قادیانی مسئلے میں مختلف بیانیے

محمد زاہد صدیق مغل

حکومت کی طرف سے عاطف میاں  قادیانی کے بطور مشیر تقرر کولے کر قادیانی مسئلے پر ایک مرتبہ پھر نئے سرے سے بحث ہوئی جس میں مختلف فکری رجحانات کے احباب نے اپنی رائے کا اظہار کیا۔ اس مختصر تحریر میں ان متعدد آراء کا ذکر کیا جاتا ہے ۔ اس ضمن میں چار مواقف سامنے آئے ہیں اور چاروں سے الگ قسم کے نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ 

(۱) سیکولر بیانیہ: مسلم و قادیانیت کی مساوات

لبرل سیکولر فکر چونکہ فرد کی آزادی کے عقیدے پر ایمان کی دعوت دیتی ہےجس کے مطابق حقوق کا ماخذ انسان خود ہے، لہذا اس فکر کے مطابق ریاست کو حق نہیں کہ وہ آزادی کے سواء کسی دوسرے عقیدے کی بنیاد پر یا اس کے فروغ کے لئے افراد کی زندگیوں میں تصرف کرے۔ اس فکر کے مطابق ہیومن رائیٹس وہ قانونی فریم ورک فراہم کرتا ہے جو فرد کی جدوجہد آزادی (سرمایہ) کے فروغ کے لئے سب سے زیادہ مفید ہے۔ لہذا اس فکر کے حامل حضرات کے نزدیک کسی بھی ارادے، چاہے وہ ارادہ خدا کا ہو، فرد کا اور یا کسی گروہ کا (مثلا سو فیصد عوام کا) یہ حق نہیں کہ وہ ان حقوق کو معطل کرسکے۔ ہر ارادے پر لازم ہے کہ وہ تنویری مفکرین (enlightenment philosophers) کے وضع کردہ نظریات سے برآمد ہونے والے ان حقوق کی پابندی کرے، ان سے متصادم ہر ارادہ و رائے ظلم و قابل تنسیخ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس نظریاتی فریم ورک کی رو سے کسی ریاست کا غیر ہیومن رائٹس فریم ورک کی بنیاد پر کسی شخص کو کافر قرار دے کر اسے چند ہیومن رائٹس سے محروم کرنا زیادتی ہے۔ اس نظریے کے مطابق مسلمان و قادیانی ہونا چونکہ مساوی طور پر لغو بات ہے لہذا کسی بھی قانونی و انتظامی عہدے کے لیے ان کی بنیاد پر افراد کے مابین فرق کرنا ظلم ہے۔ چنانچہ پاکستان کے سیکولر طبقات قادیانی مسئلے کو اس بنیاد پر ایڈریس نہیں کرتے کہ انہیں قادیانیوں کے غیر مسلم قرار دئیے جانے سے کوئی علمی مسئلہ لاحق ہے یا وہ انہیں مسلمان قرار دینا چاہتے ہیں، ان کی فکر کی رو سے بھلے سب ہی مسلمان کافر ہوجائیں، تب بھی کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ کافر یا مسلمان ہونا مساوی طور پر لغو بات ہے۔ ان کے نزدیک مسئلہ یہ ہے کہ ریاست نے کسی ایسی فکر کی بنیاد پر فیصلہ ہی کیوں کیا جو ان کی شریعت یعنی ہیومن رائٹس سے متصادم ہے؟ 

ان حضرات کے بیانئے پر غور کیجیے تو معلوم ہوگا کہ یہ بیانیہ بعینہ اسی نوعیت کا ایک مذہبی بیانیہ ہے کہ "ریاست کو یہ حق نہیں کہ وہ اسلامی شریعت کے خلاف کوئی قانون وضع کرے، اس پر لازم ہے کہ وہ اسلام کی پابندی کرے"۔ دوسری بات یہ کہ اسلام تو یہ مطالبہ اصولا اسی نظم اجتماعی سے کرتا ہے جو اس کے ماننے والوں کی رائے سے تعمیر ہوا ہو، اس کے برعکس شریعت ہیومن رائٹس والوں کے مطابق اس دنیا کے سب انسانوں پر لازم ہے کہ وہ اس کی پابندی کریں، چاہے وہ اسے مانتے ہوں یا نہ مانتے ہوں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ شریعت ہیومن رائٹس والوں کے نزدیک ہیومن رائٹس کی شریعت پر عمل نہ کرنے والی ریاست فاشسٹ ریاست ہوتی ہے! شاعر نے اسی کے لئے کہا تھا کہ خرد کا نام جنوں رکھ دیا جنوں کا نام خرد۔ اور اس سے بھی زیادہ دلچسپ بلکہ افسوس ناک بات یہ ہے کہ اس ملک کے مذہبی سیکولر طبقات ان حضرات کی گفتگو پر "واہ واہ" کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

