متکلمین الہیات کے باب میں تین سطح پر گفتگو کرتے ہیں: ذات باری کا ثبوت اور اس کے احکام، صفات باری تعالی اور اس کے احکام، افعال باری تعالی جو اس بات سے عبارت ہیں کہ خدا اور کائنات کا تعلق کس نوعیت کا ہے اس لئے کہ کائنات خدا کا فعل ہے ۔ مسئلہ جبر و قدر اللہ کے افعال سے متعلق بحث ہے، یعنی یہ بحث کہ خدا کے فعل اور بندے کے فعل میں کیا نسبت ہے۔ افعال باری کی یہ بحث دراصل مسائل حسن و قبح کی ایک فرع ہے۔ چونکہ افعال باری کی بحث ذات و صفات پر متفرع ہے، لہذا جو اصول و نتائج پہلی دو سطحوں میں طے ہو چکیں افعال باری کی بحث میں ان کا لحاظ رکھنا لازم ہے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ جس اصول کو پہلے قبول کیا گیا ہو، مسئلہ جبر و قدر کی بحث میں اسے ترک کر دیا جائے کہ یہ ایک غیر علمی طریقہ گفتگو ہے۔ اس مسئلے سے متعلق وہ ماقبل امور جن کا لحاظ رکھنا ضروری ہے، ان میں سے اہم ترین اصول یہ ہیں:
1) ہر حادث کے لئے محدث ہونا لازم ہے
2) عالم حادث ہے، یعنی یہاں اشیاء یک بعد دیگرے عدم سے وجود پذیر ہو رہی ہیں اور یہ سلسلہ لامتناہی نہیں۔
3) اللہ کی قدرت و ارادہ ہر شے پر جاری ہے، اس عالم میں اس کے ارادے کے بنا کچھ بھی ظاہر نہیں ہوتا (اسے "عموم قدرت" کا اصول بھی کہتے ہیں)
4) کیا ان اشیاء کے مابین علت و معلول "بمعنی تاثیر" کی نسبت جاری ہے؟ جمہور اشاعرہ و ماتریدیہ جبکہ معتزلہ کی ایک جماعت کے نزدیک ان کے مابین ایسی نسبت نہیں بلکہ خدا تمام اشیاء کا براہ راست خالق ہے اور وہ ہر لمحے پوری کائنات کو وجود دیتا ہے۔ ہمارے مشاہدے میں آنے والی علتی نسبتیں علامات ہیں۔ معتزلہ کی ایک جماعت کے نزدیک ان کے مابین تاثیری نسبت قائم ہے، گویا وہ ثانوی علتوں کے بھی قائل ہیں اور ان کے مطابق اللہ تعالی ہر چیز کا براہ راست خالق نہیں۔
ان امور پر متکلمین افعال باری سے قبل بحث نبٹاتے ہیں۔ ان کے بعد مسئلہ جبر و قدر سے متعلق متعلقہ پہلووں کو نوٹ کرنا ضروری ہے:
1) انسان کی طرح اس کے افعال بھی حادث ہیں
2) فعل چند امور سے عبارت ہے:
الف) قدرت: اس کا مطلب دو امکانات کے مابین بطریق تساوی (indifference or equality) اس طور پر نسبت ہونا ہے کہ قادر چاہے تو کچھ کرے اور چاہے تو نہ کرے۔
ب) ارادہ: اس کا مطلب دو مساوی امکانات میں سے کسی ایک جانب ترجیح قائم کرنا ہے، گویا ارادہ قدرت کے مقابلے میں خاص معنی ہے کہ وہ کسی ایک جانب بطریق ترجیح (preference) نسبت ہونا ہے۔
ج) فعل بطور مصدر اور حاصل بالمصدر: جب زید کھانا کھاتا ہے تو اس کے بازو، ہاتھ و منہ وغیرہ حرکت کرتے ہیں جو ایسے امور ہیں جن کا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔ "کھانا کھانے" کا ایک معنی منہ و ہاتھ وغیرہ کی حرکت ہوتی ہے اور اس کا دوسرا معنی از خود "کھانا کھانے" کا تجریدی (abstract) تصور ہے۔ موخر الذکر کو "فعل بمعنی مصدر" کہتے ہیں اور اول الذکر کو "حاصل بالمصدر" (انگریزی زبان میں فعل بمعنی مصدر کو gerund کہتے ہیں جیسے to eat)۔ ہاتھ و منہ کی حرکت کو حاصل بالمصدر اس لئے کہتے ہیں کیونکہ یہ "کھانا کھانے" کے تجریدی تصور کے مظاہر ہیں اور اس کے تجریدی معنی سے حاصل ہوتے نیز اس پر دال ہیں۔ اگر کوئی مثلاً بھاگ رہا ہو تو اسے "کھانا کھانا" نہیں کہتے بلکہ "بھاگنا" (To run) کہتے ہیں جو ایک اور مصدری معنی یا تصور ہے۔
د) فعل بمعنی قلبی ارادہ: ہاتھ کی حرکت کا ہونا کبھی ارادہ و نیت سے ہوتا ہے اور کبھی اضطراری طور پر، مثلا جیسے رعشہ ذدہ انسان کے ہاتھ کا ہلنا۔ قلب میں کسی شے کا ارادہ مصمم قائم ہونا، یہ بھی فعل کی ایک جہت ہے جسے قلب کا فعل کہا جا سکتا ہے۔
ھ) داعیہ: یہ وہ جذبہ و خواہش (motivation or inclination) وغیرہ ہے جس کی بنا پر انسانی سطح پر دو امور میں سے کسی ایک جانب کا ارادہ قائم ہوتا ہے ، یعنی ان میں ترجیح قائم ہوتی ہے۔
و) افعال متولدۃ: کسی فعل کے ساتھ بعض امور سامنے آتے ہیں۔ مثلاً ہاتھ کی حرکت سے پتھر کو پھینکے پر پتھر کا لڑھکنا یا ہاتھ کی چوٹ لگانے سے جسم میں تکلیف ہونا وغیرہ۔ انہیں افعال متولدۃ (generated actions) کہتے ہیں۔
چنانچہ مسئلہ جبر و قدر میں سوال یہ ہے کہ (الف ) تا (و) میں خدا اور بندے کی قدرت و ارادے میں کیا نسبت ہے؟ انسانی افعال (theory of human action) سے متعلق کسی بھی نظرئیے کو ان سب امور کا لحاظ رکھتے ہوئے جواب دینا ہے۔ اس کے بالعموم تین جواب ہیں، ذیل میں ان کا تعارف کرایا جاتا ہے۔
معتزلہ و شیعہ امامیہ کا نظریہ
معتزلہ کی جماعت کا کہنا ہے کہ بندہ جس قدرت سے افعال سرانجام دیتا ہے وہ قدرت خدا کی طرف سے معین فعل کے حدوث سے قبل ہوتی ہے۔ یہاں قبلیت (priority) بااعتبار زمان نہیں بلکہ تقدم بااعتبار علیت یا تاثیر (causality) کی بات ہے، یعنی جو شے کسی پر مؤثر ہوتی ہے وہ اس سے ماقبل ہوتی ہے چاہے زمانی حوالہ ہو یا نہ ہو ۔ ان کے نظرئیے کی تفہیم کے لیے ہم اسے "بیٹری ماڈل" سے تشبیہ دے سکتے ہیں۔ جب ایک بیٹری میں ایک خاص مقدار کا کرنٹ بھر دیا گیا ہو تو آپ اسے ساتھ لئے گھوم سکتے ہیں اور ضرورت پڑنے پر مثلاً کوئی بلب روشن کر سکتے ہیں اور چاہیں تو پنکھا۔ یہی معاملہ انسانی قدرت کا ہے جو اسے ایک صلاحیت کی طرح عطا کر دی گئی ہے اور بندہ اس کے ذریعے امور میں ترجیح قائم کرتا رہتا ہے۔ بندے کے ارادہ کرنے سے اس کی قدرت کے تحت جو افعال بمعنی حاصل بالمصدر سامنے آتے ہیں، مثلا ہاتھ پیر کی حرکت، وہ بھی بندے کی وجہ سے ہوتے ہیں اور خدا ان کا براہ راست خالق نہیں بلکہ بالواسطہ خالق ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ معتزلہ بندے کو کلی طور پر مستقل مانتے تھے بلکہ خدا جب چاہے بندے سے افعال خلق کرنے کی قدرت سلب کر سکتا ہے۔ افعال متولدۃ میں معتزلہ کا اختلاف ہوا، ان کی ایک جماعت کی رائے میں ان کی نسبت بھی براہ راست بندے کی جانب ہوگی اور خدا کی جانب بالواسطہ جبکہ ایک جماعت کے مطابق اس کی نسبت براہ راست خدا کی جانب ہوگی، یعنی ان کے مطابق یہ افعال متولدۃ بندے کے فعل کی تاثیر کی وجہ سے ظاہر نہیں ہوتے بلکہ خدا انہیں ہمارے افعال کے ساتھ عادتاً اسی ترتیب سے پیدا کرتا ہے (یہ اختلاف مادی اشیاء میں ثانوی علل ماننے یا نہ ماننے پر متفرع ہے)۔ معتزلہ کا کہنا ہے کہ اگر بندے کی قدرت قبل از فعل نہ ہو اور اسے اپنے افعال کا خالق نہ کہا جائے (یعنی حدوث افعال کی نسبت براہ راست بندے کی جانب نہ کی جائے) تو شرعی تکلیف اور انسانی ذمہ داری کا تصور پورا نہیں ہوتا۔ اس کی ایک اور اہم وجہ کا تعلق معتزلہ کے تصور حسن و قبح کے ساتھ بھی ہے جس کے تحت وہ خدا کی بارگاہ میں "مسئلہ شر" (problem of evil) کو حل کرنا چاہتے تھے لیکن اس کی تفصیل کا یہ موقع نہیں۔ جو قدرت اپنے اثر کی ایجاد و خلق پر مؤثر ہوتی ہے اس کا اثر سے مقدم ہونا لازم ہے اور چونکہ معتزلہ بندے کے لئے ایجاد افعال کے قائل تھے اس لئے ان کا کہنا تھا کہ قدرت قبل از فعل لازم ہے تاکہ وہ فعل کی ایجاد و عدم دونوں پر مؤثر ہو۔ چنانچہ اصطلاحی زبان میں ان کے نظرئیے کا خلاصہ یہ ہے:
