ب) مرتبہ واحدیت اور اعتبارات شئون
مرتبہ "واحدیت" (یعنی زیریں قوس) میں وجود و عدم کے بعض تعینات شامل ہو جاتے ہیں، یعنی یہاں ذات واحد کی صفت وجود بعض اعتبارات سے جمع یا کثرت کی صورت اختیار کر لیتی ہے۔ عدم کا مطلب وجودی قضئے کی نفی ہے، وجود مطلق کے مدمقابل عدم محض آتا ہے (یعنی "وجود ہے" کے حکم کی نفی "وجود نہیں ہے" بنتی ہے)۔ پھر جوں جوں وجود مطلق کے ساتھ تخصیص کرنے والے احکام لاگو ہوتے جاتے ہیں، "وجود مطلق" متعین و مقید بن جاتا ہے۔ مثلاً "گھر ہے" ایک مطلق حکم ہے، جبکہ "نیلا گھر ہے" یا "چھوٹا گھر ہے" وغیرہ مقید احکام ہیں۔ اسی طرح "گھر نہیں ہے" کے مقابلے میں "نیلا گھر نہیں ہے" مقید نفی یا عدم ہے۔ اسی طرز پر وجود مطلق اگر "نرا ہونا ہے" تو مثلاً "قدرت کا ہونا" وجود مقید ہے (یعنی وجود قدرت کی قید کے ساتھ پایا جا رہا ہے)، وجود محض کی نفی اگر عدم محض ہے تو "قدرت نہیں ہے" عدم خاصہ ہے (عدم کا تصور یہاں علمی ہے نہ کہ وجودی)۔ تمام تخصیصی تفصیلات یا احکام اگرچہ کسی مقید چیز کے وجود کے تابع ہوتے ہیں، تاہم مرتبہ اطلاق میں وہ ثابت ہوتے ہیں۔ مثلاً "گھر نہیں ہے" میں "نیلا گھر نہیں ہے" شامل ہے، اسی طرح "نیلا گھر ہے" کا حکم "گھر ہے" میں شامل ہے (کہ "گھر ہوگا" تبھی وہ نیلا ہوگا، اگر گھر ہی نہیں تو نیلے کا سوال نہیں)۔
مرتبہ احدیت و واحدیت میں اطلاق و تقیید کا اسی طور پر فرق ہے، موخر الذکر میں بعض کثرتی اعتبارات پائے جاتے ہیں۔ واحدیت کے یہ کثرتی اعتبارات چار ہیں جنہیں "شناخت شئون" بھی کہتے ہیں (شئون لفظ شان سے ہے)۔ اگلے تنزلات میں ان شئون کے تحت صفات ہیں اور اس کے تحت اسماء اور اس سے افعال کا صدور ہے۔ واحدیت کے چار اعتبارات یہ ہیں: وجود، نور، علم و شہود10۔
- وجود: کُل اسمائے غیر مشروطی کی قابلیتِ محض کو کہتے ہیں
- نور: کُل اسماء مشروطی کی قابلیتِ محض ہے
- شہود: قابلیتِ شرائط اسماء ہے
- علم: ان تینوں پر محیط ہے
اسمائے مشروطی اور غیر مشروطی سے مراد اپنے معنی کے لحاظ سے متعددی و غیر متعددی مفہوم رکھنے والے اسماء ہیں۔ جہاں توجہ سیدھی الله کی جانب ہو وہ غیر مشروطی اسماء ہیں، ان کے ظہور کی جہت ذات باری خود ہی ہے۔ مثلاً الحی کا معنی غیر متعددی ہیں نیز اس کے مفہوم کے لئے ذات باری کے سوا کسی غیر کا تصور ہونا ضروری نہیں، اس لئے یہ غیر مشروطی اسم ہے جبکہ المحی (حیات دینے والا) مشروطی اسم ہے کیونکہ المحی میں خیال ذات کے علاوہ کسی غیر کی طرف بھی جاتا ہے جبکہ الحی میں توجہ غیر کی جانب نہیں جاتی۔ جو المحی ہے وہ الحی سے حیات لے کر کسی کو عطا کرتا ہے۔ پس ایسا اسم جو کسی تعین یا تقیید کا تقاضا کرتا ہو وہ مشروطی ہے اور جو اسماء ایسے نہیں ہیں وہ غیر مشروطی ہیں۔ یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ اسمائے مشروطیہ کسی پر اثر کرنے یا فعل کی صلاحیت سے عبارت ہیں۔ "قابلیتِ شرائط اسماء" کا مطلب ان دو قسم کی اسماء کی قابلیتوں کا فرق ذات کو معلوم ہونا ہے۔ وجود اور نور میں تفریق شہود نے قائم کی ہے۔ شہود کی تعریف یوں بھی ہے کہ یہ خود اپنی ذات کا خود پر حاضر ہونا ہے، جیسے ہم خود پر خود حاضر ہیں غائب نہیں البتہ نیند میں غائب ہوجاتے ہیں۔ علم کی چادر نے ان تینوں کو گھیر رکھا ہے اور یہ ذات کا اپنے بارے میں علم ہے۔ تفہیم کی خاطر ان میں یوں بھی فرق کیا جا سکتا ہے:
- از خود پایا جانا وجود ہے
- غیر کے پائے جانے کو ممکن کر سکنا نور ہے
- ان دونوں کا حضور شہود ہے
- ان سب کا احاطہ علم ہے
یاد رہے کہ تعین اولی میں اسماء متحقق و ظاہر نہیں ہیں بلکہ صرف ان کی قابلیتیں باقی رہ جاتی ہیں جو مشروطی اور غیر مشروطی میں منقسم ہیں اور مرتبۂ شُیُون میں یہ اعتباری ہیں۔ شرائطِ اسماء کی قابلیت "اعتباری" ہے جس سے اسماء اعتباری طور پر مشروط اور غیر مشروط قابلیت ہونے والے میں تقسیم ہیں۔ اس سب پر شان العلم اعتباری طور پر حاوی ہے نیز ان اعتبارات اور قابلیتوں کی شناخت کا ماخذ بنی ہوئی ہے۔ اصلاً یہ تفریق مفہوم کی ادائیگی کو ہے ورنہ ان میں باہم داخلی سطح پر ایسی کوئی تفریق نہیں ہے جو حقیقی ہو۔ اسی لیے یہ اعتبارات کہلاتے ہیں۔ یعنی ہمارے (جہت تحت کے) لحاظ سے یہ شہود نور و علم سے جدا مگر بالائی قوس میں کوئی تفریق موجود نہیں ہے (ہم دیکھیں گے کہ اس پہلی تجلی کے زیریں قوس میں اعتبارِ وجود نے تجلی ثانی میں جو تفصیلِ وحدت ہے اسے قیام دیا ہوا ہے جن پر اسماء متفرع ہیں اور ان پر افعال۔ یعنی صفات دوسری تجلی میں اعتبار وجود پر قائم ہیں اور شئون پہلی تجلی میں شان العلم سے ظاہر و قائم ہیں)۔
چونکہ ہر اعتبار یا مرتبہ اپنے سے ماقبل کا لاعین ولا غیر (ھو ولا ھو) ہوتا ہے، یہی معاملہ مرتبہ واحدیت کا احدیت سے ہے۔ یعنی اس لحاظ سے اعتبارات شئون وجود مطلق کے عین ہیں کہ وجود کی بنا پر یہ قائم و موجود ہیں لیکن اس لحاظ سے اس کا غیر ہیں کہ شئون وجود مقید ہیں نہ کہ وجود مطلق۔
ج) برزخ کبری یا حقیقت محمدیہﷺ
اوپر والی قوس کا رخ "لاتعین" کی طرف ہے اور زیریں قوس کا "تعین" کی طرف، دونوں کے اِن احکام کو الگ الگ کرنے کا کام برزخِ کُبریٰ کا ہے جو ذات اور اس کی تجلیات میں فرق کرنے والی تجلی ہے۔ یہاں اتنا سمجھنا کافی ہوگا کہ یہ نچلے مراتب کو اوپری مرتبے سے الگ کرنے والی "فصل" (differentiating factor) ہے۔ اس برزخ کبری کو حقیقتِ محمدیہﷺ کہتے ہیں۔ برزخ دراصل دو مختلف چیزوں میں واصل اور فاصل شے کو کہتے ہیں، جیسے آخرت اور اس دنیا کی زندگی کے مابین موت برزخ ہے، یا پھر ایک شیشے کا گلاس جو پانی سے لبالب بھرا ہوا ہے وہ اس پانی اور بیرونی ماحول میں تفریق کا ذریعہ بن گیا ہے۔ برزخ کی خاصیت یہ ہوتی ہے کہ یہ دونوں اطراف کے ساتھ متصل ہوتی ہے، اسی لئے یہ انہیں منفصل یعنی الگ کرنے کا کام دیتی ہے۔ کوئی شے دو اشیاء میں حد فاصل (dividing line) تبھی بنتی ہے جب وہ انہیں ملانے والی ہو، اس کا ایک رخ ایک شے کی طرف اور دوسرا رخ دوسری شے کی طرف ہو، یوں یہ برزخ ایک پہلو سے دونوں کی جامع بھی ہوتی ہے مگر ایک لحاظ سے دونوں سے الگ (یہی وجہ ہے کہ جب دو تصورات کو لاگو کیا جائے تو ان کے مابین باؤنڈری پر ایسی اطلاقی صورتیں جنم لیتی ہیں جو برزخی نوعیت کی ہوتی ہیں، یعنی ان کا جھکاؤ من وجہ ہر دو طرف ہوتا ہے)۔ برزخ کا یہ دوگانہ پہلو شیخ ابن عربی کی فکر کا ایک اہم ستون ہے اور اسے سمجھے بغیر ان کی فکر میں "ھو ولا ھو" کا معاملہ سمجھنا ممکن نہیں رہتا۔ شیخ کی فکر میں دو مراتب وجود کے مابین خلا یا گیپ نہیں ہوتا، ہر درجہ اپنے سے ماقبل اور مابعد کا عین اور غیر دونوں ہوتا ہے (یعنی من وجہ "ھو" اور من وجہ "لاھو")۔ ارسطوی منطق میں کسی شے کا تصور قائم کرنے کا طریقہ ایسی حد فاصل تلاش کرنا تھا جو ایک شے کو جامع و مانع طور پر دوسری سے الگ کر دے۔ شیخ کو حد فاصل کے اس تصور پر اعتراض ہے، آپ کے مطابق یہ حد فاصل دراصل کثرت کو وحدت میں بدلنے والی برزخ ہوتی ہے11۔ باالفاظ دیگر ہر برزخ حد فاصل ہونے کے ساتھ ساتھ حد جامع بھی ہوتی ہے۔ اس بنا پر شیخ کا تصور دوئی ارسطوی منطق کے برخلاف کچھ الگ نوعیت کا حامل ہے۔ فی الوقت شیخ کے تصور برزخ کی اتنی تفصیل کافی ہے اگرچہ اس میں کچھ مزید عمیق پہلو بھی ہیں۔ مثلاً یہ کہ شیخ تنزیہہ و تشبیہہ کے مسئلے کو بھی اسی برزخی تصور کے طور پر دیکھتے ہوئے کہتے ہیں کہ تنزیہہ بھی ہے اور تشبیہہ بھی جیسا کہ قرآن میں آیا:
