اس تحریر میں ہم کانٹ کی اس دلیل کا علم کلام کے منہج پر جائزہ لیں گے جو وہ عقلی الہیات کے عدم امکان (impossibility of rational metaphysics or theology) کے لئے پیش کرتا ہے۔ اس کا محاکمہ اس لئے ضروری ہے کیونکہ ہمارے ہاں علامہ اقبال رحمہ اللہ سے لے کر متعدد مفکرین اس دلیل سے متاثر ہوئے ہیں اور آج بھی ایسے حضرات موجود ہیں۔ اگر کانٹ کی دلیل درست ہے تو نبی کی نبوت کے اثبات کی ہم آہنگ علمی دلیل فراہم کرنا ممکن نہیں کیونکہ اثبات نبوت ذات باری کے وجود اور اس کی صفات پر موقوف ہے نیز اگر کانٹ درست ہے تو مسلمانو ں کی عقیدے و کلام کی روایت غیر معتبر ہے۔ اس لئے کانٹ کی دلیل کا تجزیہ ضروری ہے۔
1) الہیات کے عدم امکان پر کانٹ کی دلیل
دلیل کے تجزئیے سے قبل اس دلیل کے اجزا کا مستحضر ہونا ہے۔ یہاں اس کی دلیل چند نکات کی صورت پیش کی جاتی ہے۔
1۔ ذرائع علم کا جائزہ
کانٹ کا کہنا ہے کہ حقیقت پر بحث سے قبل ہمیں اپنے پاس میسر ذرائع علم کا جائزہ لینا ہوگا جن کی بنیاد پر ہم حقیقت سے متعلق کسی علمی قضیے (knowledge-claim) کا دعوی کرتے ہیں۔ انسان کے پاس دو قسم کے ذرائع علم ہیں:
الف) ایک خاص قسم کی ذہنی ساخت یا ڈھانچہ (structure of mind) جو انسانی ذہن میں ماقبل تجربہ (a priori) موجود ہے۔ یہ ذہنی سانچے کسی شے کے ادراک و تفہیم سے متعلق ہیں جو دو طرح ہیں:
- زمان و مکان: ایک وہ جو کسی شے سے متعلق میرے ادراک و شعور (intuition) کو ممکن بناتے ہیں اور یہ زمان و مکان کے سانچے ہیں، ہر تجرباتی علم ان پیمانوں کے اندر ہوتا ہے۔ ان سانچوں کو کانٹ pure forms of intuition کہتا ہے۔
- ذہنی خاکے: دوسرے وہ جو شے کی صورت (concepts) وضع کرتے ہیں اور یہ 12 خاکے یا مقولات (categories) ہیں جن کے ذریعے ذہن حسی مشاہدے میں آنے والے تجربات کو منظم کرکے انہیں مفہوم دیتا ہے، جیسے کہ انسان تجرباتی معلومات کو وحدت و کثرت، کیف، علت و معلول وغیرہ کے تصورات میں دیکھتا ہے۔ دوسری قسم کے خاکوں کو کانٹ pure forms of thought کہتا ہے۔
ب) حواس(sensory input) جن کے ذریعے بیرون سے متعلق معلومات (data) حاصل ہوتی ہیں جنہیں ذہن درج بالا ادراکی و تفہیمی خاکوں کی مدد سے ترتیب دیتا ہے۔
2۔ ذہنی سانچوں اور حسی تجربے کا امتزاج
اول الذکر یعنی ذہنی سانچے بذات خود کسی حقیقت کے ادراک یا کسی معین علم (substantive knowledge) کے حصول کا باعث نہیں ہوتے کیونکہ یہ خالی ڈھانچوں یا گھڑھوں (vessels) کی طرح ہوتے ہیں اور جب تک انہیں حسی تجربے کے ذریعے کوئی مواد نہ ملے یہ نرے خیال ہیں۔ البتہ یہ ڈھانچے تجربے کے لئے شرائط کی حیثیت رکھتے ہیں۔ علم (الف) اور (ب) کے ملاپ سے پیدا ہوتا ہے، یعنی جب ذہن کے سانچے اور حسی تجربے کے ذریعے ملنے والے مواد کا امتزاج ہوتا ہے۔
3۔ درج بالا کی دلیل و موٹیویشن
کانٹ نے درج بالا تجزیہ اپنے پیش رو عقلیت پسند و تجربیت پسند (rationalist and empiricist) مفکرین کے مابین فصل نزاع کے طور پر پیش کیا۔ اس ضمن میں وہ بالخصوص ڈیوڈ ہیوم کے ایک شبہے کا جواب دینے کی کوشش کرتا ہے۔ تجربیت پسندوں کا دعوی تھا کہ سارے بامعنی علمی قضایا تجربے سے جنم لیتے ہیں۔ کانٹ ہیوم کے اس نتیجے سے متاثر ہوا تھا کہ علت (cause) کا تصور کسی خارجی مشاہدے سے حاصل نہیں ہوتا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ تمام علم نرے تجربے سے حاصل نہیں ہوسکتا۔ کانٹ اس شبہے کا جواب دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ علت کا تصور دراصل انسانی ذہن میں ماقبل تجربہ ایک تصور (a priori concept) یا ڈبے کے طور پر موجود ہے اور ان ڈبوں کو مانے بغیر تجربی علم کی تشکیل کا امکان نہیں۔ چنانچہ امکان علم کے بارے میں درج بالا منہج پر یقین رکھنا کانٹ کے خیال میں اس لئے ضروری ہے کیونکہ اس طرح وہ مسئلہ حل ہوجاتا ہے جو ہیوم کو درپیش تھا کہ ہمارے علمی قضایا میں ایسے تصورات کہاں سے در آتے ہیں جو خارجی مشاہدے سے حاصل نہیں ہوتے۔
4۔ شے فی نفسہ اور مظاہر کا فرق
کانٹ کے مطابق ذہنی سانچوں اور حسی معلومات کے امتزاج سے حاصل ہونے والے علم کے ذریعے ہم "شے فی نفسہ" (thing in it self) کو نہیں جانتے، بلکہ اس کے صرف مظہر (phenomena) کو سمجھتے ہیں، یعنی ان شبیہات (appearances) کو جو ہمارے ذہن کے سانچے خارجی معلومات پر لاگو ہوکر ان کی صورت گری کرکے ہمارے سامنے پیش کرتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان اپنے ذہن میں پیوست سانچوں کے ذریعے حسی معلومات کو وحدت و ترتیب دیتا ہے، لہذا انسان دراصل خارجی دنیا کی اشیاء کی اصل حقیقت یا شے فی نفسہ (thing in itself) کو دریافت نہیں کرتا بلکہ اپنے ذہن کے ادراکی سانچوں سے تشکیل پانے والے اشیاء کے مظاہر یا شبیہات کو دریافت کرتا ہے۔ شے فی نفسہ (یعنی وہ حقیقت جو ہماری ادراکی و تفہیمی ساختوں سے پرے ہے) ہمارے ادراک سے ماوراء رہتی ہے جسے ہم نہیں جان سکتے، ہم شے کو صرف ویسا جانتے ہیں جیسا کہ ہم نے اس کا تجربہ کیا۔ گویا حصول علم کی کیفیت یوں ہے جیسے میں ایک چھوٹے سے انسان کی طرح اپنے ذہن کے اندر بیٹھ کر ذہن کی سکرین پر ابھرنے والی شبیہات کا مشاہدہ کررہا ہوں۔ اس عمل کے دوران میں خارجی اشیاء (external world) کی صفات یا کیٹیگریز نہیں بلکہ ان سے متعلق مظاہر و شبیہات (phenomenon of the world) کے ذریعے ذہن کے خاکوں (categories of mind) کو دریافت کرتا ہوں۔
5۔ علم کی حدود اور الہیات کا عدم امکان
درج بالا تجزئیے کی بنیاد پر کانٹ کا کہنا ہے کہ صرف انہی حقائق یا امور کا علم ممکن ہے جو بذریعہ حس گرفت میں آئیں کیونکہ ذہنی خاکے انہی سے متعلق کوئی اطلاع پانے پر انہیں منظم کرکے صورت گری کرسکتے ہیں۔ وجود باری جیسے الہیاتی یا مابعد الطبعیاتی امور کا علم ممکن نہیں اس لئے کہ خدا زمان و مکان سے ماوراء ہے۔ لہذا اسے حسی تجربے سے نہیں جانا جاسکتا اور نتیجتاً ذہنی خاکے ایسے وجود کی صورت گری کرنے سے قاصر ہیں۔ چونکہ ذہنی خاکے از خود کوئی علم فراہم نہیں کرتے بلکہ نرے خیال (menta concepts) ہیں اور حسی تجربہ خدا جیسے مابعد الطبعیاتی امور کا احاطہ نہیں کرتا، اس لئے الہیات کے مسائل (مثلاً وجود باری اور اس کی صفات) کے اثبات پر عقلی استدلال ایک ایسی بے معنی ذہنی مشق ہے جس کا کوئی خارجی مصداق (correspondent) نہیں۔ ذہنی ڈبوں سے متعلق خارجی مصداق صرف اس شے کا ہوتا ہے جو حس میں آئے اور میٹافیزیشنز اس حقیقت کو نہ پہچاننے کے باعث ڈاگمیٹک انداز سے الہیات کے اثبات میں مصروف رہے۔
6۔ علت کا تصور اور خدا
کانٹ کا دعوی ہے کہ علت کا تصور صرف زمان و مکان کی اشیاء پر لاگو ہوتا ہے، اس لئے کہ تفہیمی خاکوں میں جس ڈبے یا کیٹیگری کا نام علت و معلول ہے وہ اشیاء کے مابین زمانی ترتیب و تسلسل (temporal procession) سے عبارت ہے نیز علت زمانی طور پر معلول سے مقدم ہوتی ہے۔ چونکہ علت کا تصور بامعنی علم پیدا کرنے کے لئے زمانی ترتیب کا محتاج ہے، لہذا زمانی و مکانی علتوں کی سیریز کے مشاہدے کو اس سے ماوراء لاگو کرنا غیر منطقی چھلانگ ہے۔ ایسا اس لئے کہ اس ماورا کے بارے میں ہمارے پاس خبر حاصل کرنے کا کوئی ذریعہ نہیں، لہذا یہ کہنے کی کوئی بنیاد موجود نہیں کہ زمان و مکان سے ماوراء بھی زمانی و مکانی تصورات لاگو ہیں۔ پس زمانی اور مکانی اصول خدا جیسے ماورائی وجود پر لاگو نہیں ہو سکتے، لہذا علت کے تصور کو خدا “بطور علت اولی” یا “کائنات کی علت” کے طور پر لاگو کرکے ایک وجود ثابت کرنا بے سود ہے۔
دلیل کا نتیجہ
کانٹ کی دلیل کا خلاصہ یہ ہے کہ حسی تجربے سے ماوراء الہیات اور مابعد الطبیعیات جیسے موضوعات کے بارے میں نظری عقل (theoretical reason) سے علم حاصل کرنا ممکن نہیں۔ انسانی علم کا دائرہ صرف حواس کے ذریعے حاصل شدہ معلومات اور ذہن کے خاکوں کے دائرے تک محدود ہے، اور خدا جیسے امور اس دائرے سے باہر ہیں۔ یہاں یہ بات یاد رہے کہ کانٹ خدا کے وجود کے امکان کو مکمل طور پر رد نہیں کرتا، بلکہ اس کے خیال میں خدا کا تصور انسان کے اخلاقی شعور یاعقل عملی (practical reason) کی بنیاد پر اہمیت رکھتا ہے اور وہ اس کا قائل تھا۔ لیکن نظری عقل یا عقل محض (pure reason) کے ذریعے اس کا ادراک وہ ناممکن قرار دیتا ہے۔ کانٹ جس طرز پر عملی عقل میں خدا کو جگہ دیتا ہے وہ بذات خود غیر تسلی بخش و غیر مفید ہے، تاہم یہاں اس پر بحث نہیں کریں گے۔
کانٹ کی اس دلیل سے متاثر ہوکر بعض مذہبی مفکرین الہیات کے عقلی امکان سے دستبردار ہوجاتے ہیں۔ اس کے بعد ان میں سے بعض حضرات وجود و صفات باری سے متعلق مذہبی مقدمے کا دفاع مذہبی تجربے (religious experience) کی بنیاد پر کرنے کا دعوی کرتے ہیں جیسا کہ علامہ اقبال کا یہ خیال ہے، بعض اسے کلیتاً نبی کی خبر پر موقوف کرتے ہوئے عقل و ایمان کی دوئی قائم کرکے اسے ایمانی شے کہتے ہیں، بعض کانٹ کی اس دلیل کو الحاد پسندوں کےخلاف استعمال کرتے ہیں کہ اگر عقل سے خدا کا اثبات ممکن نہیں تو انکار بھی ممکن نہیں جبکہ بعض متذبذب رہتے ہیں۔بعض مذہب پسند حضرات کا خیال ہے کہ کانٹ نے یہ بات کہہ کر اہل مذہب پر احسان کیا کہ ہمیں حقائق اشیاء کا علم حاصل نہیں ہوتا، یوں گویا نبوت کی عظمت کے لئے یہ دروازہ کھل گیا کہ حقیقت نبی بتاتا ہے۔ رہا نبی کی صداقت کا سوال تو اسے ایمان کے زور پر منوا لیا جائے، یوں ایمان ان کے نزدیک ایک ماورائے عقل مقدس شے کا نام ہے۔
2) کانٹ کی دلیل کا جائزہ
اب ہم اس پر بالترتیب نکتہ وار اس دلیل تبصرہ کریں گے۔
کانٹ کی دلیل پر قائم ہونے والے سوالات دو قسم کے ہیں، وہ جو اس کی دلیل کی داخلی ساخت یا ہم آہنگی سے متعلق ہیں اور وہ جہاں وہ غیر ضروری طور پر ایک مفروضے کو درست مان کر اپنا مقدمہ وضع کرتا ہے، ان امور کی بنا پر اس کی پیش کردہ توجیہہ غیر اطمینان بخش رہتی ہے۔ دوسری طرز پر دیکھیں تو یہ سوالات تین قسم کے ہیں: وہ جو اس کے بیان کردہ ذرائع علم اور ان کی نوعیت سے متعلق ہیں، وہ جو ان سے حاصل شدہ علم کی کیفیت سے متعلق ہیں اور وہ جو ان سے اخذ کردہ نتائج سے متعلق ہیں۔ درج ذیل میں سے سب نکات براہ راست اس کے نظرئیے پر نقد کے لئے نہیں ہیں بلکہ بعض نکات اس کے نظرئیے کی تنقیح کے لئے بھی ہیں تاکہ قاری کے سامنے کانٹ کی بات کھل کر آسکے۔ کانٹ کے مقدمے پر دس نکات کے تحت بات ہوگی اور اب تک اس پر ہم نے جو کچھ لکھا ہے اسے یہاں جمع کرنے کی کوشش بھی کی جائے گی۔ وما توفیقی الا باللہ۔
