صد سالہ زندگی کا سفرِ رواں

ملائیشیا کے سابق وزیراعظم مہاتیر محمد، جو اِس سال 10 جولائی کو اپنی عمر کے ایک سو سال مکمل کر چکے ہیں، ان کا شمار دنیا کے ان رہنماؤں میں ہوتا ہے جنہوں نے نہ صرف اپنی قوم کی تقدیر بدلنے میں بنیادی کردار ادا کیا بلکہ عالمی سیاست میں بھی ایک منفرد اور توانا آواز کے طور پر اپنی پہچان قائم کی۔ چار دہائیوں سے زیادہ عرصے پر محیط سیاسی کیریئر میں وہ ملائیشیا کو زرعی معیشت سے ایک جدید صنعتی اور تجارتی طاقت میں تبدیل کرنے والے رہنما کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ پیٹروناس ٹاورز جیسے منصوبے ان کے وژن کی علامت ہیں، جبکہ ان کی سخت گیر پالیسیوں اور غیر لچکدار مؤقف نے انہیں کچھ متنازع بھی بنایا۔ سو برس کی عمر کو پہنچنے کے قریب ہونے کے باوجود وہ بدستور ذہنی و عملی طور پر متحرک ہیں اور مختلف انٹرویوز میں اپنی زندگی، سیاست، صحت اور عالمی حالات پر کھل کر اظہارِ خیال کرتے ہیں۔

’’چینل نیوز ایشیا‘‘، ’’میڈیکل چینل ایشیا‘‘، ’’دی اسٹریٹس ٹائمز‘‘ اور ’’آئی ٹی وی نیوز‘‘ کو دیے گئے ان کے انٹرویوز اس بات کی جھلک پیش کرتے ہیں کہ وہ اپنی طویل عمر کو نظم و ضبط، متوازن غذا اور مسلسل ذہنی و جسمانی سرگرمی کا نتیجہ سمجھتے ہیں۔ وہ اپنے روزمرہ معمولات، کھانے پینے کی احتیاط، ورزش اور مطالعہ و تحریر کے شوق کو صحت مند زندگی کا راز قرار دیتے ہیں۔ ساتھ ہی انٹرویوز میں ان کی سیاست کا مختلف پہلوؤں سے جائزہ سامنے آتا ہے۔ وہ کبھی ویژن 2020ء اور ’’ایشین ٹائیگر‘‘ سے ’’کلپٹو کریسی‘‘ میں بدلتے ملائیشیا پر تبصرہ کرتے ہیں، کبھی انور ابراہیم کی غیر ملکی سرمایہ کاری اور داخلی امور کے حوالے سے پالیسیوں پر تنقید کرتے ہیں، اور کبھی ملائیشیا کے نسلی تنوع کو ایک کامیاب ماڈل کے طور پر پیش کرتے ہیں۔

بین الاقوامی سیاست کے حوالے سے بلکہ عالمِ اسلام میں بھی مہاتیر محمد اپنی جرأت مندانہ آراء کے لیے مشہور ہیں۔ ڈاکٹر مہاتیر محمد نے اکتوبر 2003ء میں ملائیشیا کے وزیراعظم کی حیثیت سے تنظیم برائے اسلامی تعاون (OIC) کی دسویں سربراہی کانفرنس کی صدارت کی جو کہ پٹراجایا، ملائیشیا میں منعقد ہوئی تھی۔ اس کانفرنس کے اختتام پر وہ OIC کے صدر منتخب ہوئے۔ تاہم یہ عہدہ صرف اگلے تین سالوں کے لیے تھا جب تک کہ اگلی سربراہی کانفرنس نہ ہو جائے۔ یہ ایک روایتی عمل ہے جس کے تحت میزبانی کرنے والا ملک خودبخود OIC کا صدر بن جاتا ہے۔