الف) بندے کی قدرت قبل از فعل ہے
ب) ارادہ کرنا اور قلبی فعل بندے کی جانب سے ہے
ج) فعل بمعنی حاصل بالمصدر کی نسبت بندے کی جانب ہے
د) افعال متولدۃ کی نسبت پر ان کا اختلاف ہے
معتزلہ کی بحث میں ایک پیچیدگی داعیے کی بحث سے پیدا ہوتی ہے جو انسانی ارادے کی توجیہہ سے متعلق ہے۔ انسان دو امور میں سے کسی ایک جانب ترجیح جس وجہ سے قائم کرپاتا ہے اسے داعیہ یا غرض کہتے ہیں۔ تمام داعیات بالاخر جلب منفعت (pursuit of benefit or pleasure) و دفع مضرت (avoidance of pain) سے عبارت ہیں۔ یعنی انسان آخر کار اس شے کا ارادہ کرتا ہے جس میں لذت و سرور ہو یا زیادہ ہو اور یا جس میں اذیت و ضرر نہ ہو یا کم ہو۔ جونہی انسان کے پاس یہ علم آجائے کہ فلاں فعل ضرر رساں ہے تو وہ اس سے دور رہنے کا فیصلہ کرتا ہے اور جب یہ علم و یقین آجائے کہ فلاں چیز میں اس کا فائدہ ہے تو وہ اس کی جانب لپکتا ہے۔ ظاہر ہے یہ داعیہ بندے کا ارادی طور پر پیدا کردہ نہیں ہوتا، اگر ایسا کہا جائے تو اس سے دور (یعنی دلیل کا سرکلر ہونا) لازم آئے گا کیونکہ اس کا مطلب یہ کہنا ہے کہ ارادے کی علت داعیہ ہے اور داعیے کی علت ارادہ ہے! پس اس داعیے کا خالق بندہ نہیں ہوسکتا بلکہ اس کی علت اس سے خارج ہوگی اور چونکہ تسلسل علل محال ہے لہذا ماننا ہوگا کہ اس حادث داعیے کی علت یا محدث ذات باری کا ارادہ ہے۔ لہذا سوال پیدا ہوا کہ کیا داعیے کے آجانے کے بعد ارادہ یعنی ترجیح قائم ہو جانا لازم ہے یا نہیں نیز اگر داعیے کی علت انسانی ارادے سے خارج ہے تو جبر سے کیسے بچا جائے؟ چنانچہ معتزلہ میں سے بعض نے کہا کہ داعیے کے آنے کے بعد بھی ارادہ قائم ہونا لازم نہیں بلکہ انسان کے پاس ترجیح قائم کرنے کا پھر بھی اختیار رہ جاتا ہے۔ ظاہر ہے اس جواب کے بعد داعیے اور ارادے کا باہمی تعلق ٹوٹ جاتا ہے اور حادث ارادے کی توجیہہ نہیں ہوپاتی، اس سے چند دیگر مسائل پیدا ہوتے ہیں جن پر آگے بات کی جائے گی۔ بعض نے مان لیا کہ داعیے کے بعد ارادے کا قائم ہونا لازم ہے، البتہ اس کے بعد معاملہ جبر کی جانب جانکلتا ہے جس سے معتزلہ بچنا چاہتے تھے۔
امامیہ شیعہ حضرات کا موقف اس مسئلے میں وہی ہے جو معتزلہ کا موقف ہے۔ اس مسئلے پر ان کے ائمہ یہی موقف لکھتے ہیں کہ بندے کی قدرت محدثہ قبل از فعل ہوتی ہے نیز بندہ اپنی اس قدرت سے امور کے مابین ترجیح قائم کرتا ہے نیز وہ اپنے افعال (بمعنی حاصل بالمصدر) کا خالق بھی ہے لیکن یہ سب خدا کی قدرت کے ماتحت ہی ہوتا ہے، اسی طرح وہ یہ بھی مانتے ہیں کہ خدا ازل سے بندے کے افعال کو جاننے والا ہے جس سے جبر لازم نہیں آتا۔ اس مذہب کو وہ ائمہ اہل بیت سے منسوب "امر بین الامرین" کہتے ہیں۔ اس مسئلے میں ان کی کتب میں درج دلائل بھی وہی ہیں جو معتزلہ کے دلائل تھے کہ مثلاً اگر خدا کو بندے کے افعال کا خالق کہا جائے تو بندے کے برے افعال خلق کرنے کی بنا پر خدا کا شریر ہونا لازم آئے گا۔
ماتریدیہ کا نظریہ
معتزلہ کے نظرئیے سے یہ لازم آتا ہے کہ عدم سے وجود دینا یا خلق کرنا صرف خدا کا فعل نہیں بلکہ بندے بھی اپنے افعال کے خالق ہوتے ہیں۔ اس بنا پر معتزلہ کا ماڈل خلق مستمر کی مکمل تصویر کشی نہیں کرتا کیونکہ یہاں انسانی قدرت بیٹری کی صلاحیت کی طرح بندے میں گویا انسٹال ہوتی ہے۔ اس کے برعکس ماتریدیہ کے نظرئیے میں انسان جس قدرت سے فعل سر انجام دیتا ہے (جسے "قدرت محدثہ" کہتے ہیں) وہ قدرت لمحہ بہ لمحہ ہر لمحے (spontaneously or instantaneously) بندے میں از سر نو فعل کے ساتھ خلق کی جاتی ہے۔ جیسا کہ آگے واضح ہوگا کہ یہ قدرت دراصل دو طرح کی ہوتی ہے، ایک وہ جو حدوث فعل سے قبل (اور کم از کم ایک فعل پر مؤثر) ہوتی ہے اور دوسری وہ جو فعل کے ساتھ ہوتی ہے جس سے فعل کسب ہوتاہے۔ اصطلاحی زبان میں اس دوسری قدرت کو "قدرت مع الفعل" کہتے ہیں۔ ماتریدیہ کے نزدیک بندے کی قدرت کی دو خصوصیات ہیں:
1) یہ ایک معین فعل سے متعلق ہوتی ہے جسے کسی دوسرے فعل میں صرف نہیں کیا جا سکتا، یعنی جو قدرت کھانا کھانے کے لئے عطا کی جاتی ہے وہ مثلاً پانی پینے یا دوڑنے میں صرف نہیں ہو سکتی اس لئے کہ کسی خاص لمحے میں ادا کئے جا سکنے والے معین فعل کے لئے اس کے ساتھ ہی ایک معین قدرت حادث ہوتی ہے،
2) یہ قدرت کسی معین فعل کی دو اضداد (opposite nodes) سے متعلق ہوتی ہے، یعنی "کرو یا نہ کرو"۔ مثلاً کسی خاص لمحے میں عطا کردہ قدرت "کھانا کھانے یا نہ کھانے" دونوں سے متعلق ہوتی ہے۔ بندہ اس قدرت سے کسی ایک جانب ترجیح قائم کرتا یا اس کا ارادہ کرتا ہے (مثلا "میں کھانا کھاؤں")۔
