"فطرت بطور ماخذ" کی بحث میں فطرت کے ماخذ ہونے کا انکار کرنے والے گروہ پر نقد کرتے ہوئے مختلف احباب غیر متعلق و غلط فہمیوں پر مبنی استدلال پیش کرتے ہیں، مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اختصار کے ساتھ ان کی وضاحت کردی جائے تاکہ نفس موضوع و بحث واضح ہوسکے اور کم از کم گفتگو تو اصل مدعے پر ہوا کرے۔
پہلی غلطی
اس ضمن میں پہلی غلطی یہ سوال ہوتا ہے: تو کیا آپ اسلام کو دین فطرت نہیں مانتے، یہ بات تو نصوص کے خلاف ہے؟ پھر چند نصوص پیش کرکے یہ ثابت کرنا شروع کردیا جاتا ہے کہ اسلام دین فطرت ہے۔ نیز اللہ تعالیٰ نے انسان کی ایک فطرت بنائی ہے وغیرہ۔
تبصرہ
یہ سوال اور یہ استدلال ہی زیر بحث گفتگو میں غیر متعلق ہے کیونکہ بحث یہ نہیں کہ آیا انسان کی کوئی فطرت ہے یا نہیں، نیز کیا اللہ تعالیٰ کے احکامات انسانی فطرت کے مطابق ہیں۔ ہم نہ تو اس کے منکر ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو احسن تقویم پر پیدا کیا ہے اور نہ ہی تبلیغ و دعوت دین کو ریشنلائز کرنے کے لیے فطرت کی دلیل کو اپیل کرنے کی اہمیت کے انکاری ہیں کہ آپ آیات سے یہ امور ثابت کریں۔ ہم بھی یہی کہتے ہیں کہ اسلام دین فطرت ہے، شارع کا ہر حکم انسانی فطرت ہی کی آواز ہے، اسی بنیاد پر ہم ایک غیر مسلم و ملحد کو خطاب کرتے ہیں کہ الا بذکر اللہ تطمئن القلوب۔ نیز شارع کی بات اصلاً "تذکیر" (عہد الست کی یاد دہانی ہی) ہے۔ اس پہلو سے فطرت (سلیمہ) ایک آئینے کی طرح ہے جو جس قدر خالص ہوگا، حقیقت اعلیٰ اور اس کے تقاضوں کی طرف اسی قدر مضبوط رجحان رکھتی ہوگا۔ اسلامی تاریخ میں صوفیاء کا پورا نظام اسی مقصد کے لئے تھا کہ نفس انسانی کو ظلمات سے پاک کرکے اسے اصل حالت (معرفت رب) پر لایا جائے۔ اس تناظر میں جو کچھ آیات پیش کی جاتی ہیں ان کا حاصل یہی کچھ ہے اور معاملے کے اس پہلو سے کسی کو اختلاف نہیں ہے۔ اسلام محض کوئی کلامی و قانونی کتاب تھوڑی ہے، یہ دعوتی و تبلیغی اپیل کو بھی شامل ہے۔
لیکن یہ اس معاملے کا صرف دعوتی و تبلیغی پہلو ہے۔ جب اس سکے کو ایک منطقی و متکلم گھما کر یوں پیش کرتا ہے کہ "اس کا مطلب یہ ہوا کہ انسانی فطرت گویا الگ سے ایک ماخذ ہے جسے خیر و شر کے معاملے میں وحی کے بغیر معلوم کرکے بھی اس سے راہنمائی لی جاسکتی ہے" تو اب یہ سوال کلامی و قانونی بن جاتا ہے کہ شارع کے حکم کی قانونی بنیاد کیا ہے، نیز اگر فطرت و عقل رہھنمائی کے لئے کافی ہیں تو پھر شارع کی ضرورت و مقام کیا ہے؟
سکے کو پلٹنے کے بعد اب متعلقہ سوال یہ نہیں رہتا کہ "کیا انسان کی کوئی فطرت ہے یا نہیں" بلکہ یہ بنتا ہے کہ "ماقبل وحی" جس انسانی فطرت کو ماخذ خیر و شر مانا جارہا ہے، وہ کیا ہے؟ نیز اس کا تعین کیسے ہوتا ہے؟ اس بحث میں نصوص اصولاً لائق استدلال نہیں رہتیں کیونکہ یہ بحث ماقبل نصوص حالت کے بارے میں ہے نہ کہ مابعد نصوص۔ اگر فطرت ماخذ ہے تو اس کے مشمولات کا تعین نصوص سے نہیں بلکہ از خود انسانی فطرت کے کسی مطالعے پر مبنی ہوگا۔ لہٰذا جو حضرات اس بحث میں نصوص پیش کرتے ہیں، وہ ایک اصولی غلطی کا ارتکاب کرتے ہیں۔ یہ بحث "فطرت کے مجرد وجود" کے انکار کی نہیں کہ جسے ثابت کرنے کے لئے آپ آیات پیش کررہے ہیں بلکہ بحث "بدون وحی اس کے مافیہ و مشمولات کے تعین" کی رہی ہے۔ یہاں نصوص سے کام لینا ایک منطقی تضاد ہے کیونکہ ماخذ ماخوذ نہیں ہوتا، یعنی اس کے مشمولات (content) کا تعین کسی دوسرے ماخذ سے نہیں کیا جاتا۔
دوسری غلطی
