امام ابن تیمیہ (رحمہ اللہ علیہ) اپنی کتاب "درء تعارض" میں امام غزالی (رحمہ اللہ علیہ) اور امام رازی (رحمہ اللہ علیہ) پر اپنے روایتی جارحانہ انداز میں تنقید کرتے ہوئے رقم طراز ہوتے ہیں کہ یہ حضرات آیات قرآنی کی تاویل کے باب میں ایک ایسا عمومی قانون بیان کرگئے ہیں جو زندقہ کا پیش خیمہ اور اہل کتاب کے گمراہ لوگوں جیسا کام ہے۔ اس تحریر کا مقصد امام غزالی کی متعلقہ تحریر اور امام غزالی کے تصور عقل کی روشنی میں یہ دکھانے کی کوشش کرنا ہے کہ یوں لگتا ہے اس معاملے میں علامہ ابن تیمیہ سے دو امور میں سہو نظر ہوگیا ہے: پہلا امام صاحب کی بات کو اس کے خصوصی محل سے ہٹا کر عمومی معنی دے دینا، اور دوسرا امام صاحب کے تصور عقل کو مد نظرنہ رکھنا۔
نفس مسئلہ کا پس منظر
پہلے یہ جاننا لازم ہے کہ جس قانون کلی کی نسبت علامہ ابن تیمیہ امام غزالی کی طرف کرتے ہیں اس کی نوعیت کیا ہے۔ امام غزالی کے ایک شاگرد ابوبکر ابن عربی امام صاحب سے بذریعہ خط چند مسائل سے متعلق استفسار کرتے ہیں، اس کے جواب میں امام صاحب نے جو خط ( قریب 12 صفحات پر مشتمل ) لکھا اس تحریر کو "القانون الکلی فی التاویل" کہا جاتا ہے (اس مسودے کو امام صاحب کی زندگی کے بعد "قانون التاویل" کے نام سے چھاپا گیا۔ بعض محققین کے نزدیک اس خط کی نسبت امام صاحب کی طرف مشکوک ہے لیکن کئی محققین کے نزدیک اس کی نسبت درست ہے، فی الوقت اس بحث سے سہو نظر کریں اور دوسری تحقیق کو درست سمجھئے ) ۔ اس خط میں امام غزالی سے چند امور متشابہات سے متعلق سوال کیا جاتا ہے جس کے جواب میں وہ سائل کو کہتے ہیں کہ اس معاملے میں تمہیں ایک قانون کلی بتاؤں گا۔ خط میں امام صاحب سائل کو تین وصیتیں بھی فرماتے ہیں۔ سوالات کی نوعیت کچھ ایسی تھی:
شیطان انسان کی رگوں میں دوڑتا ہے، شیطان آذان کی آواز سن کر بھاگ جاتا ہے، اس قسم کی احادیث کا کیا مفہوم ہے ؟ یہاں شیطان سے مراد پانی (خون) کے اندر پانی کی مانند کوئی شے ہے یا وہ تمام رگوں کے اندر ہوتا ہے؟ کیا شیطان کوئی جسم کی مانند شے ہے؟ انسانی قلب پر شیطان کے وساوس پیدا کرنے کی نوعیت کیا ہوتی ہے؟ کیا حدیث میں مذکور اس قسم کی باتیں ان باتوں کی طرح ہیں جہاں جن یا فرشتے کا کسی زندہ شے کی صورت میں ظاہر ہوجانا مراد ہوتا ہے؟ کیا وحی میں مذکور جن اور شیطان سے متعلق ایسی باتوں کو فلاسفہ کے خیالات کے ساتھ (بطریق تاویل) مطابقت دی جاسکتی ہے ؟ برزخ سے کیا مراد ہے؟ جنت کے زمین و آسمان سے بڑا ہونے سے کیا مراد ہے؟ وغیرہ غیرہ (سوال تقریبا دو صفحات پر پھیلا ہوا ہے جس میں اس نوع کے بہت سے سوالات ہیں)۔
