اللھم صل علی سیدنا ومولانا محمد وعلی الہ وا صحابہ اجمعین ومن اتبعہ الی یوم الدین۔
اس مضمون میں ہم جاوید احمد غامدی صاحب کے نظریہ اخلاق کا ایک مختصر مگر جامع تنقیدی جائزہ پیش کرنے کی کوشش کریں گے۔ غامدی صاحب کا نظریہ اخلاق درحقیقت اسلام کے بجائے مغربی ما بعد الطبیعیات پر مبنی ہے اور امت مسلمہ کو اعتزال قدیمہ کی راہوں پر ڈالنے کی مکمل صلاحیت رکھتا ہے۔ غامدی صاحب کا یہ نظریہ ان کی ’’اخلاقیات‘‘ نامی کتاب میں تفصیل کے ساتھ موجود ہے۔ چونکہ غامدی نظریہ اخلاق اور غامدی نظریہ فطرت باہم مربوط ہیں، لہٰذا نظریہ اخلاق کے کچھ مباحث ’’میزان‘‘ نامی کتاب کے باب ’’اصول ومبادی‘‘ میں بھی بیان ہوئے ہیں۔ اس مضمون کے لیے ہم انہیں دو کتب کے مباحث کو اپنی تنقید کی بنیاد بنائیں گے۔ کتاب ’’اخلاقیات‘‘ کے ابتدائی باب ’’بنیادی مباحث‘‘ میں غامدی صاحب نے تین سوالات کے جوابات دینے کی کوشش کی ہے: (الف) انسان کے لیے خیر وشر کے جا ننے کا ذریعہ کیا ہے؟ (ب) وہ اصل محرک کیا ہے جو انسان کو تزکیہ اخلاق پر آمادہ کرتا ہے؟ (ج) اس (اخلاقی) سعی و عمل کی غایت و مقصود کیا ہے؟ درحقیقت یہ تینوں سوالات فلسفہ اخلاق کے بنیادی مباحث ہیں اور انہیں کے جوابات سے کسی تہذیب کا نظریہ اخلاق (یعنی خیر وشرکا تصور واصول) وجود میں آتا ہے۔ مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ غامدی صاحب نے ان تینوں سوالات کے جواب دینے میں چند بنیادی نوعیت کی علمی ٹھوکریں کھائی ہیں۔ آئیے، ہم باری باری ان تینوں سوالات پر غامدی صاحب کے خیالات کا خلاصہ پیش کرکے ان کا جائزہ لیتے ہیں۔
پہلا سوال
اس سوال کے جواب میں کہ انسان کے پاس خیر وشر جاننے کا حتمی ذریعہ کیا ہے، غامدی صاحب انسانی نفس کو بحیثیت معیار ما نتے ہیں، یعنی خیر وشر طے کرنے کا اصل منبع انسانی نفس ہے۔ اپنے اس تصور کے لیے غامدی صاحب درج ذیل قرآنی آیت پیش فرماتے ہیں:
ونفس وما سواہا فالہمہا فجورہا وتقواہا (الشمس ۹۱: ۸۔۷ )
’’اور نفس گواہی دیتا ہے، اور جیسا اسے سنوارا، پھر نیکی اور بدی اس میں الہام کردی۔‘‘
اس آیت کو بنیاد بنا کر غامدی صاحب فرماتے ہیں کہ نیکی اور بدی میں تمیز کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے انسان کو ایک اخلاقی حاسہ عطا فرمایا ہے اور اسی احساس کی بنا پر ایک برے سے برا آدمی بھی جب گناہ کرتا ہے تو اسے چھپانے کی کوشش کرتا ہے اور اگر اس کی خاطر حیلے بہانے تراشتا بھی ہے تو انہیں اپنی فطرت کے خلاف پاتا ہے۔ مزید فرماتے ہیں کہ انسانوں کی ہر معاشرت میں کسی نہ کسی تصور حق و انصاف کا پایا جانا بھی یہ ظاہر کرتا ہے کہ انسانی نفس میں خیر وشر کا احساس ایک عالمگیر حقیقت ہے۔ لیکن اس اخلاقی حاسہ کے باوجود چونکہ انسانی اعمال و تصورات خیر وشر میں تفاوت و اختلاف کا امکان ہوسکتا تھا، لہٰذا اللہ تعالیٰ نے ایسے بڑے اختلافات کو رفع کرنے کے لیے اپنے رسولوں کے ذریعے وضاحت کردی۔ دوسرے لفظوں میں خیروشر کا اصل منبع تو انسانی نفس ہی ہے، اور وحی کی ضرورت صرف اس وقت آتی ہے جب انسان اپنے نفس کے ذریعے کسی معاملے کا حتمی طور پر خیریاشر ہونا طے نہ کر سکے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ خیر و شر (یا فطرت) کو متعین کرنے کا طریقہ کار کیا ہوگا تو غامدی صاحب کے نزدیک وہ طریقہ استقرا (induction ) ہے، یعنی تاریخ کی روشنی میں اقوام عالم کا مطالعہ کرکے انسانی فطرت کا درست تعین کرنا ممکن ہے۔ چنانچہ اپنی کتاب ’’میزان‘‘ (یا اصول و مبادی) میں غامدی صاحب یہ اصول بیان فرماتے ہیں کہ خیر وشر کا تعین (جسے وہ انسانی فطرت بھی کہتے ہیں) بذریعہ استقرا ممکن ہے اور اس ضمن میں جب کبھی اختلاف ہو گا تو تعیین فطرت کے لیے امت ابراہیمی کی اکثریت کا عمل معتبر ہوگا۔
ہم کہتے ہیں کہ غامدی صاحب نے پہلے سوال کا جواب دینے میں کئی فاش غلطیاں کی ہیں:
پہلی غلطی یہ کہ اپنے دعوے کے اثبات کی خاطر جو قرآنی آیت انہوں نے پیش کی ہے، وہ کسی بھی طرح اس کی دلیل نہیں بن سکتی۔ قابل توجہ بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں یہ کب کہا کہ خیروشر کاتعین نفس انسانی کے ذریعے ہو سکتا ہے؟ اس آیت میں تو صرف اتنی خبر دی گئی ہے کہ اصل خیر و شر جو بھی ہے، وہ ہم نے انسانی نفس میں ودیعت کر دیا ہے اور بس۔ لیکن خیر و شر کے ما فیہ کا تصور کیا ہے، یعنی کسی عمل کے خیر و شر ہونے کا اصول کیا ہے ، آیا اس کا تعین انسانی نفس کے ذریعے ہو سکتا ہے یا نہیں؟ یہ آیت اس بارے میں کچھ نہیں بتاتی۔ قرآن مجید کی بے شمار آیات اس مضمون کو بیا ن کرتی ہیں کہ خیر وشر، حق و انصاف، عدل و ظلم کا واحد حتمی ذریعہ صرف اور صرف وحی ہے۔ نیز کسی عمل کے صحیح یا غلط ہونے کا فیصلہ انسانی نفس نہیں بلکہ صرف اور صرف شریعت کی روشنی میں ہوتا ہے، یعنی آیا نماز پڑھنا، زنا کرنا یا شراب پینا اچھا عمل ہے یا برا، اس کا تعین میرے نفس سے نہیں ہو سکتا (قرآن مجید کی وہ تمام آیات جن میں یہ فرمایا گیا کہ رسول کی اتباع کرو، رسول جو دے لے لو اور جس سے منع کرو اس سے رک جاؤ، نیز انبیاے کرام پر نازل شدہ وحی کی پیروی کرو ، قرآن مجید میزان و فرقان ہے وغیرہ کا مضمون یہی موضوع ہے)۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن نے کسی مقام پر اپنے نفس کی پیروی کرنے کا نہیں بلکہ اس شریعت کی پیروی کا حکم دیا ہے جو انبیاے کرام پر نازل ہوتی ہے۔ اس بات کو یوں سمجھیے کہ اگر یہ سوال پوچھا جائے کہ کیا خیر و شر انسانی فطرت میں موجود ہیں یا نہیں یا آیا یہ بھی معاشرے سے سیکھے ہوئے چند تصورات ہیں؟ تو اس سوال کا جواب اثبات میں ہو گا یا نفی میں۔ ہر دو صورت میں آپ کو اپنے جواب کی دلیل بیا ن کرنا ہوگی، یعنی آپ کو بتانا ہو گا کہ آپ کو کس ذریعے سے معلوم ہوا کہ انسانی فطرت میں خیر وشر ہیں یا نہیں۔ اپنے دعوے کی دلیل بیان کرنے کے لیے آپ کو لا محالہ حواس خمسہ، عقل اور خبر تینوں میں سے کسی ایک سے دلیل پیش کر نا ہوگی۔ ایک مسلمان جب آیت بالا کو اپنے مثبت جواب کے حق میں پیش کرتا ہے تو گویا وہ صرف یہ کہتا ہے کہ خیر و شر انسان کے اندر موجود ہیں اور اس کا علم مجھے خبر صادق (قرآن) سے ملا ۔ جدید فلسفے میں علم اخلا قیات کے مبا حث و مسا ئل کا ہر طالب علم خوب جانتا ہے کہ حواس اور عقل کے ذریعے خیر وشر کا انسانی نفس میں ہونا یا نہ ہونا قطعاً ثابت نہیں کیا جا سکتا، یعنی انسانی ذرائع علم میں ایسا کوئی حتمی طریقہ موجود ہی نہیں جس کے ذریعے ہم نفس انسانی کا مطالعہ کرکے کسی حتمی خیر و شر کا ادراک حاصل کر سکیں۔ دوسرے لفظوں میں یوں سمجھیے کہ نفس انسانی کے ذریعے خیر وشر کا تعین تو رہا درکنار، انسانی نفس میں خیر وشر کا وجود ہے بھی یا نہیں، اس کا علم بھی صرف اور صرف خبر ہی کے ذریعے ممکن ہے۔ اس کی مثال یوں ہے جیسے اللہ تعالیٰ نے ہمیں خبر دی کہ ہم نے تم سے عالم ارواح میں الست بربکم قالوا بلی کا عہد لیا تھا۔ ظاہر بات ہے ہم میں سے نہ تو کسی کو وہ عہد یاد ہے اور نہ ہی اس عہد کا علم سوائے خبر صادق کے کسی دوسرے ذریعہ علم سے ممکن ہے۔ کوئی شخص چاہے کتنا ہی سو چ بچار کرلے، بجز وحی کسی بھی دوسرے ذریعہ علم سے اس عہد کی حقیقت و ماہیت اور اس کے مضامین کو نہیں جان سکتا۔ اس کی دوسری مثال یوں بھی ہے جیسے خبر صادق کے ذریعے معلوم ہوا کہ انسان میں ایک شے روح (امر ربی) بھی موجود ہے، لیکن وہ روح کیا ہے نیز اس کی حقیقت و ماہیت کیا ہے، اس کا ادراک اور تعین کسی انسانی ذریعہ علم سے ممکن نہیں۔ بالکل اسی طرح میرے نفس میں خیر وشر موجود ہیں یا نہیں، اس کی خبر مجھے اس آیت میں دی گئی ہے، لیکن وہ خیر وشر کیا ہے اور اس کا تعین کیسے ہوگا، یہ آیت اس ضمن میں بالکل خاموش ہے۔ قرآن مجید میں ایسی کوئی آیت نہیں جس میں یہ کہا گیا ہو کہ انسانی نفس سے خیر وشر معلوم کیے جا سکتے ہیں، اگر ایسا کرنا ممکن ہوتا تو قرآن یقیناًاس نفسانی فطرت کی اتباع کا حکم بھی دیتا۔ قرآن مجید کی اس خبر سے کہ انسانی نفس میں خیر وشر موجود ہیں، یہ نتیجہ نہیں نکا لا جا سکتا کہ انسانی نفس سے ان کا تعین بھی ممکن ہے (جو غامدی صا حب کا اصل مدعا ہے)۔ چنانچہ غامدی صاحب کے دعوے اور دلیل میں مطابقت نہیں، وہ ایسے کہ ان کا دعویٰ تو نفس انسانی کے ذریعے خیر وشر کی تعیین کا ہے جبکہ دلیل وہ نفس انسانی میں خیر وشر کے وجود ہونے کی دیتے ہیں۔ یہی وہ نقطہ ہے جسے سمجھنے میں غامدی صاحب اور ان کے مکتبہ فکر نے شدید ٹھوکر کھائی ہے۔ (اس غلطی کی ابتدا سید احمد خان سے ہوتی ہے)۔