پہلا نکتہ:کانٹ کے فلسفے کی سچائی داخلی تضاد کو مضمر ہے
مان لیا کہ علم کے ذرائع کا جائزہ لینا اہم ہے اور تمام متکلمین بھی حقائق کے ادراک کی بحث کا آغاز انسان کے پاس میسر ذرائع علم ہی سے کرتے ہیں، لیکن آپ نے یہ کس بنیاد پر کہا کہ حصول علم کی کیفیت اس خاص طرز پر منحصر ہے جس کا آپ نے دعوی کیا؟ یعنی آپ کے اس فلسفے (جسے آپ transcendental idealism کہتے ہیں) کی سبسٹنٹو سچائی کا علم آپ کو کس طرح ہوا؟ یہاں دو امکان ہیں: علم کی تعمیر سے متعلق آپ کا یہ دعوی یا درست و حقیقت ہے اور یا یہ محض خیال ہے۔ اگر یہ حقیقت ہے تو اس کی سچائی کی بنیاد آپ کے نظرئیے کی رو سے یا تجربے سے ماخود ہوگی اور یا اس ذہنی ساخت یا ڈبوں سے جسے آپ ذہنی خاکہ کہتے ہیں۔ ذہنی خاکوں سے اس کی سچائی ثابت نہیں ہوسکتی کیونکہ یہ خاکے آپ کے بقول کوئی حقیقی علم فراہم نہیں کرتے۔ اس کا ذریعہ تجربہ بھی نہیں ہوسکتا اس لئے کہ یہ دعوی ماقبل تجربہ امور سے متعلق ہے، اور اگر ایک لمحے کے لئے مان بھی لیں کہ بذریعہ تجربہ ان کی تصدیق ہوتی ہے تو بھی آپ کے مطابق تجربے سے محض مظاہر یا appearance کا علم حاصل ہوتا ہے نہ کہ حقیقت کا، تو تجربے سے ماخوذ ہونے کے باوجود بھی یہ محض appearance کا علم ہوگا۔ پس خود اپنے اس دعوے کو آپ نے ایک قسم کے ڈاگمیٹزم کے علاوہ کس بنیاد پر سچائی فرض کرلیا ہے کہ علم اس طرح تعمیر ہوتا ہے جیسے آپ کا دعوی ہے؟ کانٹ کی فکر کا یہ تضاد اس کے ہم عصر جرمن فلاسفہ نے بھانپ لیا تھا (اس کے حوالے ہم نے ایک تحریر میں پیش کئے تھے)۔ کانٹ کے یہ ناقدین مزید کہتے ہیں کہ کانٹ کے فلسفے کی رو سے منطق کے بنیادی قوانین (جیسے جمع بین النقیضین کا محال ہونا) بھی فنامینا یا appearances قرار پاتے ہیں جبکہ کانٹ کی یہ بات متناقض و self-defeating ہے، اس لئے کہ منطق و عقل کے قوانین appearances قرار دینے کے لئے جو دلیل لائی جائے گی وہ بھی ان قوانین کو نفس الامر میں درست مانے بغیر ممکن نہیں کیونکہ ان قوانین کو appearances ثابت کرنے کے لئے بھی خود انہی قوانین کو حقیقت فرض کرکے ان سے مدد لینا ہوگی۔ چنانچہ کانٹ کو اپنی اس بات کی سچائی کو ثابت کرنے کے لئے کہ منطق کے قوانین محض appearances سے متعلق ہیں” تجربہ اور ان منطقی قوانین سے ماورا کسی ماخذ کی طرف جانا ہوگا لیکن ایسا کوئی ماخذ موجود نہیں۔
دوسرا امکان یہ ہے کہ آپ کا یہ فلسفہ بھی نرا خیال ہے، اس صورت میں اس کی بنیاد پر کسی اثباتی دعوے کرنے یا کسی دعوے کی تردید کی کوئی راہ نہیں۔
الغرض کانٹ کے ناقدین کا کہنا ہے کہ اس کے نزدیک روایتی میٹافزکس پر گفتگو سے قبل ہمیں میسر ذرائع علم کا جائزہ لینا ہوگا کہ آیا وہ ہمیں اس سے متعلق کوئی بات کہنے کی گنجائش فراہم کرتے ہیں یا نہیں، لیکن کانٹ خاموشی کے ساتھ خود اپنے منہج کو اس پیمانے پر جانچنے سے چشم پوشی اختیار کرتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر کانٹ کی یہ بات درست ہے کہ انسان کا تمام علم appearances تک محدود ہے تو خود اس کا یہ دعوی بھی اسی نوعیت کا ہوگا لیکن کانٹ اپنے اس دعوے کو سچ و حقیقت مانتا ہے، اور اگر یہ دعوی بھی appearance ہے تو اس کی بنیاد پر کسی دعوے پر نقد کا کوئی مطلب نہیں۔ الغرض ہر سوفسطائی فکر کی طرح کانٹ کا فلسفہ خود اپنے دعوے کی ذد میں ہے۔
دوسرا نکتہ: ذہنی مقولات کا علم کیسے ہوا؟
مان لیا کہ آپ کا دعوی حقیقت ہے، لیکن آپ کو ان خالی گھڑھے نما ذہنی سانچوں یا مقولات کے وجود کا علم کیسے ہوا؟ یہاں چار امکان ہیں:
- یا ان خاکوں کے وجود ہونے کا علم کسی اور ماقبل خاکوں سے ہوا ہوگا، اگر کسی ماقبل خاکوں کو اس کا ماخذ کہا جائے تو ان کی حقیقت کا علم ان سے ماقبل کسی خاکوں پر موقوف ہوگا اور یوں یہ تسلسل لامتناہی چلے گا جو جائز نہیں
- یا انہی خاکوں سے ہوا ہوگا، اگر انہی خاکوں کو ان کی حقیقت کا ذریعہ کہا جائے تو مسئلہ یہ ہے کہ آپ کے نزدیک از کود ان خاکوں سے کوئی علم حاصل نہیں ہوتا اور
- یا ان کا علم بدیہی حقیقت یا اضطراری نوعیت کا ہے، اگر انہیں بدیہی حقائق کہا جائے تو آپ نے مان لیا کہ بعض حقائق کا علم ان دو ذرائع کے سوا بھی انسان کو حاصل ہے، فھو المطلوب اور اس کے بعد آپ کے لئے دیگر بدیہی حقائق جن کا آگے ذکر ہوگا ان کی تردید کی بنیاد نہیں
- یا ان کا علم کسی تجربے سے ہوگا، لیکن یہ ممکن نہیں کیونکہ یہ مقولات یا خالی ڈبے آپ کے نزدیک تجربے کی شرط ہیں
اگر ان چار کے سوا کوئی امکان ہے تو اسے پیش کیا جائے تاکہ اس پر بات ہوسکے۔ کانٹ کی جانب سے ایک ممکنہ توجیہہ یہ ہوسکتی ہے کہ یہ ماقبل مقولے اس معنی میں حق ہیں کہ یہ روز مرہ مشاہدے سے ہمارے اندر جنم لینے والے تاثرات کی سب سے بہتر توجیہہ کرتے ہیں، یعنی تجربہ اور ہمارے علمی قضایا کی نوعیت اپنی توجیہہ کے لئے یہ تقاضا کررہے ہیں کہ چند ماقبل مقولوں کو بطور شرط فرض کیا جائے۔ اس معنی میں اس علم کا نکتہ آغاز ہمارے اندر موجود تصورات ہیں جن کے تجزئیے و تحلیل سے گویا ہم نے جان لیا کہ بعض تصورات شرط کی حیثیت رکھتے ہیں، یوں یہ علم ایک قسم کے عقلی استنباط و تجزئیے سے حاصل ہوا ہے۔ تاہم اس پر یہ اعتراض وارد ہوگا کہ جن تصورات کو یہاں ابتدائی خام مال قرار دیا جارہا ہے، کانٹ واضح طور پر انہیں اپیرنس یا تشبیہی مظاہر (یعنی فنامینا) کہتا ہے۔ پس اگر یہ تشیہی مظاہر ہی ان مقولات کی دریافت کا نکتہ آغاز ہیں تو ان سے ان مقولات کی حقیقت کا علم حاصل ہوگا یا صرف ایک مزید اپیرنس کا؟ الغرض کانٹ کی جانب سے یہ توجیہہ بھی اس کے فلسفے کے تضاد کو رفع کرنے والی نہیں۔ نیز اس پر یہ اعتراض بھی وارد ہوتا ہے کہ خود اس استدلال و تجزئیے کا علمی آلہ کیا ہے جس سے ان ماقبل تجربہ مقولوں کا علم ہوا؟ اس پر معارضہ (counter argument) یہ ہے کہ کہ ان مقولوں کو "ماقبل تجربہ خالی گھڑھے" فرض کئے بغیر بھی دیگر طرق سے مشاہداتی علم کی توجیہہ کی جاسکتی ہے اور آپ کا طریقہ لازم نہیں جیسا کہ آگے ذکر ہوگا۔
درج بالا دو سوالات ذرائع علم سے متعلق ہم آہنگی کے بارے میں ہیں۔ اگلے دو سوالات ان کی نوعیت سے متعلق ہیں۔
تیسرا نکتہ: ذہنی مقولے وجودی ہیں یا عدمی؟ کانٹ کا سوفسطائیت ذدہ تصور سچائی
مان لیا کہ ذہنی خاکوں یا مقولوں کے وجود سے متعلق آپ کا دعوی درست ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ یہ تفہیمی خاکے وجودی ہیں، عدمی ہیں اور یا نہ وجودی و نہ عدمی؟
- اگر یہ وجودی (real or existent) ہیں تو فھو المطلوب جس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ از خود کسی بدیہی وجودی حقیقت سے متعلق ہیں، لیکن اس صورت میں کانٹ کو اس کی وہ وجودی بنیاد بتانا ہوگی (اگر کہا جائے کہ یہ مقولے استعداد کی طرح ہیں، تو یہ بھی انہیں وجودی ماننا ہے)،
- اگر یہ عدمی (nothing or non-existent) ہیں تو یہ کسی علم یعنی وجودی حکم کا ذریعہ نہیں بن سکتے، اور
- اگر یہ نہ وجودی ہیں اور نہ عدمی بلکہ نرے خیال ہیں تو ان سے شے سے متعلق وجودی حکم کا حصول ممکن نہیں بلکہ ان سے حاصل شدہ حکم بھی ایسا ہی ہوگا۔ کانٹ کا قرین از قیاس جواب یہی انتخاب ہوگا کہ یہ نہ وجودی ہیں اور نہ عدمی کیونکہ اس کے نزدیک یہ ذہنی خاکے خارجی اشیاء (مثلا سیب) کی طرح وجودی نہیں جن کا مشاہدہ ہوسکے، دوسری طرف وہ انہیں نرے عدمی بھی نہیں کہہ سکتا کیونکہ اس کا مطلب انہیں وہم وغیرہ قرار دینا ہے جبکہ یہ خاکے اس کے نزدیک تجربی علم کی شرائط ہیں جنہیں وہ علمی قضایا کی توجیہہ کے لیے لاتا ہے۔ علم کے اس ذریعے کی اس مبہم حیثیت کی طرح کانٹ حقیقت کو بھی نامینا اور فنامینا میں تقسیم کرکے ہمارے علم کو خارجی شے سے متعلق ہوئے بغیر صرف ہمارے ادراک تک محدود کردیتا ہے۔ اس لحاظ سے سب علمی قضایا "نہ وجودی اور نہ عدمی" کے حال پر رہتے ہیں۔ کیا یہ موقف علمی قضایا کی اطمینان بخش توجیہہ ہوگی؟
اس کے جواب میں کانٹ ممکنہ طور پر کہہ سکتا ہے کہ حقیقت، سچائی و علم کا مطلب ادراک اور وجود میں مطابقت (correspondence) یا ہم آہنگی نہیں ہے بلکہ حقیقت تو میرے ذہن کے تابع ہے کیونکہ علم ذہن کی ایسی ادراکی ساخت کو لاگو کرنے سے جنم لیتا ہے جو ماقبل تجربی متعین شدہ ہے، لہذا حقیقت و علم سے متعلق تمہارا یہ خیال فرسودہ ہے اس لئے کہ علم و حقیقت میرے اندر جنم لینے والے تاثرات کا میرے ذہن کی ساخت سے ہم آہنگ ہوجانا ہے اور بس۔ ہم کہتے ہیں کہ ہم آپ کی اسی سوفسطائیت کو ظاہر کرنا چاہتے ہیں کہ اصلاً آپ کے نزدیک حقیقت و علم کا تصور سوفسطائیہ کے گروہ "عندیہ" جیسا ہے جس کا اس تصور سے واسطہ نہیں جسے علم کہتے ہیں (یعنی نفس الامر اور اعتقاد میں ہم آہنگی)۔ کانٹ کہہ سکتا ہے کہ البتہ میں ان مقولات کو ماننے پر اس لئے مجبور ہوں کیونکہ ان کے بغیر میرے ذہن میں موجود ایک یقینی ہم آہنگی اور وحدت کے احساس کی توجیہہ نہیں ہوپاتی۔ ہم کہتے ہیں کہ اس احساس کی توجیہہ کے لئے آپ کا سوفسطائیت ذدہ نظریہ غیر مفید ہے جو ساری حقیقت کو میرے ذہن کی تشکیل کردہ تشبیہہ بنا کر مجھے ہر وجودی (بشمول نفس و خارج کی) حقیقت سے غیر متعلق کردے (یاد رہے کہ کانٹ کے نزدیک جس طرح خارج کی حقیقت نامینا ہے، نفس انسانی بھی نامینل ہے جو بس ہمیں فرض کرنا پڑتا ہے تاکہ انسان کی آزادی کی توجیہہ ہوسکے)۔ یقینی علم کی ایسی بنیاد جو نہ صرف یہ کہ ہر حقیقت کے علم کو غیر یقینی بنا دے بلکہ خود آپ کے یقین کا یہ مفروضہ پیمانہ (یعنی ادراکی ساخت) بھی اپنی قائم کردہ اس بے یقینی کی ذد میں آجائے (جیسا کہ پہلے نکتے میں اشارہ ہوا)، کیا یہ اطمینان بخش فلسفہ ہے؟ آپ کا یہ فلسفہ یقین کے احساس کی توجیہہ کرکے اسے بطور یقین قبول کرنے کی راہ ہموار کررہا ہے یا اسے سراب بتا رہا ہے؟ یہاں اس بات کا تذکرہ دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ کانٹ نیوٹن کی فزکس سے متاثر تھا اور اس کی آفاقیت و تیقن پر ہیوم کے فلسفے سے جو شکوک پیدا ہورہے تھے، اپنے تئیں وہ انہیں رفع کرنا چاہتا تھا!
