صوفیہ، مراتبِ وجود اور مسئلہ وحدت الوجود (۳)

ڈاکٹر محمد زاہد صدیق مغل

سہیل طاہر مجددی

توحید وجودی اور معیت باری تعالیٰ

اس لحاظ سے ذات باری کو ہر شے سے ایک ایسی وجودی معیت حاصل ہے جو اس معیت سے مختلف ہے جو جوہر کو جوہر، جوہر کو عرض اور عرض کو عرض سے حاصل ہے اور نہ ہی یہاں حال و محل کے اتحاد جیسی کوئی شرط ہے۔ کائنات کی تخلیق کا مطلب نہ یہ ہے کہ ذات باری نے اپنے سوا پہلے سے موجود کسی شے (مثلاً ھیولی) کو کسی خاص ڈھب پر ڈھال دیا ہے اور نہ یہ ہے کہ اس نے وجود کو اس طرح کسی شے کی ذاتی صفت بنا دیا ہے کہ خلق کے بعد دو مستقل وجود ہوگئے ہیں، نہ یہ کہ اپنی ذات اور صفات ہی کو کائنات بنا دیا ہے اور نہ یہ کہ وہ اعیان کے ساتھ متحد ہوگیا ہے بلکہ یہ مؤثر اور اثر کے مابین ایسا احاطہ قیومی ہے جو اعیان (یعنی اثر) کے احکام کا پوری طرح احاطہ کئے ہوئے ہے۔ امام غزالی آیت اللَّہُ نُورُ السَّمَاوَاتِ وَالْأرْضِ51(اللہ آسمانوں و زمین کا نور ہے) کی شرح کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ذات باری ہر شے کے ساتھ اس طرح ہے جیسے اشیاء کے ساتھ نور ہے کہ وہ ہر شے کو ظاہر کرنے والا ہے اور صاحب عقل جانتے ہیں کہ ظاہر کرنے والا اس شے سے کلی طور پر جدا نہیں ہوتا جو ظاہر کی جاتی ہے52۔ شیخ ابن عربی واشگاف انداز سے اس معاملے کو واضح فرماتے ہوئے کہتے ہیں کہ "عین وجود اشیاء" ہونے اور "عین اشیاء" ہونے میں فرق ہے۔ اشیاء اپنی تعیینات و احکام کے لحاظ سے وجود مطلق کا غیر ہیں، صرف اس اعتبار سے عین ہیں کہ ان کا موجود ہونا خود اپنی طرف سے نہیں بلکہ بذریعہ تجلی جو ان میں ظاہر ہوا اپنی اصل میں وہ وجود مطلق ہی کی جانب سے ہے کیونکہ وجود وجود ہی سے مستعار ہو سکتا ہے نہ کہ عدم سے۔ پس "بااعتبار ظہور" وجود ایک ہے مگر با اعتبار مظاھر وجود (locus of manifestation) تعیینات متعدد ہیں53۔ اعیان ثابتہ کی حقیقت ہونا ذات باری کا اول و باطن ہونا ہے، تو بطور وجود ان مظاہر کے ظہور کا منبع ہونا آخر و ظاہر ہونا ہے۔ قرآن میں آیا:

ھُوَ الْأوَّلُ وَالآخِرُ وَالظَّاھِرُ وَالْبَاطِنُ 54 (وہی ہے اول، اور وہی ہے آخر، اور وہی ہے ظاہر، اور وہی ہے ہاطن)

شیخ کہتے ہیں کہ وجود کا بذریعہ اعیان یہ ظہور ایسا نہیں کہ جو ظاہر ہوگیا وہ اب غیب نہ رہا بلکہ ذات باری کی شان یہ ہے کہ وہ اپنی جس صفت و اسم کو ظاہر کرتے ہیں بیک وقت وہ غیب میں چھپی ہوئی بھی رہتی ہے۔ اعیان ثابتہ منصفہ ظہور میں آنے کے باوجود درجہ ثبوت میں جوں کے توں باقی رہتے ہیں، اس کی صفت کا ظہور اس کی غیوبت کو کم کرنے والا نہیں۔ ایک حدیث قدسی کا مفہوم ہے کہ اگر اول و آخر اور جن و انس وغیرہ سب مل کر اللہ سے کچھ مانگیں اور اللہ انہیں وہ سب عطا کر دے تو اس کے خزانوں میں اتنی کمی بھی نہیں آتی جتنی سمندر میں سوئی ڈبو کر نکالنے سے سمندر کے پانی میں آتی ہے55۔ پس وہ ظاہر و باطن ایک ساتھ ہے۔

یاد رہے کہ اعیان وجود سے مستفیذ نہیں ہوتے بلکہ مظہر وجود ہونے سے مستفیذ ہوتے ہیں56۔ شیخ "مظہر" کو وجود کے ظہور کے ذریعے کے طور پر دیکھتے ہیں اور یہ جو عالم کو ذات باری کی نشانی یا علامت کہا جاتا ہے، شیخ اسے اس کے ظاہری معنی میں مراد لیتے ہیں (یعنی عالم "مظہر وجود" ہونے کے معنی میں نشانی ہے)۔ جس شے کو ذات باری اپنے ظہور کا ذریعہ یا نشانی بنائے وہی موجود ہو پاتی ہے، یعنی کوئی شے اس کی نشانی بنے بغیر موجود ہو ہی نہیں سکتی اور ظہور کے اسی پہلو کو شیخ "تشبیہہ " کہتے ہیں، پس تنزیہہ و تشبیہہ بھی ایک ساتھ ہیں۔ اسی لئے شیخ کہتے ہیں کہ اس عالم میں اٹھنے والی ایسی کوئی نگاہ نہیں کہ وہ اٹھے مگر اس کا مشاہدہ نہ کرے57 ۔ آفاق و انفس میں ذات باری کی نشانیاں ہونے کو آپ اسی مفہوم میں دیکھتے ہیں:

