کسی تہذیب کا تصور علم اس کے اہداف و مقاصد کے اظہار کا سب سے بلند ترین درجہ ہوتا ہے۔ در حقیقت تصور علم ہی وہ اساس ہے جہاں کسی تہذیب کے مقاصد علمی و فکری سطح پر متشکل ہوتے ہیں۔ ہر تصور علم ایک تہذیب کے حیات انسانی کی حقیقت کی بابت ما بعد الطبعیاتی ایمانیات کا مرہون منت ہوتا ہے۔ یعنی یہ سوال کہ علم کیا ہے کا جواب مقصد علم کے بغیر دینا ناممکن ہے اور یہ مقصد لازماً ایک ما بعد الطبعیاتی ایمان پر قا ئم ہوتا ہے ۔ یہی وہ بنیادی بات ہے جس پر غور نہ کر نے کے سبب کئی اہل علم و فکر نے مغربی علوم کو اسلامی تاریخ میں تلاش کرنے نیز ان کی اسلام کاری کرنے کی ٹھوکریں کھائی ہیں۔ یہ غلط فہمی بھی کہ مغربی علوم ایک اٹل حقیقت ہیں نیز ان کی بنیاد ایسے آفاقی تصورات پر قائم ہے جو انسانیت بحیثیت مجموعی کا مظہر ہیں، اسی سوال پر غور نہ کرنے کا نتیجہ ہے۔ اسی طرح ماہیت علم اور ایمانیات کا تعلق نظر انداز کرنے کے نتیجے یہ فکری کجی بھی عام ہوئی کہ مسلمانوں کو مغربی علوم کی روشنی میں اسلامی تعلیمات کو پہچاننے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اس مضمون میں ہماری کوشش ہو گی کہ ہم علم بحیثیت مجموعی اور سرمایہ دارانہ (یا سائنسی ) نظریہ علم کی حقیقت وا ضح کریں۔
حقیقت علم کی تفہیم کے ضمن میں تین سوالات کے جوابات اصل اہمیت کے حامل ہیں:
۱) علم کیا ہے ، یعنی اس کی نو عیت و ماہیت (Nature)کیا ہے ؟
۲) علم کہاں سے آئے گا، یعنی منبع علم (source of knowledge) کیا ہے؟ منبع علم کی تشخیص کے ساتھ ہی اس سوال کا جواب دینا بھی ضروری ہوجاتا ہے کہ اس منبع علم سے حاصل ہونے والے علم کی صحت و عدم صحت (validity) کا معیار کیا ہے ؟
۳) اس مخصوص منبع علم سے حاصل شدہ معلومات کن شکلوں میں متشکل (embodiement) ہوئیں ، یعنی اس نظریہ علم کا اظہار کن علوم کی شکلوں میں ہوا ؟
سرمایہ دارانہ یا سائنسی علمیت کے ضمن میں ان تینوں سوالات کے جوابات تلاش کرنے کے لیے ایک طویل مضمون درکار ہوگا، لہٰذا خوف طوالت کو ملحوظ خا طر رکھتے ہوئے اس مضمون میں ہم پہلے سوال کا جواب تفصیلاً جبکہ تیسرے کا جواب اجمالاً دینے کی کو شش کریں گے۔ ان سوالات کے جوابات سمجھنے کے لیے تین امور پر روشنی ڈالنا ضروری ہے :
الف) علم کی نوعیت و ماہیت کا حقیقت کی بابت ایمانیات سے تعلق پر
ب) سرمایہ دارانہ تصور علم کا اس کے تصور حقیقت سے تعلق اور اس کی خصوصیات پر
ج) چند اہم سرمایہ دارانہ علوم کی حقیقت پر
اس مضمون میں ہم درج بالا ترتیب سے اپنے مدعا کو بیان کریں گے :
۱) ایمانیات اور تصور علم کا باہمی تعلق
علم سے مراد عام طور پر معلومات کا ایک با مقصد مجموعہ سمجھی جاتی ہے۔ درحقیقت یہ ’عالم ‘ (knower) اور ’معلوم ‘ (known) کے درمیان ایک تعلق کا نام ہے اور ان دونوں کے درمیان اس تعلق کی مقصدیت ہی ’مجموعہ معلومات ‘ کے مافیہ (content) کی ماہیت (nature) اور درجہ بندی (hirarchy) کا تعین کرتی ہے۔یعنی کس مجموعہ معلومات پر لفظ علم کا اطلاق کیا جا ئے گا، اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ علم حا صل کرنے والے شخص کا مقصد کیا ہے۔ چنانچہ ہر مقصدیت سے نکلنے والا تصور علم اور معلومات کی درجہ بندی یکساں نہیں ہوتی۔ اس کی مزید وضاحت کرنے سے پہلے ہم یہ بیان کرتے چلیں کہ معلومات کے ہر مجموعے پر لفظ علم کا اطلاق نہیں کیا جاتا بلکہ صرف ایک بامقصد معلومات کے مجموعے پر ہی یہ لفظ بولا جاتا ہے، مثلاً کسی پا گل شخص کو بہت سی باتیں معلوم ہوتی ہیں لیکن اس کی ان معلومات کوکسی بھی تصور علم میں ’علم ‘ نہیں مانا جاتا۔ اس بنیادی وضاحت کے بعد اب ہم ایک آسان مثال بیان کرتے ہیں۔ فرض کریں آپ سائنس ، انجینئرنگ اور سو شل سائنسز کے مختلف مضامین کی ایک فہرست مرتب کرکے ان کی درجہ بندی کرنا چا ہتے ہیں ۔ اگر آپ یہ فہرست کسی سائنس کے طالب علم کے سامنے پیش کریں گے تو وہ ان مضا مین کی جو درجہ بندی کرے گا، ان کی تر تیب کچھ یو ں ہوگی:
۱) سائنس کے مضا مین ،
۲) انجینئرنگ کے مضا مین ،
۳) سو شل سائنسز کے مضا مین
اس کے برعکس اگر آپ یہی فہرست کسی انجینئرنگ کے طا لب علم کے سامنے پیش کریں تو وہ انہیں درج ذیل ترتیب سے مرتب کرے گا :
۱) انجینئرنگ کے مضا مین ،
۲) سائنس کے مضا مین ،
۳) سو شل سائنسز کے مضا مین
جبکہ ایک سو شل سائنسز یا بزنس ایڈ منسٹریشن کے طا لب علم کی مرتب کردہ فہرست درج ذیل ہو گی :
۱) سو شل سائنسز کے مضا مین ،
۲) سائنس کے مضا مین ،
۳) انجینئرنگ کے مضا مین
ان طا لب علمو ں کی مرتب کردہ فہرستوں میں علوم کی درجہ بندی کا یہ فرق اس مقصد اور تعلق (relevance) کی وجہ سے پیدا ہوا ہے جس کی خا طر یہ طلبا علم حا صل کرنا چا ہتے ہیں۔ چنا نچہ اگر آپ کسی انجینئرنگ کے طا لب علم سے تاریخ کی اہمیت پر بات کریں تو شاید اس کے نزدیک تاریخ ایک غیر اہم علم کہلائے، لیکن اگر کسی فلسفی کی نظر سے دیکھا جائے تو تاریخ سے زیادہ اہم علم کوئی اور نہ ہوگا ۔ اس مثال میں نو ٹ کرنے کی بات یہ ہے کہ معلومات کی علمی حیثیت اور اس کی درجہ بندی طے کرنے میں علم حاصل کرنے والے شخص کا مقصد فیصلہ کن اہمیت کا حا مل ہوتا ہے۔ اس بات کو مزید وا ضح کرنے کے لیے ایک اور مثال پر غور کریں۔ آپ اور ہم بچپن سے یہ بات سنتے چلے آئے ہیں کہ ’اصل علم تو قرآن و حدیث ہی ہیں‘۔ آج کے جدیدیت پسند مفکرین کو یہ بات مبالغہ انگیز ی دکھا ئی دیتی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے آیا واقعی یہ مبا لغہ انگیزی ہے یا حقیقت وا قعہ ہے؟ اور اگر حقیقت ہے تو کن معنوں میں یہ بات درست ہے؟ اس سوال کے جواب کے لیے اسلام کے نزدیک انسانی زندگی کے مقصد پر غور کریں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں یہ بات نہایت وا ضح طریقے سے بیان کی ہے کہ انسانی زندگی کا مقصد دنیا وی زندگی کوپرلطف بنانے کے لیے کائنات کو مسخر کر نے کی سعی کرنا نہیں بلکہ اپنے رب کی عبادت کرنا اور اس کی خوشنودی حا صل کرنا ہے ، نیز یہ کہ انسان کو یہ زندگی اس کے کسی حق کے طور پر نہیں دی گئی کہ جسے وہ جیسے چا ہے ترتیب دے ، بلکہ یہ زندگی اسے آزمائش کے لیے دی گئی ہے۔ جب یہ طے ہو گیا کہ زندگی کا مقصد آزمایش اور حصول رضاے الٰہی ہے، تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ آزمایش جس شے میں ہو رہی ہے، اس کا علم کہاں سے حا صل ہوگا۔ دوسرے لفظوں میں رضا ے الٰہی حا صل کرنے کے طریقے کا علم کہا ں سے ہو گا؟ کیا ہر شخص آزاد ہے کہ اپنی طرف سے زندگی کا جو بھی مقصد چا ہے بنا لے یا اس کے رب نے اس کی ہدایت کا کوئی انتظام کیا ہے؟ ہر شخص جا نتا ہے کہ اللہ تعا لیٰ نے ہدایت انسانی کے لیے انبیا و رسل کا سلسلہ جاری فرمایا اور اس ہدایت کے حصول کا آخری اور واحد معتبر ذریعہ قرآن و حدیث نبوی کی صورت میں موجود ہے۔ چنا نچہ یہی وہ وا حد ذریعہ علم ہے جس سے رضاے الٰہی کے حصول کا طریقہ جا نا جا سکتا ہے اور اس ذریعہ علم کو چھوڑ کر اس دنیا میں اور کوئی ایسا ذریعہ نہیں جس سے انسا ن یہ جان سکے کہ میرا رب مجھے کس شے میں آزما نا چا ہتا ہے، نیز وہ میرے کن اعمال سے خوش ہو گا اور کون سے اعمال اس کی نا را ضگی کا با عث ہوں گے۔ پس ثا بت ہوا کہ انسانی زندگی کے مقصد ’ عبادت رب‘ کے معیار پر پورا اترنے والا علم وہی ہے جسے مولوی صاحب ’قرآن و حدیث ‘ کہتے ہیں، لہٰذا یہ بات سو فیصد درست ہے کہ ’اصل علم تو قرآن و حدیث ہی ہیں‘، نیز دیگر عقلی علوم کی درجہ بندی ان علوم کے اس مقصد حیات کے حصول میں معا ونت و عدم معا ونت کے اصول پر طے کی جا ئے گی۔ جو علم اس مقصد حیات کے حصول میں جتنا زیادہ ممد و مددگار ہوگا، اسلامی نظریہ علم میں اتنا ہی اہم کہلائے گا، اور جس علم کا تعلق اس مقصد کے ساتھ جتنا کمزور ہو گا، وہ علوم کی درجہ بندی میں اتنا ہی نیچے دکھائی دے گا۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی تاریخ میں قرآن و حدیث کے بعد صرف ونحو، فقہ و اصول، کلام و منطق وغیرہ کو خصوصی اہمیت حا صل رہی ہے۔ اس تفصیل سے یہ بات وا ضح ہو جا نی چا ہیے کہ ہر تصور علم (یعنی مجموعہ معلومات کی نوعیت) اور اس کی درجہ بندی چند مابعد الطبعیاتی ایمانیا ت کی مرہون منت ہوتی ہے، نیز مقصد حیات کی با بت عقائد بدل جا نے سے تصور علم بھی بدل جا تا ہے۔ چنا نچہ کسی تہذ یب سے نکلنے والے تصور علم اور معلومات کی درجہ بندی کو اس تہذ یب کی ایمانیات سے ما ورا ہو کر سمجھنا نا ممکن ہے اور جو شخص بھی ایسی کوشش کرے گا، لازماً غلط نتا ئج تک ہی پہنچے گا۔ ایمانیات اور تصور علم کے تعلق کی اس اصولی بحث کے بعد اب ہم سرمایہ دارانہ تصور علم کی تفصیلات کی طرف آتے ہیں۔
۲) سا ئنسی علم کی نوعیت اور اس کے تصور حقیقت سے اس کا تعلق