لَيْسَ كَمِثْلِہِ شَيْء وَھُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ12 (اور اس کی مانند کوئی شے نہیں، اور وہی سننے و دیکھنے والا ہے)
یعنی لَيْسَ كَمِثْلِہِ شَيْءٌ میں تنزیہہ کا بیان ہے تو وَھُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ میں تشبیہہ کا۔ یہاں بھی خوب دھیان رہے کہ یہ جو برزخ کبری ہے، اسے بھی وجود مطلق سے "ھو ولا ھو" کی نسبت ہے کہ یہ مرتبہ احدیت و واحدیت کی جامع ہے اور مرتبہ واحدیت بہرحال اعتبارات سے عبارت ہے۔ یہاں سے حقیقت محمدیہﷺ اور ذات باری کے تعلق سے متعلق وہ بدگمانیاں صاف ہو جاتی ہیں جن کا شکار صوفی فکر کے انجان ناقدین ہو جاتے ہیں اور وہ اس معاملے کو شرک بنا ڈالتے ہیں۔ چونکہ بزرخ کبری یعنی حقیقت محمدیہﷺ کو دیگر تمام احکام و تعیینات و مراتب کے مقابلے میں تجلی اول سے سب سے زیادہ قرب حاصل ہے، اسی کے لئے کہا گیا: "بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر"۔ قرآنی آیت "فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أوْ أَدْنَیٰ"13 اس قرب کا بیان ہے (نوٹ: قوسین کا تصور آیت کے الفاظ قوسین سے ماخوذ ہے)۔ مخلوقات پر اپنی اولیت کو آپﷺ نے ایک حدیث میں یوں بیان فرمایا کہ میں اس وقت بھی نبی تھا جب آدم علیہ السلام روح و جسم کے مابین تھے14 ، یعنی نہ صرف یہ کہ آپﷺ موجود تھے بلکہ نبی بھی تھے جبکہ دیگر انبیاء دنیاوی زندگی کے وقت ہی نبی ہوئے15۔ ایک حدیث شریف کا مفہوم ہے کہ اللہ تعالی نے سب سے پہلے آپﷺ کے نور کو مقدر فرمایا16۔
ہم آگے دیکھیں گے کہ ہر تعین کی الگ برزخ ہے، لہذا جب برزخ کا ذکر تعین اول میں ہو تو مراد برزخِ کُبریٰ ہوتی ہے جو یہاں اس دائرے کو دو قوسوں میں بانٹ رہی ہے۔ اس برزخ کے نام یہ ہیں: ۱۔ برزخ کُبریٰ، ۲۔ برزخِ اکبر، ۳۔ برزخِ اعظم، ۴۔ برزخِ جامعہ، ۵۔ برزخِ اَوَّل، ۶۔ حقیقتِ مُحمَّدؐیہ، ۷۔ عُلُو
مرتبہ سوئم: تجلی دوئم یا دائرہ وحدانیت (یا عالم لاھوت 17)
دوسری تجلی پہلی تجلی کی تفصیل ہے، یعنی وحدت (تجلی اول) اگر اجمال ہے تو تجلی ثانی یعنی وحدانیت اس کی تفصیل، اور تفصیل کا مطلب وجود مطلق پر تعیین یا تخصیصی احکام کا اضافہ ہونا ہے۔ تعین ثانی کے لئے مختلف مصنفین کے ہاں یہ نام بھی استعمال ہوتے ہیں:
۱۔ تجلیٔ ثانی، ۲۔ حقیقتِ انسانی، ۳۔ منتهی العالمین، ۴۔ حضرت اسماء والصفات، ۵۔ احدیت الکثرت، ۶۔ وُجُودِ اضافی، ۷۔لاہوت، ۸۔ حضرت الوہیت، ۹۔ فلک الحیوٰۃ، ۱۰۔ منشاءالسوےٰ، ۱۱۔ عالم جبروت، ۱۲۔ معدن الکثرت، ۱۳۔ نفس رحمانی، ۱۴۔ قابلیت ظُہُور، ۱۵۔ منشاءکثرت، ۱۶۔ معدن الکثرت، ۱۷۔ حضرت جمع الوجود، ۱۸۔ منتہیٰ العابدین، ۱۹۔ عَما، ۲۰۔ حقیقت انسانی
اس دائرے کی بھی دو قوسیں ہیں اور ایک برزخ جیسا کہ شکل نمبر 2 میں دکھایا گیا ہے۔ اوپری قوس کو "ظاہر الوجود" اور نچلی کو "ظاہر العلم" کہتے ہیں۔ دائرہ دوئم چونکہ پہلے دائرے کے مقابلے میں مقید ہے اس لئے یہ اس کے اندر ہے (آگے ان شاء اللہ ایک جامع شکل پیش کی جائے گی)۔ اس دو قوسوں اور بزرخ کی تفصیل یہ ہے۔
الف) ظاہر الوجود یا بحر الوجود
یہ اس دائرے کی اوپری قوس ہے۔ پہلے تعین میں اس بات کا ذکر ہوا کہ تجلی باری کی بدولت انسانی فکر کا جو بلند ترین شعور ہے وہ وجود ہے اگرچہ اس وجود کی حقیقت و ماہیت سے ہم واقف نہیں ہو سکتے، ماسوا اس سے کہ "وہ ہے"۔ جو وجود مطلق مرتبہ احدیت میں پنہاں تھا، اس قوس میں یہاں بطور "نفس الرحمٰن" (breadth of the merciful) ظاہر ہوگیا ہے اور جو صفات و اسماء اور ان کے تحت مخلوق کے قیام کا سبب بن گیا ہے (دیگر مراتب کی طرح "نفس الرحمن" کی اصطلاح بھی نص سے ماخوذ ہے)18۔ اس مرتبے میں کثرت مائل بوحدت ہے یعنی مرتبہ بالا کے اجمال کی تفصیل ہے۔ یہ مرتبہ اپنے اوپری مرتبے کے لحاظ سے اعتباری اور نیچے والوں کے لحاظ سے حقیقی ہے۔ علمی اعتبار سے یہاں کثرت حقیقی ہے اور وحدت اعتباری ہے اور یہ تمام اسماء الٰہیہ کو گھیرے ہوئے اور ان کی حقیقت ہے۔ نفس الرحمن کے اسی پہلو کی بنا پر شیخ ابن عربی کہتے ہیں کہ کائنات الله کے کلمات سے عبارت ہے اور از روئے قرآن ان کلمات الله کی تعداد کا شمار ناممکن ہے۔
ب) ظاہر العلم یا بحر العلم
دوسری قوس کو "ظاہر العلم" کہتے ہیں، مرتبہ واحدیت میں شئون کا علمی اعتبار یہاں اسماء و صفات کے عدمات خاصہ کی صورت نمایاں ہوگیا ہے (عدمات خاصہ کی تشریح آگے آرہی ہے)۔ اس میں کثرت اعتباری (یعنی ظاہر) ہے اور وحدت حقیقی (یعنی باطن)۔ یہ تمام اسمائے کونیہ یعنی مخلوقات کے اعیان ثابتہ کو گھیرے ہوئے ہے، اعیان ثابتہ اسمائے مشروطیہ کے برعکس انفعالی استعدادات ہیں جس کی تفصیل ذیل میں آرہی ہے۔ چونکہ اس مرتبے پر اعیان ثابتہ وجود خارجی نہیں رکھتیں بلکہ ان کا تحقق مرتبہ علم میں ہے، اس لئے اس قوس کو ظاہر یا بحر العلم کہتے ہیں۔ اس دائرے کی برزخ کی وضاحت سے قبل شان، صفت اور اسم کا مفہوم پیش نظر ہونا مفید ہوگا جو مراتب وجود کی بحث میں تجرید (abstraction) کی مختلف سطحوں کو ظاہر کرتے ہیں۔
مبدا، شان، صفت اور اسم کا فرق