چونکہ ذات باری نے بندوں کو آزمائش میں ڈالا ہے، لہذا بندے کا ارادہ کرتے ہی اللہ بھی اس کے ارادے کی موافقت کرتا ہے اور نتیجتاً بندے کے ارادہ کرنے کے بعد جو افعال صادر ہوتے ہیں (جنہیں حاصل بالمصدر کہا گیا جیسے ہاتھ و منہ کی حرکت)، وہ افعال خدا اس کے ارادے (یعنی ترجیح قائم کرنے) کے ساتھ خلق کر دیتا ہے جس سے بندے کا ارادہ پایہ تکمیل کو پہنچ جاتا ہے۔ یوں ماتریدیہ کے ہاں افعال عباد (بمعنی حاصل بالمصدر) کے ایجاد کی براہ راست نسبت خدا کی جانب رہتی ہے۔ تاہم ان افعال کے ساتھ ہی خدا بندے میں ایک ایسی قدرت پیدا کرتا ہے جن سے وہ افعال کا کسب کرنے والا (acquirer) کہلاتا ہے* جس کا مفہوم یہ ہے کہ کیونکہ اس نے قدرت سے اس شے کا ارادہ کیا تھا (یعنی اسے ترجیح دی تھی)، اس لئے خدا نے متعلقہ افعال پیدا کئے جنہیں بندے نے پا لیا۔ یوں اس بندے پر ان افعال کی ذمہ داری عائد ہو گئی اور یہی اس کے مختار ہونے کا مفہوم ہے کہ وہ اپنے ارادے کی بنا پر ان افعال کے وجود کا سبب بنا ہے۔ بندہ خدا کی جانب سے ان افعال کی ایجاد کا محل (locus) ہے مگر یہ افعال اس کے ارادے سے اس محل میں پیدا کئے جاتے ہیں، اس بنا پر بندہ ان افعال کو حاصل کرنے والا یعنی ان کا کاسب (acquiring agent) کہلاتا ہے جبکہ خدا ان افعال کا موجد (creating agent)۔ جس قدرت محدثہ سے بندہ یہ افعال کسب کرتا ہے چونکہ وہ فعل کی ایجاد نہیں بلکہ ایجاد شدہ افعال کے حصول یا کسب سے متعلق ہوتی ہے، اس لئے یہ قدرت ان افعال کے ساتھ (concurrent) ہوتی ہے نہ کہ ان سے قبل یا ان کا باعث (cause)۔ ماتریدیہ کے نزدیک افعال متولدۃ بھی خدا کی جانب سے براہ راست خلق کئے جاتے ہیں۔ ان کے مطابق بندے کی ذمہ داری ثابت ہونے کے لئے بندے کی جانب سے کسی فعل کا ارادہ کر لینے کی بات متحقق ہونا کافی ہے، اس کے لئے اسے افعال کا خالق ماننا بھی لازم نہیں کیونکہ اس کے ارادے کے بعد خدا کی جانب سے اس کے ارادے کے موافق افعال پیدا کرنے کی ذمہ داری بندے پر عائد ہو جاتی ہے۔ یوں معتزلہ کے ماڈل کے مقابلے میں ماتریدیہ کے ہاں بندے کے استقلال کا دائرہ سکڑ کر ایسی قلبی حرکت (یعنی ارادہ کرنے) تک محدود ہو جاتا ہے جس کے لئے ماقبل میسر قدرت بھی خدا کی جانب سے ہر لمحہ عطا ہوتی ہے نیز اس کی مابعد اثر پذیری بھی خدا کی موافقت کی محتاج رہتی ہے۔ ان امور کی بنا پر ماتریدیہ اس مسئلے میں یہ اصول قائم کرتے ہیں:
الف) قدرت مع الفعل ہوتی ہے
ب) بندے کے افعال (یعنی حاصل بالمصدر) کا خالق خدا ہے
ج) افعال متوالدۃ کا خالق خدا ہے
د) داعیات کا خالق خدا ہے
ھ) بندے کے ارادے کی نسبت بندے کی جانب ہے
و) بندہ افعال کسب کرنے والا ہے
ماتریدیہ کے نظرئیے میں اصل مشکل سوال اس قلبی حرکت کی نوعیت سے متعلق ہے۔ کیا یہ قلبی حرکت بذات خود ایک فعل ہے یا نہیں؟ اگر نہیں تو اس کی بنا پر بندے کی ذمہ داری کا کیا مطلب ہوا؟ اور اگر یہ فعل ہے، تو ماننا ہوگا کہ کم از کم ایک فعل ایسا ہے، یعنی ارادہ محدثہ، جس کا خالق بندہ ہے۔ باالفاظ دیگر حادث بندے کے حادث ارادے کی علت گویا بندہ خود ہوتا ہے نہ کہ ذات باری کا ارادہ، اس لئے کہ ذات باری کا ارادہ یہاں بندے کے ارادے کی موافقت کرنے کا کردار ادا کرتا ہے نہ کہ اسے متعین کرنے کا۔ "کھانا کھانے یا نہ کھانے" میں ترجیح کا قیام بہرحال بندے کی جانب سے ہے۔
اس مشکل کا ایک حل علامہ صدر الشریعۃ محبوبی (م747ھ) نے یہ کہہ کر کرنے کی کوشش کی کہ فعل بمعنی مصدر کی نسبت بندے کی جانب ہوتی ہے جبکہ فعل بمعنی حاصل بالمصدر کی نسبت رب کی جانب۔ یعنی کھانا کھانے کے فعل میں ہاتھ پیر منہ وغیرہ کی حرکت کی نسبت تو رب کی جانب ہے کہ وہ ان کا خالق ہے لیکن کھانا کھانے کے مصدری معنی کی نسبت بندے کی جانب ہوتی ہے۔ علامہ صدر الشریعۃ بندے کو افعال کا خالق قرار دینے سے بچنے کے لئے کہتے ہیں کہ اعیان میں یا خارجی وجود حاصل بالمصدر کا ہوتا ہے، رہا فعل بمعنی مصدر تو اس کا کوئی خارجی وجود نہیں۔ یوں اس سے ثابت ہوا کہ جو شے خارج میں حادث ہو کر موجود ہوتی ہے (یعنی حاصل بالمصدر) اس کا خالق خدا ہی رہا، اور جس شے کی نسبت بندے کی جانب ہوئی (یعنی معنی مصدری) اس کا کوئی خارجی وجود نہیں لہذا بندے کی جانب کسی حادث کو خلق کرنے کی نسبت ثابت نہ ہوئی۔ تاہم یہ حل تکلف سے خالی نہیں کیونکہ حاصل بالمصدر کا حصول مصدری معنی ہی سے متحقق ہوتا ہے نیز حاصل بالمصدر کے بدون مصدری معنی کا تحقق بامعنی بات نہیں۔ اگر حاصل بالمصدر رب کی جانب سے ہے تو مصدر معنی کی نسبت بندے کی جانب ہونے کا کیا مطلب ہے؟ یعنی جب ہاتھ بازو منہ وغیرہ کی حرکت کی نسبت خدا کی جانب ہے تو کھانا کھانے کی نسبت بندے کی جانب ہونے کا کیا مطلب بنا؟ ایسی بات یہ کہنے کے مترادف ہے کہ مصدر حاصل بالمصدر کے بغیر بھی متحقق ہو جاتا ہے۔ دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ علامہ صدر الشریعۃ کے نظرئیے کی رو سے ماننا ہوگا کہ جس چیز کی نسبت بندے کی جانب ہے (یعنی فعل کا مصدری معنی)، وہ نہ موجود ہے اور نہ معدوم بلکہ اس کی حیثیت ان دونوں کے مابین ایک واسطے (لاموجود و لا معدوم) کی ہے۔ اگر اسے معدوم کہا جائے تو معدوم کی بنا پر بندے کی تکلیف متحقق ہونے کا کوئی مطلب نہیں جبکہ اس کے موجود ہونے کی صدر الشریعۃ خود ہی نفی کرتے ہیں۔ اگر علامہ صدر الشریعۃ قلبی حرکت ہی کو فعل بمعنی مصدر قرار دیتے ہیں تو اس کے بعد سوال باقی رہا کہ کیا یہ قلبی حرکت فعل ہے یا نہیں؟
اس سوال کا دوسرا حل یہ مان لینا ہے کہ بندہ کم از کم ایک فعل کا خالق ہے، یعنی ارادہ کرنے کا قلبی فعل۔ ماتریدیہ میں یہ نتیجہ علامہ ابن الہمام (م861ھ) نے قبول کیا ہے اور اس لئے وہ خلق افعال عباد کے اصول میں اس ایک فعل کی تخصیص کرتے ہیں۔ اس تخصیص کے بعد ماتریدیہ کا نظریہ خلق افعال عباد کے معاملے میں معتزلہ کے نظرئیے سے کچھ قریب آجاتا ہے کیونکہ یہ اصول بہرحال مان لیا گیا کہ بندہ بھی کسی درجے میں خالق و محدث ہے، باالفاظ دیگر کوئی ایک ایسی قدرت محدثہ ہے جو قبل از فعل ہے۔ اگر بیٹری والی مثال کو یہاں منطبق کیا جائے تو معاملہ گویا یوں ہے کہ ایک بڑے چارج والی بیٹری کے بجائے بندے کے پاس چھوٹی سی بیٹری میسر ہے جس سے ایک فعل وہ از خود سر انجام دے سکتا ہے، ہاں ہر نئے فعل کے لئے اس بیٹری کا پھر سے چارج ہونا (یا نئی بیٹری آنا) لازم ہے۔ علامہ ابن الہمام اس تجزئیے میں اس تخصیص کی بات کرتے ہوئے ساتھ کہتے ہیں کہ اس قدرت محدثہ سے نیکی کا عزم یا ترجیح عام طور پر اللہ کی توفیق کے بغیر ممکن نہیں ہوتی جبکہ شر کی ترجیح خود بندے کی اپنی جانب سے ہوتی ہے۔ بندے کو نیکی کی توفیق دینا اللہ پر واجب نہیں اور نہ ہی خذلان سے بچانا اس پر واجب ہے، اس لئے اس قدرت محدثہ کو استعمال کر کے شر کا ارادہ کرنا بندے کو ذمہ دار بنا دیتا ہے۔ تاہم علامہ ابن الہمام کے اس تجزئیے سے بہرحال یہ لازم آتا ہے کہ کم از کم ایک قدرت قبل از فعل ہوتی ہے جس سے بندہ شر کی ترجیح خود قائم کرتا ہے اور وہ اس کے قائل ہیں۔ یعنی ایک قدرت وہ ہے جس سے بندہ ترجیح قائم کرتا ہے جو قبل از فعل ہے، جبکہ دوسری قدرت وہ ہے جس سے بندہ اس ترجیح کے موافق اللہ کے ایجاد کردہ افعال کا کسب کرتا ہے اور یہ قدرت فعل کے ساتھ ہے۔ پہلی قدرت مؤثر (active) ٹھہرتی ہے اور دوسری انفعالی (passive) ۔اس قبل از فعل قدرت کو ماتریدیہ اصطلاحی زبان میں "سلامتی آلات و اسباب" سے تعبیر کرتے ہیں۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالی کی عادت ہے کہ وہ متعلقہ قدرت خاص اعضاء ہی میں پیدا کرتے ہیں، مثلاً دیکھنے کی قدرت آنکھ میں چکھنے کی زبان میں۔ اگرچہ ہم اس قدرت کا مشاہدہ نہیں کر سکتے جس سے بندہ ترجیح قائم کرتا ہے، تاہم عالم مشاہدہ میں ان اعضا کی سلامتی کو اس قدرت کا مظنۃ یا علامت (indicator) مانتے ہوئے کہا جائے گا کہ جس شخص کے یہ اعضاء سلامت ہوتے ہیں جن سے خاص افعال صادر ہورہے ہیں، اسے خدا نے وہ قدرت عطا کر دی تھی جس سے بندے نے ترجیح قائم کی اور نتیجتاً ان اعضاء سے متعلقہ افعال صادر ہوئے جن کا کسب کر کے وہ ذمہ دار ہے۔ اس بنا پر ماتریدیہ کہتے ہیں کہ سلامتی اسباب و اعضاء تکلیف کی شرط ہے۔ یاد رہے کہ ماتریدیہ عام طور پر اس نتیجے کو قبول نہیں کرتے کہ خلق افعال عباد کے اصول سے بندے کے اس ایک فعل کو فعل کہہ کر اس کی تخصیص ہو گی۔ تاہم بندے کی جانب خلق افعال عباد کی نفی کرتے ہوئے وہ بندے کی ذمہ داری ثابت کرنے کے لئے ارادہ محدثہ کی نسبت بہرحال بندے ہی کی جانب کرتے ہیں جو اپنی اثر پذیری (actualization) میں رب کی موافقت کا محتاج ہوتا ہے۔ علامہ ابن الہمام کی بات کی ایک توجیہہ یہ کی جا سکتی ہے کہ قلبی فعل کو "لاموجود و لا معدوم" کی قبیل میں رکھا جائے۔
اشاعرہ کا نظریہ
دلیل حدوث پر مبنی نظریہ خلق مستمر انسانی اعمال کی ڈومین میں اپنے تمام مضمرات کے ساتھ اشاعرہ کے ہاں پایا جاتا ہے۔ ماتریدیہ کی طرح اشاعرہ بھی اس بات کے قائل ہیں کہ جس قدرت سے بندہ فعل کسب کرتا ہے وہ ہر لمحے بندے میں از سر نو خلق کی جاتی ہے، بندے کے افعال بھی ذات باری کی مخلوق ہیں اور اسی طرح افعال متولدۃ۔ ان اعتبارات سے اشاعرہ کا نظریہ ماتریدیہ جیسا ہے اور یہ دونوں گروہ معتزلہ کے مقابلے میں بندے کے ارادے و فعل کی اثر پذیری (efficacy) کو ہر لمحے ذات باری کے اختیار کا پابند رکھتے ہیں۔ البتہ اشاعرہ کا نظریہ ایک اہم جہت سے ماتریدیہ سے مختلف ہے۔
اشاعرہ کا کہنا ہے کہ ہر لمحے عطا ہونے والی قدرت محدثہ نہ صرف یہ کہ ایک معین فعل ہی کے لئے ہوتی ہے (نہ کہ متبادل افعال کے لئے بھی، یعنی کھانا کھانے کی قدرت کھانے ہی کے لئے استعمال ہو سکتی ہے نہ کہ پانی پینے کے لئے) بلکہ وہ یک جہتی (single nodded) بھی ہوتی ہے۔ مثلاً کھانا کھانے کی قدرت دو اضداد (categorical opposites) کی جانب اوپن اینڈڈ نہیں ہوتی بلکہ صرف کھانے کے لئے ہوتی ہے۔ اس پر امام اشعری (م324ھ) کی دلیل کا خلاصہ یہ ہے:
- قدرت محدثہ فی الفور (instantaneously) فعل کے ساتھ خلق ہوتی ہے
- یہاں دو امکان ہیں: یہ قدرت دو اطراف کے ساتھ یا تساوی کی نسبت رکھے گی اور یا کسی ایک جانب ترجیح کی
- اگر یہ دونوں کے ساتھ عدم ترجیح یا تساوی کی ایسی نسبت رکھے ہو کہ کسی بھی ایک جانب کو بطریق بدل کیا جا سکے، تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ قدرت بدون مقدور (without object of power) موجود ہے۔ ایسا اس لئے کہ جو قدرت مقدور کے دو جوانب بطریق تساوی متوجہ ہو گی وہ ان دونوں مقدورات میں سے ہر ایک کے وجود سے مقدم ہوگی اور نتیجتاً قدرت و مقدور میں گیپ ہوگا (یعنی جب قدرت ہوگی تو مقدور نہ ہوگا)۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ جب مقدور ہوگا تب قدرت نہ ہوگی اس لئے کہ حادث قدرت ہر لمحے زائل ہو جاتی ہے اور یوں وہ قدرت متعلقہ اثر کو توجیہہ نہیں بن سکتی۔ اس کا حل یا یہ ماننا ہے کہ دو امور کے مابین ترجیح بلا مرجح قائم ہو گئی جس کا باطل ہونا واضح ہے اور یا پھر یہ کہا جائے کہ قدرت کے ساتھ ایک اور شے مل کر ترجیح قائم کرنے کا باعث ہے لیکن پھر یہی سوال اس اضافی شے پر قائم ہوگا (کہ اس اضافی شے کی علت کیا ہے وغیرہ) اور یوں یہ سلسلہ لامتناہی چلے گا۔
- اگر یہ قدرت کسی ایک جانب بطریق ترجیح قائم ہو تو یہ تب ممکن ہے جب قدرت و مقدور ایک ساتھ ہوں۔ اس صورت میں تین امکان ہیں: (الف) یہ قدرت دونوں اضدد کے ساتھ ایک ساتھ پائی جارہی ہے جبکہ یہ محال ہے، (ب) یا ایک جانب دوسری کے بعد ظاہر ہو مگر یہ بھی محال ہے کیونکہ قدرت محدثہ پہلی جانب سے متعلق ہونے کے بعد زائل ہوجاتی ہے، (ج) یا یہ کہا جائے کہ یہ قدرت کسی ایک ہی جانب کے لئے عطا کی جاتی ہے، امام اشعری اسی کو اختیار کرتے ہیں۔ باالفاظ دیگر قدرت محدثہ نہ دو متبادل افعال کی ادائیگی کے لئے ہوتی ہے اور نہ ہی دو اضداد کے لئے، بلکہ یہ صرف یک جہتی ہوتی ہے۔ پس امام اشعری کے ہاں قدرت حادثہ کی کسی فعل کے حدوث یا اس کا سبب بننے میں تاثیر نہیں بلکہ وہ صرف اس کے ساتھ ہوتی ہے اور فعل کے حدوث سے قبل اس قدرت کا فعل سے تعلق نہیں۔
یہ بات اوپر گزری کہ ماتریدیہ کے ہاں بندہ خالق افعال نہیں بلکہ ان کا "کاسب" کہلاتا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ بندے نے جس فعل کا ارادہ کیا وہ اس ارادے کے موافق افعال (اور ان پر مرتب ہونے والے ثواب و گناہ) کا کسب کرتا ہے۔ لیکن اشعری نکتہ نگاہ سے کسب کا مطلب بندے کا خدا کی جانب سے قدرت اور افعال پیدا کئے جانے کا بس محل (locus) بن جانا ہے، اس لئے کہ ان کے ہاں نہ حادث قدرت دو جانب معلق ہوتی ہے اور نہ بندہ دو میں سے ایک جانب ترجیح قائم کرتا ہے۔ یوں بندہ ذات باری کے افعال کے لئے ایک محل قرار پاتا ہے۔ اگر بیٹری والی مثال کو یہاں لاگو کیا جائے تو بات یوں ہے کہ انسان کے پاس نہ معتزلہ کے نظرئیے والی زیادہ چارج کی بڑی و مستقل نما بیٹری ہے اور نہ ہی ماتریدیہ کے نظرئیے میں پیوست مسلسل چارج ہوتے رہنے والی چھوٹی بیٹری جس کے کرنٹ کو بندہ امور میں ترجیح قائم کرنے کے لئے استعمال کر سکتا ہے بلکہ یہاں معاملہ گویا یوں ہے کہ بندہ ایک ایسی تار کی مانند ہے جس سے مسلسل کرنٹ کے نئے (یا حادث) یونٹس گزر رہے ہیں (یعنی وہ کرنٹ کی ایسی گزرگاہ ہے جس میں کسی بھی لمحے کرنٹ اس طرح محفوظ نہیں ہوتا کہ وہ اسے متبادل طریقے سے استعمال کر سکے)۔ بندے میں ایک خاص لمحے میں حادث ہونے والی قدرت کا خالق بھی خدا ہے، اور وہی خدا عادتاً اس کے ساتھ بندے میں اس قدرت حادثہ کے احساس کے موافق افعال (بمعنی حاصل بالمصدر) اور متعلقہ افعال متولدۃ پیدا کرتا ہے۔ یوں یہ معاملہ پوری طرح خدا کے ارادہ و اختیار کی گرفت میں آجاتا ہے۔ اشاعرہ کے نزدیک بندے کا قدرت حادثہ اور حدوث افعال کا محل بن جانا اس کی ذمہ داری ثابت کرنے کے لئے کافی ہے کیونکہ اس سے بندے میں یہ احساس قائم ہو جاتا ہے کہ "یہ فعل میں کر رہا ہوں"۔ گویا ماتریدیہ کے برخلاف اشاعرہ کے نزدیک انسان کی ذمہ داری کی بنیاد اس تصور و احساس سے بھی کم ہے جس کی طرف ماتریدیہ معتزلہ کے جواب میں گئے۔
اشاعرہ کے نظرئیے پر اصل مشکل سوال یہ قائم ہوتا ہے کہ یہاں انسانی اختیار اور کسب کس جہت سے بامعنی (یعنی اس کی تکلیف کا باعث) ہوا جبکہ بندہ ترجیح قائم کرنے والا بھی نہیں؟ اس سوال کو ائمہ اشاعرہ نے مختلف انداز سے حل کرنے کی کوشش کی۔ مثلاً اس معاملے میں امام جوینی (م478ھ) کا نظریہ یہ ہے کہ بندے کی قدرت کسی معنی میں افعال عباد پر مؤثر ہے، البتہ اشاعرہ ان کی بات قبول نہیں کرتے۔ قاضی باقلانی (م403ھ) کہتے ہیں کہ فعل کی تخلیق و ایجاد پر تو بندہ قادر نہیں ہوتا تاہم فعل کے ساتھ طاعت و معصیت کے اوصاف کی نسبت بندے کی جانب ہوتی ہے۔ یعنی مثلاً ہاتھ کی حرکت کبھی طاعت کہلاتی ہے اور کبھی نافرمانی حالانکہ یہ دونوں معاملے حرکت ہونے میں یکساں ہیں۔ تو ان میں جو مشترک ہے، یعنی حرکت ہونا، اس کی موجد ذات باری ہے لیکن اس فعل سے متعلق طاعت و معصیت کے یہ اوصاف بندے کی قدرت سے واقع ہوتے ہیں۔ گویا کسی خاص فعل کا حرکت ہونا خدا کی جانب سے ہے جبکہ اس کا مثلاً بدکاری ہونا یہ بندے کی طرف سے ہے۔ تاہم یہ واضح نہیں ہو پاتا کہ بندے کی جانب اس وصف کی نسبت کا معنی کیا ہے؟ یعنی کیا اس کی بنیاد یہ ہے کہ بندے نے اس کا ارادہ کیا تھا یا یہ ہے کہ بندہ بس اس کا محل بنا ہے؟ بہرحال اشاعرہ نے اس توجیہہ کو بھی نہیں لیا۔ استاد ابو اسحاق اسفرائینی (م418ھ) نے کہا کہ بندے کے افعال دو قدرتوں کے مجموعے کا نتیجہ ہیں، ایک قدرت ذات باری کی اور دوسری بندے کی حادث قدرت (اسے "مجموع القدرتین" کا نظریہ کہتے ہیں)۔ یعنی بندے کی قدرت از خود غیر مؤثر نہیں لیکن خدا کی قدرت کی اعانت کے ساتھ وہ مؤثر ہو جاتی ہے۔ اس نظرئیے کے مطابق بندے کے افعال کی نسبت ان دونوں قدرتوں کی جانب کیا جانا درست ہے، البتہ یہ بھی محل نظر تعبیر ہے (ان کے دلائل امام رازی (م606ھ) و علامہ آمدی (م631ھ) کی کتب میں ملاحظہ کئے جا سکتے ہیں، یہاں تفصیل کا موقع نہیں)۔ امام غزالی (م505ھ) بھی کسی حد تک اس رائے کی جانب رجحان رکھتے دکھائی دیتے ہیں، تاہم ایک طرف وہ بندے کی قدرت کو "نہ ہونے جیسا" کہتے ہوئے دوسری طرف تجزئیے میں داعیے کی بالادستی کا عنصر بھی شامل کرتے ہیں، یعنی دو جانب بطریق تساوی معلق حادث قدرت کا کسی ایک جانب رجحان داعیے کا رہین منت ہوتا ہے جو خدا کی مخلوق یا فعل ہوتا ہے اور جس کے پیدا ہونے کے ساتھ ایک جانب رجحان قائم ہو جاتا ہے۔ داعیے کے عمل دخل کی بنا پر امام غزالی کہتے ہیں کہ انسانی اختیار دراصل ایک خاص قسم کے ارادے کا نام ہے جہاں داعیے کی وجہ سے علم آجانے کے بعد امور میں ترجیح قائم ہو جاتی ہے۔ باالفاظ دیگر انسانی اختیار علم و قدرت کے خاص تعلق کا نام ہے اور اس معنی میں انسان "اختیار پر مجبور" ہے، یہاں جبر یہ ہے کہ انسان کے ارادے سے خارج ایک فاعل نے اسے حدوث افعال کے لئے محل بنایا ہے اور اس کا اختیار یا کسب یہ ہے کہ وہ ان افعال کا محل ہے جس کا اسے شعور ہے۔ امام رازی کے ہاں یہی بات مزید صراحت سے ملتی ہے کہ قدرت حادثہ کے کسی ایک جانب رجحان کی علت داعیہ ہے اور داعیے کی علت ارادہ باری تعالی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ امام اشعری کے ہاں جو معاملہ ابتدا ہی سے "یک جہتی قدرت" کی صورت عطا کا تھا کہ ان کے نظرئیے میں داعئے کا عمل دخل نہیں، امام غزالی و رازی کی توجیہہ میں قدرت ابتداءً دو اضداد سے متعلق ہوتی ہے لیکن پھر داعیہ آکر اسے ایک طرف یعنی ارادے میں تبدیل کر دیتا ہے۔ اس توجیہہ کے بعد انسانی اختیار کی حقیقت ایک بلیک بکس (black box) نما شے بن کے رہ جاتی ہے۔ اس مسئلے پر اشاعرہ کے اصول کا خلاصہ یوں ہیں:
الف) قدرت مع الفعل ہوتی ہے
ب) بندے کے افعال کا خالق خدا ہے
ج) افعال متوالدۃ کا خالق خدا ہے
د) داعیات کا خالق خدا ہے
ھ) ترجیح متعین کرنے والا خدا ہے
و) بندہ افعال کسب کرنے والا ہے
اشاعرہ پر جبریت پسندی کا الزام
اشاعرہ کے ٹھیٹ معتزلی و ماتریدی مخالفین انہیں جبریہ جیسا عقیدہ رکھنے کا الزام دیتے ہیں کہ اس کے بعد انسانی فعل گویا کسی پتھر کے لڑھکنے یا اضطراری فعل سے مختلف نہ رہا۔ اس الزام کا جواب متاخرین اشاعرہ چند طرح دیتے ہیں جس کا خلاصہ یوں ہے:
1) یہ دکھانا کہ مخالفین دلیل حدوث کا لحاظ نہ کر کے داخلی غیر ہم آہنگی کا شکار ہیں اس لئے کہ مخالفین کے نظرئیے کی رو سے ذات باری کے اثبات کی یہ دلیل ٹوٹ جاتی ہے۔ اشاعرہ کے مطابق معتزلہ کی جانب سے "خلق افعال عباد" کو بندے کی جانب منسوب کرنا ہو یا ماتریدیہ کی جانب سے "ارادہ محدثہ" کو بندے کا فعل کہنا، ہر ایک صورت میں دلیل حدوث کا یہ پہلا مقدمہ جاتا رہتا ہے کہ ہر حادث کے لئے محدث ہے کیونکہ ان کے نظرئیے سے یہ ماننا لازم آتا ہے کہ بعض حوادث کی کوئی علت نہیں۔ ایسا اس لئے کہ بندے کا ارادہ از خود حادث ہے۔ تو یہاں معاملہ یوں ہے کہ جو بندے کی جو حادث قدرت فعل و ترک فعل دونوں جانب مساوی ہو وہ کسی ایک جانب رجحان کے لئے یا کسی علت کی محتاج ہوگی اور یا نہیں ہوگی۔ اگر محتاج نہ ہو تو مطلب یہ ہوا کہ بعض حوادث بدون محدث ہو رہے ہیں۔ اور اگر علت کی محتاج ہو تو وہ علت یا بندہ ہوگا یا اس کا غیر۔ اگر وہ علت بندے کا کوئی فعل ہو تو وہ حادث ہوگا اور یوں پہلی صورت لوٹ آئی کہ اس کی بھی علت ہوگی۔ اشاعرہ کے مطابق دلیل حدوث اور اس پر مبنی عموم قدرت کے اصول کے تقاضوں کی دو ٹوک تصدیق کرنا بندے کی ذمہ داری ثابت کرنے کے لئے اختیار کردہ ایسے پیرایوں کی تصدیق سے زیادہ اہم دینی مقدمہ ہے۔ اسی طرح خلق مستمر کے نظرئیے میں اشاعرہ یہ بھی دکھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ حادث قدرت کا مقدور سے قبل ہونا محال ہے جس کے دلائل کتب کلام میں ملاحظہ کئے جا سکتے ہیں۔