متعلقہ بحث کے تعین میں دوسری اہم ترین غلطی فطرت کے دو مختلف معنی کو گڈ مڈ کردینا ہوتا ہے، ایک "فطرت بطور صلاحیت" اور دوسرا فطرت "بطور قدر(ماخذ خیر)"۔ چنانچہ عموماً یہ استدلال کیا جاتا ہے کہ دیکھئے جناب حیا وغیرہ تو فطری چیزیں ہیں، ہر کوئی محسوس کرتا ہے، لہٰذا معلوم ہوا کہ فطرت ماخذ ہے۔
تبصرہ
یہاں فطرت کے دونوں معنی کا فرق سمجھنا لازم ہے۔
1) فطرت بمعنی صلاحیت nature as potential))۔ اس معنی کے لحاظ سے فطرت کا مطلب "انسان کے لئے کیا کرنا ممکن ہے؟" ہوتا ہے۔ یعنی انسان کے اندر کس امر و عمل کی صلاحیت ہے اور کس کی نہیں۔ اس لحاظ سے جو اس کی صلاحیت ہوگی، وہ اس کے لئے فطری بھی ہوگا۔ فطرت بطور صلاحیت کے لحاظ سے سچ اور جھوٹ بولنا، محبت و نفرت کرنا، حرص، حسد، غضب، بغض، صبر، غنا، ایثار، توکل، رحم وغیرہ انسان کے لئے سب کچھ "یکساں طور پر" فطری ہے، ان معنی میں کہ انسان کے لئے یہ سب "کرنا ممکن ہے"۔ یعنی ایسا نہیں ہے کہ جب میں حرص، حسد، شہوت یا غضب سے مغلوب ہوتا ہوں تو کچھ ایسا کرتا ہوں جو میرے لئے غیر فطری (بمعنی ناممکن) ہو۔ اس کے برعکس مثلا پانی میں سانس لینا انسان کے لئے غیر فطری ہے (کم از کم اب تک)، ان معنی میں کہ انسان ایسا نہیں کرسکتا۔ چنانچہ فطرت کو جب صلاحیت (what is possible) کے معنی میں استعمال کیا جاتا ہے تو اسے positive conception of nature ( مثبت تصور فطرت) کہتے ہیں۔
2) فطرت بمعنی خیر، عدل یا معیاری نفسانی کیفیت (nature as normal behavior)۔ اس معنی کے اعتبار سے فطرت کا مفہوم یہ ہوتا ہے کہ "امکانی طور پر انسان جو کرسکتا ہے اس میں سے معیاری طور پر مطلوب طرز عمل کیا ہے؟" اب فطرت پوٹنشل نہیں بلکہ اس پوٹنشل کے جائز اظہار کا نام پوتا ہے، یعنی یہ کہ "کیا کرنا جائز (عدل) ہے اور کیا نہیں؟" فطرت کو جب اس معنی میں استعمال کیا جاتا ہے تو اسے normative conception of nature (اخلاقی تصور فطرت) کہتے ہیں۔
چنانچہ جب فطرت کو خیر و شر کے ماخذ کے طور پر پیش کیا جاتا ہے تو وہاں فطرت پہلے نہیں بلکہ دوسرے معنی میں بولا جا رہا ہوتا ہے۔ یعنی اس گفتگو میں متعلقہ سوال یہ نہیں ہوتا کہ "انسان کے لئے بطور صلاحیت کیا کرنا ممکن (فطری) ہے؟" بلکہ یہ ہوتا ہے کہ "انسان کے لئے کونسا طرز عمل اختیار کرنا جائز و معیاری (فطری) ہے؟" جب فطرت کو خیر و شر کا ماخذ قرار دیا جاتا ہے، تو دراصل دعویٰ یہ ہوتا ہے کہ "انسان کے لئے کیا جائز ہے اور کیا نہیں، اس کا جواب نفس کی کسی معلوم معیاری کیفیت سے جاننا ممکن ہے"۔ دوسرے لفظوں میں "فطرت بطور آزاد ماخذ" کا مطلب "معیاری انسانی کیفیات کے علم" کا ایسا دعوی ہے جو کسی دوسرے ذریعہ علم سے ماخوذ نہیں۔
اب اگر "حیا" کے جذبے کی مثال لی جائے تو "بطور صلاحیت" اس کا معنی کسی ایسے جذبے کے وجود کا نام ہے جس کی بنیاد پر انسان کسی شے کے اظہار سے بچنے کا داعیہ محسوس کرتا ہے۔ اس اعتبار سے حیا "آنکھ سے دیکھ سکنے جیسی صلاحیت" ہی طرح ایک شے ہے جو کسی امر کے خیر و شر ہونے کا معیار بننے لائق نہیں۔ یعنی جیسے دیکھ سکنے کی صلاحیت "کیا دیکھنا ہے اور کیا نہیں" کی بحث میں دلیل نہیں ہے اسی طرح حیا جیسے جذبے کے تحت کسی شے کے اظہار سے بچنے کا داعیہ محسوس کرنا "کس شے کو برا سمجھنا ہے یا نہیں" میں کوئی دلیل نہیں۔