جب شان العلم کہتے ہیں تو "ذی العلم" ذات مراد ہے، اور جب علیم کہتے ہیں تو مراد اگرچہ وہی ذات ہے مگر علم کی نوعیت مخلوق کی معلومات سے عبارت ہے۔ یعنی علم جو کہ صفت ہے، اس کی جہت مخلوق یا معلوم کی جانب ہے جبکہ شان کی نسبت ذات کی جانب۔ "ذی القوۃ" اور "قدیر" ہونے میں یہی فرق ہے، اول الذکر شان جبکہ موخر الذکر صفت ہے۔ شئون میں ملکیت کا مفہوم بھی ہے، یعنی جو ذی القوۃ ہے وہ قوت والا اور قوت کا مالک ہے نیز اس میں خود اپنے اوپر شہود و حضور ہونے کا مفہوم ہے، پس شان صفت سے قبل ذات باری کا ادراک و حضور خود اس پر اور اس کے لئے ہونا ہے اور یہ ذات و صفات کے مابین برزخ کی حیثیت رکھتی ہے۔ اللہ کی شئون ذاتیہ کا ظہور کسی پر نہیں ہوتا اور وہ غیب الغیب میں ہیں۔ صفت شان پر متفرع ہوتی ہے۔ "اعتبارات شئون" چار ہیں (یعنی اعتبارات اربعہ) جن کی تفصیل پیچھے گزر چکی، ان "اعتبارات شئون" کو مبدا شئون بھی کہا جاتا ہے۔ رہے شئونات یا شانیں، تو وہ لامتناہی ہیں جیسا کہ قرآن میں ارشاد ہوا: كُلَّ يَوْمٍ ھُوَ فِي شَأنٍ 19 (وہ ہر آن نئی شان میں ہوتا ہے)۔ شیخ ابن عربی کہتے ہیں کہ اللہ کی شانوں کی کثرت کا عالم یہ ہے کہ وہ ذات کسی ایک شان کے اظہار دو مرتبہ نہیں کرتی بلکہ ہر آن وہ ایک الگ شان کے ساتھ جلوہ گرہ ہوتا ہے، یعنی نہ تو کسی دو مظاہر میں ایک شان کا ظاہر ہوتا اور نہ ہی کسی ایک مظہر میں دو مرتبہ ایک ہی شان کا20۔ صفات ذاتیہ سات یا آٹھ ہیں (حسب اختلاف اشاعرہ و ماتریدیہ)، انہیں "امہات صفات" کہا جاتا ہے۔ جمیع صفات فعلیہ کا رجوع ان امہات صفات کی جانب ہے۔ سب صفات کا قیام وجود کے ساتھ ہے مگر یہ وجود پر زائد بھی ہیں اور الگ الگ مفہوم بھی۔ اسی لئے متکلمین کی طرح صوفیہ کے ہاں بھی انہیں لاعین ولا غیر (ھو ولا ھو) کہا جاتا ہے۔ اللہ کا ظہور مخلوق کے لئے بواسطہ یا بحوالہ صفات ہے اور ان صفات کے سوا اس کا کوئی ادراک ممکن نہیں۔ "شان" چونکہ "صفت" کے مقابلے میں ایک درجہ مزید تجرید یا تعین کا کم تر درجہ ہے، لہذا اسے صفت سے اوپری مرتبے پر رکھا گیا ہے۔
اسم کا لغوی معنی "نام" ہے جس کی جمع اسماء ہے۔ جس لفظ یا عبارت سے الله سبحانہ کی طرف اشارہ کیا جائے وہ اسم ہے، چاہے وہ اشارہ باعتبار اس کی ذات ہو یا باعتبار کسی صفت۔ صفت موصوف کا حال بیان کرتی ہے، یہ ایک معنی ہے جو ذات کے ساتھ قائم ہے اور اسماء ان صفات یا معنی کی جانب اشارے کے نام ہیں۔ یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ اسماء صفات کا ظہور اور افعال کے بطون ہیں، لہٰذا صفت کسی اسم کا باطن یا حقیقت ہوتی ہے۔ ان کے عکوس (opposites and negations) صفات کی نشانیاں اور اسماء کے آثار ہیں۔ صفات کی اصلیت الوہیت اور اسماء کی اصل ربوبیت ہے۔ کل صفات کا اشتقاق اسم "اللہ" سے ہے اور کل اسماء کا اشتقاق "رب" سے ہے۔ انہیں ذات باری کے جمالی اور جلالی حجابات کہتے ہیں۔ صوفیہ کے نزدیک جو شخص ان حجابات سے آگے نظر بڑھاتا ہے وہ حد سے تجاوز کرتا ہے کیونکہ اسماء و صفات الہیہ سے ماوراء حقائق کی نوعیت تک رسائی کا کوئی انسانی ذریعہ موجود نہیں۔
ج) برزخ صغری یا حقیقت آدمیہ
اس دائرے کی برزخ "حقیقت آدم" کہلاتی ہے۔ یہ بھی نہ عین ذات ہے اور نہ غیر، البتہ یہاں اسماء کی تمیز قائم ہے جیسا کہ قوسین کی تفصیل سے واضح ہوا۔ اس کو "حضرت الوہیت" بھی کہتے ہیں اس لئے کہ ذات باری کے "اله" ہونے کا تعلق مخلوق کی جہت سے ہے اور مخلوقات کا پہلا تعین اس دوسری تجلی میں بصورت اعیان ہے (لفظ "حضرت" یہاں "حضور" سے ہے، یعنی presence)۔ یہاں سے معلوم ہوا کہ ذات باری کا بلند ترین مرتبہ "اله" ہونا نہیں بلکہ "احد" ہونا ہے، الوہیت کی نسبت مخلوق کے اعتبار سے متحقق ہوتی ہے جبکہ ذات باری "ہونے" کے لئے مخلوق کے اعتبار کی محتاج نہیں۔ پس "اله" اور "احد" میں صوفیہ کی توجہ "احد" پر بھی رہی اور اسی بنا پر "لا الہ الا اللہ" کی آخری منزل وہ "لا موجود الا اللہ" کہتے ہیں (پہلے دائرے کی اوپری قوس یعنی مرتبہ "احدیت" یاد کیجئے)۔ قرآن میں ہر جگہ "الہ واحد" کی ترکیب آئی ہے نہ کہ "الہ احد"، یعنی احدیت اور واحدیت دو الگ الفاظ استعمال کئے گئے ہیں اور صوفیہ دونوں مراتب میں فرق کرتے ہیں نہ کہ مترادف۔ سورہ اخلاص میں "احد" کی بات ہوئی ہے۔
اس دائرے کا مرکزی اسم الله ہے جو حقیقت انسانیہ یا آدمیہ کا مرکز ہے۔ سب اسماء کا رجوع اسی اسم کی طرف ہے اور یہی ان سب کا سرچشمہ فیض ہے۔ یہاں اسم سے اسما کو فیض ملنے کی بات ہو رہی ہے یعنی وہ فیض جو اسم الله سے باقی تمام اسماء کو ہو رہا ہے، نہ کہ اس فیض کی جو اسم سے اس کے مربوب (یعنی عین ثابت) کو حاصل ہوتی ہے، جیسے رب اور مربوب کی نسبت جہاں خلق کو فیض منتقل ہوتا ہے (انہیں "فیض اقدس" و "فیض مقدس" کہتے ہیں جس کی وضاحت آگے آرہی ہے)۔ اسی لئے الله اسما کا مرکز اور ذاتی اسم یعنی فیاض ہے، اکثر کے نزدیک اسم اعظم الله ہے۔ اس تجلی کا نام حضرت الوہیت اسم الله کی وجہ سے ہے۔ اس تعین کو چونکہ نچلے درجات میں موجودات سے خارج میں تحقق کی نسبت ہے اس لئے اسے "وجود اضافیہ" بھی کہتے ہیں۔
برزخ سے اوپر اسمائے الٰہیہ ہیں، نیچے اسمائے کونیہ ہیں اور دائرے کا مرکز حقیقت آدمیہ یا اسم الله ہے کہ تمام اسماء کا باطنی یا ظاہری رجوع اسی کی جانب ہے، اس لئے اسے برزخ کہا گیا ہے۔ صفات اور اسماء اوپری قوس میں ایک دوسرے پر متفرع ہیں اور اسی قوس میں صفات میں سے سات امہات صفات (حیوٰۃ، علم، قدرۃ، ارادۃ، سماعۃ، بصارۃ اور کلام) کا ظہور ہوا۔ حقائقِ الٰہیہ بھی اسی دائرے یا تعین کا نام ہے جو اسمائے الہیہ و اسمائے کونیہ سے عبارت ہیں۔ آدم علیہ السلام چونکہ از روئے آیت عَلَّمَ آدَمَ الْاَسمَاءَ كُلَّھََا21 (اللہ نے آدم کو سب اسماء سکھائے) ذات باری کے تمام اسماء و صفات کے جامع ہیں، اس بنا پر اس دائرے کی برزخ حقیقت آدم کہلاتی ہے جو تمام حقائق الہیہ کی جامع مظہر ہے۔ حدیث خلق اللہ آدم علی صورتہ22 (اللہ نے آدم کو اپنی صورت پر پیدا کیا) کا یہی مفہوم ہے۔ اس جامعیت ہی کے سبب آدم علیہ السلام خلیفہ بننے کے مستحق قرار پائے۔
اعیان ثابتہ کا مفہوم
اعیان ثابتہ حقائق الٰہیہ سے عبارت ہیں جو اسماءِ الٰہیہ پر مشتمل ہیں اور جو اعیانِ ممکنات یا اسمائے کونیہ پر پھیلے ہوئے ہیں۔ اسمائے الٰہیہ سے مُراد ایسی فعلی استعدادات (active potentials) یا وہ خاص معنی ہیں جو حق تعالیٰ کے ساتھ قائم ہوں۔ اسمائے کونیہ وہ ہیں جن کے معنی مخلوق کے ساتھ قائم ہوتے ہیں اور یہ انفعالیت یا اثر قبول کرنے (passivity) کی استعداد کو ظاہر کرتے ہیں۔ اسمائے کونیہ کی پرورش اسمائے الٰہی کے تحت ہوتی ہے، اس لیے اسمائے الٰہیہ ارباب ہیں اور اسمائے کونیہ مربوب۔ مثلاً "خالق" اسم الہی ہے جس کا مربوب "مخلوق" ہے۔ "البدیع" اسم الہی ہے، اسمائے کونی میں اس کا مربوب "عقل کل" ہے۔ اسم الٰہی "مُحیط" ہے جس کا مربوب "عرش" ہے۔ الغرض صفات و اسمائے الہیہ کے عکوس (opposites or negations) صفات کی نشانیاں اور اسماء کے آثار ہیں۔ مزید وضاحت یوں کی جا سکتی ہے کہ اسمائے کونیہ یا ممکنات اسماء الہیہ کی تاثیرات کے مدمقابل وہ انفعالی تراکیب (combinations) ہیں جو علم الہی میں ازل سے مقدر اور ثابت ہیں۔ یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ عالم امکان میں اسمائے الہیہ کی تجلیات سے جو کچھ ظاہر ہونا (یا موجود ہونا) تھا یہ ان سے متعلق علم الہی میں ثابت شدہ صورتیں ہیں۔ مثلاً زید الله کے فلاں فلاں اسماء کی تجلی کا مظہر ہوگا وغیرہ، یوں ہر مخلوق کا عین یا استعداد یا صورت علم الہی میں ثابت ہے۔ اسی لئے اعیان ثابتہ کو اعیان ممکنہ کے حقائق کی علمی صورتیں کہا جاتا ہے۔ یاد رہے کہ اس مرتبے (یعنی تعیین ثانی) پر اسمائے کونیہ مخلوق ہو کر خارج میں موجود نہیں ہیں بلکہ صفت علم میں ثابت ہیں، یعنی اس مرتبے پر یہ اسمائے کونیہ مخلوق ہو کر خارج میں موجود نہیں ہیں بلکہ علم میں بطور صفات الہیہ کے عکوس ثابت ہیں، اگرچہ اپنا رخ یہ مخلوق کی جانب رکھتے ہیں۔ جو شے وجود حاصل نہیں کر سکتی، یعنی ممتنع ہو، وہ اسمائے کونیہ سے محروم ہوتی ہے کہ اگر وہ اسم کونی ہوتا تو یا ظاہر ہو چکتا یا ہو رہا ہوتا اور یا ہو جانے والا ہوتا۔ چونکہ اعیان ثابتہ تعیین کے مراتب میں سے ہیں، لہذا اسمائے کونیہ یا اعیان ثابتہ ذات باری کا صرف عین نہیں ہیں جیسا کہ ناقدین شیخ ابن عربی کو شبہ لگا اور انہوں نے شیخ پر خالق و مخلوق کے ایک ہونے یعنی اتحاد کا حکم لگا دیا۔ البتہ یہ اعیان ثابتہ بایں معنی حقائق کی طرح ہیں کہ اگر اسمائے الہیہ بطور تاثیری استعدادات ثابت حقائق ہیں تو ان کے برعکس انفعالی استعدادات بھی ثابت شدہ حقائق ہیں۔ یعنی اگر خدا کا قادر ہونا حقیقت ہے تو اس کے برعکس عاجزی بھی ایک ثابت حقیقت ہے (کیونکہ "قدرت کی نفی" بھی ثابت ہے اور وہی عاجزی کہلاتی ہے)، اگر اس کا بصیر ہونا حقیقت ہے تو بصارت نہ ہونا یعنی اندھا پن بھی حقیقت ہے وغیرہ وغیرہ۔ ان اعیان کے خارجی وجود کی نوعیت پر ان شاء الله آگے بات ہوگی۔ یہاں یہ نوٹ کیجئے کہ شیخ کے مطابق از روئے قرآن وجود خارجی یا تخلیق کا معاملہ انہی اعیان ثابتہ سے متعلق ہے۔ قرآن میں ارشاد ہوا:
وَإن مِّن شَيْءٍ إلَّا عِندَنَا خَزَائِنُہُ وَمَا نُنَزِّلُہُ إلَّا بِقَدَرٍ مَّعْلُومٍ23 (اور ایسی کوئی شے نہیں مگر ہمارے پاس اس کے خزانے ہیں اور ہم اسے معین مقدار میں نازل کرتے ہیں)
اور "کن" کا حکم بھی انہی سے خطاب ہے:
إنَّمَا أمْرُہُ إذَا أرَادَ شَيْئًا أن يَقُولَ لَہُ كُن فَيَكُونُ24 (اور اس کا امر یہ ہے کہ جب وہ کسی شے کا ارادہ فرماتا ہے تو اسے کہتا ہے ہوجا تو وہ جاتی ہے)
پس اس دائرے میں بالائی قوس کو دیکھیں تو مائل بہ وحدت ہے یعنی ان اسماء کی اصل یا حقیقت صفات الٰہیہ کی طرف لوٹ رہی ہے اور ان صفات کا رجوع نفس الرحمن کی جانب اور نفس الرحمن کا رجوع پہلی تجلی کی اوپری قوس میں وجود مطلق کی جانب، جبکہ زیریں قوس کو دیکھیں تو یہ پہلی تجلی کی زیریں قوس میں اعتبارات شئون کی کثرت کی جانب مائل ہے، اس زیریں قوس میں اعیان ممکنہ مزید کثرت کے ساتھ ہیں اور پھر یہ اگلے مرتبے میں افعال کی طرف نزول کر رہی ہے۔ اسی لئے اس دوسرے مرتبہ تعین کو وحدت در کثرت اور کثرت در وحدت، یعنی موصوف کا ایک اور صفات و اسماء کا لامتناہی ہونا، کہتے ہیں۔ وحدت اور کثرت کے اعتباری ہونے کی بنا پر اس دائرے کی بزرخ کو "حضرت الجمع" بھی کہتے ہیں۔ نیچے کی جہت سے دیکھیں تو اس مرتبہ تعین تک اسماء نے وجود کو محجوب کر رکھا ہے (دوسری قوس کو بحر العلم اسی لئے بھی کہتے ہیں، یہاں ہمارے لحاظ سے وجودی حقیقت محجوب اور علمی حقیقت نمایاں ہے)۔ اسی وجہ سے ابتدائی دو تنزلات کو علمی کہا جاتا ہے اور یہاں تک جو بھی ترتیب ہے (یعنی شئون پر صفات کا، صفات پر اسماء کا اور اسماء پر اعیان کا متفرع ہونا) اسے "حرکت علمی" کہتے ہیں نہ کہ زمانی و مکانی۔ مخلوق ذات باری کا جو بھی ادراک کر سکتی ہے وہ اسی مرتبے سے متعلق ہے۔ ایک حدیث قدسی میں آتا ہے :
كُنْتُ كَنْزًا مخفياً فَأحْبَبْتُ أنْ أُعْرَفَ فَخَلَقْتُ خَلْقًا25 (اللہ تعالی فرماتا ہے کہ میں ایک چھپا ہوا خزانہ تھا، میں نے چاہا کہ پہچاناجاؤں تو میں نے مخلوق کو پیدا کیا)
یہاں پہلا حصہ (كُنْتُ كَنْزًا مخفياً) مرتبہ احدیت کا بیان ہے اور دوسرا مرتبہ واحدیت کا۔
مرتبہ چہارم : تجلی سوئم یا دائرہ روحانیت (یا عالم جبروت )
ابتدائی دو دائروں کے بعد نچلے تین مراتب کا تعلق امور کونیہ سے ہے، قرآن میں اسے "کن" سے تعبیر کیا گیا ہے۔ ان دائروں میں ایسے اسماء کی تجلیات ہیں جو اسماء کے غیر کا تقاضا کرتی ہیں۔ اسی لئے یہاں اسم خالق اور اس کے تحت صفات فعلیہ کا اثر ظاہر ہے جیسے اسم المصور، اسم الرزاق وغیرہ۔ ہم دیکھیں گے کہ اسی لئے خالق و مخلوق کے مابین یہاں غیریت گہری و حقیقی ہے۔ از روئے آیت وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ26 (میری رحمت ہر چیز پر وسعت رکھتی ہے) چونکہ ذات باری کی رحمت نے ہر چیز کا احاطہ کر رکھا ہے، تو "صفت رحمت" یہاں باطن ہے۔ اس بنا پر تیسرے مرتبے کی اوپری قوس کو "الرحمۃ" کہتے ہیں جیسا کہ شکل 3 میں دکھایا گیا ہے۔ اس تیسرے تعین کو "عالم ارواح" و "عالم جبروت" وغیرہ کہا جاتا ہے کیونکہ یہاں ارواح کا ظہور ہے، یہاں سب کچھ نور سے متعلق ہے، نور بمعنی منور کرنے یا ظاہر کرنے والا۔
اوپری قوس ظہور ملأ اعلیٰ ہے جہاں انبیاء و صلحاء کی ارواح ہیں۔ لوح، کتاب، قلم و کرسی سب اوپری قوس میں ہیں اور یہیں عرش سے بالا وقوعِ استَوی ہے۔ متکلمین کی اصطلاح میں جنہیں صفات خبریہ یا متشابہات کہتے ہیں جیسے کہ ید (ہاتھ)، ساق (پنڈلی) وغیرہ، وہ بھی اوپری قوس میں ہیں اور اس موقف کی رو سے یہ صفات دراصل خلق و افعال سے متعلق ہیں۔ یعنی ایسی صفات چونکہ نصوص میں کسی شے سے متعلق ہو کر بیان ہوئی ہیں اس لئے انہیں صفات فعلیہ کے تحت رکھا جاتا ہے۔ مثلاً از روئے حدیث "ساق" کی تجلی سے اہل ایمان کو ذات باری کی زیارت ہوگی27، "قدم" کی تجلی سے جہنم بھرے گی28، "اصابع" (انگلیاں) ایسی تجلی ہے جو مخلوق کے قلوب پلٹ دے29، اسی طرح از روئے قرآن "یدان" (دو ہاتھ) سے آدم علیہ السلام کی تخلیق ہوئی 30 جس سے مراد اللہ کی صفات جمال و جلال ہیں کہ آدم سب صفات کے مظہر تام ہوئے وغیرہ (صوفیہ ذات باری کی تمام صفات و اسماء کو صفات جمال و جلال میں تقسیم کرتے ہیں)۔ اس دائرے میں دو قسم کے ملائکہ ہیں، ایک وہ جو مشاہدہ وحدانیت میں غرق رہتے ہیں، انہیں قرآن کی اصطلاح میں "عالین" کہا جاتا ہے اور یہ اوپری قوس میں ہیں31۔ زیریں قوس میں کارکنان قضا و قدر سے متعلق ملائکہ ہیں اور عام ارواح انسانیہ بھی یہاں ہیں۔ ذریت آدم سے "عہد الست" 32 نیز زمین و آسمان اور پہاڑوں پر امانت کا پیش کیا جانا 33 بھی اسی عالم سے متعلق امور ہیں۔
دائرے کا مرکز یا برزخ اسم "الخالق" ہے اور یہ اوپری مرتبے یا تعین میں اسمائے کونیہ یا اعیان ثابتہ کو ظہور میں لاتا یا ایجاد کرتا ہے۔ بالائی قوس کا باطن یعنی اسم "الرحمٰن" بتا رہا ہے کہ تخلیق کا فعل اللہ کے لیے اضطراری نہیں بلکہ یہ اس کی رحمت سے ہے۔ یاد رہے کہ خلق کی تجلی نرا صدور نہیں ہے بلکہ ارادی ہے۔ قرآن میں جو ذکر ہوا کہ ہم نے ہر شے کو گن رکھا ہے، وہ اس عالم اور اس سے مابعد تجلیات کا معاملہ ہے کہ یہاں سے افعال کے اثرات شروع ہوگئے ہیں۔ اس کی برزخ کو "عرش" بھی کہتے ہیں جو عالم ارواح سے شروع ہونے والے ایجاد کے تمام سلسلوں کا احاطہ کرنے والا ہے، "استوی علی العرش" بھی اسی سے متعلق ہے اور اسی طرح حاملین عرش فرشتے بھی۔