سَنُرِيھِمْ آيَاتِنَا فِي الآفَاقِ وَفِي أَنفُسِھِمْ حَتَّیٰ يَتَبَيَّنَ لَھُمْ أنَّہُ الْحَقُّ58 (ہم عنقریب انہیں اپنی نشانیاں عالم اور خود ان کے نفس میں دکھائیں گے یہاں تک کہ ان پر ظاہر ہو جائے گا کہ وہی حق ہے)

صوفی فکر کے بعض اقوال کا معنی

صوفی فکر میں "انا الحق" نیز "شاھد و مشہود، شاکر و مشکور اور حامد و محمود ایک ہیں" جیسی جو عبارات ملتی ہیں، وہ عینیت و معیت ("ھو") کے اسی پہلو سے ہیں، تاہم ان عبارات کا مطلب غیریت ("لاھو") کے اس پہلو کا انکار کرنا نہیں جو صوفی فکر کے مطابق تعیینات کی صورت مخلوق کے لئے ثابت اور حقیقی نیز حکم باری ہونے کی بنا پر نافذ ہیں۔ مرتبہ فنا میں محض عینیت کی جانب نگاہ کر کے بات کہنا سکر ہے جبکہ اس کے ساتھ غیریت کی جانب توجہ برقرار رکھنا صحو ہے، بعض صوفیہ حالت سکر میں "انا الحق" جیسی بات کہتے ہیں59۔ عینیت کے اس تناظر میں قرآن مجید میں حضرت موسی علیہ السلام کے بارے میں ارشاد ہوا کہ جب رب تعالی نے انہیں ندا فرمائی تو ایک درخت سے آپ کو یہ آواز سنائی دی کہ میں ہی رب ہوں:

فَلَمَّا أتَاھَا نُودِيَ مِن شَاطِئِ الْوَادِ الْأيْمَنِ فِي الْبُقْعَۃِ الْمُبَارَكَۃِ مِنَ الشَّجَرَۃِ أن يَا مُوسَیٰ إنِّي أنَا اللّہُ رَبُّ الْعَالَمِينَ60 (جب موسی علیہ السلام وہاں پہنچے تو وادی (طور) کے دائیں کنارے پر بابرکت مقام پر واقع ایک درخت سے آواز دی گئی کہ اے موسی بے شک میں ہی اللہ ہوں جو تمام جہانوں کا رب ہوں)

ایک حدیث میں آتا ہے:

اللھم لك الحمد انت نور السموات والارض ولك الحمد انت قيوم السموات والارض، ولك الحمد انت رب السموات والارض ومن فيھن. انت الحق، وقولك الحق، ووعدك الحق، ولقاؤك حق، والجنۃ حق، والنار حق، والساعۃ حق61
مفہوم: "اے میرے اللہ! حمد و ثنا تیرے ہی لئے ہے، تو ہی آسمانوں اور زمین کا نور ہے اور حمد و ثنا تیرے ہی واسطے ہے، تو ہی زمین و آسمان کا قیوم ہے اور حمد و ثنا تیرے ہی لئے ہے، تو ہی زمین و آسمان اور جو کچھ ان میں ہے سب کا رب ہے، تو حق ہے اور تیرا کلام حق ہے اور تیرا وعدہ حق ہے اور تیری ملاقات حق ہے اور جنت حق ہے اور جہنم حق ہے اور قیامت حق ہے"

غور کیجئے کہ ذات باری کے ساتھ متعدد امور کو "حق" ہونے سے تعبیر کیا گیا ہے۔ آپﷺ نے فرمایا:

أَعُوْذُ بِعَفْوِکَ مِنْ عِقَابِکَ وَأَعُوْذُ بِرِضَاکَ مِنْ سَخْطِکَ وَأَعُوْذُ بِکَ مِنْکَ جَلَّ وَجْھُکَ لَا أُحْصِي ثَنَآئً عَلَيْکَ أَنْتَ کَمَا أَثْنَيْتَ عَلٰی نَفْسِکَ62
مفہوم: "اے اللہ میں تیرے عذاب کی تیرے عفو سے پناہ چاہتا ہوں، اور تیرے غضب کی تیری رضا سے پناہ چاہتا ہوں، اور میں تجھ سے تیری پناہ مانگتا ہوں، میں کماحقہ تیری تعریف بیان نہیں کر سکتا، تو ویسا ہی ہے جیسے تو نے خود اپنی تعریف بیان کی"

امام غزالی63 کہتے ہیں کہ آپ ﷺ نے اولاً اللہ کے افعال پر نظر فرمائی تو اس کے فعل سے اس کے فعل کی پناہ چاہی، پھر اس درجے سے ترقی فرما کر افعال کے مصدر یعنی صفت کا ذکر فرما کر ایک صفت سے دوسرے کی پناہ چاہی، پھر صفات سے ترقی فرما کر ذات کی جانب بڑھے اور اس سے اسی کی پناہ چاہی۔ غور کیجئے کہ رب سے رب ہی کی پناہ طلب کی جارہی ہے۔ پھر اس مقام پر اپنی ذات کے حوالے کو توحید میں نقص سمجھتے ہوئے آپﷺ مزید آگے بڑھے اور فرمایا کہ میں تیری تعریف کرنے سے عاجز ہوں تو ویسا ہی ہے جیسا تو نے خود اپنی تعریف کی۔ اس جملے کا پہلا حصہ فنائے نفس کی جانب اشارہ ہے اور دوسرا اس جانب کہ ثنا گو اور جس کی ثنا کی گئی ایک ہی ذات ہے، اس کے سوا جو کچھ ہے وہ فنا کے دروازے پر دستک دے رہا ہے۔ پھر جب بندے کے سب افعال اسی کی جانب سے ہیں تو بندے کا اس کا شکر کرنا ایسا ہی ہے جیسے وہ خود ہی شاکر ہے۔ اگر ایک شخص اپنی بنائی ہوئی تصویر کی تعریف کرے تو وہ دراصل اپنی تعریف کرتا ہے64۔ تم ایک ربوٹ بناؤ اور اس میں گویائی کی صلاحیت پیدا کرو جس سے وہ تمہاری تعریف کرے تو تم نے خود اپنی ہی تعریف تو کی!