2) یہ دکھانا کہ مخالفین کے نظرئیے سے بھی جبر کا انکار نہیں ہو پاتا۔ مثلاً قدیم علم باری (کہ ذات باری ازل سے سب جانتی ہے) کی جہت سے بھی بندے پر جبر لازم آتا ہے۔ اس کا جواب عام طور پر یہ دیا جاتا ہے کہ علم ہونے سے جبر لازم نہیں آتا کیونکہ علم معلوم کے تابع ہوتا ہے، تاہم بندے کا اختیار ثابت کرنے والوں کا یہ جواب محل نظر ہے۔ نیز حادث ارادے کی علت دراصل داعیہ ہوتا ہے اور داعیے کے پیدا ہوتے ہی ارادہ قائم ہو جاتا ہے۔ چنانچہ قدرت حادثہ کسی ایک جانب یا تو کسی اصول یا داعیے کی وجہ سے راجح ہوگی اور یا بدون داعیہ۔ اگر قدرت و داعیہ مل جانے کے بعد ترجیح قائم ہونا لازم ہو تو اس سے جبر لازم آیا اس لئے کہ ترجیح کے قیام کا اصول خود ارادے سے ماقبل و خارج ہے، اور اگر قدرت و داعیے کے ملاپ کے باوجود بھی ایک جانب ترجیح قائم نہ ہو بلکہ کبھی اس کے بعد فعل ہو اور کبھی نہ ہو تو مطلب یہ ہوا کہ یہ ترجیح بدون کسی اصول و داعیہ یونہی اتفاقی یا حادثاتی طور پر الل ٹپ (randomly) کسی جانب ہو جاتی ہے اور اس سے بھی جبر لازم آیا کیونکہ اس کا مطلب یہ ہوا کہ بندے کے پاس ترجیحات کے قیام کا اختیاری کنٹرول نہیں۔ الغرض ہر دو صورت میں جبر لازم آیا۔
3) بندے کو افعال کا خالق ماننے کی بنا پر اشاعرہ اپنے مخالفین کو قدریہ جیسا عقیدہ رکھنے کا الزام دیتے ہیں۔ اگر قائلین اختیار کا یہ کہنا ہے کہ بندے کی قائم کردہ حادث ترجیح کی علت بایں معنی بندہ خود ہے کہ بندے میں ایسی صلاحیت ہے کہ وہ خود ترجیح قائم کر لیتا ہے تو یہ بندے کو قیام ترجیح کے معاملے میں مستقل مانتے ہوئے محدث کہنا ہے جو عموم قدرت کے اس اصول کے خلاف ہے کہ ذات باری کے سوا کوئی محدث نہیں۔ لہذا انسانی قدرت کی ایسی تعبیر کرنا درست نہیں جو اس قطعی اصول کے خلاف ہو۔ بندے کا حقیقی یا جنیون اختیار ماننے سے یہ بھی لازم آتا ہے کہ خدا بندے کے حادث ارادے کا علم نہیں رکھتا یہاں تک کہ بندہ وہ ارادہ کرے (یعنی بندہ دو امور کے مابین ترجیح قائم کرے)، اس لئے کہ وہ ارادہ خدا کی مخلوق نہیں ہوتا بلکہ بندے کی مخلوق ہوتا ہے، اور بندہ کسی لمحے کیا ارادہ کرے گا یہ بندہ ایک خاص حادث لمحے پر طے کرتا ہے اور اس خاص لمحے پر خدا کا ارادہ بندے پر مؤثر نہیں ہوتا، لہذا بندہ اس خاص لمحے پر کیا کرے گا اسے جاننے کی بنیاد موجود نہیں (اس پر اگر یہ کہا جائے کہ چونکہ خدا بندے کے ارادے کی تعیین کے اصول و داعیات کو جانتا ہے اس لئے وہ بندے کے ارادے کو ازل سے جانتا ہے تو اس سے اختیار کی نفی ہو گئی کہ ارادے کی تعیین ارادے سے خارج ہو گئی)۔ ابتدائی صدیوں میں قدریہ گروہ والوں میں سے بعض کا یہی کہنا تھا کہ خدا کا علم بندے کے ارادے پر موقوف ہوتا ہے۔ بندے کے حقیقی اختیار کو مانتے ہوئے اس مسئلے کو حل کرنا آسان نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اشاعرہ کے مطابق بندے کے حقیقی اختیار کو ثابت کرنے والے نظریات خدا کے اختیار کو گویا بیک فوٹ پر کھڑا کرنے یا پھر اسے بندے کے ارادے کے تابع کرنے پر صاد ہیں۔
4) یہ دکھانا کہ یک جہتی قدرت سے صادر ہونے والے افعال کو نہ تو جمادات جیسی عدم قدرت پر محمول کرنا درست ہے (مثلاً ایسے انسانی فعل کو کسی پتھر کے لڑھکنے پر محمول نہیں کیا جا سکتا) اور نہ ہی ایسے اضطرار پر جہاں فاعل چاہے یا نہ چاہے اس سے فعل صادر ہوتا ہے، اس لئے کہ یہاں یک جہتی ہی سہی لیکن وجودی معنی میں بندے کی قدرت پائی جاتی ہے۔ اگر ایک انسان کو کسی ایسے تنگ کمرے میں بند کر دیا جائے جہاں اس کے پاس مثلا سیدھا کھڑے ہونے کے سوا کوئی آپشن نہ ہو تو قدرت اس حال میں بھی بہرحال موجود ہے کیونکہ بندہ پتھر نہیں بن گیا اور نہ ہی یہ رعشہ ذدہ انسان کے ہاتھ کی حرکت کی طرح اضطراری فعل ہے بلکہ اس کا یہ احساس قائم ہے کہ وہ یہ کر رہا ہے۔ اشاعرہ کے نزدیک قدرت کا اس کم از کم حد تک اثبات و مفہوم بھی انسانی ذمہ داری کے لئے کافی ہے۔ اس ضمن میں وہ ان نظائر کو بھی پیش کرتے ہیں جہاں مثلاً سوتے ہوئے شخص سے صادر ہونے والے بعض افعال پر بھی شرعی احکام جاری ہوتے ہیں جس سے مقصود یہ کہنا ہے کہ جس قدرت کی مخالفین بات کرتے ہیں تکلیف کے لئے اس کا مدار ہونا ضروری نہیں۔ اگر اس پر تکلیف مالا یطاق کا الزام عائد کیا جائے تو یہ اشاعرہ کے خلاف موثر نہیں ہوسکتا کیونکہ اشاعرہ کے نزدیک شارع کا بندوں کو تکلیف مالا یطاق دینا بھی عقلاً جائز ہے نیز انسانی سطح پر جاری اخلاقی قضایا کو بنیاد بنا کر افعال باری پر کوئی اعتراض کرنا درست نہیں (عقل اسے جائز کہتی ہے کہ خدا سب انسانوں کو ہر قسم کے فعل کے باوجود جہنم میں ڈال دے اور اسے بھی جائز کہتی ہے کہ سب کو جنت دے)۔ جدید دور کے بعض مصفین نے یہ تاثر قائم کرانے کی کوشش کی ہے کہ امام غزالی و امام رازی جیسے اشاعرہ جبریہ نما اس عقیدے کے اس لئے قائل ہوئے کیونکہ وہ تکلیف مالا یطاق کو جائز سمجھتے تھے۔ ظاہر ہے یہ اشاعرہ کے مقدمے کی غلط تکییف ہے کیونکہ ان کی اصل بنیاد دلیل حدوث اور "عموم قدرت و علم" کے اصول اور اس کے لوازمات ہیں، یہ پہلو ایک اضافی دفاعی دلیل ہے۔
5) مخالفین کے دلائل کا جواب دینا جو چند طرح کے ہیں:
الف) اشاعرہ کے مخالفین کی مضبوط ترین دلیل اس بدیہی انسانی احساس کو بنیاد بنانا ہے جس کی وجہ سے انسان اپنے افعال کو اس معنی میں ارادی ہونا محسوس کرتا ہے جو معتزلہ و ماتریدیہ کی رائے ہے، مخالفین کے مطابق اشاعرہ جس انسانی ارادے کی بات کرتے ہیں وہ ایک وہم ہے ۔ مثلاً لیپ ٹاپ کے کی بورڈ پر آویزاں کسی خاص بٹن کا میرے ارادے کے مطابق انگلی کی جنبش سے پریس ہونے یا میری جانب سے اس پریس ہونے کا ارادہ کئے جانے کا احساس بدیہی ہے۔ اس دلیل پر امام رازی کا تبصرہ یہ ہے کہ ہم ان دو امور (یعنی انسان کے اس احساس اور کسی خاص بٹن کے پریس ہونے) کے وجودی اقتران (co-existence) کو مانتے ہیں لیکن اس اقتران سے ان کے مابین علیتی نسبت (causation) ثابت نہیں ہوتی بلکہ عقل کی رو سے یہ امکان موجود ہے کہ یہ دونوں ہی امور کسی خارجی علت کے اثر ہوں جو انہیں ایک ساتھ ظاہر کرتی ہے۔ یعنی میں اپنے اندر قدرت تخلیق کئے جانے کی وجہ سے خاص طرح کی شے کی جانب اس رجحان کا احساس پاتا ہوں کہ "وہ ہو" اور ساتھ ہی اس شے کو پاتا ہوں۔ پس ہمارا احساس صرف اس چیز سے متعلق ہے کہ افعال ہمارے ارادے کے مطابق اور ان کے ساتھ ہو رہے ہیں لیکن یہ "اس کی وجہ سے" بھی ہو رہے ہیں یا "ان کے مابین ترجیح ہم قائم کر رہے ہیں" یہ احساس ایک اضافی دعوی ہے جس کی دلیل نہیں۔ ذات باری کے ہر چیز کے خالق ہونے کی قطعی دلیل اس اضافی احساس کو بدیہی حقیقت کہنے کی دلیل سے زیادہ مضبوط دلیل ہے۔
ب) مخالفین کی دوسری اہم دلیل یہ کہنا ہے کہ کسی فاعل کے اختیار کا معنی کچھ "کرنے یا نہ کرنے" کے مابین ترجیح قائم کرنے سے عبارت ہے۔ اگر یہ ترجیح کسی خارجی علت سے متعین ہو رہی ہے تو یہ اختیار نہ ہوا۔ امام رازی اس کا جواب یہ دیتے ہیں کہ تمہاری اس بات کا مطلب اگر یہ ہے کہ حادث فاعل (یعنی انسان) کی جانب سے دو میں سے کسی ایک جانب قائم ہونے والی حادث ترجیح بلا علت و بلا مرجح ہے تو یہ بات ناقابل قبول ہے اس لئے کہ حادث کے لئے محدث ہونا لازم ہے۔ اور اگر تم یہ کہنا چاہتے ہو کہ یہ ترجیح متعدد داعیات کا نتیجہ ہے تو ہم اس بات کو مانتے ہیں لیکن اس سے مخالف کی دلیل ٹوٹ گئی کیونکہ اس نے مان لیا کہ ارادے کی علت ارادے سے خارج ہے۔
مسئلہ جبر و قدر میں اشاعرہ کی آخری بات یہ ہے کہ یہ مسئلہ ایک خدائی راز ہے جس کی حقیقت اس دنیا میں جان سکنا انسان کے بس میں نہیں کیونکہ یہاں امور (یعنی قدرت حادثہ کا پیدا ہونا، داعیے کا جنم لینا، اس کا ترجیح میں تبدیل ہونا، پھر اس کا انسانی افعال سے متعلق ہونا) یہ سب اس سرعت و پیچیدگی کے ساتھ صادر ہوتے ہیں کہ معاملے میں بندے کا کردار غموضگی کا شکار رہتا ہے۔ البتہ چونکہ دلیل حدوث اور خدا کی قدرت کے عموم کا اصول قطعی ہے لہذا اس کا اقرار کیا جائے گا، اور چونکہ شارع نے یہ بتا دیا ہے کہ بندے مکلف ہیں لہذا ہم شریعت پر عمل کرنے کے پابند ہیں۔ رہا بندے کی ذمہ داری کی بنیاد بننے والا یہ احساس کہ "یہ میں کر رہا ہوں"، امام غزالی کہتے ہیں کہ اس سے ثابت ہونے والی انسانی فاعلیت کی حقیقت کے راز سے پردہ کشائی شاید موت کے بعد ہو۔ امام رازی کہتے ہیں کہ اس مسئلے میں اٹھنے والے مشکل سوالات کی حتمی گلو خلاصی اس بات کو قبول کرنا ہے کہ ذات باری فَعَّالٌ لِّمَا يُرِيدُ ہے، وہ جو چاہے کرے نیز لَا يُسْأَلُ عَمَّا يَفْعَلُ وَهُمْ يُسْأَلُونَ۔
اختتامی نکات
آخر میں چند نکات کے ساتھ تحریر کا خاتمہ کیا جاتا ہے:
1) مسئلہ جبر و قدر میں جو مشکل درپیش ہے اس کی بنیاد یہ حقیقت ہے کہ دو مستقل ارادوں کا تحقق محال ہے، ایک ہی اثر دو مستقل ارادوں یا علل کے تحت نہیں ہو سکتا۔ اگر ترجیح قائم کرنے والی دونوں علتیں مستقل (independent) ہوں تو مطلب یہ ہوا کہ دونوں ہی مستقل نہیں کیونکہ مستقل علت وہ ہوتی ہے جو الگ و آزادانہ حیثیت میں اثر پیدا کر سکے۔ دو علتیں کہنے کا مطلب یہ ہے کہ دونوں کا مجموعہ مل کر ایک مستقل علت بنتا ہے، یوں یہ دونوں مستقل نہ ہوئیں۔ اگر دونوں میں سے ایک الگ حیثیت میں اثر پیدا کر سکتی ہے تو مطلب یہ ہوا کہ دوسری علت غیر ضروری (redundant) ہے۔ اگر ایک علت دوسری کے ساتھ مل کر اثر پیدا کرتی ہے تو مطلب یہ ہوا کہ پہلی چیز علت نہیں بلکہ علت یہ دوسری چیز ہے جس کے آنے سے اثر پیدا ہوا۔ الغرض دو مستقل علتوں کا تصور محال ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ ارادہ دراصل علت کو کہتے ہیں، یعنی وہ عنصر جو ترجیح قائم کرتا ہے۔ پس ترجیح قائم کرنے والے دو مستقل اصولوں کا وجود محال ہے۔ اگر کہا جائے کہ خدا و بندے کے ارادے کا مجموعہ مل کر اثر یا نتیجہ پیدا کرتا ہے تو مطلب یہ ہوا کہ خدا کا ارادہ مستقل نہیں، اگر یہ کہا جائے کہ دونوں میں سے ایک ارادہ الگ حیثیت میں اثر پیدا کر سکتا ہے تو مطلب یہ ہوا کہ ایک علت اضافی و غیر ضروری ہے، اگر کہا جائے کہ خدا و بندے میں سے ہر ایک کا ارادہ بطریق بدل یہ اثر پیدا کر سکتا ہے تو مطلب یہ ہوا کہ بندے کا ارادہ خدا کے ارادے کی طرح مستقل اور اس کا متبادل ہے، اور اگر کہا جائے کہ بندے کا ارادہ خدا کے ارادے کے ساتھ مل کر اثر پیدا کرتا ہے تو مطلب یہ ہوا کہ بندے کا ارادہ ترجیح قائم کرنے والا نہیں بلکہ اثر خدا کے ارادے سے ہوتا ہے۔ الغرض اس کائنات میں جاری ہونے والے حوادث کے لئے ایک ہی علت یا ارادہ مؤثر ہو سکتا ہے، یہ "توحید" کے لازمی تقاضوں میں سے ایک ہے (یعنی مؤثر و محدث ایک ہی ہو سکتا ہے)۔ یہ وہ حقیقت ہے جس کی بنا پر مسئلہ جبر و قدر کا ایسا کوئی حل ممکن نہیں جو خدا اور بندے دونوں کے ارادوں کو مؤثر ثابت کر سکے، ان دونوں میں سے کسی ایک کے ارادے کو پیچھے دھکیلے بغیر چارہ نہیں۔ اس مشکل کا اظہار یوں ہوتا ہے کہ جب بندے کے ارادے (یعنی اس کی جانب سے امور میں ترجیح کے قیام) کو ثابت کرنے کی کوشش کی جائے تو دلیل حدوث جاتی رہتی ہے کیونکہ اس کا نتیجہ یہ کہنا ہے کہ کچھ حوادث کی کوئی علت نہیں اور یا پھر بندے کو مستقل ماننا لازم آتا ہے جس سے بھی دلیل حدوث باطل ہوجاتی ہے۔ اگر دلیل حدوث کو اس کے تمام لوازمات کے ساتھ مانا جائے (یعنی یہ بات کہ ہر چیز خدا کے ارادے سے ہوتی ہے) تو بندے کی جانب سے ترجیح قائم کرنے کا مفہوم دھندلا جاتا ہے۔ اسی لئے اس مسئلے کو خدائی راز کہا گیا۔
