ستمبر کے تیسرے عشرے میں کئی مغربی ممالک نے فلسطین کو ایک باقاعدہ ریاست کے طور پر تسلیم کرنے کا اہم فیصلہ کیا ہے۔ یہ پیشرفت ایک صدی پرانے تنازعے اور بحث کے تناظر میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ برطانیہ، کینیڈا، آسٹریلیا اور پرتگال نے 21 ستمبر 2025ء کو اس سلسلے کا آغاز کرتے ہوئے فلسطین کو ریاست تسلیم کرنے کا اعلان کیا۔ ان ممالک نے اپنے اس فیصلے کی بنیاد کے طور پر غزہ کی جنگ میں انسانی حقوق کی پامالیوں اور مغربی کنارے پر آبادکاریوں کے وسیع پھیلاؤ سے پیدا ہونے والی تشویش کو قرار دیا۔ اگلے ہی دن 22 ستمبر کو مزید یورپی ممالک نے شمولیت اختیار کی جب فرانس نے فلسطین کو ریاست تسلیم کرنے کا اعلان کیا اور اسی طرح انڈورا، بیلجیئم، لکسمبرگ، مالٹا، اور مونا کارو نے بھی اس فیصلے میں ساتھ دیا۔ اس تازہ ترین پیشرفت کے بعد اب اقوام متحدہ کے تقریباً 159 رکن ممالک فلسطین کو ریاست تسلیم کر چکے ہیں اور یہ تسلیمات زیادہ تر بین الاقوامی قانون اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے خطوط پر مبنی ہیں۔
فلسطینی، علاقائی اور اسرائیلی ردِعمل
فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس نے برطانیہ، کینیڈا، اور آسٹریلیا کے فیصلے کا خیرمقدم کیا اور اسے انصاف اور دیرپا امن کی طرف ایک ضروری اور اہم قدم قرار دیا۔ عرب ممالک اور تنظیموں نے بھی اس رجحان کو سراہا ہے۔ سعودی عرب نے اس اقدام کو دو ریاستی حل کی راہ میں سنجیدہ عزم کا ثبوت قرار دیا۔ کویت، عمان، اردن، اور خلیجی تعاون کونسل (GCC) نے بھی مثبت ردعمل ظاہر کیا، جسے قطر نے فلسطینی عوام کے قانونی حقوق کی فتح قرار دیتے ہوئے اسے بین الاقوامی قانون کے اندر ایک جائز اقدام کے طور پر تسلیم کیا۔
دوسری جانب اسرائیل نے ان تسلیمات پر شدید ردعمل ظاہر کیا ہے اور انہیں دہشت گردی کے لیے ایسا ’’انعام‘‘ کہا ہے جو دو ریاستی حل کے امکان کو کم کرتے ہیں۔ اسرائیلی حکومت نے یہاں تک عندیہ دیا ہے کہ وہ مغربی کنارے میں آبادکاریوں کی پھیلاؤ کی کاروائیوں کو تیز کرنے یا دیگر علاقائی ضمّات کی منصوبہ بندی کر سکتی ہے۔ جبکہ صورتحال یہ ہے کہ اسرائیلی حکومتی اتحاد کے اندر بھی اس ردعمل پر اختلافات سامنے آئے ہیں، جہاں بعض وزراء مغربی کنارے کے مستقل الحاق کی بات کر رہے ہیں جبکہ کچھ محتاط رویہ اختیار کرنے کی ترغیب دے رہے ہیں۔
بین الاقوامی محاذ پر اثرات اور چیلنجز
البتہ مغربی ممالک کی طرف سے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا یہ اقدام زیادہ تر علامتی نوعیت کا ہے، یعنی اس سے عملی طور پر فلسطین کی سرحدوں یا داخلی حکومتی معاملات فی الفور کوئی تبدیلی نہیں آئے گی، لیکن بہرحال اس سے عالمی سطح پر مسئلہ فلسطین کے سلسلہ میں اقوام متحدہ کے موقف اور حل کو مضبوط کرنے اور اسرائیل پر دباؤ بڑھانے میں مدد ملے گی۔