صوفیہ کے ہاں بعض عبارات میں "کائنات کو حق " کہہ دیا جاتا ہے، اس کا ایک مطلب یہ بھی ہوتا ہے کہ اگر عالم کے تمام اعتبارات و تخصیصات سے قطع نظر کر لیا جائے تو معاملہ ذات باری کی جانب لوٹ جائے گا، قرآن میں ارشاد ہوا: إلَيْہِ يُرْجَعُ الْأمْرُ كُلُّہُ65 (اور اسی کی جانب سب امور کا لوٹایا جانا ہے)۔ اسی طرح صوفی فکر میں جو اس قسم کے اقوال ملتے ہیں کہ "مقام فنا میں ایک مقام ایسا ہے جہاں نہ عابد ہے اور نہ معبود"، تو اسے بھی مراتب وجود کے درج بالا نظام میں سمجھا جا سکتا ہے۔ ان مراتب وجود کے مطابق "حضرت الوھیت" (یعنی جہاں عابد و معبود متحقق ہیں) دوسرے تعین سے متعلق ہے جس سے پرے مقام وحدت ہے جہاں نہ عابد ہے اور نہ معبود، صرف وجود مطلق و ذات باری ہے۔ اس عبارت میں "فنا" سے مراد بندے کے شعور کا زائل ہو جانا ہے، جب شعور عبد زائل ہو جائے تو اس سے پرے مقام پر عابد و معبود متحقق نہیں رہتے کہ بندہ تو وہاں علمی طور پر فنا کے گھاٹ اتر چکا، یہی اس عبارت کا مفہوم ہے۔ ایسی ہر عبارت اس نظام فکر میں کسی خاص وجہ پر مبنی ہوتی ہے۔ اسی لئے امام غزالی کہتے ہیں کہ اگر کوئی کہے میں "خدا کے سوا کسی کو نہیں پہچانتا" تو اس کا قول بھی درست ہے اور اگر کہے کہ "میں خدا کو نہیں پہچانتا" تو یہ بھی درست ہے کہ ان دونوں باتوں میں وجہ کلام مختلف ہے66۔ اسی وجودی معیت کے پیش نظر صوفیا کے بعض اقوال "مشاہداتی وحدت" کی جانب اشارہ کرتے ہیں جیسے یہ کہ اس کائنات میں اٹھنے والی ایسی کوئی نگاہ نہیں جو اٹھے مگر وہ رب کا مشاہدہ نہ کرے، نیز بعض عارفین کا حال یہ ہے کہ انہوں نے پہلے شے کو دیکھا پھر ذات باری کو دیکھا (یہ وہ ہیں جو معلول سے علت کا استدلال کر کے ذات باری کو ثابت کرتے ہیں)، جبکہ بعض وہ ہیں جنہوں نے ہر شے کے ساتھ ذات باری کو دیکھا اور پھر وہ بھی ہیں جنہوں نے ہر شے سے پہلے خدا کو دیکھا پھر شے کو دیکھا۔ امام غزالی کہتے ہیں کہ یہ آخری درجہ صدیقین کا مشاہدہ ہے جبکہ پہلا علمائے راسخین کا67، ان مراتب کا ذکر قرآن میں یوں ہوا:

سَنُرِيھِمْ آيَاتِنَا فِي الْآفَاقِ وَفِي أَنفُسِھِمْ حَتَّیٰ يَتَبَيَّنَ لَھُمْ أنَّہُ الْحَقُّ أوَلَمْ يَكْفِ بِرَبِّكَ أنَّہُ عَلَیٰ كُلِّ شَيْءٍ شَھِيدٌ68 (ہم عنقریب انہیں اپنی نشانیاں عالم اور خود ان کے نفس میں بھی دکھائیں گے یہاں تک کہ ان پر ظاہر ہو جائے گا کہ وہی حق ہے، کیا آپ کے رب کی یہی بات کافی نہیں کہ وہ ہر شے پر گواہ ہے؟)

یعنی "یہ عالم خدا پر شاہد ہے" سے "خدا عالم پر شاہدہے" کا سفر ہے۔

الغرض شیخ اور صوفیہ پر اتحاد کا الزام لگانے والوں سے معاملے کو سمجھنے میں سخت چوک ہوئی، یہ الزام تب درست ہو سکتا تھا جب وہ یہ کہتے کہ خالق و مخلوق کے وجود کا ظرف یا محل بھی ایک ہے۔ وجود کی ایک صورت واجب الوجود جبکہ دوسری ممکن الوجود ہے اور یہ دونوں اعتبار جدا ہیں۔ نیز جب پہلے قدم پر اعیان کو "انفعالی استعداد" کہہ کر انہیں "فعلی استعداد" (یعنی اسمائے الہیہ) کا غیر کہہ دیا گیا تو اس کے بعد اعیان میں ظاہر ہونے والے وجود کا منبع وجود مطلق قرار دینے سے اتحاد کیسے ثابت ہوگیا جبکہ غیریت اس سے پہلے ہی متحقق ہو چکی؟ رہا حلول کا الزام تو وہ اتحاد کے الزام سے بھی زیادہ بے معنی ہے کیونکہ حلول کا مطلب ایک شے کا دوسری میں اس طرح گم ہوجانا ہے کہ وہ اپنی جداگانہ شناخت کھو بیٹھے جبکہ صوفیہ اس مسئلے میں ایسی بات کے قائل نہیں، رب رب ہی رہتا ہے اور عبد عبد، شیخ کہتے ہیں کہ بندہ رب کی کسی صفت ذاتی سے متصف نہیں ہوتا69۔ قرآنی آیت مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ يَلْتَقِيَانِ بَيْنَھُمَا بَرْزَخ لَّا يَبْغِيَانِ70 (اس نے دو سمندر رواں کئے جو باہم مل جاتے ہیں، (البتہ) ان کے مابین ایک آڑ حائل ہے ، وہ دونوں اپنی حد سے تجاوز نہیں کر سکتے) پر شیخ کہتے ہیں کہ دو سمندروں سے مراد وجود واجب اور وجود ممکن ہیں اور ان کے مابین ایسی برزخ حائل ہے جو دونوں کو جدا رکھتی ہے71۔ شیخ کہتے ہیں کہ جو لوگ صرف "ھو" پر نظر کرتے ہیں وہ بھینگے ہیں اور جو "ھو" کے ساتھ "لاھو" کو بھی دیکھتے ہیں وہ اہل معرفت ہیں72۔ پھر جب رب اور بندے کے مابین سمیع و بصیر نیز رؤوف و رحیم کی نسبت مشترک ہونے کے باوجود شرک لازم نہیں آتا تو وجود کی نسبت مشترک ہونے سے کیوں کر لازم آیا؟ اسی طرح بعض اہل علم کو یہ وہم ہوا کہ وجود کا تحقق چونکہ خارج میں پائے جانے والے افراد و تعیینات کے ساتھ ہی ہوتا ہے تو توحید وجودی کا مطلب یہ ہوا کہ ذات باری کے وجود کو خارجی وجود کے ہم معنی قرار دیا جارہا ہے جبکہ یہ صرف غلط فہمی ہے کیونکہ صوفیہ تعینات سے عبارت وجود خارجی کے اعتبار سے توحید وجودی کا قول اختیار نہیں کرتے۔

