد (خصوصاً اقدامی جہاد) کا درست ترین طریقہ کسی اسلامی ریاست کے ماتحت ہونا ہی ہے مگر سوال تو یہ ہے کہ جب اسلامی ریاست ہی مفقود ہو تو ان حالات میں کیا کرنا چاہیے؟ کیا درست طریقہ میسر نہ ہونے کا بہانہ بنا کر مقاصد الشریعہ کے فوت ہوتے رہنے کو قبول کرلیا جائے ؟ درج ذیل کا حکم کیا ہے :
الف) عوام کی جان و مال کی حفاظت حکومت کی ذمہ داری ہے، مگر حکومتی اداروں کی نااہلی کی بنا پر عوام الناس نے اپنی حفاظت کے لیے پرائیویٹ سیکورٹی کا بندوبست کر رکھا ہے۔ کیا یہ ناجائز ہے؟
ب) نظام قضا کا قیام حکومت کی ذمہ داری ہے، مگر حکومت کی عدم توجہ کے باعث علما نے نجی سطح پر یہ کام جاری رکھا ہے۔ کیا یہ بھی شرعاً ناجائز ہے؟
ج) مساجد کا انتظام بھی اسلامی ریاست کی اہم ذمہ داری ہے، مگر حکومت کی نالائقی کی بنا پر اب مسجد کمیٹی کی بنیاد پر یہ کام ہونے لگا ہے۔ کیا مسلمانوں کا اس طریقے سے نماز کا بندوبست کرنا شرعاً جائز ہے (جب کہ اس انتظام میں بھی بہت سی خامیاں موجود ہیں)؟
د) علوم اسلامیہ کی ریاستی سرپرستی ختم ہوجانے کے بعد علما نے نجی سطح پر ان کی حفاظت کے لیے مدارس کا جال بچھا دیا۔ کیا یہ انتظام شرعاً ناجائز ہے؟
ھ) راسخ العقیدہ علما کے اس فتوے کے باوجود کہ جاندار کی تصویر حرام ہے، انہی علماء کا یہ کہنا ہے کہ حالات کے تقاضوں کے تحت مجبوراً دفاع اسلام کے لیے ٹی وی پر آنا جائز ہے۔ کیا آپ کے نزدیک یہ بات بھی شرعاً ناجائزہے؟ اگر نہیں تو جہاد کے لیے ایسی رخصت کیوں نہیں نکل سکتی؟
۸۔ یہ بات بھی درست ہے کہ قتل کی صورت میں فرد کو خود قصا ص لینے کے بجائے صبر کرنا چاہیے، لیکن سوال یہ ہے کہ اگر ریاست نہ صرف یہ کہ قتل کرنے والوں سے اغماض کرنے کو اپنی مستقل پالیسی بنالے بلکہ ان کی پشت پناہی بھی کرے تو پھر فرد کو کیا کرنا چاہیے؟
۹۔ کیا یہ بات فاتر العقلی نہیں کہ ایک طرف تو ریاست نصیحت و اصلاح نہیں بلکہ پوری ریاستی قوت و جبر کے ساتھ کسی نظام باطل کے استحکام و پھیلاؤ میں مصروف عمل ہو مگر اس کا مقابلہ کرنے والے محض نصیحت کو کافی سمجھتے رہیں؟ کیا جہاں اصلاح کے لیے قوت کی ضرورت ہے، وہاں محض نصیحت سے کام چل سکتا ہے؟ انسانی زندگی کی وہ کون سی صف بندی ہے جو محض نصیحت کی بنیاد پر قائم رہ سکتی ہے؟ (vi)
(۴) فرضیت جہاد کی علت پر
جن مفکرین کے خیال میں جہاد کی علت کفر و شرک نہیں بلکہ ظلم ہے ۱ن سے سوال ہے کہ:
۱۔ شرعاً عدل و ظلم سے کیا مراد ہے؟
- کیا ماورائے اسلام عدل و ظلم کی کوئی تعریف کرنا ممکن ہے؟ اگر ممکن ہے تو وہ تعریف بیان کردی جائے ۔
۲۔ کیا قرآن کی رو سے کفر و شرک اپنی تمام تر تشریحات میں ظلم کی تعریف میں شامل ہیں یا نہیں؟ اگر شامل ہیں تو کفروشرک کو علت جہاد سے مستثنیٰ کیسے کیا جاسکتا ہے؟
- کیا کفر و طاغوت پر مبنی نظام اجتماعی بذات خود اس کے ظلم ہونے کی دلیل ہے نہیں؟