اس دائرے کی زیریں قوس کو قہر و غضب کہتے ہیں کہ جزا و سزا کا نظام یہاں جاری ہے۔ اس لیے یہاں وہ فرشتے متحقق ہیں جو عالم سفلی سے متعلق یا امور جہنم سے تعلق رکھتے ہیں۔ مخلوق کا وجود رحمت سے ہے، قہر و غضب سے کوئی چیز پیدا نہیں ہوتی بلکہ یہ صفات رحمت و محبت کی بنا پر ہیں۔ ذات باری کا کسی سے دشمنی یا اس پر غضب فرمانا اصلاً اپنے محبوب بندوں سے محبت و رحمت کا اظہار ہے۔ یعنی چونکہ ذات باری نے محمؐد ﷺ کو پسند فرمایا تو ان کے دشمن ابتر کے حکم میں آئے اور ابولہب دشمن قرار پایا، حضرت موسی علیہ السلام کی بنا پر ہی فرعون کے ذکر کو بقا ملی وغیرہ۔ پس جو ظاہراً قہر و غضب ہے، باطناً وہ رحمت و محبت ہے۔
فیضِ اقدس اور فیضِ مُقدس کا مفہوم
شیخ ابن عربی کے مطابق فیض اقدس وہ تجلی ذاتی ہے جو اعیان ثابتہ کی صورت اشیاء کے وجود و استعدادِ کا باعث ہوئی۔ فیض مقدس ان تجلیاتِ کو کہتے ہیں جو اعیان کے ظہورِ خارجی، ان کے تمام لوازم اور توابع کی موجب ہیں۔ گویا فیض اقدس اسم الہی سے عین ثابت کا تعلق ہے جبکہ فیض مقدس عین ثابت سے وجود خارجی کا۔ موخر الذکر فیض اول الذکر پر مرتب ہوتا ہے۔ چونکہ اعیان ثابتہ کی حقیقت اسمائے الہیہ ہیں، اس لئے اعیان ثابتہ کے اثبات کے لحاظ سے ذات باری "اول و باطن" ہے۔ اگلی بحث سے واضح ہوگا کہ ان معدوم اعیان کا بطور وجود ظاہر ہونا چونکہ وجود ذات باری کی تجلی سے ہے، اس پہلو سے ذات باری ہی "آخر و ظاہر" ہے۔ فیض اقدس و مقدس کو الگ کرنے کی بنیاد نصوص میں لفظ "خلق" کا استعمال ہے۔ خلق کا مطلب مقدر یا متعین کرنا ہے، قرآن مجید میں ارشاد ہوا:
ألَا لَہُ الْخَلْقُ وَالْأمْرُ34 (آگاہ ہوجاؤ کہ خلق اور حکم سب اسی کا کام ہے)
شیخ کہتے ہیں کہ یہاں خلق "تقدیر" کے معنی میں ہے نہ کہ ایجاد کہ ایجاد کا تعلق امر سے ہے جیسا کہ کہا گیا:
إنَّمَا أمْرُہُ إذَا أرَادَ شَيْئًا أن يَقُولَ لَہُ كُن فَيَكُونُ35 (اور اس کا امر یہ ہے کہ جب وہ کسی شے کا ارادہ فرماتا ہے تو اسے کہتا ہے ہو جا تو وہ جاتی ہے36)
مرتبہ پنجم: چوتھا تعین یا عالم مثال
یہ وہ عالم ہے جسے اہل عقل یا فلاسفہ مقولات یا "کیٹیگریز" کہتے ہیں۔ مقولات کی تعداد میں مسلم فلاسفہ و متکلمین کے مابین اختلاف ہے۔ یہاں ہم فلاسفہ کے موقف کی رو سے بات کریں گے جن کے مطابق مقولات کی تعداد دس ہے جو اس دائرے کی نچلی قوس میں رکھے جاتے ہیں جبکہ اوپری قوس میں "نفس" بطور ایک الگ کیٹیگری ہے جو ان مقولات کے قیام کا باعث ہے۔ عالم مثال میں عقل عالم ناسوت کی اشیاء کو مجرد صورتوں میں دیکھتی ہے، اسی طرح اعمال کی صورتیں اور خواب سے متعلق امور بھی اسی عالم سے متعلق ہیں، ھادی و مضل کی تجلیات بھی یہاں متحقق ہیں اور امور کرامت بھی۔ شاہ ولی اللہ نے متعدد نصوص کے ذریعے اس عالم کے نظائر پیش فرمائے ہیں۔ اس عالم کو "خیال منفصل" بھی کہتے ہیں اور اس بنا پر اسے "عالم الخیال" بھی کہہ دیا جاتا ہے۔ یاد رہے کہ اسے عالم الخیال کہنے کا مطلب "وھمی" کہنا نہیں ہے بلکہ مطلب یہ ہے کہ انسانی خیال سے متعلق یہ امور بطور حقائق فی نفس الامر موجود ہیں اور اسی لئے یہ انسانی خیال کی آماجگاہ بنتے ہیں (خیال منفصل کے برعکس ایک خیال وہ ہے جو کسی شے کے مشاھدے سے جنم لیتا ہے، مثلا سیب کو دیکھ کر ذہن میں ایک صورت بننا، اسے خیال متصل کہتے ہیں)۔ اس کی برزخ کو "نفس" کہتے ہیں۔ اوپری درجات سے ہر شے عالم مثال سے گزر کر آتی ہے۔
مرتبہ ششم: پانچواں تعین یا عالم شہادت (یاناسوت)
اس عالم میں جوہر و عرض (طبعیات و کیمیا و توانائی وغیرہ) کے تعینات لاگو ہیں، یعنی مقولات متعین تشخصات کے ساتھ یہاں ظاہر ہیں اور اسی بنا پر یہ عالم حد درجہ کثیف ہے۔ نفس انسانی کی تربیت کے لئے یہاں احکام شرع متحقق ہیں اور اوپری درجے کے حقائق الہیہ کے ادراک کو انبیاء و رسل کی اطاعت کے ساتھ مشروط کر دیا گیا ہے۔ اس کی اوپری قوس کا رخ "علم" کی جانب اور نچلی کا "جہل" کی طرف ہے اور اس کا مرکز "انسان" ہے اور اسے "ذھن" بھی کہتے ہیں۔ اس عالم میں نیکوکاروں کو بدکاروں سے الگ کر دیا گیا ہے۔ انسان کا جسم اگرچہ "جہل" سے تیار ہوا تاہم اس میں چمکنے والی روح عالم امر یا روح سے ہے۔ نیچے والی قوس جہل اس لئے کہ انسان حقائق سے دور ہو جاتا ہے اور ایسے حقائق بھی سوچ لیتا ہے جو ممکن نہیں۔ جہل جب فعل میں تبدیل ہو تو یہ ظلوم ہے (انسان کی حقیقت میں "ظلوم و جھول" ہونا بھی ہے)۔
شکل نمبر 4 میں ساری گفتگو کا خلاصہ دیا گیا ہے، اس دائرے کو اگر گلوب (globe) کی صورت گول تصور کیا جائے تو شاید زیادہ بہتر منظر کشی ہو سکے۔ یہاں دائرے کی برزخ اور اوپری و نیچی قوس کا نام دیا گیا نیز یہ بتایا گیا ہے کہ ہر دائرے میں کس درجے کا وجود متحقق ہوا۔ نیچے سے اوپر کی جانب سفر کے نتیجے میں ہم متعین وجود سے مطلق وجود کی جانب بڑھتے ہیں، ہر اوپری مرتبہ وجود نچلے مرتبے سے بایں معنی زیادہ حقیقی ہے کہ وہ اس پر مشتمل ہے۔
علامہ اقبال کے بعض اشعار
اگرچہ علامہ اقبال کے اشعار پر گفتگو سے ہم اپنے موضوع سے دور ہو جائیں گے، تاہم درج بالا فریم ورک میں آپ کے بعض اشعار کی معنویت پوری طرح نکھر کر سامنے آتی ہے۔
- اوپر اس بات کا ذکر ہوا کہ وجود کے تعیناتی احکام میں وجود مطلق کے ساتھ سب سے زیادہ قرب حقیقت محمدیہﷺ کو حاصل ہے جو تجلی اول کی برزخ کبری ہے،
- یہ بھی واضح ہوا کہ وجود کا ہر اوپری مرتبہ بایں معنی نچلے مراتب پر حاوی اور ان کا جامع ہے کہ ہر ذیلی تخصیص اپنے سے اوپری تخصیص میں شامل ہے،
- نیز یہ ابھی واضح ہوا کہ لوح، قلم، کتاب وغیرہ تیسرے تعین یعنی عالم ارواح سے متعلق امور ہیں اور یہ عالم رنگ و بو جس میں ہم سانس لے رہے ہیں یہ پانچویں درجے کی بات ہے۔
اسی لئے شیخ کہتے ہیں کہ آپﷺ کے فلک نے سب افلاک کو گھیر رکھا ہے کہ آپ علیہ الصلوۃ والسلام اللہ کا سب سے جامع کلمہ ہیں جیسا کہ از روئے حدیث آپﷺ نے اپنی ایک خصوصیت یہ بیان فرمائی کہ "اعطیت جوامع الکلم" 37 (مجھے جامع کلمات عطا کئے گئے ہیں)۔ حدیث کے ان الفاظ کو آپﷺ کی فصاحت و بلاغت یا شریعت کی جامعیت وغیرہ کے محدود معنی میں لیا جاتا ہے، تاہم شیخ اسے عالم کے ذات باری کے کلمات ہونے اور ان قرآنی آیات کے ساتھ ملا کر پڑھتے ہیں:
قُل لَّوْ كَانَ الْبَحْرُ مِدَادًا لِّكَلِمَاتِ رَبِّي لَنَفِدَ الْبَحْرُ قَبْلَ أن تَنفَدَ كَلِمَاتُ رَبِّي وَلَوْ جِئْنَا بِمِثْلِہِ مَدَدًا38 (آپ کہہ دیجئے کہ اگر سمندر میرے رب کے کلمات کے لئے روشنائی ہوجائے تو وہ سمندر میرے رب کے کلمات ختم ہونے سے پہلے ہی ختم ہو جائے گا اگرچہ ہم اس کے مثل اور سمندر مدد کے لئے لے آئیں)