خط کا جواب دینے سے قبل امام غزالی پہلے تو سائل کو اس قسم کے معاملات میں نہ الجھنے کی نصیحت کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ مجھے ایسے سوالات کا جواب دینا نا پسند ہے لیکن چونکہ اس قسم کے سوالات پھر پوچھے جاسکتے ہیں لہذا میں اس معاملے کے لئے ایک قانون کلی بیان کئے دیتا ہوں جو مفید ہوگا۔ پھر نص اور عقل سے متعلق اصولی گفتگو کرنے کے بعد سائل کے چند سوالات کا جواب دیتے ہیں۔
عقل و نقل سے متعلق پانچ رویے، تین وصیتیں اور قانون کلی کی نوعیت
اس پس منظر سے صاف واضح ہے کہ امام صاحب کے پیش نظر امور متشابہات سے متعلق ایک عمومی نوعیت کا کلیہ بیان کرنا تھا جو سائل کے لئے اس نوع کے مسائل میں مفید ثابت ہوسکے۔ امام صاحب بتاتے ہیں کہ سطحی غور و فکر کے بعد بسا اوقات ایسا محسوس ہوتا ہے کہ نقل و عقل میں تصادم ہے اور عقل و نقل کے اس تنازع میں لوگ پانچ رویوں میں منقسم ہوگئے:
- وہ لوگ جو وحی میں منقول ہر بات جوں کے توں مراد ہونے میں مبالغے کا شکار ہیں (مراد شاید حنابلہ تھے، اگرچہ امام صاحب ان کا نام نہیں لیتے )
- وہ لوگ جو عقلی دلائل سے معلوم شدہ امور درست ہونے میں مبالغے کا شکار ہیں (مراد شاید فلاسفہ تھے)
- ان کے مابین وہ لوگ ہیں جو عقل و نقل میں مطابقت کے قائل ہیں۔ یہ تیسری قسم کے لوگ پھر تین انواع میں تقسیم ہیں:
الف) وہ جو عقل کو اصل اور وحی کو ثانوی قرار دیتے ہیں اور وحی پر زیادہ غور و فکر نہیں کرتے ، یہ ہر اس منقول بات کو رد کردیتے ہیں جس کی عقلی توجیہ ان کے نزدیک مشکل ہو
ب) وہ جو وحی کو اصل اور عقل کو ثانوی قرار دیتے ہیں اور عقلی مقدمات پر زیادہ غور و فکر نہیں کرتے، البتہ یہ لوگ بھی بعض مقامات پر عقلی مقدمات اور نص کے ظاہری معنی میں تصادم کے قائل ہیں
ج) تیسرے وہ جو عقل و نقل دونوں کو علم کی بنیاد سمجھتے ہیں اور دونوں کے مابین تالیف و تلفیق کے قائل ہیں۔ ان کے خیال میں عقل و نقل میں تعارض ممکن نہیں ۔
اس خط میں امام غزالی سائل کو بتانا چاہتے ہیں کہ دراصل یہی ان کا منہج ہے۔ یاد رہے کہ یہ ایک خط ہے جو شاگرد کے جواب میں اس کی اصولی ہدایت کے لئے لکھا گیا اور اس طرح کی تحاریر میں بہت سے امور سائل اور جواب دینے والے کے مابین مفروضے کے طور پر موجود ہوتے ہیں۔ یہ بات کہ امام صاحب اسی آخری رویے کو اپنا منہج کہتے ہیں اس کی تصدیق امام صاحب کی کتاب "الاقتصاد فی الاعتقاد" کے ابتدائی جملوں ہی سے ہوجاتی ہے جہاں وہ نفس معاملہ کی پردہ کشائی کچھ اس طرح سے کرتے ہیں کہ جن صاحب نظر کو اللہ تعالی نے نور ایمانی اور استعداد قرآنی عطا فرمائی ہے وہ جانتے ہیں کہ شرع اور عقل کے مابین تضاد ممکن نہیں اور وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ عقل بغیر شرع کسی کام کی نہیں اور شرع عقل کے بغیر اپنا مدعا پورا کرنے سے قاصر ہے (اس کتاب کا یہ مقدمہ اس حوالے سے پڑھنے لائق ہے، اہل ذوق کو اس کا مطالعہ کرنا چاہئے)۔ چنانچہ یہ واضح ہوگیا کہ امام غزالی اس پانچویں رویے ہی کو اپنا مسلک بتاتے ہیں۔