 وجودی معیت اور نصوص

وجود کی وحدت کا درج بالا تصور شیخ کے نزدیک ذات باری کے اسم "محیط" کا مفہوم ہے73۔ درج ذیل آیات کا یہی مضمون ہے:

أنَّہُ عَلَیٰ كُلِّ شَيْءٍ شَھِيد74 (بے شک وہ ہر چیز پر گواہ ہے)

إنَّہُ بِكُلِّ شَيْءٍ مُّحِيط75 (بے شک وہ ہر چیز کا احاطہ کئے ہوئے ہے)

اسی طرح ذات باری کے اسم "جامع" کو بھی شیخ اسی معنی میں دیکھتے ہیں76۔ جنگ بدر میں آپﷺ کی جانب سے پھینکے گئے سنگ ریزوں پر قرآن کا یہ تبصرہ "ھو ولا ھو" کی اسی حقیقت کا بیان ہے:

وَمَا رَمَيْتَ إذْ رَمَيْتَ وَلٰكِنَّ اللّہَ رَمَیٰ77 (آپ نے وہ سنگ ریزے نہیں پھینکے جبکہ آپ نے پھینکے بلکہ وہ تو اللہ نے پھینکے)

اس آیت میں نفی و اثبات کے جمع کے اسلوب پر توجہ رہے: وَمَا رَمَيْتَ سے بندے کے پھینکنے کی نفی کی گئی،  إذْ رَمَيْتَ سے اس کا اثبات کیا گیا اور پھر وَلٰكِنَّ اللَّہَ رَمَیٰ سے نفی کی گئی78۔ اسی بنا پر شیخ ابن عربی درج ذیل آیات میں بیان کردہ ذات باری کی مخلوق کے ساتھ معیت و قرب جیسے امور کو علمی معیت کے بجائے وجودی معیت پر محمول کرتے ہیں:

وَھُوَ مَعَكُمْ أيْنَ مَا كُنتُمْ79 (اور وہ تمہارے ساتھ ہوتا ہے تم جہاں کہیں بھی ہو)

مَا يَكُونُ مِن نَّجْوَیٰ ثَلَاثَۃٍ إلَّا ھُوَ رَابِعُھُمْ وَلَا خَمْسَۃٍ إلَّا ھُوَ سَادِسُھُمْ وَلَا أدْنَیٰ مِن ذٰلِكَ وَلَا أكْثَرَ إلَّا ھُوَ مَعَھُمْ أيْنَ مَا كَانُوا80 (کہیں بھی تین کی سرگوشی نہیں ہوتی مگر وہ ان کا چوتھا ہوتا ہے، اور نہ ہی پانچ کی سرگوشی ہوتی ہے مگر وہ ان کا چھٹا ہوتا ہے اور نہ ان سے کم اور نہ زیادہ کی مگر وہ ان کے ساتھ ہوتا ہے)

وَنَحْنُ أَقْرَبُ إلَيْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ81 (اور ہم اس کی شہ رگ سے بھی اس کے قریب ہیں)

وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنكُمْ وَلَٰكِن لَّا تُبْصِرُونَ82 (اور ہم (مرنے والے) سے تمہارے مقابلے میں زیادہ قریب ہوتے ہیں مگر تم دیکھتے نہیں)

اس آیت میں "لَّا تُبْصِرُونَ" (مگر تم دیکھتے نہیں) پر توجہ رہے۔ ایک اعتبار سے دیکھا جائے تو اس باب میں صوفیہ دراصل وہی بات کہتے ہیں جو متکلمین کہتے ہیں کیونکہ متکلمین "علم" کو صفت کہتے ہیں جبکہ صوفیہ صفت کو ایک مرتبہ وجود یا تجلی کہتے ہیں۔ صوفیہ کے نزدیک زیر بحث آیت میں اللہ کو بواسطہ اس تجلی ہی مخلوق کے ساتھ وجودی معیت ہے۔ مزید ارشاد ہوا:

فَأيْنَمَا تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجْہُ اللّہِ83 (پس تم جدھر بھی رخ کرو، وہ وہاں جلوہ گر ہے)

وَھُوَ اللّہُ فِي السَّمَاوَاتِ وَفِي الْأرْضِ84 (آسمانوں اور زمین میں وہی اللہ ہے)

اللّہُ نُورُ السَّمَاوَاتِ وَالْأرْضِ85 (بے شک اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے)