خوب یاد رکھنا چاہیے کہ what is possible اور what is normal دو الگ سوالات ہیں۔ ہاں اگر یہ "مفروضہ" مان لیا جائے کہ "جو کچھ ممکن ہے وہ جائز ہے" تو اب یہ بذات خود ایک "اخلاقی تصور فطرت" بن جاتا ہے۔ یہاں خلط مبحث یہ ہوتا ہے کہ فطرت کو ماخذ قرار دینے والے حضرات یہ ثابت کرنے میں لگے رہتے ہیں کہ "حیا محسوس کرنا ایک فطری (بمعنی صلاحیت) چیز ہے" جبکہ اس کا تو کوئی انکار ہی نہیں کررہا ہوتا کہ یہ انسان کی ایک صلاحیت ہے۔ اصل گفتگو اس "صلاحیت کا وجود ثابت کرنے" کی نہیں بلکہ اس "موجود صلاحیت کو معیار ثابت کرنے" کی ہوتی ہے مگر اسے سمجھے بغیر محض وجود صلاحیت کے غیر متعلق دلائل دئیے جارہے ہوتے ہیں۔ پس اس فرق کو ملحوظ رکھنا لازم ہے۔
تیسری غلطی
اس ضمن میں تیسری غلط فہمی یہ ہے کہ فطرت کو ماخذ خیر و شر نہ ماننے والوں کی بنیادی دلیل یہ فرض کرلینا ہے کہ "چونکہ تعیین فطرت میں لوگوں کے درمیان اختلاف ہوجاتا ہے، لہٰذا اسے ماخذ نہیں مانا جا سکتا"۔ پھر یہ حضرات اس دلیل کو از خود چند مثالوں سے رد کرتے ہیں (کہ مثلاً خوبصورتی کی تعریف پر اگرچہ اختلاف ہے مگر اس کا یہ معنی نہیں کہ خوبصورت کا وجود نہیں یا اس کا تعین ممکن نہیں وغیرہ۔ بعض لوگ تو اس بحث میں "تعریف کی مشکلات" میں پھنس کر رہ گئے)۔
تبصرہ
یہاں یہ نشاندہی کرنا مقصود ہے کہ فطرت کی تعیین کی متعلقہ بحث (کہ "بدون وحی فطرت بطور قدر" کا تعین کیسے ہوتا ہے) میں اصل نکتہ "اختلاف ہوجانے کا مسئلہ نہیں" بلکہ "ابتدائی صورت (starting point)" اور اس کے "قابل اعتبار" ہونے کا ہے۔ یعنی یہاں اصل سوالات یہ ہیں کہ
1) کس کی فطرت" اصل ہونے کا اعتبار ہوگا، فرد کی یا گروہ کی؟ یعنی جس کی فطرت کو معیار مانا جارہا ہے آیا وہ ایک قبل از معاشرہ بطور اکیلا فرد وجود ہے یا کسی معاشرے میں بسنے والا ایک تاریخی فرد؟
2) اگر اکیلے فرد کی تو جس کی فطرت کو معیار مانا جارہا ہے وہ ابوبکر، زید، ایڈم سمتھ، مارکس، رالز، عبداللہ وغیرہم میں سے کس کی فطرت ہے؟
3) پھر اگر وہ اکیلا فرد ہی ہے تو اس کے مشمولات فطرت کا تعین کن اصولوں کے تحت ہوتا ہے؟ اس کے متعدد جواب ہوسکتے ہیں۔ مثلاً
الف) ہر فرد خود اپنے نفس میں جھانک کر طے کرلے کہ کیا فطری ہے اور کیا غیر فطری۔ ظاہر ہے یہ جواب غلط ہے کیونکہ یہاں جتنے منہ اتنی باتیں والا معاملہ ہوگا اور ہر کوئی اپنی ہی عادات، اطوار، رجحانات و میلانات کو ہی فطری قرار دے گا (نیز ان میں سے ہو شخص ایک "تاریخی فرد" ہی ہوگا)۔
ب) ایک مخصوص فرد یہ طے کرے۔ یہاں اس "مخصوص" کے تعین کا سوال کھڑا ہوگا
ج) انبیاء و صلحاء کی فطرت معیار ہوگی۔ لیکن صورت میں ماخذ شرع ہوئی نہ کہ مجرد فرد
4) اگر وہ اکیلا فرد ہی ہے تو اس کی "حالت اصلی" کی بابت معلومات وحی سے ماسواء کس ذریعہ علم سے میسر آئیں؟ ایسا انسان کب اور کہاں پایا گیا؟ کیا اس انسانی حالت پر بسنے والے کسی انسان کا کوئی معتبر تاریخی ریکارڈ موجود ہے کہ جسے دیکھ کر یہ بتایا جاسکے کہ "فلاں فلاں عمل کا اچھا یا برا سمجھنا حالت اصلی کا تقاضا ہے"؟
5) اگر وہ انسان معاشرے کے اندر بسنے والا ایک تاریخی فرد ہے تو اختلاف تاریخ و معاشرتی عوامل نے کیا اس کی فطرت کو حالت اصلی پر چھوڑا ہوگا؟ ایسے انسان میں کیا کچھ اصل ہے اور کیا کچھ مسخ ہوچکا، اس کا فیصلہ کون اور کس بنیاد پر کررہا ہے؟ ہر فرد کی تاریخ یہ ہے کہ وہ چند معین نظریات و میلانات رکھنے والے ماں باپ کے یہاں پیدا ہوتا ہے، اپنے ارد گرد چند معین نظریات و میلانات رکھنے والے معاشرے میں تربیت پاتا ہے، چند معین نظریات و میلانات رکھنے والے تعلیمی نظام میں علم حاصل کرکے "اپنے شعور" کو تعمیر کرتا ہے۔ تو ایسی صورت میں آخر یہ تاریخی فرد کیسے اس سوال کے جواب کا حوالہ بن سکتا ہے کہ "حالت اصلی کا تقاضا کیا ہے؟" کیا اس تمام سوشل کنڈیشننگ کے بعد کسی بھی فرد یا گروہ کے میلانات کا "سٹینڈرڈ" (حالت اصلی) پر برقرار ہونے کا دعوی کیا جاسکتا ہے؟ کیا ماخذ کا سٹینڈرڈ ہونا ضروری نہیں؟