چوتھا نکتہ: علم اضطراری کا انکار درست نہیں
مان لیا کہ ان دو ذرائع کے ملاپ سے علم پیدا ہوتا ہے، لیکن آپ نے یہ کیوں کہا کہ ان کے سوا حقیقت کے ادراک کا کوئی ماخذ نہیں؟ یہاں ایک اعتراض ہے اور دو معارضے (counter arguments) ہیں جو یہ بتاتے ہیں کہ ان ذرائع علم میں حصر (reductionism) کا دعوی درست نہیں۔
اعتراض یہ کہ اس نفی (یا حصر) کا علم آپ کو اپنے بیان کردہ دو ذرائع میں سے کس ذریعے سے ہوا؟ مزید معین سوال یہ ہے کہ آپ نے علم ضروری کا انکار کس بنا پر کیا؟
دو معارضے یہ ہیں:
اول، لازمی وجودی حقائق کے علم کو اگنور کرنا، جبکہ یہ ناگزیر طور پر ثابت ہے
دوئم، وجود (being) اور جاننے (knowing) میں دوئی فرض کرنا، جبکہ معاملہ ایسا نہیں
پہلا معارضہ: علم اضطراری ثابت ہے
علم ضروری میں وجود و عدم کاتصور، اور اس پر مبنی جمع بین النقیضین کامحال ہونا، اصول علیت وغیرہ جیسے حقائق شامل ہیں۔ بعض فلاسفہ کو یہ غلط فہمی ہے کہ یہ وجودی قضایا گویا ایسے خیال یا محض علمی (epistemic) فارمز کی طرح ہیں جن کی از خود کوئی وجودی بنیاد نہیں۔ "وجود" کا اضطراری و بنیادی ترین احساس انسان کے اس اضطراری ادراک کی بنیاد ہے کہ وجود کا مفہوم ہونا یا پایا جانا ہے، انسان کو یہ علم لازمی طور پر اس لئے حاصل ہے کیونکہ وجود کی حقیقت "ہویت" (is-ness) ہے، اس کے سوا وجود کا اور کوئی ادراک ممکن ہی نہیں۔ وجود کا تصور بدیہی (self-evident) ہے جسے کسی دوسرے تصور سے بیان کرنا ممکن نہیں کہ یہ سب سے بنیادی (primary) ہے۔ وجود کا یہ تصور تبھی ممکن ہے جب کوئی شے پائی جائے، انسانی ادراک کی ایسی کوئی ساخت ممکن نہیں جو میری حالت عدم میں میرے لئے وجود (یعنی "ہونا") مفہوم کردے۔ چنانچہ "میں موجود ہوں" کے بغیر "میں ہونے کے مفہوم کا ادراک رکھتا ہوں" کا کوئی مطلب نہیں، ایسی بات کہنے والا ہر شخص یہ کہتے ہوئے خود اپنی نفی کرنے پر مجبور ہے اس لئے کہ وجود ادراک و شعور پر مسلط ہے۔ وجود کا غیر "لاوجود" (یا عدم ) ہے، یہاں سے ہمیں یہ بنیادی قضیہ (first fundamental judgement) حاصل ہوتا ہے کہ شے اثبات و نفی (assertion and negation) میں بند ہوگی اور ان سے خالی نہیں ہوگی اس لئے کہ ہویت (being) کی واحد نفی عدم ہویت (non-being) ہے۔ یعنی وجود کے احساس پر مبنی تصور (concept) ہی انسان کے علم ضروری کے اس پہلے قضیے (judgement) کو جنم دیتا ہے کہ "شے یا ہوتی ہے یا نہیں ہوتی" (something either exists or does not) کیونکہ وجود کا الٹ عدم ہے اور وجود کا معنی کبھی عدم نہیں بن سکتا۔ تمام احکام عقلیہ اسی قضئے کے اندر دائر ہیں۔ امام رازی کہتے ہیں کہ یہ اتنا بنیادی قضیہ ہے کہ اسے درست فرض کئے بغیر اس پر دلیل قائم کرنا بھی ممکن نہیں کیونکہ ہر دلیل کا حاصل کسی شے کے بارے میں کسی شے کے ثبوت یا عدم کا حکم لگانا ہوتا ہے لیکن اگر شے ثبوت و عدم ہی سے خالی ہوسکتی ہو تو کوئی دلیل کارگر نہیں ہوسکتی۔ یہی پہلا وجودی قضیہ جمع بین النقیضین کے محال ہونے (law of non-contradiction) کی بنیاد فراہم کرتا ہے اس لئے کہ جمع بین النقیضین ایک ہی شے کے وجود و عدم کو جمع کرنے سے عبارت ہے جبکہ ایک شے کا وجود اور عدم جمع نہیں ہوسکتے کہ وجود (being) بیک وقت عدم (non-being) نہیں ہوسکتا، ایسی بات میرے وجودی احساس سے قائم ہونے والے اضطراری علمی احساس کے خلاف ہے اور اس لئے انسان اس سے پوری طرح ابا کرتا ہے۔
امام رازی کہتے ہیں کہ یہ بنیادی وجودی قضیہ چند مزید لازمی قضایا کو جنم دیتا ہے (سب کی تفصیل دینا مقصود نہیں)، مثلا:
- کل جزو سے بڑا ہوتا ہے (اس لئے کہ اگر ایسا نہ ہو تو مطلب یہ ہوگا کہ کل کے بعض اجزاء کا ہونا اور نہ ہونا یکساں ہے جبکہ یہ محال ہے کہ یہ جمع بین القیضین ہے۔ فرض کریں ایک کل دو اجزا کا مرکب ہے، اگر ایک جزو کل کے مساوی ہو تو پھر کسی ایک جزو کا وجود و عدم ہم معنی ہے)،
- وجود یا حادث ہوگا (یعنی وہ جس کی ابتدا ہو) یا قدیم (وہ جس کی ابتدا نہ ہو)۔ یہ قضیہ بھی درج بالا بنیادی قضیے کی ایک خاص قید کے ساتھ اس کی فرع ہے، یعنی یہ کہ وجود ابتدا ہونے کے ثبوت و عدم ثبوت سے خالی نہ ہوگا، اسی طرح قدیم ہونے یا نہ ہونے کے حکم سے خالی نہ ہوگا
- دو اشیاء جو کسی تیسری شے کے متوازی (parallel) ہوں وہ باہم متوازی ہوتی ہیں نیز ایک ہی جسم بیک وقت دو مکانوں میں نہیں ہوسکتا
- اسی طرح "حادث کو محدث یا علت کی احتیاج ہے"، اس لئے کہ عدم از خود وجود نہیں ہوسکتا۔ اسے یوں سوچئے کہ ممکن وہ شے ہے جو اپنی ذات کے اعتبار سے وجود و عدم دونوں جانب مساوی رجحان رکھتی ہے۔ اب کسی ایک جانب رجحان یا خود اس کی ذات کی وجہ سے ہوگا اور یا کسی منفصل امر کی وجہ سے۔ خود اپنی ذات کی وجہ سے ممکن میں یہ رجحان نہیں ہوسکتا کہ یہ تضاد ہے اس لئے کہ اس کا مطلب یہ کہنا ہے کہ جو شے اپنی ذات کے اعتبار سے دو جانب مساوی رجحان رکھتی ہے وہ اپنی ذات کی وجہ سے کسی ایک جانب رجحان بھی رکھتی ہے (جانبین کی طرف مساوی رجحان رکھنا کسی ایک جانب رجحان رکھنے سے متناقض ہے)! پس لازم ہے کہ کسی ایک جانب ترجیح کے لئے وہ خود اپنے سوا ایک منفصل امر کا محتاج ہے۔ یہ منفصل امر یا عدم ہوگا اور یا وجود۔ یہ بات بداہتاً معلوم ہے کہ عدم ممکن کے وجود کے رجحان کی وجہ نہیں ہوسکتا۔ عدم بھی وجود کا سبب ہوسکتا "ہے"، ایک متضاد جملہ ہے کہ یہ عدمیت (nothingness) کو "ہویت" (is-ness) کہے بغیر بامعنی نہیں۔
ان علوم ضروریہ کی تفصیلات کے لئے امام رازی کی کتب "محصل افکار المتقدمین والمتاخرین"، "المباحث المشرقیة" نیز "المطالب العالیۃ" وغیرہ ملاحظہ کیجئے۔ یہ سب قضایا اصلاً وجود کی حقیقت یا ساخت سے متعلق ہیں نہ کہ ادراک کی، یعنی یہ قضایا ذہن کی کوئی اختراع نہیں اور نہ ہی یہ خالی گھڑھے نما خیال ہیں۔ انسانی شعور پر منعکس یہ قضایا وجود کا پرتو (reflection) ہیں، اور اسی معنی میں وجود خود کو ادراک پر مسلط کرتا اور اس پر طاری ہے (ایسے یوں بھی کہتے ہیں کہ عقل وجود کی خود شعوری ہے)۔ علم اضطراری کے یہ وہ بنیادی قضایا ہیں جو ہر استدلالی علم کی بنیاد فراہم کرتے ہیں، متکلمین انہیں "اولیات عقلیات" (first principles) یا "عقل محضہ" بھی کہتے ہیں اور یہ شک سے ماوراء ہیں، الا یہ کہ کوئی سفسفہ ذدہ مکابرہ کرے۔ جو شخص اپنے ہی دعوے کی نفی کرنے والا دعوی کرے اور اس کا احساس بھی نہ رکھے، امام رازی کہتے ہیں کہ اسے صرف اس پر تنبیہہ کی جاسکتی ہے کیونکہ علم لازمی کے معاملے میں مکابرے کے علاوہ کبھی عدم توجہ کی بنا پر ذھول بھی ہوجاتا ہے اس لئے کہ ان کا حصول اتنا واضح ہے کہ انہیں فار گرانٹڈ لیتے ہوئے بعض اوقات انکی جانب توجہ نہیں جاتی، امام غزالی ان کے بارے میں کہتے ہیں کہ کسی شے کے حصول کا زیادہ قرب بھی بعض اوقات اس سے دوری کا باعث بن جاتا ہے اور جو علم بطور میرے حال کی صورت مجھے حاصل ہو اس کے حصول کی دلیل قائم کرنے سے وہ دور ہوجاتا ہے کہ ہر دلیل اس حاصل شدہ حال سے کمتر واضح ہوگی (نوٹ: یہاں سے یہ اعتراض رفع ہوجاتا ہے کہ علم اضطراری بیان کرنے کے لئے ہمیں اسے سمجھانے کی ضرورت کیوں پڑ رہی ہے جبکہ یہ اضطراری طور پر سب کو حاصل ہے، یہ تنبیہہ ہے)۔
کانٹ اس علم اضطراری کی جگہ اپنے خالی گھڑھے نما ذہنی سانچوں کو لاتا ہے۔ اگر کسی کی رائے میں کانٹ کے یہ نرے خیال نما سانچے علم کی توجیہہ کے لئے انسان کے وجودی حال کے مظہر علم اضطراری سے زیادہ مستحکم اور ہم آہنگ بنیاد فراہم کرتے ہیں، تو یہ انتخاب ان دوستوں کو مبارک ہو۔
دوسرا معارضہ: وجود و شعور میں دوئی نہیں
یہ معارضہ پہلے معارضے ہی سے منسلک ہے جو اس کے پس پشت مفروضے کو کھولتا ہے۔ کانٹ کے نظریہ علم کے پس پشت یہاں جو مفروضہ کارفرما ہے اسکے دو اجزا ہیں:
الف) وجود اور ادراک کی دوئی (duality)، یعنی "ادراک کی ساخت" وجود (being or reality) سے الگ ہے اور
ب) اس دوئی کی حقیقت کا علم ہمیں حاصل ہے