سیکولر فکر کی بنیادوں پر گفتگو کا یہ موقع نہیں، مختصرا یہ یاد رکھنا چاہئے :

  • یہ سمجھنا کہ حقوق کا ماخذ خود انسان ہے دراصل انسان کو خود اپنا خدا قرار دینا ہے
  • یہ سمجھنا کہ “انسانی حقوق” از خود واضح ہیں، ایک ایسا ایمان بالغیب ہے جس کی کوئی دلیل موجود نہیں
  • یہ سمجھنا کہ “انسانی حقوق” ان معنی میں کوئی واقعاتی امر ہے کہ یہ سب انسانوں کی اجتماعی رائے سے وجود میں آئے ایک نظریاتی غلط فہمی ہے کیونکہ ایسا واقعہ کبھی نہیں ہوا۔ نیز اگر یہ واقعی واقعاتی ہوں تو کسی دوسرے واقعاتی اجماع سے انہیں رد کرنا بھی جائز ہو جو مفکرین انسانی حقوق کے نزدیک کسی صورت جائز نہیں۔ تو معلوم ہوا کہ یہ واقعاتی شہادت پر نہیں بلکہ نظریاتی الل ٹپ پر مبنی ہیں۔ درحقیقت ان حقوق کو کسی واقعاتی شہادت کی ضرورت ہی نہیں، اس کے قائل مفکرین انہیں بس “بدیہی مانتے” ہیں جن کے لئے کوئی دلیل پیش کرنے کی ضرورت نہیں۔ رالز ان کے لئے کوئی دلیل پیش نہیں کرتا کیونکہ دلیل پیش کرنے کا مطلب تو یہ ہوا کہ یہ بدیہی نہیں۔ اس کا شارح ڈربن کہتا ہے کہ ان کا انکار کرنے والوں کو تو بس قتل ہی کیا جاسکتا ہے۔

(۲) ترجیحی بیانیہ: غیر مسلموں میں سے قادیانیوں کی اولیت

اس بیانیے کی رو سے کسی مسلمان کا نبوت کا اعلان کرنا اور دیگر کا اسے قبول کرنا کفر کو تو مستلزم ہے مگر اس کے قائل کے قتل کو مستلزم نہیں۔ لہذا ایسا دعوی کرنے والے لوگ اسی طرح کے کافر ہیں جیسے اہل کتاب وغیرہ۔ البتہ جس طرح اہل کتاب کو مشرکین کے مقابلے میں اس بنیاد پر ترجیح حاصل ہے کہ وہ تاریخ، عقائد و مسائل کے معاملے میں مسلمانوں سے قریب تر ہیں، اسی طرح قادیانیوںکو دیگر غیر مسلموں پر اخلاقی ترجیح حاصل ہوگی۔ اس بیانیے کے مطابق مختلف گروہوں کی ترتیب کچھ یوں ہے: مسلمان، قادیانی، اہل کتاب و دیگر غیر مسلم۔ چنانچہ اس سے یہ منطقی نتیجہ برآمد ہوتا ہے کہ قانونی و انتظامی عہدوں کی تقسیم کے باب میں بھی اس ترتیب کو مد نظر رکھنا لازم ہے۔ البتہ یہ بیانیہ امت کی مجموعی علمی تاریخ کے ساتھ ہم آہنگ نہیں اور چند ایسے مفروضات (قانون اتمام حجت مع متعلقات) پر مبنی ہے جو ثابت شدہ نہیں۔ چونکہ یہ بیانیہ نفس مسئلہ کی درست تشخیص نہیں کرتا، لہذا اس سے برآمد شدہ نتائج اس مسئلے پر امت کی ترجمانی نہیں کرتا اور نہ ہی اس کی بنیاد پر یہ سمجھنا ممکن ہے کہ آخر مسلمان اس مسئلے پر اس قدر حساسیت کا مظاہرہ کیوں کرتے ہیں۔ اس بیانئے کے مطابق مسلمانوں کا یہ طرز عمل غیر عقلی و غیر شرعی ہے۔ 