یہ ہیں چند حقیقی سوالات جن کا کوئی واضح جواب دئیے بغیر فطرت کو ماخذ کہنا صرف ایک ہوائی بات ہے جس کی بنا پر اپنے نکتہ نظر میں ایک داعیانہ اپیل تو پیدا کی جاسکتی ہے مگر قانونی مسائل حل نہیں کئے جاسکتے
چوتھی غلطی
چوتھی غلطی "فطرت کو ماخذ ثابت کرنے" کا یہ غلط استدلال ہے کہ نصوص بھی خیر و شر کے چند معیاری بدیہی یا فطری تصورات ہی کے تناظر میں انسان سے خطاب کرتی ہیں۔ اس ضمن میں ایک دلیل یہ ہے کہ مثلاً جب شارع کہتا ہے کہ "زنا کے قریب مت جاؤ کہ بے شک یہ کھلی ہوئی فحاشی ہے" (لاتقربوا الزنی انہ کان فاحشۃ) تو یہ بات کہنے سے قبل قران نے فحاشی کی تفصیل تو نہیں بتا رکھی تھی کہ جس کے بعد پھر زنا کو بالتخصیص ذکر کرکے فحاشی کہا، بلکہ معاملہ یوں ہے کہ فحش کا یہ تصور پہلے سے مخاطب کی فطرت میں ہی موجود تھا اور اسی کی بنیاد پر اسے خطاب کرتے ہوئے کہا گیا کہ یہ عمل فحاشی ہے، بصورت دیگر کلام ممکن نہیں۔اس دلیل کا حاصل یہ ہے کہ فحاشی وغیرہ الگ سے متعین اخلاقی قدریں ہیں نیز وہ شارع کا کلام نازل ہونے سے قبل بھی شارع اور بندے کے مابین مشترک تھیں اور انہی کی بنیاد پر شارع نے بندے سے کلام کیا۔ پس ثابت ہوا کہ فطرت و نفس انسانی میں اخلاقی تصورات کے چند معیاری مفاہیم ماننا لازم ہے۔
تبصرہ
اس ضمن میں پہلی اصولی بات یہ سمجھنی چاہئے کہ مثلا فحاشی ایک شرعی اصطلاح ہے جس کا تعین تمام متعلقہ نصوص کو مد نظر رکھ کر کیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر شخص فحاشی کے نام پر جو کچھ کہتا پھرے مسلمان اسے محض کسی کے ایسا کہنے کی بنا پر قبول نہیں کرلیتے بلکہ کسی عمل سے متعلق فحاشی کے دعوے کو نصوص اور ان کے مقاصد و مضمرات پر تولا جاتا ہے۔ اگر آپ پاکستان کے مختلف صوبوں کے دیہاتوں کا چکرلگا آئیں تو آپ کو فحاشی کے عجیب و غریب فرسودہ قسم کے تصورات ملیں گے اور اگر جدید تعلیمی اداروں اور میڈیا ھاؤسز کا چکر لگا آئیں تو اسی فحاشی کے جاہلیت پر مبنی تصورات ملیں گے جبکہ یہ سب اپنے تصورات کو فطری ہی سمجھتے ہیں۔ الغرض فحاشی شرع سے ڈیفائن ہوتی ہے، فحاشی کا ایسا تصور جو نصوص اور اس کے مضمرات سے ہم آہنگ نہ ہو، وہ غیر معتبر ہے۔ یہ اصولی بات اگر مد نظر رہے تو شارع کے اس کلام کو سمجھنے میں کوئی دشواری نہیں رہتی۔ پس اس اعتبار سے شارع کا قول "انہ کان فاحشۃ" فحاشی کے کسی معیاری فطری تصور پر متفرع نہیں بلکہ اس عمل کے فحش ہونے کی دلیل و بیان ہے۔
اس بات کو دوسرے پہلو سے یوں سمجھئے کہ شارع کسی مجرد فرد سے مخاطب نہیں ہوتا رہا بلکہ ایک ایسے تاریخی انسان سے مخاطب ہوا جس کی ابتداء حضرت آدم علیہ السلام سے ہوئی۔ اس تاریخی انسان کے پاس انبیاء کی حق تعلیمات اور نفس انسانی کے اپنی طرف سے وضع کردہ ملغوبے کی بنا پر فحاشی کے بہت سے تصورات موجود تھے۔ تو جب شارع نے اس انسان کو خطاب کرکے کہا کہ "انہ کان فاحشۃ" تو حوالہ وہی برحق تصورات تھے جس سے وہ تاریخی طور پر واقف اور قائل رہے تھے۔ الغرض یہ پورا استدلال "ایک مجرد فطری فرد" کے تناظر میں وضع کیا گیا ہے، جبکہ شارع کے اس کلام کے بامعنی ہونے کے لئے "مجرد فطری فرد" نہیں بلکہ "تاریخی فرد" کا تناظر درکار ہے۔ اگر زنا یا ننگ پن جیسے افعال کو کسی ایسے شخص کے سامنے فحش قرار دے کر پیش کیا جائے جو تاریخی طور پر کسی ایسی تاریخ اور معاشرت سے تعلق رکھتا ہو جہاں ان اعمال کو فحش ہی نہ سمجھا جاتا ہو اور اس بنا پر وہ فرد بھی یہی رائے رکھتا ہو تو ظاہر ہے اس کے لئے اس آیت کا کوئی معنی نہیں ہوگا۔ پس یاد رکھنا چاہئے کہ انسان ایک تاریخی وجود ہے نہ کہ مجرد۔ اگر یہ تناظر درست کرلیا جائے تو بہت سے اشکالات پیدا ہی نہ ہوں۔