اسی مفروضے کی بنا پر وہ اس نتیجے تک پہنچتا ہے کہ شے سے متعلق علم انسانی ادراک کی ساخت کو شے پر لاگو کرنے سے پیدا ہوتا ہے جس سے یہ نتیجہ برآمد ہوتا ہے کہ حقیقت کی ساخت کا علم ممکن نہیں کیونکہ ادراک کی ساخت اس کے خیال میں حقیقت سے مربوط ہونے سے ماقبل ہی متعین ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ وجود (being) اور ادراک (knowing) کی دوئی کا یہ دعوی غیر ثابت شدہ مفروضہ ہونے کے علاوہ غلط بھی ہے جس کی وضاحت اوپر گزری کہ ادراک وجود پر طاری نہیں ہے بلکہ وجود ادراک پر طاری ہے۔ "ادراک کی ان ساختوں کا ہونا" بذات خود ایک وجودی دعوی ہی ہے۔ انسانی علم کی بنیاد "موجود ہونے" کا بنیادی ترین احساس ہے اور اسی معنی میں وجود (being) اور ادراک (knowing) باہم الگ نہیں جیسا کہ سوفسطائیوں کا مفروضہ ہے بلکہ یہ مربوط ہیں۔ سوفسطائی اس کا انکار کرتے ہوئے عین اپنے دعوے کی نفی کرتا ہے (یعنی اس ادراک کو وہ حقیقت و سچ ہی فرض کرتا ہے کہ ان میں دوئی ہے)۔
یہاں اس بات کا پھر سے اعادہ کیا جاتا ہے کہ یہ بنیادی وجودی حقائق و قضایا جو علم اضطراری کی بنیاد ہیں، یہ نری لسانیاتی سچائیاں (linguistic truths) یا ادراکی ساخت پر مبنی نرے منطقی قضئے (logical propositions) کی فارمز کا بیان نہیں ہیں (جیسا کہ logical positivists کا مفروضہ تھا) بلکہ یہ وجود کے بنیادی تصور سے جنم لینے والے قضایا (judgements) ہیں۔ اگر قضایا کا تعلق کسی وجود سے نہیں (یعنی وہ about being نہیں ) تو وہ باہم متضاد ہوسکتے ہیں۔ ان کا متضاد ہونا تبھی بامعنی ہوتا ہے جب وہ "ہونے" سے متعلق ہوں، یعنی وہ کچھ assert کریں، اور جونہی وہ ایسا کرتے ہیں وجود انہیں جکڑ لیتا ہے۔ چنانچہ ادراک، منطق و لینگویج درحقیقت ان وجودی حقائق کے پابند ہیں۔ وجود سے متعلق پہلا بدیہی قضیہ ("شے یا ہوتی ہے یا نہیں") ادراک کی ساخت پر مسلط ہے، جمع بین النقیضین محال ہونے کا قاعدہ قضیئے (judgement) پر مسلط ہے اور یہ قضیہ لسانیاتی اصولوں میں ڈھل کر زبانوں پر جاری ہے۔ یہ سب قضایا اصلاً وجود کی ساخت سے متعلق ہیں نہ کہ ادراک کی، اور اسے نہ سمجھنے کی وجہ ہی سے کانٹ سمیت متعدد مفکرین اس غلط فہمی کا شکار ہوئے کہ جمع بین النقیضین کا محال ہونا صرف فنامینا (یا کسی خاص عالم یا کسی خاص ذہنی ساخت و ادراک وغیرہ) سے متعلق ہے، گویا ان کے خیال میں کوئی ایسا عالم بھی قابل تصور یا ممکن ہے جہاں یہ اضطراری قضایا شعور پر لاگو نہ ہوں اور جہاں وجود عدم کے ہم معنی ہوکر جمع بین النقیضین کا اجتماع ممکن ہو جائے! کانٹ ایسی فاش غلطی کا شکار اس لئے ہوا کیونکہ وہ وجود کے شعور پر حاوی ہونے کے بجائے شعور کے وجود پر حاوی ہونے کا قائل تھا اور اس لئے اسے فرض کرنا پڑا کہ شعور اور وجود میں دوئی ہے (کیونکہ شعور کی ساخت اس کے نزدیک ماقبل تجربی حقائق متعین ہے)، جبکہ معاملہ اس کے برعکس ہے کہ وجود و شعور میں لازمی ہم آہنگی قائم ہے۔ اسی لئے علم کا معنی وجود و شعور میں مطابقت قرار دیا جاتا ہے اور آخری درجے میں علم و عقل کا مطلب اولیات عقلیات ہیں۔ اس معاملے کو نہ پہچاننے اور علمیات کے باب میں کاپرنیکن انقلاب (Copernican revolution) برپا کرنے کی کاوش میں کانٹ نے حقیقت، سچائی و علم کا مطلب ہی بدل دیا۔
امام رازی کہتے ہیں کہ عقل کا وہ کم از کم مفہوم جو اسے شرع کا مخاطب بناتا ہے وہ انہی اولیات عقلیات سے عبارت ہے۔ امام غزالی کہتے ہیں کہ یہ اولیات عقلیات اتنے بنیادی، لازمی و قطعی ہیں کہ اگر بالفرض نبی سے بھی ایسی خبر منسوب ہو کر ہمیں ملے جو ان اولیات کے خلاف ہو تو اس خبر کو جوں کا توں قبول نہیں کیا جائے گا اس لئے کہ اگر وحی ان اضطراری علمی مقدمات کو غلط قرار دے سکتی ہے تو خود صاحب وحی کی نبوت کا اعتبار و دلیل قائم کرنا محال ہوجائے گا (بلکہ اس صورت میں نصوص میں ہم آہنگی قائم کرنے کے لئے نسخ، ترجیح و تطبیق کی خاطر عموم و خصوص، مطلق و مقید وغیرہ جیسی ساری بحثیں بے معنی ہیں)۔ باالفاظ دیگر جن بنیادی حقائق کا ادراک رکھنے والی "عقل محض" متکلمین کے نزدیک شرع کی مخاطب ہے، کانٹ کے نزدیک وہ عقل ثابت ہی نہیں۔ کانٹ کے اسلامی مداحین کے لئے یہ مقام غور طلب ہونا چاہئے نیز انہیں بتانا چاہئے کہ ان کے نزدیک عقل کس مفہوم میں شرع کی مخاطب ہے۔
اگلے سوالات حاصل شدہ علم کی نوعیت اور اس سے جنم لینے والے نتائج کے بارے میں ہیں۔
پانچواں نکتہ : انسانی ادراک "شے" سے متعلق ہے یا یہ "شے کے ادراک" سے متعلق؟
آپ نے یہ کیوں کہا کہ "شے فی نفسہ" اور "مظہر شے یا اس کی شبیہہ" میں فرق ہے؟ اس دعوے پر تین اعتراضات ہیں اور ایک معارضہ ہے جو یہ بتاتا ہے کہ حصول علم کی کیفیت کے بارے میں آپ کا دعوی لازم نہیں بلکہ اس سے بہتر توجیہہ موجود ہے۔ اعتراضات یہ ہیں:
پہلا اعتراض: آپ کا یہ دعوی بتا رہا ہے کہ شے فی نفسہ کو آپ موجود فرض کررہے ہیں، لیکن اس کے "ہونے " کا حکم لگانے کا آپ کے پاس کیا ذریعہ ہے؟ اگر ایسا کوئی ذریعہ نہیں تو "اسے نہ جان سکنے" کا کیا مطلب ہوا؟ باالفاظ دیگر حقیقت کی نامینا اور فنامینا میں تقسیم جاننے کی بنیاد کیا ہے؟
دوسرا اعتراض: آپ کا یہ دعوی دراصل چوتھے سوال کے دوسرے معارضے میں مذکور مفروضے سے جنم لیتاہے کہ ہونے اور جاننے میں فرق ہے جبکہ یہ مفروضہ ثابت نہیں
تیسرا اعتراض: جب آپ کہتے ہیں کہ ہمیں صرف شبیہہ کاعلم ہوتا ہے نہ کہ شے فی نفسہ کا، تو آپ نے یہ فرض کیا ہے گویا میں اپنے اندر بیٹھ کر ذہن کی سکرین دیکھ رہا ہوں۔ اگر ہم ذہن میں بیٹھے سکرین دیکھ رہے ہیں تو پھر اس چھوٹے سے انسان کے ذہن میں ایک اور سکرین ہونی چاہئے تاکہ وہ خود سے ماوراء دیکھ سکے اور یہ لامتناہی تسلسل ہوگا جو جائز نہیں۔
معارضہ یہ ہے کہ یہ کیوں ممکن نہیں کہ جسے آپ فنامینا کہہ رہے ہیں وہ نامینا ہی ہو جبکہ یہ کہنا زیادہ قرین از قیاس بھی ہو؟ اس کی تفصیل یوں ہے کہ آپ کے مفروضے کے مطابق ہمارا ادراکی نظام خارجی شے (object) اور ہمارے ادراک (perception) کے مابین شے کی شبیہہ (appearance of object) کی صورت حائل ہے، لیکن اس مفروضے کی کیا دلیل ہے؟ اس اشکال کو سمجھنے کے لئے ادراک (perception) اور مدرَک (perceived object) کے پیش نظر یہ جانئے کہ کسی شے سے متعلق ہمارے ادراک کے بارے میں دو مفروضے ہوسکتے ہیں:
- ایک یہ کہ مدرَک وہ خارجی شے ہے جس کا ادراک ہو جیسے مثلا سیب۔ یہا ں ادراک وہ ذہنی حال ہے جو ہمارے اندر پایا جاتا ہے جس کی وجہ سے ہم اس شے کے مدرِک یا ادراک کرنے والے ہوتے ہیں جو ہمارے ادراک کا آبجیکٹ یا مدرَک ہے، یعنی سیب۔
- دوسرا مفروضہ یہ ہوسکتا ہےکہ مشاہدے کے عمل میں ہم خارجی دنیا میں نہیں جھانکتے بلکہ اپنے ذہن میں جھانکتے ہیں۔ اس نظرئیے کے مطابق جو حال ہمارے اندر پایا جاتا ہے (یعنی ادراک)، وہ از خود ہمارے ادراک کا آبجیکٹ ہے نیز ہمارا ادراک "شے کے ادراک " کا ادراک ہے نہ کہ شے کا ادراک (our perception is about perception of the object and not about object)۔ یعنی ہم خارج میں موجود سیب نہیں دیکھتے بلکہ سیب کی شبیہہ یا ادراک دیکھتے (یا سیب کے ادراک کا ادراک رکھتے) ہیں۔ کانٹ ادراک کے بارے میں اس دوسرے مفروضے کے قائل تھے ۔ اسی مفروضے کی وجہ سے کانٹ نامینا اور فنامینا میں تقسیم کرتے ہیں کہ چونکہ ہمارا ادراک ہمارے ادراک کے بارے میں ہوتا ہے نہ کہ شے کے بارے میں، لہذا شے اور ہمارے ادراک میں کبھی نہ پرہوسکنے والا خلا برقرار رہتا ہے کیونکہ مشاہدے کے عمل میں انسان "شے کی کیٹیگریز" کو نہیں بلکہ "ذہن کی کیٹیگریز" کو دریافت کرپاتا ہے۔
چنانچہ کانٹ کے برخلاف یہ کیوں نہ کہا جائے کہ جسے ہم ادراک کہتے ہیں وہ ہمارا ایک حال ہے (perception is a state) جو ہمیں براہ راست خارج سے متعلق کرتا ہے نیز یہ کہ ادراک از خود مدرَک (perceived or object of perception) نہیں ہے جس کا ادراک ہورہا ہو؟ یہ اسی طرح ہے جیسے علم از خود معلوم یا علم کا آبجیکٹ نہیں ہے بلکہ علم ایک ایسی صفت یا حال ہے جس کے ذریعے ہم اس معلوم کو جانتے ہیں جو خارج میں ہے، مثلا سیب۔ پس یہ کہنا کہ میں اپنے ذہن میں بیٹھ کر اپنے ذہن کی سکرین پر بننے والی شبہیات دیکھ رہا ہوں ایک پر تکلف خیال ہےجو کسی حد تک سفسفہ کی ایک صورت ہے۔ یہاں یہ بات نوٹ کیجئے کہ حصول علم کی کیفیت کے بارے میں علامہ ابن سینا بھی اسی موقف کے قائل تھے کہ انسانی ادراک و شعور شے نہیں بلکہ ہمارے ادراک و شعور سے متعلق ہوتا ہے، امام رازی نے "شرح الاشارات والتنبیهات"میں علامہ ابن سینا کے اس نظرئیے پر نقد کرتے ہوئے دونوں جانب کے دلائل پر بحث کی ہے ۔ چنانچہ "انسانی شعور کے شعور کا مطالعہ" کرکے یہ رائے قائم کرنے میں کانٹ نے کوئی نیا اضافہ نہیں کیا۔ کانٹ کا یہ استدلال ان تجربیت پسندوں کے خلاف مؤثر ہوسکتا ہے جو ادراک کو مدرَک (perceived object) نہیں بلکہ "شے کے ادراک" کا ادراک کہتے تھے اور جن کا کہنا ہے کہ حس سے متعلق یہ ذہنی تصورات علم کی بنیاد ہیں۔ اس پر کانٹ کا کہنا تھا کہ ان حسی ذہنی تصورات مانے جانے والوں کی فہرست میں ایسے تصورات بھی شامل ہیں جو براہ راست حسی نہیں ہیں بلکہ وہ حسی تصورات کی ترکیب سے جنم لیتے ہیں (جیسے ایک شے علت اور دوسری کا معلول ہونا)۔ لہذا ذہن میں جنم لینے والے تمام سادہ و مرکب تصورات کی صورتیں ذہن میں موجود ہونا چاہیئں اور انہیں ماقبل حس ذہن کی ادراکی ساخت کے طور پر فرض کرنا ہوگا۔ اس کے برعکس جن کا کہنا یہ ہے کہ تصور و ادراک از خود ادراک کا آبجیکٹ نہیں جس کے ذریعے میں عالم کو جانتا ہوں بلکہ تصور خارجی دنیا سے متعلق ایک ناقابل تجزیہ علم ہے، انہیں کانٹ کی یہ ذہنی کیٹیگریز ماننے کی ضرورت نہیں۔ درج بالا دوسرے نظرئیے کی رو سے ہمارے تصورات خارج پر پردہ ڈالنے والے ہیں جبکہ پہلے نظرئیے کی رو سے وہ ہمیں خارج کا مدرک بنانے والے ہیں۔