مہاتیر محمد نے امریکہ، چین، تائیوان، یوکرین جنگ اور خاص طور پر فلسطین کے مسئلے پر بھی کھل کر رائے دی ہے۔ وہ اسرائیلی جارحیت کو نسل کشی قرار دیتے ہیں اور امریکہ کو اس میں برابر کا شریکِ جرم ٹھہراتے ہیں۔ وہ جہاں مغربی دنیا کے دوہرے معیار پر تنقید کرتے ہیں، وہاں مسلم دنیا کی کمزوری کو قرآن کی تعلیمات سے دوری کا نتیجہ سمجھتے ہیں۔ ان کی گفتگو یہ ظاہر کرتی ہے کہ عمرِ طویل کے باوجود وہ نہ صرف اپنی قوم بلکہ عالمی سیاست کے مستقبل کے بارے میں فکر مند ہیں۔

یہ انٹرویوز مجموعی طور پر مہاتیر محمد کی شخصیت کے دونوں رخ دکھاتے ہیں: ایک طرف وہ ایک ایسے رہنما ہیں جنہوں نے ملائیشیا کو ترقی کے نئے راستوں پر ڈالا، اور دوسری طرف ایک ایسے سیاست دان بھی جنہیں آمرانہ رجحانات اور سخت گیر فیصلوں کی وجہ سے تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ بہرحال ان کے بیانات اور خیالات یہ ثابت کرتے ہیں کہ وہ اس عمر میں بھی جنوبی ایشیا اور عالمی سیاست میں ایک ایسی آواز ہیں جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

’’میڈیکل چینل ایشیا‘‘ کا انٹرویو

29 جنوری 2024ء کو نشر ہونے والا یہ انٹرویو ملائیشیا کے دارالحکومت کوالالمپور میں پردانا لیڈرشپ فاؤنڈیشن میں ہوا جہاں ڈاکٹر مہاتیر محمد نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ مہاتیر محمد جنوب مشرقی ایشیا خصوصاً ملائیشیا میں ایک معروف نام ہیں جنہوں نے گزشتہ چار دہائیوں کے دوران ملک کی ترقی کے راستے متعین کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ اس انٹرویو میں ان کی ذاتی زندگی، سیاسی سفر اور طبی شعبے سے وابستگی پر بات کی گئی۔

مہاتیر محمد، جو اس وقت 98 برس کے ہیں، نے بتایا کہ طویل عمر کا کوئی خفیہ راز نہیں بلکہ یہ بڑی بیماریوں سے بچ جانے اور محتاط طرزِ زندگی اختیار کرنے کا نتیجہ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ سب سے اہم بات یہ ہے کہ انسان زیادہ نہ کھائے، کیونکہ ضرورت سے زیادہ کھانے سے دل پر دباؤ بڑھتا ہے اور عمر گھٹ سکتی ہے۔ ساتھ ہی جسمانی اور ذہنی طور پر فعال رہنا بھی لازمی ہے، یعنی پڑھنا، لکھنا، بات کرنا اور بحث مباحثہ دماغ کو متحرک رکھتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ کم کھانے کی عادت انہیں اپنی والدہ سے ملی جنہوں نے نصیحت کی تھی کہ جب کھانا بہت مزیدار لگے تو وہیں رک جانا چاہیے، کیونکہ اسی وقت زیادہ کھانے کا رجحان بڑھتا ہے۔ ان کے مطابق یہ عادت ابتدا میں مشکل تھی لیکن وقت کے ساتھ خود پر قابو پانا ممکن ہوا۔ انہوں نے کہا کہ ریٹائرمنٹ کے بعد فارغ بیٹھنا نقصان دہ ہے، اس لیے انسان کو کوئی نہ کوئی مصروفیت تلاش کرنی چاہیے تاکہ جسم اور دماغ دونوں سرگرم رہیں۔