2) اس مشکل کی بنا پر اہل سنت کا کہنا ہے کہ شرعی لحاظ سے اصل مطلوب چیز شریعت کے بیان کردہ اس عقیدے کا اقرار ہے جس پر اہل سنت کا جبریہ و قدریہ کے برخلاف اجماع ہوا۔ جبریہ کا کہنا تھا کہ انسان اپنے افعال میں مجبور محض ہے اور اس بنا پر انہوں نے انسانی تکلیف کے تصور اور شریعت کو معطل قرار دیا کہ جبر ثابت ہونے کے بعد شرعی امور کی تکلیف لایعنی بات ہے۔ قدریہ نے جواباً کہا کہ بندہ مختار ہے اور جب اس پر یہ سوال قائم ہوا کہ اس کے بعد خدا کے عالم و قادر ہونے کا کیا مطلب ہوا کیونکہ بندہ جب تک ارادہ نہ کر لے خدا کو اس کا علم نہیں ہو سکتا، تو انہوں نے اس بات کو قبول کر لیا کہ خدا کا علم انسان کے ارادے پر موقوف ہے نیز خدا چاہ کر بھی بندے کے ارادے کو بدل نہیں سکتا اور نہ ہی وہ بندے کے افعال کا خالق ہے۔ اس کے برعکس اہل سنت کا نصوص کی روشنی میں اجماع ہوا کہ اللہ عالم بھی ہے اور قادر مطلق بھی، وہی پوری کائنات سمیت بندوں کے افعال کا خالق ہے اور بندوں پر اس کے احکام کی تکلیف بھی ثابت ہے۔ اشاعرہ و ماتریدیہ دونوں ان کا اقرار کرتے ہیں۔ رہ گئیں ان کے تجزیاتی طریقے سے لازم آنے والی مشکلات، تو محض ان لوازمات کی بنا پر کسی فریق کی تضلیل نہیں کی جائے گی۔ مثلاً اشاعرہ پر جبریہ جیسا عقیدہ رکھنے کا الزام عائد کرنے کے باوجود ماتریدیہ انہیں اہل سنت سے خارج نہیں سمجھتے اس لئے کہ ان کے نظرئیے میں جس بات کا لزوم نظر آتا ہے (یعنی بندے کی تکلیف اور شریعت کی تعطیل)، اشاعرہ اس کے قائل نہیں بلکہ وہ اسے اپنے نظرئیے کا لازمہ نہیں مانتے اور اس کا صراحتاً انکار کرتے ہوئے بندے کو مکلف کہتے ہیں۔ اسی طرح اشعری نکتہ نگاہ سے ماتریدیہ کا نظریہ خلق افعال عباد کی نسبت بندے کی جانب کرنے کو لازم ہے، لیکن ماتریدیہ اس لزوم کو قبول نہیں کرتے بلکہ وہ سب افعال کا خالق خدا کو کہتے ہیں۔ اس کے برعکس معتزلہ کا معاملہ یہ ہوا کہ وہ بندے کے لئے خلق افعال عباد کے صراحتاً قائل ہوئے اور نتیجتاً وہ اہل سنت کے اجماع سے نکل گئے۔ پس اشاعرہ و ماتریدیہ کو جبریہ یا قدریہ کہنا درست نہیں اس لئے کہ جبریہ و قدریہ خاص نتائج کو قبول کرنے والی آراء کا نام ہے۔ اسی طرح معتزلہ کو بھی پوری طرح قدریہ کہنا درست نہیں۔ ہمارا یہ تاثر بھی ہے کہ اشاعرہ و ماتریدیہ کے مابین اختلاف وجودی یا حقیقت کے لحاظ سے نزاع لفظی ہو جہاں ہر گروہ الفاظ کے چناؤ کی بنا پر ایک دوسرے پر غیر ہم آہنگی کا الزام عائد کر رہا ہو۔ تاہم اس پر مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔
3) متکلمین مسئلہ جبر و قدر پر دلیل حدوث کے مجموعی فریم کے اندر رہتے ہوئے بحث کرتے ہیں کیونکہ وہ دیگر امور کا جواب بھی اس مجموعی و ہم آہنگ دلیل سے اخذ کرتے ہیں (یہ نہیں کہ ایک مسئلے کو ایک طرح حل کر لو اور دوسرے کو کوئی اور بات بنا کر، یہ غور کئے بغیر کہ دونوں کے پس پشت اصول میں کیا تعلق ہے)۔ اگر آج ان کی آراء کا کوئی ناقد صرف مسئلہ جبر و قدر پر الگ تھلگ ایک رائے بنا کر ان پر نقد کر لے یا مثلا کوئی نئی بات کہہ لے تو اہل کلام اس میں دلچسپی نہیں لیں گے یہاں تک کہ یہ دکھایا جائے کہ یہ نتیجہ دلیل حدوث میں کیسے فٹ آتا ہے۔ متکلمین الہیاتی مسائل پر الل ٹپ انداز سے گفتگو نہیں کرتے۔ پس ان کے ناقدین کو ان پر نقد کرنے سے پہلے ان کا نظام استدلال سیکھنا چاہئے کیونکہ اکثر دیکھا گیا ہے کہ مثلاً ناقدین دلیل حدوث کے تناظر میں اشاعرہ کی پوری بات سمجھے بغیر ہی ان پر نقد کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ شاید ایسی باتوں سے وہ میدان مار لیں گے۔ اشعری اس بحث کو مسئلہ جبر و قدر سے شروع نہیں کرے گا بلکہ وہ پہلے آپ سے دلیل حدوث کے پس منظر مقدمات کے بارے میں پوچھے گا کہ ان کے بارے میں کیا کہتے ہو؟ اس کے بعد وہ آپ سے کہے گا کہ اب ان امور کا خیال کرتے ہوئے ہم آہنگی کے ساتھ اس مسئلے پر بات کرو۔
4) اشاعرہ کے نظرئیے کا مطلب وہی ہے جسے امام غزالی اور صوفیا "لا فاعل الا اللہ" کہتے ہیں، یعنی یہ کہ بندہ اللہ کے افعال کا محل یا ان کی گزرگاہ ہے، وہ بھی ذات باری ہی کی مقرر کردہ گزرگاہ (امام صاحب درجات توحید میں "لا فاعل الا اللہ" کی حقیقت کے ادراک کو توحید کا تیسرا درجہ کہتے ہیں)۔ اہل نظر جانتے ہیں کہ "لا فاعل الا اللہ" سے "لا وجود الا اللہ" چند قدم کے فاصلے پر ہے۔ مسئلہ جبر و قدر میں خدا کے ارادے کے سامنے بندے کے ارادے پر اشاعرہ جس طرح حیرت کا شکار ہیں، صوفیا مسئلہ وجود میں بندے کے وجود پر اسی طرح حیرت کا شکار ہیں!
5) شیخ ابن عربی (م638ھ) کے اعیان ثابتہ کے نظرئیے سے مسئلہ جبر و قدر پر اس پہلو سے اضافی توجیہی روشنی پڑتی ہے کہ اعیان انفعالی استعدادات (passive potentials) ہیں جس کا مطلب یہ ہوا کہ فاعل واحد اگرچہ ذات باری ہی ہے مگر اس دنیا میں ہر شخص کو وہی ملتا ہے جس کے وہ قابل و لائق ہے اور یہ بندے کے لئے اطمینان کا ایک پہلو ہے۔ لیکن جب یہ سوال پوچھا جائے کہ "میرا عین ثابتہ ویسا کیوں ہے جیسا کہ وہ ہے" تو اس کا جواب صرف یہ ہے کہ اعیان حقائق کی طرح ہیں جن پر کیوں کا سوال درست نہیں۔ یوں شیخ ابن عربی اشاعرہ کی بات کو اس طرح مزید مؤکد کر دیتے ہیں کہ جو خوش بخت ہے وہ ازل سے خوش بخت ہے اور جو بدبخت ہے وہ ازل سے بدبخت ہے، یہ فیصلے ہوچکے جنہیں لکھ کر قلم اٹھ چکے اور صحیفے سوکھ چکے! متکلمین اسے قضا و قدر کہتے ہیں۔ ترمذی شریف میں حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث کے الفاظ ہیں:
اعلم ان الامۃ لو اجتمعت علی ان ینفعوک بشیء لم ینفعوک إلا بشیء قد کتبہ اللہ لک، ولو اجتمعوا علی ان یضروک بشیء لم یضروک إلا بشیء قد کتبہ اللہ علیک، رفعت الاقلام وجفت الصحف
مفہوم: (عبداللہ بن عباس کہتے ہیں کہ میں ایک روز رسول اللہﷺ کے ساتھ سواری پر پیچھے تھا، آپ نے فرمایا: اے لڑکے، میں تمہیں چند حقائق بتاتا ہوں:) یہ بات جان لو کہ اگر سب لوگ جمع ہو کر تجھے کچھ نفع پہنچانا چاہیں تو وہ تجھے اس سے زیادہ کچھ بھی نفع نہیں پہنچا سکتے جو اللہ نے تیرے لیے لکھ دیا ہے، اور اگر وہ سب تجھے کچھ نقصان پہنچانے کے لیے جمع ہو جائیں تو اس سے زیادہ کچھ نقصان نہیں پہنچا سکتے جو اللہ نے تیرے لیے لکھ دیا ہے، (یہ سب امور لکھ کر) قلم اٹھائے جا چکے اور صحیفے خشک ہوچکے۔
* کسب کالغوی مطلب کسی شے کو پانا یا طلب کرنا ہے جبکہ متکلمین کی اصطلاح میں اس کا مطلب انسان کا یہ احساس ہے کہ اس سے فعل صادر ہو رہا ہے۔