چھٹا نکتہ: ذہنی مقولات سے خارجی علم کا انکار لازم نہیں آتا
مان لیا کہ ذہن میں ایسی کیٹیگریز موجود ہیں جن کی آپ نے بات کی اور جن کے لاگو ہونے سے علم پیدا ہوتا ہے، لیکن آپ نے یہ کیوں کہا کہ ان کے ذریعے ہمیں خارج سے متعلق کوئی خبر نہیں ملتی؟ ہم کہتے ہیں کہ اگر یہ بات تسلیم کر بھی لی جائے کہ تجربہ ممکن ہونے کے لئے ماورائے تجربہ چند مقولات کاوجود ذہنی شرط ہے، تب بھی اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ حسی تجربے میں آنے والے امور وجود خارجیہ کی صفات نہیں، بلکہ اس کے برعکس ماننا زیادہ قرین از قیاس ہے کہ یہ انہی اشیاء کی صفات ہیں۔ خارج میں شے موجود اور ایک دوسرے سے مختلف ہوئے بغیر ذہن کی ادراکی ساخت از خود مختلف نوعیت کا علم پیدا نہیں کرسکتی۔ مثلا فرض کیجئے کہ ادراک کی ساخت میں "مقدار" کا ایک سانچہ ہے۔ تاہم یہ سانچہ سب موجودات کے ساتھ مساوی طور پر متعلق ہے اور یہ سانچہ از خود یہ طے نہیں کرسکتا کہ مثلا فٹبال کرکٹ بال سے بڑا کیوں ہے، یہ اسی طرح ہے کہ مثلاً زبان کی ساخت یہ توجیہہ نہیں کرسکتی کہ شہد میٹھا اور مرچ کڑوی کیوں ہے نہ کہ اس سے برعکس۔ چنانچہ کانٹ کو ماننا ہوگا کہ چھوٹا، بڑا، گول، چوکور وغیرہ ہونا بہرحال وجود خارج (شے فی نفسہ) کی صفات بھی ہیں نہ کہ محض ادراک کی ساخت کی۔
یہاں یہ کہنا مقصود ہے کہ اگر خارج میں یہ صفات موجود نہ ہوں تو ان متنوع ادراکات کی وجہ ترجیح خود ذہن کی ساخت و صلاحیت نہیں ہوسکتی۔ اگر امکانی طور پر اس کے جواب میں کانٹ کی جانب سے یہ کہا جائے کہ اشیا خارج میں کچھ اس طرح پائی جاتی ہیں کہ وہ ذہن میں خاص طرح کی مقداروں (مثلاً بڑا پن و چھوٹا پن) کی شبیہات تو پیدا کرسکتی ہیں اگرچہ وہ خود ان صفات سے متصف نہ ہوں، تو اس جواب کا سفسفہ ہونے میں شک نہیں۔
پس جن لوگوں کا کہنا ہے کہ علم ادراکی ساخت کو مشاہدے میں آنے والے امور پر لاگو کرنے سے پیدا ہوتا ہے، انہیں ماننا ہوگا کہ ادراک کی ساخت سے ہمیں شے فی نفسہ سے متعلق امور و صفات کا ہی علم حاصل ہوتا ہے اگرچہ یہ امکان موجود ہے کہ شے فی نفسہ کی کچھ ایسی خصوصیات ہوں جو ہمارے ادراک سے باہر ہوں۔ مثلاً فرض کیجئے کسی شے میں 100 خصوصیات ہیں، انسانی ذہن میں مختلف سانچوں کی صورت کچھ ایسی ساخت موجود ہے جن کے ذریعے میں 60 خصوصیات کا ادراک کرسکتا ہوں جبکہ بقایا میری پہنچ سے اس لئے باہر ہیں کہ ان سے متعلق میرے ذہن کی ساخت میں کوئی سانچہ موجود نہیں جسے لاگو کرکے میں ان بقایا کو جان سکوں۔ الغرض کانٹین فکر کے حاملین کے لئے یہ مانے بغیر کوئی چارہ نہیں اور نہ اسے رد کرنے کی کوئی دلیل ہے کہ ذہن کی ساخت ان 60 خصوصیات کا ادراک اس لئے کررہی ہے کیونکہ وہ شے فی نفسہ میں موجود ہیں، ذہن میں محض چند سانچوں کی موجودگی ان کی توجیہہ نہیں بن سکتی۔ اسے ایک اور پہلو سے یوں سمجھئے کہ انسانی کان 20 ھرٹز سے لے کر 20000 ھرٹز تک آواز سن پاتے ہیں۔ چنانچہ سماعت کی حدبندی تبھی بامعنی ہے جب یہ مانا جائے کہ آواز کی یہ لہریں خارج میں موجود ہیں، محض میرے کان کی ساخت انہیں پیدا نہیں کررہی۔ یہی نسبت ذہنی مقولوں اور خارجی اشیاء کی ہے۔ پائل گائیر (Paul Gayer) نے کانٹ کے فلسفے کی اس کمزوری کے پہلو کو واضح کیا ہے۔ اس تعبیر کی رو سے ذہنی مقولات خارجی صفات کی توثیق (validation) کا ذریعہ ہیں نہ کہ تخلیق (creation) کا۔ اس بات کا انکار کرنے سے یا سفسفہ جنم لیتا ہے اور یا تضاد۔ سفسفہ کا پہلو اوپر واضح ہوچکا، تضاد یوں کہ کانٹ کے مطابق ذہن کی ادراکی ساخت شے فی نفسہ کے بارے میں کوئی خبر نہیں دے سکتی، ہمیں صرف ان کی ظاہری صورت (appearances) کا علم حاصل ہوتا ہے۔ تاہم بذات خود یہ بات کہتے ہوئے وہ یہ فرض کرتا ہے کہ خارج میں ان ظاہری تاثرات سے علی الرغم شے فی نفسہ "موجود ہے" جو میرے ان تاثرات کا "سبب ہے"۔ غور کیجئے کہ یہاں وہ سبسٹنس (substance) اور علت (cause) کی اپنی بیان کردہ دو ادراکی مقولات (categories) کو شے فی نفسہ یعنی نامینا سے متعلق قرار دے رہا ہے۔ الغرض کانٹ جس طرح خالی ڈبے نما خاکوں کے نام پر ادراکی ساخت کو اپنی فکر میں جگہ دیتا ہے، وہ حاصل شدہ علم کے بارے میں خود اس کے دعوے کو ثابت کرنے میں نہ مفید ہے اور نہ ہی اس کے دعوے سے ہم آہنگ۔
ساتوں نکتہ : علت کا درست مفہوم اور کانٹ کی غلطی
مان لیا کہ ذہن میں ایسی کیٹیگریز موجود ہیں جن کی آپ نے بات کی اور جن کے لاگو ہونے سے علم پیدا ہوتا ہے، لیکن آپ نے یہ کیوں کہا کہ علت کا مطلب اشیاء کے مابین زمانی ترتیب و تسلسل ہے؟ نیز آپ نے علت سے کیا مراد لی ہے، یہ کہ ایک زمانی و مکانی شے دوسری پر موجب و مؤثر ہے؟
اس پر ہمارا اعتراض یہ ہے کہ علت کا جو مفہوم آپ نے مقرر کیا ہے وہ سطحی بھی ہے اور غلط بھی کیونکہ:
- علت کے مفہوم میں نہ زمانی تقدم کا مفہوم شامل ہے اور نہ ہی مکانی اقتران کا
- اور نہ ہی زمانی و مکانی اشیاء کو ایک دوسرے کے لئے مؤثر ہونے کے معنی میں علت کہنے کی کوئی دلیل ہے بلکہ عقل اس کا غلط ہونا لازم قرار دیتی ہے۔
ان امور پر ہم متعدد جگہ پہلے بحث کرچکے ہیں۔ یہاں ہم اسے ترتیب وار نکات کی صورت پیش کرتے ہیں:
1۔ سب سے پہلے علت کا معنی سمجھیں۔ علت وجہ ترجیح کو کہتے ہیں، اس کا ایک حقیقی معنی ہے اور ایک مجازی۔ حقیقی معنی کی رو سے علت کا مطلب مؤثر ہونا اور مجازی کی رو سے "علت کی نشانی ہونا" ہے۔ مؤثر ہونے یعنی حقیقی معنی میں علت کے دو مفہوم ہیں:
الف) موجب (necessitating) ہونا: علت موجبہ وہ ہے جس سے ممکن الوجود معلول کا صدور بطریق لزوم ہو (جسے سورج سے روشنی کا صدور)۔ اس معنی میں علت یا تاثیریت کسی کی طبع یا ماہیت کا تقاضا ہوتا ہے اور اس لئے اسے essential cause کہتے ہیں، ایسی علت کسی وجود کی بنیاد (یا گراؤنڈ) تو ہوتی ہے مگر وجود عطا کرنے والی نہیں ہوتی۔ جن لوگوں نے علت سے مراد موجب سمجھا انہوں نے کہا کہ اشیاء کے اندر ایسی تاثیرات پائی جاتی ہیں جو اپنے اثر کو اس طرح لازم کرنے والی ہیں کہ ان میں اقتران (concurrence) اٹوٹ و محال ہے۔ موجب کے معنی میں علت و معلول ساتھ پائے جاتے ہیں، یہ نہیں ہوسکتا کہ علت تو موجود ہو مگر معلول معدوم ہو، اس لئے اگر علت قدیم ہے تو معلول بھی قدیم ہوگا۔ ارسطو اور اس کے پیروکار مسلم فلاسفہ کا علت کے بارے میں یہی تصور ہے اور اسی لئے یہ لوگ قدم عالم کے قائل ہوئے۔
ب) مختار یا موجد (existence granting) ہونا: اختیار کے معنی میں علت کا مطلب ایسی وجہ ترجیح ہے جو چاہے تو فعل کرکے اثر کو ظاہر کرے اور چاہے تو نہ کرے، اس معنی میں علت ممکن الوجود کو لاحق عدم و وجود کے مساوی امکان میں سے کسی ایک جانب میں ترجیح قائم کرتی ہے، اس لئے اسے موجد یا فاعل (agent) بھی کہتے ہیں۔