لَوْ أنَّمَا فِي الْأرْضِ مِن شَجَرَۃٍ أقْلَام وَالْبَحْرُ يَمُدُّہُ مِن بَعْدِہِ سَبْعَۃُ أَبْحُرٍ مَّا نَفِدَتْ كَلِمَاتُ اللَّہِ39 (اور زمین میں جتنے درخت ہیں وہ سب قلم ہوں اور سمندر روشنائی ہو اور اس کے بعد سات سمندر اسے بڑھاتے چلے جائیں تو اللہ کے کلمات تب بھی ختم نہ ہوں گے)
آپ کی شریعت کی جامعیت دراصل آپﷺ کی جامعیت کا مظہر تھی کہ آپﷺ کو ایسی کتاب دی جائے جو سب کلمات کی جامع ہو، اس لئے آپﷺ کو قرآن جیسی تمام کتب کی جامع کتاب عطا کی گئی جو ام الکتاب ہے ("ام" ماں کو کہتے ہیں کہ وہ جمع کرنے والی ہوتی ہے)۔ آپﷺ کو اولین و آخرین کا علم عطا ہوا، شیخ کے نزدیک اس علم کی وجہ آپ کی یہ جامعیت اور اللہ سے آپ کا قرب ہی ہے، اولین کے علم سے مراد آدم علیہ السلام کو عطا کیا جانے والا اسماء کا علم تھا40۔ اسی طرح روز قیامت آپﷺ کو تمام مخلوق کا سردار بنایا جانا، مقام محمود عطا کیا جانا، لوا کے تلے حمد و ثنا فرمانا، آپﷺ کی شریعت کا جامع ہونا، آپ کو خاتم الانبیاء قرار دیا جانا، آپ کا یہ فرمانا کہ اگر آج موسی علیہ السلام حیات ہوتے تو وہ بھی میری شریعت کے تابع ہوتے41۔ الغرض یہ سب امور ذات باری کے ہاں آپ کے ایسے خصوصی و جامع مرتبے کی بنا پر ہیں۔ یعنی ان سب امور کا تقاضا صوفیا نے وجودی مراتب میں یہ مقرر کیا ہے کہ آپﷺ ان مراتب میں سب سے اوپر ہیں اور اسی بنا پر آپ ان خصائص کے مستحق ہوئے۔ باالفاظ دیگر یہ آپ ﷺ کے فلک کی وسعت کے نتائج ہیں۔ اب علامہ اقبال کا یہ نعتیہ شعر ملاحظہ کیجئے:
لوح بھی تو قلم بھی تو تیرا وجود الکتاب
گنبدِ آبگینہ رنگ تیرے محیط میں حباب
عالمِ آب و خاک میں تیرے ظہور سے فروغ
ذرہ ریگ کو دیا تو نے طلوعِ آفتاب
نیز علامہ اقبال کہتے ہیں:
نگاہ عشق و مستی میں وہی اول وہی آخر
وہی قُرآں، وہی فُرقاں، وہی یٰسیں، وہی طٰہٰ
2۔ توحید وجودی سے متعلق مسائل
اعیان ثابتہ کے وجود خارجی کی نوعیت
اب ہم تیسرے مرتبے اور مابعد اعیان ثابتہ کے خارجی وجود کا جو سلسلہ شروع ہو جاتا ہے، وجود حقیقی کے ساتھ اس نسبت پر گفتگو کرتے ہیں جسے نہ سمجھنے کے سبب متعدد غلط فہمیاں جنم لیتی ہیں۔ سب سے پہلے عدم کا مفہوم سمجھنا چاہئے کیونکہ صوفیہ عدم سے تخلیق کے قائل ہیں تاہم عدم سے ان کی مراد نفی محض (absolute nothing) نہیں۔
عدم کا مفہوم
عدم کسی شے کی نفی کو کہتے ہیں (یعنی وہ نہیں پائی جا رہی)، لہذا عدم کا حکم کسی شے کے پائے جانے کے ساتھ ہے۔ دوسرے لفظوں میں عدم کسی وجود کی وجہ سے ہوتا ہے، کسی شے کے وجود کی نفی اس کی "ہویت" (ہونے) کی وجہ سے ممکن ہوتی ہے۔ مثلاً قدرت کا عدم عاجزی ہے، علم کا عدم جہل ہے، بصارت کا عدم اندھا پن وغیرہ۔ انہیں "عدمات خاصہ" کہا جاتا ہے۔ ہر تعیین (یعنی خاص قید کے ساتھ شے کے ہونے) کی نفی سے خاص قسم کا عدم ثابت ہوگا۔ زید کا معذور ہونا ایک عدم ہے تو زید کا نابینا ہونا ایک اور قسم کا۔ ہر عدم ایک "عدم متمیز" (differentiated nothing) کے طور پر مفہوم ہے کہ وہ ایک خاص حکم کا منشا ہے۔ الغرض ہر اسم الہی کا عکس ایک عدم خاص ہے۔ اس کے برعکس "عدم عامہ" کا مطلب ایسا عدم ہے جو کسی بھی حکم (اثبات و نفی) کو قبول نہ کرے، یہ عدم محض (یا امکان محض) ہے جو "وجود محض" (یا واجب) کے مقابلے پر ہے۔ چنانچہ غور کرنے پر معلوم ہوتا ہے کہ عدم (یعنی "پایا نہ جانا") بھی اللہ کی طرف سے ہے کہ اللہ قادر ہے تو اس بنا پر اس کا عدم عاجزی ہے، وہ موجود ہے تو اس اعتبار سے عدم محض ہے۔
اوپر وضاحت گزری کہ اسمائے کونیہ یا اعیان ثابتہ کی حقیقت عدمات خاصہ یا اسمائے الہیہ کے عکوس ہونا ہے۔ ان کا یہ اعتباری عدم صفات و اسماء کی وجہ سے مفہوم ہے کہ چونکہ ذات باری قادر ہے تو قدرت کی نفی کے تصور سے اس کا الٹ مفہوم ہے (یعنی عاجز ہونا)، چونکہ وہ المحی ہے لہذا اس خاص فعلیت کی نفی سے ایسا عکس ثابت ہے جو اس فعل کا اثر قبول کرنے میں مفہوم ہے (یعنی میت ہونا)۔ الغرض اعیان ممکنہ کی اپنی حقیقت عدم کے سوا کچھ نہیں، اور یہ بطور انفعالی استعدادات ثابت ہیں۔ ان انفعالی استعداد میں سب سے بنیادی استعداد وجود قبول کر کے اس کا مظہر بن سکنا ہے۔ اسمائے الہیہ ازلی حقائق یا قابلیتیں ہیں جو اپنی حقیقتوں (یا اعیان ثابتہ) کا تقاضا کرتے ہیں۔ مثلاً الوہیت (یا معبودیت) عبد کا تقاضا کرتی ہے، اسم خالق کا تقاضا ہے کہ مخلوق ہو نیز اللہ کے انگنت اسماء میں سے بعض وہ ہیں (مثلاً الرازق وغیرہ) جو اپنے جلوے کے لیے مخلوق کا تقاضا کرتے ہیں۔ اسماء الہیہ سے ثابت ہونے والے یہ اعیان ان اسماء کے محتاج ہیں۔
عدم سے خلق کا مفہوم
درج بالا وضاحت سے یہ واضح ہوا کہ عدم کی حقیقت یہ ہے کہ ذات باری نے موجودگی یا عدم کے احکام کو بنایا ہے۔ جس کا حصہ وہ اس کے عین ثابتہ سے کاٹ دے وہ معدوم کہلائے گی اور جس کا حصہ ظاہر کر دے وہ موجود ہو جائے گی۔ لہٰذا جس وجودی نسبت یا حکم کو اللہ نے عدم فرمایا ہے اور اس کے وجود کی غیر موجودگی (یا عکس) پر اس کو لاگو کر دیا ہے، صوفیہ نے اس کو اشیا کے وجود کا مواد یا مسالہ ماننے یا نہ ماننے پر بحث کی ہے۔ لہذا مخلوق کے مسالے یا مواد سے متعلق اب سوال یوں ہے کہ یہ مخلوقات اسماء الہیہ (جو کہ مراتب وجود میں وجودی حقائق ہیں) کی وجہ سے ہیں یا ان کے عدمات کی وجہ سے؟ اس پر صوفیہ کے موقف کا خلاصہ یہ ہے کہ:
الف) یہ اسماء کی تجلی ہے،
ب) یہ ان کا عدم (یعنی عکوس) ہے،
ج) یہ ان دونوں کا مرکب ہے، یعنی ایک جہت سے دیکھو تو تجلی اور دوسری سے عدم ہے۔
اشیاء کو اعتباری وجود کہنے والوں نے ان کو اسماء کی تجلیات کہا جو بس اپنے عدمات خاصہ پر چمک اٹھی ہیں۔ مطلب یہ کہ قدرت نے عجز (یعنی قدرت کے عکس) کو وجود اعتباری دے کر اسے چمکا دیا ہے تو اب عاجز بھی ہیں اور قادر بھی۔ جنہوں نے مخلوق کو حقیقی وجود مراد لیا انہوں نے دوسری بات کہی کہ معاملہ تو یوں ہی ہے مگر ہماری موجودگی کی اصل عاجزی یا میت ہونا ہے، ہم صرف اس لیے قادر یا زندہ ہیں کہ الحی اور قادر مطلق کی نیست پر تجلی ہوئی ہے۔ ان دو آراء والوں کے مابین معاملہ بڑھ گیا تو شاہ ولی اللہ (م 1762ء ) نے تیسری بات کہہ کر اسے ختم کر دیا کہ یہ نزاع لفظی ہے42۔
مثال سے وضاحت