مغربی ممالک کے اندر اس فیصلے پر سیاسی تقسیم بھی دیکھنے میں آئی ہے۔ برطانیہ میں وزیر اعظم کی پارٹی اور حزبِ اختلاف کی طرف سے تنقید سامنے آئی ہے کہ یہ قدم دہشت گردی کو ’’انعام دینے‘‘ جیسا ہے۔ یورپی یونین کے بعض ممالک مثلاً جرمنی اور اٹلی نے ابھی تک تسلیم کا اعلان نہیں کیا اور ان کا موقف ہے کہ وہ مذاکراتی عمل کے فروغ کے بعد ہی تسلیم کرنے کے حق میں ہیں۔ کچھ یورپی رہنماؤں نے آئندہ تسلیمات کو حماس کا اثر کم ہونے، یا یروشلم اور دیگر حساس علاقوں کے حوالے سے قابلِ قبول حل کے ساتھ مشروط کرنے کی تجویز بھی دی ہے۔
اس اعلان کے بعد سوشل میڈیا پر جذبات کی لہر دیکھی گئی جہاں بہت سوں نے اسے دیر سے سہی مگر انصاف کی طرف پیشرفت قرار دیا، جبکہ دیگر نے اسے محض علامتی اقدام کہہ کر تنقید کی۔ عوامی حمایت کے حوالے سے ایک حالیہ سروے کے مطابق 58 فیصد امریکی چاہتے ہیں کہ اقوامِ متحدہ کے تمام رکن ممالک فلسطین کو تسلیم کریں۔ یہ حمایت ڈیموکریٹس میں زیادہ (78 فیصد) اور ریپبلکنز میں کم (41 فیصد) ہے۔
مسئلہ فلسطین کی پیچیدگیاں اور مستقبل کے امکانات
یہ بات واضح ہے کہ چند بڑے مغربی ممالک کی جانب سے فلسطینی ریاست کی یہ تسلیم بین الاقوامی دباؤ کا اظہار ضرور ہیں مگر محض اس سے مسئلہ حل ہونے کا امکان نظر نہیں آتا۔ عالمی برادری کے نقطۂ نظر سے بنیادی چیلنجز یہ ہیں:
- اقوامِ متحدہ کے 1947ء کے تقسیمی منصوبہ پر درست عملدرآمد۔
- 1967ء کی سرحدوں کی بحالی۔
- اہلِ مذاہب کے ہاں ارضِ مقدس کی قابلِ قبول حیثیت۔
- مقامی آبادیوں کی حفاظت کے حوالے سے خدشات کا ازالہ۔
اگر باقی ممالک بھی فلسطین کو تسلیم کریں اور عوامی رائے اس سمت میں مزید تبدیل ہو تو اس کے ممکنہ اثرات میں (1) عالمی دباؤ میں اضافہ (2) دو ریاستی حل کا دوبارہ اجاگر ہونا (3) اور اسرائیل کی سیاسی تنہائی میں اضافہ شامل ہے۔ یہ تبصرہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ ایسی پیشرفت کے ذریعے مغربی ممالک ایک بار پھر عرب ممالک کا اعتماد حاصل کر سکتے ہیں جو اسرائیل کے حوالے سے ان کی پالیسیوں سے اٹھ چکا ہے۔ مختصراً یہ کہ موجودہ قبولیت کا عمل فلسطینی ریاست کے بین الاقوامی تسلیم کی سمت ایک اہم پیشرفت ہے۔ یہ اپنی علامتی اہمیت کے ساتھ بین الاقوامی برادری کو مزید واضح موقف اختیار کرنے پر مجبور کرے گا۔ البتہ جب تک زمینی حقائق، سلامتی صورتحال اور داخلی اصلاحات کے حوالے سے پیشرفت نہ ہو، یہ تسلیمات ایک حد سے زیادہ اثر نہیں دکھا سکتیں۔
حوالہ جات