2۔ چنانچہ یہاں پہلا سوال یہ ہے کہ عقل محض کے تحت کانٹ فنامینا سے متعلق جس تفہیمی مقولے کو علت کہتا ہے، یہاں علت سے اس نے دو میں سے کونسا مفہوم مراد لیا؟ کانٹ کا جواب "موجب ہونا" ہے۔ اصول علیت کو فرض کرنے کی دلیل کانٹ یہ دیتا ہے کہ اس کے بغیر ہم اپنے ذہن میں موجود امور کے مابین قائم ہونے والی ہم آہنگی و وحدت کی توجیہہ نہیں کرسکتے۔ لیکن اس پر سوال یہ ہے کہ اس کی کیا دلیل ہے کہ اس ہم آہنگی و وحدت کے لئے ہمیں علت کو "موجب" کے معنی میں ہی مراد لینا ہوگا؟ اس کا جواب کانٹ کی جانب سے ہمارے فہم کے مطابق یہ ہے کہ وہ نیوٹن کی فزکس سے متاثر تھا جو یہ تاثر قائم کرتی ہے کہ عالم شاہد کے امور منظم میکانکی قوانین میں ڈھلے ہوئے ہیں جس کا مطلب یہ ہوا کہ اشیاء کے مابین لزومی تعلق ہے۔ اس دلیل کا ضعف اہل علم پر بخوبی واضح ہے اس لئے کہ مشاہدے کے عمل میں ان مفروضہ "تاثیرات" کا کوئی مشاہدہ نہیں ہوتا جو ایک شے کو دوسرے کے لئے موجب ماننے پر مجبور کریں۔ لہذا کائنات کی اشیاء کے مابین ایجابی تعلق فرض کرنے کی نہ کوئی مشاہداتی دلیل ہے اور نہ ہی عقلی، یہ کانٹ کے تحکم پر مبنی مفروضہ ہے۔ علت کو موجب کے معنی میں مراد لینے کا ایک مسئلہ یہ نتیجہ بھی ہے کہ یہ کائنات قدیم ہوگی جبکہ ایسا ہونا محال ہے، تاہم ہم بحث کو ان اطراف میں پھیلانا نہیں چاہتے، ہم یہاں اتنی ہی بات کریں گے جو متکلمین کے مقدمے کی رو سے کانٹ کی غلطی ہے کیونکہ یہی ہمارا مقصود ہے۔ اس اعتبار سے بات یوں ہے کہ کانٹ خلط مبحث کرتے ہوئے علت کے مجازی معنی کے اطلاق کو حقیقی معنی کے ساتھ خلط ملط کردیتا ہے، اس کائنات کی اشیاء پر علت کے معنی کا اطلاق غلط ہے۔
3۔ اس کے لئے یہ سمجھئے "مؤثر ہونے" کے معنی میں اصول علیت کی بنیاد کسی وجود کا امکان (contingency) ہے اور امکان کی بنیاد حدوث، یعنی علت کی احتیاج ہر وجود کو نہیں ہے بلکہ اس وجود کو ہے جو حادث (یعنی مسبوق بالعدم) ہو۔ حادث یا ممکن وہ وجود ہے جو اپنی ذات کے اعتبار سے عدم و وجود کے ساتھ مساوی نسبت رکھ، وہ شے جو اپنی ذات کے اعتبار سے ان دونوں جانب مساوی نسبت رکھے مگر پھر بھی موجود ہو تو معلوم ہوا کہ اس کی وجود کی جانب نسبت ترجیح یافتہ ہوگئی اور یہ ترجیح اس کی ذاتی صفت نہیں بلکہ اس پر زائد ہے۔ ممکن کی یہ ترجیح چونکہ ثبوتی امر ہے لہذا وجہ ترجیح بھی لازماً ثبوتی ہے۔ حادث کی اس وجہ ترجیح کو علت کہتے ہیں۔ معلوم ہوا کہ حادث اصلا اثر یا معلول کو کہتے ہیں جو علت کا محتاج ہوتا ہے۔
علت کا تصور کسی شے پر تب لاگو ہوتا ہے جب عقل کو وجود اور پھر اس سے متعلق واجب، محال اور ممکن کا ادراک حاصل ہوچکا ہو۔ جو وجود واجب و محال ہو اس کے لئے علت کی کیٹیگری غیر متعلق ہوجاتی ہے، پھر جو حادث و ممکن ہو عقل اس کی احتیاج کی پیاس بجھانے کا سفر شروع کرتی ہے۔ یعنی علت کے تصور کا اطلاق شروع ہی تب ہوا جب عقل کے پاس حادث و ممکن کا تصور آیا، جب اس نے حادث پر غور کیا تو جان لیا کہ یہ خود اپنی توجیہہ نہیں کرسکتا، اسی لئے مرجح کا محتاج ہے۔ چنانچہ علت کے تصور کا اطلاق دو حقائق کے ادراک کے بعد شروع ہوتا ہے: متعلقہ وجود حادث و ممکن ہے نیز حادث وجود خود اپنی توجیہہ نہیں ہوتا (چہ جائیکہ دوسرے کی علت بن سکے)۔ اس سے یہ اعتراض بھی رفع ہوگیا کہ تغیر ایک ایسا تصور ہے جو تجربے سے ماخوذ ہے لہذا علیت کا تصور بدیہی نہیں نظری ہے۔ علت کا تصور نہیں بلکہ حدوث کا تصور عدم سے وجود کے تغیر پر منحصر ہے، عدم وجود کی علت نہیں ہوسکتی یہ بدیہی ہے اور یہ دوسری بات علیت کی بنیاد ہے۔
4۔ حادث کے لئے وہی شے وجہ ترجیح ہوسکتی ہے جو مخصص (specifier) ہو اس لئے کہ حادث چار امور میں وجہ ترجیح کا محتاج ہے:
- عدم سے وجود کی ترجیح
- وجود کے بعد معدوم ہونے کے بجائے وجود پر بقا کی ترجیح
- حوادث میں زمانی و مکانی تقدیم و تاخیر کی ترجیح (اس لئے کہ ہر زمانی و مکانی تخصیص حدوث ہے اور ہر حدوث ایک تخصیص ہے)
- حوادث کی کیفیات و مقدار کی ترجیح
جو علت ان چار سوالات کا جواب دے، وہ حادث کی وجہ ترجیح کہلا سکتی ہے۔ ایسے مرجح ہی کو "ارادہ" یا اختیار کہتے ہیں۔ ارادے کا مطلب دو مساوی امکانات میں سے ایک جانب کی ترجیح و اختیار ہے، اگر یہ اختیار ثابت نہیں تو ترجیح کا کوئی مطلب نہیں۔ معلوم ہوا کہ حادث جس علت کا محتاج ہے وہ دراصل فاعل (agent) ہوتا ہے، ایسا فاعل جو مرید اور مختار ہے۔ ایسی علت کو "موجد" (existence giver) کہتے ہیں۔ پس کائنات گواہی دے رہی ہے کہ یہ وجہ ترجیح کی محتاج ہے اور وہ وجہ ترجیح ایک فاعل مختار ہے نہ کہ موجب (یاد رہے کہ علت موجبہ "مخصص" نہیں ہوتی بلکہ اپنی طبع و فطرت کا ظہور کرتی ہے)۔ یعنی خدا اور کائنات کا تعلق علت (موجبہ) و معلول کا نہیں بلکہ فاعل و اثر کا ہے۔
5۔ اب یہ سمجھئے کہ علت کے تصور میں زمانی ترتیب (temporal procession) و تقدم اور مکانی اقتران کوئی شرط نہیں جیسا کہ ہیوم و کانٹ کو غلطی لگی۔ اگر علت زمانی طور پر ماقبل اور معلول ایسے دوسرے لمحے میں ہو جس لمحے علت موجود نہیں تو وہ دوسرے لمحے میں موجود معلول کی علت کیسے ہے جبکہ وہ خود اس لمحے معدوم ہے؟ علت و معلول میں مکانی اقتران ہونا بھی علت ہونے کی شرط نہیں، حکمران جب حکمانے سے کسی کو قاضی مقرر کرتا ہے تو یہاں اس کا حکم سبب سمجھا جاتا ہے مگر مکانی اقتران کا یہاں کوئی تصور نہیں۔ بلکہ زمان و مکان چونکہ از خود حادث یعنی اثر ہیں اس لئے علت (یعنی فاعل) زمان و مکان میں نہیں ہوسکتی کہ اگر وہ زمانی و مکانی ہو تو حادث اور اس لئے اثر ہوگی نہ کہ علت۔ پھر یاد رہے کہ کسی خاص زمان و مکان میں ہونا مخصص شدہ (specified) ہونا ہے اور جو مخصص شدہ ہو وہ ایسی تخصیص کرنے والے (specifier) کا محتاج ہوتا ہے جو حادث کو لاحق ہوسکنے والے دو امکانات میں سے کسی ایک کو ترجیح دے (یعنی جو وجود کسی خاص زمان و مکان میں ہے اس کے لئے یہ ممکن تھا کہ کسی دوسرے زمان و مکان میں ہوتا اور اس لئے اس تخصیص کے لئے وہ مرجح کا محتاج ہے)۔ پس دلیل عقلی بتا رہی ہے کہ حادث کی علت لازما زمان و مکان سے ماوراء ہوگی۔ علت کے معلول پر اس تقدم کو "وجودی تقدم" (existential priority) کہتے ہیں نہ کہ زمانی و مکانی تقدم۔ علت جب فاعل مختار ہو تو یہ لازم نہیں کہ اس کا اثر ہمیشہ اس کے ساتھ پایا جائے، اس صورت میں یہ بات نہ صرف یہ کہ قابل فہم ہے کہ موجِد (existence granting) تو ہو مگر موجَد نہ ہو بلکہ ایسا ہونا قطعی طور پر لازم ہے کیونکہ فعل کا اثر قدیم ہونا محال ہے (اس نکتے کو نہ سمجھنے سے علامہ ابن سینا قدم عالم کے پرزور طور پر قائل ہوئے تھے، دیکھئے اس پر ہماری تحریر: "ذات باری کا عالم پر تقدم کس نوعیت کا ہے؟ علامہ ابن سینا کو جواب")۔
پس علت کو زمان و مکان میں بند کرنے پر اصرار کرنا دراصل معلول کو علت کہتے رہنا ہے۔ کانٹ نے علت کے عامیانہ سے تصور کو بنیاد بنا کر علت کا مفہوم مقرر کیا ہے جبکہ علت کا یہ مفہوم سادہ لوحی کا مظہر ہونے کے ساتھ ساتھ تجزیاتی طور پر بھی غلط ہے نیز یہ اس عالم شہادت کی توجیہہ کے لئے بھی لازم نہیں جیسا کہ اگلے نکتے میں آرہا ہے۔
6۔ اس کے بعد یہ سوال رہ گیا کہ عالم شہادت میں حوادث کی ترتیب و اقتران سے انسانی ذہن میں علت و معلول کا جو نقشہ ابھرتا ہے، اس کی کیا حیثیت ہے؟ جب یہ ثابت ہوگیا کہ اشیاء کے مابین ایجابی تاثیری تعلقات کی کوئی دلیل موجود نہیں اور یہ بھی ثابت ہوگیا کہ حادث علت نہیں اثر ہوتا ہے، تو معلوم ہوگیا کہ حوادث کے مابین یہ تعلقات حقیقی معنی میں علت نہیں ہوسکتے، بلکہ یہاں علت سے مجازی مفہوم والی وہ نسبتیں ہیں جنہیں علت کی علامات یا نشانی کہتے ہیں۔ پس عالم شہادت سے متعلق یہ نسبتیں ایک حادث کے دوسرے پر مؤثر ہونے نہیں بلکہ علم یا نشانی ہونے سے عبارت ہیں، یعنی یہ ترتیبات ایک فاعل کی اس عادت پر دال ہیں کہ وہ ایک کے بعد دوسرے حادث کو ایک خاص ترتیب سے وقوع پزیر کرتا ہے۔ جب ہم مشاہدہ کرتے ہیں کہ وہ الف و ب اثرات کو ایک ترتیب سے ظاہر کرتا ہے تو اس سے ہم استقرائی طور پر یہ جان سکتے ہیں کہ اگر الف آئے گا تو پھر اس کے ساتھ یا بعد ب آئے گا اور استقرا سے حاصل ہونے والے اس علم کا درجہ ظن اس پر منحصر ہے کہ کتنی مرتبہ اس واقعے کا مشاہدہ ہوا۔ اس کی آسان مثال یوں ہے کہ اگر میں موٹروے پر سفر کروں اور “ریسٹ ایریا 2 کلومیٹر” بورڈ کے 2 کلو میٹر بعد ریسٹ ایریا موجود ہو اور کئی سو کلومیٹر سٖفر میں بار بار اس ترتیب کا مشاہدہ ہو کہ اس بورڈ کے ٹھیک 2 کلومیٹر بعد ریسٹ ایریا ہوتا ہے، تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ خاص قسم کا سائن بورڈ ریسٹ ایریا پر مؤثر (یعنی اس کا سبب) ہے بلکہ مطلب یہ ہوتا ہے کہ یہ سائن بورڈ ریسٹ ایریا کی علامت ہے کہ اس کے بعد ہم ریسٹ ایریا کی امید رکھ سکتے ہیں (کہ یہ ہائی وے اتھارٹی کے فعل کرنے کی ترتیب ہے)۔ پس تجرباتی علم ممکن ہے اور اس کی بنیاد فاعل کی عادت ہے۔ معلوم ہوا کہ تجرباتی علوم کی تشکیل کے لئے ایک شے کے دوسرے پر مؤثر ہونے کا نظریہ لازم نہیں، استقرائی طور پر مقرر ہونے والی مجازی علتیں (یعنی علامات) بھی اس علم کی اتنی ہی قطعی بنیاد فراہم کرسکتی ہیں جتنا کوئی اور نظریہ کرسکتا ہے۔ یاد رہے کہ کانٹ کا نظریہ بھی خارج میں موجود حوادث کے مابین علت و معلول کے تعلق پر اس استقرائی قطعیت سے زیادہ کوئی بات کہنے سے قاصر ہے جیسا کہ پال گائیر نے واضح کیا ہے۔ بلکہ کانٹ تو اس میں یہ مزید خرابی پیدا کرتا ہے کہ وہ علت و معلول کے علم کو صرف ذہنی مظاہر کا علم کہتا ہے جس کا شے فی نفسہ سے تعلق ہی نہیں۔ پس کم از کم کانٹ کے مداحین متکلمین کو یہ الزام نہیں دے سکتے کہ یہ لوگ علتی نسبتوں کو علامت کہہ کر سفسفہ میں مبتلا ہوگئے جبکہ کانٹ کا نظریہ تو سارے ہی علم کو خارج (یعنی شے فی نفسہ) سے کاٹ دینے والا ہے۔