يَدُ اللّہِ فَوْقَ أيْدِيھِمْ86 (ان کے ہاتھوں پر اللہ کا ہاتھ ہے)

حدیث میں ارشاد ہوا:

لَوْاَنَّکُمْ دَلَّیْتُمْ بِحَبْلٍ اِلَی الْاَرْضِ السُّفْلیٰ لَھَبَطَ عَلَی اللّهِ ثُمَّ قَرَأ: {ھُوَ الأوَّلُ وَالآخِرُ وَالظَّاھِرُ وَالْبَاطِنُ وَھُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيم}87 (اگر تم ایک رسی زمین کی گہرائی میں ڈالو تو وہ اللہ ہی پر گرے گی، پھر آپ نے یہ آیت پڑھی: وہی ہے اول، اور وہی ہے آخر، اور وہی ہے ظاہر اور وہی ہے باطن)

الغرض اس مضمون کی متعدد نصوص ہیں جو شیخ کے نظام فکر میں اپنے ظاہر پر مفہوم ہو جاتی ہیں۔

وجودیہ و شہودیہ کے اختلاف کی حقیقت

یہاں سے صوفیہ کی یہ بات سمجھی جا سکتی ہے کہ مخلوق (ممکنات) کا کوئی حقیقی وجود نہیں، وجود صرف واجب کو حاصل ہے جو از خود قائم ہوتا ہے۔ کائنات کے وجود کو خدا کے وجود سے اتنی نسبت بھی نہیں جتنی کہ مثلاً ہاتھ میں پکڑے پین کی حرکت کو حاصل ہے جو ہاتھ کی حرکت سے بالواسطہ حرکت کرتا ہے کہ پین کی حقیقت ہاتھ کے مقابلے میں عدم نہیں۔ جب وجود اور اسماء کی طرف نظر کرو گے تو ان کے عکوس (یعنی مخلوق) معدوم ہی نظر آئیں گے، جب عدم کے ظہور کے پس پردہ کار فرما تجلی کی جانب نظر کرو گے تو ظاہر شدہ مخلوق کے باطن میں اسماء ہی کا عکس جھلکتا دکھائی دے گا۔ شہودیہ اور وجودیہ میں اس سے زیادہ فرق نہیں کہ دونوں ایک سکے کے دو رخوں میں سے ایک جانب پر زیادہ زور دیتے دکھائی دیتے ہیں: وجودیہ کہتے ہیں عکوس اسماء میں جو چمکا ہے اس کا منبع و حقیقت اسماء کی تجلی ہے، شہودیہ کا زور اس پر ہے کہ جو چمکا ہے اس کی حقیقت معدوم ہونا ہے اور دونوں کا اس پر اتفاق ہے کہ جو چمکا ہے وہ وجود میں شامل نہیں۔ وجودیہ اور شہودیہ میں فرق کو مزید تکنیکی انداز میں یوں بھی بیان کیا جا سکتا ہے کہ وجودیہ دائرہ اول کے مرتبہ واحدیت کے شئون "وجود" پر زور دیتے ہیں جبکہ شہودیہ مرتبہ "شہود" پر۔

اہم وضاحت

اس ضمن میں آخری بات یہ یاد رہے کہ عالم ذات باری کی حقیقت و ماہیت ظاہر نہیں کرتا بلکہ صرف اس کا یہ مرتبہ ظاہر کرتا ہے کہ "وہ ہے"، یہ ہمیں صرف اس کی صفات و اسماء کا علم دیتا ہے جبکہ ذات باری ہمیشہ پردہ خفا میں رہتی ہے88۔ اگرچہ صوفیہ بات سمجھانے کے لئے آئینے اور روشنی کی مثالیں پیش کرتے ہیں، تاہم شیخ سمیت وہ اس بات کے مدعی نہیں کہ ہم وجود مطلق کی حقیقت نیز اعیان ثابتہ کے خارجی وجود کے ساتھ اس کی نسبت احاطہ کی حقیقت سے پوری طرح واقف ہیں۔ اعیان میں وجود حقیقی، ازلی و مطلق نہیں جھلکتا کہ وہ وراء الوراء ہے بلکہ بذریعہ تجلی جو جھلکتا ہے وہ وجود کے مقابلے میں بس سائے و عکس کی مانند ہے یا اس سے بھی کم تر ہے نیز وہ بھی اس وجود کا عکس جو صفات و اسماء کے مرتبے پر متحقق ہوا ۔ جب خود "ہمارے وجود" کی ماہیت ہی ہم پر واضح نہیں تو اس سے پرے معاملے میں سوائے حیرت اور کچھ میسر نہیں۔ ذات باری کو عالم سے ایسی وجودی معیت حاصل ہے جس کی حقیقت ہم پر واضح نہیں۔ امام غزالی اس کی مثال یوں دیتے ہیں کہ جیسے ایک صاحب مال اپنے کنگلے غلام کو کپڑے و گھوڑا وغیرہ دے کر اس کا نام مالک رکھ دے تو اس نام رکھنے سے وہ حقیقتاً تو کجا مجازاً بھی غنی نہیں بنے گا کیونکہ عاریتاً مال حاصل کرنے والا یہ غلام اب بھی اسی طرح فقیر ہوگا جیسے پہلے تھا اور غنی صرف مال دینے والا ہی کہلائے گا کہ اسی کی جانب رجوع اور ابتدا ہے89۔ پس اسی طرح آئینہ وجود میں اعیان کے عکس جھلکنے پر انہیں موجود ہونے کا شہود عطا کر دینے سے وہ اعیان "وجود" سے متصف نہیں ہوجاتے بلکہ وجود کے مقابلے میں کالعدم ہی رہتے ہیں۔ صوفیہ "وجود واحد" کے مسئلے میں اسی طرح حیرت میں ہیں جیسے اشاعرہ مسئلہ جبر و قدر میں "فاعل واحد" کے مسئلے میں حیرت میں ہیں، یعنی دلیل قطعی سے اتنا تو ثابت ہے کہ فاعل حقیقی ایک ہی ہوسکتا ہے، رہی بندے کی فاعلیت تو اس کی حقیقت معلوم نہیں۔ اسی طرح صوفیہ بندے کے وجود کو کبھی غیر حقیقی کہتے ہیں تو کبھی سایہ۔ اسی لئے امام غزالی کہتے ہیں کہ توحید کے ادراک کا تیسرا درجہ "لا فاعل الا اللہ" ہے تو چوتھا درجہ "لا موجود الا اللہ"90، نیز کہتے ہیں کہ جس طرح سورج تمام عالم میں پھیلنے والے نور کا سرچشمہ ہے، اسی طرح وہ معنی جسے ادا کرنے سے عبارت قاصر ہے اور جسے قدرت ازلیہ کے نام سے موسوم کیا گیا وہ اس وجود کا سرچشمہ ہے جو تمام موجودات پر فائز ہوا، لہذا اس معنی میں خدا کے سوا کوئی شے موجود نہیں91۔ روشنی کی یہ مثال قرآنی آیت اللّہُ نُورُ السَّمَاوَاتِ وَالْأرْضِ (بے شک اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے) میں بیان کردہ مثال سے ماخوذ ہے۔ شیخ ابن عربی اس معاملے کو بیان کرنے کے لئے حدیث کے الفاظ "نفس الرحمان" اور "عماء" نیز قرآنی الفاظ "كَلِمَاتُ اللّہِ" استعمال کرتے ہیں، یعنی یہ عالم اللہ کے کلمات ہیں92۔