- کیا اسلامی نقطہ نگاہ سے ایسے نظام اجتماعی کے قیام و ابدی بقا کی اجازت دی جاسکتی ہے؟
- اگر کفروطاغوت پر مبنی نظام نوع انسانی پر مسلط ہو تو کیا اس کے خلاف جہاد کرنا لازم ہوگا یا نہیں؟
۳۔ صحیح روایات سے ثابت ہے کہ قرون اولیٰ میں کسی علاقے پر حملہ کرنے سے پہلے اسلامی فوج کفار کو تین میں سے کسی ایک بات کا اختیار دیتی: (الف) اسلام قبول کرلو، (ب) غلبہ اسلام قبول کرکے چھوٹے ہو کر جزیہ دینے پر راضی ہوجاؤ یا (ج) جنگ کرو۔ کیا اس سے ثابت نہیں ہوتا کہ غلبہ کفر فرضیت جہاد کی علت میں شامل ہے؟
- کیا کہیں ایسا بھی ہوا کہ اسلامی فوج نے ان تین کے علاوہ محض ’ظلم‘ ختم کرنے کے آپشن پر جنگ بندی کا اعلان کیا ہو؟
- کہیں ایسا تو نہیں کہ ’ظلم‘ نہ کہ کفر کو علت جہاد قرار دینے کا مقصد جدید مفکرین کی پیروی کرتے ہوئے اسلام کو دور حاضر کے نام نہاد مہذب عالمی قوانین کی مطابق ثابت کرنا ہے جن کے مطابق جذہبی جنگ بربریت کی علامت ہے؟ (vii)
۴۔ جہاد کا مقصد کفر کی مغلوبیت ہوتی ہے یا اس کا سرے سے مکمل خاتمہ؟ اگر مقصد مغلوبیت ہوتی ہے تو یہ کہہ کر کہ ’اسلام کفر کو ختم نہیں کرنا چاہتا‘ کفر کو علت جہاد سے نکالنے کے کیا معنی ہوئے؟
- کیا جہاد کسی ایک فرد کے خلاف ہوتا ہے یا کسی باطل نظام اجتماعی اور اس کے سرکردہ افراد کے خلاف؟
- اگر یہ فرد سے نہیں ہوتا تو پھر علت جہاد میں متعدی و لازم کی تخصیص کرکے کفر کو علت جہاد سے کیسے نکال دیا گیا؟
۵۔ قرآنی آیات: قاتلوھم حتی لا تکون فتنۃ ویکون الدین للہ نیز حتی یعطوا الجزیۃ عن ید وھم صاغرون کے مطابق جہاد کا مقصد و منتہا کیا قرار پاتا ہے؟
۶۔ پھر علت کفر کی ساری بحث کا مجاہدین کی جدوجہد کے عدم جواز سے کیا تعلق ہے؟ کیا اس وقت جو نظام نافذ العمل ہے، وہ ’متعدی ظلم‘ ہے یا نہیں؟
درج بالا نظریاتی مسائل کے علا وہ مضامین میں تحریک مجاہدین کی چند عملی خامیوں کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے مگر ان کا تعلق اس جدوجہد کے عدم جواز سے نہیں، لہٰذا ہم ان سے صرف نظر کرتے ہیں۔
حواشی
i۔ خود مولانا زاہد الراشدی صاحب نے اپنی تحریروں میں متعدد عالمی قوانین کا غیر شرعی و قرآن وسنت کے منافی ہونا واضح کیا ہے ۔
ii۔ درحقیقت ناقدین مجاہدین اور مجاہدین کے درمیان بنیادی اختلاف اسی نکتے پر ہے کہ موجودہ نظام کی حیثیت کیا ہے، نیز اس میں کس قسم کی اور کتنی تبدیلی درکار ہے۔ ناقدین چونکہ موجودہ نظام کی ہمہ گیر جاہلیت کو سمجھتے نہیں لہٰذا :
- وہ موجودہ نظام کی جزوی اصلاح کے قائل ہیں اور ان کے خیال میں پرامن اور اصلاحی سیاست (reformist politics) کے ذریعے اس نظام کی اسلامی اصلاح کرنا ممکن ہے ۔
- اسی لیے یہ طبقہ نافذ العمل قانون سے ماورا ہر قسم کی انقلابی جدوجہد و صف بندی کا مخالف ہے (۱ن کے خیال میں صرف وہی جدوجہد شرعاً جائز ہے جس کی نافذ العمل قانون اجازت دیتا ہو، گویا اب شرعی و غیر شرعی کا فیصلہ سرمایہ دارانہ قانون کی روشنی میں ہوگا) ۔