سب سے پہلے برطانیہ، کینیڈا، آسٹریلیا اور پرتگال نے اعلان کیا کہ وہ فلسطین کو ریاست تسلیم کرتے ہیں۔ ان ممالک نے کہا کہ یہ قدم غزہ میں انسانی بحران اور مغربی کنارے میں بڑھتی ہوئی آبادکاریوں کے پیشِ نظر اٹھایا گیا ہے۔ (رائٹرز — ۲۱ ستمبر ۲۰۲۵ء)
اسی دوران فلسطینی ریاست کے صدر محمود عباس نے اس اعلان کو ’’انصاف اور دیرپا امن کی طرف ایک اہم قدم‘‘ قرار دیا۔ (ڈان — ۲۱ ستمبر ۲۰۲۵ء)
اس کے اگلے دن فرانس نے بھی فلسطین کو تسلیم کرنے کا اعلان کیا، اور اس کے ساتھ اینڈورا، بیلجیم، لکسمبرگ، مالٹا اور موناکو نے بھی شمولیت اختیار کی۔ ان ممالک نے کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ یہ قدم دو ریاستی حل اور خطے میں امن کی طرف ایک نیا آغاز ہو۔ (اے پی — ۲۲ ستمبر ۲۰۲۵ء)
عرب دنیا نے ان فیصلوں کا بھرپور خیرمقدم کیا۔ سعودی عرب نے اسے ایک ’’سنگِ میل‘‘ کہا۔ جبکہ عمان، کویت اور اردن نے بھی خوشی کا اظہار کیا اور اسے دو ریاستی حل کی مضبوطی قرار دیا۔ (اے اے — ۲۲ ستمبر ۲۰۲۵ء)
قطر نے کہا کہ یہ فلسطینی عوام کے قانونی اور جائز حقوق کی توثیق ہے۔ (ڈان — ۲۲ ستمبر ۲۰۲۵ء)
دوسری طرف اسرائیل نے ان تسلیمات کو سختی سے مسترد کیا اور کہا کہ یہ اقدام دہشت گردی کو انعام دینے کے مترادف ہے۔ اسرائیلی حکومت کے کچھ وزراء نے مغربی کنارے کو ضم کرنے کی بات کی، جبکہ کچھ نے محتاط رویہ اختیار کرنے کی تجویز دی۔ (رائٹرز — ۲۱ ستمبر ۲۰۲۵ء؛ اے اے — ۲۳ ستمبر ۲۰۲۵ء)
یورپی یونین کے اندر بھی اختلافات سامنے آئے۔ جرمنی اور اٹلی نے کہا کہ وہ ابھی تک تسلیم کرنے کے حق میں نہیں ہیں، اور چاہتے ہیں کہ پہلے اسرائیل اور فلسطینی قیادت کے درمیان باضابطہ مذاکرات ہوں۔ (ای این ایس اے — ۲۵ ستمبر ۲۰۲۵ء)
عوامی سطح پر بھی اس فیصلے پر بڑی بحث ہوئی۔ سوشل میڈیا پر کئی لوگوں نے کہا کہ اگرچہ یہ دیر سے ہوا لیکن یہ انصاف کی جیت ہے، جبکہ کچھ نے اسے صرف علامتی قدم قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ زمینی حقائق میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں آئے گی جب تک باضابطہ امن مذاکرات نہ ہوں۔ (رویا نیوز — ۲۱ ستمبر ۲۰۲۵ء)
امریکہ میں کیے گئے ایک حالیہ سروے کے مطابق 58 فیصد عوام سمجھتے ہیں کہ تمام ممالک کو فلسطین کو تسلیم کرنا چاہیے۔ ڈیموکریٹس میں یہ شرح 78 فیصد ہے جبکہ ریپبلکنز میں 41 فیصد لوگ اس کے حامی ہیں۔ (الجزیرہ — ۲۰ اگست ۲۰۲۵ء)
ایک اور سروے کے مطابق 55 فیصد امریکی فلسطینی ریاست کے قیام کی حمایت کرتے ہیں۔ (گیلپ — ۲۰۲۵ء)
فی الحال دنیا کے 159 سے زیادہ ممالک فلسطین کو تسلیم کر چکے ہیں، اور حالیہ لہر نے اس تعداد کو مزید بڑھا دیا ہے۔ (اے اے — ۲۳ ستمبر ۲۰۲۵ء)