امام غزالی سائل کو ان پانچ رویوں کے مابین اختلاف کی بنیاد بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ نص میں مذکور کن الفاظ کے ظاہری معنی مراد لینے کے بجائے ان کی تاویل کرنا ہے، اس اختلاف کی وجہ ہر گروہ کا تصور " ناممکن ہے " ، یعنی اس کے نزدیک کیا ممکن ہے، کیا ناممکن ہے اور کیا ممکن اور ناممکن دونوں ہیں (اس خط میں امام غزالی اس بات کی تفصیل بیان نہیں کرتے، اس موضوع کو امام صاحب اپنی کتاب "التفرقۃ بین الاسلام والزندقہ" (اسلام اور زندقہ کے مابین حد فاصل کا اصول) میں موضوع بنا کر یہ بتانے کی کوشش کرتے ہیں کہ کسی پر کفر کا فتوی لگانا کب جائز ہے اور کب نہیں)۔
اس کے بعد امام صاحب سائل کو تین وصیتیں کرتے ہیں:
- ان امور کو مان کر ان کے معنی میں صبر سے کام لینا چاہئے کیونکہ ان کے حقیقی معنی جان سکنا انسانی عقل کے لئے ممکن نہیں (یہ اصحاب تعطیل کے مدمقابل اشاعرہ کا موقف ہے جس کے مطابق ان امور کو اصولا ، یعنی ان کی کیفیت میں الجھے، مان لینا چاہئے)
- عقلی "برہان" (یہ بھی ایک خاص اصطلاح ہے) کو رد نہیں کرنا چاہئے کیونکہ یہ غلط نہیں ہوتی۔ عقل نقل کی گواہ ہے (یعنی اس کی تصدیق کرنے والی ہے)، نبی جن امور کی خبر دیتا ہے انسان اس کی "تصدیق" عقل کے ذریعے ہی کرتا۔ اگر عقل کو رد کردیا گیا تو نقل بھی رد ہوجائے گی جس کی تصدیق عقل سے کی جاتی ہے۔ یہ اس خط کی وہ بات ہے جسے علامہ ابن تیمیہ نے "قانون کلی" قرار دے کر اپنی تنقید کی بنیاد بنایا ہے
- ایسی آیات کی تاویل میں جب ایک سے زیادہ توجیہات کا امکان ہو تو کسی ایک پر اصرار کرنے سے بچنا چاہئے
امام غزالی کے نظام فکر میں عقل و برہان سے مراد کیا ہے اسے دیکھنے سے قبل ذرا ان تین وصیتوں کی معنویت پر غور کیجئے۔ پہلی وصیت میں امام صاحب سائل کو ان لوگوں کا سا رویہ اختیار کرنے سے روکتے ہیں جنہوں نے ایسے امور کا انکار کردیا ، لہذا صائب رویہ یہ ہے کہ مذکورہ امور کو اصولا مان لینا چاہئے، تیسری وصیت میں ان لوگوں کا سا طرز عمل اختیار کرنے سے منع کیا جو ان امور میں مبالغے سے کام لیتے ہوئے کسی ایک ہی بات کے حق ہونے پر اصرار کرتے ہیں اور دوسری وصیت میں اس اصولی بات کی نشاندہی کردی کہ نقل کے ظاہری مفہوم اور عقل (برہان) کے مابین "بظاہر " (یہ لفظ اس لئے کہنا ضروری ہے کیونکہ امام غزالی کے نزدیک عقل و نقل میں حقیقی تضاد ممکن نہیں ہے جیسا کہ "الاقتصاد" اور خط کے پانچویں رویے میں درج بیانات سے واضح ہے) تصادم کے وقت یہ لازمی نہیں ہوتا کہ نص کی تاویل کرنا باطل ہے بلکہ ایسا کرنا حق ہے ۔ یوں انہوں نے اشاعرہ کے منہج کو بیان کردیا جو "قانون کلی " بن جاتا ہے۔ درج بالا پانچ رویوں اور وصیتوں کے مابین ترتیب پر غور کرنے سے یہ قانون کلی ابھر کر واضح ہوجاتا ہے:
- پانچ رویوں میں سے آخری کو اپنا منہج قرار دینا اس سوال کا جواب ہے کہ کیا عقل و نقل میں حقیقی تعارض ہوتا ہے؟ جواب ہے نہیں