اپنے روزمرہ معمولات میں انہوں نے بتایا کہ وہ ہلکی ورزش کرتے ہیں اور ٹریڈمل پر چلتے ہیں۔ ناشتہ ہلکا رکھتے ہیں اور جلدی دفتر چلے جاتے ہیں۔ ان کے دن کا بڑا حصہ لوگوں سے ملاقات اور ان کے مسائل سننے یا مشورہ دینے میں گزرتا ہے۔ یہی مصروفیات انہیں جسمانی اور ذہنی طور پر متحرک رکھتی ہیں۔

ذہنی دباؤ اور تناؤ کے بارے میں سوال پر انہوں نے کہا کہ انسان کو خود پر قابو پانا سیکھنا چاہیے۔ انہوں نے مثال دی کہ انہوں نے خود کو یہ سکھایا ہے کہ کسی مسئلے پر بلاوجہ غصہ نہ کریں بلکہ سکون اور بردباری کے ساتھ معاملہ حل کریں۔ ان کے مطابق شروع میں یہ مشکل لگتا ہے لیکن وقت کے ساتھ یہ ایک عادت بن جاتی ہے اور پھر انسان فطری طور پر پُرسکون رہنے لگتا ہے۔ ان کے خیال میں روزمرہ مسائل پر قابو پانے کا سب سے اچھا طریقہ یہی ہے کہ انسان صبر کرے اور انتظار کرے، کیونکہ اکثر مسائل وقت کے ساتھ خود ہی حل ہو جاتے ہیں۔

https://youtu.be/4vDyUvC6Aho

’’آئی ٹی وی نیوز‘‘ کا انٹرویو

21 جون 2025ء کو نشر ہونے والا یہ انٹرویو مہاتیر محمد کی سو سالہ زندگی کے سنگِ میل کے قریب ریکارڈ کیا گیا، جس میں ان کی سیاسی کامیابیوں، ذاتی نظریات، عالمی سیاست پر خیالات، اور ان کے متنازع پہلوؤں پر گفتگو ہوئی۔ مہاتیر محمد جنوب مشرقی ایشیا کی سیاست میں کئی دہائیوں تک ایک فیصلہ کن شخصیت رہے۔ وہ 22 سال تک مسلسل ملائیشیا کے وزیراعظم رہے جس دوران انہوں نے ملک کی معیشت کو زراعت اور اجناس پر انحصار کرنے والے نظام سے ایک جدید صنعتی و تجارتی طاقت میں بدل دیا۔ پیٹرول ٹاورز جیسے منصوبے ان کی ترقیاتی وژن کی علامت بنے۔ 2018ء میں 92 برس کی عمر میں دوبارہ اقتدار میں آکر وہ دنیا کے سب سے معمر منتخب رہنما قرار پائے۔ 

مہاتیر نے اپنی طویل عمر کا راز نظم و ضبط اور متحرک زندگی کو قرار دیا۔ ان کے مطابق اگر جان لیوا بیماریوں سے بچا جائے تو انسان کو فعال رہنے کی ضرورت ہے، ورنہ دماغ اور جسم کمزور پڑ جاتے ہیں۔ وہ آج بھی مطالعہ، تحریر، ملاقاتوں اور لیکچرز کے ذریعے ذہن کو سرگرم رکھتے ہیں اور اپنی صحت کو متوازن غذا اور وزن پر قابو سے بہتر بنائے رکھتے ہیں۔

معاشی ورثے پر گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ملائیشیا نے ان کی قیادت میں تیزی سے صنعتی ترقی کی اور نجکاری کے ذریعے برآمدی طاقت بن گیا۔ لیکن امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی تجارتی پالیسیوں پر انہوں نے تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ہائی ٹیرف (بہت زیادہ درآمدی ٹیکس) آخرکار امریکی عوام کو ہی نقصان پہنچائیں گے۔ ان کے مطابق اگر امریکہ کے ساتھ تجارت محدود ہوئی تو ہم دنیا کے باقی ممالک چین، روس اور دیگر ریاستوں کے ساتھ نئے تجارتی راستے تلاش کر سکتے ہیں۔