خلاصہ بحث

درج بالا بحث سے واضح ہوا کہ:

  • "وجود" یا "پایا جانا" ایسی بلند تر صفت ہے جو تمام موجودات کے مابین کسی نہ کسی طور پر برزخی کیفیت کے ساتھ مشترک ہے۔ "دو مستقل وجود اور موجود" کا مفروضہ نہیں مانا جا سکتا کہ یہ ثنویت و کھلا ہوا شرک ہے۔ اولاً موجود ایک ہی ذات کو ماننا ہوگا، اس کے بعد جب مخلوق کے موجود ہونے کی بات ہوگی تو تین باتیں ماننا ہوں گی:
    الف) اس کا وجود مستقل نہیں عطائی ہوگا
    ب) اس وجود کا ماخذ و منبع مستقل وجود مطلق ہی ہو سکتا ہے
    ج) اس ماخذ کے ساتھ اسے گوں نا گوں "ھو" کی نسبت ہوگی، یعنی وجود مطلق، مستقل یا واجب اور وجود متعین، محتاج یا ممکن کے مابین وجود کی نسبت مشترک ہوگی
    اس کے بعد صوفیہ کا کہنا ہے کہ مستقل وجود کے مقابلے پر محتاج وجود کو سائے، خیال و عکس وغیرہ سے زیادہ نسبت نہیں۔ اس اعتبار سے یہ قول کہ "موجود صرف ذات باری ہے (لا موجود الا اللہ)" دو معانی کا حامل ہے:   
    1) اس کے سوا دیگر موجودات کالعدم ہیں     
    2) محتاج وجود مستقل وجود سے قائم ہونے کی بنا پر اس کے ساتھ "ھو" کی نسبت رکھتا ہے کہ عکس کا قیام بدون وجود ممکن نہیں
  • صوفیہ جنہیں تجلیات، تنزلات یا مراتب وجود کہتے ہیں، ان میں ایسی کوئی تعلیم نہیں جسے اتحاد یا حلول کی صورت شرک قرار دیا جا سکے، ایسے فتوے ان کے موقف کو نہ سمجھنے کی بنا پر جاری کئے جاتے ہیں اور اس غلط فہمی کی وجہ صوفیہ کی عبارات کو ان کے مخصوص نظرئیے سے ہٹا کر پڑھنا اور پھر ان کے شرکیہ لوازمات پیدا کر لینا ہے وہ بھی ایسے جن کے وہ صراحتاً منکر ہیں
  • شیخ کے ہاں لاتعین، وجود مطلق اور وجود متعین کے درجات بیک وقت اتصال و انفصال، تنزیہہ و تشبیہہ نیز ظہور و خفا جیسے امور کسی درجے میں قابل فہم بنا دیتے ہیں اور نتیجتاً متعدد نصوص کے ظاہری معنی درجہ خفا کے ساتھ متعین ہوتے ہیں
  • اس نظام فکر کے بعض اجزاء عقلی استدلال پر مبنی ہیں، بعض نصوص پر اور بعض کا تعین الہام و کشف پر مبنی ہے۔ صوفیہ کا کہنا ہے کہ کشف و الہام سے انہی امور کی جزوی تفصیل معلوم ہونا ممکن ہے جن کے نشان راہ نبی کی وحی نے مقرر کر دئیے ہوں