پانچویں غلطی
فطرت بطور ماخذ کو ثابت کرنے کے لئے اسی نوع کی ایک مزید دلیل مشہور فلسفی کانٹ کی طرز کا ایک استدلال پیش کیا ہے۔ کانٹ کا کہنا تھا کہ (سائنسی) علم نہ تو اکیلے تجربے سے تخلیق ہوتا ہے اور نہ ہی مجرد عقل سے، بلکہ علم عقل کی ساخت (جنہیں وہ عقل کی کیٹیگریز کہتا ہے) اور تجربے کی ماہیت سے ملکر کر بنتا ہے۔ اگر عقل کے اندر ساخت فرض نہ کی جائے تو تجربے سے جو ڈیٹا آتا ہے، اس سے کوئی بامعنی بات معلوم ہونا ممکن نہیں۔ الغرض کائنات کے بارے میں جو ڈیٹا حواس کے ذریعے موصول ہوتا ہے، عقل کی ساخت اسے بامعنی تعلقات میں ڈھال دیتی ہے۔چنانچہ اسی طرز پر یہ دلیل دی جاتی ہے کہ انسان کو مخاطب کرنے والی وحی ایک بیرونی ہدایت کی طرح ہے، جب تک اس خطاب کو وصول کرنے والے انسان کے اندر اس خیر کا وجود نہ مانا جائے جس کی پیروی کرنے کا وحی اسے حکم دیتی ہے، اس وقت تک یہ کیسے ممکن ہے کہ انسان اس خطاب کو سمجھے اور اس کی پیروی کرے؟ اگر انسان میں خیر و شر کا کوئی فطری ادراک موجود نہیں تو انسان خدا کے بتائے ہوئے خیر و شر کو پہچانتا کس بنیاد پر ہے؟ سمجھنے کی خاطر یوں مثال لیں کہ اگر خدا کا کلام کسی مشین پر یا کسی جانور پر پڑھا جائے تو وہ محض اس کلام کے پڑھے جانے کی بنا پر نہ تو اس کلام کو سمجھ سکتاہے اور نہ ہی مکلف ہوجائے گا کیونکہ وہ اپنے اندر اخلاقی تصورات کی عدم موجودگی کی وجہ سے اسے سمجھ ہی نہیں سکتا۔ گویا کانٹ کی دلیل کی طرز پر وہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ وحی سے خیروشر معلوم ہونے کے لئے ابتداءً یہ ماننا لازم ہے کہ نفس انسانی میں خیروشر کا ادراک موجود ہے، خیروشر کا یہی انسانی ادراک وحی کو معنی دیتا ہے۔
حاصل دلیل یہ کہ اگر انسان کو خدا کے حکم کا مکلف ماننا ہے تو یہ ماننا ضروری ہے کہ انسان ایک اخلاقی وجود (normative being) ہے، اس کے اندر یہ صلاحیت ہے کہ وہ خداداد صلاحیت کی بنا پر خیر و شر کا فیصلہ کرسکے۔ اس دلیل سے وہ یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ "انسان کو مکلف اور قابل مواخذہ ٹھہرانے کی آخری بنیاد یہی فطری علم ہے۔ اگر یہ نہ ہو تو سرے سے انسان کو مکلف اور اخلاقی لحاظ سے کسی بھی حکم کا پابند بنانا ہی ممکن نہیں۔ جن علمائے کلام نے علم فطرت کی اہمیت کی نفی کرتے ہوئے، محض ’’حکم شرع‘‘ کو بنائے تکلیف قرار دیا ہے، انھوں نے اس سوال پر شاید غور نہیں کیا کہ ’’حکم شرع‘‘ کی پابندی کو انسان پر لازم کرنا بھی اصل میں انسانی فطرت میں موجود کسی اخلاقی تصور کے بغیر ممکن نہیں۔"
تبصرہ
اس دلیل میں چنداں مسائل ہیں، سردست دو مسائل اہم تر ہیں۔ اس پوری دلیل کا حاصل یہ ہے کہ انسان کو ایک اخلاقی وجود ماننا لازم ہے، یعنی یہ کہ خیروشر کے (کچھ نہ کچھ) تصورات بہرحال انسان کے پاس موجود ہیں۔ لیکن یہ دلیل اصل نکتے کو ایڈریس نہیں کرتی کیونکہ اصل بحث یہ نہیں کہ "آیا انسان کوئی اخلاقی وجود ہے یا نہیں" (اس کا تو ہم نے انکار کیا ہی نہیں کہ جسے ثابت کرنے کے لئے دلیل لانے کی ضرورت ہو۔ ہم اس بات کو مانتے ہیں کہ انسان good essentially ہے اور گناہ، یعنی اپنے رب کی بات کی مخالفت، اس کی فطرت کے خلاف ہے) بلکہ یہ ہے کہ "اس اخلاقی وجود کی تفصیلات (content) کیا ہیں" نیز "کیا بدون وحی ان تفصیلات کو جان لینا ممکن ہے؟" چنانچہ یہ دلیل اصل مسئلے کو حل کرنے میں مددگار نہیں۔ اس دلیل میں یہ بعینہ وہی مسئلہ ہے جو غامدی صاحب کی دلیل میں بھی موجود ہے، یعنی "تعیین فطرت" کے دعوے کو ثابت کرنے کے لئے "وجود فطرت" کی دلیل دینا اور اسی کی طرف غلط فہمی نمبر ایک میں اشارہ کیا گیا تھا۔ المختصر "وجود فطرت" کا لزوم "تفصیلات فطرت" جان سکنے کو مستلزم نہیں، اس دوسرے مقدمے کے لئے مستقل دلیل درکار ہے جو اس پورے استدلال میں موجود نہیں۔
پھر دیکھئے، کانٹ جب یہ کہتا ہے کہ علم درحقیقت عقل (اندرون) اور تجربے (بیرون) سے مل کر بنتا ہے تو وہ اپنے تئیں تجربے سے ماوراء رہتے ہوئے عقل کی ساخت متعین کرتا ہے (جسے وہ "عقل کی کیٹیگریز" کہتا ہے)۔ لہٰذا اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مسئلہ خیروشر کی تعیین میں جس فطری ساخت کو آپ اصل قاضی بنانا چاہتے ہیں اس کی ساخت یا کنٹنٹ کیا ہے؟ جس طرح کانٹ "بیرونی تجربے سے ماوراء رہتے ہوئے" عقل کی اندرونی ساخت کی تفصیلات بتاتا ہے، کیا بعینہ "بیرونی وحی سے ماوراء رہتے ہوئے" فطرت کی اندرونی تفصیلات متعین کرنا ممکن ہے؟ چنانچہ دیکھنے کی بات یہ ہے کہ اس معاملے میں direction of reading کیا ہے، یعنی آپ کس کی روشنی میں کس کو متعین کررہے ہیں؟ اگر یہاں معاملہ یہ ہے کہ انسان کے اندرونی اخلاقی وجود کی تفصیلات بالاخر آپ وحی میں بیان کردہ تفصیلات ہی سے اخذ کرتے ہیں (جیسا کہ آپ کے استدلال میں پیش کردہ تمام مثالوں سے واضح ہوتا ہے)۔ نیز انسانی فطرت سے متعلق ہر دعوے کو آپ بالاخر وحی کی بنیاد پر ہی جانچتے ہیں (ان معنی میں کہ اگر کوئی شخص فطرت کی بنیاد پر کوئی ایسا دعوی کرے جو وحی میں بیان کردہ حکم سے متصادم ہو تو آپ ایسے دعوے کو رد کردیتے ہیں) تو یہ اس بات کا اقرار ہے کہ تفصیلات خیر و شر کا ماخذ فطرت نہیں وحی ہے۔
چھٹی غلطی
آخر یہ مان لینے سے کیا مسئلہ پیدا ہوتا ہے کہ وحی سے ماقبل بھی خیر و شر کی تعیین کا ایک قابل اعتبار ماخذ موجود ہے۔ نیز یہ کہ انسان کو اصلا عقل و فطرت کی راہنمائی ہی کے تحت زندگی بسر کرنا ہے البتہ جہاں کہیں انسانی فطرت دھوکہ کھا سکتی تھی یا جس معاملے میں عقل کے پاس فیصلے کی کوئی واضح بنیاد نہ تھی، ان معاملات میں وحی کے ذریعے انسان کی راہنمائی کردی گئی؟ یہ تو ایک معقول بات ہے۔
تبصرہ
غلط فہمی نمبر ایک پر تبصرے میں واضح کیا گیا کہ سکے کو گھما نے کے بعد جب یہ کہاجاتا ہے کہ " انسانی فطرت گویا الگ سے ایک ماخذ ہے جسے خیر و شر کے معاملے میں وحی کے بغیر معلوم کرکے بھی اس سے راہنمائی لی جاسکتی ہے" تو اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ شارع کے حکم کی قانونی بنیاد کیا ہے نیز اگر فطرت وغیرہ اصولاً راہنمائی کے لئے کافی ہیں تو پھر شارع کی ضرورت و مقام کیا ہے؟اب اس موقع پر چند جوابات ممکن ہیں:
الف) تعیین قدر میں شارع کی حیثیت بنیادی ہے، فطرت شارع کے حکم سے الگ کوئی شے نہیں، نہ ہی اسکے بغیر اسے جاننا ممکن ہے
ب) فطرت ہی بنیادی چیز ہے اور عقل وغیرہ کے ذریعے اسے پہچاننا ممکن ہے۔ اس صورت میں شارع کی ضرورت محض اضافی و facilitating نوعیت کی ہوئی، یعنی عام لوگوں کو تو اس کی ضرورت ہے مگر فلاسفہ کو اس کی ضرورت نہیں (یہ بعض معتزلہ وغیرہ نے سمجھا)
ج) اس معاملے میں معلوم اصول فطرت بنیادی چیز ہیں اور شارع کی حیثیت ان معنی میں ایک تتمے (appendix) کی ہے کہ جہاں کہیں فطرت ٹھوکر کھا سکتی تھی ان مقامات پر حکم نازل کردیا گیا۔ یہ پوزیشن چند جدید مفکرین (مثلاً غامدی صاحب) نے اپنائی