امریکہ اور چین کے تعلقات کے حوالے سے ان کا ماننا ہے کہ وقت بدل رہا ہے اور اب چین دنیا کی نمبر ون طاقت بننے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ چین ہزاروں سال سے ملائیشیا کا تجارتی شریک رہا ہے اور کبھی قابض نہیں ہوا، جبکہ یورپی طاقتیں چند برسوں میں ہی نوآبادیاتی تسلط قائم کر گئیں۔ تائیوان کے مسئلے پر انہوں نے کہا کہ چین اگر چاہتا تو کب کا حملہ کر چکا ہوتا، مگر اس کے لیے تائیوان کی سرمایہ کاری اور ٹیکنالوجی زیادہ قیمتی ہے، جبکہ امریکہ جان بوجھ کر تنازعہ بڑھا کر ہتھیار فروخت کرتا ہے۔

مہاتیر نے امریکی خارجہ پالیسی اور خاص طور پر غزہ پر جاری اسرائیلی جارحیت پر سخت الفاظ میں تنقید کی۔ انہوں نے کہا کہ یہ نسل کشی ہے جسے امریکہ مالی اور عسکری مدد دے رہا ہے، لہٰذا امریکہ بھی اتنا ہی قصوروار ہے جتنا اسرائیل۔ انہوں نے بنیامین نیتن یاہو کو جانور قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ انسانوں کی طرح نہیں سوچتا۔ ساتھ ہی انہوں نے مسلم دنیا کی کمزوری کو بھی تسلیم کیا کہ قرآن کی تعلیمات پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے ہم اس حال کو پہنچے ہیں۔

یوکرین جنگ کے بارے میں ان کا موقف یہ تھا کہ روس کو نیٹو کے پھیلاؤ نے اشتعال دلایا، اس لیے وہ روس کو مکمل قصوروار نہیں سمجھتے۔ اسرائیل کے مقابلے میں وہ روس کے اقدامات کو ’’اشتعال کے جواب‘‘ کے طور پر دیکھتے ہیں۔ جب مہاتیر محمد سے کہا گیا کہ ناقدین انہیں دوہرے معیار کا حامل قرار دیتے ہیں، تو انہوں نے اسے مسترد کیا اور کہا کہ اسرائیل 70 سال سے فلسطین کی زمین ہتھیا رہا ہے اور بہت سے لوگوں کو بغیر ٹرائیل کے جیل میں ڈالتا رہا ہے اور بہت سوں کو اس نے قتل کیا ہے۔

برطانیہ کے بارے میں ان کی رائے یہ تھی کہ اب وہ طاقتور ملک نہیں رہا بلکہ امریکہ کے تابع ہے۔ 

روہنگیا بحران پر ان کا کہنا تھا کہ ملائیشیا پہلے ہی بڑی تعداد میں پناہ گزینوں کو پناہ دے چکا ہے، مزید بوجھ اٹھانا ممکن نہیں، اس کے لیے عالمی برادری کو آگے آنا ہوگا۔

ان کی شخصیت کے متنازع پہلو بھی زیر بحث آئے۔ ناقدین انہیں آمرانہ رویے، مخالفین پر کریک ڈاؤن (خصوصاً انور ابراہیم کے خلاف اقدامات)، ملائیشیا میں نسلی بالادستی کو فروغ دینے اور قریبی کاروباری حلقوں کو نوازنے پر تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔ مہاتیر ان الزامات کو بے بنیاد قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ کبھی کوئی ثبوت سامنے نہیں آیا۔ وہ جانتے ہیں کہ حکومت انہیں جیل میں ڈالنے کے لیے بہانے ڈھونڈ رہی ہے، مگر اپنی زندگی کو وہ ملک کے مفاد سے کم اہم سمجھتے ہیں۔