جو لوگ شیخ ابن عربی اور صوفیہ کی فکر کے بارے میں یہ کہتے ہیں کہ انہوں نے ساری فکر گویا افلاطون (م 347 ق م) سے مستعار لی ہے، ہم ان سے کہتے ہیں کہ وہ افلاطون اور نیو افلاطونی فکر سے ہمیں وجود کے یہ پانچ مراتب تلاش کر کے دکھائیں۔ افلاطون کے ہاں بس ایک ایسے عالم مثال کا ذکر ملتا ہے جہاں اس عالم ناسوت کی اشیاء بایں معنی ایک مثالی صورت میں موجود ہیں کہ عالم ناسوت میں اس مثالی شے کی کاپیاں ظاہر ہوجاتی ہیں۔ مثلاً خارج میں جو "انسان" پائے جاتے ہیں وہ لمبے و چھوٹے قد، موٹے و پتلے، گورے و کالے، بھوری و کالی آنکھ وغیرہ والے ہوتے ہیں۔ رہا ذہن میں متصور ہونے والا وہ "مجرد انسان" جو ان تمام تشخصات سے پاک ہو، تو وہ خارجی مشاھدے میں نہیں آتا کہ خارج میں ہر انسان ایسے تشخصات کے ساتھ ہی ہوتا ہے۔ یہاں سے سوال پیدا ہوا کہ آخر ان تشخصات سے پاک اس "مجرد انسان" کے تصور کا ماخذ کیا ہے؟ اس کا جواب دینے کے لئے افلاطون کہتے ہیں کہ ذہن میں موجود مادی تشخصات وغیرہ سے پاک تصور انسان کا منبع عالم مثال میں موجود "مثالی انسان" ہے جس کی کاپیاں مختلف انسانوں میں یہاں ظاہر ہو جاتی ہیں۔ افلاطون کے اس عالم مثال کو شیخ ابن عربی کی فکر میں "اعیان ثابتہ" کے مشابہہ کہا جاتا ہے جبکہ یہ موازنہ بھی غلط ہے کیونکہ شیخ کے ہاں کسی شے کی کاپی ظاہر ہونے کا کوئی تصور موجود نہیں۔ عالم ناسوت میں ظاہر ہونے والی ہر شے یکتا طور پر مرتبہ اعیان میں ثابت ہے اور وہ اپنی یکتا استعداد کے ساتھ اللہ تعالی کی یکتا مخلوق -کے طور پر موجود ہوتی ہے اور ہر ہر شے میں انفرادیت و یکتائیت کا یہ احساس بھی اس بنا پر ہے کہ اس پر ذات باری کی صفت "ھویت" کی تجلی ہے۔ پھر افلاطون یہ نہیں بتاتے کہ آخر عالم مثال کی ان مثالی صورتوں کا منبع کیا ہے جبکہ شیخ اعیان ثابتہ کو ذات باری کے اسماء و صفات کے ساتھ جوڑ کر اس خلا کو پر کرتے ہیں۔ شیخ کی فکر سے قبل فلسفے کے معلوم نظریات میں یہ بات کسی کے ہاں نہیں ملتی کہ عالم ذات باری کی صفات و اسماء کی تجلی ہے، مباحث وجودیات و کاسمولوجی میں یہ ان کا خصوصی کنٹریبیوشن ہے۔ اس کی ایک وجہ شاید یہ ہے کہ ذات باری کے اسمائے حسنی کی جو تفصیل قرآن و سنت میں مذکور ہے، پچھلی امتوں کی دستیاب کتب میں وہ مفقود ہے۔

بعینہہ ناقدین کا یہ تبصرہ بھی بے معنی ہے کہ توحید وجودی کی فلاں صورت مثلاً شنکر اچاریہ (م820ء) کے ہاں بھی موجود تھی۔ یہ ایسا ہی اعتراض ہے جیسے عیسائی و ھندو وغیرہ یہ کہتے ہیں کہ قرآن میں بہت سی تفصیلات بائبل یا ویداؤوں سے ماخوذ ہیں۔ چنانچہ دیکھنے کی بات یہ ہے کہ کیا ھندو تعلیمات نے بھی توحید وجودی کی یہی تفصیل پیش کی تھی یا وہ "ہمہ اوست" (سب کچھ خدا ہے) کا نظریہ تھا؟ سنسکرت ماخذات کے مطابق اس ضمن میں ایک مشہور نظریہ یہ تھا کہ "پرماتما سو گیا ہے اور یہ عالم جس میں ہم جی رہے ہیں یہ اس کا خواب ہے"۔ کیا صوفیہ نے اسے قبول کیا؟ بھلا وہ اسے کیسے قبول کر سکتے تھے جبکہ قرآن نے ذات باری کی شان "لَا تَأخُذُہُ سِنَۃ وَلَا نَوْم"93 (نہ اسے انوگھ آتی ہے اور نہ نیند) بتائی ہے؟ ہم دیکھتے ہیں کہ صوفیہ نے اگر مثال لی تو نور، سائے اور آئینے کی، اول الذکر دو قرآن سے لی گئی ہیں اور تیسری حدیث سے (کہ اللہ نے آدم کو اپنی صورت پر پیدا کیا)۔ چنانچہ اگر یہ ثابت بھی ہوجائے کہ صوفی فکر کے بعض اجزاء ھندو تعلیمات میں موجود تھے تب بھی دیکھنے کی چیز یہ ہے کہ کیا صوفیہ نے اس کی تفصیل کو نصوص کے تقاضوں کے پیش نظر توحید کے اسلامی تصور سے ہم آہنگ رکھا یا نہیں؟ کیا خود عدم سے تخلیق کا نظریہ بھی پچھلی امتوں میں موجود نہیں رہا؟ تو کیا اسے بھی اس بنا پر رد کر دیا جائے کہ یہ نظریہ تو ماقبل اسلام ایک عیسائی پادری جان فلاپنس (م570ء) نے بیان کیا تھا؟

الغرض کسی بھی مفکر کی فکر میں اپنے سے ماقبل مفکرین کی فکر سے جزوی مماثلتیں موجود ہونا کوئی انوکھی بات نہیں۔ اصل کنٹریبیوشن وہ مجموعی تصویر ہوتی ہے جو ایک شخص پہلے سے میسر اجزاء کے ساتھ چند نئے اجزاء ملا کر پیش کرتا ہے۔ مجموعی تصویر دیکھ لینے کے بعد پہلے سے موجود بعض اجزاء کے ساتھ جزوی مماثلتیں تلاش کر لینے سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ پوری تصویر ہی کسی سے مستعار ہے۔

