(فیس بک پر جناب زاہد صدیق مغل کا تبصرہ)
جناب مولانا زاہد الراشدی صاحب کا 'اسلام اور سائنس' پر کالم پڑھا، مختصر تبصرہ یہ ہے:
’’سائنس کائنات کی اشیاء پر غور و فکر کرنے، ان کی حقیقت جاننے، ان کی افادیت و ضرورت کو سمجھنے کا نام ہے، ان کے استعمال کے طریقے معلوم کرنے کا نام ہے۔‘‘
نہ جانے وہ کون سی سائنس ہے جو ’’حقیقت تلاش‘‘ کررہی ہے۔ جدید سائنس، جس کا ظہور تاریخ میں ہوا، وہ تو کائنات کے ذرے ذرے کو سرمایے میں تبدیل کرکے نفع میں اضافے کی جدوجہد سے عبارت ہے۔
سائنس کا دائرہ کار ’’(1) یہ چیز کیا ہے؟ اور (2) کیسے کام کرتی ہے‘‘ ہے جبکہ مذہب کا دائرہ کار ’’(3) اسے کس نے بنایا ہے‘‘ اور ’’(4) اس کا مقصد کیا ہے‘‘ ہے۔ ۔۔۔
نجانے اس دنیا کی وہ کون سی سائنس ہے جو ’’اشیاء کی مقصدیت‘‘ فرض کیے بغیر ہی کام کیے جارہی ہے۔
’’وحی کائنات کے حقائق کی نشاندہی کرتی ہے، سائنس بھی انہی حقائق و اشیاء پر تجربات کرتی ہے، اس لیے ان دونوں کے درمیان تصادم کی کوئی وجہ نہیں۔‘‘
اوپر کہا کہ ان دونوں کا دائرہ کار الگ الگ ہے، مگر ایک بھی ہے۔
مجھے تو آج تک ایسا سائنس دان نہیں ملا جو یہ کہتا ہو کہ ’’میں حقیقت تلاش کررہا ہوں‘‘، نہ ہی کوئی ایسے والدین جو اپنے بچے کو کسی سائنسی شعبے میں داخلہ دلاتے ہوئے یہ کہتے ہوں: ’’جاؤ بیٹا حقیقت تلاش کرو‘‘۔ بھائیو! یہ ’’پروفیشن‘‘ ہے، ملین بلین ڈالر پروفیشن جس کے پیچھے کارپوریٹ، ریاست و مارکیٹ اکانومی کا سٹرکچر کھڑا ہے۔ ان تینوں کے Nexus کے بغیر ٹیکنالوجیکل ترقی کو سمجھنا ممکن نہیں۔ اور ایسا نہیں ہے کہ شاید ہم پاکستانی برے لوگ ہیں، اس لئے سائنس کے ذریعے حقیقت تلاش نہیں کرتے بلکہ یورپ و امریکہ ہر جگہ لوگ اسے پروفیشن اور کیرئیر کے طور پر ہی لیتے ہیں۔
سائنس سے حاصل ہونے والے مادی فوائد کو مد نظر رکھ کر اسے اپنی طرف سے تھیورائز کرلینا کہ سائنس ایسی ہوتی ہے یا ویسی، کوئی علمی طریقہ نہیں۔ سائنس کیا ہے اور کیسے کام کرتی ہے؟ اس کے لیے فلاسفی آف سائنس میں اس سے متعلق مباحث کی ڈویلپمنٹ کو دیکھنا چاہیے۔ انہیں نظر انداز کرکے سائنس کے بارے میں اپنی طرف سے وضع کردہ نظریات کی روشنی میں کی جانے والی گفتگو بے معنی ہے۔