اپنے ورثے اور میراث کےمتعلق وہ کہتے ہیں کہ انہیں اس بات کی پروا نہیں کہ لوگ انہیں یاد رکھیں یا بھلا دیں۔ انہوں نے کبھی نہیں چاہا کہ ان کا نام منصوبہ جات پر استعمال کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے ایسے فیصلے بھی کیے جو بعد میں غلط ثابت ہوئے۔ ان میں سے ایک یہ تھا کہ انہوں نے بائیس سال اقتدار میں رہنے کے بعد جب دوسروں کے لیے جگہ چھوڑی تو اس سے نقصان ہوا اور اس نے ان کی پالیسیوں کو غیر مستحکم ہونے کا راستہ دیا۔ حالانکہ آج بھی وہ خود کو ملک اور اپنی قوم کے لیے سرگرم رکھتے ہیں۔

یہ انٹرویو ایک بار پھر ثابت کرتا ہے کہ مہاتیر محمد کا کردار بیک وقت عظیم کامیابیوں، سخت گیر نظریات، عالمی سیاست پر جرات مندانہ تنقید، اور داخلی سطح پر تنازعات کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ وہ ایک ایسے رہنما ہیں جنہیں چاہا بھی جاتا ہے اور تنقید کا نشانہ بھی بنایا جاتا ہے، مگر انہیں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

https://youtu.be/WOaa_Ldq3Ns

’’چینل نیوز ایشیا‘‘ کا انٹرویو

10 جولائی 2025ء کو نشر ہونے والے اس انٹرویو کے آغاز میں مہاتیر محمد کو سو سال کی عمر تک پہنچنے پر مبارک دی گئی اور ان سے پوچھا گیا کہ ان کی سالگرہ کی خواہش کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان کی سب سے بڑی خواہش یہی ہے کہ وہ حقیقتاً سو سال کی عمر کو پہنچیں، کیونکہ ان چند دنوں میں کچھ بھی ہو سکتا ہے، اس لیے وہ اس کے بارے میں تب تک نہیں سوچنا چاہیں گے جب تک وہ اس عمر کو نہ پہنچ جائیں۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ وہ کیسا محسوس کرتے ہیں تو انہوں نے کہا کہ سو سال کی عمر کو پہنچنا ایک خوف بھرا احساس ہے کیونکہ بہت کم لوگ اس عمر تک پہنچتے ہیں۔ لوگوں کی ان سے بڑی توقعات ہیں لیکن وہ خود نہیں جانتے کہ وہ یہ توقعات پوری کر سکیں گے یا نہیں۔ پھر بھی وہ یہ امید رکھتے ہیں کہ سو سال کے بعد بھی وہ کارآمد رہیں۔

انہوں نے کہا کہ جاپان اور دنیا کے کئی حصوں میں لوگ طویل عمر پاتے ہیں، خاص طور پر کیوشو اور اوکیناوا جیسے مقامات پر۔ وہاں لوگ اپنی طویل عمر کو ایک کڑوے مشروب سے منسوب کرتے ہیں۔ جب ان سے ان کی لمبی عمر کے راز کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ یہ سب ان کی کوشش سے نہیں بلکہ قسمت سے ہوا ہے۔ انہیں بڑی بیماریوں نے متاثر نہیں کیا، سوائے ایک دل کے مرض کے جو جدید علاج کے ذریعے قابو میں آ گیا۔ اس کے بعد وہ صرف عام نزلہ، زکام یا فلو جیسی چیزوں میں مبتلا ہوئے جو جان لیوا نہیں ہوتیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ وہ ہمیشہ کھانے پینے میں محتاط رہے ہیں تاکہ وزن نہ بڑھے۔ وہ ذہنی طور پر متحرک رہنے کو بھی بہت ضروری سمجھتے ہیں۔ ان کے مطابق پڑھنا، لکھنا، سوچنا، بات کرنا اور دلائل دینا دماغ کو سرگرم رکھتا ہے، ورنہ دماغ بھی باقی پٹھوں کی طرح کمزور ہو جاتا ہے اگر استعمال نہ کیا جائے۔ یہی چیز ان کی طویل عمر میں مددگار رہی۔