اب اس موقع پر جائز طور پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس تمام تر ذہنی مشق اور کیٹیگرائزیشن سے عملی طور پر کیا فرق پڑتا ہے؟ تو اس تمام تر بحث کا تعلق اس عملی سوال سے ہے کہ شارع میری زندگی کے کس قدر شعبے و حصے سے متعلق ہے؟
۔ پہلی صورت میں جواب یہ بنتا ہے کہ میں اپنی زندگی کے ہر حصے میں شارع ہی کے حکم کا پابند ہوں۔
۔ دوسری صورت میں شارع کے حکم کی کسی بھی دائرے میں ضرورت نہیں رہتی، اصولاً ہر معاملے میں مشمولات عقل و فطرت (وہ جو بھی ہوں) ہی کی طرف دیکھا جائے گا (عملاً اس کا مطلب یہ ہے کہ فلاسفہ و سوشل سائنٹسٹ کی طرف دیکھا جائے کیونکہ اصول فطرت و عقل کی تنقیح انہی کا شعبہ ہے۔
۔ تیسری صورت میں شارع کا حکم ایک محدود سے دائرے میں مجھے خطاب کرتا ہے، اس دائرے سے باہر پھر دوسری صورت پلٹ آتی ہے
پہلی صورت ہر قسم کی سیکولرائزیشن کا امکان ختم کردیتی ہے کیونکہ یہاں ہر حکم کا ریفرنس پوائنٹ بہرحال شارع کا قول ہوگا (فقہاء نے شرع کو اسی طرز پر دیکھا ہے)۔ دوسری صورت مکمل سیکولرائزیشن کی ہے کہ جہاں شارع کو کلیتاً فارغ (suspend) کردیا جاتاہے، جبکہ تیسری صورت ایک قسم کی "دینی سیکولرائزیشن" کا جواز پیدا کرتی ہے، یعنی شرع کو چند محدود سے معاملات میں محدود کرکے باقی سارا میدان عقل و فطرت کے ہاتھ کھلا چھوڑ دیا جائے۔ اس کا لازمی نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ یہ خلا پھر حاضر و موجود علمیت (سوشل سائنسز) سے پر کیا جائے۔ اس قسم کی دینی سیکولرازم یورپ میں City of Man and City of God کے نام پر طویل عرصے تک پائی گئی۔
جملہ معترضہ کے طور پر یہ یہاں بات ذہن نشین کرانا لازم ہے کہ فقہاء و غامدی صاحب کے تصور اجتہاد میں بنیادی نوعیت کا فرق ہے۔ فقہاء نے عقل و فطرت جیسے مبہم الفاظ استعمال کرنے کے بجائے عقلی طرق استنباط (قیاس، استحسان وغیرہ) و نص کی دلالات کو اخذ احکام کی بنیاد بنایا ہے اور پھر ہر عقلی طریقہ استنباط و دلالت کی صحت کو مد نظر رکھتے ہوئے اخذ کردہ حکم کو کلاسیفائی کیا ہے۔ یہ ایک منظم طریقہ کار ہے۔ اس کے مقابلے میں غامدی صاحب اجتہاد کا دائرہ کار عقل و فطرت سے راہنمائی لینے کو قرار دیتے ہیں۔ غامدی صاحب کا یہ تصور دین و اجتہاد ایک قسم کی "دینی سیکولرائزیشن" کا جواز پیداکرتا ہے، یعنی شرع کو چند محدود سے معاملات میں محدود کرکے باقی میدان کھلا چھوڑ دیا جاتا ہے اور پھر سوائے عقل و فطرت جیسے مبہم الفاظ کے یہ نہیں بتایا جاتا کہ یہاں معاملات پر حکم کس بنیاد پر لگایا جائے گا۔ اس کا لازمی نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ یہ خلا پھر حاضر و موجود علمیت (سوشل سائنسز) سے پر کیا جائے۔
مسئلہ خیر و شر کے بارے میں اشاعرہ و ماتریدیہ کے مابین بحث صرف نظریاتی ہے جبکہ اشاعرہ و معتزلہ کے مابین بحث اصلی، حقیقی و عملی ہے۔ ایسا اس لئے کہ عملی سوال یہ ہے کہ "مجھے عمل کس شے پر کرنا ہے، اس شے پر جو خدا نے نازل کیا یا وہ جسے میں خود خیر سمجھ رہا ہوں؟" چنانچہ اشاعرہ و ماتریدیہ دونوں کا اتفاق ہے کہ عملی تکلیف خدا کے کلام ہی کی بنیاد پر قائم ہوتی ہے۔ نتیجتاً یہ دونوں پوزیشن ہر قسم کی سیکولرائزیشن کے امکان کو ختم کردیتی ہیں کیونکہ عمل کے لئے خدا کے حکم کا ریفرنس معلوم کرنا ہوگا۔ اس تصور سے شریعت و اجتہاد کا بالکل الگ تصور برآمد ہوتا ہے۔ اس کے مقابلے میں معتزلہ کے یہاں عملی تکلیف کی بنیاد ازخود عقل کے ذریعے معلوم کردہ اشیاء کا ذاتی خیر و شر ہے، خدا کا حکم صرف ایک اضافی چیز ہے۔ یہ پوزیشن شرع کو redundant قرار دے کر پوری عملی زندگی کو سیکولرائز کرنے کا جواز پیدا کرتی ہے، اسی لئے اہل سنت کے دونوں گروہوں اشاعرہ و ماتریدیہ نے اس کی مخالفت کی۔