پس صوفی فکر کی رو سے اگر اس سوال پر غور کیا جائے کہ اعیان ثابتہ کے وجود خارجی کی حقیقت کیا ہے، یا باالفاظ دیگر ان کے وجود کو وجود حقیقی سے کیسی نسبت ہے؟ تو شیخ ابن عربی و صوفیہ کی ایک پسندیدہ مثال کی رو سے اس کا جواب یہ ہے کہ یا اس کی صورت یہ ہے کہ تجلی اسماء گویا آئینے کی طرح ہے جس کے روبرو ہونے کے سبب اس میں اعیان ثابتہ کے احکام و تعیینات ظاہر ہوگئے ہیں اور یا پھر اعیان ثابتہ آئینے کی طرح ہیں جن میں اسماء و صفات الہیہ کی تجلیات ظاہر ہوئی ہیں43، دوسرے لفظوں میں یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ ان اعیان ثابتہ میں ان کی حسب استعداد وجود متعین ہوا ہے اور اگرچہ یہ وجود متعین وجود حقیقی نہیں (کہ وجود حقیقی وجود مطلق ہے)، تاہم اس متعین وجود کا منبع وجود حقیقی ہی ہے کہ اس کے سوا کوئی وجود نہیں۔ ہر دو صورت میں اعیان ثابتہ از خود ظاہر نہیں ہوتے (کہ ان کی حقیقت عدم ہے) بلکہ جو ظاہر ہوتا ہے اول اعتبار میں وہ بصورت اسماء و صفات وجود ہے جس کی تجلی کی بنا پر اعتبار ثانی میں اعیان ثابتہ کے احکام ظاہر ہو جاتے ہیں۔ فیض اقدس جس طرح اعیان ثابتہ کے ظہور فی العلم کا مبداء ہے، اسماء کی تجلی ان احکام کے وجود خارجی کا مبداء ہیں۔ پس اعیان اپنی حقیقت میں معدومات یعنی فاقد الذات ہیں، جب ان پر اسمائے الہی کی تجلی پڑتی ہے تو یہ عدمات بقدر اسم کی تجلی چمک اٹھتے ہیں۔ یعنی "جو نہیں تھا" قادر اسے بھی اعتباراً موجود کر دیتا ہے (شہودیہ کی اصطلاح میں موجود تو نہیں کرتا البتہ انہیں موجود ہونے کا شہود یا حضور عطا کردیتا ہے)، تو اس لحاظ سے کہا جا سکتا ہے کہ یہ عالم اعیان ثابتہ کا صرف خارجی عکس ہے جو وجود کے آئینے میں جھلکا ہے۔ اسی بنا پر شیخ کہتے ہیں کہ اعیان ثابتہ نے وجود کی بو تک نہیں سونگھی اور وہ اب بھی حالت عدم ہی میں ہیں۔ قرآن میں آیا:
كُلُّ شَيْءٍ ھالِك إلَّا وَجْھَہُ44 (ہر شے ہلاک ہے اور ہونے والی ہے، سوائے اس کی ذات کے)
امام غزالی (م 1111ء ) نور وجود سے اشیاء کے منور ہونے کے معاملے کی مثال یوں دیتے ہیں کہ تصور کیجئے کہ اس دنیا میں روشنی کا سورج کے سوا کوئی ذریعہ نہ ہو اور سورج طلوع نہ ہو ۔ ایسے میں ہر طرف اندھیرا ہی اندھیرا ہوگا اور کچھ ظاہر نہ ہوگا۔ اس اندھیرے کو آپ عدم تصور کیجئے۔ پھر جب سورج طلوع ہوگا تو جہاں جہاں تک اس کی کرنیں پہنچیں گی وہاں تک مختلف رنگوں کی اشیا ظاہر ہو جائیں گی ۔ سورج کی یہ کرنیں نہ اس کا عین ہیں اور نہ غیر، جن اشیاء پر پڑ کر وہ انہیں رنگ برنگی دکھا رہی ہیں نہ وہ ان کرنوں کے عین ہیں اور نہ غیر۔ تو کوئی کہنے والا اگر کہے کہ میں سورج کی روشنی کے سوا کچھ نہیں دیکھتا تو ایک جہت سے وہ بھی درست ہے ، جو کہتا ہے کہ سورج کی روشنی نے جو ظاہر کیا وہ نہ سورج ہے اور نہ اس کی کرن تو وہ بھی درست ہے۔ ایک مثال آپ یہ دیتے ہیں کہ جیسے ایک شخص گھر کے سوراخ سے چاند کی روشنی کو کسی ایسے آئینے پر پڑتا ہوا دیکھے جو دیوار میں نصب ہے، جس کی روشنی پھر اس آئینے کے مد مقابل دوسری دیوار پر پڑے اور پھر وہ روشنی زمین پر پڑے جس سے زمین منور ہو جائے۔ تو زمین کا نور دیوار کے نور کے، دیوار کا نور آئینے کے نور کے اور آئینے کا نور چاند کے نور کے تابع ہے اور پھر چاند آفتاب سے نور حاصل کرتا ہے، ان میں سے ہر نور دوسرے کے مقابلے میں کامل تر ہے اور اپنے اپنے درجے پر ہے جس سے وہ تجاوز نہیں کرتے45۔ اس مثال میں حقیقی نور آفتاب ہی کا ہے اور آئینے اور اس کے ماتحت نور کو آفتاب کے نور کے مقابلے میں بس مجازی طور پر نور ہونے کی نسبت ہے۔ اسی لئے آپ کہتے ہیں کہ عارفین نے مجاز کی پستی سے حقیقت کی بلندی کی جانب سفر کر کے اس حقیقت کو جان لیا کہ اللہ کے سوا کوئی موجود نہیں اور اس کے سوا ہر شے نہ صرف یہ کہ ہلاک ہونے والی ہے بلکہ وہ ازل تا ابد ہلاک ہے46۔ آئینے میں ظاہر ہونے والا عکس نہ اصل ہوتا ہے اور نہ اصل سے الگ، یعنی "من وجہ ھو " و "من وجہ لا ھو"47۔ پھر مزید غور کرو کہ شے جب آئینے کے روبرو ہو تو صرف اپنا عکس دیکھتی ہے، رہا آئینہ تو وہ دکھائی نہیں دیتا۔ اسی طرح اعیان ثابتہ وجود مطلق کے آئینے میں اپنا آپ (یعنی وجود متعین) تو دیکھتے ہیں مگر وجود مطلق کا ادراک نہیں ہو سکتا۔ شیخ کہتے ہیں کہ دیکھنے والا جب بغور دیکھنے کی کوشش کرتا ہے تو اسے اپنا عکس اپنی بصارت اور آئینے کے مابین حائل دکھائی دیتا ہے، یہی معاملہ یہاں ہے اور اس سے آگے بڑھنے کی جستجو کرنا ایک محال شے کی طلب کرنا ہے کیونکہ وجود متعین کی نفی کر کے وجود مطلق کی جستجو کا مطلب اس کے سوا کچھ نہیں کہ بندہ اپنی حقیقت یا صفت ذاتی کو فنا کر کے عدم کے گھاٹ جا اترے۔ اسی لئے شیخ کہتے ہیں کہ بندے کی جانب سے اعیان کے عکس سے آگے ادراک کی کوشش عدم محض کی جستجو ہے48۔
وحدت میں کثرت کی مثال یوں ہے جیسے کسی شے کے ارد گرد مختلف رنگوں و سائز کے آئینے رکھ دئیے جائیں تو وہی شے اب مختلف رنگوں و مقداروں میں دکھائی دینے لگے گی جبکہ دکھائی دی جانے والی چیز اصلاً ایک ہے نیز وہ ان رنگوں و مقداروں سے متصف بھی نہیں۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ وہی شے ان سب صورتوں کے قیام کا ذریعہ بن کر ان کا قیوم ہے۔ پس اعیان ثابتہ کو جب اپنی ذات میں دیکھا جائے تو یہ عدم ہیں اور اس لئے وجود کا غیر (یا نفی) ہیں، اور جب اس جہت سے دیکھا جائے کہ ان پر اسماء کی تجلی ہوئی ہے جس کی بنا پر یہ اپنی انفعالیت کے ساتھ اعتباراً موجود ہیں تو یہ اسماء کا عین ہیں (یعنی اس کے مفہوم میں شامل ہیں اور اس بنا پر اسماء الہیہ ان اسمائے کونیہ کے باطن و حقائق ہیں)۔ جس طرح ہر انفعالیت کی حقیقت فعل کا اثر ہونا ہے اور اس اثر کے سوا نہ یہ قابل تصور ہوتی ہیں اور نہ موجود، اسی معنی میں اعیان ثابتہ کی حقیقت اسمائے الہیہ ہیں۔ وجود کی تجلی سے اعیان کو عکس یا سائے کی طرح موجود کرنا ذات باری ہی کا کام ہے، قرآن میں ارشاد ہوا:
ألَمْ تَرَ إلَیٰ رَبِّكَ كَيْفَ مَدَّ الظِّلَّ وَلَوْ شَاءَ لَجَعَلَہُ سَاكِنًا ثُمَّ جَعَلْنَا الشَّمْسَ عَلَيْہِ دَلِيلًا49 (کیا تم نے اپنے رب کی جانب نگاہ نہ ڈالی کہ وہ کس طرح سائے کو پھیلاتا ہے، اگر وہ چاہتا تو اسے ساکن کر دیتا، پھر ہم نے سورج کو اس پر دلیل بنایا ہے )