کتابوں کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ وہ زندگی میں بیس سے زیادہ کتابیں لکھ چکے ہیں اور اب بھی کچھ نیا لکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ چونکہ وہ لمبا عرصہ وزیراعظم رہے ہیں اور تقریباً‌ اَسی سال سے سیاست سے وابستہ ہیں اس لیے اپنے تجربات دوسروں تک منتقل کرنا ان کے نزدیک اہم بات ہے۔

سوشل میڈیا کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ وہ اب بھی زیادہ تر کاغذ پر لکھتے ہیں۔ ان کے پاس ہمیشہ ایک بورڈ اور کچھ خالی کاغذ موجود رہتے ہیں۔ جب بھی کوئی خیال آتا ہے وہ لکھ لیتے ہیں اور بعد میں وہ چیزیں سوشل میڈیا پر منتقل کر دی جاتی ہیں۔ زیادہ تر لکھائی وہ رات کو سکون کے وقت کرتے ہیں۔

انہوں نے اپنی روزمرہ زندگی کے بارے میں بتایا کہ وہ نوجوانی کے معمولات ہی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ وہ سات گھنٹے کی نیند لیتے ہیں، ناشتہ کرتے ہیں، دفتر جاتے ہیں، ملاقاتیں کرتے ہیں، تقاریر بھی کرتے ہیں اور رات کو وقت ملے تو لکھنے میں مشغول رہتے ہیں۔ گزشتہ رات وہ ایک پروگرام میں مصروف تھے اس لیے کچھ نہ لکھ سکے۔

اپنے وزن کے بارے میں انہوں نے کہا کہ عام طور پر وہ اسے 62 کلوگرام کے قریب رکھتے ہیں لیکن حالیہ دنوں میں یہ تھوڑا بڑھ گیا ہے، شاید ڈاکٹر کی دی گئی کچھ دواؤں کی وجہ سے۔

ان کا پسندیدہ مشروب کوکو ہے جو وہ صبح پیتے ہیں لیکن ایک بجے کے بعد کسی قسم کا کیفین والا مشروب نہیں لیتے تاکہ نیند پر اثر نہ پڑے۔ وہ عام طور پر رات ساڑھے دس یا گیارہ بجے سونے کے لیے بستر پر جاتے ہیں اور بارہ بجے تک وہ سوئے ہوتے ہیں۔

ورزش کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ وہ گھر کے آس پاس چکر لگاتے ہیں اور بعض اوقات ٹینڈم بائیک (دوہری سواری والی سائیکل) بھی چلاتے ہیں۔ ان سرگرمیوں کو وہ اسے اپنی جسمانی سرگرمی کے لیے کافی سمجھتے ہیں۔ گھڑ سواری کے بارے میں انہوں نے کہا کہ یہ انہیں بہت پسند ہے لیکن سائیکل کے برعکس گھوڑے کی اپنی مرضی ہوتی ہے کہ وہ اچانک اچھل سکتا ہے، جس کی وجہ سے وہ تین بار گر بھی چکے ہیں، اگرچہ شدید چوٹ نہیں آئی۔

کھانے کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ انہیں کیلا پسند ہے لیکن ڈاکٹرز نے منع کیا ہے کیونکہ یہ فاسفیٹ بڑھاتا ہے، اس لیے وہ دوسرے پھل کھاتے ہیں۔ عام طور پر وہ سب کچھ کھا لیتے ہیں لیکن کم مقدار میں۔

https://youtu.be/mAU8nR4qm7A

’’دی سٹریٹس ٹائمز‘‘ کا انٹرویو

10 جولائی 2025ء کو نشر ہونے والا یہ انٹرویو مہاتیر محمد کے سو سال کی عمر مکمل کرنے کے موقع پر کیا گیا، جس میں انہوں نے اپنی سیاسی زندگی، ملائیشیا کی ترقی کے سفر، اور ذاتی طرزِ زندگی سے متعلق کئی اہم خیالات بیان کیے۔