آ ج کی دنیا بالخصوص مغربی دنیا میں جب بھی لفظ علم بولا جا تا ہے تو اس سے مراد عام طور پر ’سائنس و ٹیکنالوجی‘ ہی سمجھا جا تا ہے۔ ایک دور ایسا بھی تھا کہ جب موجودہ سائنس و ٹیکنا لو جی نامی کوئی بھی شے علم کے مسمیٰ کے طور موجود نہ تھی۔ کچھ لوگوں کا خیا ل ہے کہ سا ئنس و ٹیکنالوجی کا موجودہ علم تمام انسانی تہذیبوں میں تحلیل ہوتا ہوا اپنا تاریخی سفرطے کرکے اس منطقی منزل تک پہنچا ہے۔ دوسرے لفظوں میں ان کے نزدیک علم ایک مسلسل تاریخی عمل (Historical progression) کا نام ہے جو کسی قسم کی ایمانیات کا مرہون منت نہیں۔ ہمارے متجددین حضرات اس فکر کو اس وجہ سے اپنا تے ہیں تا کہ موجودہ سائنس کو اسلامی تاریخ کا تسلسل ثا بت کر دکھا ئیں۔ ہو سکتا ہے اس تجزیہ میں ان کے لیے خوشی کا بہت سا سامان ہو ، لیکن حقیقت علم کا یہ تجز یہ کوئی علمی حیثیت نہیں رکھتا۔ سرمایہ دارانہ علم (یعنی سائنس و ٹیکنالوجی وغیرہ) کسی مسلسل تا ریخی عمل کے نتیجے میں نہیں بلکہ انسانی زندگی و کا ئنات کے بارے میں تصور حقیقت کی ایک ایسی تبدیلی سے پیدا ہوا جو تحریک تنویر (enlightenment) کے نتیجے میں عام ہوئی۔
۲.۱ : سر مایہ دارانہ تصور حقیقت کی ایمانیات
اس تصور حقیقت نے جن بنیادی ایما نیات اور اقدار کو اپنانے کی طرف دعوت دی وہ مختصراً یہ تھے (ان اقدار کی تفصیلی وضاحت ہم نے اپنے جمہوریت کے مضمون میں بیان کی ہے، دیکھئے: ساحل ، نومبر ۲۰۰۶):
الف) آزادی جس کا معنی یہ ہے کہ ہر شخص اپنی خواہشات کی ترتیب متعین کرنے کا اخلاقی طور پر مستحق ہے، یعنی یہ اس کا حق ہے کہ وہ جو چاہنا چاہے، چاہ سکے اور اپنی چاہت حاصل کرنے کا زیادہ سے زیادہ مکلف ہونے کی جدوجہد کرے۔ مختصراً آزادی کا معنی خیرو شر طے کرنے کا حق انسان کو حا صل ہونا ہے، یعنی انسان کے ’حق ‘ کا ’خیر و شر‘ پر فوقیت رکھنا ہے [prioritization of right over good] (آسان لفظوں میں یہ تصور کہ خیر اور شر کا منبع اور اس کا تعین نفس انسانی سے ہوتا ہے )۔ مغربی انسان خود کو قائم بالذات (self-determined) اور آزاد (autonomous) تصور کرتا ہے، دوسرے لفظوں میں آزادی کا مطلب ہے ’عبدیت‘ کا رد، یعنی انسان کی حقیقت عبد ہونا نہیں بلکہ قائم بالذات یعنی خود اپنا خدا ہونا ہے، کیونکہ انسان کو خیرو شر طے کرنے کا حق دینے کا مطلب اس بات کا انکار ہے کہ وہ عبد ہے اور اس کا مقصد حیات خواہشات کی تکمیل نہیں بلکہ خواہش کی نفی کرکے اپنے نفس کو خدا کی رضا کے آگے جھکا دینا ہے ۔
ب) مساوات جس کا مطلب یہ ہے کہ تمام انسانوں کی خوا ہشات کی ترتیب اور ان سے طے پانے والے تصور ات خیر مساوی اہمیت کے حا مل ہیں اور ان میں اصولاً کسی قسم کی درجہ بندی کرنا نا ممکن ہے، یعنی تمام تصورات خیر و شر اور زندگی گزارنے کے تمام طریقے برابر حیثیت رکھتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں مساوات کا معنی ہے ’نظام ہدایت‘ کا رد ، یعنی اس بات کا انکار کرنا کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو خیر و شر بتانے کے لیے ہدایت کا کوئی سلسلہ انبیاے کرام کے ذریعے قائم کیا ہے ، نیز انبیاے کرام کی تعلیمات خیر و شر طے کرنے کا کوئی حتمی معیار ہیں ۔ یہ اس لیے کہ نظام ہدایت کا معنی ہی یہ ہے کہ تمام انسانوں کی خواہشات کی ترتیب ہرگز مساوی معاشرتی حیثیت نہیں رکھتیں بلکہ وہ شخص جس کی خواہشات کی ترتیب تعلیمات انبیا کا مظہر ہیں، تمام دوسری ترتیبوں پر فوقیت رکھتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں نظام ہدایت مساوات کا نہیں بلکہ حفظ مراتب کا متقاضی ہے جس میں افراد کی درجہ بندی کا معیار (differentiating factor)تقویٰ ہوتا ہے۔ نیز اسلامی معاشرے و ریاست کا مقصد جمہوری معاشرے کی طرح ہرفرد کو اپنی اپنی خواہشات کے مطابق زندگی گزارنے کے مساوی مواقع فراہم کرنا نہیں بلکہ ان کی خواہشات کو نظام ہدایت کے تابع کرنے کا ماحول پیدا کرنا ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی نظریہ ریاست میں citizen(ایسی عوام جو اصولاً حاکم اور فیصلہ کرنے والی ہوتی ہے) اور عوامی نمائندگی (Representation of citizens) کا کوئی تصور ہے ہی نہیں کیونکہ یہاں عوام citizen نہیں بلکہ رعایا ہوتی ہے اور خلیفہ عوام کا نمائندہ نہیں ہوتا کہ جس کا مقصد عوام کی خواہشات کے مطابق فیصلے کرنا ہو بلکہ وہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نائب ہوتا ہے جس کا مقصد رعایا کی خواہشات کو شریعت کے تابع کرنے کے لیے نظام ہدایت کا نفاذ ہوتا ہے۔ اس کے برعکس آزادی و مساوات کا معنی یہ ہے کہ خیر و شراور اپنی منزل کا تعین انسان خود طے کرے گا اور ہر شخص کا تصور خیرو زندگی گزارنے کا طریقہ مساوی معاشرتی حیثیت رکھتا ہے اور ریاست کا مقصد ایسی معاشرتی صف بندی وجود میں لانا ہوتا ہے جہاں ہر فرد اپنی خواہشات کو ترتیب دینے اورانہیں حاصل کرنے کا زیادہ سے زیادہ مکلف ہوتا چلا جائے ۔
ج) ترقی جس کا حاصل یہ ہے کہ زندگی میں انسان کا مقصد اپنے ارادے اور خواہشات کی زیا دہ سے زیادہ تکمیل (maximum satisfaction) ہے اور ارادہ انسانی کی یہی منتہا تکمیل ترقی کا جوہر ہے ۔ دوسرے لفظوں میں ترقی کا مطلب ہے ’آخرت‘ کا اور دنیا کے ’دارلامتحان ‘ ہونے کارد اور دنیاوی زندگی کو بذات خود مقصد (End in itself) سمجھنا ہے۔ ترقی درحقیقت وہ طریقہ ہے جس کے ذریعے آزادی اور مساوات کا اظہار ممکن ہوتا ہے، یعنی اگر کوئی معاشرہ آزادی اور مساوات کے اصول پر زندگی گزارنا چاہتا ہے تو وہ واحد طریقہ جس کے نتیجے میں ہر فرد اپنی خواہشات کی ترتیب طے کرنے اور اسے حاصل کرسکنے کا مکلف بن سکتا ہے، ترقی یعنی سرمائے میں لامحدود اضافہ کرنے کی جدوجہد ہے ۔
تصور حیات کی اس تبدیلی کے بدولت ایک ایسے ’جدید انسان ‘کی تخلیق ہوئی جسے ہیومن (Human being)کہتے ہیں ۔ تحریک تنویر سے قبل اس انسان کا کوئی معاشرتی وجود نہ تھاکیونکہ ہر مذہب میں انسان سے مراد عبد (Mankind) ہی سمجھا جاتا تھا جو اپنی پہچان اور وجود خود اپنی ذات سے نہیں بلکہ خدا کے وجود سے حاصل کرتا تھا ، ہاں یہ الگ بات ہے کہ مختلف مذاہب کے ما بین اظہار عبدیت کے معتبر طریقے میں اختلاف موجود تھا۔ فوکالٹ (بیسویں صدی کے مشہور ترین مغربی فلسفیوں میں سے ایک) کا یہ کہنا صد فیصد درست ہے کہ ہیومن تو پیدا ہی سترہویں صدی میں ہوا ہے، اس سے پہلے کسی تہذیب اور نظام زندگی میں ہیومن کا تصور موجود ہی نہیں تھا۔ ہیومن (وہ انسان جو خود کو قائم بالذات سمجھتا اور آزادی کا خواہاں ہے ) مغربی نظام زندگی کی روح رواں ہے اور تمام مغربی علوم جس انسان کے رویے سے سے بحث کرتے ہیں، وہ یہی ہیومن ہے نہ کہ عبد۔ یہ ایک ایسا انسان تھا جس کی دلچسپی کا محور مذہبی رسوم عبودیت بجا لانے کے بجائے دنیاوی معاملات سے بے پناہ رغبت تھی، اور جس میں ایک ایسا نیا ولولہ اور جوش تھا جو اسے غیر مشروط آزادی کی طرف مائل کرتا تھا۔ اس تبدیلی کی تصویر کشی ڈاکٹر ظفر حسن نے اپنی کتاب ’’سر سید اور حالی کا نظریہ فطرت‘‘ میں خوبصورت الفاظ میں کی ہے:
’’یہ ایک ایسا انسان تھا جو اپنے سے پہلے والے انسان سے ہر قسم کا تعلق منقطع کر دینا چا ہتا تھا...اٹھا رویں صدی کے اوائل میں کہا جا نے لگا کہ بزرگوں نے نئی نسل کو ایک ایسا معا شرتی نظام دیا ہے جو نرا دکھاوا اور دھو کا ہے اور جو ہر برائی کا ذمہ دار ہے ... اٹھا رویں صدی کی نسلیں اس نظریے کو کہ انسان کو کوئی الہامی پیغا مات وصول ہوتے ہیں بالکل رد کرکے وحی کا انکار کر دینا چا ہتی تھیں ۔ القصہ مختصر وہ انسانی زندگی کو کسی حال میں بھی مذہبی طرزفکر سے نہ دیکھنا چا ہتی تھیں۔ ان کا گمان یہ تھا کہ وہ ایک نئی چیز کوجنم دیں گی، عقل کی روشنی سے وہ ظلماتی دور کو نیا نور بخشیں گی اور قدرت کے منصوبے کو دریافت کر لیں گی اور اس طرح انسان کا ایک پیدایشی حق یعنی انسانی خوشی اور خوشحالی انسان کے لیے بحال کر دیں گی ‘‘۔
۲.۲: سرمایہ دارانہ یا سائنسی علم کا مفہوم: ارادہ انسانی کی بالا دستی
حیات انسانی کی مقصد یت کے بارے میں یہ گمراہ کن تصورات سترہویں اور اٹھا رویں صدی کی پیداوار ہیں جن کے نتیجے میں علم کا ایک نیا تصور ابھرا۔ اگر اس دنیا میں انسان کا مقصد ارادے اور خو اہشات کی تکمیل ہے تو پھر اس کائنات میں لامحدود خواہشات انسانی کی تکمیل کے لیے ضروری ہے کہ یہا ں کی تمام اشیا و موجودات اس کے ارادے کے تابع ہوجائیں، کیونکہ جب تک وہ انسانی ارادے کے تابع نہیں ہو جا تیں، تکمیل خواہشات کا خواب کبھی شر مندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔ مثلاً انسان کی ایک خوا ہش یہ بھی ہو سکتی تھی کہ وہ ہوا میں اڑے، لیکن اس کی تکمیل کے لیے ضروری تھا کہ وہ زمین کی اپنی طرف گرانے کی قوت پر قابو پائے۔ اشیا و موجودات کو اپنے ارادے کے تابع کرنے کے لیے ضروری تھا کہ انسان ایسی معلومات حاصل کرنے کے در پے ہو جو اسے تسخیر کائنات کی راہ سجھا ئے۔ لہٰذا اس تصور حقیقت (کہ زندگی کا مقصد ارادہ انسانی کی تکمیل ہے ) سے جو تصور علم نکلا اس کے مطا بق علم سے مراد ایسی بات جاننا ہے جس کے ذریعے انسان اس چیز پر قادر ہو جا ئے کہ اس کے ارادے کی تکمیل کیسے ہوسکتی ہے اور وہ علم جو انسان کو یہ بتا تا ہے کہ کائنات پر اس کے ارادے کا تسلط کیسے ممکن ہے، اسے ’سائنس ‘ کہتے ہیں ۔ لہٰذا ترقی کا اصل معنی ہے علم کو سائنس کے ہم معنی قرار دینا، یعنی ترقی سے مراد ان معلومات میں اضافہ ہے جو انسانی ارادے کی تکمیل کو ممکن بناتی ہوں ۔ گویا مغربی تہذیب میں ’ارادے و خواہشات کی تکمیل ‘ ہی معلومات کے مجموعے اور عالم (knower)کے درمیان تعلق کی بنیاد ٹھہر ا۔ یہی وجہ ہے کہ مغربی تہذیب میں علم وہ چیز جاننا نہیں ہے کہ جس سے انسان اپنے رب کی رضا جان لے، یعنی علم یہ نہیں کہ مجھے وضو یا غسل وغیرہ کرنے کا طریقہ اور مسائل معلوم ہو جائیں بلکہ علم تو یہ ہے کہ میں یہ جان لوں کہ پنکھا کیسے چلتا ہے، بجلی کیسے دوڑتی ہے، جہاز کیسے اڑتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ گویا اب علم رضا ے الٰہی کے حصول کا طریقہ جان لینا نہیں، بلکہ تسخیر کا ئنا ت یا با الفاظ دیگر انسانی ارادے کے کائناتی قوتوں پر تسلط قائم کرنے کا طریقہ جان لینے کے ہم معنی بن گیا ۔ دوسرے لفظوں میں یہاں علم اللہ تعالیٰ کی رضا نہیں بلکہ نفس انسانی کی رضا اور اس کی تکمیل کا سامان فراہم کرنے والی معلومات کا نام پڑ گیا۔ تصور علم کی یہ تبدیلی انسانی تاریخ میں اپنی نوعیت کی پہلی تبدیلی تھی جس نے انسان کی کامیابی کو کسی خدا کی اطا عت (obedience) کے ساتھ نہیں بلکہ لا متناہی خواہشات انسانی کی تکمیل و ارادہ انسانی کے تسلط (dominance) کے ساتھ مشروط کر دیا۔ سائنسی علم کا یہ مقصد اور اس کے پھیلاؤ کے لیے درکار ضروری اسباب کا نقشہ سائنس کے موجدین اور فلاسفہ نے بڑے وا شگاف الفاظ میں بیان کیا تھا۔ مثلاً گلیلیو کا مشہور مقولہ ہے: Bible shows us the way to heavens, but it does not show the way heavens go یعنی ’ بائبل ہمیں جنت میں جا نے کا راستہ تو بتاتی ہے، مگر یہ نہیں بتاتی کہ یہ کائنات کیسے چلتی ہے‘۔ مشہور تاریخ دان H.G. Wellsرا جر بیکن جسے جدید سائنس کا بانی سمجھا جاتا ہے، کے خیا لات کو کچھ اس طرح خراج تحسین پیش کرتا ہے:
’’ بیکن کی کتابیں جہالت کے خلاف بغاوت تھیں۔ اس نے اپنے دور کے لوگوں کو بتایا کہ وہ جہالت میں ڈوبے ہوئے ہیں، اوریہ ایک ایسی بات تھی جسے اس دور میں کہنے کے لیے بہت ہمت درکار تھی۔ قرون وسطی کے لوگ اپنے دور کی ذہانت اورایمانیات کے سچ ہونے کے بارے میں جذباتی حد تک قائل تھے اور ان کے خلاف ہر گز کوئی تنقید بر داشت نہ کرتے۔ راجر بیکن کی کتابیں ان گھٹا ٹوپ اندھیروں میں روشنی کی کرن تھیں۔ وہ کہتا تھا کہ ’ غیر عقلی ایمانیات اور مسلمہ مقتدرہ (Authority) کی پیروی کرنا چھوڑ دو‘۔ دنیا پر غور کرو، (حصول علم کے لیے) تجربہ تجربہ اور تجربہ (پر زور ) ہی اس کا مقصد تھا۔ اس نے جہالت کے چار اسباب بیان کیے: مسلمہ مقتدرہ کا احترام، اسلاف کے طور طریقوں پر عمل ، ریت و رواج کی پیروی ، اور ہمارے فخریہ مگر نہ سمجھ آنے والے دکھاوے۔ اگر ہم ان چیزوں سے جان چھڑالیں تو پھر سائنسی ایجادات اور مکیینیکل قوت سے بھر پور ایک نئی دنیا انسانیت کو دکھائی دے گی۔ ۔۔(میں تمہیں یقین دلاتا ہوں کہ) بحری سفروں کے لیے بغیر ملا حوں کی ایسی مشینیں بنانا ممکن ہے جسے صرف ایک آدمی اس کشتی کی رفتار سے کئی گنا تیز چلا سکتا ہو گا جسے کئی ملا ح مل کر چلاتے ہیں۔ اسی طرح بغیر ڈھور ڈنگر سے چلنے والی ایسی سواریاں بنانا بھی ممکن ہے جو پرانے دور کی تیز ترین سواریوں سے تیز چلتی ہوں گی۔ اور ہوا میں اڑنے والی ایسی مشینیں بنانا بھی ممکن ہے جس میں انسان بیٹھ سکتا ہو اور وہ مشین بالکل پرندوں کی طرح پر ہلاکر چلتی ہو‘‘ ۔
بیکن نے یہ تمام تفصیلات اپنی کتاب The New Atlantis میں بیان کی ہیں جس میں اس نے ایک ایسے فرضی جزیرے کی تصویر کشی کی ہے جہاں سائنسی تحقیقات کرنے والا ایک بہت بڑا ادارہ قائم کردیا گیا ہے۔ جہاں کا حاکم آنے جانے والے لوگوں کو اس جگہ کی سیر کرا تا ہے اور ان سے کہتا ہے: ’’ ہمارے اس ادارے کا مقصد علل و معلول (cause and effect) و حرکت کائنات کے قوا نین اور انسانی ارادے کی حدود کی توسیع کرنے کے طریقے کا علم حا صل کرنا ہے تاکہ ہر چیز کرنا ممکن ہو سکے‘‘۔ ( A Short History of the World, by H.G. Wells, p. 200-01، بحوالہ مریم جمیلہ صا حبہ کی معرکہ آرا کتا ب Modern Technology and the Dehumanization of Man)۔ اس تصور علم میں فطرت ان معنوں میں انسا ن کی حریف ٹھہری کہ یہ انسانی ارادے کی تکمیل پر حد بندی کرتی ہے اور اسے تسخیر کرکے انسا نی ارادے و خوا ہشات کی تکمیل کے لیے استعمال کرنا ضروری ٹھہرا۔ آج بھی مو جودہ سائنسی علمیت کا یہ جنون ہے کہ انسانی عقل کو استعمال کر کے فطرت کے تمام رازوں سے پردہ اٹھا نا نیز انسانی ارادے کو خود اس کے اپنے سوا ہر بالا تر قوت سے آزاد کرنا عین ممکن ہے ۔ سائنس دانوں کا خیا ل ہے کہ جینیٹکس (Genetics) کی فیلڈ میں تحقیقات کرکے انسانی خون میں ایسی تبدیلیاں لانا ممکن ہے جس کے بعد اس کے اندر پائے جا نے والے غضب اور حسد جیسے جذبات کو ختم کرکے دنیا کو جنگوں سے نجات دلائی جا سکے گی، اسی طرح سائنس دانوں کو امید ہے کہ موت پر قابو پانا ممکن ہے ، اور نجا نے کیا کچھ اور۔ سائنس کے اس اصل جنون کا اظہار دور جدید کی انگریزی زبان میں بننے والی سائنس فکشن فلموں میں سب سے واضح انداز سے نظر آتا ہے جن کے جملوں ، الفاظ اور مرکزی خیالات میں نت نئے انداز کے ساتھ انسان کی خود اپنا خدا بننے کی خوا ہش جلوہ گر ہوتی ہے۔
مسلمانوں میں سائنس کیوں عروج نہ پا سکی ؟
تصور علم کی اس یکسر تبدیلی کو کلیتاً نظر انداز کرنے کے نتیجے میں اکثر مسلم جدیدیت پسند مفکرین دو غلط فہمیوں کا شکار ہو گئے۔ ایک طرف تو وہ قرآن و سنت کے علم کو کوئی خاص اہمیت نہیں دیتے بلکہ ان کے نزدیک اصل علم سائنس و ٹیکنالوجی ہی کا علم ہے ، اور دوسری طرف وہ سائنس کو اسلامی تاریخ میں تلا ش کرنے اور مسلمانوں کو سائنس کا موجد ثابت کرنے کی نا کام کوششوں میں اپنی توا نائیاں صرف کرتے رہتے ہیں ۔ آخر اس کی کیا وجہ ہے کہ تقریباً پچھلی ایک صدی کی بھر پور تحقیقات کے بعد بھی جدیدیت پسند حضرات اسلام کی ابتدائی ایک ہزار سا لہ تاریخ میں پچا س سے زیادہ مسلم سائنس دونوں کے نام تلاش نہ کرسکے جبکہ اس کے مقابلے میں جدیدیت کی صرف تین سو سالہ تاریخ سے ہزاروں نہیں بلکہ لا کھوں سائنس دانوں کی فہرست مرتب کی جا سکتی ہے؟ اسی بات کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ مسلمانوں کی تاریخ سے اگر ان لوگوں کے نا موں کی فہرست تیار کی جائے جنہوں نے قرآن و علوم قرآن ، حدیث و علوم حدیث ، فقہ واصول فقہ وغیرہ پر علمی تحقیقا ت پیش کیں تو بلا مبالغہ لاکھوں افراد کے ناموں کی فہرست تیار ہو جا ئے گی، جبکہ اگر اسی معیار پر جدیدت کی تاریخ میں عیسائی علمیت پر کام کرنے والے افراد کے نام تلاش کیے جائیں تو انہیں انگلیوں پر گنا جا سکتا ہے۔ کیا اس سے ثا بت نہیں ہو تا کہ اصل اسلامی علمیت کیا ہے؟ نیز سائنسی تحقیقا ت وغیرہ اصل علمیت (main stream discourse) سے دور کی چیز یں تھیں۔ اگر چند افراد اپنے شوق کی تسکین کی خا طر ان تحقیقات کے پیچھے پڑتے بھی تھے تو اس کے ذریعے انہیں معا شرے میں کوئی اونچا مقام و مرتبہ حاصل نہ ہوتا بلکہ ’امام‘ اور ’علامہ‘ جیسے با وقار الفاظ ہمیشہ اسلامی علوم کے ما ہرین ہی کا خا صہ ہوتے تھے ۔ اس ضمن میں ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ وہ افراد جنہیں مسلمان سائنس دانوں کی حیثیت سے پیش کیا جا تا ہے ان میں سے اکثر و بیشتر کی مسلمانیت ہی مشکوک رہی ہے۔ مثلاً کندی اور فا رابی کا نام بڑے فخر سے بیان کیا جا تا ہے، لیکن کون نہیں جا نتا کہ ان کے افکار کس قدر گمراہ کن تھے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ تمام سائنسی قسم کے مسلمان معتزلی یلغار کے بعد کی پیداوار ہیں، اور ان میں سے اکثر و بیشتر کا تو تعلق ہی معتزلی گروہ سے تھا۔ ایسے افراد کو اسلامی تاریخ کا ہیرو ثا بت کرنے کا مطلب اپنی اصل علمیت کو غیر معتبر ثا بت کرنے کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے ؟
سائنسی علمیت، ترقی، تسخیر کائنات اور تصرف فی الارض جیسے تصورات اسلامی علمیت کے لیے کس قدر اجنبی ہیں، ان کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ فقہاے کرام نے جہاں اسلامی زندگی اور معاشرت و ریاست کے چھوٹے سے چھوٹے مسئلے کی وضاحت کے لیے کتب فقہ میں مستقل ابواب اور فصلیں قائم کی ہیں، وہاں ترقی اور تسخیر کائنات جیسے عنوانات کے تحت ایک فصل بھی نہیں ملتی، یعنی کسی فقیہ نے ایسا کوئی باب تو درکنار فصل بھی مرتب نہ کی جس میں ترقی یا تسخیر کائنات یا سائنسی تحقیقات کی شرعی حیثیت پر بحث کی گئی ہو۔ ایسے ہی کسی محدث نے بھی کتب احادیث میں ان موضوعات کے تحت احادیث جمع نہ کیں۔ اگر تسخیر کائنات، ترقی، معیار زندگی، آزادی، مساوات جیسے تصورات واقعی اسلامی علمیت کے ’اہم و مقصود‘ موضوعات ہوتے تو فقہا یقیناًان عنوانات کے تحت شرعی مسائل بیان کرنے کی خاطر ابواب اور فصلیں لکھتے، محدثین چن چن کر ایسی تمام احادیث جمع کرڈالتے جو ترقی اور دنیا سے زیادہ سے زیادہ متمتع ہونے کے جذبات ابھارنے والی ہوتیں۔ اس کے بر خلاف ہم تو یہ دیکھتے ہیں کہ محدثین کرام کتب احادیث میں کتاب الرقاق اور کتاب الزہد جیسے عنوانات قائم کرکے وہ احادیث بیان کرتے ہیں جو تسخیر کائنات اور تصرف فی الارض کی خواہشات کم کرنے کا سبق دیتی ہیں۔ در اصل جدیدیت پسند حضرات یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ہر علمیت کا میابی کے ایک مخصوص ما بعد الطبعیاتی تصور پر قائم ہوتی ہے اور ہر علمیت کا بنیادی مقصد افراد کو کامیابی کے ایک مخصوص تصور اور اس کے حصول کی جدوجہد میں منہمک ہونے کو بطور مقصد حیات قبول کرنے پر آمادہ کرنا ہوتا ہے۔ پس اگر دو مختلف داہروں سے نکلنے والی علمیتوں کے مقاصد مختلف ہوں گے تو یہ نا ممکن ہے کہ وہ دونوں ایک ساتھ پروان چڑھ سکیں۔ سائنس کو اسلامی علمیت میں تلاش کرنے کا مطلب یہ مان لینا ہے کہ اسلامی علمیت کا ہدف بھی انسانی خواہشات کی تکمیل کے لیے تسخیر کائنات کرنا ہے۔