الغرض شاہد کی یہ علاماتی علتیں چونکہ فاعل کے فعل اور عادت پر دال یا اس کی مظہر ہیں، لہذا ان علامات کو مجازاً علت کہنا درست ہے اور زبان میں یہ استعمال عام ہے۔ عالم کی اشیاء کے مابین علت کا یہ علامتی معنی ہی قابل فہم ہے کیونکہ عقل پہلے قدم پر یہ جانتی ہے کہ یہ سب حادث یعنی اثر ہیں، انہیں از خود مؤثر سمجھنا غیر عقلی ہے۔ البتہ فاعل مؤثر چاہے تو انہیں علامات بنا سکتا ہے۔ پس کانٹ علت کے نام پر جس مقولے کے احکام حوادث کے مابین جاری کرتا ہے، ہم بھی ان احکامات کے اجراء کے قائل ہیں لیکن ایجابی طور پر مؤثریت کے معنی میں نہیں بلکہ علم ہونے کے معنی میں۔ کانٹ مجاز ہی کو حقیقت سمجھ بیٹھا۔
خلاصہ یہ کہ علت کا مفہوم مقرر کرنے میں کانٹ تین غلطیاں کرتا ہے:
الف) معلول یا اثر کو علت فرض کرتے رہنا
ب) علت کو موجب کے معنی میں تاثیری تعلقات فرض کرنا جبکہ سوائے حوادث کے اقتران اس کی کوئی مشاہداتی و عقلی دلیل موجود نہیں
ج) علت کے مفہوم میں زمانی تقدم و مکانی اقتران کو شرط قرار دینا
آٹھواں نکتہ: میٹا فزکس یا غیب کا علم ممکن ہے
آپ نے یہ کیوں کہا کہ زمان و مکان سے ماورا کسی حقیقت کے وجود کا ادراک ممکن نہیں؟ س پر معارضہ یہ ہے کہ محال ہونے کا آپ کا یہ دعوی اس مفروضے پر مبنی ہے کہ علم اضطراری کوئی حقیقت نہیں جبکہ اوپر اس مفروضے کی غلطی کو واضح کیا جاچکا جس سے معلوم ہوا کہ لازمی وجودی حقائق نہ کسی کے "بنانے سے" ہیں اور نہ یہ کسی قدرت و ارادے کے تابع ہیں جنہیں جیسے چاہے تشکیل دے دیا جائے۔ وجوبی حقائق صرف ہوتے ہیں، یہ شاہد (physical realm) و غائب (metaphysical realm) ہر ڈومین میں یکساں ہوں گے۔ وجود کا معنی ہی ہونا یا پایا جانا ہے اور یہ وجود کے ہونے (ہویت) ہی سے مفہوم ہے، ایسا کوئی امکان نہیں کہ عدم میں بھی وجود کا ادراک ہوجائے۔ وجود کا معنی و حقیقت عدم طے کردینا یا حادث کو علت کی ضرورت سے غنی کردینا، یہ انتخاب کا معاملہ نہیں ہے۔ اسی لئے علمائے کلام کہتے ہیں کہ محال عقلی (یعنی محال لذاتہ) مقدور نہیں ہوتا کیونکہ یہ وجود کی نفی (یعنی عدم کو وجود کہنے) کا نام ہے، جس طرح وجود اضطراری حقیقت ہے اسی طرح اس کی نفی کا غلط ہونا بھی اضطراری ہے۔ وجود و عدم کا معنی، جمع بین النقیضین کا محال ہونا، کل کا جزء سے بڑا ہونا، حادث کا محدث کے لئے محتاج ہونا وغیرہ سب ایسے حقائق ہیں جو شاہد اور اس سے ماورا ہر غائب میں یکساں ہیں نیز ان کا علم و شعور اس بنا پر اضطراری طور پر حاصل ہے کہ وجود شعور پر حاوی ہے۔ اسی بنا پر متکلمین کہتے ہیں کہ جمع بین النقیضین شاہد و غائب دونوں میں محال ہے، یعنی ایسا نہیں ہے کہ ہمارے لئے تو یہ جمع محال ہو لیکن خدا کے لئے ممکن ہو، نیز ایسا کوئی امکانی عالم (conceivable possible world) نہیں ہوسکتا جہاں یہ جمع ممکن ہوجائے۔ پس یہ کہنا غلط ہے کہ غائب کے بارے میں کچھ کہنے کی کوئی بنیاد موجود نہیں۔ اگر دلیل غائب کے اس وجود کے ہونے پر دلالت کرے تو اس وجود کو مانا جائے گا اور اگر دلیل نہ ہو تو اس معاملے میں توقف کیا جائے گا تاہم اس کے علم کو ناممکن ہونا نہیں کہا جائے گا کیونکہ اس کے علم کو محال کہنے کی آپ کے پاس کوئی دلیل نہیں۔
نواں نکتہ: علت اور خدا
آپ نے یہ کیوں کہا کہ علت کے تصور سے خدا کا تصور ثابت نہیں ہوتا؟ اس پر کانٹ کی یہ دلیل ہے کہ علت تو نرا ذہنی مقولہ ہے جو بغیر تجربہ کوئی علم فراہم نہیں کرتا نیز یہ مقولہ ہمیں خارج سے متعلق بھی کوئی علم نہیں دیتا نیز خدا حسی تجربے سے ماوراء ہے۔
اس دلیل پر اعتراض یہ ہے کہ خود کانٹ کے فلسفے کی رو سے بھی یہ دلیل دو وجوہ سے غلط ہے:
الف) کانٹ خود علت کا ایک "سبسٹنٹو تصور" ہی مقرر کرتا ہے، یعنی زمانی تقدم و مکانی اقتران سے متعلق موجب، چنانچہ اس کے بعد کانٹ کے لئے یہ ممکن نہیں کہ خود اپنے فلسفے میں علت کے مقولے کا ایک "سبسٹنٹو مفہوم" متعین کرکے دوسروں کو یہ کہتا رہے کہ تمہارا قائم کردہ علیت کا مفہوم تو نرا خیال ہے۔ کانٹ اس غلط فہمی کا شکار ہے گویا علت کا اس کی جانب سے مفروضہ مفہوم غیر سبسٹنٹو خیال ہے جبکہ معاملہ ایسا نہیں۔
ب) کانٹ اپنے فلسفے میں "علت" کے مقولے کو نامینا پر ہی لاگو کرتا ہے جیسا کہ نکتہ نمبر چھ میں نشاندہی ہوئی۔ پس اگر آپ کے لئے یہ جائز ہے کہ علت کی کیٹیگری نامینا پر لاگو کریں تو دوسروں کے لئے یہ کیوں ناجائز ہے؟
رہا اس پر معارضہ تو اس کی تفصیل پچھلے نکات میں ہوچکی جس سے یہ بات صاف ہوچکی کہ:
- علیت (حادث کے لئے محدث ہوتا ہے) نرا ذہنی خیال نہیں بلکہ یہ ذہن پر منعکس شاہد و غائب سے متعلق وجودی حقیقت ہے (دیکھئے نکتہ نمبر 4)
- ہمارا ادراک ذہن کی ساخت کے بارے میں نہیں ہے بلکہ خارجی حقیقت کے بارے میں ہے جس کی توجیہہ کو اولاً ان ماقبل مقولات سے مشروط کرنا ضروری نہیں اور اگر ان مقولات کا وجود مان بھی لیا جائے تب بھی یہ ثابت نہیں ہوتا کہ یہ ذہن کو خارج سے متعلق اطلاع نہیں دیتے بلکہ درست بات یہی ہے کہ ان سے ہمیں خارجی اشیاء اور ان کی صفات کا ادراک ہوتا ہے (دیکھئے نکتہ نمبر 5 اور 6)
- پس خارجی اشیاء سے متعلق یہ اطلاق مجھے حاصل ہے کہ انہیں حدوث لاحق ہے (یعنی یہ کہ اشیاء متنوع صفات کی حامل بھی ہیں اور متغیر بھی نیز یہ کہ یہ متحیز ہیں)
الغرض ادراک سے ماوراء حقیقت موجود ہے اور ادراک اس کے تابع ہے اور اولیات عقلیہ کے دائرے میں یہ تابعیت اتنی قطعی ہے کہ کچھ اور ادراک ہوسکنا محال ہے۔
آپ کی یہ دلیل دراصل اس غلط مفروضے پر مبنی ہے کہ علت زمانی و مکانی ایجابی تصور ہے جبکہ ہم واضح کرچکے کہ زمانی و مکانی ہونا علت کے مفہوم میں شامل نہیں نیز زمانی و مکانی وجود اثر ہوتا ہے نہ کہ علت نیز اس علت کو موجب کے مفہوم میں لینے کی کانٹ کے پاس کوئی صریح دلیل نہیں (دیکھئے نکتہ نمبر 7)۔ جب عقل یہ پہچان لے کہ "عالم حادث ہے" (حدوث عالم کے دلائل پر یہاں بحث نہیں کی جائے گئی)، تو جس کیٹیگری کا نام آپ نے "علت" رکھا آخر وہ اپنے مافیہ کے اطلاق (یعنی "مرجح") کو اسی حادث عالم کے اندر موجود فرض کرکے کیسے احکام جاری کرسکتی ہے جس کے بارے میں اسے پہلے سے یہ خبر موصول ہوچکی کہ یہ عالم معلول (حادث) ہے نہ کہ مرجح؟ پس اس غلط مفروضے کو ترک کیجئے کہ عالم کے اندر مشاہدے میں آنے والی بعض چیزیں بعض کے لئے "علت (مرجح) ہیں، عقل پہچان چکی ہے کہ یہاں سب حوادثات (یعنی معلولات ہیں) اور حادث علت نہیں ہوا کرتا۔ وہ جانتی ہے کہ زمانی و مکانی عالم میں صرف ایک کے بعد دوسرا حادث رونما ہورہا ہے اور اس لئے وہ ان میں سے ہر ایک کو علت کا مصداق قرار دینے سے انکاری ہے۔ پس وہ یہ کہنے پر مجبور ہے کہ جب عالم حادث ہے تو علت کے حکم کا اطلاق اس عالم سے ماورا کسی موجود پر ہوگا جو اس زمانی و مکانی عالم پر متصرف ہے۔ ہیوم و کانٹ ایک ایسے تصور (یعنی حادث) کو مرجح ثابت کرنے کی کوشش میں تھے جو اپنی وضع میں مرجح ہونے کے عقلی حکم کو قبول ہی نہیں کرتا۔
جب یہ معلوم ہوگیا کہ حادث ممکن ہے اور کسی ایک جانب ترجیح کے لئے مرجح کا محتاج ہے اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ حادث موجود ہے، تو عقل لازما کہتی ہے کہ مرجح بھی موجود و ثابت ہے، اگرچہ وہ غائب ہی میں ہو کیونکہ وجوبی حقائق شاہد و غائب میں یکساں ہیں۔
اس تقریر کے بعد عقلی الہیات کے ناممکن ہونے پر کانٹ کی دلیل ختم ہوجاتی ہے، فللہ الحمد۔
دسواں نکتہ: کانٹین فلسفہ ایک اہم سوال کا جواب نہیں دیتا