(۳) عدم ترجیحی بیانیہ: غیر مسلموں کے مابین مساوات

یہ بیانیہ بھی ثانی الذکر بیانیے کی طرح اعلان نبوت کو قابل قتل جرم تصور نہیں کرتا، ہاں یہ کفر کو مستلزم ہے۔ البتہ اس خیال کےمطابق ثانی الذکر کے برعکس قادیانیوں کو دیگر غیر مسلموں پر ترجیح دینے کی ضرورت نہیں۔ اس تصور کے حامل افراد کے خیال میں مسلمانوں کو قادیانیوں کے ساتھ اسی طرز کا معاملہ کرنا چاہیے جو دیگر غیر مسلموں کے ساتھ مشروع ہے اور اس معاملے میں اس سے زیادہ حساسیت اعتدال سے ہٹ جانا ہے۔ یہ ایک عمومی نوعیت کا بیانیہ ہے جو عام لوگوں (یا چند اخباری کالم نویسوں وغیرہ) میں مشہور ہے۔ 

(۴) فقہی بیانیہ

اس بیانیے کے مطابق اعلان نبوت نہ صرف کفر کو مستلزم ہے بلکہ اس کا دعوی کرنے والے کے لیے موجب قتل بھی ہے۔ امت مسلمہ کی تاریخ میں اسی رائے کو معتبر سمجھا گیا ہے۔ کسی مسلمان کا اعلان نبوت کرنا اور دوسروں کا اسے قبول کرنا دراصل امت کے اندر امت کھڑی کرنے کے مترادف ہے ۔ اسلامی تاریخ بتاتی ہے کہ مسلمانوں کے اندر ایک متوازی امت کاچیلنج کبھی پیدا نہیں ہو سکا جسکی وجہ یہ تھی کہ کسی جھوٹے مدعی نبوت کو اتنی مہلت ہی نہ دی گئی کہ وہ کوئی متوازی امت کھڑی کرسکے، اس سے قبل ہی اسے ٹھکانے لگا دیا گیا۔ نجانے کیوں مسلمانوں نے مرزا قادیان کو یہ موقع دیا، مسئلے کی ابتداء یہاں سے ہوئی۔ یہ بات اگر واضح ہو تو دوسرے بیانئے کی غلطی از خود واضح ہوجاتی ہے جو دعوی نبوت کرنے والے کو دیگر غیر مسلموں کی طرح تصور کرتا ہے کیونکہ دیگر غیر مسلموں کے ساتھ قتال کی بنیاد ان کا غیر مسلم ہونا نہیں جبکہ دعوی نبوت کرنے والے اور اس کے ماننے والے مرتدین کے ساتھ اس کی بنیاد عین ان کا یہ دعوی کرنا ہے۔ لہذا اصل حکم کو معطل کرکے پھر انھیں کسی دوسرے غیر مسلم گروہ پر قیاس کرکے ان سے زیادہ رعایت دینا باطل قیاس ہے۔ 

قیام پاکستان کے بعد جب مسئلہ قادیانی اٹھا تو اس گروہ کی شرعی حیثیت متعین کرتے ہوئے ایک ایسی نسل کا معاملہ بھی شامل بحث ہوچکا تھا جو پیدائشی طور پر قادیانی تھی۔ ایسے لوگ جو پیدائشی طور پر قادیانی ہوں، چونکہ ان کا حکم عام کفار کی طرح ہوا کرتا ہے لہذا پوری بحث و تمحیص اور فریق مخالف کا مقدمہ سن چکنے اور اسے وضاحت کا پورا موقع دیے جانے کے بعد آئین پاکستان میں قادیانیوں کی اصولا یہی حیثیت متعین کی گئی کہ یہ لوگ دیگر غیر مسلموں کی طرح سمجھے جائیں گے۔ البتہ آئین پاکستان اس بارے میں خاموش ہے کہ اگر کوئی مسلمان اب قادیانیت کو اختیار کرے گا تو اس کا حکم کیا ہوگا؟ اس ابہام کو شاید مستقبل میں کبھی دور کرنے کی ضرورت آپہنچے۔ مگر یہاں یہ بات ذہن نشیں رہنی چاہئے کہ پاکستانی قانون کی یہ خاموشی صرف قادیانیوں کے معاملے میں نہیں ہے بلکہ ارتداد کے معاملے پر ہے، یعنی اگر کوئی مسلمان ہندو یا عیسائی بھی ہوجائے تو بھی پاکستانی قانون کی رو سے وہ واجب القتل نہیں ہوتا (ہاں اس کی زوجہ کو عدالت کے ذریعے فسخ نکاح کا حق میسر ہے۔(پاکستانی قانون میں ارتداد کی صرف ایک صورت پر قتل کی سزا ہے اور وہ ہے توہین رسالتﷺ۔ 