اس کے مقابلے میں انقلابیوں اور مجاہدین کا بنیادی مقدمہ ہی یہ ہے کہ :
- نافذ العمل نظام اور قانون جاہلیت خالصہ ہیں اور
- ان میں جزوی اصلاحات کی نہیں بلکہ مکمل تبدیلی کی ضرورت ہے۔
- لہٰذا نافذ العمل قانون سے ماورا جدوجہد و صف بندی عمل میں لانا منطقی لازمہ ہے ۔
درحقیقت کسی نافذ العمل نظام (جسے ہم status quo کہہ سکتے ہیں ) میں تبدیلی لانے کے لیے برپا کی جانے والی جدوجہد کی نوعیت، اس کے طریقہ کار اور نافذ العمل قانون کے بارے میں رویے کا انحصار درج ذیل باتوں پر ہوتا ہے:
اولاً) مطلوبہ تبدیلی کی نوعیت: یعنی آپ کس قسم کی تبدیلی لانا چاہتے ہیں، موجودہ نظام کو برقرار رکھتے ہوئے اور اس کے اندر رہتے ہوئے اس کی غلطیوں کی اصلاح کرنا چاہتے ہیں یا آپ کا مقصد اس کی جگہ کوئی دو سرانظام قائم کرنا ہے ۔
دوئم) مطلوبہ تبدیلی کی ہمہ گیریت: اگر آپ نظام کی اصلاح کرنا چاہتے ہیں یا اسے تبدیل کرنا چاہتے ہیں تو کس حد تک، یعنی اس اصلاح یا تبدیلی کا مقصد انسانی زندگی کے تمام گوشوں پر اثر انداز ہونا ہے یا چند ایک پر۔
چنانچہ جو شخص موجودہ نظام کو جتنا حق سمجھتا ہوگا، اتنا ہی وہ اس کے اندر رہنے اور اس کی اصلاح کا بھی قائل ہوگا، اسی قدر وہ نافذ العمل قانون کے دائرے کے اندر رہنے کی بات بھی کرے گا اور اسی نسبت سے کسی انقلابی جدوجہد کے باطل ہونے پر بھی مصر ہوگا۔ اس کے برعکس جس شخص کا تصور تبدیلی جتنا زیادہ ہمہ گیر ہوگا، وہ status quo سے اتنا ہی دور ہوگا، اسی قدر وہ انقلابی جدوجہد کا بھی قائل ہوگا۔ واللہ اعلم بالصواب
iii۔ ڈیلی ٹائمز کی ایک خبر کے مطابق اب تک کیے گئے ڈروں حملوں میں تیرہ اہم طالبان سمیت سات سو بے گناہ پاکستانی مارے جاچکے گئے ہیں ۔
iv۔ فوج کے ہاتھوں اسی قسم کے نقصان کے بدلے کے طور پر ہی حکومت پاکستان نے سوات وغیرہ کے علاقے کے لیے ایک ارب روپے کی امداد کا اعلان کیا ہے۔
v۔ قیام جمہوریت کے لیے کیے جانے والے ظلم و بربریت کی تفصیلات کے لیے دیکھیے: Michael Man کی کتاب The Dark Side of Democracy۔ آج بھی عراق، افغانستان اور پاکستان وغیرہ میں جمہوری اقدار کی حفاظت و فروغ کے لیے قتل و غارت کا بازار گرم ہے ۔
vi۔ اپنے ارد گرد نظر دوڑائیے اور غور کیجیے کہ خاندان، تعلیمی اداروں (اسکول، کالج ، یونیورسٹیاں، مدارس) منڈی و بازار سے لے کر پولیس، فوج اور دیگر ریاستی اداروں میں سے کون سا ادارہ ہے جو بغیر قانونی جبر کے قائم ہے؟
vii۔ کفر کے بجائے کسی فرضی تصور ظلم کو علت جہاد قرار دینا غامدی صاحب کی بلند خیالی ہے اور یہ بالکل واضح ہے کہ غامدی صاحب کے قانون جہاد کا مقصد مسلمانوں کو اسلام کے نام پر جہاد کرنے سے روکنا ہے کیونکہ ان کے خیال میں جہاد اسلام کی خاطر نہیں بلکہ ’ماورائے اسلام مجرد تصور ظلم ‘ کی خاطر لڑنے کا نام ہے۔ اب وہ تصور ظلم کیا ہے، اس کی وضاحت غامدی صاحب کے ذمہ ہے۔