آخری بات
نبی یعنی خدا سے مسلسل تعلق "ثانوی" نہیں "بنیادی" ضرورت ہے
بنیادی مدعا یہ ہے کہ مسئلہ خیر و شر کی تعیین میں وحی کی حیثیت ثانوی نہیں بلکہ بنیادی ہے۔ اس مسئلے میں وحی کوئی "اختتامی نوٹ" نہیں کہ جس سے قبل بہت کچھ معلوم و طے ہوچکا ہو بلکہ وہ "لازمی ابتدائیہ" ہے جس کے بنا آگے بڑھنا ممکن نہیں۔ یہ ہے نبی کا اصل مقام اور یہ مقام صرف اسی کو سزا وار ہے۔مسئلہ خیر و شر کی تعیین میں وحی "ثانوی" نہیں بلکہ "بنیادی" طور پر اپنا کردار ادا کرتی ہے، یعنی یہاں معاملہ ایسا نہیں ہے کہ خیر و شر کے بہت سے مسائل فطرت و عقل ازخود اپنے دریافت کردہ اصولوں کی بنا پر حل کرسکتی ہے اور صرف اس کی ناکامی کے مقامات میں وحی کی ضرورت پڑتی ہے۔ نہیں، بلکہ یہاں معاملہ یہ ہے کہ خیر و شر کی تعیین کے اس دائرے میں وحی کی راہنمائی کے بغیر عقل کوئی اصولی حکم دریافت نہیں کرسکتی، بلکہ یوں کہا جانا چاہیے کہ عقل میں یہ صلاحیت ہی نہیں کہ وہ اس معاملے میں کوئی حکم لگا سکے۔
فطرت، عقل اور وحی کے مابین تعامل کو سمجھنے کے ضمن میں یہ بات نہایت اہم ہے کہ پہلا انسان نبی (صاحب وحی) تھا نہ کہ محض کوئی "فطری وجود"۔ چنانچہ اس حقیقت کو سامنے رکھتے ہوئے ہی ہمیں فطرت، عقل اور وحی کے تعامل کو سمجھنے کی کوشش کرنا چاہیے کہ "پہلا انسان نبی تھا"۔ یعنی ایسا نہیں ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے ایک فطرت و عقل دے کر ایک مخلوق زمین پر بھیج دی اور جب خیر و شر کے مسائل میں وہ غلطیاں کرتے تو ان کی اصلاح کے لیے نبی بھیج دیا۔ نہیں، بلکہ یہاں تاریخی حقیقت یوں ہے کہ خیروشر سے متعلق دنیا کے سب سے پہلے انسان کو بذریعہ وحی حقائق بتائے گئے اور پھر نبیوں کا یہ سلسلہ بغیر کسی وقفے کے مسلسل چلتا رھا۔ گویا ڈاکٹر مشتاق صاحب کے الفاظ میں "پہلے ہی دن سے کچھ کام ممنوع اور ناپسندیدہ ٹھہرے اور کچھ ضروری اور پسندیدہ اور ایسا 'وحی کی روشنی میں' ہوا"۔
پھر عقل کے دائرہ کار اور حیثیت پر گفتگو کرتے ہوئے یہ تنقیح لازم ہے کہ عقل کو کس معنی میں استعمال کیا جارہا ہے، یعنی "عقل بطور کسی مقصد کو حاصل کرنے کی صلاحیت" (جسے آلاتی عقل instrumental reasoning کہتے ہیں) اور یا "عقل بطور خیر و شر یعنی مقاصد اور انکی ترتیب متعین کرنے کی صلاحیت" (جسے substantive reasoning کہتے ہیں)۔ چنانچہ عقل کے اندر یہ صلاحیت تو ہے کہ وہ کسی مقصد کو حاصل کرنے کا طریقہ بتائے مگر یہ صلاحیت نہیں کہ مقاصد اور ان کی ترتیب بھی متعین کرلے۔ نبی کا تعلق مقاصد (خیر و شر) اور ان کی ترتیب کو متعین کرنے سے ہے، اس دائرے میں عقل کسی کام کی نہیں۔ اس دائرے میں عقل لازماً اپنے سے بیرون کسی ذریعے ہی سے رہنمائی لیتی ہے، چاہے وہ ذریعہ وحی ہو، ماضی سے چلی آنے والی روایات ہوں اور یا خود نفس کی خواہشات۔
پس اگر عقل کے اس درائرہ کار کو اچھی طرح متعین کرلیا جائے، جسے امام غزالی نے بڑی ہی جانفشانی سے سمجھایا ، تو وحی کی اصل و بنیادی ضرورت کی اہمیت واضح ہوتی ہے۔ بصورت دیگر نبی بطور اضافی شے یا تتمہ ایک ثانونی معاملہ بن کر رہ جاتا ہے۔ پس سمجھ رکھنا چاہیے کہ نبی ، یعنی خدا سے مسلسل تعلق،انسان کی بنیادی و مستقل (permanent and essential) ضرورت ہے، ثانوی و اضافی (facilitating and contingent) نہیں۔