غامدی صاحب کا یہ کہنا کہ ہر معاشرت میں حق و انصاف کا کوئی نہ کوئی تصور موجود ہوتا ہے، ان کے دعوے کے حق میں سرے سے کوئی دلیل ہے ہی نہیں۔ بحث یہ نہیں کہ آیا خیر وشر انسانی نفس میں موجود ہیں یا نہیں، بلکہ سوال تو یہ ہے کہ کیا انسانی ذرائع سے خیر وشر کی تعیین ممکن ہے یا نہیں؟ دوسرے لفظوں میں حق و انصاف ، عدل و ظلم کا درست تصور کیا ہے، اس کا تعین کیسے ہوگا؟ چونکہ غامدی صاحب کی یہ دلیل عمرانیاتی (sociological) بنیادوں پر مبنی ہے، لہٰذا اگر خالصتاً عمرانیاتی نقطہ نگاہ سے بھی غامدی صاحب کی اس دلیل کا جائزہ لیا جائے تو بھی غامدی صاحب کا موقف ثابت نہیں ہوتا۔ وہ ایسے کہ تمام انسانی معاشرتوں میں حق و انصاف کے کسی نہ کسی تصور کاپایا جانا اس بات کی لازمی دلیل نہیں بن سکتی کہ حق و انصاف کا تصور فطری ہے۔ پیور باخ، ہیگل، مارکس، فرائیڈ اور نطشے وغیرہ کے مطابق تو خیر وشر، حق و انصاف وغیرہ جیسے تمام تصورات در حقیقت معاشرتی تعلقات اور ان کے نتائج میں قائم ہونے والی معاشرتی درجہ بندی (social structure) کے پیداوار ہیں، یعنی عدل و انصاف کا سوال ہی اس وقت پیدا ہوتا ہے جب دو افراد کے تعلق کے بعد حقوق و فرائض کا مسئلہ کھڑا ہوتا ہے ، اور جب تک یہ تعلق قائم نہ ہو، حقوق و فرائض کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ دوسرے لفظوں میں ماہر عمرانیات کے مطابق حق اور انصاف کا تصوربذات خود ایک خاص طریقے سے وجود انسانی کے اظہار کے بعد پیدا ہوا ہے نہ کہ یہ تصور پہلے سے اس کی فطرت میں موجود ہیں۔ (خیال رہے کہ راقم کاان خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں، ہم یہ بحث صرف اتنا ثابت کرنے کے لیے کر رہے ہیں کہ غامدی صاحب جو عمرانی دعویٰ فرما رہے ہیں، خود عمرانیاتی علوم کی روشنی میں وہ ایک کمزور دعویٰ ہے)۔ دوسرے لفظوں میں غامدی صاحب کی دلیل سے نفس انسانی کے ذریعے کسی خیر وشر کا امکانِ تعین ثابت ہونا تو رہا ایک طرف، اس دلیل سے تو انسانی فطرت میں کسی خیر وشر کا وجود ہونا بھی ثابت نہیں ہوتا۔
اسی طرح غامدی صاحب کا یہ کہنا بھی بے معنی ہے کہ ہر شخص گنا ہ کے کام کو چھپا تا ہے یا اس کے لیے جھوٹی دلیلیں تراشتا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ اگر ایک شخص یا معاشرے کے تصور خیر وشر میں کوئی عمل برا ہے ہی نہیں تو وہ اسے کیوں چھپائے گا؟ مثلاً اشتراکی تصور خیر کے مطا بق اپنی سگی بہن سے نکاح کرلینا کوئی گناہ کا کام نہیں۔ اب اگر کوئی شخص اشتراکی تصور خیر پر صمیم قلب سے ایمان رکھتا ہو، اسے اس عمل کو چھپانے کی کوئی ضرورت نہیں پڑتی، بلکہ وہ تو ایسے لوگوں کو بے و قوف گردانتا ہے جو اپنی خوبصورت بہن سے خود نکاح کرنے کے بجائے اسے دوسرے شخص کے حوالے کر دیتے ہیں۔ اگر غامدی صاحب کہیں کہ اشتراکی تصور خیر غلط اور غیر فطری ہے تو ہم پوچھیں گے کہ انہیں یہ علم کیسے ہوا؟ ان کے پاس بجز وحی اصل خیر کا معیار کیا ہے؟ اس لمحے پر یقیناًغامدی صاحب استقرا اور امت ابراہیمی کی پناہ تلاش کریں گے۔ مگر غامدی صاحب کا استقرا کو خیر وشر کی تعیین کے طریقے کے طور پر پیش کرنا ایک نہایت گمراہ کن تصور ہے۔
اس ضمن میں پہلی بات یہ کہ اس اصول کی شرعی دلیل کیا ہے، یعنی یہ اصول قرآن مجید کی کس آیت سے اخذ کیا گیا ہے کہ خیر وشر کا تعین اقوام عالم کی تاریخ سے ممکن ہے؟ غامدی صاحب کے اصول کے برعکس قرآن مجید تو ہمیں یہ تعلیم دیتا ہے کہ اگر تم زمین میں اکثریت کی پیروی کرو گے تو گمراہ ہو جا ؤ گے۔ (انعام ۶۔ ۱۱۶) اسی ضمن میں یہ بات بھی اہم ہے کہ غامدی صاحب کے پاس اس اصول کی شرعی دلیل کیا ہے کہ اختلاف اعمال کی صورت میں تعیین فطرت اور خیر و شر کے لیے امت ابراہیمی کی اکثریت کا عمل معتبر ہوگا؟ آخر یہ اصول کس قرآنی آیت سے ماخوذ ہے؟ دوسری بات یہ کہ غامدی صاحب کا یہ دعویٰ بھی قابل نزاع ہے کہ اقوام عالم کی تاریخ کے مطالعے سے فطری خیر وشر کا درست تعین ممکن ہے۔ غامدی صاحب تو یہ دعویٰ یوں فرمارہے ہیں گویا انہوں نے اقوام عالم کا تاریخی مطالعہ کرکے تمام اعداد وشمار جمع کررکھے ہیں۔ ان کا مسئلہ یہ ہے کہ انہوں نے جو عادات و اطوار اپنے معاشرے سے سیکھے ہیں، انہیں بغیر کسی دلیل آفاقی سمجھ بیٹھے ہیں۔ مثلاً موجودہ حالات میں ہم دیکھتے ہیں کہ امت ابراہیمی کی اکثریت شراب پینے، سود خوری، دو مردوں کی آپس میں شادی کرنے اور ہیومن رائٹس کے نام پر نجانے کس کس غلاظت کو خیر اور انسانی فطرت کا جائز تقاضا گردانتی ہے۔ تو کیا اصول استقرا کی بنا پر یہ سب اعمال اب خیر کی لسٹ میں شمار کیے جا نے لگیں گے؟ اس ضمن میں اہم بات یہ بھی ہے کہ کیا امت ابراہیمی کی تاریخ کا کوئی ایسا معتبر ریکارڈ موجود ہے جس کی بنیاد پر خیر وشر اور انسانی فطرت کی تعیین جیسے اہم امور طے کیے جا سکتے ہوں؟ تیسری اہم بات یہ کہ اگر خیر وشر کا فیصلہ استقرا پر چھوڑ دیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہو ا کہ خیر وشر کبھی متعین ہو ہی نہیں سکتے کیونکہ راجربیکن (وہ شخص جس نے حصول علم کے لیے وحی کے بجائے استقرا پر زور دینے کی مہم کا آغاز کیا) سے لے کر آج تک کوئی بڑے سے بڑا فلسفی بھی مسئلہ استقرا (problem of induction) حل نہیں کر سکا۔ (مسئلہ استقرا کی تفصیل منطق کی ہر کتاب میں دیکھی جا سکتی ہے ، یا دیکھئے سائنس پر راقم کا مضمون ، ساحل اگست ۲۰۰۶ )۔ استقرائی طریقہ علم کی سب سے بڑی کمزوری ہی یہ ہے کہ اس سے حاصل ہونے والا علم نہ تو حتمی ہوتا ہے اور نہ ہی اس کے ذریعے کسی بات کا اثبات ممکن ہوتا ہے، بلکہ وہ علم ہمیشہ ظنی(probable) اور ارتقائی (evolutionary) ہوتا ہے۔ چنانچہ خیر وشر کا تعین استقرا کے حوالے کرنے کا مطلب یہ ہے کہ خیر وشر کسی متعین اور آفاقی حقیقت کا نام نہیں بلکہ یہ زمانے اور مکان کا پابند ہے۔ دوسرے لفظوں میں خیر وشر اضافی (relative) تصورات ہیں نہ کہ ابدی (absolute)۔ ایک طرف تو غامدی صاحب کا دعویٰ ہے کہ خیر وشر ابدی حقائق کا نام ہے اور دوسری طرف وہ انہیں جاننے کا ذریعہ استقرا قرار دے کر اپنے اسی دعوے کا رد فرما رہے ہیں۔ ہم غامدی صاحب سے پوچھتے ہیں کہ بتائیے آپ کے پاس مسئلہ استقرا کا حل کیا ہے؟ اور اگر اس کا حل نہیں ہے تو بتائیے بجز وحی آپ کے پاس خیر وشر اور انسانی فطرت کی تعیین کا قطعی طریقہ علم کیا ہے؟ اور اگر ایسا کوئی طریقہ نہیں تو پھر نفس انسانی کے ذریعے خیر وشر کے تعین کے معنی کیا ہوئے؟ ہم سمجھنے سے قاصر ہیں کہ نظریہ استقرائیت جو سائنس کی دنیا میں بھی بری طرح مات کھا چکا ہے، غامدی صاحب اسے مذہب پر لاگو کرکے آخر کون سے طلسماتی نتائج حاصل کر نے کی امید رکھے ہوئے ہیں۔ نیز خیر وشر جاننے کے لیے اقوام عالم کے تاریخی مطالعے کا طریقہ بھی خوب ہے۔ گویا ہر شخض خیر وشر پر عمل پیراہونے سے پہلے تاریخ کی کتب کھول کر بیٹھ جائے اور دنیا کی تمام تہذیبوں کا باری باری مطالعہ کرے۔ پھر اپنے مطالعے سے درست نتائج نکالنے کے لیے استقرائی منطق کے قواعد و اصول سیکھے، اور اتنا ہی نہیں بلکہ اب تک دنیا کے دوسرے افراد نے مطالعہ تاریخ سے جو نتائج اخذ کیے ہیں، ان سے بھی واقفیت حاصل کرے تاکہ درست نتیجہ نکالنے میں مدد مل سکے۔ چونکہ غامدی صاحب تقلید کے قائل نہیں تو اب مطلب یہ ہوا کہ ہر شخص اپنی ساری عمر اخلاقی اصول معین و مرتب کرنے پر ہی صرف کرڈالے اور اگر اس کے بعد قسمت نے یارانہ کرکے فرصت کے چند لمحات میسر کردیے تو ان پر عمل کرنے کی کچھ سعی کر لے۔
دوسرا سوال
اب ہم غامدی نظریہ اخلاق کے دوسرے سوال کی جانب چلتے ہیں۔ وہ دوسرا سوال یہ ہے کہ انسان کو تزکیہ اخلاق پر آمادہ کرنے والا اصل محر ک کیا ہے؟ غامدی صاحب کے خیال میں وہ محرک خیر وشر پر مبنی انسان کا یہ احساس ہے کہ ان دونوں کے نتائج اس کے لیے یکساں نہیں ہو سکتے۔ ان کے خیال میں اس سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ انسان اپنے اعمال کے صلے میں لازماً جزا و سزا سے دو چار ہوگا۔ پھر خوف و طمع کا یہی احساس جب ایمان باللہ میں تبدیل ہو تا ہے تو یہی احساس خدا سے متعلق ہو جاتا ہے، یعنی خدا کی محبت، اس کی رضا اور ناراضگی کا خوف اخلاق کی پابندی کا محر ک بن جاتا ہے۔