ایسا نہیں ہے کہ صرف مذہبی معا شروں میں ہی سائنسی علمیت نہیں پھیل سکتی، بلکہ سائنسی معا شروں میں بھی مذہبی علمیت برگ و بار نہیں لا سکتی (ذرا بیکن کے اوپر دیے گئے خیالات ایک بار پھر دہرا لیں )۔ یہی وجہ ہے کہ سرمایہ دارانہ علم کے اس جا ہلانہ تصور کو عوام الناس میں رائج کرنے کے لیے ضروری تھا کہ اس وقت کے معاشروں میں پائے جانے والے مقبول عام تصور علم کو غیر معتبر اور لا یعنی ثا بت کیا جائے۔ قرون وسطی میں موجود علمیت کوئی اور نہیں بلکہ عیسائی علمیت تھی جسے ہر طرح کے جھوٹے پروپیگنڈوں اور نام نہاد عقل پرستی کے دعووں کی آڑ میں حقارت سے دیکھا جا نے لگا۔ اس ضمن میں اہم بات یہ کہ عوام الناس کا عیسائی علمیت سے ایمان کمزور کرنے کے لیے سب سے ضروری یہ تھا کہ اس علمیت کے حا مل فرد یعنی پوپ کی شخصیت کو متنازع اور مشکوک بنا یا جائے۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ عوام الناس کا رابطہ کیتھو لک چرچ کے ساتھ ٹوٹ جائے جہاں سے انہیں دنیا کے دارا لا متحان ہونے اور آخرت کی تیاری کا سبق ملتا تھا تاکہ جدیدیت کے حامی ان کے قلوب میں دنیا داری کے بیج بو سکیں۔ جدیدیت دنیا کے جس ملک میں بھی گئی اس نے مذہبی پیشواؤں کے عوامی اثر و رسوخ کم کرنے کے تمام حربے استعمال کیے۔ سرمایہ داری اس وقت تک معا شروں کو مسخر نہیں کر سکتی جب تک افراد زندگی کے ہر معا ملے کو معاد کے بجائے معاش کے نقطہ نگا ہ سے نہ دیکھنے لگیں، اور نقطہ نظر کی یہ تبدیلی مذہبی پیشواؤں اور اداروں سے لا تعلقی پیدا کیے بغیر نا ممکن ہے۔
روایتی اداروں کی اہمیت
یہ نہا یت اہم بات ہے جس کی کچھ مزید تفصیل ہم یہاں بیا ن کرنا چا ہیں گے۔ خاندان ، مسجد، مدرسہ اور خا نقاہ اسلامی معاشروں کے ایسے فطری ادارے ہیں جو جدیدیت کے پھیلاؤ کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ لیکن جدیدیت کے پھیلاؤ نے مسلمانوں کا خا نقاہ سے تعلق تقریباً ختم کر دیا ہے جو یقیناًخطرے کی علامت ہے کیونکہ خا نقاہ ہی وہ ادارہ تھا جہاں لوگ بچپن ہی سے اپنے بچوں کے تزکیہ نفس کا سامان فراہم کرنے کے لیے انہیں کسی مرد صا لح کے ہاتھ بیعت کراکے ان کی صحبت اختیار کرنے کی ترغیب دلاتے، اور اس سلسلے کے ختم ہو جا نے کے بعد اب مسلمانوں میں تز کیہ نفس کا کوئی ادارہ موجود نہیں۔ کسی تہذیب کا زوال درحقیقت ان اداروں کی ٹوٹ پھوٹ کے عمل سے عیاں ہوتا ہے جو ایک تہذیب کے مقا صد کے حصول کی خاطر افراد کے تعلقات کے نتیجے میں ابھرتے ہیں۔ افراد جب کسی شے کے حصول کو اپنا مقصد بنا تے ہیں تو اس کے حصول کے لیے کوئی نہ کوئی انتظامی شکل ضرور اختیار کرتے ہیں اور بہت سی انتظامی شکلوں میں سے وہی شکل زندہ رہ جاتی ہے جو زیادہ مؤثر اور قابل عمل ہوتی ہے۔ کوئی مخصوص انتظامی ہیئت ان معنوں میں تو ضروری نہیں ہوتی کہ وہ بذات خود اصلاً مطلوب تھی ، مگر ان معنوں میں یقیناضروری ہوتی ہے کہ اس کی بقا سے افراد کے معا شرتی مقاصد قائم رہتے ہیں اور اس کا انہدام ان تمام مقاصد کے انہدام کا باعث بھی بنتا ہے جو اس کے ساتھ مربوط ہوتے ہیں۔ اس کی وضاحت ایک آسان مثال سے کی جا سکتی ہے۔ ہمارے گاؤ ں دیہات میں ترپال، چوپال اور بیٹھک لوگوں کی روز مرہ زندگی کا لازمی حصہ ہوا کرتے تھے (کہیں کہیں اب بھی یہ نشستیں مو جود ہیں)۔ اب دیکھیے، اسلام چا ہتا ہے کہ اس کے ماننے والوں کے تعلقات سے جو معا شرہ وجود میں آئے وہاں پڑوسیوں کی خوب خبر گیری ہونی چاہیے۔ اب سوال یہ ہے کہ یہ خیال کیسے رکھا جا ئے؟ اس کا انتظام کیا ہو؟ کیا ہر شخص روز انہ رات سونے سے پہلے اپنے پڑوسی کا دروازہ بجا کر اس سے پوچھے کہ بھا ئی کیسے ہو؟ ظا ہر ہے ایسا تو نہیں ہو سکتا، مگر پھر کیا ہو ۔ اب ذرا غور کریں کہ یہ بیٹھک کیا ہے؟ عام نشست کی ایسی جگہ جہاں لوگ شام کے وقت تھوڑی دیر دل لگی اور فرحت طبع کے لیے اکھٹے بیٹھتے جس کے ذریعے انہیں پورے گاؤں اور اس کے اطراف کے لوگوں کے حالات معلوم ہوتے ، مثلاً گاؤں میں کون بیمار ہے، کس کے گھر شادی ہے، کس کے گھر فوتگی ہوئی وغیرہ وغیرہ۔ اگر کوئی شخص دو دن تک بیٹھک نہ آتا تو لوگ اس کے گھر خیریت معلوم کرنے جاتے۔ یوں سمجھیے کہ ایک طرف تو یہ گاؤں کے حالات حاضرہ کو افراد تک پہنچا نے کا ایک مکمل طریقہ تھا تو دوسری طرف ایک ساتھ مل جل کر رہنے اور ایک دوسرے کا خیال کرنے کی اقدار کے فروغ کا ذریعہ تھا۔ پڑوسیوں کی خبر گیری کرنے کا بھلا اس سے بہتر انتظام اور کیا ہو سکتا تھا؟ لیکن پھر ٹی وی آگیا اور ہرشخص فرحت طبع کے لیے اب بیٹھک کے بجا ئے اپنے اپنے گھر بیٹھ کر ٹی وی دیکھنے کا عا دی ہو نے لگا۔ نشستیں ختم ہونے لگیں، اور ان نشستوں کے ٹوٹنے سے وہ سارا ما حول بھی ہما رے معا شروں سے رخصت ہو گیا جو ان کا مر ہون منت تھا۔ کہا جا نے لگا کہ ٹی وی سے ہمیں خبریں ملتی ہیں، مگر کس کی خبریں؟ وہ خبریں جو ہمارے اسلامی معا شرے کی تشکیل کے لیے کسی کام کی نہیں۔ ٹی وی لوگوں کو یہ تو بتاتا ہے کہ بھا رت میں کس فلمی ہیرو کی شا دی کس ہیروئن سے ہوئی، امریکہ میں لوگ روزانہ کتنے کتے خریدتے ہیں، مگر انہیں یہ نہیں بتا سکتا کہ تمہارے پڑوسی کس حال میں ہیں۔ بیچارہ ٹی وی کیا کرے اس کی مجبوری یہ ہے کہ وہ وہی بات کہے گا جہاں سے اسے پیسے ملنے کی امید ہو کیو نکہ اس کا تو سارا دھندہ ہی اشتہاری کمپنیوں کے سرمائے کا فروغ ہے۔ ہم یہاں ٹی وی کے نقصانات کی بات نہیں کر رہے بلکہ معا شرتی مقا صد کے حصول کے ضمن میں اداروں کی بقا کی اہمیت و افادیت کی بات کر رہے ہیں کیو نکہ یہ ادارے ہی ہیں جو افراد کا تعلق کسی خا ص مقصد سے منسلک اور قائم رکھنے کا با عث بنتے ہیں۔ پس سرمایہ دارانہ علمیت کو شکست دینے کے لیے ضروری ہے کہ ایک طرف تو ہم اپنی مساجد اور مدا رس کے دا ئرہ کار کو بڑھائیں اور دو سری طرف خانقاہوں کو پھر سے زندہ کریں۔
۲.۳ : سرمایہ دارانہ علم کی خصوصیات ( طریقہ حصول علم کے اعتبار سے)
سائنس یا سر مایہ دارانہ طریقہ حصول علم میں حتمی بات اور قانون معلوم کرنے کا کوئی ذریعہ نہیں ہوتا۔ (اس کی تفصیل کے لیے دیکھیے سائنس پر ہمارے مضا مین ساحل اگست اور نومبر ۲۰۰۶ میں) سائنسی علمیت حقیقت کے ارتقائی تصور پر ایمان رکھتی ہے جسے سمجھا نے کے لیے ہم ارتقائی تصور علم کی چند خصو صیات بیان کرتے ہیں:
(الف) غیر حتمیت (uncertainty):
ارتقائی علمیت کا اول اصول یہ ہے کہ حتمی سچ جاننا نا ممکن ہے ، البتہ سائنسی طریقہ علم استعمال کرکے ہم یہ امید کر سکتے ہیں کہ انسانیت ایک حتمی سچ کی طرف بڑھ رہی ہے ۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ انسانی کلیات کی مدد سے کسی حتمی سچ کا علم حاصل کرپانا ہی سرے سے ناممکن ہے۔
(ب) تردیدیت :
اس تصور علم میں وہی دعوی اور قضیہ علم کہلانے کا مستحق ہے جسے تجربے میں لا کر رد کرنا ممکن ہو ۔ سائنس میں علم کو غیر علم سے ممیز کرنے کا معیار تردیدیت (falsification) ہے یعنی اگر کسی بات کو تجربے کے ذریعے غلط ثا بت کرنا نا ممکن ہو تو وہ علم کی تعریف پر پوری نہیں اترے گی ۔ یہی وجہ ہے کہ مغربی تہذیب میں زندگی بعد الموت وغیرہ جیسے حقائق علم نہیں سمجھے جا تے کیونکہ یہ سائنس کی کسوٹی پر پورے نہیں اترتے۔ اس بات کو دوسرے انداز سے یوں سمجھئے کہ ارتقائی علم وہی ہو سکتا ہے جسے غلط ثا بت کرنا ممکن ہو کیونکہ جو بات غلط ثا بت نہیں کی جا سکتی، اس میں ارتقا کہا ں سے آئے گا ؟
البتہ یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ سرمایہ داری اور سائنس کی اپنی ایمانیات کبھی سائنس کے اس معیار پر نہیں جا نچی جا تیں بلکہ انہیں ما ننا تو ایما نیا ت کا حصہ ہے اور جو انہیں نہیں ما نتا وہ ہیو من کہلانے کا مستحق نہیں۔ مثلاً سا ئنس کا یہ مفروضہ کہ علم کا منبع انسان کی ذات ہے (یعنی علم انسان کی ذات سے نکلتا ہے) کسی بھی تجربے ثا بت نہیں کیا جا سکتا (یعنی یہ تردیدیت کے معیار پر پورا نہیں اترتا) لیکن پھر بھی سائنس اسے مفروضے کے طور ما ن کر آگے بڑھتی ہے۔ گو کہ سائنسی علمیت میں حوادثات عالم کی تشریح اور حقیقت کے لیے کسی ایسی مقصدیت کو تلاش کرنا جس کی نسبت ارادہ انسانی سے باہر مثلاً خدا کی طرف ہو، سائنس کے نزدیک ایک لایعنی بات ہے لیکن سائنس یہ نہیں بتا سکتی کہ خود انسانی ذات کی حقیقت کیا ہے بلکہ اسے آزاد اور خود مختا ر فرض کرتی ہے۔ ایسے ہی سائنس کا یہ مفروضہ بھی محض ایمان ہے کہ یہ کائنات کسی خارجی کنٹرول کے بغیر چلنے والا ایک ایسا مکمل قائم بالذات نظام ہے جس کے اندر تبدیلیاں اس کے اندرونی نظام کے تحت آتی ہیں، نیز اس کی معنویت سمجھنے کے لیے کسی خدا کی ضرورت نہیں بلکہ اس مشین کو علت و معلول کے چند اصولوں کے ما تحت سمجھنا ممکن ہے ( البتہ سائنس کی دنیا میں ہونے والی تازہ ترین Quantum Mechanics کی تحقیقات نے سائنس کے اس ایمان کی جڑیں ہلا کر کے رکھ دی ہیں)۔ گویا اگر انسان علت و معلول کے قانون کے ماتحت رونما ہونے والے سلسلے کو دریافت کرلے تو نہ صرف یہ کہ وہ اشیا کی حقیقت سمجھ سکتا ہے بلکہ اسے قابو میں لاکر ان پر اپنا تسلط قائم کرسکتا ہے۔ سائنس کے نزدیک انسان کا اپنی آزادی کی تکمیل کے لیے کائناتی تسلط قائم کرنا ہی اصل حقیقت اور مقصد انسانی ہے۔