- پہلی وصیت میں اس سوال کا جواب ہے کہ کیا عقلی دلیل کی بنیاد پر ان امور کو رد کردینا چاہئے؟ جواب ہے نہیں بلکہ ان حقائق کو اصولا مان لینا چاہئے
- دوسری وصیت میں اس سوال کا جواب ہے کہ کیا انہیں جوں کاتوں ماننا لازم ہے؟ جواب ہے نہیں کیونکہ اس سے عقلی استحالات لازم آجاتے ہیں لہذا الفاظ کو ظاہری معنی سے ہٹا کر ان کی تاویل کرنا لازم ہے
- تیسرے میں اس سوال کا جواب ہے کہ کیا ان امور میں ایک ہی تاویل درست ہواکرتی ہے؟ جواب ہے نہیں۔
یہ دراصل سائل کے بیان کردہ امور متشابہ کے بارے میں اشاعرہ کی پوزیشن کا خلاصہ ہے جو امام غزالی کے نزدیک قانون کلی کی حیثیت رکھتا ہے۔ چنانچہ سائل کے سوالات اور جواب کے تناظر میں امام صاحب کی یہ بات بالکل واضح ہے کہ اس کا دائرہ کار کیا ہے اور کیا نہیں۔
عقل و برہان کا معنی اور قانون کلی
اب تک کی گفتگو سے یہ واضح ہوگیا کہ "قانون کلی" کا تعلق ان امور سے ہے جنہیں "متشابہات" کہا جاتا ہے نیز اس کا اطلاق تب ہوگا جب نص کے ظاہری مفہوم کے خلاف "قطعی عقلی دلیل" موجود ہو۔ اب اس بات کی طرف آتے ہیں کہ امام غزالی جب یہ کہتے ہیں کہ "اگر عقل کو رد کردیا جائے تو نقل کی بھی تردید ہوگی" تو اس بات میں عقل سے ان کی مراد کیاہے۔ اس خط میں امام غزالی اس کی تفصیل بیان نہیں کرتے البتہ امام صاحب کی دیگر کتب میں عقل پر جو گفتگو موجود ہے اس سے یہ معلوم کرنا کچھ مشکل نہیں رہتا کہ اس قانون کلی کا دائرہ کار ان کے نزدیک کیا ہے اور کیانہیں ۔ امام غزالی کے تصور عقل پر دو جہات سے گفتگو ممکن ہے ، ایک خالصتا ریشنلسٹ نظام فکر کے اندر رہتے ہوئے اور دوسری اسلامی نظام فکر کی رو سے۔ اس تحریر میں اس تفصیل سے سہو نظر کرتے ہوئے صرف اس پہلو کا خلاصہ پیش کیاجاتا ہے جو زیر بحث مسئلےسے متعلق ہے۔ چنانچہ اس بحث میں امام غزالی کے تصور عقل سے متعلق چار امور قابل غور ہیں :
- عقل نقل کی تصدیق کرتی ہے: "المستصفی" (اصول فقہ پر امام صاحب کی کتاب) کے مقدمے میں امام غزالی عقل کے ذریعے نقل کی تصدیق پر روشنی ڈالتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس کتاب کی ابتداء ہی امام غزالی یہاں سے کرتے ہیں کہ عقل ایسا قاضی اور حاکم ہے جسے اس عہدے سے معزول نہیں کیا جاسکتا۔ یہ قاضی کیا کرتاہے؟ اس کا پہلا کام خدا اور نبی کی تصدیق کرنے کے دلائل فراہم کرنا ہے۔ چنانچہ امام صاحب اس کتاب کے مقدمے میں ان دلائل کی طرف اشارہ کرتے ہیں جن سے ان کے خیال میں عقل خدا کے وجود اور نبی کی صداقت پر مطمئن ہوسکتی ہے۔