انہوں نے کہا کہ لوگ ان کے طویل تجربے کی وجہ سے اب بھی ان کے پاس آتے ہیں، کچھ ذاتی مسائل کے ساتھ لیکن زیادہ تر سیاسی وجوہات کی بنا پر۔ چونکہ وہ اَسی برس سے زیادہ عرصہ سیاست میں رہے ہیں، اس لیے لوگ ان کے تجربات سے رہنمائی حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ وہ اب بھی خود کو ذہنی اور عملی طور پر متحرک رکھتے ہیں اور فارغ بیٹھنے کو اپنے مزاج کے خلاف سمجھتے ہیں۔

ویژن 2020ء کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جب یہ منصوبہ بنایا گیا تو ملک تیزی سے ترقی کر رہا تھا اور معیشت 7 سے 8 فیصد تک بڑھ رہی تھی۔ لیکن بعد میں آنے والے حکمرانوں نے اسی حکمت عملی کو جاری نہیں رکھا اور اپنی ذاتی طاقت کو استعمال کرنے پر زیادہ توجہ دی، جس سے کئی قیمتی سال ضائع ہو گئے۔ ایک وقت میں ملائیشیا کو ’’ایشین ٹائیگر‘‘ کہا جاتا تھا لیکن بعد میں بدعنوان حکمرانی نے اسے ایک ’’کلپٹو کریسی‘‘ میں بدل دیا، جو باعثِ شرمندگی ہے۔

انور ابراہیم کے بارے میں انہوں نے کہا کہ وہ غیر ملکی دوروں میں بڑے بڑے سرمایہ کاری کے وعدے کرتے ہیں لیکن عملی طور پر ملک میں اس کا کچھ اثر نظر نہیں آتا۔ ان کے مطابق اگر براہِ راست غیر ملکی سرمایہ کاری آتی ہے تو اس کا عملی اظہار زمین پر کارخانوں اور منصوبوں کی شکل میں ہونا چاہیے۔ تاہم حکومت انہیں مخالف سمجھتی ہے اور ان کی تجاویز صرف اس وجہ سے رد کر دیتی ہے کہ وہ اُن سے آتی ہیں۔

ملائیشیا کے نسلی تعلقات کے بارے میں انہوں نے کہا کہ یہاں تین بڑی قومیتیں ہیں لیکن اس کے باوجود ملک مستحکم ہے اور ترقی کر رہا ہے۔ مختلف مذاہب اور ثقافتوں کے باوجود یہ استحکام اس بات کا ثبوت ہے کہ ملائیشیا نے تنوع کو خوش اسلوبی سے سنبھالا ہے، جو دنیا کے کئی یک نسلی ممالک سے زیادہ کامیابی ہے۔

صحت کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ جسم اور دماغ دونوں کو متحرک رکھنا ضروری ہے۔ اگر انسان فارغ بیٹھے تو نہ صرف جسم کمزور ہوتا ہے بلکہ دماغ بھی یادداشت کھونے لگتا ہے۔ وہ خود مسلسل پڑھتے، لکھتے، گفتگو کرتے، لیکچر دیتے اور انٹرویوز میں حصہ لیتے ہیں تاکہ دماغ ہمیشہ فعال رہے۔ ان کے مطابق یہی طرزِ زندگی انہیں صحت مند رکھتا ہے۔

https://youtu.be/GRv6LBZHdzs

شخصیات

(الشریعہ — اکتوبر ۲۰۲۵ء)

الشریعہ — اکتوبر ۲۰۲۵ء

جلد ۳۶ ، شمارہ ۱۰

پاکستان میں سودی نظام کے خلاف جدوجہد کا عدالتی سفر
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
ادارہ الشریعہ