(ج) شک نہ کہ ایمان :
سرمایہ دارانہ تصور علم کے مطا بق کسی بات کو حتمی اور آخری سمجھ کر اس پر صمیم قلب سے ایمان لے آنا اور دوسروں کو اس کی دعوت و تبلیغ کرنا غیر علمی طریقہ کہلاتا ہے ۔ ہمیشہ اور ہر بات میں شک کرنا اور کسی چیز کو رد کرنے کی کوشش کرنا ہی اصل علمیت کہلا تی ہے ۔ جو شخص مذہبی حقائق پر ایمان لائے اسپر انتہا پسند ، بنیاد پرست اور دہشت گرد کے لیبل چسپاں کر دیے جا تے ہیں۔
(د) ترقی (بہتری):
ہر نئے دور کا سچ پچھلے دور کے سچ سے بہتر گردانا جا تا ہے کیونکہ اس میں پچھلے دور کے تصور حقیقت کے اچھے پہلو کو شامل کرلیا جاتا ہے اور کمزور پہلووں کو چھوڑ دیا جاتا ہے ۔ لہٰذا ہر آنے والا دور پچھلے دور سے بہتر ٹھہرتا ہے۔ مغربی دنیا میں سپنسر، ہیگل اور مارکس وغیرہ نے انسانی علم کے رفتہ رفتہ ایک خا ص منزل کی طرف بڑھنے کے تصور کی بنا پر تا ریخ کی اپنی اپنی تعبیرات پیش کی ہیں جن سب کا حا صل یہ ہے کہ بنی نو ع انسان بحیثیت مجموعی لا شعوری طور پر ایک ایسے عظیم الشان مقصد کی طرف رواں دواں ہے جہا ں پہنچنا اس کا مقدر ہے، لہٰذا ہر آنے والا دور پہلے سے بہتر ہے ۔ ان تمام تعبیرات کی حیثیت چند قصوں اور کہا نیوں سے زیادہ اور کچھ نہیں جو ان لوگوں نے اپنے اپنے کمروں میں بیٹھ کر گھڑ ی تھیں۔
جدیدیت پسند مسلمانوں کو مولوی کی یہ بات ایک آنکھ نہیں بھاتی کہ ’’ ہم مسلمانوں کا سب سے اچھا دور تو دور نبوی ، دور صحا بہؓ اور سلف صا لحین کا دور تھا جو گزر چکا، لہٰذا اب آنے والا ہر دور پہلے سے بہتر نہیں بلکہ برا ہو گا جیسا کہ احا دیث مبارکہ میں بیان کیا گیا ہے‘‘۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ مولوی ہمیں پیچھے کی طرف لے جا نا چا ہتا ہے، اور اس میں شک بھی کیا ہے کہ مولوی تو یہی چا ہتا ہے کہ دنیا کسی طرح پھر ویسی ہی ہو جائے جیسی آقاے دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے اصحا ب کے دور میں تھی۔ اسی جرم میں مولوی پر دقیانوسی اور تنگ نظر ہونے کی پھپتی کسی جاتی ہے کہ یہ ہمیشہ یہ طے کرنے کے لیے کہ ’’ہمیں آگے کیا کرنا چا ہیے‘‘۔ مستقبل کے بجائے ما ضی کی طرف دیکھنے کو کہتا ہے ، یہ آج کے عمل کو ما ضی کے پیما نوں پر کسنے کی کو شش کر تا ہے، یہ ہدایت حا صل کرنے کے لیے آگے بڑھنے کے بجائے پیچھے کی طرف پلٹنا سکھا تا ہے ، یہ تو ترقی کا دشمن ہے اور یہ دنیا کو پھر پتھروں کے دور میں وا پس لے جا نا چاہتا ہے۔
(ہ) ایک سے زیادہ حق کا امکان:
اس نظریہ علم میں چونکہ کسی بھی چیز کی با بت مسلمہ اور حتمی علم موجود نہیں ہوتا ، لہٰذا ایک ہی وقت میں ایک سے زیادہ حق نیز دو مختلف افراد کے لیے دو مختلف حق ہو سکتے ہیں۔ سائنس کی دنیا میں بیک وقت ایک ہی شے کے بارے میں دو مختلف نظریات (theories) کا ہونا معمول کی بات ہے۔
(و) تحقیق برائے تحقیق کا نہج :
چنانچہ تحقیق برائے تحقیق کا نام ہی علمی کاوش پڑ گیا، چاہے وہ تحقیق بندروں اور کتوں وغیرہ کے حالات زندگی جمع کرنے کا کام ہی کیوں نہ ہو۔ ہر لغو سے لغو بات جس میں انسانی خواہش کوئی معنی دیکھتی ہو لائق تحقیق ٹھیرتی ہے کیونکہ کسی شے کے معنی اللہ تعالیٰ اور اس کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال کی روشنی میں نہیں بلکہ انسانی خواہشات اور ارادے کی تکمیل کے پیمانے پر تول کر متعین کیے جاتے ہیں۔
(ذ) ارتقائی تعبیرات کی تلا ش :
دور حا ضر میں موجود ہر معاشرتی و انسانی ادارے و عمل کی وحی سے علی الرغم ایک ارتقائی تعبیر پیش کرنے کی روش عام ہو جا تی ہے اور اس فرضی قیاس آرائی کو ہی علمی کا رنامہ سمجھا جا نے لگتا ہے۔ اس ضمن میں ایک بہت عمدہ مثال یاد آئی۔ ایک مرتبہ ہمارے ایک بزرگ ساتھی (اللہ تعا لی انہیں جنت نصیب فرمائے) نے ایک محفل میں شادی کے مو ضوع پر ہونے والی ہوئی گفتگو میں تمام شرکاے مجلس سے سوال کیا: ’کیا آپ لوگ جا نتے ہیں کہ شادی کا ادارہ کیسے قائم ہوا؟‘ سب نے پو چھا کہ جناب آپ بتا ئیے ۔ تو انہوں نے کہا کہ اولاً تمام انسان بھی جانوروں کی طرح جنسی تعلقات استوار کرتے تھے، یعنی جس مرد و عورت کا جس سے دل چا ہا خوا ہش پوری کرلی۔ ایک عرصے تک معا ملہ یو نہی چلتا رہا، لیکن پھر آہستہ آہستہ انسا نوں میں جذبہ رقا بت نے جو ش مارا، اور لوگوں کو یہ بات بری محسوس ہونے لگی کہ کل تک جو عورت میرے ساتھ تھی، آج کسی اور مرد کے ساتھ کیوں ہے؟ اس جذبے کے زیر اثر انسانی معا شروں میں طا قت کے قانون کا راج شروع ہونے لگا یعنی جس نے آگے بڑھ کر پہلے کسی عور ت پر قبضہ جما لیا، پس وہ ہمیشہ کے لیے اس کی ہو گئی۔ پھر بچوں کی پیدائش کے بعد بیوی اور بچوں کی دیکھ بھال کے مسائل سامنے آنے لگے جنہیں حل کرنے کے لیے لوگوں نے کئی طرح کے قوانین بنانے شروع کر دیے۔ مثلاً یہ کہ بچوں کی ذمہ داری اسی پر ہو گی جس نے عورت پر قبضہ جما یاتھا وغیرہ وغیرہ۔ یوں انسانیت لمحہ بہ لمحہ آگے بڑہتی رہی یہا ں تک کہ لوگوں نے مرد و عورت کے جنسی تعلق کی بنیاد شادی کے ادارے کے ساتھ منسلک کردی۔ جب وہ بزرگ تمام کہانی سنا چکے تو میں نے پو چھا کہ یہ کہا نی آپ نے کہاں سے سنی؟ تو فرمانے لگے کہ فلاں سوشل سائنس کے جرنل میں فلاں محقق نے یہ مقا لہ لکھا ہے۔ میں نے کہا یہ بتا ئیں کہ اس پوری کہا نی میں انسانی معا شروں کی کردار سازی میں ایک لاکھ چو بیس ہزار سے زائد انبیاے کرام کا کردار کیا رہا؟ کیا انبیا نے لوگوں کو نہیں بتایا کہ انہیں کیسے زندہ رہنا چا ہیے؟ نیز کیا ان کی تعلیمات کا ان پر کوئی اثر نہیں ہو تاتھا؟ اس کہانی سے تو یہ تصور ابھرتا ہے کہ گویا اول تو انبیا نا م کی کوئی ہستی انسانی تا ریخ میں گزری ہی نہیں، اور اگر تھی بھی تو شاید وہ دنیا کی سیر وغیرہ کرنے کے لیے آتے تھے، نیز انسانوں اور معا شروں نے اپنی زندگیاں وحی الٰہی کی روشنی میں نہیں بلکہ اپنے حیوانی جذبا ت کے تحت گزاری تھیں۔ یہ کہانی تو ایسی ہی ہے کہ جیسے کوئی شخص حضور پر نور صلی اللہ علیہ وسلم کا نام لیے بغیر یہ کہے کہ مسلمانوں کے معاشروں میں پایا جا نے والا شادی کا تصور در حقیقت اسلام سے قبل عربوں کے معا شرے میں پائے جانے والی جنسی بے راہ روی کی ارتقائی شکل ہے۔ ظاہر بات ہے کہ یہ ایک مضحکہ خیز کہانی ہے، کیونکہ ہر شخص یہ جانتا ہے کہ یہ معا شرتی تبدیلی انسانی جذبات کے محرکات میں ارتقا کے طور پر نہیں بلکہ ایک نبی کی تعلیمات پر عمل کرنے کے نتیجے میں پیدا ہوئی۔ دوسری بات یہ کہ اگر شادی کے ادارے کا یہ سفر کوئی ارتقائی سفر تھا تو پھر مغرب میں یہ ادارہ ٹوٹ کیسے گیا؟ ارتقا کا تقاضا تو یہ تھا کہ وقت کے ساتھ ساتھ یہ ادارہ مضبوط سے مضبوط تر ہو تا چلا جاتا ۔ اصل بات یہ ہے کہ جب کوئی معاشرہ انبیاے کرام کی تعلیمات کو پس پشت ڈال کرزندگی گزارتا ہے تو وہاں زندگی کا اظہار صرف حیوانی سطح پر ہی ہو تا ہے جس کا نظارہ ہم مغربی دنیا کی غلیظ اور پلید معا شرت میں کر سکتے ہیں ۔
یہ محض ایک مثا ل تھی، ورنہ اس طرز کی اور بھی کئی فرضی کہا نیاں ہمارے ہاں مشہور ہیں، مثلاً یہ کہ سب سے پہلے انسانیت پر غاروں اور پتھروں کا دور گزرا کہ جب سب لوگ غاروں میں رہتے تھے، پتے اور جا نوروں کی کھالوں سے اپنے بدن ڈھا نپتے تھے، جنگلوں میں جنگلیوں کی طرز کی زندگی اختیار کیے ہو ئے تھے وغیرہ وغیرہ۔ ان تمام کہانیوں کا اصل مسئلہ یہی ہے کہ یہ سب کی سب انسانی معا شروں کی تشکیل میں وحی اور انبیاے کرام کے کردار کو نظر انداز کرنے کے لیے گھڑی گئی ہیں جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ مغرب میں وحی کو علم نہیں سمجھا جاتا ۔ کیا کوئی مسلمان اس بات کا تصور کر سکتا ہے کہ معا ذاللہ انبیاے کرام جنگلیوں کی ما نند زندگیاں گزارتے رہے ہوں گے؟
تبدیلی شرا ئع اور فلسفہ ارتقا کا انوکھا گٹھ جوڑ