- عقل نبی کی تعلیمات کی پیروی کرتی ہے: جب ایک مرتبہ عقل نبی کی تصدیق کرلیتی ہے تو اپنے اس عہدے سے معزول ہوجاتی ہے اور خدا، آخرت، حشر و نشر، خیر و شر وغیرہ سے متعلق نبی جو کچھ کہتا ہے عقل اس کی پیروی کرتی ہے کیونکہ عقل کے پاس انہیں جان سکنے کا کوئی طریقہ موجود نہیں (جب عقل نبی کی تصدیق کرچکتی ہے تو اس کے بعد امام غزالی کے الفاظ کچھ یوں ہیں: عند ھذا ینقطع کلام المتکلم وینتھی تصرف العقل بل العقل یدل علی صدق النبی ثم یعزل نفسہ ویعترف بانہ یتلقی من النبی بالقبول ما یقول فی اللہ والیوم الآخر ولایقضی باستحالتہ)۔ یہ بات خوب اچھی طرح ذہن نشین رہنی چاہئے کہ حسن و قبح کے معاملے میں امام غزالی اشعری ہیں اور اہل علم جانتے ہیں کہ معاملات شرع میں صرف یہی ایک بات حاکمیت عقل کے دائرے کو کس قدر محدود کردینے والی ہے۔
- علم قطعی کا انکار لازم نہ آنے پر نص کی تاویل نہیں کی جائے گی: اسی مقدمے میں امام صاحب "علم ضروری" پر بھی گفتگو کرتے ہیں جس کا حاصل یہ ہے کہ عقل چند تصورات اور معلومات کے بدیہی ہونے کا حکم لگاتی ہے اور ان کی نفی نہیں کرسکتی۔ اس مسئلے پر کچھ گفتگو اپنی تحریر "امام غزالی، سلسلہ اسباب اور امکان معجزہ" کی بحث میں کرنے کا ارادہ ہے(یہ ان شاء اللہ عنقریب چھپ کر آجائے گی)۔ خلاصہ یہ کہ علم ضروری سے مراد وہ لازمی عقلی مقدمات ہیں جنہیں رد کرنا عقل کے لئے ممکن نہیں ، اگر عقل کے ان مقدمات (جنہیں امام صاحب "برہان" کہتے ہیں) کی نفی کردی جائے تو وحی کی تصدیق بھی ناممکن ہوجائے گی۔ امام غزالی ریشنلسٹ پیراڈئیم کے اندر رہتے ہوئے عقل کے دائرہ کار پر گفتگو کرتے ہیں، یعنی وہ کم از کم مقدمات (necessary knowledge) جن پر شک ممکن نہ ہو مثلا جمع بین الضدین ، دو کا ایک سے بڑا ہونا وغیرہ(اس necessary knowledge کی قطیعت کاانکار علامہ ابن تیمیہ بھی نہیں کرتے)۔ المستصفی کے مقدمے میں امام صاحب ان میں سے دو کا ذکر کرتے ہیں: ایک law of identity اور دوسرا laws of implications ۔ یہ بات کہ امام غزالی عقل و نقل میں تعارض کی بحث میں عقل سے یہی بات مراد لیتے ہیں، یہ بات تہافت الفلاسفہ کے سترہویں باب میں سلسلہ اسباب کی روشنی میں فلاسفہ پر ان کی طرف سے کی جانے والی تنقید سے واضح ہوجاتی ہے جہاں وہ نصوص میں بیان شدہ معجزات کو جوں کےتوں ماننے پر اسی بنا پر اصرار کرتے ہیں کہ ان کے خلاف کوئی "برہان" (قطعی دلیل) موجود نہیں۔ اسی طرح امام غزالی نے فلاسفہ پر جن تین وجوہ کی بنا پر زندقہ و تکفیر کا فتوی جاری کیا ان میں سے ایک یہ تھی کہ یہ لوگ قیامت والے روز اجسام کے دوبارہ اٹھا لئے جانے کا انکار کرتے ہیں جبکہ یہ سب کچھ نصوں میں صراحتا مذکور ہے اور اس پر اجماع ہے۔ اسی ضمن میں وہ یہ اہم بات بھی بتاتے ہیں کہ کس بات کا اثبات انسانی عقل کے لئے معجزتا بھی ناممکن ہے (جس کا خلاصہ یہ ہے کہ معجزہ محال عقلی کے اثبات کا نہیں بلکہ خلاف عادت واقع اور خبر کی تصدیق کا نام ہے)۔ ان دو باتوں کا معنی کیا ہے؟ یہ کہ نص میں مذکور ایسی بات کی تصدیق کی جائے گی جس کے خلاف "برہان" (indubitable evidence) موجود نہ ہو، یعنی جو "علم ضروری" سے نہ ٹکراتی ہو۔