غامدی صاحب کی تقریرسے واضح ہوتا ہے کہ خیر و شر کا تعین گویا ایمان باللہ سے قبل ہی ہو جا تا ہے اور ایمان باللہ کی ضرورت صرف اس کے محرک کے لیے پڑتی ہے۔ وہ یہ حقیقت سمجھنے میں نا کام رہے ہیں کہ ہر تصور خیر بذات خود ایک ما بعد الطبیعیاتی ایمان پر قائم ہوتا ہے، یعنی ہر اخلاقی نظریہ ما بعد الطبیعیات سے اخذ شدہ ہوتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں ہر ایما نیات سے نکلنے والا تصورو اصول اخلاق مختلف ہوتا ہے۔ غامدی صاحب جب یہ فرماتے ہیں کہ انسانی نفس کے احساس کی بنا پر خیر وشر کا تعین ممکن ہے، نیز اس کا اصل محرک یہی احساس انسانی ہے تو وہ یہ سمجھتے ہیں کہ خیر و شر کا تعین ہر قسم کی ایمانیات سے ماورا ہے، یعنی کسی مابعد الطبیعیاتی حقیقت پر ایمان لائے بغیر بھی خیر وشر طے کرنا ممکن ہے، لیکن اس خیال کے بارے میں ہم یہی کہہ سکتے ہیں کہ ایں خیال است، محال است و جنوں۔ مختصراً یوں سمجھیے کہ یہ سوال کہ انسانی اعمال کی صحت اور بطلان کا معیار کیا ہے، اس وقت تک لا ینحل رہتا ہے جب تک یہ طے نہ کر لیا جائے کہ اس دنیا میں انسان کی حیثیت کیا ہے۔ کسی معاملے میں انسان کے جائز تصرفات اور اشیا و موجودات کے ساتھ جائز و ناجائز رویے کا تعین تبھی ممکن ہے جب یہ طے ہوجائے کہ اس کی اپنی حیثیت کیا ہے، نیز اس کا تعلق ان معاملات اور موجودات کے ساتھ کیسا ہے؟ یعنی آیا اس دنیا میں وہ مالک ہے یا امین، خود مختار ہے یا ما تحت، اپنے اعمال کے لیے آزادہے یا جواب دہ، اس کی زندگی بامقصد ہے یا نہیں، نیز وہ مقصد کیا ہے، اپنا ضابطہ حیات اسے خود طے کرنا ہے یا کسی اور کو وغیرہ وغیرہ۔ یہی وہ سوالات ہیں جن کا تعلق ما بعد الطبیعیاتی ایمانیات سے ہے اور ہر تہذیب کا نظریہ خیروشر انہیں کے جوابات سے وجود میں آتا ہے۔ (اس موقع پر ہم غامدی صاحب سے عرض کرتے ہیں کہ اگر وہ مولانا مودودیؒ کی کتا ب ’’اسلامی نظام زندگی اور اس کے بنیادی تصورات‘‘ کے مضامین ’’اسلام اور جاہلیت‘‘ اور ’’اسلام کا اخلاقی نقطہ نظر‘ ‘ ہی کا مطالعہ فرما لیں تو ان شاء اللہ بہت سی فکری لغزشوں سے بچنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ یہاں مودودی صاحب کاحوالہ اس لیے دیا گیا کہ غامدی صاحب بذات خود مولاناکے بہت بڑے مداح ہیں) اسی بات کو اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں یوں بیان فرمایا :
لیس البر ان تولوا وجوھکم قبل المشرق والمغرب ولکن البر من آمن باللہ و الیوم الاخر و الملئکۃ والکتاب والنبیین (بقرۃ ۲: ۱۷۷)
یعنی نیکی کسی خاص عمل کرنے کا نام نہیں، بلکہ نیکی کی حقیقت تو یہ ہے کہ تم ایمان لاؤ اللہ پر، آخرت کے دن پر، فرشتوں پر، آسمانی کتابوں (یعنی وحی ) پر، انبیاے کرام پر۔ اس تقاضاے ایمان کے بعد قرآن نیکی کرنے کے چند خاص اعمال کا ذکر کرتا ہے، مثلاً نماز پڑھنا ، غریبوں کی مدد کرنا وغیرہ۔ یہ آیت واضح طور پر یہ حقیقت بیان کر رہی ہے کہ خیر وشر کا منبع ایمان ہے، نہ کہ انسانی نفس کا مطالعہ وغیرہ۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ کوئی عمل بذات خود اچھا یا برا نہیں ہے بلکہ اصل حیثیت حکم الٰہی کی پیروی کرنے کی ہے، یعنی نہ تو غریب کی مدد کرنا ہی بالذات نیکی ہے اور نہ ہی جھوٹ بولنا بالذات گناہ ہے بلکہ نیکی اور بدی کی بنیاد حکم الٰہی کی پیروی کرنا ہے۔ چنانچہ اگر کوئی شخص اس احساس کی بنا پر کسی غریب کی مدد کرتا ہے کہ ایسا کرنے سے اسے خوشی ہوتی ہے ، یا ایسا کرنے کو اس نے بذات خود اپنے اوپر لازم کر رکھا ہے یا ایسا کرنے سے اس کی قوم کی بھلائی ہوتی ہے تو یہ ہرگز بھی کوئی نیکی نہیں بلکہ یہ عمل نیکی تب ہوگا جب اس ایمان کے ساتھ اسے کیا جائے کہ ایسا کرنا اللہ تعالیٰ کا حکم ہے جس کی جزا کا وعدہ اس نے مجھ سے کیا ہے۔ گویا جب نیکی اور بدی کا تعین ہی حکم الٰہی سے ہوتا ہے تو اس کا محرک بھی اس حکم الٰہی سے متعلق جواب دہی کا احساس ہی ہے۔ یہی وہ بات ہے جسے اصولیین یوں بیان کرتے ہیں کہ شارع کا حکم ہی بندے کو کسی عمل کا مکلف بناتا ہے نہ کہ اس کا داخلی احساس یا فطرت وغیرہ۔ حکم الٰہی کے سوا کوئی دوسری شے نہ توخیر و شر کی بنیاد بن سکتی ہے اور نہ ہی اس حکم سے متعلق جواب دہی کے احساس کے علاوہ کوئی شے خیر وشر کا محرک ہو سکتا ہے۔ درحقیقت غامدی صاحب انسانی فطرت کو خیر وشر کا ماخذ، استقرا کو اس کے جاننے کا طریقہ اور انسانی احساس کو اس کے محرک کی بنیاد مان کر انجانے میں مغربی ما بعد الطبیعیات پر ایمان لا بیٹھے ہیں جس کے مطابق انسان عبد نہیں بلکہ آزاد ہے اور علم کا منبع خدا کی ذات نہیں بلکہ نفس انسانی ہے ، اور یہ تمام تر تصورات صریح گمراہی اور اعتزال قدیمہ کے شاخسانہ ہیں۔ غامدی صاحب ہمیں بتائیں کہ حکم الٰہی کے سوا وہ کون نسا اصول ہے جو کسی عمل کے خیریا شر ہونے کا تعین کرتا ہے۔ نیز آخرت کی جواب دہی کے علاوہ کیونکر انسان کسی خیر و شر کی پابندی پر آمادہ ہو سکتا ہے؟
تیسرا سوال
فلسفہ اخلاق کا آخری سوال یہ ہے کہ خیر وشر پر عمل پیرا ہونے کا مقصد کیا ہونا چا ہیے۔ غامدی صاحب فرماتے ہیں کہ اخلاقی سعی کا مقصد اللہ تعالیٰ کی ابدی بادشاہی کا حصول ہے ۔ ان کے نزدیک علماے اخلاقیات نے اخلاقی سعی کے جتنے بھی مقاصد بیان کیے ہیں، وہ سب کے سب ایک معنی میں حصول رضائے الٰہی میں خود بخود شامل ہو جاتے ہیں۔ خیال رہے کہ علماے اخلاقیات کے ایک گروہ نے اخلاقی سعی کا مقصد utility(جس کا ترجمہ غامدی صاحب نے ’مسرت‘ کیا ہے) کا حصول قرار دیا ہے جبکہ ایک دوسرے گروہ کے نزدیک فرض برائے فرض کی ادئیگی (duty-ethics) اس کا مقصد ہونا چاہئے۔ اس سوال کے جواب میں بھی غامدی صاحب نے کئی غلطیاں کی ہیں جن کی نشاندی ہم یہاں کیے دیتے ہیں۔
ہم غامدی صاحب سے ایک سوال پوچھنا چاہتے ہیں: جب خیر وشر کا تعین انسانی نفس اور فطرت سے ہوتا ہے اور اس پر عمل پیراہونے کا محرک بھی ارادہ و احساس انسانی ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اخلاقی جدوجہد کا مقصد انسانی ارادہ سے باہر کیسے ہو گیا؟ علماے اخلاقیات اخلاقی سعی کا مقصد انسانی مسرت، کمال یا ارادہ انسانی کے ماتحت فرض برائے فرض کے تصور ات کو اسی لیے تو کہتے ہیں کیونکہ وہ خیر وشر کا ماخذ اور اس کا محرک انسانی نفس کو مانتے ہیں۔ جب نیکی اور بدی انسانی ذات سے نکلتے ہیں تو اس کا مقصد بھی انسانی ذات ہی سے نکلے گا۔ غامدی صاحب کا معاملہ عجب ہے کہ ایک طرف تو وہ خیر وشر کا ماخذ اور اس کا محرک انسانی نفس کو قرار دیتے ہیں اور دوسری طرف اس کا مقصد نفس انسانی سے باہر تلاش کرتے ہیں۔ اخلاقی جدوجہد کا مقصد حصول رضاے الٰہی تبھی قرار پاتا ہے جب یہ مانا جائے کہ خیر وشر کا ماخذ حکم الٰہی اور اس کا محرک اللہ کے سامنے مسؤلیت کا تصور ہے۔ غامدی صاحب کا نظریہ اخلاق درحقیقت مباحث اخلاقیات اور مذہبی ایمانیات کی خلط مبحث پر مبنی ہے۔
غامدی صاحب کا یہ خیال کہ علماے اخلاقیات کے اخلاقی سعی کے تمام تر مقاصد حصول رضاے الٰہی میں شامل ہیں، ایک فاش غلطی ہے۔ علماے اخلاقیات جب یہ کہتے ہیں کہ اخلاقی جدوجہد کا مقصد حصول لذت (utility)ہے تو وہ انسان کو آزاد (self-determined) مانتے ہیں اور اسی تصور کی بنا پر وہ حصول لذت کا طریقہ اختیار کرنے کا حق انسان کو دیتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں حصول لذت کا مقصد نفس انسانی کی پیروی (obedience and dominance of self) کرنے کا نام ہے جبکہ حصول رضاے الٰہی نفس کی نفی (submission of self to God)کرنے کا نام ہے۔ ایک ما بعد الطبیعیات میں انسان آزاد جبکہ دوسری میں وہ عبد ٹھہرتا ہے۔ اسی طرح اخلاقی جدوجہد کا مقصد فرض برائے فرض کی ادائیگی قرار دینے کا مطلب یہی ہے کہ انسان صرف اور صرف اپنے ارادے کا مطیع بن کر اخلاقی جدوجہد کرے، نہ کہ اپنے ارادے کو اپنے رب کے سامنے جھکا کر۔ اپنے نفس کی پیروی کرنے اور اسے اپنے رب کے سامنے جھکا دینے میں جو فرق ہے، ہر شخص اسے با آسانی سمجھ سکتا ہے، مگر غامدی صاحب اس فرق میں تمیز کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