یعنی اعیان کا وجود خارجی سائے کی مانند ہے اور رب تعالی چاہتا تو انہیں مستقلاً مرتبہ علمی کے پردہ خفا ہی میں روکے رکھ سکتا تھا، پھر اس معاملے کو سمجھانے کے لئے اس نے سورج کی روشنی کو دلیل بنا دیا۔ شیخ کہتے ہیں کہ واجب الوجود نور ہے تو ممکن الوجود سائے کی مانند جبکہ ممتنع الوجود نری ظلمت ہے۔ شیخ ایک مثال سے معاملے کو یوں سمجھاتے ہیں کہ جب ممکن الوجود (یعنی اعیان) کو موجود کیا گیا تو انہوں نے اپنے بائیں جانب خود سے پھوٹنے والے سائے کو پا کر پوچھا کہ یہ کیا ہے؟ دائیں جانب وجود سے آواز آئی کہ یہ تمہاری حقیقت (یعنی عدم) ہے، اگر تم بھی روشنی یعنی وجود ہوتے تو تمہارے عدم کی یہ پرچھائی نہ ہوتی، میں وہ روشنی ہوں جو اس سائے کو ختم کرنے والی ہے۔ یہ جو نور وجود تمہیں میسر ہے یہ اس بنا پر ہے کہ تمہارا چہرہ میری جانب ہے اور اس سبب ہی تمہیں یہ ادراک ہوتا ہے کہ تم "میں" یعنی وجود مطلق نہیں ہو سکتے کہ میں نور بلا سایہ ہوں اور تم بوجہ اپنے امکان ملاوٹ زدہ نور ہو۔ اگر تم اپنے سائے سے بھاگنے کی کوشش کرو گے تو یہ عین اپنی حقیقت یعنی ممکن ہونے سے فرار کی بات ہوگی اور اگر تم نے اپنی حقیقت یعنی ممکن الوجود ہونے سے فرار کی کوشش کی تو تم مجھ سے جاہل و غافل ہو جاؤ گے اور مجھے کبھی نہ پہچان سکو گے کیونکہ تیرے پاس اپنے ممکن الوجود ہونے کے سوا یہ جاننے کا کوئی ذریعہ نہیں کہ میں تمہارا الہ، رب اور پیدا کرنے والا ہوں۔ پھر اگر تم سائے کے مشاہدے میں ہمہ وقت مشغول ہو کر روشنی سے کلی طور پر منہ موڑ بیٹھے تو تمہیں یہ معلوم نہ ہو سکے گا کہ یہ دراصل تمہارے امکان کا سایہ ہے کیونکہ روشنی ہی سے سایہ مفہوم ہو سکتا ہے۔ اس حال میں تمہیں یہ محسوس ہوگا گویا یہ محال کا سایہ ہے، واجب اور محال ہر لحاظ سے متضاد ہیں، اگر تم محال ہوتے اور اس حال میں تمہیں حکم دیتا کہ "ھوجا" تو تم اسے سن کر اس پر لبیک نہ کہتے کیونکہ محال ہونے کا حال تمہیں میری پکار سننے سے بہرا کر دیتا۔ پس اپنی نگاہ کو میری جانب اس طرح نہ ٹکا کہ تجھ سے تیرے سائے کا شعور و ادراک ختم ہو جائے کیونکہ اس حال میں تو یہ کہے گا "تو میں ہے" اور ایسا دعوی جہالت میں پڑ جانا ہے کیونکہ ممکن واجب نہیں ہو سکتا، اور نہ ہی اپنے سائے میں اس طرح گم ہو جا کہ تجھے مجھ سے بے شعور کر دے کہ پھر تو بہرہ ہو جائے گا اور یہ جان نہ سکے گا کہ تجھے کیوں پیدا کیا۔ پس تو 'نفی و اثبات' یا 'ھو ولا ھو' کا مجموعہ بن کر کبھی ایک شعور کا حامل ہو اور کبھی دوسرے کا۔ الله نے تجھے دو آنکھیں اسی لئے عطا کیں کہ ایک سے تو اس کی جانب دیکھے اور ایک سے سائے کی جانب50۔
حواشی
9. صحیح بخاری : رقم الحدیث 3019 نیز 6982
10. اعیانِ ثابتہ 15 از ڈاکٹر محمد خان چشتی
11. الفتوحات المکیۃ: 3 / 518
12. القرآن: الشوری 11
13. القرآن: النجم 9
14. مسند الإمام أحمد: 16623 نیز ترمذی: 3609۔ ایک اور روایت میں "پانی و مٹی کے مابین" کے الفاظ آئے ہیں، تاہم علمائے ظاہر کے ہاں یہ الفاظ ثابت نہیں مگر اہل کشف کےہاں مضمون کے لحاظ سے درست ہیں، واللہ اعلم۔
15. الفتوحات المکیۃ: 3 / 141
16. روایت کے الفاظ یہ ہے: یَاجَابِرُ اِنَّ اللہَ قَدْ خَلَقَ قَبْلَ الْاَشْیَاءِ نُوْرَ نَبِیّکَ مِنَ نُوْرِہ (اےجابرؓ! بےشک اللہ نے تمام اشیاء سے پہلے تیرے نبیؐ کا نور اپنے نور سے پیدا فرمایا) ، کشف الخفاء، جلد ۱، تحت الحدیث ۸۲٦، ص ۲۳۷۔ علمائے ظاہر کے نزدیک یہ حدیث ثابت نہیں مگر اہل کشف اس مضمون کی متعدد احادیث سے تمسک کرتے ہیں نیز یہ دیگر نصوص میں مذکور احکام کے ساتھ ہم آہنگ ہیں۔ مثلا ایک حدیث میں آپﷺ نے فرمایا: اعطیت جوامع الکلم(مجھے جامع کلمات عطا کئے گئے ہیں)، شیخ اس حدیث کو "کائنات اللہ کے کلمات ہیں" کے ساتھ ملا کر پڑھتے ہیں۔
17. فرھنگ اصطلاحات تصوف 148 نیز سر دلبراں 354
18. قَالَ رَجُل: يَا رَسُولَ اللہِ، بُوھِيَ بِالْخَيْلِ وَألْقِيَ السِّلاحُ، وَزَعَمُوا أنْ لَا قِتَالَ. فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صلَّی اللہُ عَلَيْہِ وَسَلَّمَ: «كَذَبُوا، الآنَ حَانَ الْقِتَالُ، لَا تَزَالُ مِنْ أمَّتِي أمَّۃ قَائِمَۃ عَلَی الْحَقِّ ظَاھِرۃ» وَقَالَ وَھُوَ مُوَلِّي ظَھْرِہِ إلَى الْيَمَنِ: «إنِّي أَجِدُ نَفَسَ الرَّحْمَنِ مِنْ ھَاھُنَا، وَلَقَدْ أوحِيَ إلَيَّ أنِّي كَفُوف غَيْرُ مُلَبَّثٍ، وَلْيَتْبَعُنِّي أفْنَادًا، وَالْخَيْلُ مَعْقُود فِي نَوَاصِيھَا الْخَيْرُ إلَی يَوْمِ الْقِيَامَۃِ، وَأھْلُھَا مُعَانُونَ عَلَيْھَا (مسند سلمة بن نفيل السكوني، التاریخ الکبیر للبخاری: 4 / 70)، نیز یہ الفاظ بھی منقول ہیں: قال: قال النبي، صَلَّى اللہُ عَلَيْہِ وَسَلَّمَ: ألا إن الإيمان يمان والحكمۃ يمانيۃ وأجد نفس ربكم من قبل اليمن
19. القرآن: الرحمن 29
20. الفتوحات المکیۃ: 1 / 292، نیز 2 / 384 ، نیز 2 / 639 ، نیز 3 /199
21. القرآن: البقرۃ 31
22. صحیح بخاری : 6227 ، صحیح مسلم: 7163
23. القرآن:الحجر 21
24. القرآن: یس 82
25. اس روایت کی سند علمائے ظاہر کے نزدیک ثابت نہیں تاہم اہل کشف کے نزدیک یہ حدیث ثابت ہے، نیز اپنے مفہوم کے اعتبار سے یہ روایت درست ہے جیسا کہ آگے اعیان ثابتہ کے تحت آئے گا کہ یہ اعیان ازل سے علم الہی میں مخفی خزانے کی صورت ثابت تھے جنہیں "کن" کے تحت ظاہر کیا جاتا ہے، ارشاد ہوا: وَإن مِّن شَيْءٍ إِلَّا عِندَنَا خَزَائِنُہُ وَمَا نُنَزِّلُہُ إلَّا بِقَدَرٍ مَّعْلُومٍ (اور ایسی کوئی شے نہیں مگر ہمارے پاس اس کے خزانے ہیں اور ہم اسے معین مقدار میں نازل کرتے ہیں)۔ ملا علی قاری (1013ھ ) نے بھی اس کے مضمون کو درست قرار دیا ہے (دیکھئے، كشف الخفاء ومزيل الإلباس عما اشتهر من الأحاديث على ألسنة الناس، لإسماعيل بن محمد العجلوني الجراحي (1162 ھ ): 2 / 132 )
26. القرآن: الاعراف 156
27. القرآن: القلم 42
28. بخاری: 4850
29. مشکوۃ المصابیح: 89
30. القرآن: ص 75
31. بعض محقق صوفہ ملائکہ کو دو درجات میں رکھتے ہیں، عالین ایک الگ مرتبے کے ملائکہ ہیں، جن فرشتوں کو آدم علیہ السلام کو سجدے کا حکم دیا گیا وہ عالین نہیں بلکہ الگ قسم والے تھے۔ اس کی دلیل یہ دی جاتی ہے کہ جب ابلیس نے سجدہ نہ کیا تو اللہ نے اس سے کہا کہ تو نے سجدہ کیوں نہ کیا، کیا تو خود کو عالین میں سے سمجھتا ہے؟ (القرآن: ص 75 )۔ دیکھئے "تنزلات ستہ"
32. القرآن: الاعراف 172
33. القرآن: الاحزاب 72
34. القرآن: اعراف 54
35. القرآن: یس 82
36. الفتوحات المکیۃ: 4 / 210
37. صحیح مسلم: 523۔ ایک روایت میں آیا: أوتِيتُ جَوَامِعَ الْكَلِمِ. وَبَيْنَمَا أَنَا نَائِمٌ أتِيتُ بِمَفَاتِيحِ خَزَائِنِ الْأرْضِ فَوُضِعَتْ فِي يَدِي (مجھے جامع کلمات سے نوازا گیا اور میں نیند کے عالم میں تھا کہ زمین کے خزانوں کی کنجیاں میرے پاس لائی گئیں اور انہیں میرے ہاتھوں میں دے دیا گیا)، صحیح مسلم: 523۔ اس مفہوم کی دیگر روایات بھی ہیں، مثلاً بخاری کے یہ الفاظ: اعطیت مفاتیح الکلم (مجھے سب کلمات کی کنجیاں عطا کی گئیں ہیں)، صحیح بخاری : 6597۔
38. القرآن:الکہف 109
39. القرآن: لقمان 27
40. الفتوحات المکیۃ: 2 / 171
41. الفتوحات المکیۃ: 2 / 171 ،نیز 2/ 88 ، نیز 2 / 134 ، نیز 3 / 141
42. فیصلہ وحدت الوجود و الشہود
43. فصوص الحکم 48
44. القرآن: القصص 88
45. مشکاۃ الانوار: 53
46. مشکاۃ الانوار: 55
47. الفتوحات المکیۃ: 1 / 204
48. فصوص الحکم: 61
49. القرآن: الفرقان 45
50. الفتوحات المکیۃ: 2 / 303