- علم قطعی سے ٹکراؤ کی صورت میں نص کی تاویل کی جائے گی: اگر نص کا ظاہری مفہوم قطعیات عقلیہ سے ٹکراتا ہوا محسوس ہو تو اس صورت میں نص کی تاویل کی جائے گی، بصورت دیگر "عقل" (قطعیات و بدیہیات) کا انکارلازم آئے گا اور اگر قطعیات عقل ہی کا انکار کردیا گیا تو پھر نص کی کسی بھی بات کی تصدیق نہ ہوسکے گی کیونکہ عقل انہی قطعیات کی روشنی میں سفر طے کرکے نقل کی تصدیق کرنے لائق ہوتی ہے۔ عقل و نقل میں ایسے تعارض کے امکان نیز اس صورت میں یقینی عقلی استدلال کو نص کے ظنی معنی پر ترجیح دینے کے علامہ ابن تیمیہ بھی قائل ہیں جو اسی قانون کلی کو دوسرے طریقے سے بیان کرنے کا انداز ہے۔ علامہ ابن تیمیہ "درء تعارض" میں کہتے ہیں کہ نفس مسئلہ کو عقل و نقل کے مابین تعارض کے زاویہ نگاہ سے دیکھنا درست نہیں ، اس کے بجائے معاملے کو یوں دیکھنا چاہئے کہ عقل و نقل میں سے ہر دو کی دلیل یقینی یا ظنی ہونے کا امکان ہے۔ تو اس اعتبار سے چار صورتیں بنتی ہیں: (1) منقول دلیل یقینی ہو اور عقلی بات بھی یقینی ، علامہ صاحب کے نزدیک ایسا ہوسکنا محال ہے کیونکہ قطعیات نقلیہ اور عقلیہ ایک دوسرے کی تصدیق کرتے ہیں اور ان میں تعارض ناممکن ہے، (2) منقول دلیل یقینی ہو اور عقلی ظنی، اس صورت میں یقینی بات یعنی منقول کو ترجیح دی جائے گی، (3) منقول دلیل ظنی ہو اور عقلی دلیل یقینی، اس صورت میں بھی یقینی یعنی عقلی دلیل کو ترجیح دی جائے گی (4) دونوں ظنی ہوں تو پھر توقف کیا جائے گا یہاں تک کہ غور فکر کے نتیجے میں کسی ایک کو اختیار کرنے کی وجہ ترجیح سامنے آجائے۔ چنانچہ علامہ ابن تیمیہ کے نزدیک معاملے کو نص بمقابلہ عقل کے بجائے یقین بمقابلہ ظن کے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے اور فوقیت یقین کی کیفیت کو ظن پر حاصل ہوتی ہے۔
تو یہ قانون کلی سے متعلق امام غزالی کے کلام کا مفہوم ہے، اگر اس میں کوئی سقم رہ گیا تو میری کوتاہ نظری کا نتیجہ ہے اور اگر یہ ان کی مراد کے مطابق ہے تو اللہ کا فضل ہے اور دعا ہے کہ اللہ تعالی روز قیامت اس کے صدقے امام غزالی سے محبت کرنے والوں میں شمار کردے۔ رہ گئی یہ بات کہ اس سب پر علامہ ابن تیمیہ کو اعتراض کیا تھا، تو اس کا جواب یہ ہے کہ علامہ ابن تیمیہ ایک الگ قسم کا مابعد الطبعیاتی، علمیاتی اور لسانیاتی تناظر قائم کرکے اشاعرہ اور اصول فقہ پر تنقید کرتے ہیں جس کا مقصد حنبلی نظام فکر کو عقلی بنیادیں فراہم کرنا ہے۔ علامہ ابن تیمیہ کے اپنے مخصوص نظام فکر کے اندر رہتے ہوئے ان کی بہت سی تنقیدات بامعنی معلوم ہوتی ہیں۔ اگر زندگی نے یارانہ کیا تو اس حوالے سے علامہ صاحب کے اعتراض کی اصل بنیادوں اور ان سے جنم لینے والے مسائل کو واضح کرنے کی کوشش کی جائے گی۔
وما توفیقی الا باللہ۔