غامدی صاحب کا یہ فرمانا کہ اخلاقی سعی کا مقصد اللہ تعالیٰ کی ابدی بادشاہی کا حصول ہے، نہایت خطرناک نظریہ ہے کیونکہ اس کے معنی یہ بھی ہو سکتے ہیں کہ انسان خدا ئی عمل میں شریک بن جائے۔ ہم یہ خدشہ کسی وہم کی بنیاد پر نہیں بلکہ اس حقیقت کی بنا پر پیش کر رہے ہیں کہ بہت سے مسلم مفکرین کسی معنی میں انسان کو تخلیقی عمل میں شامل اور تقدیر یزداں مانتے رہے ہیں۔ (حسن ادب ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے ہم یہاں کسی کا نام لینا نہیں چاہتے) گو کہ غامدی صاحب نے اپنی کتاب میں (فادخلی فی عبادی وادخلی جنتیکے قرآنی الفاظ سے) اس کی کچھ وضاحت ضرور فرمائی ہے، لیکن چونکہ ’’الٰہی بادشاہی کا حصول‘‘ اسلامی سے زیادہ عیسائی تمثیل اور علم الکلام پر مبنی ہے، لہٰذا بہتر ہوگا اگر غامدی صاحب یہ وضاحت بھی فرما دیں کہ آیا یہ معنی ان کے نزدیک اللہ تعالیٰ کی بادشاہی اور اس کے حصول میں شامل ہیں یا نہیں کیونکہ اگر یہ معنی بھی اس میں شامل ہیں جو ہم نے بیان کیے تو خیال رہے یہ نہایت گمراہ کن اور خلاف اسلام تصور ہے کیونکہ اللہ کی بادشاہی کے حصول اور اس میں شرکت کا امکان ہی وہ تصور ہے جو الوہیت انسانی کا جواز فراہم کر تا ہے اور جدیدیت پسند عیسائی علما کے اسی قسم کے مذہبی تصورات اور تاویلات کے ذریعے مغربی تہذیب میں انسان کو خدا تسلیم کر لیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی بادشاہی میں شمولیت کو اپنا مقصد بنانے کے بعد انسانی زندگی کا جو عملی نقشہ ابھرتا ہے، وہ یہ نہیں کہ انسان رسوم عبودیت بجا لانے کی فکر کرتا پھرے، بلکہ یہ ہے کہ وہ تصرف فی الارض یعنی اس کائنات کو اپنے ارادے اور خواہشات کے تابع کرنے کی سعی کرے اور یہی جدوجہد در حقیقت سائنس و ٹیکنالوجی کے جواز کی بنیاد فراہم کرتی ہے۔ لہٰذا خوب یاد رہے کہ اسلامی نقطہ نگاہ سے اخلاقی سعی کا مقصد درحقیقت حصول رضاے الٰہی اور اس کے نتیجے میں حاصل ہونے والی موعود جنت ہے اور اس جنت کا مل جانا کسی بھی معنی میں اللہ کی بادشاہی کا حصول یا اس میں شرکت نہیں بلکہ عبدیت ہی کا پرتو ہے ، یعنی انسان جنت پہنچ کر بھی عبد ہی رہے گا نہ کہ اللہ تعالی کی خدائی اور بادشاہی کا حصہ بن جائے گا۔ بھلا کون ہے جو اللہ کی بادشاہی میں ذرا برابر بھی حصہ حاصل کر سکے کیونکہ اللہ تعالیٰ محض صفات کے مجموعے نہیں بلکہ ایک ذات کا نام ہے اور بادشاہی صرف اور صرف اس ہی کی ذات کو سزا وار ہے۔
ایک اہم لغوی غلطی
آخر میں ہم غامدی صاحب کی توجہ ترجمہ و بیان مفہوم کی ایک اہم لغوی غلطی کی طرف دلانا چا ہتے ہیں۔ علماے اخلاقیات کے ایک گروہ نے اخلاقی جدوجہد کامقصد utility maximization کو قرار دیا ہے۔ (اس فکر کو Utilitarianism کہتے ہیں) ۔غامدی صاحب نے اپنی کتاب اخلاقیات میں لفظ utility کا ترجمہ ’’مسرت‘‘ کیا ہے حالانکہ یہ اس لفظ کی نہایت غلط تعبیر ہے کیونکہ اس لفظ کی درست تعبیر اگر اردو زبان کے کسی الفاظ میں بیان کرنا ممکن ہے تو وہ ہیں حصول لذت، مزے کرنا یا نفس پرستی وغیرہ۔ گو کہ لذت، مزہ، خوشی، مسرت وغیرہ قریب المعنی الفاظ ہیں، لیکن کیفیات کے اعتبا رسے یہ الفاظ احساس خوشی کے مختلف درجات پربولے جاتے ہیں۔ مثلاًخوشی کا ایک احساس وہ ہے جو کسی غریب کی مدد کرنے سے پیدا ہوتا ہے اور ایک کیفیت وہ ہے جو بدکاری کرنے کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہے۔ ظاہر بات ہے خوشی کی ان دونوں کیفیات میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ اردو زبان میں لفظ ’’ مسرت‘‘ درحقیقت ایک باوقار اور قابل ستائش احساس خوشی کے لیے بولا جاتا ہے جبکہ لفظ ’’مزہ‘‘ اپنے متعلقات سمیت عموماً خوشی کے سفلی معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ اسی طرح انگریزی زبان میں بھی خوشی کے احساسات بیان کرنے کے لیے کئی الفاظ مستعمل ہیں اور ان تمام الفاظ میں لفظ utility سب سے گھٹیا ترین معنوں کا حامل ہے جس کا مفہوم قریب قریب وہی ہے جو اردو زبان میں ’مزے کرنے‘ یا نفس پرستی کا ہے۔ اس لفظ کا سب سے بہترین اور درست مفہوم خود بینتھم (جو Utilitarianism کا بانی ہے) نے یوں بیان کیا تھا کہ Man and pig are equal in their capacity to derive utility from consumption activity. یعنی عملِ صرف کے ذریعے مزہ (utility) اٹھانے کے معاملے میں انسان اور سور یکساں صلاحیت کے حامل ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہ لفظ احساس خوشی کے سب سے نچلے یعنی حیوانی درجے کی کیفیات بیان کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ غامدی صاحب نے لفظ utility کا ترجمہ مسرت کرکے ایک حیوانی کیفیت کو اعلیٰ مرتبے پر فائز کر ڈالا اور بیان مفہوم کی اسی غلطی نے نتیجتاً انہیں اس غلط فہمی میں بھی مبتلا کر دیا کہ utility کا حصول کسی معنی میں حصول رضائے الٰہی کے مفہوم میں شامل ہو سکتا ہے۔ چونکہ غامدی صاحب بزعم خود عربی زبان کے ماہر ہیں، لہٰذا انہیں ترجمے کی ایسی فاش غلطیوں کے نتائج و عواقب کا خوب اندازہ ہو نا چاہیے۔ بظاہر یہ ترجمے کی ایک معمولی غلطی دکھائی دیتی ہے مگر ایسی غلطیوں کے نتیجے میں انسان بسا اوقات گہری فکری گمراہیوں کا شکار ہو جاتا ہے اور مسلم مفکرین تو پہلے ہی مغرب سے آنے والے ہر گمراہ کن تصور کا خوبصورت اور ’’ایمانی‘‘ ترجمہ کرکے ان گنت غلط فہمیوں کا شکا ر ہیں ، چنانچہ ہم نے ہیومن رائٹس کا ترجمہ حقوق العباد، ہیومن کا انسان، فریڈم کا آزادی ، equality کامساوات، ولفئیر کا فلاح، ٹولیرنس کا رواداری، Enlightenment کا روشن خیالی وغیرہ کرکے مغربی افکار و علوم کا ایک خوبصورت محل قائم کر رکھا ہے۔ غامدی صاحب سے گزارش ہے کہ اگر وہ ایسی غلط فہمیوں کا مداوا نہیں کر سکتے تو نہ سہی، لیکن کم ازکم ان میں اضافہ کرکے مزید فکری خلفشار کا باعث تو نہ بنیں۔
ایک تقابلی مطالعہ
اب ہم اسلامی ، غامدی اور مغربی نظریاتِ خلاق کا تقابلی مطالعہ پیش کرتے ہیں تاکہ قارئین خود فیصلہ کرسکیں کہ غامدی نظریہ اخلاق دونوں میں سے کس نظریے پر مبنی ہے۔
اس تقابلی مطالعے میں دوسری غور طلب بات یہ ہے کہ اسلامی و مغربی نظریاتِ اخلاق میں پانچوں جوابات کے مابین ایک منطقی ربط موجو د ہے یعنی اسلامی نظریہ اخلاق میں ہر جگہ خدا جبکہ مغربی نظریات میں انسان کو مرکزی حیثیت حاصل ہے جبکہ غامدی صاحب کا نظریہ چوتھے مسئلے تک انسان کی مرکزیت پر قائم ہے اور اس کے بعد یکایک ایک غیرمنطقی چھلانگ لگا کر خدا کوبھی شامل بحث کر لیتا ہے ۔ جیسا کہ ہم نے کہا کہ غامدی نظریہ اخلاق کی یہ بے ربطی در حقیقت مغربی و اسلامی نظریہ اخلاق کے خلط مبحث کا شاخسانہ ہے۔
غامدی صاحب سے چند سوالات
غامدی نظریہ اخلاق پر اپنے تنقیدی نکات کو ہم چند سوالات کی صورت میں غامدی صاحب کی خدمت میں پیش کرتے ہیں۔ بہتر ہوگا غامدی صاحب اپنے مقلدین کے بجائے خود ان کے جوابات عنایت فرمائیں۔ (وہ اور بات ہے کہ ان کے مقلدین جو بھی کہتے ہیں، اپنے استاد صاحب کی تصویب کے ساتھ ہی شائع کرتے ہیں)۔
۱) قرآن مجید کی کس آیت میں یہ کہا گیا کہ خیر وشر کی تعیین نفس انسانی کے ذریعے ممکن ہے؟
۲) انسانی نفس میں خیر وشر موجود ہیں سے یہ نتیجہ کیسے نکل آیا کہ اس کا تعین بھی انسانی نفس سے کیا جا سکتا ہے؟
۳) غامدی صاحب انسانی فطرت سے کیا مراد لیتے ہیں؟ نیز اس کی تعیین کے لیے خبر صادق کے علاوہ دوسرا حتمی ذریعہ اور طریقہ علم کیا ہے؟
۴) غامدی صاحب کے پاس اس اصول کی شرعی دلیل کیا ہے کہ خیر وشر اور انسانی فطرت کی تعیین کے لیے استقرا کا طریقہ اختیار کیا جائے؟ اسی طرح اختلاف اعمال کی صورت میں تعیین فطرت کے لیے امت ابراہیمی کی اکثریت کا عمل معتبر قرار دینے کی شرعی دلیل کیا ہے؟
۵) کیا امت ابراہیمی کی تاریخ کا ایسا معتبر ریکارڈ موجود ہے جس کی روشنی میں خیروشر کا ٹھیک ٹھیک تعین کیا جاسکے؟
۶) غامدی صاحب کے پاس مسئلہ استقرا کا حل کیا ہے؟
۷) ایمان باللہ اور حکم الٰہی سے ما ورا رہ کر خیر وشر طے کرنے کا اصول کیا ہے؟
۸) کیا غامدی صاحب خیر وشر کی بنا حکم الہٰی کومانتے ہیں یا انہیں حکم الہٰی سے ما ورا اور مستقل تصورات مانتے ہیں؟
۹) خیر وشر کا ماخذ اور اس کا محرک انسانی نفس کو قرار دینے کے بعد اس کا مقصد نفس انسانی سے باہر کیسے ہو سکتا ہے؟
۱۰) علماے اخلاقیات کے نفس پرستی پر مبنی خیالات کیسے خدا پرستی پر محمول کیے جا سکتے ہیں؟