کانٹ کے موقف پر آخری تبصرہ یہ ہے کہ یہ ہمیں اس سوال کا جواب دینے سے قاصر ہے کہ آخر میرے ادراک کی ساخت وہ کیوں ہے جیسی کہ وہ ہے؟ میرے وجود اور ادراک کی ساخت ہم آہنگ کیسے ہیں؟ نیز خارج میں موجود حقیقت اور میرا ادراک ہم آہنگ کیوں ہیں؟ ظاہر ہے جب آپ اس غلط مفروضے پر فکر کی بنیاد رکھیں گے کہ ادراک کی ساخت وجود سے الگ و ماقبل متعین ہے تو ان سوالات کا کوئی جواب ممکن نہیں۔ علم کی ہر سنجیدہ جستجو انسانی ادراک، خود اس کے وجود اور خارج میں موجود اشیاء کے مابین ہم آہنگی (harmony) کے لازمی مفروضے پر قائم ہوتی ہے اور یہ ہم آہنگی انسان کو ایک ایسے اصول سے متعلق کرتی ہے جو اس ہم آہنگی کا سبب ہے، یعنی جو انسان کے اس سوال کا جواب ہو کہ آخر یہ اضطراری ہم آہنگی کیوں پائی جاتی ہے؟ چنانچہ ایسی فکر بے اطمینانی و انتشار پیدا کرنے کے سوا کچھ نہیں کرسکتی۔ یہی وجہ ہے کہ کانٹین فکر سے متاثر ہوکر کانٹ کے جانشینوں نے ہر اخلاقی قدر کی سچائی و آفاقیت کا انکار کردیا گیا۔اسلامی فکر میں اس سوال کے جواب کی ایک صورت وہ ہے جو شیخ اکبر کی روایت میں ملتا ہے، یعنی پوری کائنات جس ذات کے اسما کا ظہور ہے اسی کے اسما کا ظہور انسان میں جامعیت کے ساتھ ہوا ہے۔
3) حاصل بحث
کانٹ کا نظریہ علم غیر ضروری و پرتکلف مفروضات پر مبنی ہونے کے علاوہ بعض سطحی و غلط مقدمات پر بھی مبنی ہے۔ اگر ہم یہ مان بھی لیں کہ ذہن میں مقولات موجود ہیں جو تجربے کی شرط ہیں تب بھی یہ ثابت نہیں ہوتا کہ الہیات کا علم ناممکن ہے۔ اس حوالے سے اس کے نظرئیے کی چار بنیادی خامیاں ہیں:
1) ذہنی مقولات کو کوئی وجودی حقیقت یا اس کا مظہر نہ ماننا بلکہ انہیں خالی گھڑھے نما شے کہنا جبکہ ساتھ ہی کانٹ کا یہ بھی ماننا ہے کہ وہ مقولے ممیز (differentiated) ہیں۔ یوں کانٹ کے نظرئیے کی سچائی خود داخلی طور پر متضاد ہوکر اپنی ہی سوفسطائیت کی ذد میں آجاتی ہے۔
2) وجود اور ادراک کی دوئی کے مفروضے پر علم کی عمارت قائم کرنے کی کوشش میں لازمی وجودی حقائق کو اگنور کرتے ہوئے اپنے نظریہ علم میں انہیں جگہ نہ دینا۔ اس غلطی کی وجہ سے کانٹ شاہد و غائب کے مابین واسطے کو کھو دیتا ہے۔
3) حصول علم کی کیفیت کے بارے میں یہ کہنا کہ یہ شے فی نفسہ سے متعلق نہیں ہوسکتا جبکہ خود اس کے اپنے فریم ورک میں اایسا کہنے کی کوئی قطعی دلیل موجود نہیں بلکہ اس کے برعکس بات زیادہ قرین از قیاس ہےکہ ہمیں ادراک "شے کا" ہوتا ہے نہ کہ "شے کے ادراک کا"۔
4) علت کا ایک عامیانہ (naive) و غلط تصور قائم کرنا کہ یہ زمانی تسلسل و ترتیب میں ڈھلی ہوئی ایجابی نسبتوں سے عبارت ہے جبکہ یہ دعوی معلول کو علت فرض کرنے کی غلطی پر مبنی ہے۔
ان غلطیوں کی اصلاح کرلی جائے تو کانٹ کا فلسفہ دلیل حدوث کے دو میں سے کسی قضیے کو غلط ثابت نہیں کرسکتا:
الف) حادث کے لئے محدث ہے (یعنی حادث موجود ہے تو محدث بھی موجود ہے)
ب) عالم حادث ہے
نتیجہ) عالم کے لئے محدث ہے (چونکہ عالم موجود ہے لہذا اس کا محدث بھی موجود ہے)
دلیل حدوث کی صحت کی کم از کم علمی شرط یہ ماننا ہے کہ ذہن سے ماوراء خارجی حقیقت موجود ہے اور انسانی ذرائع سے وہ لائق ادراک ہے۔
کیا ذات باری کی حقیقت ہمیں معلوم ہے؟
کانٹ کے مذہبی مداحین کا کہنا ہے کہ کانٹ نے یہ بات بتا کر اہل مذہب پر احسان کیا کہ اشیاء کے حقائق ہمیں معلوم نہیں، وہ ماورائی حقیقت ذات باری ہے جسے عقل نہیں جان سکتی۔ ہم کہتے ہیں کہ اگر ذات باری کی حقیقت سے مراد اس کی ماہیت ہے تو یہ بات محقق متکلمین جیسے کہ امام غزالی و رازی اور صوفیاء پہلے ہی بیان کرتے آئے ہیں کہ ہمیں اس کا کوئی ادراک نہیں (اس پر ہم نے تحاریر لکھی ہیں، ملاحظہ کیجئے:"کیا مباحث الہیات میں کانٹ کا کوئی بامعنی کنٹریبیوشن ہے؟" نیز "وجود باری پر ناقابل تصور و ناقابل مشاہدہ ہونے کا سوال")۔ لہذا اس بات کے لئے ہمیں کانٹ کا احسان مند ہونے کی ضرورت نہیں۔
علیتی دلیل دو طرح کی ہوتی ہے: دلیل لمی اور دلیل انی۔ اول الذکر میں ہم علت سے معلول کی جانب سفر کرتے ہیں جبکہ مؤخر الذکر میں معلول سے علت کی جانب۔ خدا کے بارے میں ہمارا علم دلیل "انی" پر مبنی ہے، یعنی ہم نے عالم کو دیکھا تو جان لیا کہ یہ حادث ہے، اور حدوث سے جان لیا کہ یہ کسی ارادی فعل کا اثر ہے۔ ارادہ نام ہے ترجیح قائم کرنے کا اور قیام ترجیح تبھی مفہوم ہے جب قدرت بھی متحقق ہو۔ اگر عالم میں اشیاء عدم سے وجود پزیر ہورہی ہیں تو وہ معنی بھی لازماً ثابت ہے جو عدم کو وجود بخشنے سے عبارت ہے، اسی معنی کو "قدرت" کہتے ہیں۔ جب ارادی ترجیح ثابت ہے تو علم بھی ثابت ہے کیونکہ ارادی ترجیح قصد کا نام ہے اور قصد علم کو فرض کرتا ہے۔ ارادہ، قدرت و علم، یہی فعل کی حقیقت ہیں اور جو ان سے متصف ہو اسے "فاعل مختار" کہتے ہیں۔ اور چونکہ یہ سب معنی صفات ہیں اور عقل جانتی ہے کہ صفت کا قیام بدون موصوف محال ہے، تو اگر صفت ثابت ہے تو موصوف بھی ثابت ہے۔ عقل کی رسائی بس صفات تک ہے، اس سے آگے عقل کے پاس صاحب صفات (یعنی صاحب اختیار) کی کوئی خبر نہیں کہ وہ کیسا ہے۔ امام غزالی مثال سے واضح فرماتے ہیں کہ یہ ایسا ہی ہے جیسے تمہارے ہاتھ میں ایسا خط ہو جس کے مصنف کو تم نہیں جانتے اور کوئی تم سے پوچھے کہ یہ خط کس کا ہے تو تم کہہ سکتے ہو کہ یہ خط اس کا ہے جو کاتب ہے اور وہ قدرت و علم سے متصف ہے۔ ظاہر ہے اس سے خط لکھنے والے کی ذات کی حقیقت کے بارے میں کوئی خبر نہیں ملی۔ صفات عقل کی رسائی میں اس لئے ہیں کہ یہ عالم ان صفات کا مظہر ہے، مظہر بس وہاں تک ہی لے جاسکتا ہے جس کی وہ نشانی ہے۔ اس سے آگے نہ عقل کو راہ ہے، نہ وجدان کو اور نہ کسی الہام کو (یہی محقق صوفیا کا قول ہے کہ ذات باری الہام سے بھی نامعلوم ہے)۔ اتنا ہی نہیں بلکہ نبی کی وحی سے خبر پالینے کے بعد بھی اس ذات کی ماہیت و حقیقت ہمارے لئے نامعلوم ہے۔ اگر وحی کی خبر ہمارے حق میں اس دائرے میں پردہ کشا ہوتی جہاں عقل کی رسائی نہیں تو ہم اللہ کے "ید" و "عین" کے معنی کی تفویض نہ کررہے ہوتے، اس بات کو سمجھو۔ الغرض یہ جو بات بنالی گئی ہے کہ عقل سے تو ذات باری تک ہماری رسائی نہیں لیکن نبی کی اخبار کے ذریعے ہے، یہ خلط مبحث ہے۔
ضمیمہ: کانٹ کی دلیل کا اجمالی جواب
کانٹ کی دلیل کا مختصر جواب یہ ہے کہ کانٹ کا نظریہ علم غیر ضروری و پرتکلف مفروضات پر مبنی ہونے کے علاوہ بعض سطحی و غلط مقدمات پر بھی مبنی ہے۔ اگر ہم یہ مان بھی لیں کہ ذہن میں مقولات موجود ہیں جو تجربے کی شرط ہیں تب بھی یہ ثابت نہیں ہوتا کہ الہیات کا علم ناممکن ہے۔ چنانچہ کانٹ کی یہ بات مانتے ہوئے کہ ذہن میں ایک ادراکی ساخت موجود ہے، الہیات پر اس کے ساتھ یوں گفتگو ہوگی:
- ہمارا دعوی: علت ہونے کا مطلب زمانی ترتیب و تسلسل میں مقدم ہونا نہیں ہے جیسے کہ کانٹ نے فرض کرلیا، کسی شے کا "زمانی ہونا" تو اس چیز کی علامت ہے کہ متعلقہ شے علت نہیں معلول یا اثر (effect) ہے کیونکہ کوئی خاص زمانی تعین ہونا از خود تخصیص ہے جو مخصص کی متقاضی ہے۔ لہذا علت کے بارے میں کانٹ کا بیان کردہ تصور غلط ہے۔ عقل کہتی ہے کہ علت زمان و مکان سے ماوراء ہو۔
- کانٹ پوچھے گا: عقل علت کے بارے میں ایسا کیوں کہتی ہے کہ وہ زمان و مکان سے ماوراء ہو؟ نیز اگر ایسی علت ہو بھی تو کیا ہم اس ماورائی علت کی حقیقت کے بارے میں کچھ جان سکتے ہیں؟
ہم کہتے ہیں: عقل ایسا اس لئے کہتی ہے کیونکہ یہ عالم حادث ہے اور حادث محتاج یعنی معلول یا اثر ہوتا ہے نہ کہ علت۔ پس علت لازماً اس سے ماوراء ہی ہوگی۔ چونکہ لازمی وجودی حقائق شاہد و غائب میں یکساں ہیں، لہذا اثر (یعنی عالم) اگر موجود ہے تو فاعل بھی یقیناً موجود ہے۔ البتہ متکلمین اس بات کو قبول کرتے ہیں کہ عالم کی اس علت کی حقیقت و ماہیت ہم اس دنیا میں نہیں جان سکتے، مگر اس کی ذات کی ماہیت نہ جان سکنا اس ذات کے موجود ہونے کو جاننے میں رکاوٹ نہیں۔ - کانٹ کہے گا: میرے بیان کردہ مقولے یا ذہنی ساختیں شے سے متعلق علم نہیں دیتیں، لہذا حادث و علت کا لفظ یا ایک ذہنی تصور ہے اور یا ادراک سے متعلق فنامینا، نہ کہ خارجی شے سے متعلق امور۔
ہم کہتے ہیں: آپ کا یہ دعوی قابل قبول نہیں، ذہنی مقولات کی جانب سے جاری کردہ قضایا خارجی اشیاء کی صفات مانے بغیر قابل فہم نہیں ہوسکتے۔ پس حدوث مشاہدے میں آنے والی خارجی شے ہی کی صفت ہے نہ کہ ذہنی خیال۔ حادث عالم کا وجود اس کی علت کے وجود کو مستلزم ہے کہ اثر بدون مؤثر ہونا محال ہے اور یہ ایک بدیہی وجودی حقیقت اور علم اضطراری ہے۔ وجودی حقائق شاہد و غائب میں یکساں لاگو ہوتے ہیں، شاہد میں حادث وجود غائب کے محدث یا مؤثر وجود پر مستقل دلالت کررہا ہے جس کا انکار مکابرہ ہے۔