یہاں اس بات کا ذکر فا ئدے سے خالی نہ ہوگا کہ مغرب کے اس مقبول عام ارتقائی تصور علم سے متاثر ہوکر ہمارے ہاں بھی انبیاے کرام کے حوالے سے ایک ارتقائی تعبیر اختیار کی گئی ہے جس کا حا صل یہ ہے کہ وقت اور حالات بدلنے کے ساتھ جوں جوں انسانیت آگے بڑھتی جا رہی تھی، اس کے مسائل بھی اسی لحا ظ سے تبدیل ہو رہے تھے اور اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی ان ضروریات کا لحا ظ کرتے ہوئے مختلف رسل کو مختلف شریعتیں دیں۔ دوسرے لفظوں میں شریعتوں کا اختلاف انسانی حا لات میں ارتقائی تبدیلی آنے کا مرہون منت تھا ۔ چونکہ تبدیلی شرائع کی اس فرضی تعبیر کا مسئلہ یہ تھا کہ اس میں ختم نبوت کسی طرح فٹ نہیں ہوتی کیو نکہ انسانیت کا یہ سفر تو تا قیامت چلتا رہے گا، تو اسے مکمل کرنے کے لیے ایک اضا فی مفروضہ یہ گھڑ لیا گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت انسان بحیثیت مجموعی اپنے عہد طفولیت سے نکل کر عہد شباب میں دا خل ہو چکا تھااور گویا اب وہ اس قابل ہو گیا تھا کہ اسے ایک آخری اور اصولی پیغام دے کر ہمیشہ کی نبوت کے سہارے سے آزاد کر دیا جا ئے کیونکہ باقی کا سفر وہ اپنی عقل کی روشنی میں طے کرنے کے قابل ہو گیا تھا۔ پہلی بات تو یہ کہ یہ تعبیر ایک فرضی کہانی ہے جس کے حق میں آج تک نصوص شرعیہ سے کوئی قطعی دلیل پیش نہیں کی گئی۔ محض قیاس آرائی ہی کو حتمی بات سمجھ کر پیش کر دیا گیا ہے۔ اس دعوے کے ثبوت کے لیے جن مثالوں کا سہارا لیا جا تا ہے، ان کا تصور ارتقا کے ساتھ سرے سے کوئی تعلق ہے ہی نہیں۔ مثلاً تبدیلی احکامات کی ایک مثال یہ دی جا تی ہے کہ شریعت محمدی میں دو بہنوں کوایک ساتھ نکاح میں رکھنا حرام قرار دیا گیا جبکہ اس سے پہلے یہ جائز تھا۔ لیکن ہم یہ سمجھنے سے قا صر ہیں کہ آخر اس تبدیلی کا انسانی تمدن و حالات کے ارتقا سے کیا تعلق ہے؟ اسی طرح امت محمدی کے لیے بہت سے ایسے جانوروں کا کھا نا حلال قرار دیا گیا ہے جو پہلے کی امتوں پر حرام تھے، لیکن اس تبدیلی کا بھی ارتقا کے ساتھ کیا لینا دینا؟ کیا وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انسان کے نظام ہاضمہ میں کوئی تبدیلی آ گئی تھی کہ پہلے کا انسان انہیں ہضم کرنے کی صلا حیت نہ رکھتا تھا اور اب کے انسان میں یہ صلا حیت پیدا ہو گئی ہے، یا یہ کہ پہلے یہ جا نور نا پید تھے اور اللہ تعا لیٰ نے ان کی نسل کشی ہو جانے کے خوف سے ان کے کھا نے کو حرام قرار دیا تھا؟ آخر حالات کے ارتقا کا ان کی حرمت سے کیا لینا دینا؟ دوسری بات یہ کہ اگر اس کہا نی کو مان بھی لیا جائے تو بھی یہ دعویٰ قابل نزاع ہے کہ انسانیت کا عہد شباب آج سے چودہ سو سال پہلے آگیا تھا کیونکہ مغربی مفکرین کا دعویٰ یہ ہے کہ نیا انسان تو پیدا ہی سترہویں اور اٹھا رویں صدی میں ہوا جبکہ اس سے پہلے کا انسان محض افسانوں اور کہانیوں پر یقین رکھتا تھا۔ تیسری بات یہ کہ تبدیلی کا یہ عنصر تو بدستور جاری و ساری ہے، مثلاً صنعتی انقلاب کے بعد کے انسان کے معا شرتی و معا شی مسائل پہلے سے بہت مختلف ہیں تو ارتقا کی اس تعبیر کا تقا ضا یہ ہوا کہ شریعت کے بہت سے احکامات اب منسوخ قرار دیے جا ئیں اور کچھ نئے احکامات کا اضافہ کر لیا جائے۔ یہ اسی ارتقائی تعبیر کا نتیجہ ہے کہ ہمارے مسلم جدیدیت پسند مفکرین اجتہاد کے نام پر نصوص شرعیہ کی تبدیلی کے امکانات کی بات کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ نیز اس دعوے سے تو جدیدیت پسند مفکرین کے اس خیال کو تقویت ملتی ہے کہ اسلام کی جو معتبر تعبیر اجماع امت کے نام پر پیش کی جاتی ہے، وہ اب قابل عمل نہیں رہی کیونکہ وہ پرانے زمانے کے حالات کا لحاظ کرکے اپنائی گئی تھی اور اب ہمیں ایک جدید تعبیر کرنی چا ہیے وغیر وغیرہ۔ پس جا ننا چا ہیے کہ تبدیلی شرائع کی یہ ارتقائی تعبیر در حقیقت ایک خطرناک تصور ہے جس سے شریعت اسلامیہ میں قطع برید کا دروازہ کھل جا تا ہے۔
۲.۴: سرمایہ دارانہ علم کی منطقی منزل
ایک نئی شخصیت کا جواز :
سر ما یہ دارانہ جا ہلی تصور علم نے اخلاق رزیلہ سے متصف ایک نئی قسم کی شخصیت کے اظہار کا جواز فراہم کیا جس کے نتیجے میں ایک نئی انفرادیت معا شروں میں مقبول ہوئی۔ سر مایہ دارانہ تصور علم سے پہلے صرف ایسی شخصیت ہی معا شروں میں عزت کی نگا ہ سے دیکھی جاتی تھی جن کی زندگی انبیاے کرام کی تعلیمات اور اسوۂ حسنہ کا منہ بولتا ثبوت ہوتی۔ لیکن اس تصور علم نے ایک ایسی شخصیت کے علمی جواز کی بنیادیں فراہم کیں جو انبیاے کرام کی تعلیمات سے کوسوں دور اور اخلاق رزیلہ سے متصف ہونے کے با وجود بھی معا شرے میں ایک با عزت علمی مقام پر فائز ہوسکتی تھی۔ اس ضمن میں آئن سٹائن کی مثال نہا یت وا ضح ہے جسے سائنس کی دنیا میں ایک امام کی سی حیثیت حاصل ہے لیکن اس کی زندگی زنا و بدکاری کی غلاظت سے لت پت تھی (آئن سٹائن کے نجی معاملات زندگی ان خطوط سے واضح ہوتے ہیں جو اس کی پوتی نے چھاپے ہیں)۔ ایسے ہی با وجود اس کے کہ کانٹ اغلام باز تھا، اسے مغربی فلسفے میں بلند ترین مقام حا صل ہے۔ اگر آپ مغربی علم کے کسی دلدادہ شخص کو یہ مثال دیں تو وہ کہے گا کہ اس کے اخلاق کو مت دیکھو بلکہ اہم چیز اس کا سائنسی کارنا مہ ہے۔ گویا مذہبی اخلاقیات اب علم کے معنوں میں شا مل ہی نہیں رہیں۔ سرمایہ دارانہ تصور علم میں ایسی معلومات کو علم سمجھا جا تا ہے جو سرمایہ دارانہ اخلاقیات یعنی حرص و حسد کی غماز ی کرتی ہوں (۱س کی تفصیل آگے آرہی ہے)۔ آج علم کا تصور اس حد تک گر چکا ہے کہ اگر ایک ڈاکٹر ، وکیل، ایم بی اے وغیرہ خاتون ننگے سر اور نیم برہنہ حالت میں ٹی وی پر بیٹھ کر انٹرویو دے رہی ہو تو اس کے علمی کارناموں کا تعارف اس شان سے کرایا جاتا ہے گویا وہ کتنی بڑی عالمہ ہے۔ اس کے مقابلے میں گاؤں میں رہنے والی خاتون جس کی حیا اسے نا محرم کے سامنے جانے سے روکتی ہو، اسے جاہل ، ان پڑھ اور گنوار کہا جاتا ہے۔ سرمایہ دارانہ تصور علم نے مادہ پرستا نہ سوچ اور دنیا داری کے رجحا نات کو تقویت بخشی اور رہی سہی عیسائی اخلاقیات کا جنازہ مارٹن لوتھراور کیلوین جیسے مفکرین کے خیالات سے برآمد ہونے والی پروٹسٹنٹ ازم نے نکال دیا۔ اس فرقے نے عیسائی عوام میں یہ خیالات عام کیے کہ بائبل کی تشریح ہر شخض خود کر سکتا ہے، انسان اور خدا کے درمیان تعلق فرد کا نجی معاملہ ہے جس کی صحت و عدم صحت پرکسی دوسرے فرد (مثلاً پوپ) کو حکم لگانے یا فتویٰ دینے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے ، چونکہ خدا اور بندے کا تعلق نجی اور اندرونی احساسات پر مبنی ہے، لہٰذا ہر شخص کو حق حاصل ہے کہ عبادت کرنے کا جو بھی طریقہ اختیار کرنا چاہے کرلے، دنیا کی کامیابی آخرت کی کا میابی کا پیش خیمہ ہے ، اصل عبادت چرچ جانا یا ذکر و ازکار کرنا نہیں بلکہ دنیا کے کام زیادہ انہماک سے کرنا ہے نیز فطرت کا مطا لعہ بھی اتنا ہی اہم ہے کہ جتنا بائبل کا۔ در حقیقت جدیدیت کی کامیابی کی ا صل وجہ مادہ پرست فلسفیوں کے افکار سے زیادہ وہ مذہبی عناصر تھے جنہوں نے اصلاح مذہب کے نام پر مذ ہبی تعلیمات کو مسخ کرکے جدیدیت کی مذہبی توجیہات بیان کیں ۔ یہی وجہ ہے کہ کارل مارکس اورمیکس ویبر جدیدیت کی کامیابی کواصلاح مذہب کی تحریک (Reformation) کا نتیجہ قرار دیتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ اگر اصلاح مذہب کی تحریک کا میاب نہ ہوتی تو جدیدیت یورپ میں شکست کھا جاتی کیونکہ مذہبی آزادی کی روش ہی وہ راستہ ہے جو آگے چل کر نفس پرستی اور دنیا کی محبت جیسے جذبات دلوں میں راسخ کرنے کا باعث بنتی ہے۔
مذہبی ایمانیات کا انکار :
ادراک حقیقت کے اس ارتقائی تصور کا دوسرا منطقی نتیجہ بالآخر پس جدیدیت (post-modernism) کی شکل میں ظاہر ہوا جس نے حق کے وجود ہی کا انکار کر ڈالا۔ جدیدیت نے ادراک حقیقت کے لیے سائنسی طریقے پر اعتماد کرنے کی دعوت تو دی، لیکن ساتھ ہی اس نے یہ بھی کہا کہ حقیقت کا حتمی ادراک ممکن ہی نہیں۔ مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب کسی حتمی حقیقت تک پہنچنا ممکن ہی نہیں تو اسے تلاش کیوں کیا جا ئے؟ نیز جب حقیقت معلوم ہی نہیں تو یہ کیسے طے ہو گا کہ جس سائنسی طریقے پر ہم عمل پیرا ہیں، و ہ ہمیں حقیقت کے قریب کر رہا ہے یا دور ؟ یعنی جب منزل کا ملنا ہی نا ممکن ٹھہرا تو اس بات کی کیا اہمیت باقی رہ جاتی ہے کہ ’کس طرح‘ دوڑا جائے ؟ یہی وہ سوالات ہیں کہ جن کا جدیدی مفکرین کے پاس کوئی جواب تھا ، نہ ہے اور نہ کبھی ہو سکتا ہے۔ اس فکر نے کسی حتمی حقیقت (absolute truth) کے وجود ہی کا انکار ڈالا، یعنی حقیقت ایک اضافی (relative) شے بن گئی جو ہر فرد، معا شرے اور زمانے کے لیے مختلف ہو سکتی ہے۔ ان مفکرین کے نزدیک زندگی بعد الموت وغیرہ کے سوالات کالعدم اور لا یعنی ٹھہرے یعنی جب مرنے کے بعد زندگی ہے ہی نہیں تو اس کے بارے میں سوچنا بے کار کی بات ہے۔ ان کے نزدیک اصل مسئلہ تو اس وجود انسانی کا ہے جو اس دنیا میں اسے حاصل ہے ، اس وجود سے پہلے انسا ن نہ تو کہیں تھا اور نہ ہی اس کے بعد وہ کہیں اور جا نے والا ہے۔ اس فکر کے نتیجے میں پس جدیدیت کے نزدیک دنیا وی زندگی کی حقیقت اور معنویت محض کھیل تما شہ اور مزے کرنا ہے۔ وٹنگسٹائن کی فکر کا نچوڑ یہ ہے Life is a game, and maturity is to play it seriously یعنی زندگی ایک کھیل ہے اور عقلمندی یہ ہے کہ اسے سنجیدگی سے کھیلا جائے۔
بیسویں صدی کے وسط میں جب یہ فکر یورپ میں عام ہوئی تو نو جوانوں میں خود کشیاں کرنے ، سب کچھ چھوڑ کر جنگلوں جا بسنے اور ہیروئن اور بھنگ استعمال کرکے مست رہنے کے رجحا نات پروان چڑھے ۔ وٹنگسٹائن جیسے بڑے فلسفی نے با لآخر تنگ آکر خود کشی کی۔ یہ نت نئے فیشن کی بھر مار اور راک موسیقی کا پھیلاؤ اسی زمانے کی پیداوار ہے ۔ الغرض ہر ایسا کام کیا جانے لگا جسے لوگ عجیب سمجھتے تھے اور ہر ایسے کام میں معنی تلاش کیے گئے جنہیں لوگ عام طور پر بے معنی گردانتے تھے ۔ ظاہر سی بات ہے کہ اگر زندگی بے معنی ہے تو پھر کسی خا ص طریقے سے ہی زندگی گزارنے میں معنی کیوں تلاش کیے جا ئیں، ہر طریقہ مساوی طور پر بے معنی ہے لہٰذا سب کا اظہار کرنا چا ہیے۔ آخر کسی خاص طریقے کے ساتھ ہی گا نا کیوں گا یا جا ئے، ہر اس طریقے سے گا نا گاؤ جسے لوگ عام طور پر غیر عقلی (senseless) سمجھتے ہیں۔ یہ اسی فکر کا نتیجہ ہے کہ آئے دن سر اور دا ڑھی کے بالوں کے نئے نئے انداز نظر آ تے ہیں، کبھی پینٹ کے پائنچے پھاڑ لیے جا تے ہیں کبھی اسے الٹا کر کے پہنا جا تا ہے، کبھی مرد کانوں میں با لیاں لٹکا ئے گھومتے دکھا ئی دیتے ہیں، اور عورتوں کے فیشن کی بھر مار وغیرہ وغیرہ، اور جب ان سے پو چھا جائے کہ بھائی یہ کیا کر رہے ہو تو جواب ملتا ہے ’فیشن‘۔ فیشن کا مطلب ہی بے معنی کاموں میں معنی تلاش کرنا ہے۔ آزای کا خواہاں شخص معنویت ’فرق‘ (difference) میں تلاش کرتا ہے یعنی آزاد انفرادیت کا اظہار فرق کے طریقے سے ہوتا ہے ، جبکہ عبدیت کا اظہار فرق میں نہیں بلکہ یکسانیت (similarity) میں ہوتا ہے یعنی میری ذات جس قدر آقاے دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات والا میں فنا ہوگی، اتنی ہی زیادہ معنی خیز ہوگی۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی مولوی اور صوفی وہی حلیہ اپناتا ہے جو چودہ سو برس قبل کانقشہ پیش کرسکے۔