آخری بات یہ کہ "مائیتھالوجی" کے لفظ سے اگرچہ لوگ چڑنے لگے ہیں، تاہم ہر مذہب کی ایک مائیتھالوجی ہوتی ہے (مائیتھالوجی کو ڈی گریڈ کرنے کے پس پشت فکر انسانی کے ارتقاء سے متعلق بعض جدید فلاسفہ کے اس قسم کے خیالات بھی ہیں کہ پہلےدور کا انسان مائیتھالوجی پر یقین کرتا تھا، پھر فلسفہ آگیا اور پھر سائنس کے بعد اس کی ضرورت ختم ہوگئی وغیرہ)۔ مائیتھالوجی سے ہماری مراد عالم ناسوت یا عالم مشاھدہ سے ماوراء حقائق ہیں جن کے علم کا بنیادی ماخذ انبیاء کی وحی ہوتی ہے۔ دیگر مذاہب کی طرح اسلام کی بھی اس معاملے میں کوئی تخصیص یا استثناء نہیں کہ درج بالا معنی میں یہ بھی مائیتھالوجی کا حامل ہے۔ بھلا اہل اسلام اس معنی میں مائیتھالوجی سے کس طرح شرمسار ہو سکتے ہیں جبکہ قرآن و سنت ایسے امور کے بیانات سے بھرے ہوئے ہیں؟ مثلاً قصہ آدم و حوا علیہما السلام اور ابلیس، ذریت آدم سے عہد الست لیا جانا، زمین و آسمان و پہاڑوں پر امانت کا پیش کیا جانا وغیرہ جیسے امور کا انکار بھلا کیسے ممکن ہے؟ اسلامی مائیتھالوجی کی تدوین صوفی فکر نے کی ہے اور ذات باری کے اسماء حسنی اس اسلامی مائیتھالوجی کی بنیاد ہے۔ شیخ ابن عربی کو اس لئے بھی "شیخ اکبر" کہا جاتا ہے کہ وہ اس علم کے اسی طرح مدون ہیں جیسے امام شافعی (م820ء) اصول فقہ کے۔

حواشی

51.   القرآن: النور 35 

52.   مشکاۃ الانوار: 63 – 64 

53.  الفتوحات المکیۃ:  2 / 21  ، نیز 2/ 160 ، نیز 3 / 484 

54.   القرآن: الحدید 3 

55.   صحیح مسلم: 2577 

56.   الفتوحات المکیۃ:  2 / 484   

57.   الفتوحات المکیۃ:  3 / 449 

58.   القرآن: فصلت 53 

59.   مشکاۃ الانوار 57 

60.   القرآن:القصص 30 

61.   سنن نسائی: 1620  

62.   شعب الایمان لبیہقی،: 3837 

63.   احیاء العلوم: 4 / 87

64.   احیاء العلوم: 4 / 86 

65.   القرآن:ھود 123 

66.   شرح معانی اسماء الحسنی  49 

67.   مشکاۃ الانوار 63 

68.   القرآن:فصلت 53 

69.   الفتوحات المکیۃ:  1 / 366 – 367   نیز 3/ 224  نیز 3 / 378 

70.   القرآن:الرحمن 19-20 

71.   الفتوحات المکیۃ:  3 / 347 

72.   الفتوحات المکیۃ:   2 / 438 ، نیز  2 / 303  

73.   الفتوحات المکیۃ:  4/ 193 

74.   القرآن:فصلت 53 

75.   القرآن:فصلت 54 

76.   الفتوحات المکیۃ:  2/ 516 

77.   القرآن:الانفال 17 

78.   الفتوحات المکیۃ:   2 / 216 

79.   القرآن:الحدید 4 

80.   القرآن:المجادلۃ 7 

81.   القرآن:ق 16 

82.   القرآن:الواقعۃ 85 

83.   القرآن:ق 16 

84.   القرآن:البقرۃ 115 

85.   القرآن:الانعام 3 

86.   القرآن:نور 35 

87.    ترمذی: 3298 

88.   الفتوحات المکیۃ: 3 / 405 

89.   مشکاۃ الانوار 54 

90.   احیاء العلوم: 4 / 245 – 246 

91.   شرح اسماء الحسنی 58 

92.   الفتوحات المکیۃ: 2 / 390 ، نیز 3 / 148۔ عالم کو کلمۃ اللہ کہنے کا استدلال کلمۃ "کن" نیز قرآن مجید میں حضرت عیسی علیہ السلام کو "کلمۃ اللہ" کہے جانے سے ہے  (آل عمران 45، النساء 171) 

93.   القرآن:البقرۃ 255 


آراء و افکار

(الشریعہ — جولائی ۲۰۲۴ء)

الشریعہ — جولائی ۲۰۲۴ء

جلد ۳۵ ۔ شمارہ ۷

محترم مجیب الرحمٰن شامی کی خدمت میں!
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

اردو تراجمِ قرآن پر ایک نظر (۱۱۴)
ڈاکٹر محی الدین غازی

قرآن کی سائنسی تفسیر
ڈاکٹر ظفر اسحاق انصاری

صوفیہ، مراتبِ وجود اور مسئلہ وحدت الوجود (۳)
ڈاکٹر محمد زاہد صدیق مغل

تصوراتِ محبت کو سامراجی اثرات سے پاک کرنا (۳)
ڈاکٹر ابراہیم موسٰی

انسانی نفس کے حقوق اسلامی شریعت کی روشنی میں
مولانا ڈاکٹر عبد الوحید شہزاد

تحفظ ماحولیات میں اسلام کا کردار و رہنمائی
مولانا محمد طارق نعمان گڑنگی

یوم نکبہ اور فلسطینیوں کے لیے اس کی اہمیت
اسلامک ریلیف

رُموزِ اوقاف
ابو رجب عطاری مدنی

سینیٹر مشتاق احمد کے ’’غزہ بچاؤ دھرنا‘‘ میں مولانا زاہد الراشدی کی شرکت
سید علی محی الدین

قائدِ  جمعیۃ مولانا فضل الرحمٰن کی صحبت میں چند ساعتیں!!
مولانا حافظ خرم شہزاد

سوال و جواب
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

’’الجامع المعین فی طبقات الشیوخ المتقنین والمجیزین المسندین‘‘
ڈاکٹر محمد اکرم ندوی

A New Round of the Qadiani Issue
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

The Pseudo-Believers of the State of Madina
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

تلاش

Flag Counter