اس قانونی پوزیشن کو اختیار کئے جانے کا یہ منطقی تقاضا تھا کہ قادیانی پر نظر رکھی جائے کہ کہیں یہ مسلمانوں کا بھیس اختیار کرکے عوام کو دھوکہ تو نہیں دیتے، یعنی اس قانون کا یہ تقاضا تھا کہ یہ لوگ خود کو مسلمان نہ کہیں۔ لیکن چونکہ یہ لوگ اس سے باز نہیں آتے بلکہ الٹا نہ صرف یہ کہ مسلمانوں کو کافر کہتے ہیں اور ان کے شعائر اختیار کرکے عوام الناس کو دھوکے و تلبیس کے ذریعے اپنے دین کی طرف مائل کرتے ہیں، اتنا ہی نہیں بلکہ ہر طرح سے مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کے لئے سازش کرتے ہیں لہذا 1984 پاکستان کے فوجداری قانون میں 298 بی اور سی کی شقیں شامل کی گئیں جن کی رو سے جو قادیانی خود کو مسلمان کہے نیز اس کی تبلیغ کرے اسے دھوکہ دہی کے جرم میں تین سال قید کی سزا دی جائےگی۔ پھر 1993 میں سپریم کورٹ نے یہ واضح کیا کہ یہ فوجداری سزائیں آئین میں دینا شدہ حقوق سے متصادم نہیں ہیں۔ جس طرح ہر معاشرے میں لوگ دھوکہ باز گروہوں سے خوب خبردار رہتے ہیں، اسی طرح مسلمان بھی اس دھوکہ باز گروہ سے خبردار رہتا ہے کیونکہ یہ اپنی دھوکہ دہی سے نہ صرف یہ کہ بازنہیں آتا بلکہ اس دھوکے ہی کے حق ہونے پر اصرار کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب کبھی کسی قادیانی کو کوئی انتظامی نوعیت ہی کا عہدہ دینے کا معاملہ درپیش ہو تو مسلمان اس پر سخت رد عمل کا مظاہرہ کرتے ہیں اور انہیں ہر طرح سے معاشرتی اخراج کا شکار کرکے پینپنے کے مواقع نہیں دیتے۔ عاطف میاں کے بارے میں تو مشہور ہے کہ وہ پیدائشی نہیں بلکہ کنورٹڈ قادیانی ہے اور باقاعدہ اس کی تبلیغ کرتا ہے۔ ایسا شخص پاکستانی قانون کی رو سے سزا کا مستحق ہے نہ کہ کسی عہدے کا۔ اگر قادیانی چاہتے ہیں کہ انہیں ان کے آئینی حقوق میسر ہوں تو پہلے انہیں جرم کرنے سے باز آنا ہوگا۔

چنانچہ مسئلہ قادیانیت کو امت کے تاریخی، فقہی و سماجی پس منظر سے کاٹ کر اسے کوئی فوری واقعاتی معاملہ سمجھ کر تجزیہ کرنے سے یہ کبھی واضح نہیں ہوسکتا کہ مسلمانان پاکستان قادیانیوں کے ساتھ ایسا سلوک کیوں کرتے ہیں۔ امت کا یہ مزاج نہیں کہ وہ ایک متوازی امت کو قبول کرلے۔ 

آراء و افکار

(ستمبر و اکتوبر ۲۰۱۸ء)

تلاش

Flag Counter