زندگی بعد الموت اور اس کی اصل حقیقت کے انکار کی وجہ یہ نہیں ہے کہ ان مفکرین کے ہاتھ زندگی بعد الموت کے خلاف کوئی ایسی قاطع دلیل آ گئی ہے جسے رد کرنا نا ممکن ہو، بلکہ یہ حقائق حصول علم کے ان ممکنہ ذرائع کی گرفت سے ہی باہر ہیں جن پر وہ ایمان رکھتے ہیں (یعنی حواس خمسہ اور عقل انسانی )۔ اسی لیے ہم کہتے ہیں کہ اس دنیا میں ادراک حقیقت کا ذریعہ اگر کوئی ہے تو وہ وحی یعنی انبیاے کرام کی تعلیمات ہیں جن کی حیثیت خبر صا دق کی ہے اور جنہیں کسی اور ذریعہ علم سے پرکھا (judge) نہیں جا سکتا ہے کیونکہ یہی اصل میزان ہیں۔ پس جدیدیت نے تو سائنس کی بالا دستی کے تمام دعوے بھی رد کردیے ہیں۔ اس کے نزدیک موجودہ سائنسی علمیت مغرب میں رونما ہونے والی چند مخصوص معاشرتی و تہذیبی تبدیلیوں کا نتیجہ ہے جو مغرب میں سترہویں اور اٹھارویں صدی میں پیش آئیں جن کے نتیجے میں لوگوں کے تصورات حق و باطل ، خیر و شر ، کامیابی اور ناکامی ، عدل و ظلم، علم و جہالت سب میں یکسر تبدیلی آئی اور انسانیت کے جہاز کا سفراخروی نجات سے ہٹا کر دنیاوی عیش و عشرت، تسخیرو اصلاح قلب کے بجائے تسخیر کائنات کی منزل کی طرف موڑ دیا گیا۔ مغربی سائنس درحقیقت مقاصد کی انھیں تبدیلیوں کے باعث پیدا ہونے والا ایک نیا طریقہ علم تھا جوان نئے قسم کے مقاصد کی تکمیل کے لیے ضروری تھا۔
پس جدیدیت کے ان افکار ات کو ان معنوں میں علمی سطح پر برتری حاصل ہوئی ہے کہ جدیدیت کے حامی مفکرین مثلاً ہیبر ماس وغیرہ کے پاس ان کے جواب میں مغربی تہذیب کے آفاقی نیز عقلی طور پر برترہونے کی کوئی دلیل موجود نہیں رہی۔ البتہ ابھی اس فکر کا اظہار سیاسی سطح پر نہیں ہوا ، لیکن یا د رہے کہ فکر پہلے کتا بوں میں لکھی جاتی ہے اور پھر وہ معاشرے اور ریاست میں نفوذ کرتی ہے ۔ آخر لوگ ایک دن میں ہی تو enlightenedنہیں ہوئے تھے بلکہ کئی صدیوں کی خونی تاریخ کے بعد ہی جدیدیت معا شروں پر غالب آئی۔ بدقسمتی سے ہمارے مسلم مفکرین (جو کئی صدیاں پیچھے کی سوچتے ہیں) جدیدیت کے لیے اسلامی علمیت سے دلائل فراہم کرنے کی فکر میں کوشاں ہیں : کبھی اجتہاد کے نام پر نصوص شریعت میں تبدیلی کی بات کرتے ہیں ، کبھی اسلام کی نئی تعبیر کی بات کرتے ہیں ، کبھی اجماعی مسائل امت سے انحراف کی دعوت دیتے ہیں ، کبھی مغربی افکار و تصورات کی حقیقت سمجھے بغیر ہی انہیں اسلام میں تلاش اور ان کا اسلامی جواز فراہم کرتے ہیں ، اور سب سے بڑھ کر عوام کو مذہب سے برگشتہ کرنے کے لیے مولوی کو طعن و تشنیع کا نشا نہ بناتے ہیں تاکہ عوام کا رابطہ علما سے کٹ جائے اور جدیدیت کی راہ ہموار ہو سکے۔ خوب سمجھ لینا چاہیے کہ مساجد و مدارس اور علماے کرام کے وقار کا تحفظ درحقیقت جدیدیت کے خلاف جنگ میں اسلام کی زندگی اور بقا کا مسئلہ ہے۔ اگر ہم اس محاذ پر ہار گئے تو پھر جدیدیت کے سیلاب کے آگے بندھ باندھنے والا کوئی منفرد گروہ باقی نہیں رہے گا ۔
۲.۵: سرمایہ دارانہ علم کی تشکیل
سرمایہ دارانہ علم در حقیقت (anthopocentric approach) یعنی ’حوادثات عالم اور انسانی زندگی اور معاشروں میں رو نما ہونے والی تبدیلیوں کی تشریح و تعبیر میں انسانی نقطہ نگاہ سے غور کرنے ‘ کے رویے کا نام ہے ۔ دوسرے لفظوں میں وحی سے حا صل ہونے والے علم کی روشنی میں اس کائنات اور انسانی معاشروں کو سمجھنے کی کو شش کرنا سرمایہ دارانہ تصور علم میں معتبر علم نہیں کہلاتا۔ سائنسی علوم کے ماہرین جب بھی انسانی رویوں کے اخلاقی و غیر اخلاقی اظہار اور معا شروں و ریاست کی صحیح اور غلط تشکیل و ترتیب کے اصول وضع کرتے ہیں تو اس کے لیے وہ ہر گز وحی کی طرف رجوع نہیں کرتے، بلکہ وہ آزادی، مساوات اور ترقی کے مجموعی خا کے کو سامنے رکھ کر ان سوالات پر غور کرتے ہیں۔
تنویری علم سائنس کی دو شاخوں کی صورت میں متشکل ہو کر آج ہما رے سامنے موجود ہے: (۱) طبعی سائنسز اور (۲) معاشرتی سائنسز (natural and social sciences)۔ پہلے کا دائرہ کار انسانی ارادے کے کا ئناتی قوتوں پر تسلط کے امکانات کو بڑ ھا نا جبکہ دوسرے کا مطلوب ایک ایسے معیاری معا شرے اور ریاست کی ترتیب و تنظیم کا لائحہ عمل وضع کرنا ہے جہاں افراد کو زیادہ سے زیادہ آزادی اور سرمائے کی بڑہوتری کے مواقع میسر آسکیں۔ اس بات کی مثال یوں سمجھی جا سکتی ہے جیسے اسلامی علمیت علم الفقہ، کلام اور تصوف وغیرہ کی صورت میں متشکل ہوکر سا منے آئی ہے۔ یعنی جیسے علم اصول فقہ اور فقہ کا مقصد قرآن و سنت میں وارد شدہ نصوص سے وہ اصول اخذ کرنا ہے جن کی روشنی میں یہ طے کیا جا سکے کہ ان گنت انسانی اعمال و افعال سے رضاے الٰہی کے حصول کا درست طریقہ کیا ہے (یعنی ان اعمال کا شرعی حکم بیان کیا جا سکے ) نیز یہ معلوم کیا جا سکے کہ افراد کے تعلقات کو کن ضروری بندشوں کا پا بند بنا کر معاشرے کو احکامات الٰہی کے تابع کیا جاسکتا ہے۔ بالکل اسی طرح سوشل سائنسز کا مقصد ایک طرف سرمایہ دارانہ شخصیت ، معا شرے و ریاست کی علمی توجیہ پیش کرنا ہے اور دوسری طرف یہ افراد کے تعلقات میں آزادی کی ان لازمی حد ود کا تعین کرنے کے اصول وضع کرتی ہیں جن کے نتیجے میں سرمایہ دارانہ معا شرتی و ریاستی صف بندی وجود میں آسکے۔ (سو شل سائنسز کا معا شرتی پالیسیا ں وضع کرنے کے ساتھ کیا تعلق ہے، اس کے لیے جمہوریت پر ہمار ا مضمون دیکھئے: ساحل نومبر ۲۰۰۶ ) تنویری مفکرین کا یقین تھا کہ جس طرح فطرت میں ایسے قوانین ہیں جو اشیا پر عائد ہوتے ہیں، بالکل اسی طرح انسانی معا شروں میں بھی ایسے قوانین فطرت ہیں جن کے تحت معا شرے قائم رہتے ہیں، لہٰذا معا شروں اور انسانی تعلقات کی تفہیم کے لیے بھی سائنسی تجربے اور مشاہدے کا طریقہ استعمال کرنا ضروری ہے ۔ سو شل سائنسز کا مقصد ایک ایسے نئے دستور، ایک ایسے نئے قانون، ایک ایسے نئے معا شرتی نظام کا قیا م ہے جسے الہامی اور آسمانی قانون سے کوئی واسطہ یا رابطہ نہ ہو۔ ایک ایسا نیا سیاسی ڈھانچہ جس میں کوئی رعایا (subjects) نہ ہو بلکہ سب شہری (citizens) ہوں۔
سرمایہ دارانہ علمی اخلاقیات
(’خریدو فروخت‘ (Buying and Selling) کی ذہنیت کا عموم )
لیوتارڈ ایک نامی گرامی پس جدیدی فلسفی ہے جس نے سائنسی علمیت کی حقیقت ’خرید وفروخت‘ کے معنی خیز الفاظ میں بیان کی ہے۔ اس بات کی تفہیم کے لیے خواہشات اور سرمائے کے تعلق کو سمجھنا ضروری ہے۔ تسخیر کائنات اور لامحدود خواہشات کی تکمیل کو مقصد علم ٹھہرانا درحقیقت سرمائے کی بڑھوتری (accumulation of capital) کو اپنا مقصود بنانا ہے، کیونکہ ہر خواہش کی تکمیل سرمائے ہی کی مرہون منت ہے۔ یعنی اگر کوئی فرد یا معاشرہ آزادی کا خواہاں ہے تو اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ وہ درحقیقت سرمائے میں اضافے کا خواہاں ہے کیونکہ زیادہ سے زیادہ خواہشات کی تکمیل بغیر سرمائے کے ناممکن العمل ہے۔ مثلاً ایک شخض یہ چاہتا ہے کہ اس کے پاس عالی شان بنگلہ ہوجس میں دنیا بھر کی پر تعیش اشیا الٹ دی گئی ہوں، نئے ماڈل کی گاڑی ہو، کئی عدد پلاٹ اور کئی کمپنیوں کے شئیرز اس کی ملکیت ہوں جن سے حاصل ہونے والے نفع سے وہ مزید کاروبار کر سکتا ہووغیرہ وغیرہ ، تو ظاہر بات ہے کہ یہ تمام خواہشات بغیر سرمائے کے عملی شکل اختیار نہیں کر سکتیں۔چنانچہ معاشیات کا مضمون اس بات کو باور کراتا ہے کہ ایک فرد اپنی انفرادیت (یاآزادی) کا اظہار عمل صرف (Consumption) کے ذریعے کرتا ہے یعنی وہ جتنی زیادہ تعداد میں اشیاء کو اپنے استعمال میں لا کر صرف (Consume) کرتا ہے اتنی ہی زیاد ہ خواہشات کی تسکین کر سکتا ہے۔ اورایک صارف (Consumer) زیادہ سے زیادہ خواہشات کی تسکین تبھی کر سکتا ہے جب اس کے پاس زیادہ سے زیاد ہ اشیا خریدنے کے لیے آمدنی (Income) ہو۔اسی طرح معاشیات کا مضمون یہ بھی کہتا ہے کہ انسان کی خواہشات لامحدود (Infinite)ہونی چاہییں ،مگر چونکہ ان خواہشات کو پورا کرنے کے ذرائع لامحدود نہیں ہیں، لہٰذا زیادہ سے زیادہ خواہشات کی تکمیل کے لیے ضروری ہے کہ فرد اپنے ذرائع کو اپنے وجود کی ممکنہ حد تک بڑھانے کی کوشش میں لگا رہے۔ (ذرائع میں زیادہ سے زیادہ اضافہ کرنے کی اسی خواہش کو ماہرین معاشیات عقلیت (Rationality) کا معیار کہتے ہیں ، یعنی عقلمند شخص (Rational agent)وہی ہے جو سرمائے میں لامحدود اضافے کی خواہش رکھتا ہو )۔ بقول ڈاکٹر جاوید اکبر انصاری:
’’آزادی کا مطلب ہی سرمائے کی بڑھوتری ہے، اس کا کوئی دوسرا مطلب نہیں۔ جو شخص آزادی کا خواہاں ہے، وہ لازماً اپنے ارادے سے اقدار کی وہی ترتیب متعین کرے گا جس کے نتیجے میں اس کی آزادی میں اضافہ ہو۔ سرمایہ ہی وہ شے ہے جو ممکن بناتا ہے کہ انسان جو کچھ بھی چاہے حاصل کر سکے۔مسجد بنانا چاہے تو مسجد بنائے، شراب خانہ بنانا چاہے توشراب خانہ بنائے، چاند پر جانا چاہے تو چاند پرجائے۔کسی چیز کی کوئی اصلی قدر نہیں،ہر چیز اپنی قدر صرف اور صرف ہیومن کی خواہش اور ارادے سے حاصل کرتی ہے ۔لہٰذا قدر اصل (Intrinsic value) صرف ارادہ انسانی کی ہے۔ اس قدر اصل کے اظہار کا واحد ذریعہ ’سرمائے کی بڑھوتری ہے۔لہٰذا سرمایہ دارانہ عقلیت (آزادی )کا تقاضا ہے کہ ہر ہیومن اپنی خواہشات کو اس طرح مرتب کرے کہ ان کے حصول کی جدوجہد قدر اصل یعنی سرمائے کی بڑھوتری کے فروغ میں ممد اور معاون ہو۔خواہشات کی ہر وہ ترتیب جو ہیومن کو سرمائے کی بڑھوتری کے عمل کا آلہ کار نہیں بناتی (سر مایہ دارانہ) عقلیت کے خلاف ہے۔۔۔سرمائے کی بڑھوتری وہ کسوٹی ہے جس پر ہیومنز کی ہر خواہش اور خواہشات کی تمام ترتیبوں کو جانچا جاتا ہے اور ان کی تقابلی قدر (Exchange value) اسی قدر محض کے مطابق متعین ہوتی ہے۔ہر وہ خواہش جو سرمائے میں اضافے کا ذریعے نہیں بنتی، اس کی تقابلی قدر (سرمایہ دارانہ معاشرے میں ) صفر یا منفی ہوتی ہے‘ (دوسرے لفظوں میں ایک سرمایہ دارانہ معاشرے میں ایسی خواہشات رکھنے والے شخص کی یہی سزا ہے کہ اس کی خواہشات کی کوئی وقعت یا قدر وقیمت نہ ہو)۔۔۔ سرمایہ دارانہ ذہنیت (rationality) ہرفعل کو خود ارادیت اور خود غرضیت کے پیمانے پر تول کر اس کی تقابلی قدر متعین کرتی ہے۔ جب للہیت، محبت، طہارت، تقویٰ، آخرت کا خوف، عفت، حیا، غیرت، ایثار، شوق شہادت کو اس پیمانے پر تولا جاتا ہے تو یہ بالکل بے وقعت اور بے قدر دکھائی دیتی ہیں۔ ایک سول سوسائٹی یا سرمایہ دارانہ معاشرے میں ا ن اوصاف (حمیدہ) کے پنپنے کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی ۔ اس معاشرے کے نظام تعلیم کا مقصد تسخیر کائنات اور تمام فطری قوتوں کو ہیومن کے ارادے کے مطیع بنانے کو بطور مقصد کے قبول کرنے کی ایمانیات کو مستحکم بنانا ہوتا ہے‘‘۔ (تفصیل کے لیے دیکھئے: ڈاکٹر جاوید اکبر انصاری ، ساحل اگست ۲۰۰۶: ص ۳۸)
اس اقتباس سے بخوبی واضح ہوا کہ سرمایہ دارانہ علم کا مقصد سرمائے کی بڑھوتری برائے بڑھوتری ہوتا ہے۔ سرمائے کی بڑھوتری کا یہ عمل اسی وقت ظہور پزیر ہوتا ہے جب علم بذات خود نفع خوری (profit-maximization) کے نظم (Discipline) کا پابند اور اس کے تابع ہوجائے ، یعنی علم تعمیر کیا جائے ’بیچنے‘ کے لیے اور اسے ’خریدا ‘ جائے صرف (consumption)کرنے کے لیے [knowledge is produced for sale, and purchased for consumption]۔ دوسرے لفظوں میں تکمیل خواہشات کی ذہنیت علم کو خریدوفروخت میں تبدیل کردیتی ہے اور خرید و فروخت کی یہ ذہنیت ہی سرمایہ دارانہ علمیت کی اصل شکل (essence) ہے۔ چنانچہ سرمایہ دارانہ معاشروں میں سائنس و ٹیکنالوجی کی ایجادات سے لیکر سوشل و بزنس سائنسز کی تحقیقات تک خرید وفروخت کے اسی عمل کے اظہار کا ذریعہ ہوتی ہیں۔ مثلاً جب ایک یونیورسٹی میں کمپیوٹر یا بزنس سائنس کا طالب علم چار سال کی محنت شاقہ کے بعد اپنے تعلیمی کیرئیر کے آخری سال میں اپنا تحقیقی کام (Research project) کرنے لگتا ہے تو اس کے اساتذہ اس کے پلے یہ ہدایت نامہ باندھتے ہیں: ’بیٹا ایسا کام کرو جسکی کوئی مارکیٹ میں مانگ (Market value) ہو ، فضول کاموں میں وقت برباد مت کرو‘۔ درحقیقت یہی نصیحت تمام تر علم اور ٹیکنالوجی کا نقطہ آغاز و انتہا ہوتا ہے۔ تعلیم، تحقیق اور کنسلٹنسی (consultancy) کے تمام تر ادارے اسی اصول پر اور ایسا ہی علم تعمیر کرتے ہیں جسے زیادہ متوقع منافع و آمدنی کے ساتھ کمپنیوں کو بیچنا ممکن ہو، اور کمپنیاں ایسے ہی علم کو خریدتی ہیں جسے وہ اپنے پیداواری عمل میں استعمال کرکے مزید اشیا بیچ کر زیادہ سے زیادہ منافع کما سکیں۔ خرید و فروخت کا یہ علم جب معاشروں میں پروان چڑھتا ہے تو معاشرے ’مارکیٹ ‘ میں تبدیل ہوجاتے ہیں جہاں تعلقات کی بنیاد محبت، صلہ رحمی، تعاون اور مذہب نہیں بلکہ ’اغراض ‘ اور اشیا اور خدمات کی لین دین (Exchange of goods and services) بن جاتی ہیں۔ ظاہر سی با ت ہے کہ کسی شے کے لین دین میں ایک شخص ڈیمانڈر (Demander) اور دو سرا سپلائیر (Supplier) ہواکرتا ہے،اورسرمایہ دارانہ معاشرے میں طلب اور رسد (Demand and Supply) کا اصول ہی درحقیقت ہر رشتے اور تعلق کی اصل روح ہوتا ہے۔ایسا نہیں ہے کہ تعلق کی یہ نوعیت صرف موچی، درزی، کسان، مزدور، سرمایہ دار وغیرہ کے درمیان ہی بننے والے تعلقات میں ہوتی ہے،بلکہ ایک سرمایہ دارانہ معاشرے میں ہر تعلق (چاہے میاں بیوی کا ہو یا ماں باپ کا)کی روح آہستہ آہستہ بس طلب اور رسد (Demand and Supply) پر منتج ہو جاتی ہے کیونکہ اس معاشر ے کے تمام افراد ماں باپ، بھائی بہن، استاد شاگرد یا پیر مرید نہیں بلکہ پروفیشنل (professionals) ہوتے ہیں۔ مثلاً ایک مذہبی معاشرے میں استاد کا تعلق اپنے شاگرد سے باپ اور مربی کا ہوتا ہے،اس کے مقابلے میں مارکیٹ (یا سول)سوسائٹی میں یہ تعلق ڈیمانڈر اور سپلائیر (Demander and Supplier) کا ہوتا ہے یعنی استاد محض زر کی ایک مخصوص مقدار کے عوض ایک خاص قسم کی خدمت مہیا کرنے والا جبکہ طالب علم اس خدمت کا ڈیمانڈر ہوتا ہے اور بس۔ ہر وہ تعلق جس کی بنیاد ڈیمانڈ اور سپلائی کی روح پر استوار نہ ہو، سرمایہ دارانہ معاشرے میں لایعنی، مہمل، بے قدرو قیمت اور غیر عقلی (irrational)ہوتا ہے۔ سرمایہ دارانہ معیار عقلیت کے مطابق عقل مندی (Rationality)اسی کا نام ہے کہ آپ تعلقات ذاتی اغراض کی بنیاد پر قائم کریں۔ یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ کسی معاشرے میں سائنسی (بشمول طبعی و عمرانی) علوم عام ہوں اور افراد میں ذاتی اغراض اور حرص و حسد نیز دیگر اخلاق رزیلہ پروان نہ چڑھیں۔ یہ تعلق بالکل ایسا ہی ہے جیسے مذہبی علوم کا مقصد افراد میں زہد، تقویٰ، عزیمت ، عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم وفنا جیسی صفات عام کرنا ہے۔ سرمایہ دارانہ علوم کی بالا دستی کا مطلب در حقیقت افراد کی ذہنیت اور معاشروں کو خرید وفروخت کے نظم میں شامل اور تابع کرنے کا دوسرا نام ہے۔ ایسے علوم (مثلاًمذہبی علم) جو خریدوفروخت کی کسوٹی پر پورا نہ اترتے ہوں یعنی جنہیں خریدنے اور بیچنے کے نتیجے میں سرمائے کی بڑھوتری کے مواقع کم ہوں، ان کے پنپنے کے مواقع بھی اتنے ہی کم ہوتے چلے جاتے ہیں۔ اسی بات کا دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ ایسے معاشرے (مثلاًمذہبی معاشرے) جہاں علم کے معنی خرید وفروخت نہ ہوں، وہاں سرمایہ دارانہ علوم ہر گز ترقی حاصل نہیں کرسکتے۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہمیں ’اعتدال پسند‘ اور enlightened ہونے کا سبق دیا جا رہا ہے کیونکہ اس کے بغیر سائنسی علوم کا فروغ اور ترقی ہرگزممکن نہیں۔
نتائج: نوٹ کرنے کی اہم باتیں
اس ساری بحث کو سمیٹتے ہوئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ سرمایہ دارانہ علم سے مراد وہ مجموعہ معلومات ہے :
* جو ارادہ انسانی و خواہشات کی تکمیل (self-determination) کو ممکن بناتا ہو، اسے سائنس کہتے ہیں۔
* جو وحی کے علم ہونے کے انکارپر مبنی ہے، لہٰذا یہ جہالت خالصہ ہے ۔
* جس کا مقصدانسان کے تمتع اور تصرف فی الارض میں لا محدود اضافہ ہے ۔
* جو اس مادہ پرستانہ تصور حیات کو بطور مقصد حیات قبول کرنے کی ذہنیت عام کرتا ہے ۔
* اس کے پھیلاؤ کے نتیجے میں افراد میں بہت سے اخلاق رزیلہ پھیلتے ہیں:
۔ خود غرضی (اپنے مقصد کے لیے دوسروں سے تعلقات قائم کرنا)
۔ حرص (زیادہ سے زیادہ دولت جمع کرنے کی خواہش)
۔ حسد (دوسروں سے زیادہ دولت کی خواہش)
۔ طول امل (دنیا کی بے پناہ محبت ، طویل العمری کی خواہش اور موت سے کراہیت)
۔ غضب (ہر شے کو قابو اور زیر کرنے کی خواہش )
۔ لذت پرستی (خواہشات نفسانی کی کثرت )
۔ عبادات کو حقیر جاننا، ضیاع اوقات، گنا ہ کے کاموں کو تفریح سمجھنا، کلام لغو (جو فحش گوئی، کھیل تماشوں، فلموں ، ٹھٹھے بازی اور جنس مخالف کے موضوعات سے پر ہوتا ہے) وغیرہ کے اوصاف کا پیدا ہوجا نا ایک فطری عمل ہے ۔
* جس میں کوئی حتمی حق نہیں ہوتا (سوائے اس کے کہ انسان قائم بالذات ہے)۔
یہ فکر اور تصوربدا ہتاً لغو اور عقلاً با طل ہے، اسی لیے فکری سطح پر سرمایہ دارانہ علمیت ایک دم توڑتی ہوئی فکر ہے ، لہٰذا ہمیں چاہیے کہ ہم اس کی ماہیت و مقاصد کی سمجھ بوجھ حاصل کرکے اس کا محا کمہ کرنے کی کوشش کریں نہ یہ کہ اس کی حما یت میں امت مسلمہ کے چودہ سو سالہ اجماع کا انکار کرکے اس جاہلی علمیت کے لیے دلائل فراہم کر دیں۔ ہمارے لیے لمحہ فکریہ یہ ہے کہ اگر مسلما نوں نے جدیدی علمیت کے افکار و نظریات کے خدوخال پر اپنے معاشروں اور ریاست کو تشکیل دیا تو وہ لازماً ایک قوم پرست مسلم سرمایہ دارانہ ریاست ہی بنا پا ئیں گے جس کے نتیجے میں اس ملک کے مسلمانوں کو تو شا ید کوئی مادی فوائد فائدہ مل جائیں لیکن اسلام کو ہر گز بھی کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا۔
اللہ تعا لیٰ سے یہی دعا ہے کہ: اللہم ارنا حقیقۃ الا شیاء کما ہی۔