۷ ستمبر — یومِ تحفظِ ختمِ نبوت
حضرت مولانا اللہ وسایا
عامر عثمانی

سپریم کورٹ کا غیر شرعی فیصلہ
ڈاکٹر محمد امین

مروّجہ نعت خوانی    —    چند قابلِ اصلاح پہلو
مولانا زبیر احمد صدیقی

ابنِ خلدون: مسئلہ عصبیت  ،   ایک تجزیہ
ڈاکٹر محمد عمار خان ناصر

295C  —   قانونِ توہینِ رسالت  —   حد یا تعزیر؟
ڈاکٹر مفتی ذبیح اللہ مجددی

جسٹس منصور علی شاہ اور اسلامی قانونِ نکاح و طلاق
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد

کسبِ معاش سے صوفیہ کی وابستگی: مشائخ تیغیہ کے حوالے سے
ڈاکٹر محمد ممتاز عالم

مہذب دنیا کے غیر مہذب کھیل
ڈاکٹر عرفان شہزاد

Z-10ME جنگی ہیلی کاپٹرز کی پاکستان آرمی میں شمولیت
ابرار اسلم
ڈان نیوز

Khatm-e-Nubuwwat Conferences: A Referendum of Our Stance
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

’’خطباتِ فتحیہ: احکام القرآن اور عصرِ حاضر‘‘ (۴)
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
مولانا ڈاکٹر محمد سعید عاطف

حدیث میں بیان کی گئی علاماتِ قیامت کی تاریخی واقعات سے ہم آہنگی، بائیبل اور قرآن کی روشنی میں (۵)
ڈاکٹر محمد سعد سلیم

’’اسلام اور ارتقا: الغزالی اور جدید ارتقائی نظریات کا جائزہ‘‘ (۸)
ڈاکٹر شعیب احمد ملک
ڈاکٹر ثمینہ کوثر

ماہانہ بلاگ

صد سالہ زندگی کا سفرِ رواں
مہاتیر محمد

شنگھائی تعاون تنظیم کا پچیسواں سربراہی اجلاس — نیو ورلڈ آرڈر؟
ادارہ الشریعہ

قطر میں اسرائیلی حملہ: سکیورٹی کونسل میں اسرائیل کا موقف اور پاکستان کا جواب
عاصم افتخار احمد

غزہ و قطر پر اسرائیلی جارحیت اوراُمتِ مسلمہ کی بے بسی وبے حسی
مولانا مفتی محمد تقی عثمانی

مشرقِ وسطیٰ میں تیز تر تبدیلیاں: مستقبل کیا ہو گا؟
ڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی

پاک سعودی دفاعی معاہدہ: اہم شخصیات کے تبصرات
میڈیا

پاکستان اور سعودی عرب کا مشترکہ دفاعی معاہدہ
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد

پاک سعودی تعلقات اور مشترکہ دفاعی معاہدہ
ادارہ الشریعہ

برطانیہ، فرانس، کینیڈا، آسٹریلیا، پرتگال وغیرہ کی جانب سے فلسطینی ریاست کی تسلیم
ادارہ الشریعہ

إبداء الفرح والسرور وتقديم الشكر والتحية بمناسبة توقيع الاتفاق الدفاعي بين المملكة العربية السعودية وجمهورية باكستان الإسلامية
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
مولانا حافظ فضل الہادی سواتی

پاکستان کی جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کی حفاظت
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
ایمل صابر شاہ

جامعہ نصرۃ العلوم میں پیغامِ پاکستان سیمینار اور مولانا راشدی کا خطاب
مولانا حافظ امجد محمود معاویہ

قطر اجلاس، پاک سعودی معاہدہ، صمود فلوٹیلا، ختم نبوت کانفرنس : مولانا راشدی کا تبصرہ
مولانا حافظ عاطف حسین
مولانا حافظ دانیال عمر

مطبوعات

شماریات

Flag Counter